About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, October 30, 2010

میراث اور میراثیت


31-10-10
فضل حسین اعوان ـ
میراثی کوئی قوم نہیں‘ لوگ بھولپن میں میر عالموں کو میراثی کہہ دیتے ہیں۔ تاہم میراثیت ایک کیفیت ضرور ہے جو کسی خاص طبقے کی میراث نہیں یہ کسی پر بھی طاری ہوسکتی ہے بعض کالم نگاروں پر ہمہ وقت اور بعض پر کبھی کبھی طاری ہوتی ہے۔ پرویز مشرف پر میراثیت اپنے دورِ صدارت میں انتہائی مصروفیات کے دوران بھی طاری ہوجاتی تھی۔ آج تو وہ بالکل فارغ ہیں۔ وہ شام چوراسی گھرانوں کے استادوں اور خاں صاحبوں کے سامنے زانوئے تلمند بھی طے کرتے رہے۔ شاید بات استہائی اور منترا سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اگر سرتال کی اے اور زیڈ تک پہنچے ہوتے تو جرنیل نہ بنتے خاں صاحب ہوتے۔ بہر حال وہ آج بھی خاں صاحب ہیں لیکن نیم خاں صاحب۔ صبح دفتر جانے سے قبل بیگم صاحبہ کو کچھ گنگناتے سنا تو میاں نے کہا آج تو میرا، سی لگتی ہو، محترمہ بڑی خوش ہوئیں، خاوند کے جانے کے بعد شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر خود کو غور سے دیکھا، کبھی لٹ لٹکا کر اور کبھی اٹھا کر، کبھی سلجھا کر اور کبھی الجھا کر، میرا کی طرح تھوڑی جہانگیر بدر اور راجہ ریاض جیسی انگلش بھی بولنے کی کوشش کی۔ پھر اس خیال میں غرق ہوگئی کہ شوہر نامدار نے میرا، سی کیوں کہا۔ سوچتے سوچتے ذہن میں بجلی کوندی کہ میں تو گار ہی تھی میرا تو اداکارہ ہے گلوکارہ نہیں۔ خاوند گھر آیا تو بپھری اہلیہ نے چمٹا اٹھایا ہوا تھا۔ وہ خاوند کے طنز کی تہہ تک پہنچ چکی تھی اس نے میرا، سی نہیں میراسی یعنی میراثی کہا تھا۔
میجر نذیر فاروق بتا رہے تھے اصل نام تو اس کا کوئی اور ہوگا اسے لوگ ہاکو میراثی اور اس کی بیگم صاحبہ کو اس کے کردار اور اطوار کے باعث بالولتری اور بالو چوٹی کہتے تھے۔ وہ ذات کا میر عالم لیکن مزاجِ شاہانہ ادائے دلبربانہ اور صدائے عاجزانہ کا مرقع تھا۔ بیگم صاحبہ بھی کوئی کم نہ تھیں۔ ’’شاہی جوڑے‘‘ کا ہفتے بھر کا معمول صبح گھر سے نکلنا اور رات گئے واپسی تھا۔ ہاکو گائوں سے نکل کر کسانوں زمینداروں کے ڈیروں پر جاتا۔ ان کو خاندان کا شجر سُر کے ساتھ سناتا۔ بعض اوقات سہر ا بھی گا دیتا۔ کسی سے گڑ، کسی سے گنا، کسی سے مکئی یا جو بھی فصل ہوتی لے کے اٹھتا، کئی چودھری اس کے سامنے جیب بھی ہلکی کر دیتے۔ وہ مانگنے کا فن جانتا تھا کسی سے قصیدہ سنا کر کام نکالنا اور کسی کو اس کے مخالف کی ہجوبیان کرکے مائل بہ کرم کرلیتا۔ جو اپنا شجر نصب گورو اور رام سے ملنے پر خوش نہ ہوتا اس کے مخالف کا شجرہ راون اور شمر یزید تک جوڑ دیتا۔ شام کو وہ لدا پھندا گھر پہنچتا۔ بالو اس سے بڑھ کر گھروں میں اِدھر کی اُدھر لگاتی، خاتون خانہ کی توجہ ہٹتے ہی چمچ پیالی کولی جو بھی ہاتھ لگتا نیفے میں اڑس لیتی، ’’ مالِ غنیمت‘‘ گھر چھوڑ کر پھر اپنے مشن پر نکل پڑتی۔ جمعہ کی صبح سے لیکر بدھ کی شام تک ہاکو اور بالو کا زندگی بھر یہی معمول رہا۔ جمعرات کو وہ جشن مناتے 6 دن کا اکٹھا کیا ہوا مال و سامان جمعرات کی شب خرچ اور صرف کرکے سوتے، گائوں کے کونے پر برلبِ سڑک ان کا گھر تھا۔ ہاکو اور لاچا مایا لگا کرتا پہن کر بغیر چار دیواری کے صحن میں بیٹھ جاتا چار پانچ منجے اور چوکیاں رکھی ہوتیں اپنی برادری کے لوگوں کو مدعو کیا جاتا، دو تین حقے تازہ کئے جاتے، بالو کی قصوری کھسّے میں اڈی نہ لگتی، مکمل گہنوں سے لدی، چمکیلے کپڑوں میں لڈی ڈالنے کے انداز میں اِدھر سے اُدھر مٹکتی تھی۔ بڑے دیگچوں میں گوشت، چاول اور کھیر پکائی جاتی۔ اس دن ہاکو اور بالو خود کوئی کام نہ کرتے ساری ذمہ داری رکھے جھیرا اور بانو ماچھن کی ہوتی۔ شام کو زمیندار اور کسان بیل گڈوں پر واپس گھروں کو لوٹ رہے تو تکیے سے ٹیک لگائے ہاکو ان کو بڑی تمسخر سے بلا بلا کر کہتا اوئے چودھری آجا کچھ اچھا بھی کھالے، ایسا کھانا تیری قسمت میں کہاں!… مانگتے وقت مائی باپ اور جمعرات کی شام کو اوئے چودھری۔ ذرا اپنے حاکموں کی طرف دیکھئے ان کے بیانات اور مانگنے کے انداز ملاحظہ فرمائیے ووٹ لینے جاتے ہیں تو کیا کہتے پھر ایوان اقتدار میں جاکر جمعرات والا رویہ، ٹی وی شوز میں کہا کرتے ہیں ذرا سوچیے بہت سے ہاکو اور بالو لُتریاں کان کتریاں نظر آجائیں گی۔

نومسلموں کے مسائل


 ا 30 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے تاریکی اور ظلمات میں ڈوبے ہوئے سینے دین اسلام کے نور سے منور ہو جاتے ہیں۔ ہم پاکستانی مسلمانوں کے عمومی کردار و اطوار اور اعمال و افعال کو دیکھ کر کوئی بھی غیر مسلم ان جیسا بننے سے دور بھاگے گا تاہم معاشرے میں موجود وہ لوگ غیر مسلموں کیلئے کشش ضرور رکھتے ہیں جن کی زندگیاں اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ ہیں۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر ہی عموماً غیر مسلم اسلامی تعلیمات کی طرف راغب ہوتے ہوئے اور سچائی کی روشنی واضح ہونے پر دین حق قبول کر لیتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں متواتر غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے کی رپورٹس آتی رہتی ہیں۔ ان رپورٹس میں مبالغہ آرائی تو ہو سکتی ہے اس قسم کی جھوٹی ہرگز نہیں جیسی افغانستان میں لاکھوں افغانیوں کے عیسائیت قبول کرنے کی اُڑائی جا رہی ہیں۔ افغانستان میں صرف ایک افغان نے عیسائیت قبول کی اسے جان کے لالے پڑے تو گورے اپنے دیس لے گئے۔ ایک مسیحی مبلغ نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ سال پاکستان میں چار ہزار مسلمانوں کو بپتسمہ دیا گیا اس دعویٰ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پاکستان میں ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں جو کہے کہ وہ مسلمان سے مسیحی بنا ہے تاہم معروف نو مسلموں کی ایک لمبی فہرست ہے اور پاکستان میں بھی ایسے بہت سے لوگ موجود میں جو دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور اس کا فخریہ اظہار بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں نومسلموں کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کا ادراک ہم مسلمانوں کو کم کم ہی ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 
چند روز قبل ایک نو مسلم کی روداد غم و الم سُن کر حاضرین کے دل آزردہ ہوئے۔ شالامار لاہور کے عبدالوارث نے مکمل ریسرچ کے بعد اسلام قبول کیا۔ اس نے 5 سال تک اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کیا تھا۔ اس پر اسلام کی حقانیت کا در وا ہُوا تو سامنے ایک اور امتحان‘ دیوبندی، بریلوی، شیعہ اور وہابی دریچوں کی صورت میں موجود تھا۔ اس آزمائش کا سامنا ہر نومسلم کو کرنا پڑتا ہے، دین اسلام میں داخل ہونے کی پاداش میں خاندان والے گھر سے اور برادری دل سے نکال دیتی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کی طرف سے پذیرائی نہ ہو تو بہت سے لوگ واپس اپنے مذہب کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی مدرسے میں نومسلموں کی رہنمائی کے لئے نصاب موجود نہیں۔ اپنے طور پر نومسلم جو تعلیم حاصل کرتا ہے وہ اسے آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا دیتی ہے۔ پاکستان میں جانوروں کے تحفظ کے لئے ادارے موجود ہیں، نومسلموں کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری کوئی ادارہ نہیں۔ نومسلموں کو خیرات نہیں چاہئے ان کے معاشی اور معاشرتی معاملات آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ شادی کے حوالے سے عبدالوارث بتا رہا تھا کہ اس کی آٹھ جگہ رشتے کی بات ہوئی سب نے تعلیم، کردار اور شکل و صورت کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کیا تاہم نومسلم ہونے کے باعث بات آگے نہ بڑھ سکی۔ ایک درس میں مولانا صاحب نے بچیوں سے ان کا ذکر کیا تھا ایک لڑکی نے اپنی والدہ سے بات کی، دونوں نے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا دین کی خاطر دونوں میں قربت ہو گئی۔ عبدالوارث جس عزم اور راسخ عقیدے کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہُوا اس کا عقیدہ ہر گززتے دن کے ساتھ پختہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس نے خود کو پیش آنے والی مشکلات کے پیش نظر ”حقوق الناس“ کے نام سے نومسلموں کی ویلفیئر کے لئے تنظیم کی تشکیل کے لئے پروفیسر محمد یحیٰی، صوفی محمد اکرم اور دیگر شمع رسالت کے پروانوں کا ساتھ دیا۔ اس ادارے میں 43 نومسلم زیر تربیت ہیں جن میں 13 خواتین بھی ہیں لیکن صرف محدود وسائل میں ادارہ سینکڑوں ہزاروں نومسلموں کی اسلامی خطوط پر تربیت نہیں کر سکتا۔ اس حوالے سے ہر مسلمان کو اپنا کردار ادا اور فریضہ ادا کرنا چاہیے خصوصی طور پر مدارس آگے آئیں۔ مذہبی تنظیمیں بھی کوششیں کریں۔ نومسلموں کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پر کام کیا جا سکتا ہے۔ معلومات کے لئے عبدالوارث سے 03214115721 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Friday, October 29, 2010

مسلم لیگوں کا اتحاد، بڑے میاں اور چھوٹے چودھری اپنی اداؤں پر غور کریں


جمعۃالمبارک ، 29 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس میں شک نہیں کہ سیاست کا منتہائے مقصود اقتدار کا حصول ہے لیکن سازشوں، بے اصولی اور چور دروازے سے اقتدار کی منزل پر پہنچنا منہ پر کالک ملنے کے مترادف ہے۔ ملک میں اس وقت ڈیڑھ درجن مسلم لیگیں موجود ہیں سب کے سربراہ وزیراعظم بن سکتے ہیں نہ صدر، کئی کے سربراہ تو اپنی نشست بھی نہیں جیت سکتے اگر متحد ہو جاتے ہیں دریا کی موج کی مانند مقام حاصل کر سکتے ہیں دوسری صورت بیرونِ دریا کچھ نہیں۔ بعض کا رویہ یہ ہے کہ ہم نہیں تو وہ کبھی کیوں! تیسرا فریق بسم اللہ! مسلم لیگوں کے اتحاد کا مطلب یہ نہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو الٹا دیا جائے۔ مسلم لیگوں کے اتحاد سے دو جماعتی پارلیمانی روایت قائم اور مضبوط ہو گی۔ ایک دو الیکشنوں میں باقی پارٹیاں بھی پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کے ساتھ انضمام پر مجبور ہو جائیں گی یا سیاست سے کنارہ کشی کر لیں گی۔ البتہ پیپلز پارٹی نے چودھری پرویز الٰہی کو قابو کر کے جو گیم شروع کی ہے اس کا مقصد یقیناً پنجاب حکومت کو الٹانا ہے۔ پیپلز پارٹی نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی کارکردگی سے مایوس ہو کر یہ مشن بابر اعوان کے حوالے کیا ہے، بابر اعوان نے پارٹی کے چند تیتر اور بٹیر قسم کے لوگ اکٹھے کر کے بھی ابتدائی کامیابی حاصل کر لی۔ پیپلز پارٹی نے سلمان تاثیر کو گورنر راج کا کارگر ہتھیار تھمایا تھا وہ پوری جہد اور زور کے باوجود صرف ایک مقدس کو ہی پیپلز پارٹی کی تقدیسِ ثنا خواں بنا پائے تھے، اب گورنر راج کی تاریخ دہرائی گئی تو معاملات ویسے نہیں رہیں گے اب بہت کچھ بدلے گا۔ گو سلمان تاثیر نے کہا ہے کہ صوبے میں تبدیلی نہیں ہو گی ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ قاتل لیگ کہنا محض بیان تھا۔ محض بیان سے کیا مطلب؟ قاتل لیگ زرداری صاحب نے کہا تھا وعدوں اور تحریری معاہدوں کے حوالے سے ان کی سٹیٹ منٹ قوم کے سامنے ہے اس کے سامنے تاثیر کے بیان کو کیوں کر پُرتاثیر سمجھا جا سکتا ہے؟ ۔۔۔ پیپلز پارٹی پرویز الٰہی کے ذریعے ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی ہے، وہ آنکھیں دکھاتی ایم کیو ایم، اے این پی اور جے یو آئی کو اب خود آنکھیں دکھانے کے قابل ہو جائے گی اور پنجاب سے ن لیگ سے چھٹکارہ بھی پانے کی کوشش کرے گی۔ فارورڈ بلاک اور ہم خیال کسی اصولی سیاست کے لئے نہیں اقتدار کی منزل کے حصول کے لئے لاشیں پھلانگنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یونیفکیشن گروپ کو کیا پڑی ہے کہ شہباز شریف کی حمایت جاری رکھے۔ میاں نواز شریف صاحب اپنے غیر اصولی مؤقف پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے مسلم لیگ اور ملک کی کیا خدمت کر رہے ہیں؟ یا پھر میدان میں آئیں رائیونڈ اور لندن میں بیٹھ کر کب تک سیاست کریں گے۔ پاکستان کی سیاست کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوتا ہے تو لندن چلے جاتے ہیں۔ سیاست ٹھنڈی ہوتی ہے تو پاکستان آ کر ٹھنڈ رکھ کے بیٹھ جاتے ہیں۔ مسلم لیگیں متحد ہوں تو انفرادی طور پر سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہو گا؟ میاں صاحب کی کچن کیبنٹ میاں صاحب کے کان میں اس سوال کا جواب پڑنے نہیں دے رہی اور میاں صاحب خود سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ سیاست کا میدان ہو یا عام زندگی کے معمولات چودھری شجاعت کے کہے کو تحریر میں لانے کی ضرورت نہیں، وہ جو بات کرتے ہیں اس پر پہرہ دیتے ہیں۔ انہوں نے ق لیگ کو متحدہ مسلم لیگ میں ضم کیا ہے تو اس پر قائم بھی ہیں، چودھری شجاعت ہم خیال ہوتے تو بابر اعوان سے پرویز الٰہی نہیں خود ملتے۔ میاں نواز شریف دوبارہ ان کے ہمراہی بننے پر تیار نہیں، وہ ذرا حقائق کا ادراک کریں، اصولی سیاست یہ تھی، وہ کسی صورت جیل سے جدہ نہ جاتے، انہوں نے تو شہباز شریف کو بھی یہ کہتے ہوئے ساتھ گھسیٹ لیا ’’توں مروائیں گا‘‘ میاں صاحب جدہ گئے تو شجاعت اور ساتھیوں کو بھی ان سے جُدا ہونا پڑا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چودھری شجاعت پرویز الٰہی کو کان سے پکڑ کر ان کو پیر پگاڑہ کے پاس لے جائیں، شہباز شریف بھاء جی سے گزارش کریں، غصہ تھوک دیں پیر صاحب خود ان کے پاس آنے کو تیار ہیں ان کی پذیرائی کریں۔ متحدہ مسلم لیگ میں ہی سب دھڑوں کی بھلائی ہے۔ مسلم لیگ گذشتہ چار انتخابات سے ملک کی مقبول ترین جماعت ثابت ہو رہی ہے لیکن باہم دست و گریباں ہونے کے باعث کھیر کوئی اور کھا رہا ہے۔ چودھری ناصر محمود ایڈووکیٹ کے جمع کردہ اعداد و شمار شاید لیگی قائدین کے لئے چشم کشا ہو جائیں۔ 
قومی انتخابات مسلم لیگ پی پی 
1993 39.46 فیصد 37.85 فیصد 
1997 45.95 فیصد 21.90 فیصد 
2002 35.10 فیصد 25.80 فیصد 
(ن+ ق) 2008 45.00 فیصد 30.60 فیصد 
(ن+ ق + ف) 
موجودہ پارلیمنٹ میں بھی موجود سیاسی پارٹیوں میں سے مسلم لیگ کی سیٹیں سب سے زیادہ ہیں۔ 
موجودہ قومی اسمبلی 
مسلم لیگ (ن+ ق + ف) پی پی 
149 نشستیں 126 نشستیں 
موجودہ سینٹ 
مسلم لیگ (ن + ق + ف) پی پی 
29 نشستیں 27 نشستیں

Thursday, October 28, 2010

مسلم لیگوں کا اتحاد، بڑے میاں اور چھوٹے چودھری اپنی ادا¶ں پر غور کریں


جمعرات ، 28 اکتوبر ، 2010
مسلم لیگوں کا اتحاد، بڑے میاں اور چھوٹے چودھری اپنی ادا¶ں پر غور کریں
فضل حسین اعوان ـ
کرپشن کے الزامات پر 1930 کی دہائی کے آخر میں پولیس سروس چھوڑنا پڑی تو چودھری ظہور الٰہی نے اپنے بھائی چودھری منظور الٰہی کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا، جسے خدا نے بھاگ لگائے۔ 50 کی دہائی میں چودھری ظہور الٰہی نے پاکستان کی سیاست میں قدم رکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ڈیڈی ایوب خان کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کیا تو اسے کنونشن لیگ کے خلاف بھی بغاوت سمجھا گیا۔ اس وقت چودھری ظہور الٰہی کنونشن لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے انہوں نے بھٹو کی مخالفت کی تھی جس کی پاداش میں بھٹو دور میں چودھری ظہور الٰہی کو قید و بند اور جائیداد کی ضبطی جیسے مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بھٹو صاحب ضیائی مارشل لا کے شکنجے میں آئے اور بالآخر تختہ دار تک جا پہنچے۔ چودھری ظہور الٰہی نے ضیاالحق سے وہ قلم تحفتاً مانگ لیا جس سے انہوں نے بھٹو کی پھانسی پر دستخط کئے تھے۔ یہ قلم آج بھی چودھری ظہور الٰہی کے صاحبزادے چودھری شجاعت کے گھر میں دیگر تحائف کے ساتھ شوکیس میں پڑا ہو گا۔ 25 ستمبر 1981ءکو لاہور میں مولوی مشتاق کے ساتھ گاڑی میں سفر کے دوران چودھری ظہور الٰہی کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ چودھری شجاعت کے ساتھ ساتھ چودھری منظور الٰہی کے صاحبزادے چودھری پرویز الٰہی بھی پیپلز پارٹی کو چودھری ظہور الٰہی کا قاتل قرار دے چکے ہیں۔ 2008ءکے عام انتخابات کے دوران تو ق لیگ نے پیپلز پارٹی کے مقابل آنے کی مہم شروع کر رکھی تھی، ق لیگ پیپلز پارٹی کو ملک دشمن اور غداروں کا ٹولہ قرار دیتی تھی۔ بینظیر بھٹو نے پاکستان آمد سے قبل کہہ دیا تھا کہ ان کو کچھ ہوا تو پرویز الٰہی بھی اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ 
25 اکتوبر 2010 کو لاہور میں پیپلز پارٹی کے نمائندے بابر اعوان چودھری پرویز الٰہی سے ملے، ون ٹو ون ملاقات ہوئی پھر وفود بھی ملاقات میں شامل ہو گئے، قومی عوامی اور جمہوری معاملات پر تعاون جاری رکھنے کے عہد و پیمان ہوئے۔ پرویز الٰہی نے فرمایا انتخابی تعاون خارج از امکان نہیں، یہ نہیں بتایا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کا انتخابی تعاون کس کا؟ مسلم لیگ ق کا؟ اس کے سربراہ تو چودھری شجاعت تھے جو ق لیگ کو پیر پگاڑہ کی سرپرستی میں بہت سی مسلم لیگوں کے ساتھ ضم کر آئے تھے۔ پھر پرویز الٰہی کس پارٹی کی بات کرتے ہیں؟ کیا انہوں نے مسلم لیگ ق کا کوئی الگ گروپ بنا لیا ہے؟ 
ضیاالحق کے قلم اور ظہور الٰہی کے قتل کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھٹو اور ظہور الٰہی کے وارثوں کا ایک پلیٹ فارم سے سیاست کرنا آگ اور پانی کے ملاپ کے مترادف ہے۔ یہ اتحاد دونوں لیجنڈز کے وارثوں کے مابین نہیں ہوا۔ پرویز زرداری لیگ میں بھٹو کے ورثا شامل ہیں نہ چودھری ظہور الٰہی کے، یہ بیل منڈھے چڑھی تو اتحاد چودھری منظور الٰہی اور حاکم علی زرداری کے صاحبزادگان کے مابین قرار پائے گا۔ 
تاریخ صدیاں گزرنے کا ہی نام نہیں، ہرگزرا لمحہ تاریخ بن جاتا ہے اور ہر کردار فنا کے بعد بھی اپنے افعال کے حوالے سے زندہ رہتا ہے۔ ٹیپو سلطان، سراج الدولہ، علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ جیسے رہنما ¶ں کو لوگ ان کے اعلیٰ کردار و اعمال کے باعث عزت و احترام سے یاد کرتے ہیں جبکہ میر جعفر، میر صادق اور قیام پاکستان کے مخالف کئی کرداروں پر تھو تھو ہوتی ہے۔ آج کی سیاست میں کردار کے غازی کم گفتار کے غازی بے شمار ہیں لیکن گفتار کے غازی تاریخ کے پہیے کو الٹا نہیں گھما سکتے۔ میر جعفر، میر صادق کی نسلوں نے کبھی اپنے آباءکے کارناموں پر فخر کیا ہے؟ ان غداروں کی اگر کہیں نسل ہے بھی تو گمنام۔ ان نسلوں نے اپنے اب و جد کے ناموں سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ آج کے گفتار کے غازی بھی سوچ لیں وہ اپنی نسلوں کو کونسا اثاثہ منتقل کر کے جا رہے ہیں۔ 
پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا ہر پاکستانی کے دل میں احترام پایا جاتا ہے۔ اس جماعت کو ہر ڈکٹیٹر نے اپنی ڈھال کے طور پر اور اقتدار کو طول دینے کے لئے استعمال کیا۔ آمروں کے ہتھے چڑھی مسلم لیگ کا کوئی اعتبار رہا یا نہیں البتہ ہر پاکستانی اسے آج بھی اقبال اور قائد کی مسلم لیگ سمجھتا ہے اسے اس سے غرض نہیں کہ یہ کونسی لیگ ہے ن ہے یا ق، ف ہے یا چ، ج ہے یا ض، سوائے مشرف لیگ کے، انتخابات کے روز وہ کسی بھی مسلم لیگ کو ووٹ دان کر دیتا ہے۔ عام آدمی کو اس سے بلا دعویٰ محبت ہے۔ اس سے محبت کے دعویداروں نے اسے اپنی انا اور مفاد کے لئے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ مسلم لیگی دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے دو سنہری مواقع تھے جو عاقبت نااندیش سیاستدانوں نے گنوا دیے۔ پہلا موقع 2008ءکے انتخابات سے قبل اور فوری بعد تھا جو کچھ لوگوں کی انا کی بھینٹ چڑھ گیا، دوسرا رواں ماہ پیر پگاڑہ کی سرپرستی میں مسلم لیگوں کے اتحاد کی کوشش، جس میں بڑی حد تک کامیابی بھی ملی سوائے مسلم لیگ ن کے تمام مسلم لیگی دھڑے ایک مسلم لیگ کے جھنڈے تلے آ گئے تھے جہاں مسلم لیگوں کے مکمل اتحاد کے خواب کو میاں نواز شریف کی انا اور ناں نے بکھیر کے رکھ دیا وہیں اقتدار کی چوٹی سر کرنے کے شوق میں پرویز الٰہی نے چکنا چُور کر دیا۔
(جاری ہے)

Wednesday, October 27, 2010

کراچی …مائی کلاچی کا شہر


 بدھ ، 27 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ? 9 گھنٹے 23 منٹ پہلے شائع کی گئی
دو سو سال قبل کراچی مچھیروں کی بستی تھی۔ ا?ج یہ شہر لٹیروں، رہزنوں، قاتلوں، غاصبوں، قبضہ گروپوں، بھتہ خوروںاور ایجنٹوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے اس شہر کو چند ایک پارٹیوں کے عسکری ونگز نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ان کے نزدیک انسانوں کی کوئی اہمیت ہے نہ انسانیت کی کوئی قدر! روشنیوں کے اس شہر کو 80ئ کی دہائی میں تاریکیوں کی راہگزر بنا دیا گیا۔ جہاں بازاروں، گلیوں میں بلاامتیاز دن اور رات کے چہل پہل رہتی تھی ا?ج شہر سرشام اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔ 25 سال قبل کلنگ اور ٹارگٹ کلنگ کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو ا?ج تک دھوپ چھاﺅں کی طرح وقفے وقفے سے جاری ہے۔ ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں سو سے زائد افراد کو اندھی گولیاں چاٹ گئیں۔ گولیاں اندھی ضرور ہیں، جن ہاتھوں سے چلائی گئیں وہ خفیہ نہیں ہیں۔ عروس البلاد میں کچھ عرصہ قبل یہ کہا جاتا تھا کہ مارنے والے کو یہ پتہ نہیں کہ وہ کیوں مار رہا ہے، مرنے والے کو بھی معلوم نہیں کہ اس کی جان کیوں لی جا رہی ہے۔ ا?ج ایسا نہیں! مارنے والے کو تو شاید معلوم نہ ہو کہ وہ کسی کو ٹارگٹ کیوں کر رہا ہے اس کا علم اسے بھیجنے اور ہاتھ میں اسلحہ تھمانے والوں کو ہے۔ البتہ جسے مارا جا رہا ہے اسے ضرور پتہ ہے کہ اسے کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے۔ کراچی نام کی وجہ? تسمیہ یہ بتائی گئی ہے کہ ماہی گیروں کی کشتی سمندر میں طوفان کے باعث بھٹک گئی۔ اس میں ایک خاتون مائی کلاچی کا شوہر بھی تھا۔ کلاچی نے سمندر کی بے رحم موجود میں اپنی کشتی بھی اتار دی اور کشتی ٹوٹ جانے کے باعث ایک جزیرے میں پھنسے اپنے خاوند اور ساتھیوں کو بحفاظت واپس لے ا?ئی۔ اس کی بہادری، جرا?ت اور ہمت کے باعث مچھیروں کی اس بستی کا نام مائی کلاچی جو گوٹھ رکھ دیا گیا جو بگڑتے سنورتے اور سنبھلتے بالا?خر کراچی بن گیا۔ کراچی دراصل مائی کلاچی اور اس کے خاندان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا شہر ہے۔ اس شہر کا دامن مائی کلاچی کی اولاد کے دل کی طرح بڑا وسیع اور فراخ ہے۔ اگر یہ لوگ تنگ دل ہوتے تو دوسرے علاقوں سے اس طرف رخ کرنے والوں کی راہ میں کانٹے اور پتھر بکھیر دیتے‘ ناقابل عبور دیواریں چن دیتے لیکن ان لوگوں نے مصیبت کے مارے اور لٹ پٹ کر ا?نے والوں کے راستے میں دیدہ و دل فراش کر دیئے۔ 1947ئ میں تقسیم ہند کے موقع پر ہندوﺅں کے پاکستان کی طرف دھکیلتے ہوئے مہاجرین کو اسی کراچی نے پناہ دی۔ پناہ گزینوں کی ا?مد ا?ج بھی کسی نہ کسی طریقے سے جاری ہے۔ بنگال میں گرم ہوا چلتی ہے تو وہاں سے بھی مسلمانوں کا رخ کراچی کی طرف ہوتا ہے۔ پنجاب اور سرحد کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی کراچی میں میسر ا?تے ہیں۔ مائی کلاچی کی اولاد کے سوا کراچی میں سب مہاجر ہیں، کوئی نیا مہاجر تو کوئی پرانا۔ شکر ہے کلاچی گواچ نہیں گئی۔ اگر گواچ جاتی تو نہ یہ کراچی ہوتا نہ یہ رونقیں اور روشنیاں جو عارضی طور پر قتل و غارت اور ٹارگٹ کلنگ میں تبدیل ہو گئی ہیں، یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے۔ ا?ج اس شہر میں مہاجروں کا راج اور اصل باسی اجنبی بنا دیئے گئے ہیں۔ مہاجر، مہاجر کا گلا کاٹ رہا ہے۔ کسی کو شہر میں اپنی تھانیداری برقرار رکھنے کی فکر ہے تو کسی کو تھانیداری منوانے کا خبط ہے۔ برداشت، صبر اور تحمل گئے دنوں کی بات بن کر رہ گئے ہیں۔ چند دن سے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ عروج پر ہے۔ ڈیڑھ سو جیتے جاگتے انسانوں کی لاشیں گرا دی گئیں۔ اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاشیں اٹھانے والوں کے ا?نسو تھمتے ہیں نہ ا?ہیں اور سسکیاں۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور اے این پی پیپلز پارٹی کی اتحادی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تینوں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ جھگڑا وہی سیاسی اجارہ اور تھانیداری کا! علاقوں میں نمبرداری کا! قیادتیں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر غریبوں اور مظلوموں کے حق میں بیان ضرور دیتی ہیں، تحمل، برداشت، رواداری کی بات بھی کی جاتی ہے لیکن اندر صاف نہیں۔ منافقت، مصلحت اور سیاست‘ انسانیت پر غالب ا?جاتی ہے۔ کراچی میں ہونے والی غارت گری صرف اس صورت رک سکتی ہے، تمام قوتیں جو زبان سے صلح و ا?شتی کی بات کرتی ہیں اس پر ایمانداری سے عمل بھی کریں جس کا ایک فیصد بھی امکان نہیں! پھر حل ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے یہی ہے کہ شہر فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ حکومت اور اس میں شامل جماعتیں کراچی کی بدامنی میں جب خود فریق ہیں تو پولیس اور رینجرز سے غیر جانبداری کی توقع عبث ہے۔ فوج ایک ہفتے میں شہر کا امن بحال کر دے گی۔



Tuesday, October 26, 2010

مسلم لیگوں کا اتحاد ۔ دل بڑا کرو بڑے میاں جی


 منگل ، 26 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
ٹوٹی پھوٹی اور اجڑی پجڑی مسلم لیگوں مائنس مشرف لیگکو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کاوش پیر پگاڑہ کا عظیم کارنامہ اور پاکستان پر احسان ہے۔ نظریاتی لوگوں کی بے پایاں خواہش‘ تمنا اور آرزو ہے کہ اقبال اور قائد کی مسلم لیگ پھر پہلے سے بانکپن‘ اتحاد اور مضبوطی کے ساتھ قوم کے سامنے آئے۔ پیر صاحب کی سرپرستی میں مسلم لیگ ق سمیت کئی دھڑے متحد ہو گئے۔ مسلم لیگوں کے حامی محب وطن لوگوں کی نظریں اب مسلم لیگ ن کی طرف لگی ہوئی ہیں جو آج بلاشبہ پیپلز پارٹی کے بعد ملک کی دوسری بڑی پارٹی ہے۔ 2008ءکے الیکشن کے نتائج کے پیش نظر اس پر پنجاب اور پنجابیوں کی پارٹی ہونے کی چھاپ لگ چکی ہے۔ انہیں انتخابات کے دھڑوں میں بٹی مسلم لیگوں نے مجموعی طور پر 45 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ مسلم لیگوں کے باہم دست و گریباں ہونے کا فائدہ پیپلز پارٹی نے اٹھایا جس نے صرف 35 فیصد ووٹ حاصل کرکے حکومت بنا لی۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں آج بھی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگی ممبران کی تعداد زیادہ ہے۔ 2008ءکے انتخابات کے بعد چودھری شجاعت حسین نے مسلم لیگوں کے اتحاد کی بات کی تو بڑے میاں صاحب کی انا آڑے آگئی۔ میاں صاحب بدستور انا کے بھنور میں پھنسے ہیں۔ لندن سے واپسی پر پہلی بات یہ کی کہ چودھری برادران اور شیخ رشید کی موجودگی میں لیگی دھڑوں کا اتحاد ممکن نہیں۔ مسلم لیگ ن صرف چودھری نثار‘ خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف اور پرویز رشید کی ہی پارٹی نہیں اس میں شہباز شریف‘ ذوالفقار کھوسہ اور راجہ ظفر الحق جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔ ان کی رائے اور کارکنوں کی خواہش کو مدنظر رکھنا بھی پارٹی قائد کا فرض ہے۔ مسلم لیگوں کا اتحاد بلاشبہ قوم و ملک کے مفاد میں ہونے کے ساتھ ساتھ اتحاد میں شامل ہر مسلم لیگ کے مفاد میں بھی ہے مسلم لیگوں میں انتشار اور خلفشار کا نقصان تو سب پر واضح ہے۔ اس کا فائدہ جس کو ہو سکتا ہے وہ اپنی پٹاری میں ہر قسم کی پیشکش لئے ایوانوں سے دیوانوں کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں اگر نفاق کے پروردہ موجود ہیں تو ق لیگ کے ہاکس کو پارٹی کے پیر پگاڑا کی قیادت میں متحد ہونے کے بعد جھرجھری آگئی ہے۔ چودھری شجاعت پیر صاحب کو اتحاد اور انضمام کی زبان دیکر واپس آئے تو چھوٹے چودھری صاحب نے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا لیا یہاں چند پارلیمنٹیرینز کے منہ سے شجاعت کے سامنے اتحاد اور انضمام کے خلاف باتیں کہلوائی گئیں۔ در و دیوار کے ساتھ لگے کانوں نے سب اوپر پہنچا دیا۔ لیکن چودھری شجاعت کو کچھ شجاعت سے کام لیکر پرویز کا حکم دے دینا چاہئے تھا اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ بابر اعوان جو عدلیہ کا برج الٹانے کیلئے سرگرم تھے۔ بار ایسوسی ایشنوں میں نوٹوں سے بھرے بریف کیس لئے گھوم رہے تھے۔ مسلم لیگوں کے مجوزہ اتحاد کے باعث مستقبل میں پیپلز پارٹی کی سیاست کو ممکنہ ”ٹکے ٹوکری“ ہوتے دیکھ کر پرویز الٰہی کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔ پرویز الٰہی مشرف کو دس باروردی میں الیکٹ کرانے کی خواہش کا اس لئے اظہار کرتے رہے کہ ان کو وزیراعظم اور صاحبزادے کو وزیراعلیٰ بننے کا موقع مل جائے۔ ذرائع کے مطابق بابر اعوان نے چھوٹے چودھری کو بڑے سے بڑا وزیر یعنی ڈپٹی وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی ہے۔ وہ اپنے کزن ایک دن کے سلطان چودھری کی طرح وزارت عظمیٰ کا جھوٹا لینا چاہتے ہیں اب ان کی نظر میں وہ بات بھی اہم نہیں کہ چودھری شجاعت کی پیر صاحب کو دی گئی زبان کا کیا ہو گا؟ چودھری برادران تو پیپلز پارٹی کو چودھری ظہور الٰہی کا قاتل سمجھتے ہےں۔ کیا وہ صرف چودھری شجاعت کے والد تھے؟ پرویز الٰہی نے صرف ان کو اپنا چچا سمجھا کہ ان کے قاتلوں سے ہاتھ ملانے پر تیار ہو گئے۔ بشرطیکہ کوئی بڑی وزارت مل جائے ابھی کل کی بات ہے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل پر زرداری صاحب نے ق لیگ کو قاتل لیگ کہا تھا۔ ق لیگ والے اگر مسلم لیگوں کے اتحاد کی کوشش کرتے تو پوری قوم اس کی تحسین کرتی۔ اب جو کچھ وہ کرنے جا رہے ہیں اس سے ق لیگ کے بھی دو دھڑے بن جائیں گے۔ اس سے فائدہ کس کو ہو گا۔؟
مسلم لیگیں اگر متحد ہوتی ہیں تو اس سے جمہوریت مضبوط ہو گی۔ ادارے مضبوط ہوں گے ملک دو پارٹی سسٹم کی طرف جائے گا یہی جمہوریت کا اصل‘ حسن اور خوبی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بڑے میاں صاحب اور چھوٹے چودھری صاحب کو لتھی چڑھی کی کوئی پروا نہیں جمہوریت دشمن قوتیں مسلم لیگوں میں نفاق پیدا کرکے اس کے گروپوں کو اپنے مقاصد کےلئے استعمال کریں گی۔ اس سے پرویز الٰہی تو شاید ڈپٹی وزیراعظم بن جائیں گے اگر ایسا ہوا تو عطا مانیکا کے زیر اثر یونیفکیشن گروپ پرویز الٰہی کے گرد بھنبھنائے گا۔ اس سے نواز شریف اور ان کے سر پر جادو بن کر چڑھنے والوں کو تو کوئی نقصان نہیں ہو گا پنجاب سے شہباز شریف کی حکومت جاتی رہے گی۔ جس سے شریف برادران کی سیاست رائیونڈ اور ماڈل ٹاون کے درمیان لڑھکتی رہے گی۔ 
مسلم لیگی قائدین وقتی مفادات کے چنگل سے نکلیں۔ اپنی اناوں کو تیاگ دیں۔ مسلم لیگ کو اقبال اور قائد کی مسلم لیگ بنانے کیلئے حب الوطنی اور ایثار کا مظاہرہ کریں۔ جمہوریت کی مضبوطی‘ پاکستان کو قائد کے فرمودات اور اقبال کے افکار کے مطابق چلانے کیلئے تمام مسلم لیگوں کا انضمام ناگزیر ہے۔ قائدین ہوش کے ناخن لیں الگ الگ ہانڈی چڑھانے کی کوشش نہ کریں۔ یہ سب کو لے ڈوبے گی‘ چھوٹا چودھری وزیر بنا ہے تو نواز شریف کو اپنے سابق مہربان میزبان سے جپھا مار کر مل لینا چاہئے۔ مسلم لیگ کا اتحاد پھر ہی ہو گا اور پائیدار ہو گا۔ دل بڑا کرو بڑے میاں جی!

Monday, October 25, 2010

بڑا آدمی


پیر ، 25 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان
میٹرک کے بعد کمال سے تیرہ چودہ سال بعد ملاقات ہوئی۔ وہ نیوی میںسیلر بھرتی ہوا تھا۔ اس کے بانکپن سے نہیں لگتا تھا کہ وہ سیلر‘ ائیرمین یا فوجی ہے۔ نئے ماڈل کی بڑی گاڑی تو بڑے افسروں کے پاس بھی نہیں ہوتی۔ اس کے پاس دو تھیں اور بنگلہ نما گھر بھی تعمیر کرا لیا تھا۔ ڈن ہل کا سگریٹ سلگاتے ہوئے خود ہی کہا آؤ ’’میں اپنی کایا پلٹنے کی داستان سناتا ہوں۔ ڈیوٹی کے دوران ناول پڑھ رہا تھا جس میں لکھا تھا ایک مزدور کا بچہ بیمار ہو گیا وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا ڈاکٹر سے دوران گفتگو اس نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو بڑا آدمی بنانا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا تم خود بڑے آدمی کیوں نہیں بن جاتے۔ مریض کے باپ نے کہا کہ چھوٹی موٹی ملازمت کرتا ہوں۔ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ وکیل‘ صحافی تو نہیں ہوںکہ بڑا آدمی بن جاؤں۔ ڈاکٹر نے یہ کہہ کر اس کے اندر ایک جذبہ ولولہ پیدا کر دیا کہ کوشش کر دیکھو اس نے کوشش کی اور چند سال بعد وہ واقعی بڑا آدمی بن گیا۔ پیسے اور مال و دولت کے حوالے سے بڑا آدمی‘‘ کمال نے یہاں تھوڑا سا توقف کرتے ہوئے اپنی آپ بیتی یوں شروع کی ’’میں نے ناول ایک طرف رکھا اور عزم صمیم کر لیا کہ بڑا آدمی بنوں گا۔ مسلح افواج سے افسر تو استعفیٰ دے سکتا جوان پر یہ دروازہ بند ہے۔ بہرحال جیسے تیسے نوکری تیاگ دی۔ فلموں میں کام کیا ایک بنک میں نوکری کی۔ ساتھ ساتھ پھیرے بازی۔ جن ملکوں کا ویزا آسانی سے مل جاتا ہے۔ وزٹ ویزہ۔ وہاں اس ملک کی ضروریات کا پاکستانی مال لے جاتا اور وہاں سے پاکستان میں ضروریات کا سامان لے آتا۔ دو چار دن میں منافع ڈیڑھ سے دگنا مل جاتا تھا۔ اس فیلڈ میں واقفیت بڑھتی بڑھتی‘ جاپان کا ویزہ ملا پھر امریکہ کا‘ خدا کی رحمت شامل حال رہی آج سب کچھ اسی کی رحمت کے صدقے میرے پاس موجود ہے‘‘ کمال واقعی بڑا آدمی ہے پیسے دھیلے کے حساب سے اور انسانیت کے لحاظ سے بھی۔ پابندِ صوم و صلٰوۃ ہے اور خدا ترس بھی‘ امریکہ میں اس کی جائیداد کروڑوں ڈالرز کی ہے۔ وہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے کنجوسی نہیں کرتا تو وہاں سے بھی اس کے رزق میں اضافہ در اضافہ ہوتا رہتا ہے۔100 ہزار اور لاکھ تک بھی گنتی کرنی ہوں تو شروعات صفر سے ہوتی ہے۔ عام آدمی سے بڑا آدمی بن جانے کے راستے خدا نے بند کئے نہ محدود اور مسدود‘ کام کام اور صرف کام انسان کو اوج ثریا تک لے جاتا ہے۔ شارٹ کٹ زمین کی پستیوں میں بھی لا کر پھینک سکتا ہے۔ کچھ لوگ راتوں رات امیر بننے کی خواہش میں جعلسازوں کے ہتھے چڑھ کر زندگی کی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اکثر جان سے بھی‘ جب راست سمت موجود ہے تو بھول بھلیوں میں کیوں پڑنا۔ جعلساز اور دھوکا باز ایجنٹوں کی باتوں میں آکر بیرون ممالک جانے کے خبط نے کئی گھر برباد کر دیے۔ ان ایجنٹوں کا سب سے بڑا راز یہ ہوتا ہے کہ ’’کسی کو بتانا نہیں‘‘ پاکستان میں منشیات اور اسلحہ کی فروخت کے بعد سب سے بڑا اور منافع بخش کاروبار انسانی سمگلنگ ہے۔ ان سمگلروں سے بچنے کی ضرورت ہے ان پر قابو پانا متعلقہ اداروں کا کام ہے لیکن ان اداروں کے حکام اور اہلکاروں نے بھی تو شارٹ کٹ کے ذریعے ’’بڑا آدمی‘‘ بننا ہوتا ہے۔ اس لئے انسانی سمگلر آزاد اور متعلقہ اداروں کے لوگ آباد ہیں۔ آج کے نوجوان کی کہانی ملاحظہ فرمائیے شاید کسی کے بڑا آدمی بننے کے کام آجائے۔ سلیم کے پاس تجارت کا لائسنس ہے۔ یہ سات آٹھ ہزار میں بن جاتا ہے۔ وہ سیالکوٹ سے فٹبال خرید کر ٹرین کے ذریعے کوئٹہ اور وہاں سے ایران چلا جاتا ہے۔ ایران کا تین ماہ کا وزٹ ویزا آسانی سے دستیاب ہے۔ وہاں وہ فٹبال فروخت کرتا ہے اور دیہات میں جاکر چائے کی پتی چننے کی مزدوری کرتا ہے واپسی پر سستی ایرانی مصنوعات کمبل اور کپڑا وغیرہ اس کے پاس ہوتا ہے۔ تین ماہ میں اس کی آمدن تقریباً چار پانچ لاکھ بن جاتی ہے۔ وہاں جانے، رہنے اور آنے تک کوئی بھی اقدام غیر قانونی نہیں ہوتا۔ اگر اللہ نے صحت تندرستی اور زندگی دی ہے تو بڑا آدمی بننے کی کوشش کرنے میں حرج نہیں۔ بس کچھ کر گزرنے کا عزم کیجئے۔ خدا کی رحمت انشاء اللہ ساتھ ہو گی۔

Sunday, October 24, 2010

بیرون ممالک جانے کا خبط… موت کو آواز


: اتوار ، 24 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
اس خبر نے پاکستانیوں کو ایک بار پھر دہلا کر رکھ دیا کہ غیر قانونی طورپر ایران سے مسقط جانیوالے پاکستانیوں کی لانچ ڈوب گئی۔ اس میں سوار 31 میں سے 13 نوجوان لا پتہ ہیں جبکہ 18 واپس گھروں تک پہنچ گئے۔ ایسی خبریں تواتر سے میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ کئی کنٹینروں میں مرتے ہیں کئی کوسٹ گارڈز فائرنگ کا نشانہ بنتے ہیں اور کچھ ڈوب جاتے ہیں۔ اپنا مستقبل سنوارنے اور والدین و بہن بھائیوں کی زندگی آسان بنانے کے سپنے سجائے نوجوان باہر جانے کیلئے خاندان کی جائیداد اور مائوں بہنوں کے زیورات بیچ کر کسی بھی طریقے سے باہر جانے کی کوشش کر تے ہیں۔ اکثر انسانیت کے دشمن ایجنٹوں کے ہاتھ چڑھ کر جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یورپ پہنچانے کیلئے 8سے 10لاکھ روپیہ وصول کیا جاتا ہے۔ حالانکہ قانونی طریقے سے کسی بھی یورپی ملک جانا ہوتو اڑھائی تین لاکھ سے زائد خرچہ نہیں ہوتا۔دونمبر ایجنٹ ڈیڑھ دو لاکھ روپے ماہانہ کمائی کا جھانسہ دے کر نوجوانوں کو پھانستے ہیں ان میں سے بمشکل 10فیصد منزل تک پہنچتے میں کامیاب ہوتے ہیں ان میں سے اکثر وہاں ذلیل و خوار ہوتے ہیں چند ایک اپنی صلاحیت یا وہاں واقفیت سے سیٹ ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جو سیٹ ہوجاتے ہیں ان کے لواحقین کی کی تشہیر پر سینکڑوں لوگ جعلساز ایجنٹوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں۔ جو مارے جاتے ہیں یا وہاں خوار ہورہے ہوتے ہیں ان کے وارثوں کی ایجنٹ سنتے ہیں نہ سرکاری ادارے اور نہ ہی باہر جانے کا شوق رکھنے والے۔ فراڈئیے ایجنٹ پاکستان سے نوجوان کو ایران پہنچاتے ہیں جہاں سے کشتیوں، ٹرکوں اور کنٹینروں میں طویل ترین سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ ایجنٹ بعض اوقات ایران میں اپنے جیسے فراڈیوں کے ہاتھ پاکستانی نوجوان کو سستے داموں فروخت بھی کردیتے ہیں۔ یہ ایجنٹ پاکستان میں ان کے لواحقین سے رابطہ کرکے بھاری رقوم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اغوا برائے تاوان کی طرز پر۔ تاوان بعض اوقات دس لاکھ تک بھی ہوتا ہے۔ غیر قانونی طورپر ایران میں داخل ہونے والے پکڑے جائیں تو اسلامی اخوت اور بھائی چارے کے الفاظ صرف الفاظ ثابت ہوتے ہیں۔ وہاں کے ادارے اپنے ملک میں غیر قانونی طورپر داخل ہونے والے ہر غیر ملکی کو جاسوس اور عبدالمالک ریگی سمجھ کر سلوک کرتے ہیں۔ دوروز قبل ایران میں غیر قانونی طور پر داخل ہونیوالے 6ہزار 271 پاکستانی، تفتان انتظامیہ کے حوالے کئے۔ یہ بھی ایران کے راستے یورپ جارہے تھے… ترقی کاہر کسی کو حق حاصل ہے۔ آخری زینے تک پہنچنے کیلئے پہلے زینے پر قدم رکھنا ضروری ہے۔ براہِ راست آخری زینے پر پہنچنے کی کوشش میں ٹانگیں تڑوا لینا لازمی امر ہے۔ انسان زندہ و سلامت رہے تو دولت کے انبار بھی لگا سکتا ہے لیکن دولت کے انبار گئے انسان کو واپس نہیں لا سکتے۔ انسان جو بھی کرلے وقت سے پہلے اور مقدر سے زیادہ کا مالک نہیں بن سکتا۔ جب ہر کام کا ایک راست انداز موجود ہے تو بند گلی میں داخل ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک کا سوائے اسرائیل کے ویزامل سکتا ہے اس کیلئے ایک طریقہ کار ہے۔بعض ممالک کیلئے سہل بعض کا مشکل لیکن ایجنٹوں کو ادائیگیوں کے مقابلے میں کہیں سستا۔ یہی بہترین طریقہ ہے۔ خود بھی محفوظ، لواحقین بھی پریشانی سے دور اور خرچہ بھی کم۔ تھوڑی سی محنت اور معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ انٹر نیٹ پر تمام معلومات موجود ہیں۔ خود نہیں دیکھ سکتے تو کسی سے پوچھ لیں۔ اندھا دھند روپیہ خرچ کرکے موت کو آواز تو نہ دیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ اپنے ملک میں رہ کر محنت کریں۔ محنت راست سمت میں ہوتو اس کا پھل ضرور ملتا ہے۔

Saturday, October 23, 2010

مانی شنکر کے تین ہفتے ۔۔ پاکستان کے 15منٹ

 ہفتہ ، 23 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
ہر بھارتی منتری اور نیتا پاکستان فوبیا کا شکار ہے۔ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا ان کو پاگل پن کی حد تک دورہ پڑتا ہے۔ کچھ تو پاکستان دشمنی میں با ¶لے تک ہو جاتے ہیں آج کل مانی شنکر آئر لایعنی اور بے معنی ہانک رہے ہیں۔ وہی مانی شنکر جو کبھی وزیر کھیل ہوا کرتے تھے اور کبھی پاکستان میں سفارتکار تھے اسی ماہ کا من ویلتھ گیمز بھارت میں اختتام پذیر ہوئی ہیں آغاز سے چند روز قبل مانی شنکر نے یہ کہہ کر اپنے ملک کی مٹی مزید پلید کر دی کہ کامن ویلتھ گیمز کی میزبانی کےلئے بھارت نے کئی ممالک کو 9 لاکھ ڈالر رشوت دی۔ اسی ہفتے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے مانی شنکر نے کہا کہ بھارت کو پاکستان پر دفاعی برتری حاصل ہے تین ہفتوں میں پاکستان پر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار اور جدید میزائل ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا بڑی اور مضبوط فوج ہے۔ اس سے ایک روز قبل مانی شنکر کہہ چکے ہیں کہ ایٹمی دھماکوں سے بھارت کی قومی سلامتی کی صورتحال میں اضافہ نہیں ہوا۔ ایک ہی اشوپر متضاد بیانات سے ان کی ذہنی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سابق آرمی دیپک کپور نے کہا تھا کہ ان کی فوج 96 گھنٹے میں بیک وقت بیجنگ اور اسلام آباد کو مفلوج کر سکتی ہے۔ مانی شنکر تین ہفتے کی بات کرتے ہیں۔ 
گو بھارت نے پوری دنیا سے ایٹمی اسلحہ‘ میزائل‘ بم راکٹ آبدوزیں جنگی جہاز حاصل کئے ہیں اور کر بھی رہا ہے۔ ان کی ساکھ کیا ہے؟ صفر جمع صفر برابر بھارتی اسلحہ‘ مانی شنکر کس بل بوتے پر پاکستان کو دھمکیاں لگاتے ہیں؟ ملاحظہ فرمائیے۔
جنوری 2009ءکو سپر سونک براہموس میزائل کا تجربہ ناکام رہا۔ پوکھران میں یہ میزائل چھوڑا گیا تو ہدف تک نہ پہنچ سکا۔ 15 مارچ 2010ءکو چاندی پور رینج میں میزائل دفاعی سسٹم کا ایک اور تجربہ ناکام ہو گیا۔ 17 اپریل 2010ءکو بھارت کا مواصلاتی سیارہ خلا میں بھیجنے کا تجربہ بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ 3-G-GSLV کا انجن بروقت سٹارٹ نہ ہوا۔ جس کے باعث اس کا رابطہ 500 سیکنڈ بعد منقطع ہو گیا اور سیارہ بھارتی نیتا ¶ں کے دماغ کی طرح مدار سے بھٹک گیا۔ بھارت نے اس سیارے پر 330 کروڑ خرچ کئے تھے۔ ایک اور سیارہ 2 سو 60 کروڑ روپے کی لاگت سے اسی سال 13 جولائی کو خلا میں چھوڑا گیا جو 9گھنٹے کی پرواز کے بعد ٹھس ہو گیا۔ گذشتہ ماہ 25 ستمبر کو پرتھوی ٹو میزائل تجربہ کے دوران ابتدائی اڑان ہی نہ بھر سکا۔ اب بھارت کے ایٹمی پروگرام کی کہانی بھی ملاحظہ فرمائیے۔ جو بات مانی شنکر نے آج کہی ہے گزشتہ سال بھارتی ایٹمی سائنسدان سنتھانام اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔ سنتھارام کا کہنا ہے کہ 1998ءکو پوکھران میں کئے گئے بھارت کے ایٹمی دھماکے ناکام ہو گئے تھے۔ بھارت نے ڈرون رستم کا بھی اسی ہفتے تجربہ کیا ہے۔ ایسے ڈرونز پاکستان کے محکمہ موسمیات کے پاس موجود ہیں۔ حتیٰ کہ بچے بھی ریموٹ کنٹرول سے اڑائے پھرتے ہیں۔ 
بھارت خود اپنے ایٹمی دھماکوں میزائلوں اور سیٹلائٹس کی ناکامی کا اعتراف کر رہا ہے۔ تو پاکستان کو تباہ کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کی دھمکی کس برتے میں دے رہا ہے۔ بات اسلحہ اور گولہ بارود کی مقدار کی نہیں معیار اور چلانے والے کی صلاحیت کی ہے۔ گدھے پر بم راکٹ میزائل سب کچھ لاد دیا جائے۔ اس کےلئے ماچس کی ایک تیلی ہی کافی ہوتی ہے۔ Seeing is Beleiving بھارت کے پاس کارآمد ایٹم بم ہے تو مانی شنکر چلا کر دکھائیں۔ بالکل اس بزنس مین کی طرح جو گدھا گاڑی پر مٹی کے تیل کا ڈرم لے کر نکلا پہلی دکان پر گیا دکاندار نے کہا اصلی بھی ہے؟ تو مانی شنکر نے تیلی لگا دی اور اس کا بزنس دو سیکنڈ میں شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔ مانی شنکر تین ہفتے کی بات کرتے ہیں۔ پاکستانی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ثمر مبارک مند قوم کو یقین دلا چکے ہیں کہ پورے بھارت کو صرف 15 منٹ میں راکھ کا ڈھیر بتایا جا سکتا ہے۔ مانی شنکر مہاراج پاکستان سے بچئے اپنی خیر منائیے۔ گیدڑ دھمکیوں سے باز آجائیے۔ اپنے دماغ کا علاج کرائیے۔ بائی دی وے یہ وہی مانی شنکر ہیں جب بطور سفارت کار ان سے پوچھا گیا بھارت اور پاکستان کی دوستی کی راہ میں کونسا سب سے بڑا پتھر حائل ہے تو موصوف نے فرمایا این آئی زیڈ اے ایم آئی!

Friday, October 22, 2010

خواجہ ناظم الدین… شریف اور وضعدار سیاستدان


جمعۃالمبارک ، 22 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
سیاست کرنیوالے وضعدار اور شریف ہوں تو سیاست میں بھی وضعداری اور شرافت آجاتی ہے۔ یہی اصل سیاست کی روح خوبصورتی اور بانکپن ہے۔ بدقسمتی سے آج کل شرافت اور وضعداری سیاست سے دور بہت دور کردی گئی ہے۔ آج سیاست کا مطلب چالبازی، مکروفریب اور دھوکہ دہی لیا جاتا ہے۔ اصولوں پر مبنی سیاست اور بے اصولی کی سیاست کا کوئی خاص دور نہیں ہوتا۔ یہ شخصیات کی ذہنیت، کردار اور اطوار پر منحصر ہے۔ آج جس قبیل کے سیاستدان ہیں اور انکی سیاست ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستانیوں کے آئیڈیل سیاستدان قائداعظمؒ اور انکی سیاست قابل تقلید ہے۔ قائداعظمؒ کے بعد خواجہ ناظم الدین اور محمد خان جونیجو شرافت اور سادگی کی سیاست کے پیکر نظر آتے ہیں۔ گو دونوں کے ادوارِ وزارت عظمیٰ کے درمیان 33 سال کا فرق ہے لیکن انکی سیاست کا سلیقہ، طریقہ اور رنگ ڈھنگ تقریباً ایک جیسا تھا۔ تکلفاف، تصنع، بناوٹ اور منافقت سے پاک سیاست۔ خواجہ ناظم الدین اپنی گورنری اور وزارت عظمیٰ کے دوران ٹفن میں گھر سے کھانا لایا کرتے تھے۔ محمد خان جونیجو کے دور میں اگر وزیراعظم ہائوس میں کھانا پکتا تو نہایت سادہ جسے کھاتے ہوئے افسر ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ گوشت کبھی کبھار پکتا تھا۔ انکے گھر کا کھانا نظامی صاحب نے کھایا ہے، وہ بھی عام سا ہوتا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے وزیراعظم ہائوس میں سادہ کھانے کی روایت کو توڑا، نوازشریف نے مروڑا، (ق) لیگ کے وزرائے اعظم نے جھنجھوڑا اور یوں فضولیات در فضولیات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامے میں لکھا ہے کہ خواجہ ناظم الدین کا پیٹ بڑھا ہوا تھا۔ ان کی آفس ٹیبل انکے پیٹ کے مطابق گولائی میں کاٹی گئی تھی۔ خواجہ صاحب کھانے کے شوقین تھے، پینے کے ہرگز نہیں۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ وزیراعظم ہائوس میں نماز ادا کرتے تو اکثر خود امامت کراتے تھے۔ بیگم صاحبہ پردے کی سخت پابند، کبھی وزیروں کے سامنے بھی نہیں آئیں۔ آج کے حکمران بھی خواجہ صاحب سے دگنا تگنا کھائیں، دبا کے کھائیں۔ وہ اپنی جیب سے کھاتے تھے۔ یہ سرکاری خرچے پر کھائیں، خزانے کو قطعاً قطعاً فرق نہیں پڑیگا۔ خزانہ ضعف اور ناتوانی کا شکار بیدردی سے لوٹے جانے پر ہوتا ہے۔ یہ خزانے کو معاف کردیں تو ہر پاکستانی خوشحال اور ملک قرضوں سے آزاد ہوسکتا ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا۔ جونیجو نے جمہوریت کا آشیاں بنایا تو ضیاء الحق نے اس پر بجلی گرا دی۔ اسکے باوجود ضیاء الحق فضائی حادثے کا شکار ہوئے تو محمد خان جونیجو جنازے میں آگے آگے تھے۔ خواجہ ناظم الدین نے برداشت اور رواداری کی اس سے بھی بڑی مثال قائم کی۔ انہوں نے گورنر جنرل کا منصب غلام محمد کیلئے خالی کرکے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ غلام محمد نے انکی حکومت کا خاتمہ کردیا لیکن انکی زبان پر حرفِ شکایت نہ آیا۔ غلام محمد کا انتقال ہوا تو خواجہ ناظم الدین انکے جنازے اور تدفین میں شریک تھے۔ آج کی سیاست میں رواداری کا اندازہ کیجئے۔ فاروق احمد خان لغاری کے جنازے میں کسی پارٹی کی مرکزی قیادت شامل نہیں تھی۔ خود انکی اپنی پارٹی (ق) لیگ کے قائدین بھی جنازے میں نہیں گئے۔ کیا شریف اور وضعدار سیاستدانوں کے اٹھنے سے شرافت اور برداشت کی سیاست کا جنازہ بھی اٹھ گیا ہے۔
جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم ناظم الدین کو برطرف کیا اس دن خواجہ صاحب دورے پر جانیوالے تھے۔ انکو اپنی برطرفی کا علم ریڈیو کے ذریعے ہوا۔ اس ستم پر کوئی منفی ردعمل تو کیا روایتی بیان بھی جاری نہ کیا۔ اس زمانے میں عام تاثر یہ تھا کہ خواجہ صاحب سے دھوکہ کرنیوالے وہی لوگ تھے جن پر بھروسہ کیا کرتے تھے، یعنی سکندر مرزا وغیرہ۔ اپنی برطرفی پر وزیراعظم ہائوس سے رخصت ہونے لگے تو افسردہ نظر آرہے تھے اور آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ وزیراعظم ہائوس چھوڑتے ہوئے انہوں نے صرف اتنا کہا ’’یہ پاکستان پر ظلم کیا گیا ہے‘‘… انکا اندازہ بالکل درست تھا۔ اسکے بعد پاکستان کے دولخت ہونے تک سیاست سنبھالے نہ سنبھلی۔ آپ 22 اکتوبر 1964ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔ انکو انکے آبائی علاقے ڈھاکہ کے نواح میں سپردخاک کیا گیا۔

Thursday, October 21, 2010

فاروق لغاری مرحوم


جمعرات ، 21 اکتوبر ، 2010

فضل حسین اعوان ـ
چوٹی زیریں میں 29 مئی 1940ء کو پیدا ہونے والے فاروق احمد خان لغاری نے پاکستان کی سیاست کی سب سے بڑی چوٹی بھی سر کی۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ایک عام کارکن کی حیثیت سے کیا۔ پھر وہ منزل پہ منزل مارتے ہوئے پیپلز پارٹی کی قیادت کے قریب تر ہوئے اور پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پر تعینات کر دئیے گئے۔ وہ صدر پاکستان بنے تو حکومت کی سانسیں ختم کرنے کا ہتھیار 58ٹو بی کی صورت میں ان کے پاس تھا۔ جو لغاری صاحب نے اپنی ہی حکومت کے خلاف استعمال کر ڈالا۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی سیاست اس کے آغاز سے ہی متنازعہ رہی ہے۔ فاروق لغاری پارٹی میں ہی متنازعہ ہو گئے۔ پاکستانی سیاست آج بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ پرو بھٹوز اور فوء بھٹوز‘ فاروق لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کیا تو پارٹی کیلئے راندہ درگاہ تو ٹھہرے ہی‘ پیپلز پارٹی کے حریفوں کے دل میں بھی جگہ پیدا نہ کر سکے۔ پیپلز پارٹی نے ان کو 14 نومبر 1993ء کو صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ پر فائز کیا۔ لغاری نے 6 نومبر 96ء کو بے نظیر بھٹو کی حکومت توڑی معراج خالد کو نگران وزیراعظم بنا کر الیکشن کرائے۔ جس کے نتیجے میں فروری 97ء کو نواز شریف اقتدار میں آئے۔ نواز شریف نے پہلا کام لغاری صاحب کے مشورے سے پارلیمنٹ سے 58ٹو بی کے خاتمے کا کیا۔ پاکستان کے طاقتور ترین صدر کے پر کاٹ دئیے گئے۔ نواز شریف کی اپنی عادت کے مطابق فاروق لغاری سے بھی نہ بنی۔ پھر ایک موقع یہ بھی آیا کہ نواز شریف حکومت اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے مابین کشیدگی عروج پر تھی۔ لوگ حکومت کے مستقبل سے مایوس ہو چکے تھے۔ سپریم کورٹ پر حملہ ہوا۔ ججوں کی تذلیل کی گئی۔ نوٹوں کے بریف کیس بھر کے ججوں تک پہنچانے کی خبریں عام ہوئیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے صدر کو اپنی طرف سے 58 ٹو بی کا اختیار دے دیا لیکن فاروق لغاری نے یہ اختیار استعمال کرنے کے بجائے استعفیٰ دینا مناسب سمجھا۔ لغاری ایوان صدر سے خود نکلے۔ سجاد علی شاہ کو نواز شریف اور سجاد علی شاہ کے ساتھی ججوں نے سپریم کورٹ سے نکال دیا۔ لغاری صاحب کی زندگی میں سب سے بڑے اصولی فیصلے کی بات کی جائے‘ سیاست پر نظر رکھنے والوں کو تو یہی ایک صدارت سے مستعفی ہونے کا ہی دکھائی دیتا ہے۔ پھر فاروق لغاری نے ملت پارٹی بنائی۔ شاید ان کو بھی یار دوستوں نے قوم میں انتہائی مقبولیت کی ’’پھوک‘‘ بھر دی ہو جیسا آج مشرف کو مفلوک الحال سیاستدانوں نے فیس بک پر مقبول ترین رہنما قرار دے کر پاکستانیوں کے دل کی دھڑکن باور کرا دیا ہے۔ ملت پارٹی پیپلز پارٹی کی سیاست اور حجم کے قریب بھی نہ پھٹک سکی۔ تاہم 2002ء میں ملت پارٹی کو چند نشستیں ضرور ملیں جس کی بناء پر کی خصوصی نشستوں اور سینیٹرز کی تعیناتی کا اختیار پارٹی سربراہ کے پاس آیا تو انہوں نے سب کچھ اپنے عزیزوں اور دوستوں میں تقسیم کر دیا۔ اسی کے باعث بریگیڈئر یوسف جیسے بے لوث اور مخلص ساتھی بے اصولیوں سے دلبرداشتہ ہو کر پارٹی چھوڑ گئے۔ بالآخر فاروق لغاری بھی مشرف کے دام الفت میں گرفتار ہوئے اور پارٹی محمد علی درانی سمیت ق لیگ میں ضم کر دی۔ لغاری صاحب تہی دست کبھی نہ تھے۔ تہی دوست تھے یا نہیں اس کا اندازہ ان کے جنازے میں شامل اشرافیہ اور اکابرین کی شرکت سے کیا جا سکتا ہے۔ لغاری صاحب کا تعلیمی و سیاسی تجربہ جتنا فراواں تھا دستر خوان اتنا ہی ویراں تھا۔ 
جو انسان دنیا میں آیا اس نے جانا بھی ہے۔ یہ انسان پر ہی منحصر ہے کہ وہ آگے کیا بھیجتا ہے اور پیچھے کیا چھوڑ جاتا ہے۔ فاروق لغاری بھی فانی تھے گذشتہ روز 19 اکتوبر 2010ء کو دنیا چھوڑ گئے۔ دنیا میں جو چھوڑ گئے اس کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ ان کے کارنامے بولتے رہیں گے۔ آج میڈیا میں ان کے انتقال کی سرسری سی خبر نشر اور شائع ہوئی ہے۔ وہ پیپلز پارٹی میں موجود ہوتے تو کیا ان کی وفات پر ایسا ہی سکوت ہوتا؟ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ ۔۔ وہ ساتھ کچھ نہیں لے گئے موجودہ حکمرانوں نے بھی کچھ نہیں لے جانا۔ پھر بھی سو برس کا سامان کیا جا رہا حالانکہ پل کی خبر نہیں اپنے پیٹ کے دوزخ بھرے جا رہے ہیں‘ ان کو قوم کا کوئی احساس نہیں خیال نہیں اور بالکل صبر نہیں۔ خدا فاروق لغاری کی مغفرت فرمائے۔


Wednesday, October 20, 2010

دستِ قدرت کا انتظار

بدھ ، 20 اکتوبر ، 2010
 پھولوں کی سرزمین، خوشبوؤں کی دھرتی میں ایک طرف غیروں نے بارود پھیلا دیا ہے تو دوسری طرف سیاستدانوں اور حکمرانوں نے زہر آلود زبانوں‘ ہوس زدہ ارمانوں اور عدم برداشت کے پیمانوں سے رنگ نور کے مصدر‘ اجالوں کے کشور اور حسیں نظاروں کو جھلسا اور گہنا دیا ہے۔ سیاست کا چلن ایسا کہ ہر پارٹی حکمران ہے۔ حکمران اگر غلط روش اختیار کریں تو ان کو کون سمجھائے؟ اپنے اپنے مفادات کیلئے سرگرداں‘ جہاں مفاد کو زک پہنچتی نظر آئی دست و گریباں۔ ہر پارٹی نے قصیدہ گو اور ہجوگو رکھے ہوئے ہیں۔ جو مورخ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ سب خود کو پاک دامن مخالفوں کو روسیاہ قراردینے پر تلے ہوئے ہیں۔ سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے؟ شفاف اور گدلے پانی کا دھارا بنا دیا گیا ہے۔ ملک بھر میں بدامنی اور شورش کی کچھ آگ غیروں نے لگائی لیکن ہماری مرضی سے‘ اس کو شعلوں میں حکومتی پالیسیاں تبدیل کر رہی ہے اور کچھ آگ ہم خود لگا رہے ہیں‘ شعلے بھڑکا رہے الاؤ دہکا رہے ہیں۔ بلوچستان میں بھائی بھائی کو اڑا رہا ہے۔ کراچی میں بھی بھائی بھائی پر ستم ڈھا رہا ہے کلمہ گو لسانیت اور قومیت کے نام پر ایک دوسرے کو ذبح کر رہے ہیں۔ کون کیا کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے؟ سب معلوم ہے لیکن اسے روکنے کی کوئی سبیل کی جاتی ہے نہ تدبیر‘ دست قدرت کا انتظار ہے وہ بھی صرف مظلوموں بے بسوں اور بے کسوں کو‘ اونچے شملے‘ لمبی گردن اور بڑھی ہوئی توند والوں کو کوئی پروا نہیں ان کی کمشن کرپشن اور بھتے کی گیم چل رہی ہے۔ کوئی باری لے رہا ہے تو کوئی باری کا منتظر ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک اور وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کی زباں سے خیر کی خبر اعلیٰ حکمرانوں کی طرح کم ہی نکلتی ہے۔ ذوالفقار مرزا جو اپنے صوبے میں قیام امن کے ذمہ دار ہیں فرماتے ہیں کہ کراچی امریکہ کو ٹھیکے پر بھی دے دیا جائے تو بھی فوری امن ممکن نہیں۔ امریکہ کا نام اور فون سن کر ان کی حکمران جماعت یا پرویز مشرف اور حواریوں کی جان جاتی ہے۔ امریکہ بندوق کے زور پر کہاں امن قائم کر سکا ہے؟ اس کی فطرت میں تو دنیا کو شر اور فساد کا گڑھ بنانا ہے، امن کا گہوارہ نہیں ہے۔ قیام امن کیلئے امریکہ جیسی ابلیسی قوت کی نہیں خلوص نیت کی ضرورت ہے… افغانستان تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ امریکہ اور روس نے اپنی اپنی جنگ اسی خطے میں لڑی۔ جنگ میں روس بھاگ گیا جنگ کے بعد امریکہ اپنے اتحادیوں جن کو وہ مجاہدین قرار دیتا تھا باہم دست و گریبان ہونے کیلئے چھوڑ گیا۔ اس شورش زدہ اور تباہ حال ملک میں مجاہدین نے سالوں اور مہینوں میں نہیں دنوں میں امن قائم کر دیا۔ اسلحہ کو زیور سمجھنے والے معاشرے نے اسلحہ جمع کرا دیا۔ پوست جوان کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن تھا اس کی کاشت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ پورے ملک میں بغیر کسی جبر اور سختی کے امن ہو گیا۔ حکمران پر خلوص تھے عوام نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ ہمارے ہاں فراڈ‘ فریب جھوٹ دھوکہ دہی کے چراغ روشن ہیں۔ سچائی دیانت اور انصاف کا جنازہ اٹھا دیا گیا ہے۔ حکمران مرضی کا انصاف چاہتے ہیں۔ عدالتوں پر الزامات اور دشنام کی بھرمار ہے ججوں پر دباؤ ہے۔ ان سے وزیراعظم کہتے ہیں ہم پ کے ساتھ مل بیٹھنے پر تیار ہیں۔ مل بیٹھیں گے تو انصاف خاک ہو گا۔ ایک دانشور نے درست کہا کہ حکومت ججوں کو کہتی ہے بحالی کے ایگزیکٹو آرڈر کی توثیق باقی ہے جنرل کیانی کو کیوں نہیں کہتی کہ مدت میں تین سالہ توسیع کی بھی توثیق ہونا ہے۔ یہ عدالتوں کو لاوارث فوج کو قوت جبروت سمجھتے ہیں۔ فوج کے سامنے سر جھکا کے عدلیہ کے آگے سینہ پھلا کے بات کرتے ہیں۔ وہاں چڑیا یہاں شاہین بنے پھرتے ہیں۔ نیت صاف ہو تو خدا بھی مدد کرتا ہے۔ انہوں نے محض ایک استثنیٰ کی خاطر تمام اصول و ضوابط قانون، آئین حتیٰ کہ انسانیت بھی داؤ پر لگا دی۔ معاشرے میں اتحاد کے بجائے انتشار کو فروغ دیا۔ ترک وزیراعظم طیب اردگان پاکستان آئے تو بار بار قومی اتحاد کا درس دیتے رہے۔ وہ واپس گئے تو اگلے روز عالمی میڈیا میں ایگزیکٹو آرڈر کی واپسی اور اس پر عدالتی کارروائی کی خبروں پر ایک تماشا لگا ہوا تھا۔ برادر اسلامی ملک کے وزیراعظم نے پاکستان‘ پاکستان کی سیاسی قیادت اور قومی اتحاد کے بارے میں دئیے گئے مشوروں کے بارے میں کیا سوچا ہو گا! … این آر او حکومت کی دکھتی رگ سے اگر یہ حکمرانوں کیلئے چھچھوندر بن گیا ہے تو آسان حل ہے۔ معاملہ عدالتوں سے ہٹا کر عوامی عدالت میں لے جائیں۔ اس پر ریفرنڈم کروا لیں اگر آپ بھی طیب اردگان کی طرح عوام میں مقبول ہیں تو ریفرنڈم میں تاخیر مت کیجئے۔


Monday, October 18, 2010

پاکستان میں عیسا ئیت کاپرچار

19-10-10

عیسائی، یہودی، ہندو اور دیگر مذاہب سے تائب ہو کر اسلام قبول کرنے والی معروف شخصیات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ عدی امین سابق صدر یوگنڈا، ایاسو پنجم سابق شہنشاہ ایتھوپیا، عمر بونگو صدر گیبون، ٹور کوئیٹو سعودی عرب میں اطالوی سفیر، محمد علی کلے باکسر، محمد یوسف پاکستانی کرکٹر، عمر شریف مصری اداکار، سمیتا دیوی بنگلہ دیشی اداکارہ، نادرہ بھارتی اداکارہ، یوسف اسلام برطانوی گلوکار، یو این رڈلی برطانوی صحافی، عبدالاحد داؤد عیسائی مبلغ، یوسف ایسٹن عیسائی مبلغ، حامد الگر انگریز پروفیسر، مریم جمیلہ یہودی سکالر، کملا داس ثریا بھارتی شاعرہ ۔۔۔ دور جدید میں ان سمیت لاکھوں لوگ مسلمان ہوئے، چند ایک تبلیغ سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں آئے۔ اکثر نے اسلام کو سٹڈی کرتے ہوئے اپنے مذاہب سے موازنہ کیا پھر حقیقت کو تسلیم کرنے میں دیر نہ لگائی۔ یہودیت میں کسی کو داخل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ہندو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ہندومت میں شامل ہونے کا پربھاکرن کرتے رہتے ہیں۔ عیسائی ایک منظم طریقے سے پوری دنیا میں لوگوں کو عیسائیت میں لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی پوری دنیا میں ایک بھی اہم شخص نہیں ملے گا جو اسلام چھوڑ کر عیسائیت ہندومت یا کسی دوسرے مذہب میں شامل ہوا ہو۔ 
آگے چلنے سے پہلے نوائے وقت میں شائع ہونیوالی خبر پر نظر ڈالتے ہیں، کراچی میں عیسائی مبلغین نے سادہ لوح مسلمانوں کو عرصہ سے مرتد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ عیسائی مبلغین ہر سال اکتوبر میں وائی ایم سی اے گراؤنڈ میں شفاعیہ پروگرام منعقد کرتے ہیں جہاں ملک بھر سے مصیبت کے مارے، بیروزگاروں اور بیماروں کو لایا جاتا ہے۔ ایک فارم پُر کروا کے اگلے سال تک ان سے رابطہ رکھا جاتا ہے۔ عیسائی مشنری وقفے وقفے سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ان کو حضرت عیسیٰ معجزات سے آگاہ کرتے ہیں۔ موم ہونے والوں کو اگلے پروگرام میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں جہاں کہا جاتا ہے کہ اندھے دیکھنے، لولے لنگڑے چلنے اور گونگے بولنے لگتے ہیں لیکن یہ سب حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے سے ہوتا ہے آپ بے شک ہمارا مذہب نہ مانیں دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ ان کے جھانسے میں آ کر کئی کمزور عقیدہ لوگ عیسائیت اختیار کر لیتے ہیں اور عیسائی مبلغ کے مطابق گزشتہ سال 4 ہزار افراد کو عیسائی بنایا گیا پاکستان میں کئی درجن این جی اوز عیسائیت کی تبلیغ کر رہی ہیں۔ کراچی میں باقاعدہ ایک تبلیغی مرکز بھی زیر تعمیر ہے۔ مشنریوں کو امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، سوئٹزر لینڈ، جرمنی، اٹلی اور جنوبی کوریا سے خطیر فنڈز ملتے ہیں۔ 
ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا پر اسلام کی حقانیت واضح ہو رہی ہے۔ امریکہ کی سرپرستی اور چودھراہٹ میں مغرب اسلام پر یلغار کئے ہوئے ہے۔ یہی اسلام کے پھیلاؤ کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ عیسائیت اور یہودیت ایک دوسرے سے لگا نہیں کھاتے ہیں۔ آج دونوں ڈوب رہے ہیں۔ ان کو مسلمانوں اور اسلام سے خطرہ ہے۔ اسی لئے اسلام کے خلاف دونوں یک جان ہو گئے اور کچھ اسلامی ممالک کے حکمران بھی یہودیوں اور عیسائیوں کے آلہ کار بن گئے ہیں۔ ایک طرف یہودی اور عیسائی دنیا سے اسلام کا نام بارود سے مٹانے پر تُلی ہوئی ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کو عیسائیت میں داخل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دنیا میں اسلامی لٹریچر اور سکالروں کی کمی نہیں ہے لیکن لٹریچر ہر مسلمان تک پہنچ پا رہا ہے نہ سکالرز اور علما۔ دیہات میں عموماً درسوں سے بھاگے ہوئے یا چند آیات یاد کرنیوالے بیروزگار امام اور خطیب بن جاتے ہیں یہ دوسروں کو استقامت پر کیسے قائم رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان سیکولر نہیں، اسلامی جمہوریہ ہے جہاں اسلام کے سوا کسی مذہب کو تبلیغ اور تبلیغی مراکز قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایسے ادارے بند کرائے جن کی سرگرمیوں سے مسلمانوں کے جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ مذہبی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی توجہ فنڈز جمع کرنے کے ساتھ ساتھ مشنریوں کے محاسبے اور نشاندہی کی طرف بھی مرکوز کرے۔


Sunday, October 17, 2010

بھکاری


18-10-10
 فضل حسین اعوان
دنیا کا بیک وقت مشکل اور آسان ترین کام بھیک مانگنا ہے۔ بھیک مانگنے کا ارادہ باندھنے سے بھکاری کے درجے پر فائز ہونے تک کا راستہ ہی کٹھن ہے۔یہ منزل طے ہو جائے تو پھر کوئی مشکل باقی نہیں رہتی، گویا گوہر مقصود ہاتھ آ گیا۔ مانگنا بھی ایک نشہ ہے۔ جس کو یہ لگ گیا پھر چھوٹتا نہیں ہے۔ کوئی دعا دے کر مانگتا ہے۔ کوئی نہ ملنے پر بددعا دیتا ہے، کوئی تڑی سے مانگتا ہے تو ہاتھ باندھ کر، کوئی ٹکے کا بھکاری، کوئی پانچ، دس، ہزار، لاکھ، کروڑ اور اربوں کا۔ کئی منگتے ہاتھ میں روپے دو روپے کا سکہ دیکھ کر منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں اور کہہ کر چل دیتے ہیں” اپنے بچوں کے کچھ لے جانا“۔ کئی اچک بھی لیتے ہیں۔ ایک فقیر نے ایک گھر پر صدا لگائی” خدا کے نام پر آٹا چاول دے دو“۔ گھر سے آواز آئی ”معاف کرو۔ نہیں ہے“۔ فقیر نے کہا ”روٹی دال دے دو“۔ جواب نہیں میں آیا تو کہا” چلو پانی ہی پلادو“۔ اس پر بھی ناں ہوئی تو فقیر نے کہا ” تو گھر میںکیا کرتے ہو۔ آﺅ میرے ساتھ مانگنے نکلو۔ یہ سنا تو خاتون خانہ نے غصے میں آکر باسی روٹی لا کر اس کے سامنے رکھ دی، فقیر کو کسی گھر سے آدھی کسی سے اس بھی کم روٹی ملی تھی، ٹکڑے جھولی میں پڑے تھے۔ اس نے روٹی کو غور سے دیکھا اور بولا” اس کی چینج (بھان) لینی ہے....؟۔ ایک بھکاری کو گاڑی والے نے ہاتھ پھیلانے پر ڈانٹتے ہوئے کہا” شرم نہیں آتی، مانگ رہے ہو،گبھرو ہو، نوجوان ہو، تنو مند ہو“۔ اس پر بھکاری بولا” دس روپے نہیں دینے تو گبھرو جوان کو رشتہ دے دو!“۔
گورنر مکہ کے پاس مرسڈیز میں ایک شخص آیا اوربتایا کہ ضرورت مند ہوں، 50 ہزار ریال کا سوال ہے۔ گورنر نے ادا کر دیئے۔ وہاں موجود لوگوں نے پوچھا” سوالی امیر کبیر لگتا تھا آپ نے اتنی رقم دیدی“ گورنر نے جواب دیا جو خود سوالی بن گیا، منگتا بن گیا، ہمیں اس کی تحقیق کرنے کی کیا ضرورت؟“۔۔۔شاہ فیصل اپنے محل میں تشریف فرما تھے ایک اجنبی نے آ کر اپنا تعارف کروایا اور ایک لاکھ ریال ضرورت کے لئے مانگے۔ شاہ فیصل نے اگلے ہفتے آنے کو کہا۔ وہ مقررہ روز آپہنچا اور اپنا سوال دہرایا۔ شاہ فیصل نے کہا” تم مستحق نہیں ہو۔ تمہاری فلاں فلاں جائیداد اور دو بیویاں بھی ہیں“۔ اس پر اجنبی نے کہا ”فیصل! ایک تو آپ نے میری مدد نہیں کی اوپر سے مجھے جھوٹا قرار دیا۔ میری جاسوسی بھی کروائی۔ حالانکہ نبی کریمﷺ نے ایسی ٹوہ لگانے سے منع کیا ہے۔ میں ابھی چلا جاتا ہوں لیکن آپ قیامت کے روز رسول اللہ کو کیا جواب دو گے“۔ اس پر شاہ فیصل نے اس شخص سے سر محفل معذرت کی۔ اسے عزت و احترام سے بٹھایا اور ضرورت پوری کر کے رخصت کیا۔
ٹکہ ٹکہ مانگ کر اکٹھا کرے یا 50 ہزار اور ایک لاکھ ریال بیک وقت پالے۔ بھکاری بھکاری رہتا ہے۔ اس کے سٹیٹس میں کوئی فرق نہیں آتا۔ رقم یا کسی بھی صورت میں کوئی جائیداد وغیرہ جو بغیر محنت کے آپ کی ہو گئی۔ وہ بھیک یا دھوکہ دہی ۔ ہمارے حکمران بیرون ممالک دوروں پر جاتے ہیں۔ ان کا ریڈ کارپٹ استقبال ہوتا ہے، بڑی آﺅ بھگت ہوتی ہے ۔بے شکن سوٹ زیب تن ہوتے ہیں۔ ساتھ گئے وزیر مشیر نوکروں کی طرح آگے پیچھے چلتے پھرتے ہیں۔ یہ کاسہ لیس اور حاشیہ بردار،لاکھوں روپے کرائے کی لیموزین پر سیریں کرتے ہیں۔ جب سربراہِ قافلہ کی اپنے ہم منصب سے ملاقات ہوتی ہے تو آہستگی سے اس کے سامنے کشکول کر دیا جاتا ہے۔ انہیں ”اللہ کے نام پر“ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ان کو زلزلے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا علم ہوتا ہے۔ وہ استطاعت کے مطابق کشکول میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ پوری دیانتداری سے قوم کی امانت کو اپنے ذاتی بنک اکاﺅنٹس میں محفوظ کرا دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی پابندیوں کی زد میں آیا ایران زمینی اور آسمانی مصیبت سے دوچار ہو تو دنیا سے امداد لینے سے گریز کرتا ہے۔ ہمارے حکمران آفات ارضی و سماوی کو بھی رحمت گردانتے ہیں۔ عذاب میں صرف عام لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کیلئے بھیک کے راستے کھل جاتے ہیں۔ خیرات منت کرکے لی جائے یا اکڑ کر ، جھولی بھرنے کے بعد اکڑفوں ختم ، ساتھ غیرت اور حمیت بھی۔غلامی کی زنجیریں ،دل دماغ اور عقل و شعور ،سب کوجکڑ لیتی ہیں۔پھر ان حکمرانوں کی وجہ سے ملک و قوم کی وہی حالت ہوتی ہے جو آج وطنِ عزیز کی ہے۔ 





جمہوریت کو پھر بھی چلنے دیں


17-10-10
فضل حسین اعوان ـ
مفروضوں پر رائے قائم کرنا۔ اسے حتمی قرار دیکر عمل پیرا ہونے کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔ علی احمد کرد کی رائے میں سپریم کورٹ کے ججوں کو رات ایک ڈیڑھ بجے ہنگامی اجلاس طلب نہیں کرناچاہیے تھا۔ گو سپریم کورٹ نے ایک سخت فیصلہ دیا ہے کہ ججوں کو ہٹانا آئین توڑنے کے مترادف ہوگا اور یہ بھی کہا ہے کہ ایگزیکٹو آرڈر واپس نہیں لیا جاسکتا۔ لیکن یہ شاید کبھی ثابت نہ ہو کہ حکومت نے ایگزیکٹو آرڈر واپس لینے کا کوئی فیصلہ کیا تھا۔اس صورت میں بھی کہ فیصلہ ہوچکا تھا۔ یہ توواضح فیصلوں کو روند ڈالتے ہیں مذکورہ فیصلہ تو ابھی پائپ لائن میں تھا۔ ان حالات میں جب ملک بحرانوں میں دھنسا ہوا ہے۔ پوری قوم حکومت کی پالیسیوں سے بیزار ہے اور عدلیہ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ حکومت عدلیہ پر شب خون مارنے کی جرأت نہیں کرسکتی۔ اگر حکومتی حلقوں کی جانب سے ایسا ہوا ہے تو یہ ان کے ذہنی خلفشار اور انتشار کی غمازی کرتا ہے اور ڈر لگا رہتا ہے کہ معاملات واقعی ذہنی مریضوں کے ہاتھوں میں تو نہیں آگئے؟
عمومی تاثر ہے کہ لوگ حکمرانوں کے چہرے دیکھ دیکھ کر تنگ آجاتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر حکمران خود کو عوام کا بڑا، خیر خواہ اور مخلص ثابت کریں تو لوگ یقینا ان سے محبت کریں۔ عموماً صاحبان اقتدار عوام سے دوری اختیار کرلیتے ہیں۔ ہر معاملے میں واضح فاصلہ اور فرق روا رکھا جاتا ہے۔ آج کی حالت ملاحظہ فرمائیے۔ ملک میں کونسا بحران ہے جو نہیں ہے۔ یہ سب حکمرانوں کے پیداکردہ ہیں ملکی پیداوار چینی 80روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔ گزشتہ ماہ ٹماٹر ڈیڑھ سو روپے کلو تک فروخت ہوتے رہے سبزی اوردالیں بھی فی کلو 100تک پہنچادی گئیں گو یہ چیزیں سیاستدان اور حکمران نہیں بیچتے لیکن ان پر کنٹرول تو انہوں نے کرنا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے ہرپاکستانی تنگ ہے۔ بھارت کے ساتھ معاملات میں بزدلی کا مظاہرہ کیاجاتا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل سستا ہو تو بھی پاکستان میں اس کی قیمت ماہ بہ ماہ بڑھا دی جاتی ہے۔ اوپر سے قلت بھی رہتی ہے۔ پوری قوم امریکی جنگ کا ایندھن بن رہی ہے۔ عدلیہ کو آگے لگایا ہوا ہے۔ وزیراعظم نے جو کہا عدلیہ کہتی ہے لکھ دیں جواب میں کہا جاتا ہے وزیراعظم مصروف ہیں۔
ایسے حالات پیدا کرنے کا جو بھی ذمہ دار ہے کیا عوام اس کے صدقے واری جائیں گے۔ اس کے باوجود بھی جمہوریت اہم ہے۔ اگر جمہوریت ایک تماشا ہے تو یہ لگا رہنے دیا جائے اگر کھیل ہے تو کھیلنے دیاجائے اگر نظام ہے تو چلنے دیاجائے۔ پاکستان ہمیشہ رہنے کیلئے بنا ہے اور انشاء اللہ قائم رہے گا ۔ جمہوریت اس کا مقدر ہے البتہ جمہوریت کبھی کبھی بازاری لوگوں کے پاس آکر چلّا اٹھی ہے۔ ’’ مجھے بچائو‘‘ اسے بچانا بھی جمہوری اور سیاسی انداز میں چاہیے۔ اگر آج سیاستدانوں کو راہِ راست پر لانے کیلئے کوئی مہم جوئی کی جاتی ہے جس کیلئے کچھ لوگوں کے دلوں میں بے پایاں خواہش بھی مچلتی ہے تو 8دس سال بعد ہمیں پھر جمہوری سفر یہیں سے شروع کرنا پڑے گا… جمہوریت کا سفر جاری رہتا ہے تو بھٹکے مسافر بھول بھلیوں میں کھوتے ہوئے بالآخر صحیح ڈگر پر آنکلیں گے۔
برطانیہ میں حکومتی مدت کبھی 7سات ہوا کرتی تھی۔ جو جمہوری روایات کے حامل معاشرے نے 5سال کردی۔ دیگر بہت سے ممالک میںبھی یہی مدت ہے۔ البتہ امریکہ سمیت کئی ممالک میں 4سال بھی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے 93کے الیکشن کے دوران نعرہ لگایا کہ وہ اقتدار میں آئیں تو اسمبلیوں کی مدت4سال کردیں گی۔ وہ اقتدار میں آگئیں تو سیاستدانوں کی طرح اپنا وہ وعدہ بھول گئیں جس سے ان کی حکومت کی مدت ایک سال کم ہوجاتی۔ تاہم ان کی حکومت ان کے اپنے جیالے صدر نے چارسال مکمل ہونے سے بھی پہلے ختم کردی تھی۔ سیاستدانوں کی خرافات، ایک دوسرے پر الزامات اور زہر ناک بیانات کے باوجود بھی جمہوریت جیسی بھی ہے چلتی رہنی چاہیے۔ موجودہ حالات کے پیشِ نظر اگر حکومت اور اسمبلیوں کی مدت4 سال کردی جائے تو پاکستان میں جمہوریت کے دوام کیلئے یہ بہتر ثابت ہوگی۔ جمہوری کلچر مستحکم ہوجانے پر پھر سے 5سال کی جاسکتی ہے قوموں کی زندگی میں'50 60سال کوئی طویل عرصہ نہیں ہوتا۔ قیام پاکستان کے بعد اگر جمہور ی سفر جاری رہتا تو یقینا پاکستان مضبوط اور ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہوتا۔اگلے 50,60 سال میں بھی ہم ایک مضبوط جمہوری معاشرہ بن جاتے ہیں تو یہ کوئی طویل مدت نہیں ہے۔ جمہوریت مضبوط اسی طور ہوسکتی ہے کہ اسے چلنے دیاجائے۔ اس پودے کی خلوص کے ساتھ آبیاری کی جائے اور اسے آمریت کی لو اور تھپڑوں سے بچایا جائے۔

لیاقت علی خان کا قتل۔۔۔ سچائی کمیشن کی ضرورت

16 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ 
پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں جلسہ عام کے دوران 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کر دیا گیا۔ مناسب تحقیقات نہ ہونے کے باعث مجرم بچ نکلے۔ اس کے بعد سے سیاسی رہنمائوں کے قتل اور مجرموں کے بچ رہنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ جتنے پراسرار سیاسی قتل پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں ہوئے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوئے ہوں۔ اگر نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کرنے والوں کو بے نقاب کیا جاتا اور مجرموں کو سزا مل جاتی تو شاید قوم کو بہت سے قائدین کی بے وقت موت کے صدمے سے دوچار نہ ہوتا۔
نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد 9 مئی 1958ء کو پٹواری عطاء محمد نے صوبہ سرحد کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کو لاہور میں قتل کر دیا۔ 5 دسمبر 1963ء کو پاکستان کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی لبنان کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کو ان کو زہر دیا گیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد 8 جون 1972ء کو راجن پور میں قتل ہوئے۔ خواجہ رفیق کو بھی 20 دسمبر 1972ء کو لاہور میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اچکزئی قبیلے کے قوم پرست رہنما عبدالصمد اچکزئی 2 دسمبر 1973ء کو ایک بم کا نشانہ بنے۔ حیات محمد خان شیر پائو 8 فروری 1976ء کو دہشت گردی کی واردات میں مارے گئے۔ چودھری ظہور الٰہی 25 ستمبر 1981ء کو لاہور میں بے رحم قاتلوں کی فائرنگ کی زد میں آ گئے۔ فاضل راہو کو 7 جنوری 1987ء کو اپنے گائوں گولارچی سندھ میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 23 مارچ 1987ء کو دہشت گردی کی واردات علامہ احسان الٰہی ظہیر کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ رئیسانی قبیلے کے سردار غوث بخش رئیسانی 26 مئی کو کوئٹہ میں قتل ہوئے۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے رہنما علامہ عارف الحسینی کو 15 اگست 1988ء میں پشاور میں گولیوں کا نشانہ بنے۔ جنرل ضیاء الحق جنرل اختر عبدالرحمن اور ان کے تیس اہم ساتھیوں بمعہ امریکی سفیر اور جنرل رافیل کے 17 اگست 1988ء کو جہاز میں اڑا دیا گیا۔ صوبہ سرحد کے سابق گورنر جنرل فضل حق 11 اکتوبر 1991ء کو دہشت گردوں کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے عبوری سربراہ عظیم احمد طارق بھی اپنے گھر میں قتل کر دئیے گئے۔ حکیم محمد سعید 17 اکتوبر 1998ء میں کراچی میں قتل ہوئے۔ پاکستان سنی تحریک کی پوری قیادت کو 18مئی 2001ء میں دہشت گردی کی واردات میں مار ڈالا گیا۔ مولانا اعظم طارق 14 اکتوبر 2003ء میں اسلام آباد کے نزدیک قتل ہوئے۔ عمر اصغر خان 25 جون 2002ء کو کراچی میں بند کمرے میں مردہ پائے گئے۔ سابق وزیر خارجہ صدیق خان کانجو 2001ء کو ملتان میں قتل ہوئے۔ نواب اکبر خان بگٹی 26 اگست 2006ء کو ایک اپریشن کے دوران غار میں دبا دئیے گئے۔ غلام حیدر وائیں 20 اکتوبر 1993ء میں اپنے حلقے میں مسلح افراد کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔ مرتضیٰ بھٹو کو ان کی بہن کے وزارت عظمیٰ کے دور میں 1996ء کو پولیس نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ 27دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو کو اسی جگہ قتل کر دیا گیا جہاں نوابزادہ لیاقت علی خان 1951ء کو مار ڈالا گیا تھا۔ 
مذکورہ سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کے قتل کی تحقیقات اول تو مناسب طریقے سے ہوئی نہیں‘ ہوئی بھی تو اصل محرکات سامنے آ سکے نہ مجرم۔ مذکورہ قتلوں کے علاوہ بھی ملک میں قومی تباہی اور کوتاہی کے واقعات ہوئے۔ بے نظیر بھٹو نے ہمیشہ سچائی اور مصالحتی کمشن (truth and reconciliation comission) کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔ جو ہماری قومی تاریخ کا جائزہ لے اور نشاندہی کرے کہ کون کون سی اور کہاں کہاں غلطیاں 
اور غفلت ہوئی۔ کمیشن یہ بھی جائزہ لے کہ قائداعظم اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی المناک اور کمپرسی کی حالت میں رحلت کیونکر ہوئی۔ قائدِ ملت لیاقت علی خان کا قتل، راولپنڈی سازش کیس، مشرقی پاکستان کی علیحدگی، اوجڑی کیمپ، کارگل مہم جوئی، سانحہ لال مسجد، اکبر بگٹی اور بے نظیر کی دردناک اموات جیسے تمام قومی سانحات کی تحقیق بھی کمشن کے دائرہ اختیار میں شامل ہو، تاہم اس میں وطن عزیز کے 32 سال برباد کرنے والے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرز کا محاسبہ بھی ہونا چاہئے۔ اس کا تعین بھی سچائی کمیشن کردے۔


Friday, October 15, 2010

مارشل لاؤں کے راستے بند ہو سکتے ہیں


جمعۃالمبارک ، 15 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
انتخابات کے انعقاد پر حکومت کے اربوں، امیدواروں کے کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پور ے ملک میں کئی ماہ تک گہما گہمی رہتی ہے، پرانی دوستیاں دشمنی اور دشمنیاں یاری میں بدلنے کی بھی یہی رُت ہے۔ دنگا فساد، مارکٹائی تشدد، قتل وغارت کے واقعات ہمارے ہاں ہونے والے انتخابات کا خاصہ ہیں۔ الیکشن جیتنے کے لئے دھونس دھاندلی، جبر لالچ ہر حربہ آزمایا جاتا ہے۔ جائیدادیں بیچی، ووٹیں خریدی جاتی ہیں۔ رزلٹ آنے پر جیتنے والے نہال بے شمار ہارنے والے کنگال ہو چکے ہوتے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے لئے گٹھ جوڑ ہوتے ہیں، بولیاں لگتی ہیں۔ عوامی نمائندے ووٹروں سے دور، بہت دور وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں شہر کی رنگینوں میں کھو جاتے ہیں۔ آدھے وزیر مشیر پارلیمانی سیکرٹری بن کر فل مراعات انجوائے کرتے ہیں باقی قائمہ کمیٹیوں کے عہدیدار اور ممبر بن کر اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ اقتدار کی چکاچوند میں آئین قانون عوام اور عوامی مسائل سب فراموش، ہوش اس وقت آتا ہے جب گردن پر بھاری بوٹ آ پڑتا ہے۔ الیکشن کے شیڈول کے اجرا سے حکومتوں کی تشکیل اور بعدازاں کاروبار حکومت چلانے تک کتنے اخراجات ہو چکے اور کتنے ادارے تشکیل پا چکے ہوتے ہیں۔ صدر، وزیراعظم وزیر مشیر گورنر وزرائے اعلیٰ بلٹ پروف گاڑیوں کے قافلے میں بڑے طمطراق سے رکی ٹریفک کے دوران رواں ہوتے ہیں۔ مضبوط اور سپریم پارلیمنٹ اور طاقتور پارلیمنٹیرین موجود ہوتے ہیں، ایسے میں صرف ٹرپل ون بریگیڈ کی ایک جیپ اور چند بندوق برداروں کا ایک ٹرک ساری شان و شوکت اور جاہ وحشمت خاک میں ملا دیتا ہے اس کے باوجود کہ ایسے اقدام کی آئین میں آرٹیکل 6 کے تحت سزا موت ہے۔
1973ء میں آئین کی تشکیل کے بعد اسی آئین کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا اب مارشل لاء کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا گیا ہے۔ تاہم محض چار سال کے اندر مارشل لاء بڑے کروفر کے ساتھ مسلط کر دیا گیا تھا۔ بات مارشل لاء تک ہی محدود و موقوف نہیں رہی۔ ضیاء الحق نے آئین کے بانی اور خود ان کو فائلوں کی تحت الشریٰ سے نکال کر آرمی چیف بنانے والے وزیراعظم کو تختہ دار تک بھی پہنچا دیا۔ نواز شریف کے دور میں آٹھویں ترمیم ختم کی گئی تو بڑی خوشی اور مسرت سے نعرہ لگایا گیا کہ اب مارشل لاء قصہ پارینہ بن جائے گا پھر سب نے دیکھا کہ مشرف نے ایک جمہوری حکومت کو الٹا دیا۔ نوازشریف کو خاندان سمیت اذیتوں اور جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔
گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے رہنما میاں شہبازشریف نے کہا ’’یقین ہے مشرف آخری آمر تھے۔ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔‘‘ شہبازشریف کے ملک میں مارشل لاء نہ آنے کے یقین کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔ اس کا ادراک صرف ان کو ہی ہو سکتا ہے۔ تاہم حکمرانوں اور سیاستدانوں نے وہ تمام لوازمات پورے کر دیئے ہیں جو آمریت کے لئے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں۔ اگر ہماری سیاسی جماعتیں دشنام طرازی، عدم برداشت، نفاق اور نفرت کے بجائے اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرتیں تو مارشل کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ آئین موجود ہے آرٹیکل 6 اپنی جگہ ہے لیکن طالع آزماؤں اور مہم جوؤں کو اس کی کبھی پرواہ نہیں ہوئی۔ اس لئے کہ آئین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کو ان کے ادوار کے بعد کسی نے نہیں پوچھا تو ضیاء الحق کو بھٹو کا تختہ الٹنے کی شہ ملی۔ ضیاء الحق بھی گیارہ سال وردی کے زور پر حکومت کر گئے اور پورے اعزاز کے ساتھ دفن ہوئے تو مشرف کو بھی جمہوری حکومت تاراج کرنے کا حوصلہ ملا۔ مشرف کو گارڈ آف دے کر رخصت کیا تو ان کے جانشین بھی اپنے پیشروؤں جیسی سوچ رکھ سکتے ہیں ہر آرمی چیف جنرل کیانی کی طرح پیشہ ور نہیں ہو سکتا۔ جو فوج کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ مارشل لاؤں کے راستے میں ایک ہی بند ہو سکتا ہے بہت بڑا بند، ناقابل تسخیر رکاوٹ، سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل دوسری صورت میں حکمران رفتِ سفر باندھ رکھیں۔

Thursday, October 14, 2010

مقامِ گداگری


 جمعرات ، 14 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
لوگ پرانے حکمرانوں سے تنگ پڑتے ہیں تو نئے آنے والوں کے لئے چشم براہ ہو جاتے ہیں۔ نئے آنے والوں سے بڑی بڑی توقعات رکھتے اور امیدیں باندھ لیتے ہیں لیکن یہ بھی اپنی پالیسیوں اور اپنے پیشروﺅں کے نقش قدم پر چلنے کے باعث بہت جلد پرانے ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں عرصہ سے یہی چلتا آ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تو روزِ اوّل یعنی 2008ءکے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی پرانی ہو گئی ہے۔ الیکشن کے نتائج کے بعد قوم نے حکومت سے جو توقعات وابستہ کی تھیں ان کے ٹوٹنے کا آغاز وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حلف برداری کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ یہ ججوں کی رہائی کو کارنامہ قرار دے رہے ہیں، لوگ بحالی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ عوام کو یقین تھا کہ جمہوری حکومت امریکہ کے پاس بیچے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لائے گی۔ امریکہ کی جنگ سے قوم کو نجات دلائے گی۔ مشرف کی بزدلی کی بھینٹ چڑھنے والا کالا باغ ڈیم تعمیر کرائے گی۔ مسئلہ کشمیر پوری قوت اور جوش و جذبے سے اٹھائے گی۔ قوم کی گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے جان چھڑائے گی۔ سیاست میں نفرتوں کا چلن ختم کرکے امن کے دیپ جلائے گی، کرپشن کمشن سے تائب اور اس کا خاتمہ کرکے اپنی ساکھ بڑھائے گی۔ محترمہ نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے ان کے جانشینوں، وصیت زادوں پیاری جماعت سے امید تھی کہ اپنی بی بی کا قول نبھائے گی....لیکن ایک بھی توقع پوری نہ ہوئی۔ قوم شروع دن سے تنگ پڑ گئی۔ ہر نیا دن آٹے، چینی، تیل، بجلی، پانی اور گیس کی قلت کی بری خبروں کے ساتھ طلوع ہونے لگا۔ آمریت سے سلطانی جمہور کی طرف شروع ہونے والا سفرخار زار بن گیا، لوگوں کا اس مقولے سے بھی یقین متزلزل ہو گیا کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ ملک میں عدل و انصاف کے دور دورہ کی امیدیں تھیں وہ خاک ہوئیں، حکمرانوں نے عدلیہ پر یلغار کر دی، ججوں پر کبھی دبے لفظوں میں اور کبھی کھلے عام دشنام کی بھرمار کر دی، منافع میں چلنے والے ادارے ایسے لوگوں کے سپرد کر دیئے کہ ان کی حالت ٹمٹماتے چراغوں کی سی ہو گئی۔ ایک طرف این آر او زدہ ہونے کے الزام میں بڑے افسروں اور سفیروں کو برطرف کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف سزا یافتہ لوگوں کو بڑے عہدوں پر بٹھایا جا رہا ہے۔ پارٹی برادرز ان سے خوش، عوام تنگ۔ نوازے گئے لوگ راضی، میرٹ والوں کی ڈگریاں پتنگ، جھولی چُک واہ واہ کر رہے ہیں۔ رات کو بھوکے سونے والے جھولیاں چُک کر بد دعا کر رہے ہیں....اس سب کے باوجود صدر صاحب کہتے ہیں، مدت پوری کریں گے، گیلانی صاحب کا فرمان ہے عوام نے 5سال کا مینڈیٹ دیا، مخالفین اس مدت کا انتظار کریں۔ عوام آپ سے خوش ہوں۔ آپ کی پالیسیاں ملکی قومی و عوامی مفاد میں ہوں تو رواں پانچ سال کیا اگلے پانچ سال اور اس سے بھی اگلے 5سال آپ کے ہو سکتے ہیں۔ جب کہا جائے گا ڈرون حملوں میں مرنے والوں کا افسوس نہیں تو لوگوں کو دُکھ تو ہو گا، ان کا دل تو جلے گا ۔ آپ نے تو پورے ملک میں ایک تماشا لگا رکھاہے۔ زرداری گیلانی سمیت اکثر صاحبان مراعات کہتے ہیں جیل سے نہیں ڈرتے‘ آپ کام ہی ایسے نہ کریں جیل جانا پڑے۔ بابر اعوان فرماتے صرف زرداری کو ہی ٹارگٹ کیوں بنا رکھا ہے۔ اگر زرداری صاحب کا دامن صاف ہے تو استثنیٰ کیوں مانگتے ہو ان کو حضرت عمرؓ کی مثال نہیں بتاتے‘ سوئس مقدمات کھلنے دیں صدر کی پاک دامنی سامنے آ جائے گی۔ ملک کے سب بڑے اور قابل احترام منصب کا تقاضا ہے کہ اس پر آنے والا ایماندار‘ دیانتدار اور سب سے زیادہ پاک دامن ہو۔ صدر صاحب کے دامن پر اگر کوئی داغ ہے تو وہ دُھل جانا چاہئے۔ جو آپ عدلیہ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اس نے آپ کے دامن کو تار تار کر رکھا ہے۔ پاکستان کی عدالتیں انصاف کرنا چاہتی ہیں آپ انصاف سے دور بھاگ رہے ہیں۔ زرداری صاحب نے فرمایا ہے کہ ”اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا بے نظیر کو شہادت ملی اور مجھے گداگری دے کر عوام کی خدمت کی ذمہ داری سونپی گئی“۔ آئیے دعا کریں زرداری صاحب آج گدا گری کے جس مقام پر ہیں۔ منصب‘ جاہ و جلال اور مال و دولت کے حوالے سے یہ مقامِ گداگری ہر پاکستانی کا مقدر بن جائے۔

Wednesday, October 13, 2010

اگر غیرت کی چنگاری کہیں خاکستر میں ہے


 بدھ ، 13 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
آج بھی ایس ایچ او کی دونوں بیٹیاں بس کے پچھلے اور اگلے گیٹ پر کھڑی تھیں لیکن آج صورت حال نارمل نہیں تھی۔ اسی قصبے میں دور دراز سے تعلیم کیلئے آنے والے طلبا فیصلہ کر چکے تھے کہ کچھ بھی ہو جائے۔ اسی بس پر اپنے اپنے گاؤں جائیں گے۔ کالج جڑانوالہ اور ننکانہ صاحب میں تھا وہاں سے بھی طلبہ سکول کے طلبہ کے ساتھ مل گئے تھے۔ لڑکوں کے بس میں سوار ہونے کی کوشش پر لڑکیوں نے مزاحمت کی۔ بالآخر لڑکوں نے لڑکیوں کو بس میں دھکیل دیا۔ بس کے اندر کوئی دھینگا مشتی تو نہ ہوئی البتہ بس کی رفتار سے زیادہ لڑکوں اور لڑکیوں کی زبانیں چل رہی تھیں۔ جس سٹاپ پر لڑکوں کے رنگ لیڈر نے اترنا تھا وہیں اس کے ساتھیوں نے دونوں بہنوں کو بھی کھینچ کر اتار لیا۔ دو دو تھپڑ مارے‘ بال کھینچے اور اٹھا کے بس میں پھینک دیا۔ 
لڑکیوں کا معمول تھا کہ وہ لڑکوں کو بس میں سوار نہیں ہونے دیتی تھیں۔ یہ 80ء کے شروع کا واقعہ ہے بس ڈیڑھ دو گھنٹے بعد چلتی تھی۔ لڑکے ایس ایچ او صاحب کے خوف سے لڑکیوں کے سامنے دم نہیں مارتے تھے آخر تنگ آکر لڑکیوں سے بدتمیزی کی۔ ایس ایچ او آج کی طرح ان دنوں بھی اپنے علاقے کا بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ بیٹیوں کی حالت دیکھی اور بپتا سنی۔ قامت برپا ہونا ہی تھی۔ تھانے کی پوری نفری کو ملزموں کی گرفتاری کا حکم دیا گیا آدھی رات تک بیس بائیس تمام کے تمام طالب علم حوالات میں بند تھے۔ اگلے روز ان لڑکوں کے اَبّے اپنے اپنے گاؤں کے نمبردار اور بااثر لوگوں کے ساتھ تھانے پہنچ گئے۔ بڑے تھانیدار صاحب نے چھوٹے تھانیدار کو ان کے پاس بھیج دیا۔ معززین نے اپنے بچوں کے کرتوتوں پر معافی مانگی۔ ایس ایچ او کے نمائندہ تھانیدار نے بڑی فراخ دلی سے معزز ین کی معذرت قبول کرتے ہوئے کہا کہ کالج کے طلبا کے ورثاء ایک ہزار‘ سکول کے طلبا کے لواحقین 5 سو روپے ادا کریں اور بچوں کو لے جائیں۔ ادائیگی کے بعد لڑکوں کو چھوڑ دیا گیا۔ ان میں ایک نمبردار کا بیٹا بھی تھا۔ اس نمبردار نے ایس ایچ او کو خط لکھا کہ جناب ہمارے بچوں نے آپ کی بیٹیوں کے ساتھ انتہائی گھٹیا اور ناروا سلوک کیا۔ ہم نے اس پر معافی مانگی۔ اس کے بعد ایک غیرت مند باپ ہونے کے ناطے آپ کے پاس دو آپشن تھے ہمارے بیٹوں کو غیر مشروط طور پر چھوڑا دیتے یا ان کا چالان کرکے جیل بھجوا دیتے لیکن آپ نے اپنی بیٹیوں کو بے عزت کرنے والوں کو پیسے لے کر چھوڑا۔ یہ انتہائی بے غیرتی ہے… غیرت کی چنگاری خاکستر میں کہیں موجود تھی۔ تھانیدار نے اس خط پر تبادلہ کرا لیا۔ 
پاک سرزمین پر ڈرون حملوں کا سلسلہ کئی سال سے جاری ہے۔ گذشتہ ماہ کے آخر میں نیٹو کے ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی حدود میں گھس کر تین حملے کئے۔ آخری حملے میں تین فوجی شہید ہو گئے۔ اس سے قبل 50 افراد مارے گئے تھے۔ ان حملوں پر پاکستان نے شدید احتجاج کیا اور پاکستان سے نیٹو کی زمینی سپلائی بند کر دی۔ امریکہ نے معافی مانگی آئندہ ہیلی کاپٹروں سے حملہ نہ کرنے سے توبہ کی تو 10 اکتوبر 2010ء سے سپلائی بحال کر دی گئی۔ ہیلی کاپٹر حملوں‘ سپلائی پر پابندی اور بحالی کے تمام مراحل کے دوران ڈرون حملے بدستور جاری رہے۔ کیا ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی‘ خود مختاری اور وقار کے خلاف نہیں ہیں؟ ان پر ویسا ہی ردعمل کیونکر نہیں‘ جیسا ہیلی کاپٹر حملوں پر تھا؟ کیا ہیلی کاپٹر بارود اور ڈرون پھول برساتے ہیں؟ وزیر دفاع نے نیٹو سپلائی کی بحالی کے موقع پر کہا کہ کنٹینرز پر ٹیکس لگائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرف اور اس کے جانشیں ہر معاملے میں امریکہ اور اتحادیوں سے خرچ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ کیا عزت‘ وقار اور قومی غیرت کو ڈالروں میں تولا جا سکتا ہے؟ حکمرانوں کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ امریکہ کی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے۔ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے۔ ڈالروں کے عوض اپنے بندے خواتین سمیت امریکہ کے حوالے کرنا‘ سڑکوں کے استعمال کا معاوضہ طلب کرنا اور ٹیکس لگانا بے غیرتی کی انتہا ہے اگر غیرت کی چنگاری کہیں خاکستر میں ہے تو ہر عہدیدار کو اپنا یا سابقوں کے کئے کا مداوا کرنا چاہئے۔

Tuesday, October 12, 2010

اکتوبر 99 سے سیاستدانوں نے کیا سیکھا Oct 12

منگل ، 12 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
اقتدار میں کیسے آنا ہے اور آتے رہتا ہے۔ ہمارے سیاسدانوں نے اپنے تلخ تجربات سے صرف یہی سیکھا ہے۔ کوئی فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آیا۔ کوئی چور دروازے سے‘ کوئی امریکہ کی آشیرباد سے کوئی اپنے پیاروں کو کندھا دے کر اور کوئی ایجنسیوں کا سہارا لے کر۔ جمہوری‘ نام نہاد جمہوری یا کمزور جمہوری حکومتوں پر خاکی پوشوں نے یلغار کی‘ کوڑے لگائے گئے‘ قلعوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا کانگرو کورٹس سے سیاسی بنیادوں پر سزائیں دلائی گئیں۔ پھانسیاں سیاستدانوں کا مقدر ٹھہریں۔ جلا وطنی کو تقدیر بنا دیا گیا۔ کچھ اذیتیں دے کر مار دئیے گئے کئی قتل ہوئے۔ اس کے باوجود سیاست کا قبلہ درست ہوا نہ سیاستدان صراط مستقیم پر آئے۔ 
12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف نے اس غلطی کی تلافی کرنے کی کوشش کی جوان سے جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لینے اور فوج کی باگ ڈور پرویز مشرف کے ہاتھ میں دینے کی صورت میں ہوئی۔ نواز شریف کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جائے ان کی غلطیاں کسی بھی سیاستدان سے کم نہیں وہ بھی ہیوی مینڈیٹ کے زعم میں سول آمر مطلق بن چکے تھے۔ مشرف تو فیصلہ کرنے کے بعد مشورہ کرتے تھے۔ میاں صاحب فیصلے کے بعد بھی مشورے کا تکلف نہیں کرتے تھے۔ ان کے انتخابی یعنی الیکشن کے ساتھیوں کو اب بھی شکوہ ہے کہ فارغ اور ویہلے نواز شریف آج بھی ان کو ملاقات کا وقت نہیں دیتے۔ نواز شریف کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ان کا میرٹ کو ڈی میرٹ کرکے مشرف کو آرمی چیف بنانا تھا۔ تاہم مشرف کہتے ہیں کہ نواز شریف نے یہی ایک صحیح فیصلہ کیا تھا۔ نواز شریف کے اس فیصلے سے پاکستان میں بہت کچھ بدل گیا۔ سنورا کچھ نہیں‘ بہت کچھ بگڑ گیا۔ جمہوریت کی شکل پر کالک مل دی گئی جمہوریت کو پایہ زنجیر کرکے پانچ سال پورے کرنے کیلئے ناچنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ پاکستان میں امریکہ کا عمل دخل تمام حدیں عبور کر گیا۔ اس کی طرف سے دوستی کی آڑ میں بدترین دشمنی کا سلسلہ عروج تک جا پہنچا۔ ارض پاک معاشرت کے ایسے ہی اقدامات کے باعث بے گناہ بچوں بچیوں‘ انسانوں کے لہو سے رنگین اور فضائیں بارود کی بو سے لبریز ہیں۔مارشل سیاستدانوں کی غلطیوں کے باعث آیا یا طالع آزمائی کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں۔ اس کو ہمیشہ سیاستدانوں اور عدلیہ نے کامیابیوں سے ہمکنار کیا۔ عدلیہ نے تو کافی حد تک اپنے دامن پر لگے داغ دھو ڈالے۔ سیاستدان بدنامی کے دھبوں میں اضافہ کئے جا رہے ہیں۔ بقول ان کے جمہوریت بڑی قربانیاں سے حاصل کی گئی ہے۔ اب اسی جمہوریت سے بیزار دکھائی دیتے ہیں اس کو دھکے اور ٹھڈے مار رہے ہیں۔وزیراعظم کہتے ’’میں نوکریاں دینے کا جرم کرتا رہوں گا‘ نوکریاں دینے کی پاداش میں عمر قید کے برابر جیل کاٹی‘‘۔ واقعی جس طرح آج حکمران نوکریاں دے رہے۔ صرف اپنے پارٹی برادرز حلقے کے افراد باقی قیمتاً‘ اقتدار سے جائیں گے تو جیلوں میں ہی سڑیں گے۔ اگر ملک سے باہر نہ بھاگ گئے تو…زرداری صاحب کہتے ہیں کہ نواز شریف ہمارے ساتھ ہیں۔ نواز شریف تردید نہیں کرتے۔ بلکہ کہتے ہیں جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ جس قسم کی آج جمہوریت ہے اس سے سب آگاہ ہیں مہنگامی‘ بے روزگاری‘ بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ‘ تیل کی قلت اور ہر ماہ قیمتوں میں اضافے کی ذلت آپشن‘ کمشن فراڈ دھوکہ اور نہ جانے کیا کیا یہی جمہوریت ہے؟ سیاستدانوں نے اپنے انداز نہ بدلے‘ عوام سلطانی جمہور کے ثمرات سے محروم رہے مشرف پر آرٹیکل 6 نہ لگا تو 12 اکتوبر 99ء جیسے سانحات وقوع پذیر ہوتے رہیں گے۔ مہم جو‘ بھاری لوٹ سیاستدانوں کی دم پر رکھتے رہیں گے۔

Monday, October 11, 2010

جرأت اور احساسِ تحفظ

 پیر ، 11 اکتوبر ، 2010

جرأت اور احساسِ تحفظ
فضل حسین اعوان ـ 
لاہور کے پرانے ائر پورٹ پر مسافر قطار میں کھڑے سکیورٹی والے کو اپنا ٹکٹ دکھا کر اندر جا رہے تھے۔ ائر پورٹ کی مین انٹرنس کے ساتھ سٹاف کے لئے چھوٹا سا راستہ تھا اس پر بھی سکیورٹی اہلکار چوکس کھڑا تھا۔ گو یہاں سے مسافروں کو گزرنے کی اجازت نہیں تھی تاہم اگر اکا دکا وی آئی پی، بیمار یا کوئی بوڑھا یہاں آ جاتا تو اہلکار کوئی خاص مزاحمت نہیں کرتے تھے۔ ٹکٹ چیک کر کے گزر جانے دیتے۔ اس روز بھی ایک بڑی پرسنلٹی کی حامل شخصیت یہاں سے گزرنے لگی تو جوان جس کے بازو پر سرخ V کا نشان چسپاں تھا نے بڑے احترام سے کہا ’’ سر! ٹکٹ پلیز‘‘ یوں لگتا تھا جیسے صاحب کے لئے یہ غیر متوقع سوال تھا تاہم وہ رکا، پہلے کوٹ کی دائیں پھر بائیں جیب میں ہاتھ ڈالا۔ کوٹ کی اندرونی جیبوں کو ٹٹولا۔ پتلون کی تینوں جیبوں سے ٹکٹ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ پھر ایک گھٹنا فرش پر لگایا دوسرے پر بریف کیس رکھ کر کھولا، ٹکٹ یہیں سے برآمد ہوئی، ماتھے پر غصے سے شکنیں بھی پڑ چکی تھیں، عمر یہی کوئی ریٹائرمنٹ میں دو تین سال باقی ہوں گے۔ سکیورٹی والے نے صرف تین سیکنڈ میں ٹکٹ چیک کر کے شکریہ کہہ کر واپس کر دیا۔ صاحب نے ٹکٹ پکڑتے ہوئے غصے سے کہا ’’کیا دیکھا ۔۔۔ سر ڈیٹ اور فلائٹ نمبر ۔۔۔ تم مجھے جانتے نہیں ہو، کہاں سے آ جاتے ہیں ۔۔۔ سر! میں نے کوئی گستاخی نہیں کی اپنی ذمہ داری پوری کی اور آپ کو نہ جانتے ہوئے بھی یہاں سے گزرنے کی سہولت فراہم کی ۔۔۔ بس کرو، وہ سامنے دیکھو میری بڑی گاڑی کھڑی، یہ ہے میرا ڈرائیور اور گن مین، تمہیں یہ سب نظر نہیں آیا؟ ۔۔۔ صاحب کی باتوں سے سکیورٹی والا جوان قطعاً ڈپرس اور ایمپریس نہیں تھا۔ وہ مکمل طور پر، پُراعتماد تھا۔ صاحب اس سے الجھا جا رہا تھا۔ تنگ آمد بجنگ آمد اہلکار نے کہا ’’اب تم کیا چاہتے ہو، میں تمہیں سجدہ کروں؟ مائی فٹ ۔ یہ سُنا تو صاحب ’’میں تمہیں دیکھ لوں گا‘‘ کہتے ہوئے پیر پٹختے چل دیا۔ نوجوان نے آواز کسی جہنم میں جاؤ۔۔۔ اس لے دے کے چار پانچ منٹ بعد ایک پولیس اہلکار گندھے سے گن لٹکائے ہاتھ میں کولڈ ڈرنک اور برگر پکڑے اس اہلکار کے پاس آیا اور کہا شاباش! آپ نے منہ چھٹ سیکرٹری فلاں فلاں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ اس کا ہر کسی کے ساتھ ایسا ہی گستاخانہ رویہ ہے یہ لیں کولڈ ڈرنگ اور برگر۔ میں اس کا گن میں ہوں۔ اب کم از کم ایک ہفتہ یہ ہمارے سامنے شرمندہ رہے گا۔ 
ایک بہت بڑی فیکٹری کے اندر مالکان نے بڑے افسر کو ایمبرائیڈری کی فیکٹری لگا کے دے رکھی تھی ایک دن ٹیکس والے وہاں جا پہنچے افسر کو خبر کر دی گئی۔ حکم ہوا چاروں کو بند کر دو۔ ایک گھنٹے بعد باوردی افسر اور جوان وہاں موجود تھے۔ ان کے سامنے ٹیکس لینے والوں کو پیش کیا گیا۔ چائے پلائی گئی جو خوف کے مارے کچھ ان کے حلق سے نیچے اتری کچھ نہ اتری۔ پوجھا کتنا ٹیکس ہے۔ بتایا گیا ڈیڑھ لاکھ۔ فرمایا 5 ہزار کی رسید بنا دو۔ ایسا ہی ہوا۔ ان میں سے بڑے افسر نے 5 ہزار روپے ان کی طرف بڑھائے۔ ان کے انچارج نے ہاتھ باندھ کر کہا، سر تکلف نہ کیجئے آپ نے دے دیے ہم نے لے لئے، انہیں اپنے پاس رکھئے۔ یہ ہے رسید! ہماری فوج دو معاملات میں شہرت رکھتی ہے۔ ڈسپلن اور احتساب۔ ڈسلپن کے باعث ہی ریٹائرڈ فوجی افسروں اور جوانوں کو آسانی سے نوکریاں مل جاتی ہیں۔ لیکن کچھ بڑے سرمایہ دار ملازمت کے اشتہار دیتے ہیں تو مطلوبہ اہلیت ریٹائرڈ میجر کرنل اور بریگیڈئر بتائی جاتی ہے۔ ان کو بھاری تنخواہوں پر نوکری دی جاتی ہے۔ مقصد صرف ان کے نام سے مفاد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مال کہیں رکا ہوا ہے، ٹیکس والے ’’تعاون‘‘ نہیں کرتے یا دیگر جائز ناجائز معاملات ایک فون کال پر درست ہو جاتے ہیں۔ سول میں ریٹائرڈ تو کیا حاضر سروس فوجی افسروں کو بھی کسی قسم کی مداخلت کی اجازت نہیں، فوج میں احتساب کی عظیم مثالیں موجود ہیں۔ ایڈمرل منصورالحق کو سزا ہوئی، میجر ارشد کو سندھ میں ڈاکو قرار دیکر چھ سات افراد کو قتل کرنے پر پھانسی دیدی گئی اور بھی بہت کچھ ۔۔۔ ہمارے ہاں شخصیات اور ان کی پرسنلٹی سے متاثر ہونے کا کلچر ختم ہو جائے تو بہت سے معاملات درست ہو سکتے ہیں۔ سرکاری محکموں کے اہلکاروں کو ایسی تربیت دی جائے جس کا شہکار سکیورٹی اہلکار تھا، ڈیوٹی کے دوران ملازم، وزیر مشیر، ایم این اے وغیرہ کو خاطر میں نہ لائیں اس کے لئے ان میں جرأت اور احساس تحفظ پیدا کیا جانا چاہیے۔

Sunday, October 10, 2010

’’چھوٹے اُستاد‘‘


 اتوار ، 10 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت پڑوسی ہیں۔ اس سے بھی بڑی سچائی یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ دشمنی کی ایک ہی وجہ، تنازع کشمیر ہے۔ یہ تنازع طے ہو جائے تو دونوں ممالک کے درمیان دشمنی تو شائد ختم ہوسکتی ہے لیکن ہندو بنیئے کی پاکستان سے مخاصمت کے باعث اس سے دوستی نہیں ہو سکتی۔ کوڑھ مغز اور سنگ دل بنیئے کو اس کے منافقانہ روئیے کے باعث قیامت تک چشمِ ما روشن دلِ ماشاد نہیں کہا جا سکتا۔ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان اگر دوستی اور بہتر تعلقات کی راہیں ہموار کی جاتی ہیں۔ لین دین کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ آمدورفت کیلئے ویزے کے خاتمے اور سرحدیں کھولنے کی بات کی جاتی ہے تو یہ منافقت اور مکاری ہے۔ اگر دشمن کو یکطرفہ فائدہ پہنچایا جاتا ہے تو یہ اپنی ماں کے دودھ کے ساتھ بے وفائی اور ملک و قوم سے غداری ہے۔ ایسا ہورہا ہے بلکہ اس سے بھی آگے۔ 
نوائے وقت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسکے سینئر رپورٹر سید شعیب الدین کئی سال سے بھارت کے ساتھ یکطرفہ تجارت کے حوالے سے قوم کو آگاہ کر رہے ہیں ۔ حکمرانوں کا ضمیر جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ رکنے کے بجائے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سید شعیب الدین نے انکشاف کیا ہے کہ واہگہ بارڈر کے راستے روزانہ 80 ٹرک آلو ٹماٹر اور پیاز لے کر پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ لعنت ہے ایسی تجارت پر اور تُف ہے ایسی تجارت کرنے والوں پر۔ پاکستان کو ایسے خسارے کی تجارت کی کیا ضرورت ہے اور کیوں ہے؟ کیا صرف کمشن کیلئے یا عالمی دبائو پر؟ کیا عالمی دبائو پر اپنی خود داری، خود مختا ری، عزت،وقار اور بقا و سلامتی سب کچھ دائو پر لگا دیا جاتا ہے؟ ان غیرت کے سوداگروں کو کوئی بتا دے کہ علامہ اقبال نے فرمایا ہے۔؎
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں..... پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا
} بھارت پاکستان کے اٹوٹ حصے میں کشمیریوں کے خون کی ندیاں بہا رہا ہے۔ عزت مآب خواتین کی بے حرمتی معمول ہے۔ بھارت دنیا سے جدید ترین اسلحہ و بارود خریدتا ہے اس کے فوجی یہ اسلحہ کشمیریوں کے سینوں پر آزما رہے ہیں۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘کا نعرہ لگانے کی پاداش میں جو گولی کشمیری مجاہد اور حریت پسند کے سینے سے پار ہوتی ہے وہ پاکستان سے تجارت کے پیسے سے بھارت خریدتا ہے۔ غیرت تو درویش کوتاجِ سرِدارا پہناتی ہے جہاں توبے غیرتی اور بے حمیتی کی سرحدیں عبور کرتے ہوئے تاجِ نحوست پہن کر تختِ بے آبروئی پر رونق افروز ہوکرسر فخر سے بلند کئے جاتے ہیں۔ نام تو ابو جہل کا بھی لیا جاتا ہے میر جعفر اور میر صادق کا بھی۔ان کا نام آئے تو ہر مسلمان تبّرا بھیجتے ہیں ۔محمد بن قاسم ٹیپو سلطان جیسے بہادر اور غیرت مندوں کے ذکر پر احتراماً آنکھیں جھک جاتی ہیں اور سر فخر سے بلند ہوجاتے ہیں۔ بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانے والے اور تجارت سے کمشن کمانے والے خود فیصلہ کرلیں کہ کل مورخ ان کا نام کن لوگوں کی فہرست میں لکھے گا۔ } بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا کے بیان سے پاکستانی حکمرانوں، امن کی آشا کے علمبرداروں، پاکستان بھارت دوستی کے پرستاروں اور مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل ہونے کے خواستگاروں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ کرشنا کہتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے پاکستان نے بھارت کے علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے پاکستان مقبوضہ کشمیر کی بات کرنے سے پہلے آزاد کشمیر خالی کرے… یہ آج کی بات نہیں بھارت کا 62سال سے یہی رویہ ہے اگر وہ سنجیدہ اور نیک نیت ہوتا تو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کب کا حل ہوچکا ہوتا۔ہم پاکستانی بھارت کی نیت اور رویے سے بخوبی واقف ہیں ۔اس کے باوجود دشمن بھارت کی ثقافت کو وطنِ عزیز میں فروغ دئیے جارہے ہیں۔ فلموں اور کیبل کی وبا پہلے ہی موجود ہے۔ ’’اب دودیشوں کی ایک آواز۔۔ چھوٹے استاد ‘‘جیسے پاکستانی اور بھارتی بچے بچیوں کے مخلوط پروگرام دونوں ممالک کے مخصوص چینلز پر چلائے جارہے ہیں۔ جن میں پاکستانی بچے اور بچیاں نمستے کہتے ہوئے ہندوئوں کے انداز میں’’ گورئووں‘‘ کے پائوں چھوتے ہیں۔ ہندی الفاظ بولتے اور ایک دوسرے کو راکھی باندھتے ہیں۔ پروگرام کے پاکستانی ذمہ دار اور بچوں کے والدین نئی نسلوں کو کس قسم کی اور کس مقصد کیلئے ایسی تربیت دے رہے ہیں؟
کیا قائداعظم نے پاکستان اس لئے حاصل کیا تھا کہ آزاد ہو کر بھی یہ ہندو کلچر کے زیر تسلط ہے؟

’’چھوٹے اُستاد‘‘

 اتوار ، 10 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت پڑوسی ہیں۔ اس سے بھی بڑی سچائی یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ دشمنی کی ایک ہی وجہ، تنازع کشمیر ہے۔ یہ تنازع طے ہو جائے تو دونوں ممالک کے درمیان دشمنی تو شائد ختم ہوسکتی ہے لیکن ہندو بنیئے کی پاکستان سے مخاصمت کے باعث اس سے دوستی نہیں ہو سکتی۔ کوڑھ مغز اور سنگ دل بنیئے کو اس کے منافقانہ روئیے کے باعث قیامت تک چشمِ ما روشن دلِ ماشاد نہیں کہا جا سکتا۔ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان اگر دوستی اور بہتر تعلقات کی راہیں ہموار کی جاتی ہیں۔ لین دین کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ آمدورفت کیلئے ویزے کے خاتمے اور سرحدیں کھولنے کی بات کی جاتی ہے تو یہ منافقت اور مکاری ہے۔ اگر دشمن کو یکطرفہ فائدہ پہنچایا جاتا ہے تو یہ اپنی ماں کے دودھ کے ساتھ بے وفائی اور ملک و قوم سے غداری ہے۔ ایسا ہورہا ہے بلکہ اس سے بھی آگے۔ 
نوائے وقت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسکے سینئر رپورٹر سید شعیب الدین کئی سال سے بھارت کے ساتھ یکطرفہ تجارت کے حوالے سے قوم کو آگاہ کر رہے ہیں ۔ حکمرانوں کا ضمیر جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ رکنے کے بجائے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سید شعیب الدین نے انکشاف کیا ہے کہ واہگہ بارڈر کے راستے روزانہ 80 ٹرک آلو ٹماٹر اور پیاز لے کر پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ لعنت ہے ایسی تجارت پر اور تُف ہے ایسی تجارت کرنے والوں پر۔ پاکستان کو ایسے خسارے کی تجارت کی کیا ضرورت ہے اور کیوں ہے؟ کیا صرف کمشن کیلئے یا عالمی دبائو پر؟ کیا عالمی دبائو پر اپنی خود داری، خود مختا ری، عزت،وقار اور بقا و سلامتی سب کچھ دائو پر لگا دیا جاتا ہے؟ ان غیرت کے سوداگروں کو کوئی بتا دے کہ علامہ اقبال نے فرمایا ہے۔؎
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں..... پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا
} بھارت پاکستان کے اٹوٹ حصے میں کشمیریوں کے خون کی ندیاں بہا رہا ہے۔ عزت مآب خواتین کی بے حرمتی معمول ہے۔ بھارت دنیا سے جدید ترین اسلحہ و بارود خریدتا ہے اس کے فوجی یہ اسلحہ کشمیریوں کے سینوں پر آزما رہے ہیں۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘کا نعرہ لگانے کی پاداش میں جو گولی کشمیری مجاہد اور حریت پسند کے سینے سے پار ہوتی ہے وہ پاکستان سے تجارت کے پیسے سے بھارت خریدتا ہے۔ غیرت تو درویش کوتاجِ سرِدارا پہناتی ہے جہاں توبے غیرتی اور بے حمیتی کی سرحدیں عبور کرتے ہوئے تاجِ نحوست پہن کر تختِ بے آبروئی پر رونق افروز ہوکرسر فخر سے بلند کئے جاتے ہیں۔ نام تو ابو جہل کا بھی لیا جاتا ہے میر جعفر اور میر صادق کا بھی۔ان کا نام آئے تو ہر مسلمان تبّرا بھیجتے ہیں ۔محمد بن قاسم ٹیپو سلطان جیسے بہادر اور غیرت مندوں کے ذکر پر احتراماً آنکھیں جھک جاتی ہیں اور سر فخر سے بلند ہوجاتے ہیں۔ بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانے والے اور تجارت سے کمشن کمانے والے خود فیصلہ کرلیں کہ کل مورخ ان کا نام کن لوگوں کی فہرست میں لکھے گا۔ } بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا کے بیان سے پاکستانی حکمرانوں، امن کی آشا کے علمبرداروں، پاکستان بھارت دوستی کے پرستاروں اور مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل ہونے کے خواستگاروں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ کرشنا کہتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے پاکستان نے بھارت کے علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے پاکستان مقبوضہ کشمیر کی بات کرنے سے پہلے آزاد کشمیر خالی کرے… یہ آج کی بات نہیں بھارت کا 62سال سے یہی رویہ ہے اگر وہ سنجیدہ اور نیک نیت ہوتا تو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کب کا حل ہوچکا ہوتا۔ہم پاکستانی بھارت کی نیت اور رویے سے بخوبی واقف ہیں ۔اس کے باوجود دشمن بھارت کی ثقافت کو وطنِ عزیز میں فروغ دئیے جارہے ہیں۔ فلموں اور کیبل کی وبا پہلے ہی موجود ہے۔ ’’اب دودیشوں کی ایک آواز۔۔ چھوٹے استاد ‘‘جیسے پاکستانی اور بھارتی بچے بچیوں کے مخلوط پروگرام دونوں ممالک کے مخصوص چینلز پر چلائے جارہے ہیں۔ جن میں پاکستانی بچے اور بچیاں نمستے کہتے ہوئے ہندوئوں کے انداز میں’’ گورئووں‘‘ کے پائوں چھوتے ہیں۔ ہندی الفاظ بولتے اور ایک دوسرے کو راکھی باندھتے ہیں۔ پروگرام کے پاکستانی ذمہ دار اور بچوں کے والدین نئی نسلوں کو کس قسم کی اور کس مقصد کیلئے ایسی تربیت دے رہے ہیں؟
کیا قائداعظم نے پاکستان اس لئے حاصل کیا تھا کہ آزاد ہو کر بھی یہ ہندو کلچر کے زیر تسلط ہے؟

Saturday, October 9, 2010

ٹرانزٹ ٹریڈ .... بھارت کیلئے معاہدہ

 ہفتہ ، 09 اکتوبر ، 2010ہ
فضل حسین اعوان ـ 
یک چشم روشن ویک چشم گل مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں موجودہ پاکستانی و بھارتی پنجاب کے ساتھ ساتھ کشمیر‘ گلگت‘ مغربی تبت کے کچھ علاقے‘ فاٹا‘ بنوں اور پشاور بھی پنجاب میں شامل تھے۔ پنجاب کی سرحدیں افغانستان سے ملتی تھیں۔ رنجیت سنگھ کا انگریزوں سے بڑا یارانہ تھا لیکن خود کو انگریزوں کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے اس نے ان سے ایک فاصلہ رکھا ہوا تھا۔ ایک بار انگریز نے مہاراجہ سے کہا کہ وہ اپنی فوج اور کچھ سامان ہندوستان سے افغانستان پہنچانا چاہتے ہیں۔ رنجیت سنگھ نے کہا بڑی خوشی سے لے جا ¶۔ انگریز نے پوچھا پنجاب سے راہداری چاہئے۔ مہاراجہ نے کہا ”مخول نہ کرو۔“ انگریز نے بہتیرا سر کھپایا لیکن رنجیت سنگھ نے ان کے مطالبے کو مخول سے زیادہ حیثیت نہ دی۔ انگریز دنیا میں جہاں بھی گئے‘ دوستی کی آڑ میں ان علاقوں کو گھن اور دیمک کی چاٹا۔ یلغار کی اور بالآخر جارحانہ قبضہ کر دیا۔ رنجیت سنگھ نے اونٹ کو خیمے میں منہ ہی نہ ڈالنے دیا‘ گھسنے کا سوال بعد میں پیدا ہونا تھا۔پاکستان کی مخالفت‘ مخاصمت اور دشمنی کے حوالے سے انگریز اور ہندو کا موازنہ کریں تو دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بنیے کےلئے پاکستان کا وجود قابل برداشت نہیں۔ پاکستان کی زراعت کا دار و مدار مقبوضہ کشمیر سے بہہ کر آنے والے دریا ¶ں کے پانی پر ہے۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا جو دشمن کے آہنی شکنجے اور پنجے میں ہے۔ وہ جب چاہتا ہے اس کے ذریعے پاکستان کو قحط سالی سے ہمکنار کر سکتا ہے اور جب مرضی ہو پاکستان کو سیلاب سے دوچار ہو سکتا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو اب تک وہ پاکستان کو کب کا ہڑپ کر چکا ہوتا۔ پاکستان کے پاس جدید ترین اور بھارت کے مقابلے میں کہیں معیاری اور اعلیٰ پائے کا ایٹمی اسلحہ ہے۔ اس لئے وہ جارحیت کے بجائے اپنے مقاصد سازشوں کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان کو دو لخت کر چکا ہے اس کے بعد باقی حصے پر بھی اس کی نظر بد ہے۔ اب وہ دوستی کی آڑ میں وار کرنا چاہتا ہے۔ کئی لوگ اس کے جھانسے میں آچکے ہیں۔ کوئی امن کی آشا کا راگ الاپ رہا ہے۔ کوئی دونوں حریف ممالک کو ویزا فری ممالک بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ کچھ سرحدیں مٹانے اور رکاوٹیں ہٹانے کے متمنی ہیں کئی کی سب سے بڑے تنازع کشمیر کے حل کے بغیر تعلقات کو عروج پر پہنچانے کی حسرت ہے۔ قوم مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت کے ساتھ کسی قسم کا لین دین نہیں کرنا چاہتی لیکن زمام اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن میں محمد شاہ رنگیلا‘ جنرل یحییٰ خان اور جنرل مشرف کی ساری خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ قومی غیرت و حمیت کا افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ کرکے ایک بار پھر جنازہ اٹھا دیا۔ 6 مئی 2009ءکو واشنگٹن میں اوباما کے بلا دے اور کہنے پر زرداری اور کرزئی کے دورہ امریکہ کے دوران ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی یادداشت پر دستخط ہوئے جس کے مطابق افغانستان اور بھارت کو تجارت کےلئے پاکستان نے راہداری فراہم کرنا تھی۔ پاکستان میں شدید ترین عوامی ردعمل پر اس معاہدے کو افغا میں رکھا گیا۔ پھر جولائی 2010ءکو اس معاہدے کی اسلام آباد میں بازگشت سنائی دی۔ کہا گیا کہ افغانستان سے تو مال بھارت جائے گا۔ بھارت کا مال واہگہ بارڈر سے افغانستان لے جانے کےلئے بھارتی ٹرانسپورٹ استعمال نہیں ہو گی۔ اب 6 اکتوبر 2010ءکو وفاقی کابینہ نے افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی منظوری دی ہے جس کے مطابق صرف افغانستان کو کنٹینروں کے ذریعے اپنا سامان بھارت لے جانے کی اجازت ہو گی۔ بھارت کو ایسی کوئی سہولت نہیں دی گئی تاہم بھارت کا اسی معاہدے سے بن گیا ہے۔ آئیے سری لنکا اخبار کی اس رپورٹ پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو اس وقت شائع ہوئی جب سوات میں آپریشن جاری تھا۔ RAW اور CIA افغانستان سے ہیروئن بھارت لے جاتی ہیں وہاں سے اچھے داموں دنیا میں سمگل کر دی جاتی ہے۔ اس ”تجارت“ کے منافع سے پاکستان میں سی آئی اے اور را کے دہشت گرد پل رہے ہیں.... ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے سے افغانستان سے بھارت ہیروئن کی فراہمی آسان ہو جائے گی۔ کنٹینروں کی تلاشی کس نے لینی ہے اور لینی بھی ہے تو سارا سامان اتروا کر کونے کھدرے تو نہیں چھانے جائیں گے جہاں ہیروئن چھپی ہو گی۔ بدمست بھارت کو آپ نے خیمے میں منہ گھسانے کی اجازت دے دی۔ اب وہ پورا خود داخل ہو جائے۔ پاکستان کے مفادات کے حوالے سے بھارت‘ افغانستان‘ امریکہ اور اسرائل یکساں خطرناک ہیں۔ سوائے مختصر سے طالبان دور حکومت کے افغان حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان کی کھل کر مخالفت اور بھارت کی حمایت کی۔ کرزئی بھی اسی پالیسی پر گامزن ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت افغانستان میں بھارت کے 19 قونصل خانوں کی موجودگی ہے۔ برادر‘ ہمسایہ اسلامی ملک کیلئے پاکستان کا سب کچھ حاضر ہونا چاہئے بشرطیکہ وہ پاکستان پر اعتبار کرے۔ انحصار کرے اور پاکستان کے دشمنوں پر لعنت بھیج دے کرزئی اور ان جیسے حکمرانوں کی سوچ بدلنے تک افغانستان کے ساتھ تجارتی اور دفاعی معاہدہ نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے معاہدے جن میں بھارت بھی شامل ہو پاکستان کی سلامتی اور بقا کے سراسر خلاف ہیں۔