جمعرات ، 07 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
گوجرانوالہ کے حوالے سے اپنی معلومات واجبی سی ہیں۔ خوش خوراکوں کے شہر کے بارے میں اتنا معلوم ہے کہ اسے پہلوانوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ معمہ ہنوز حل طلب ہے کہ خالص گوجرانوالیئے خوش خوراکی کے باعث پہلوان ہیں یا پہلوان ہونے کی وجہ سے خوش خوراک ہیں۔ یہ سوال اسی شہر سے تعلق رکھنے والے نیم پہلوان سے کیا تو اس نے مزید سوال کی صورت میں جواب دیکر تسلی کرا دی۔ فرمایا ’’آپ بتائیں مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈہ؟ وہ نیم پہلوان اس لئے تھا کہ لاہور میں اسے مرضی کے کھانے نہیں ملتے تھے اس لئے وہ لاہور میں لِسّا ہو گیا تھا۔ اسی نے کف افسوس ملتے ہوئے بتایا تھا کہ ہم پہلوانوں کے شہر میں ہاتھ ملانے کا رواج نہیں پہلوان سے پہلوان ملتا ہے تو ہاتھ نہیں ملاتے۔ ہاتھ ملانے سے قبل پیٹ آپس میں ٹکراتے ہیں تو فاصلہ پہلے سے بھی بڑھ جاتا ہے۔
گذشتہ اتوار کو گوجرانوالہ جانے کا اتفاق ہوا۔ گوجرانوالہ کی تاریخ کا تو علم نہیں‘ سوچا جغرافیے سے واقفیت ہو جائے گی۔ جو خوب ہوئی گھر سے 6 گھنٹے کا مارجن رکھ کر چلے۔ دو گھنٹے جانے کے دو وہاں ٹھہرنے کے اور دو واپسی کے۔ لاہور سے چلے تو 35 منٹ میں موٹروے کے ذریعے شیخوپورہ پہنچ گئے۔ گوجرانوالہ جانے والی سڑک پر پہنچے تو اندازہ ہونے لگا کہ امریکہ اگر پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکی پر عمل کر گزرتا تو ملک بھر میں سڑکوں کی حالت ایسی ہی ہو جاتی۔ سڑک ٹوٹی ہوئی اور ہر قصبے اور اڈے پر ان لوگوں کی قسمت کی طرح پھوٹی ہوئی تھی۔ ہر اڈے پر سڑک میں بلامبالغہ تین سے چار فٹ گہرے کھڈے تھے۔ بارشوں میں یہاں سے گزرنے والی سائیکلوں‘ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی کیا حالت ہوتی ہو گی؟ اوپر سے مضحکہ یہ کہ سڑک کے دونوں طرف بڑے بڑے بورڈ‘ خوبصورت اور فلمی اشتہاروں کی طرح کے بورڈ‘ ان پر مقامی ایم این ایز اور ایم پی ایز کی فخریہ تصاویر اپنے کارناموں کے ساتھ لگی تھیں۔ اس سڑک پر ایک جگہ گوجرانوالہ 34 کلو میٹر کا مائل سٹون نصب تھا۔ تھوڑا آگے گئے تو گوجرانوالہ 36 کلو میٹر درج‘ یہ دیکھ کر دماغ چکرا گیا کہ ہم گھوم گئے یا سڑک گھوم گئی ہے۔ امید تھی جلد یہ روڈ جی ٹی روڈ سے مل جائے گی لیکن ایسا ہونا تھا نہ ہوا۔ بالآخر گوجرانوالہ بائی پاس پر پہنچے اب پتہ نہیں تھا کہ گوجرانوالہ کدھر ہے۔ کوئی رہنمائی کا کتبہ یا بورڈ موجود نہیں تھا۔ گاڑی سے اتر کر ایک سفید پوش سے دونوں ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا ’’جناب راہوالی کینٹ جانا ہے‘‘ اس نے دونوں ہاتھوں کے درمیان دو انگلیاں پکڑاتے ہوئے کہا ’’تو جاؤ‘‘ عرض کیا حضور راستے کا پتہ نہیں بتا دیجئے۔ جواب تھا ’’کیا دھماکہ کرنے جانا ہے؟‘‘ عرض کیا ’’جناب پوری فیملی ساتھ ہے۔‘‘ کیا ان کو بھی وہیں مرواؤ گے؟۔ ان سے الجھنے کے بجائے ایک طرف اندازے سے گاڑی کا رخ موڑ دیا اتفاق سے سمت صحیح تھی۔ پوچھتے پچھاتے منزل پر پہنچے تو گھر سے چلے ساڑھے تین گھنٹے ہو چکے تھے۔
واپسی پر شہر سے گزر کر جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ شہر میں سڑکوں کی کوئی نشاندہی نہیں ہے ہم نے لاہور آنا تھا اندازے سے جس پل سے ہوتے ہوئے سڑک پر آئے شبہ ہوا کہ ہم لاہور نہیں کہیں اور جا رہے ہیں۔ سڑک کی جو حالت تھی وہ بھی کہہ رہی تھی ’’میں جی ٹی روڈ نہیں ہوں۔‘‘ پچھلے تجربے کی بنا پر جھجکتے ہوئے ایک رکشے والے سے پوچھا ’’جناب یہ سڑک کدھر جاتی ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’کہیں نہیں جاتی یہیں رہتی ہے۔‘‘ اس سے ہاتھ باندھ کر عرض کی جناب لاہور جانا ہے اسی سڑک پر جائیں؟ اس پر جواب تھا ’’سیالکوٹ سے ہو کر جانا ہے تو اسی سڑک پر چلتے جائیں‘‘ اس سے مزید پوچھنے کے بجائے واپس ہو لئے۔ شہر میں واپسی پر پہلوان ٹائپ کی کوئی چیز نظر نہ آئی شاید کھانے پینے میں مصروف تھے۔ شہر کے کافی باہر تک ہوٹلوں کی بہاریں تھیں۔ ڈھابے بھی بے شمار تھے۔ اکثر پر بے لباس مرغ‘ چڑے اور بٹیر ایسے لٹکے تھے جیسے ان کو پھانسی دی گئی ہے۔ ایک پر ہم بھی رکے تو ایک پہلوان ہوٹل والوں کو دھمکیاں دے رہا تھا۔ تم مجھے نہیں جانتے! ملازم منت کرکے اسے بٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ بدستور غصے میں تھا۔ منیجر نے آکر جھک کے سلام کیا۔ پہلوان نے اسے بھی ڈانٹا اور کہا میں عالم بٹ ہوں۔ منیجر نے کہا جناب تشریف تو رکھیں۔ وہ پھر بھی غصے میں تھا شاید زیادہ چڑھا رکھی تھی اور کہا میں تم سب کو دیکھ لوں گا سمجھتے کیا ہو میں عالم جٹ ہوں! منیجر نے ذرا ترشی سے کہا جناب تو آپ پھر تین کرسیوں پر بیٹھ جائیں اس پر عالم بٹ اور جٹ نے غصے میں آکر منیجر کو تھپڑ رسید کرنے کیلئے ہاتھ گھمایا۔ منیجر نے جھک کر وار بچایا اتنے میں سکیورٹی گارڈ کا زور دار طمانچہ عالم کے گال پر پڑ چکا تھا اس پر عالم بٹ جو تھوڑی دیر پہلے مولا جٹ تھا یہ کہتے ہوئے اور گال سہلاتے ہوئے چلتا بنا ’’توہانوں مولا لوے‘‘ بہرحال یہ ایک یادگار سفر تھا واپسی صرف ڈیڑھ گھنٹے میں ہوئی۔
No comments:
Post a Comment