پیر ، 11 اکتوبر ، 2010
جرأت اور احساسِ تحفظ
فضل حسین اعوان ـ
لاہور کے پرانے ائر پورٹ پر مسافر قطار میں کھڑے سکیورٹی والے کو اپنا ٹکٹ دکھا کر اندر جا رہے تھے۔ ائر پورٹ کی مین انٹرنس کے ساتھ سٹاف کے لئے چھوٹا سا راستہ تھا اس پر بھی سکیورٹی اہلکار چوکس کھڑا تھا۔ گو یہاں سے مسافروں کو گزرنے کی اجازت نہیں تھی تاہم اگر اکا دکا وی آئی پی، بیمار یا کوئی بوڑھا یہاں آ جاتا تو اہلکار کوئی خاص مزاحمت نہیں کرتے تھے۔ ٹکٹ چیک کر کے گزر جانے دیتے۔ اس روز بھی ایک بڑی پرسنلٹی کی حامل شخصیت یہاں سے گزرنے لگی تو جوان جس کے بازو پر سرخ V کا نشان چسپاں تھا نے بڑے احترام سے کہا ’’ سر! ٹکٹ پلیز‘‘ یوں لگتا تھا جیسے صاحب کے لئے یہ غیر متوقع سوال تھا تاہم وہ رکا، پہلے کوٹ کی دائیں پھر بائیں جیب میں ہاتھ ڈالا۔ کوٹ کی اندرونی جیبوں کو ٹٹولا۔ پتلون کی تینوں جیبوں سے ٹکٹ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ پھر ایک گھٹنا فرش پر لگایا دوسرے پر بریف کیس رکھ کر کھولا، ٹکٹ یہیں سے برآمد ہوئی، ماتھے پر غصے سے شکنیں بھی پڑ چکی تھیں، عمر یہی کوئی ریٹائرمنٹ میں دو تین سال باقی ہوں گے۔ سکیورٹی والے نے صرف تین سیکنڈ میں ٹکٹ چیک کر کے شکریہ کہہ کر واپس کر دیا۔ صاحب نے ٹکٹ پکڑتے ہوئے غصے سے کہا ’’کیا دیکھا ۔۔۔ سر ڈیٹ اور فلائٹ نمبر ۔۔۔ تم مجھے جانتے نہیں ہو، کہاں سے آ جاتے ہیں ۔۔۔ سر! میں نے کوئی گستاخی نہیں کی اپنی ذمہ داری پوری کی اور آپ کو نہ جانتے ہوئے بھی یہاں سے گزرنے کی سہولت فراہم کی ۔۔۔ بس کرو، وہ سامنے دیکھو میری بڑی گاڑی کھڑی، یہ ہے میرا ڈرائیور اور گن مین، تمہیں یہ سب نظر نہیں آیا؟ ۔۔۔ صاحب کی باتوں سے سکیورٹی والا جوان قطعاً ڈپرس اور ایمپریس نہیں تھا۔ وہ مکمل طور پر، پُراعتماد تھا۔ صاحب اس سے الجھا جا رہا تھا۔ تنگ آمد بجنگ آمد اہلکار نے کہا ’’اب تم کیا چاہتے ہو، میں تمہیں سجدہ کروں؟ مائی فٹ ۔ یہ سُنا تو صاحب ’’میں تمہیں دیکھ لوں گا‘‘ کہتے ہوئے پیر پٹختے چل دیا۔ نوجوان نے آواز کسی جہنم میں جاؤ۔۔۔ اس لے دے کے چار پانچ منٹ بعد ایک پولیس اہلکار گندھے سے گن لٹکائے ہاتھ میں کولڈ ڈرنک اور برگر پکڑے اس اہلکار کے پاس آیا اور کہا شاباش! آپ نے منہ چھٹ سیکرٹری فلاں فلاں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ اس کا ہر کسی کے ساتھ ایسا ہی گستاخانہ رویہ ہے یہ لیں کولڈ ڈرنگ اور برگر۔ میں اس کا گن میں ہوں۔ اب کم از کم ایک ہفتہ یہ ہمارے سامنے شرمندہ رہے گا۔
ایک بہت بڑی فیکٹری کے اندر مالکان نے بڑے افسر کو ایمبرائیڈری کی فیکٹری لگا کے دے رکھی تھی ایک دن ٹیکس والے وہاں جا پہنچے افسر کو خبر کر دی گئی۔ حکم ہوا چاروں کو بند کر دو۔ ایک گھنٹے بعد باوردی افسر اور جوان وہاں موجود تھے۔ ان کے سامنے ٹیکس لینے والوں کو پیش کیا گیا۔ چائے پلائی گئی جو خوف کے مارے کچھ ان کے حلق سے نیچے اتری کچھ نہ اتری۔ پوجھا کتنا ٹیکس ہے۔ بتایا گیا ڈیڑھ لاکھ۔ فرمایا 5 ہزار کی رسید بنا دو۔ ایسا ہی ہوا۔ ان میں سے بڑے افسر نے 5 ہزار روپے ان کی طرف بڑھائے۔ ان کے انچارج نے ہاتھ باندھ کر کہا، سر تکلف نہ کیجئے آپ نے دے دیے ہم نے لے لئے، انہیں اپنے پاس رکھئے۔ یہ ہے رسید! ہماری فوج دو معاملات میں شہرت رکھتی ہے۔ ڈسپلن اور احتساب۔ ڈسلپن کے باعث ہی ریٹائرڈ فوجی افسروں اور جوانوں کو آسانی سے نوکریاں مل جاتی ہیں۔ لیکن کچھ بڑے سرمایہ دار ملازمت کے اشتہار دیتے ہیں تو مطلوبہ اہلیت ریٹائرڈ میجر کرنل اور بریگیڈئر بتائی جاتی ہے۔ ان کو بھاری تنخواہوں پر نوکری دی جاتی ہے۔ مقصد صرف ان کے نام سے مفاد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مال کہیں رکا ہوا ہے، ٹیکس والے ’’تعاون‘‘ نہیں کرتے یا دیگر جائز ناجائز معاملات ایک فون کال پر درست ہو جاتے ہیں۔ سول میں ریٹائرڈ تو کیا حاضر سروس فوجی افسروں کو بھی کسی قسم کی مداخلت کی اجازت نہیں، فوج میں احتساب کی عظیم مثالیں موجود ہیں۔ ایڈمرل منصورالحق کو سزا ہوئی، میجر ارشد کو سندھ میں ڈاکو قرار دیکر چھ سات افراد کو قتل کرنے پر پھانسی دیدی گئی اور بھی بہت کچھ ۔۔۔ ہمارے ہاں شخصیات اور ان کی پرسنلٹی سے متاثر ہونے کا کلچر ختم ہو جائے تو بہت سے معاملات درست ہو سکتے ہیں۔ سرکاری محکموں کے اہلکاروں کو ایسی تربیت دی جائے جس کا شہکار سکیورٹی اہلکار تھا، ڈیوٹی کے دوران ملازم، وزیر مشیر، ایم این اے وغیرہ کو خاطر میں نہ لائیں اس کے لئے ان میں جرأت اور احساس تحفظ پیدا کیا جانا چاہیے۔
No comments:
Post a Comment