بدھ ، 27 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ? 9 گھنٹے 23 منٹ پہلے شائع کی گئی
دو سو سال قبل کراچی مچھیروں کی بستی تھی۔ ا?ج یہ شہر لٹیروں، رہزنوں، قاتلوں، غاصبوں، قبضہ گروپوں، بھتہ خوروںاور ایجنٹوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے اس شہر کو چند ایک پارٹیوں کے عسکری ونگز نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ان کے نزدیک انسانوں کی کوئی اہمیت ہے نہ انسانیت کی کوئی قدر! روشنیوں کے اس شہر کو 80ئ کی دہائی میں تاریکیوں کی راہگزر بنا دیا گیا۔ جہاں بازاروں، گلیوں میں بلاامتیاز دن اور رات کے چہل پہل رہتی تھی ا?ج شہر سرشام اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔ 25 سال قبل کلنگ اور ٹارگٹ کلنگ کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو ا?ج تک دھوپ چھاﺅں کی طرح وقفے وقفے سے جاری ہے۔ ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں سو سے زائد افراد کو اندھی گولیاں چاٹ گئیں۔ گولیاں اندھی ضرور ہیں، جن ہاتھوں سے چلائی گئیں وہ خفیہ نہیں ہیں۔ عروس البلاد میں کچھ عرصہ قبل یہ کہا جاتا تھا کہ مارنے والے کو یہ پتہ نہیں کہ وہ کیوں مار رہا ہے، مرنے والے کو بھی معلوم نہیں کہ اس کی جان کیوں لی جا رہی ہے۔ ا?ج ایسا نہیں! مارنے والے کو تو شاید معلوم نہ ہو کہ وہ کسی کو ٹارگٹ کیوں کر رہا ہے اس کا علم اسے بھیجنے اور ہاتھ میں اسلحہ تھمانے والوں کو ہے۔ البتہ جسے مارا جا رہا ہے اسے ضرور پتہ ہے کہ اسے کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے۔ کراچی نام کی وجہ? تسمیہ یہ بتائی گئی ہے کہ ماہی گیروں کی کشتی سمندر میں طوفان کے باعث بھٹک گئی۔ اس میں ایک خاتون مائی کلاچی کا شوہر بھی تھا۔ کلاچی نے سمندر کی بے رحم موجود میں اپنی کشتی بھی اتار دی اور کشتی ٹوٹ جانے کے باعث ایک جزیرے میں پھنسے اپنے خاوند اور ساتھیوں کو بحفاظت واپس لے ا?ئی۔ اس کی بہادری، جرا?ت اور ہمت کے باعث مچھیروں کی اس بستی کا نام مائی کلاچی جو گوٹھ رکھ دیا گیا جو بگڑتے سنورتے اور سنبھلتے بالا?خر کراچی بن گیا۔ کراچی دراصل مائی کلاچی اور اس کے خاندان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا شہر ہے۔ اس شہر کا دامن مائی کلاچی کی اولاد کے دل کی طرح بڑا وسیع اور فراخ ہے۔ اگر یہ لوگ تنگ دل ہوتے تو دوسرے علاقوں سے اس طرف رخ کرنے والوں کی راہ میں کانٹے اور پتھر بکھیر دیتے‘ ناقابل عبور دیواریں چن دیتے لیکن ان لوگوں نے مصیبت کے مارے اور لٹ پٹ کر ا?نے والوں کے راستے میں دیدہ و دل فراش کر دیئے۔ 1947ئ میں تقسیم ہند کے موقع پر ہندوﺅں کے پاکستان کی طرف دھکیلتے ہوئے مہاجرین کو اسی کراچی نے پناہ دی۔ پناہ گزینوں کی ا?مد ا?ج بھی کسی نہ کسی طریقے سے جاری ہے۔ بنگال میں گرم ہوا چلتی ہے تو وہاں سے بھی مسلمانوں کا رخ کراچی کی طرف ہوتا ہے۔ پنجاب اور سرحد کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی کراچی میں میسر ا?تے ہیں۔ مائی کلاچی کی اولاد کے سوا کراچی میں سب مہاجر ہیں، کوئی نیا مہاجر تو کوئی پرانا۔ شکر ہے کلاچی گواچ نہیں گئی۔ اگر گواچ جاتی تو نہ یہ کراچی ہوتا نہ یہ رونقیں اور روشنیاں جو عارضی طور پر قتل و غارت اور ٹارگٹ کلنگ میں تبدیل ہو گئی ہیں، یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے۔ ا?ج اس شہر میں مہاجروں کا راج اور اصل باسی اجنبی بنا دیئے گئے ہیں۔ مہاجر، مہاجر کا گلا کاٹ رہا ہے۔ کسی کو شہر میں اپنی تھانیداری برقرار رکھنے کی فکر ہے تو کسی کو تھانیداری منوانے کا خبط ہے۔ برداشت، صبر اور تحمل گئے دنوں کی بات بن کر رہ گئے ہیں۔ چند دن سے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ عروج پر ہے۔ ڈیڑھ سو جیتے جاگتے انسانوں کی لاشیں گرا دی گئیں۔ اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاشیں اٹھانے والوں کے ا?نسو تھمتے ہیں نہ ا?ہیں اور سسکیاں۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور اے این پی پیپلز پارٹی کی اتحادی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تینوں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ جھگڑا وہی سیاسی اجارہ اور تھانیداری کا! علاقوں میں نمبرداری کا! قیادتیں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر غریبوں اور مظلوموں کے حق میں بیان ضرور دیتی ہیں، تحمل، برداشت، رواداری کی بات بھی کی جاتی ہے لیکن اندر صاف نہیں۔ منافقت، مصلحت اور سیاست‘ انسانیت پر غالب ا?جاتی ہے۔ کراچی میں ہونے والی غارت گری صرف اس صورت رک سکتی ہے، تمام قوتیں جو زبان سے صلح و ا?شتی کی بات کرتی ہیں اس پر ایمانداری سے عمل بھی کریں جس کا ایک فیصد بھی امکان نہیں! پھر حل ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے یہی ہے کہ شہر فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ حکومت اور اس میں شامل جماعتیں کراچی کی بدامنی میں جب خود فریق ہیں تو پولیس اور رینجرز سے غیر جانبداری کی توقع عبث ہے۔ فوج ایک ہفتے میں شہر کا امن بحال کر دے گی۔
No comments:
Post a Comment