About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, October 14, 2010

مقامِ گداگری


 جمعرات ، 14 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
لوگ پرانے حکمرانوں سے تنگ پڑتے ہیں تو نئے آنے والوں کے لئے چشم براہ ہو جاتے ہیں۔ نئے آنے والوں سے بڑی بڑی توقعات رکھتے اور امیدیں باندھ لیتے ہیں لیکن یہ بھی اپنی پالیسیوں اور اپنے پیشروﺅں کے نقش قدم پر چلنے کے باعث بہت جلد پرانے ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں عرصہ سے یہی چلتا آ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تو روزِ اوّل یعنی 2008ءکے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی پرانی ہو گئی ہے۔ الیکشن کے نتائج کے بعد قوم نے حکومت سے جو توقعات وابستہ کی تھیں ان کے ٹوٹنے کا آغاز وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حلف برداری کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ یہ ججوں کی رہائی کو کارنامہ قرار دے رہے ہیں، لوگ بحالی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ عوام کو یقین تھا کہ جمہوری حکومت امریکہ کے پاس بیچے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لائے گی۔ امریکہ کی جنگ سے قوم کو نجات دلائے گی۔ مشرف کی بزدلی کی بھینٹ چڑھنے والا کالا باغ ڈیم تعمیر کرائے گی۔ مسئلہ کشمیر پوری قوت اور جوش و جذبے سے اٹھائے گی۔ قوم کی گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے جان چھڑائے گی۔ سیاست میں نفرتوں کا چلن ختم کرکے امن کے دیپ جلائے گی، کرپشن کمشن سے تائب اور اس کا خاتمہ کرکے اپنی ساکھ بڑھائے گی۔ محترمہ نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے ان کے جانشینوں، وصیت زادوں پیاری جماعت سے امید تھی کہ اپنی بی بی کا قول نبھائے گی....لیکن ایک بھی توقع پوری نہ ہوئی۔ قوم شروع دن سے تنگ پڑ گئی۔ ہر نیا دن آٹے، چینی، تیل، بجلی، پانی اور گیس کی قلت کی بری خبروں کے ساتھ طلوع ہونے لگا۔ آمریت سے سلطانی جمہور کی طرف شروع ہونے والا سفرخار زار بن گیا، لوگوں کا اس مقولے سے بھی یقین متزلزل ہو گیا کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ ملک میں عدل و انصاف کے دور دورہ کی امیدیں تھیں وہ خاک ہوئیں، حکمرانوں نے عدلیہ پر یلغار کر دی، ججوں پر کبھی دبے لفظوں میں اور کبھی کھلے عام دشنام کی بھرمار کر دی، منافع میں چلنے والے ادارے ایسے لوگوں کے سپرد کر دیئے کہ ان کی حالت ٹمٹماتے چراغوں کی سی ہو گئی۔ ایک طرف این آر او زدہ ہونے کے الزام میں بڑے افسروں اور سفیروں کو برطرف کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف سزا یافتہ لوگوں کو بڑے عہدوں پر بٹھایا جا رہا ہے۔ پارٹی برادرز ان سے خوش، عوام تنگ۔ نوازے گئے لوگ راضی، میرٹ والوں کی ڈگریاں پتنگ، جھولی چُک واہ واہ کر رہے ہیں۔ رات کو بھوکے سونے والے جھولیاں چُک کر بد دعا کر رہے ہیں....اس سب کے باوجود صدر صاحب کہتے ہیں، مدت پوری کریں گے، گیلانی صاحب کا فرمان ہے عوام نے 5سال کا مینڈیٹ دیا، مخالفین اس مدت کا انتظار کریں۔ عوام آپ سے خوش ہوں۔ آپ کی پالیسیاں ملکی قومی و عوامی مفاد میں ہوں تو رواں پانچ سال کیا اگلے پانچ سال اور اس سے بھی اگلے 5سال آپ کے ہو سکتے ہیں۔ جب کہا جائے گا ڈرون حملوں میں مرنے والوں کا افسوس نہیں تو لوگوں کو دُکھ تو ہو گا، ان کا دل تو جلے گا ۔ آپ نے تو پورے ملک میں ایک تماشا لگا رکھاہے۔ زرداری گیلانی سمیت اکثر صاحبان مراعات کہتے ہیں جیل سے نہیں ڈرتے‘ آپ کام ہی ایسے نہ کریں جیل جانا پڑے۔ بابر اعوان فرماتے صرف زرداری کو ہی ٹارگٹ کیوں بنا رکھا ہے۔ اگر زرداری صاحب کا دامن صاف ہے تو استثنیٰ کیوں مانگتے ہو ان کو حضرت عمرؓ کی مثال نہیں بتاتے‘ سوئس مقدمات کھلنے دیں صدر کی پاک دامنی سامنے آ جائے گی۔ ملک کے سب بڑے اور قابل احترام منصب کا تقاضا ہے کہ اس پر آنے والا ایماندار‘ دیانتدار اور سب سے زیادہ پاک دامن ہو۔ صدر صاحب کے دامن پر اگر کوئی داغ ہے تو وہ دُھل جانا چاہئے۔ جو آپ عدلیہ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اس نے آپ کے دامن کو تار تار کر رکھا ہے۔ پاکستان کی عدالتیں انصاف کرنا چاہتی ہیں آپ انصاف سے دور بھاگ رہے ہیں۔ زرداری صاحب نے فرمایا ہے کہ ”اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا بے نظیر کو شہادت ملی اور مجھے گداگری دے کر عوام کی خدمت کی ذمہ داری سونپی گئی“۔ آئیے دعا کریں زرداری صاحب آج گدا گری کے جس مقام پر ہیں۔ منصب‘ جاہ و جلال اور مال و دولت کے حوالے سے یہ مقامِ گداگری ہر پاکستانی کا مقدر بن جائے۔

No comments:

Post a Comment