About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, October 10, 2010

’’چھوٹے اُستاد‘‘

 اتوار ، 10 اکتوبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت پڑوسی ہیں۔ اس سے بھی بڑی سچائی یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ دشمنی کی ایک ہی وجہ، تنازع کشمیر ہے۔ یہ تنازع طے ہو جائے تو دونوں ممالک کے درمیان دشمنی تو شائد ختم ہوسکتی ہے لیکن ہندو بنیئے کی پاکستان سے مخاصمت کے باعث اس سے دوستی نہیں ہو سکتی۔ کوڑھ مغز اور سنگ دل بنیئے کو اس کے منافقانہ روئیے کے باعث قیامت تک چشمِ ما روشن دلِ ماشاد نہیں کہا جا سکتا۔ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان اگر دوستی اور بہتر تعلقات کی راہیں ہموار کی جاتی ہیں۔ لین دین کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ آمدورفت کیلئے ویزے کے خاتمے اور سرحدیں کھولنے کی بات کی جاتی ہے تو یہ منافقت اور مکاری ہے۔ اگر دشمن کو یکطرفہ فائدہ پہنچایا جاتا ہے تو یہ اپنی ماں کے دودھ کے ساتھ بے وفائی اور ملک و قوم سے غداری ہے۔ ایسا ہورہا ہے بلکہ اس سے بھی آگے۔ 
نوائے وقت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسکے سینئر رپورٹر سید شعیب الدین کئی سال سے بھارت کے ساتھ یکطرفہ تجارت کے حوالے سے قوم کو آگاہ کر رہے ہیں ۔ حکمرانوں کا ضمیر جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ رکنے کے بجائے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سید شعیب الدین نے انکشاف کیا ہے کہ واہگہ بارڈر کے راستے روزانہ 80 ٹرک آلو ٹماٹر اور پیاز لے کر پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ لعنت ہے ایسی تجارت پر اور تُف ہے ایسی تجارت کرنے والوں پر۔ پاکستان کو ایسے خسارے کی تجارت کی کیا ضرورت ہے اور کیوں ہے؟ کیا صرف کمشن کیلئے یا عالمی دبائو پر؟ کیا عالمی دبائو پر اپنی خود داری، خود مختا ری، عزت،وقار اور بقا و سلامتی سب کچھ دائو پر لگا دیا جاتا ہے؟ ان غیرت کے سوداگروں کو کوئی بتا دے کہ علامہ اقبال نے فرمایا ہے۔؎
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں..... پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا
} بھارت پاکستان کے اٹوٹ حصے میں کشمیریوں کے خون کی ندیاں بہا رہا ہے۔ عزت مآب خواتین کی بے حرمتی معمول ہے۔ بھارت دنیا سے جدید ترین اسلحہ و بارود خریدتا ہے اس کے فوجی یہ اسلحہ کشمیریوں کے سینوں پر آزما رہے ہیں۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘کا نعرہ لگانے کی پاداش میں جو گولی کشمیری مجاہد اور حریت پسند کے سینے سے پار ہوتی ہے وہ پاکستان سے تجارت کے پیسے سے بھارت خریدتا ہے۔ غیرت تو درویش کوتاجِ سرِدارا پہناتی ہے جہاں توبے غیرتی اور بے حمیتی کی سرحدیں عبور کرتے ہوئے تاجِ نحوست پہن کر تختِ بے آبروئی پر رونق افروز ہوکرسر فخر سے بلند کئے جاتے ہیں۔ نام تو ابو جہل کا بھی لیا جاتا ہے میر جعفر اور میر صادق کا بھی۔ان کا نام آئے تو ہر مسلمان تبّرا بھیجتے ہیں ۔محمد بن قاسم ٹیپو سلطان جیسے بہادر اور غیرت مندوں کے ذکر پر احتراماً آنکھیں جھک جاتی ہیں اور سر فخر سے بلند ہوجاتے ہیں۔ بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانے والے اور تجارت سے کمشن کمانے والے خود فیصلہ کرلیں کہ کل مورخ ان کا نام کن لوگوں کی فہرست میں لکھے گا۔ } بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا کے بیان سے پاکستانی حکمرانوں، امن کی آشا کے علمبرداروں، پاکستان بھارت دوستی کے پرستاروں اور مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل ہونے کے خواستگاروں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ کرشنا کہتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے پاکستان نے بھارت کے علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے پاکستان مقبوضہ کشمیر کی بات کرنے سے پہلے آزاد کشمیر خالی کرے… یہ آج کی بات نہیں بھارت کا 62سال سے یہی رویہ ہے اگر وہ سنجیدہ اور نیک نیت ہوتا تو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کب کا حل ہوچکا ہوتا۔ہم پاکستانی بھارت کی نیت اور رویے سے بخوبی واقف ہیں ۔اس کے باوجود دشمن بھارت کی ثقافت کو وطنِ عزیز میں فروغ دئیے جارہے ہیں۔ فلموں اور کیبل کی وبا پہلے ہی موجود ہے۔ ’’اب دودیشوں کی ایک آواز۔۔ چھوٹے استاد ‘‘جیسے پاکستانی اور بھارتی بچے بچیوں کے مخلوط پروگرام دونوں ممالک کے مخصوص چینلز پر چلائے جارہے ہیں۔ جن میں پاکستانی بچے اور بچیاں نمستے کہتے ہوئے ہندوئوں کے انداز میں’’ گورئووں‘‘ کے پائوں چھوتے ہیں۔ ہندی الفاظ بولتے اور ایک دوسرے کو راکھی باندھتے ہیں۔ پروگرام کے پاکستانی ذمہ دار اور بچوں کے والدین نئی نسلوں کو کس قسم کی اور کس مقصد کیلئے ایسی تربیت دے رہے ہیں؟
کیا قائداعظم نے پاکستان اس لئے حاصل کیا تھا کہ آزاد ہو کر بھی یہ ہندو کلچر کے زیر تسلط ہے؟

No comments:

Post a Comment