About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, October 8, 2010

قوم کے محافظ … قانون کے محافظ




| ـ 7 اگست ، 2009
اسے سب ’’اچھا‘‘ تھانیدار کہتے ہیں اور اس نام پر خوش بھی ہے حالانکہ وہ 22 سالہ سروس میں کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل کے چکر سے نہیں نکل سکا، میں نے دریافت کیا ’’ تم تھانیدار ہو نہیں پھر کیوں کہلاتے ہو‘‘ ’’کبھی تو بنوں گا‘‘ ’’اچھا‘‘ کا استدلال تھا اشرف عرف اچھا میرا دسویں تک کلاس فیلو تھا۔ سکول میں شجرکاری مہم شروع ہوئی تو پودوں کی قلمیں لگائی جا رہی تھیں اچھا کی تمام الٹی یعنی نیچے والا حصہ اوپر، اوپر والا نیچے تھا۔ آٹھویں کے پیپر ہوئے تو اچھا نے اردگرد کے تمام مزاروں پر اپنے جیب خرچ کا نذرانہ چڑھانے کی منتیں مان لیں۔ ایک پر پہلے ماہ کا جیب خرچ دوسرے پہ دوسرے ماہ اور اسی طرح دس بارہ مزاروں پر منت مانی۔ میں نے پوچھا ’’بھئی پاس ہو گئے تو!‘‘ ایک بار پاس تو ہونے دو‘‘ اچھا نے یوں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ، جیسے بابوں کی توجہ اسی پر ہے ۔ دسویں کے پیپر ہوئے تو اس نے نگران سے مک مکا کر لیا وہ ایسا مک مکا تھا کہ آج تک مک مکا ہی کر رہا ہے۔ نگران نے اسے سوالات کے جواب بہم پہنچانے کی سہولت فراہم کر دی۔ پیپروں میں تو مارا ماری ہوتی ہے اور اپنا ہوش تک نہیں ہوتا بعد میں ملاقات ہوئی اچھا بہت خوش تھا اور کہہ رہا تھا ’’ اب کسی سفارش کی ضرورت ہے نہ منتوں کی، سب کچھ کتابوں سے دیکھ کر لکھا ہے بورڈ میں پوزیشن بھی آ سکتی ہے۔‘‘ ’’بھئی یہ تو برا ہوا ہو بہو کتابوں سے دیکھ کر لکھ دو تو ممتحن نقل سمجھ کر نمبر نہیں دیتا‘‘ میں نے تشویش کا اظہار کیا۔ اس پر اچھا نے تیزی سے کہا ’’ مجھے یملا سمجھتے ہو، مجھے سب معلوم ہے میں نے کتابوں سے ایک لائن کے بعد ایک لائن چھوڑ کر لکھا ہے‘‘ پھر رزلٹ کے آنے کا کیا انتظار رہ جاتا ہے؟ وہ کیسے پولیس میںآیا اس کا مجھے زیادہ علم نہیں۔
آج اس سے لمبے عرصے بعد ملاقات ہو رہی تھی، آج اس حوالدار کے پاس چھوٹا سا گھر اور گاڑی بھی ہے، دونوں اہلیہ کے نام۔ ڈرائنگ روم میں دیگر دو دوست بھی بیٹھے تھے ساتھ اس کا چھ سالہ بیٹا بھی تھا، اس کے بارے میں بتایا ’’اپنی گوناں گوں مصروفیات کے باوجود اس بیٹے کی تربیت خود کر رہا ہوں، وزیروں مشیروں اور بڑے افسروں کی زندگی کا مشاہدہ کرتا رہتا ہوں اور اس نہج پر تربیت کرتا ہوں‘‘ اس دوران اس کا دس سالہ بیٹا چائے کے تین کپ لے کر اندر آیا اس نے ٹیبل پر چائے رکھتے ہی ایک بسکٹ اٹھایا اور میرے سامنے پڑے کپ میں ڈبو کر آدھا کھایا اور باقی آدھا دوبارہ ڈبویا اور واپس چلا گیا۔ اس کے بعد اچھے نے آواز لگا ’’گُلی، نہلی کے لئے بھی چائے لا‘‘ تھوڑی دیر بعد ایک اور کپ میز پر تھا۔ اسے بچے نے ایک بار چھوا اور ہاتھ پیچھے کر لئے اچھا اسے کہہ رہا تھا ۔ میرا سونو چائے پیو، پریٹی بے بی Take it- Take it ساتھ ہی میں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ بیٹا لو بسکٹ بھی کھاؤ‘‘ اچھا درمیان میں بول پڑا ’’آپ کھاؤ یہ کھاتے ہی رہتے ہیں‘‘ ساتھ ہی اس بار پھر بچے کو My Dear کہہ کر چائے پینے کو کہا تو وہ بھڑک کر بولا ’’ابا تتی اے، بسکٹ کدوں کھاندے رہندے آں‘‘ اتنے میں اس کا سب سے بڑا فرزند ارجمند بھی بیٹھک میں داخل ہوا اور اپنے والد محترم کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا میں نے اچھے سے پوچھا ’’اب تو شہبازشریف نے تنخواہیں ڈبل کر دی ہیں کیا تم بھی اب رشوت سے تائب ہو چکے ہو، اچھا نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔ ’’پہلے کب لیتا تھا، اگر کوئی جیب میں زبردستی چار پانچ سو ڈال دے تو رشوت تو نہ ہوئی ناں اور یہ سلسلہ بھی اب عمرے کے پیسے اکٹھے کرنے کے بعد بند کردینا ہے‘‘ میں اچھا کے جواب پر حیران ہو رہا تھا کہ ساتھ بیٹھا اس کا بڑا بیٹا بول پڑا ’’پہلے ابے نے حج کے نام پر پیسے اکٹھے کر کے گاڑی لے لی تھی امی کہتی ہے تمہارا ابا خدا کو چکر دیتا ہے عمرے کے نام پر پیسے اکٹھے کر کے پلاٹ لینا چاہتا ہے۔‘‘ میں نے اسے ذرا ترشی سے کہا ’’ خدارا ذرا ذمہ داری کا مظاہرہ کرو، ایسی حرکتیں چھوڑ دو‘‘ ’’آپ کا مطلب کہ میں ذمہ دار نہیں‘‘ اچھا نے پوچھا ’’ایسا ہی سمجھو‘‘ جواب پر اچھا سنجیدگی سے کہنے لگا ’’ میرے ناکے کے قریب کوئی واردات ہو، میرے تھانے سے کوئی ملزم فرارہوجائے۔ ہمیشہ میرے افسروں نے کہا اس کے تم ذمہ دار ہو ساتھ ہی مجھے معطل کر دیا جاتا ہے اگر ہیڈ کانسٹیبل ہوں تو کانسٹیبل بنا دیا جاتا ہے اپنے ذمہ دار ہونے کا اور کیا ثبوت چاہئے۔‘‘ اس پر میرے منہ سے بے ساختہ نکلا یملا۔ میں نے پوچھا ’’کبھی پولیس مقابلہ بھی کیا‘‘ تو کہنے لگا ’’اگر کیا ہوتا توآج تھانیدار ہوتا یا اگلے جہاں۔‘‘ اتنے میں اس کے چھ سالہ بیٹے نے جیب سے موبائل نکالا، یہ نوکیا کا کیمرے والا تھا اور اس پر گھر میں موجود اپنی ماں سے باتیں کرنے لگا۔ میرے استفسار پر اچھا نے بتایا کہ ایک موٹر سائیکل سوار کی تلاشی کے دوران میرے ہاتھ میں رہ گیا تھا اس پر میں نے غصے سے کہا شرم کرو خدا کا خوف کرو، حرام کھاتے ہو اولاد کو بھی کھلاتے ہو۔ 20 ہزار تنخوا میں گاڑی اور گھر بنا رکھا ہے‘‘ اس پر اچھا کچھ دکھی ہوا اور کہنے لگا۔ میرا عام سے محلے میں چھوٹا سا گھر ہے سرے محل نہیں۔ میرے افسروں اور آپ کے وزیروں مشیروں کے ڈیفنس اور بیرونِ ممالک بنگلے اور اربوں کے بنک اکائونٹ، ہر بچے کے لئے الگ گاڑی ، میرا بنک اکاؤنٹ صرف تنخواہ لینے کے لئے ہے وہ بھی پاکستان میں، سوئٹزرلینڈ میں نہیں، اربوں کے قرضے کون معاف کراتا ہے اربوں کے سودوں پر کمشن کون لیتا ہے آئین کس نے توڑا، ملک کس نے توڑا، ملک کودیوالیہ کون کر رہا ہے جرم ثابت ہونے تک ملزم معصوم ہوتا ہے اس لئے میں نے آج تک ملزم کو تھپڑ تک نہیں مارا۔ انہوں نے تو معصوم بچیوں تک کو مار ڈالا۔ بے گناہ آج بھی ڈرون حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ان سے پوچھو وہ ایمان دار ہو جائیں تو میرے جیسے کو معطل نہیں برطرف کر دیں ٹھکانہ گھر نہیں جیل ہو، لیکن یہ ممکن نہیں۔‘‘

No comments:

Post a Comment