About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, December 9, 2013

غداری کیس …تضادات اور شبہات

غداری کیس …تضادات اور شبہات

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
19 نومبر 20130
Print  
غداری کیس …تضادات اور شبہات
حکومت میں آ کر مت ماری جاتی ہے یا ہمارے سیاستدان ہیں اتنے جوگے کہ اپنے بیانات اور اقدامات سے سیدھے سادے معاملے کو کتے کی دُم بنا دیتے ہیں۔ اچھے کام کو بُرے طریقے سے کرنے کی لت پڑ چکی ہے۔ انکے انہی خصائص کے باعث کرسٹل کلیئر اور واضح صورتحال پر بھی شکوک و شبہات کی گرد چڑھ جاتی ہے۔ 
جنرل پرویز مشرف کی ججز نظربندی، اکبر بگٹی اور بینظیر بھٹو قتل کیسوں میں ضمانت ہوئی تو چک شہزاد کے ’’تاج محل‘‘ سے باہر قدم رکھنے سے قبل انکی لال مسجد اپریشن اور غازی عبدالرشید قتل کیس میں گرفتاری ڈال دی گئی، اس کیس میں بھی عدالت نے ضمانت لے لی۔ انہوں نے سندھ ہائیکورٹ سے ای سی ایل سے نام نکلوانے کیلئے رجوع کر رکھا ہے۔ اس دوران وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے پریس کانفرنس میں جنرل مشرف کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ چودھری نثار کی پریس کانفرنس تضادات کا مجموعہ ہے۔ سُنا تھا جو انسان زیادہ بولتا ہے وہ غلطیاں بھی زیادہ کرتا ہے‘ اب دیکھ بھی لیا ہے۔ انہوں نے جوشِ خطابت میں سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو فوجی انقلاب قرار دیا اور سچ بھی یہی ہے تاہم انہوں نے کسی صحافی کے سوال پر وضاحت کرتے ہوئے اس اقدام کو فوجی بغاوت اور جمہوریت پر شب خون قرار دیا۔ 12 اکتوبر کا اقدام یقیناً آئین شکنی، فوجی بغاوت اور جمہوریت پر شب خون تھا۔ ایسے اقدامات کامیاب ہو جائیں تو انقلاب‘ اگر ناکام ٹھہریں تو بغاوت کہلاتے ہیں۔ مشرف کے اقدام کو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے جائز قرار دیا تو وہ بغاوت کے ضمن میں سے نکل کر انقلاب کے سانچے میں ڈھل گیا ۔ اس انقلاب کی کوکھ سے بڑے بڑے پارلیمنٹرین نے جنم لیا جو آج بھی پارلیمنٹ کا حصہ اور بہت سے نواز شریف کے کندھے سے کندھا ملا کر جمہوریت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ایسا انقلاب پھر کبھی آیا تو یہ انقلابی لیڈر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرینگے۔ صدارت کیلئے پیپلز پارٹی نے میاں محمد اجمل کا نام دیا، اس پر نواز لیگ نے ناک بھوں چڑھائی کہ وہ مشرف کے 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے موقع پر سیکرٹری قانون تھے۔ اس کو تضاد کے کس درجے میں فٹ کیا جائے کہ اس دور کے وزیر قانون زاہد حامد کو نواز لیگ میں لے لیا گیا، انکو ایم این اے کا ٹکٹ دیا اور کامیاب ہونے پر وزارت قانون ہی کا قلمدان بھی تھما دیا گیا، شور اُٹھا تو انکی وزارت بدل دی۔ امیر مقام مشرف کا پستول بدل بھائی ہے، الیکشن میں ہار گیا تو بھی نواز شریف کے دل میں امیر مقام کی الفت کا چراغ اُسی طرح روشن رہا جس طرح مشرف کے دل میں جلتا رہا تھا۔ آج امیر مقام وزیراعظم کے مشیرکا عہدہ انجوائے کر رہا ہے۔ 
مشرف کیخلاف 2007ء کی ایمرجنسی کے نفاذ کی پاداش میں غداری کی کارروائی شروع ہو رہی ہے۔ وزیر داخلہ کے بقول حکومت چیف جسٹس کو تین رکنی خصوصی عدالت کی تشکیل کی استدعا کر رہی ہے۔ 3 نومبر کے اقدام سے متعلق ایف آئی اے کی کمیٹی نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ مشرف نے بیماری کی بات کر کے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا مگر سرٹیفکیٹ پیش نہ کر سکے۔ چودھری نثار یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے ذاتی رنجش اور تلخی جو جنرل مشرف کے ساتھ تھی وہ صاف کر دی، مگر آئین اور قانون کی جس طرح خلاف ورزی ہوئی اور پاکستان کی عدلیہ کو پابند سلاسل کیا گیا، ججز کے بال نوچے گئے مگر پاکستان کے آئین اور قانون کے سامنے جوابدہ ہے۔ چودھری صاحب لمبی پریس کانفرنس کرتے ہوئے پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں یا چکر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ 3 نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ کو سپریم کورٹ آئین شکنی قرار دے چکی ہے۔ججز کو نظر بند کرنے کا الگ سے کیس چلا جس میں مشرف کی ضمانت ہوئی۔ بال نوچنا توہین اور تضحیک آمیز اقدام ہے کیا یہ بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے؟ چودھری نثار نے فخریہ فرمایا ’’کہا جاتا ہے کہ کوئی غریب جرم کرے تو کارروائی کی جاتی ہے بڑے آدمی کیخلاف نہیں ہوتی، ہم نے نئی روایت قائم کی ہے۔‘‘ آپ نے نئی روایت قائم نہیں کی، پرانی کو ہی نبھایا ہے۔ زرداری، گیلانی اور راجہ جیسے بڑے لوگوں نے ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹا، انکے احتساب کا آپ نعرہ لگاتے رہے، انکی لوٹ مار خزانے میں واپس لا کر نئی روایت قائم کریں۔ 
خنزیر اور کتے کا گوشت کیا کسی بھی حالت میں ہمارے دستر خوان پر آ سکتا ہے؟ مولانااحمد رضا خان بریلویؒ نے تحریک موالات کے دوران اپنے فتوے میں کہا تھا ’’سور کو بکری بنا کر نہیں نگلاجا سکتا‘‘ لیکن پاکستان میں ایسا کر دیا گیا ہے۔ جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے سے بڑی آئین شکنی نہیں ہو سکتی۔ 12 اکتوبر کو جو ہوا کچھ عرصہ بعد سپریم کورٹ اور پھر پارلیمنٹ نے اسے ’’حلال‘‘ قرار دے دیا۔ 3 نومبر کے اقدام پر عدلیہ اور پارلیمنٹ جائز جائز پڑھ دیتی تو آج مشرف دودھوں نہائے پائے جاتے۔ پاکستانیوں کی اکثریت آمر کا احتساب چاہتی ہے، آمر اکیلا کچھ بھی نہیں کر سکتا، شریک جرم تو کیا جرم معاف کرنیوالے بھی معافی کے مستحق نہیں۔ معافی مجرم کے قبولِ جرم کی صورت میں ہی ہو سکتی ہے۔ کیا مشرف اور انکے ساتھیوں نے 12 اکتوبر کا جرمِ بغاوت قبول کر لیا تھا؟ 12 اکتوبر اور 3 نومبر کے اقدامات غیر آئینی تھے تو ان کو کامیابی سے ہمکنار کرنیوالوں کے اقدامات کیا آئین اور قانون کیمطابق تھے؟ آمریت کے راستے ہمیشہ کیلئے روکنے ہیں تو 12 اکتوبر کی آئین شکنی کو ٹیسٹ کیس بنانا ہو گا۔ نواز حکومت 12 اکتوبر کے اقدام کا نوٹس تو ہرگز نہیں لے گی۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے حوالے سے کارروائی بھی ڈرامہ نظر آتی ہے۔ شایدیہ آمر کو انجام تک پہنچانے نہیں اسے بچانے کیلئے سٹیج سجایا جا رہا ہے۔ حکمران جلد از جلد مشرف کو بیرون ملک بھجوانے کیلئے بے قرار ہیں تاکہ ضامنوں کے ریال اور ڈالر ز کی برکھا برسنے لگے۔ 
چودھری نثار کی پریس کانفرنس کے تضادات واضح اور انکی طرف سے اتوار کو چھٹی کے روز ہنگامہ کانفرنس نے شکوک و شبہات کو جنم دیا -- - جو کارروائی حکومت کے آنے کے فوراً بعد شروع ہونا تھی اس میں چھ ماہ کی تاخیر کر دی گئی اور اب ایک دن میں معاملہ’’ منطقی انجام‘‘ تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور تاثر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا دیا جا رہا ہے ۔

رول ماڈلز

رول ماڈلز

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
17 نومبر 20130
Print  
رول ماڈلز
 کراچی کی بد امنی ،لاقانونیت ،دہشت گردی اور قتل و غارت پر قابو پانے کیلئے جنرل نصیر اللہ بابر کے کئے گئے اپریشن کی طرز اپریشن ہی مجرد اور مجرب حل ہے۔ جن لوگوں کے ہاتھ طاقت آگئی وہ مذاکرات کے ذریعے سرنڈر کرنے پر آمادہ کبھی اور قطعی نہیں ہوں گے۔ علیحدگی پسند اور مذہبی جنگجو طاقت کا سمبل بن چکے ہیں۔ حاصل کی گئی طاقت آپ کو نسلر سے واپس لینے کی کوشش کریں گے تو وہ اپنی ذات اور اوقات کے مطابق مزاحمت کریگا۔کونسلر، چیئر مین ، ایم پی اے، ایم این اے، سنیٹر کے انتخابات طاقت کے حصول کا ہی ذریعہ ہے۔ اس کیلئے بے دریغ پیسہ اور خون تک پانی کی طرح بہانے سے دریغ نہیں کیاجاتا۔ ان سے کم تر عہدوں کیلئے اور بھی لوگ دوسروں کی جان لے اور اپنی دے دیتے ہیں۔ طاقت اصولی یا بے اصولی، شرافت یا بد معاشی جس بھی طریقے سے حاصل کی جائے کوئی اس سے رضاکارانہ دستبرداری پر آمادہ نہیں ہوتا۔ملک میں جس قسم کی بھی دہشت گردی ہورہی ہے اس سے نجات کیلئے ہمارے سامنے کئی رول ماڈلز موجود ہیں جیسا کہ کراچی میں جنرل نصیر اللہ بابر نے روڈی جولیانی کے نیو یارک میں کیے گئے اپریشن کی طرز پراپریشن کرکے کراچی کا امن بحال کردیا تھا۔حسین اور جنت نظیر وادی سوات کئی سال بارود کی بُو اور بم و گنوں کے دھویں میں لپٹی رہی، فوج کوجہاں اپریشن کی ذمہ داری سونپی گئی۔ فوج نے لوگوں کو کیمپوں میں منتقل ہونے پر آمادہ کیا۔تیس لاکھ لوگ گھر بار چھوڑ کر امن کی آرزو لئے کیمپوں میں چلے آئے ۔فوج نے ان میں چھپے شدت پسندوں کو نکالا اور وادی میں موجود جنگجوﺅں پر یلغار کی۔ کوئی گرا کوئی مرا اور کوئی فرار ہوگیا۔اس کے بعد سوات پُر امن ہے۔ تھوڑا سا ملک سے باہر جھانک کر دیکھیں تو سری لنکا میں تامل بلوچستان کے علیحدگی پسندوں ہی کی طرح قتل و غارت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔ان کو بالآخر 25 سال بعد ہی سہی نیست کردیا گیا ۔گوریلا کارروائیوں کے توڑ کو ناممکن کی حد تک مشکل سمجھاجاتا ہے دنیا تو اس سے بھی آگے جاچکی ہے۔ جہاں یاسر پیر زادہ کی اس تحقیق پر نظر ڈالی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔” 1972میں میونخ میں اولمپک کھیل منعقد ہوئے۔اس دوران اسرائیلی ٹیم کو ”بلیک ستمبر“ نامی گروہ نے یرغمال بنا لیا۔ اغوا کاروں سے مذاکرات بے نتیجہ رہے اور بالآخر ان کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں گیارہ اسرائیلی ایتھلیٹ ،کوچ اور ایک جرمن پولیس افسر مارا گیا۔”بلیک ستمبر“ کے آٹھ ارکان بھی ہلاک ہوئے، تین کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں جب ”بلیک ستمبر“ نے لفتھنزائیر لائن کا طیارہ اغوا کیاتو جرمنی کو مجبوراً ان گرفتارشدگان کو بھی رہا کر نا پڑا۔اس سارے واقعے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مئیر نے خفیہ ایجنسی موساد کو ایک آپریشن شروع کرنے کا ٹاسک دیا جس کے تحت ان تمام لوگوں کو چن چن کر مارنا تھا جو اسرائیلی ٹیم کو یرغمال بنانے کے منصوبہ ساز تھے۔اس آپریشن کی خاص بات یہ تھی کہ موساد کے ان افسران کو موساد سے ”فارغ “ کر کے یہ تاثر دیا کہ ان کا اسرائیلی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ موساد نے نہایت کامیابی کے ساتھ یہ آپریشن مکمل کیا۔
ہمارے ہاںدہشتگرد ججوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعصاب پر سوار ہیں۔ ان سے بھی نمٹنے کے کامیاب طریقے دنیا میں آزمائے جا چکے ہیں ۔اٹلی کا سسلین مافیابھتہ خوری، قتل، سمگلنگ اور دھونس دھاندلی سے سرکاری اور غیرسرکاری ٹھیکے حاصل کرنے جیسے جرائم میں ملوث تھا۔ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلانا تو دور کی بات ،ان پر ہاتھ ڈالنا ہی نا ممکن تھاکیونکہ مافیا کے جرائم پر بالکل اسی انداز میں پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی جیسے اپنے یہاں آج کل شدت پسندوں،علیحدگی پسندوں اور بھتہ مافیا کا دفاع کرنے والے انہیں ہر واردات کے بعد دودھ سے نہلا کر معصوم بنا دیتے ہیں۔اطالوی مافیا کے خلاف بھی ہر طرح کا ثبوت موجود ہونے کے باوجود کوئی ان کے خلاف ایکشن لینے کی جرات نہیں کرتا تھا کیونکہ مافیا سیاستدانوں، ججوں ، وکلا اور گواہان تک کو اڑا دیتا تھا۔بالآخر 1980میں اٹلی کی حکومت نے مافیا سے نمٹنے کے لئے ایک خاص قانون بنایا جو 1982میں لاگو کر دیا گیا۔اس قانون کی تجویز دینے والے سیاست دان کو مافیا نے قتل کردیا، بے تحاشا خوں ریزی ہوئی اور سینکڑوں افراد کو مافیا جنگ کے نتیجے میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑے جن میں اٹلی کے کاو¿نٹر ٹیریرزم کے سربراہ کے علاو ہ دیگر بے شماربڑے لوگ بھی شامل تھے۔اٹلی کی حکومت ہل کر رہ گئی۔اس نے ایک اینٹی مافیا پول تشکیل دیا جو تفتیشی مجسٹریٹس پر مشتمل ایک گروپ تھا جس نے جدید خطوط پر مافیا کے خلاف تفتیش شروع کی ،ثبوت اکٹھے کئے اور آپس میں ان تمام معلومات کے تبادلے کو یقینی بنایا تاکہ کسی ایک ممبر کے قتل کی صورت میں بھی تمام معلومات محفوظ رہیں۔اینٹی مافیاکے بنانے والے جج چینیسی روکو،کو بھی مافیا نے 1983میں قتل کردیا۔کئی برسوں کی انتھک محنت کے بعدبالآخر فروری 1986میں مافیا کے خلاف مشہور زمانہ میکسی ٹرائل شروع ہوا ،یہ ٹرائل سسلی کی ایک انیسویں صدی کی کنکریٹ سے تعمیر شدہ جیل کے بنکر میں ہوا۔سخت سیکورٹی میں600صحافیوں کی موجودگی میں یہ ٹرائل اٹلی کی تاریخ میں مافیا کے خلاف سب سے بڑا مقدمہ ثابت ہوا جس میں 475 مافیا ممبران کو اپنا دفاع کرنا تھا۔ 16دسمبر1987کو مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا، 474ملزمان میں سے 360کو سزا سنائی گئی اور انہیں کل ملا کر 2665برس کی قید ہوئی۔ اس کے علاوہ مافیا کے 19سرکردہ لیڈران کو عمر بھر کے لئے جیل میں ڈالا گیا۔ 114ملزمان کو ناکافی ثبوت کی بنا پربری کر دیا گیا جس سے یہ تاثر بھی زائل ہوا کہ یہ ٹرائل محض ایک دکھاوا تھا۔ میکسی ٹرائل نے اطالوی مافیا کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ہم کیوں ایسے اپریشنز اور قوانین و اقدامات سے رہنمائی حاصل کر کے دہشتگردی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟

مشرف‘ عدلیہ اور سیاست دان

مشرف‘ عدلیہ اور سیاست دان 

فضل حسین اعوان....شفق

10 نومبر 20130
Print  
مشرف‘ عدلیہ اور سیاست دان … (1/2)
مشرف کی چار مقدمات میں ضمانت ہوئی ہے‘ وہ بری نہیں ہوئے۔ ان کی جس انداز میں گرفتاری ہوئی اور پھر اوپر تلے ہوتی چلی گئی‘ اسے ججوں کے تعصب سے تعبیر کیا گیا۔ مشرف کو ایسے مقدمات میں بھی گرفتار کیا گیا جن میں ان کے ساتھ شریک ملزم کبھی گرفتار نہیں ہوئے ۔ اس حوالے سے بے نظیر اور اکبر بگٹی قتل کیسز کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا۔ بے نظیر اور بگٹی کیسز میں جنرل مشرف کے ملوث ہونے میں ابہام ہو سکتا ہے۔ ججز کی نظربندی اور لال مسجد آپریشن کے پیچھے مشرف کے دو ہاتھوں کے سوا کوئی تیسرا ہاتھ موجود ہی نہیں ۔ ضمانت کے فیصلے شہادتوں ،شواہد اور پولیس انکوائری کی بنیاد پر کئے گئے ۔ یہی ہمارے آئین اور قانون کے لحاظ سے انصاف کا تقاضا تھا۔ ضمانت منظور کرتے ہوئے جج صاحبان تعصب سے بالانظر آئے۔لال مسجد کیس میں 19گواہ تھے ان میں سے صرف تین پیش ہوئے۔ان کی گواہی بھی ادھوری تھی۔کوئی اخبار اور کوئی ٹی وی کی خبروں کی بنیاد پر مشرف کو قاتل قرار دے رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور کی اندھیر نگری میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں عدلیہ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف بے لاگ فیصلے دیتی رہی۔ وہ خود اوران کے حامی اسے جسٹس افتخار کا پیپلز پارٹی کے خلاف متعصبانہ رویہ قرار دیتے تھے اور کچھ لوگوں کی طرف نواز لیگی قیادت کیلئے چیف کے نرم گوشے کا اظہار بھی ہوتا رہا۔ اب ن لیگ کو بھی چیف جسٹس سے اپنے پیشرئووں جیسے تحفظات درپیش ہیں۔سول ایوی ایشن کے مشیرشجاعت عظیم سمیت کئی تقرریاں غیر قانونی قرار دی گئی ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کی صوبوں نے خود تاریخ دی۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ اپنی مجبوریاں بتانے گیا کہ اس کیلئے مقررہ تاریخوں پر الیکشن کرانا ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ نے صوبوں کی دی گئی تاریخوں پر ہی الیکشن کرانے کا حکم دیا تو اس سے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی دم پر تیلی گر گئی جس طرح سٹیل مل فروخت کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور یوسف رضا گیلانی کو گھر بھجوانے کے فیصلوں پر ق لیگ اور پی پی پی کی حکومت کی دم پر گری تھی۔ بلدیاتی الیکشن کرانے کے حوالے سے سیاسی حکومتوں کا خلوص نیت تو چار سال سے ان کو ٹالنے کی پالیسیوں اور اقدامات سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ اب سپریم کورٹ نے کوئی راستہ نہیں چھوڑا توقومی اسمبلی میں ساری پارٹیاں متحد ہو کر سپریم کورٹ کے سامنے سینہ سپر ہو گئیں۔ نیت درست ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔انکی نیت پر عوام کو اعتبار ہے نہ عدلیہ کو۔ حکمرانوں اور عمال کے چہروں پر جسٹس افتخار محمد چودھری کی ریٹائرمنٹ ڈیٹ قریب آنے پر رونق بڑھتی اور اقتدار و اختیار کی خماری چڑھتی جا رہی ہے۔ جسٹس افتخار نے جو Trend سیٹ کر دیا‘ میڈیا کی فعالیت اور عوامی شعور میں قدرے اضافے کے بعد چمڑے کے سکے چلانے کی آرزو رکھنے والے مشکل ہی سے سرخرو ہو سکتے ہیں۔ جیسی یہ خواہشیں پال رہے ہیں مشرف اور زرداری نے ڈوگر کورٹ سے بھی یہی کام لینا چاہا تھا۔ انکے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انکی طرح تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ لگتا ہے کہ ہماری عدلیہ حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور حاشیہ برداری سے ہمیشہ کیلئے نکل چکی ہے۔
 مشرف کیخلاف مقدمات ختم نہیں ہوئے۔ عدالتیں شواہد کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ سابق صدر کی ضمانت پر رہائی کو این آر او سے مستفید ہونے والے ہی این آر او قرار دے رہے ہیں۔ بلاول کو اعتراض ہے کہ ان کے والد آصف علی زرداری پر بی ایم ڈبلیو کیس 90 میں بنا تھا اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا جبکہ مشرف کا 6 ماہ میں ہو گیا۔ پی پی پی والے بچے کو بتائیں کہ اس کے پاپا مقدمات لٹکانے میں کتنی مہارت رکھتے ہیں۔ استثنیٰ استثنیٰ استثنیٰ کا راگ قوم نے کس سے سنا؟گیلانی اب بھی کہتے ہیں کہ ان کو استثنیٰ حاصل ہے ۔مشرف نے اپنے لئے استثنیٰ کی بات نہیں کی۔پیپلز پارٹی کے مستقبل کی امیدآصفہ نے بھی کہا کہ ایک منتخب وزیر اعظم کے لئے فیصلہ اور، اور آمر کے لئے کچھ اور ہے ۔ ان کا اشارہ شاید اپنے ناناکی طرف ہو۔ مشرف کی ابھی ضمانت ہوئی، کیس چلیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے پیچھے ایک آمر کی قیادت میں پوری مشینری تھی ۔ مشرف پر بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ بھی ہے ۔اس کیس میں محترمہ کے لواحقین جو پانچ سال ملک کے سیاہ وسفید کے مالک رہے اور جاتے ہوئے ہر طرف تاریکیاں پھیلا گئے، پیروی سے گریزاں ہی نہیں انکاری بھی رہے۔ مشرف کو بے نظیر بھٹوقتل کیس میں سزا کیسے ہو سکتی ہے جب پی پی پی کی قیادت نے’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا فلسفہ ایجاد کر کے مشرف کو معاف کردیا۔میاں نواز شریف بھی مشرف کو معاف کر چکے ہیں ۔ میاں صاحب نے کئی بار کہا کہ مشرف نے جو انکے ساتھ جو کیا ‘ وہ اس کو بھول چکے ہیں البتہ جو کچھ انہوں کے آئین کے ساتھ کیا وہ اس کیلئے جواب دہ ہونگے۔مشرف کا سب سے بڑا جرم بارہ اکتوبر 1999ءکو اس حکومت کا تختہ الٹنا تھا جس کی کرپشن اور گھمنڈ سے عوام ہی نہیں لیگی خواص بھی تنگ تھے۔اس رات لوگ مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے ۔ایک بھی مسلم لیگی مظاہرے کیلئے سڑک پر نہیں آیا۔دو چار ماہ بعد آدھی سے زیادہ نواز لیگ،آئین شکن مشرف کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو رہی تھی ۔یہ نواز شریف ہی کا قول ہے” لوگ کہتے تھے قدم بڑھاﺅ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ میں نے قدم بڑھایا ، پیچھے مُڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔“نواز شریف نے مشرف کو اپنے ساتھ کی جانیوالے زیادتیوں پر معاف کردیا جبکہ مشرف کو سب سے بڑے گناہ ،12 اکتوبر 1999ءکو منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے اقدام کی معافی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے دیدی۔اُ سی پارلیمنٹ نے ایک بار پھر مشرف کو آئین میں ترمیم کرکے حکومت اور اسمبلیاں توڑنے سمیت اختیارات کا گھنٹہ گھر بنا دیا تھا۔

مشرف کے 12 اکتوبر کے اقدام کی توثیق اور ان کو اختیارات سے مالا مال کرنیوالوں کی اکثریت آج نواز شریف کے شانہ بشانہ ہے۔ اس جرم، ستم یا کرم میں مجلس عمل بھی شریک تھی جسکا حصہ مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی اور منور حسن کی جماعت اسلامی بھی تھی۔ ان حضرات کے غیر محتاط رویے سے ”شہید کون“ کی بحث چھڑ گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن جذبات میں آکریہ کہہ بیٹھے کہ امریکہ کتے کو مار ڈالے تو وہ بھی شہید ہے اب اسکی وضاحت نہیں ہو پا رہی۔ اپنے م¶قف پر ہٹ دھرمی بعض کے نزدیک بے شرمی سے قائم ہیں۔ منور حسن کے خیالات اتنے تباہ کن ہیں جن کا خود ان کو بھی اندازہ نہیں۔ کون شہید اور کون مردود، یہ فیصلہ اللہ کے ہاں ہو گا۔ امریکہ کی دشمنی میں آپ اسلامی شعار روایات اور احکامات کو نہیں بدل سکتے۔ منور حسن کا چہرہ مہرہ اور وضع قطع عبدالستار ایدھی کی طرح مشترع ضرور ہے لیکن وہ مفتی ہیں نہ عالم فاضل۔ انہوں نے سوشیالوجی اور تاریخ میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی سے وابستگی اور اب سربراہی کے باعث سید منور حسن کو عموماً عالم و فاضل سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے مرنیوالے فوجی شہید نہیں ہیں۔ اس بیان سے فوج کے مورال اور ڈسپلن پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔جماعتِ اسلامی پر قیام پاکستان کی مخالفت کا داغ ابھی تک دُھل نہیں سکا کہ منور حسن نے ایک اور لگا دیا۔مولانا فضل الرحمان اور سیدمنور حسن کے فلسفے اور فتوے کے تناظر میں افغان جہاد کا تجزیہ کیا جائے تو امریکہ کی مدد سے مارے جانیوالے روسی شہید اور جو مجاہدین امریکہ کی حمایت اور اسلحہ سے لڑتے ہوئے روسیوں کے ہاتھوں مارے گئے وہ شہید نہیں تھے۔ آپکی کسی سے بھی محبت اپنی جگہ تاہم پاک فوج جاگتی ہے تو آپ سوتے ہیں اور امریکہ کی اس جنگ میں مشرف نے ہی جھونکا تھا جسکے آپ حامی تھے۔ اب وہ اقتدار سے تہی دامن ہے تو ہر کوئی ان کو تختہ دار پر لٹکانے پر تلا نظر آتا ہے۔ انکے بڑے جرائم معاف کرکے 2007ءکی ایمرجنسی اور اس سے کم تر سطح کے مقدمات میں پھانسی لگانے کی خواہش نظر آتی ہے جن میں ضمانت ہو گئی ۔گواہوں پر اسی طرح کام ہوتارہا اور مدعی اور گواہ سست ، پھانسی لگانے کے آرزو مند بے چُست رہیں تو وہ بری بھی ہو جائینگے۔
 مشرف نے قید کے دوران ایک بار بھی والدہ سے ملنے کے بہانے دبئی جانے کی درخواست نہیں دی۔ ان کی ضدی طبیعت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کو اجازت ملی تو وہ ملک میں اسی طرح آتے جاتے رہیں گے جس طرح آصف علی زرداری ایوان صدر سے رخصتی کے بعد آجا رہے ہیں۔ ویسے بھی مشرف کا شمار ہماری اعلیٰ پاکباز سیاسی قیادت کی صف میں ہونے لگا ہے۔ آصف زرداری، نواز شریف، گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے لوگوں پر مقدمات ہیں اور وہ آزاد بھی پھر رہے ہیں۔ ذرا مشرف کے دور کا موازنہ پی پی پی کے گذشتہ اور نواز شریف کے موجودہ دور سے کریں تو واضح فرق نظر آئیگا۔ مشرف کے دور میں ڈالر 62 سے اوپر نہیں گیا ۔انکے پیشرو نواز شریف کے دور میں 68 روپے بھی رہا تھا۔آج ڈالر کی سپر میسی بلکہ ڈالر گردی کا دور دورہ ہے ۔مشرف دور میں بھی پٹرول کی قیمتوں میں ا تار چڑھا¶ ہوتا تھا۔ 56 روپے لٹر پٹرول رہا اور یہ 28 روپے کی سطح پر بھی گِرجاتا تھا۔ پاکستان کی سیاست روٹین اور روایات سے زیادہ معجزات و کرشمات کی سیاست ہے۔ جونیجو اور ظفر اللہ جمالی اپنی ا پنی واحد سیٹ کے بل بوتے پر وزیراعظم بنے۔ شوکت عزیز کے پاس ایک بھی نہیں تھی۔ مشرف بھاگنے والے نہیں ہیں۔ ان پر آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کی آج کی لیڈر شپ میں جرا¿ت ہی نہیں ہے۔ کسی بھی وقت کوئی کرشمہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں عہدہ جلیل سے جیل اور جیل سے جلیل القدر منصب پر تعیناتی کی روایتیں موجود ہیں جس کو مشرف کی صورت میں تاریخ دہرا سکتی ہے۔