مشرف‘ عدلیہ اور سیاست دان
فضل حسین اعوان....شفق
مشرف کی چار مقدمات میں ضمانت ہوئی ہے‘ وہ بری نہیں ہوئے۔ ان کی جس انداز میں گرفتاری ہوئی اور پھر اوپر تلے ہوتی چلی گئی‘ اسے ججوں کے تعصب سے تعبیر کیا گیا۔ مشرف کو ایسے مقدمات میں بھی گرفتار کیا گیا جن میں ان کے ساتھ شریک ملزم کبھی گرفتار نہیں ہوئے ۔ اس حوالے سے بے نظیر اور اکبر بگٹی قتل کیسز کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا۔ بے نظیر اور بگٹی کیسز میں جنرل مشرف کے ملوث ہونے میں ابہام ہو سکتا ہے۔ ججز کی نظربندی اور لال مسجد آپریشن کے پیچھے مشرف کے دو ہاتھوں کے سوا کوئی تیسرا ہاتھ موجود ہی نہیں ۔ ضمانت کے فیصلے شہادتوں ،شواہد اور پولیس انکوائری کی بنیاد پر کئے گئے ۔ یہی ہمارے آئین اور قانون کے لحاظ سے انصاف کا تقاضا تھا۔ ضمانت منظور کرتے ہوئے جج صاحبان تعصب سے بالانظر آئے۔لال مسجد کیس میں 19گواہ تھے ان میں سے صرف تین پیش ہوئے۔ان کی گواہی بھی ادھوری تھی۔کوئی اخبار اور کوئی ٹی وی کی خبروں کی بنیاد پر مشرف کو قاتل قرار دے رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور کی اندھیر نگری میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں عدلیہ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف بے لاگ فیصلے دیتی رہی۔ وہ خود اوران کے حامی اسے جسٹس افتخار کا پیپلز پارٹی کے خلاف متعصبانہ رویہ قرار دیتے تھے اور کچھ لوگوں کی طرف نواز لیگی قیادت کیلئے چیف کے نرم گوشے کا اظہار بھی ہوتا رہا۔ اب ن لیگ کو بھی چیف جسٹس سے اپنے پیشرئووں جیسے تحفظات درپیش ہیں۔سول ایوی ایشن کے مشیرشجاعت عظیم سمیت کئی تقرریاں غیر قانونی قرار دی گئی ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کی صوبوں نے خود تاریخ دی۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ اپنی مجبوریاں بتانے گیا کہ اس کیلئے مقررہ تاریخوں پر الیکشن کرانا ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ نے صوبوں کی دی گئی تاریخوں پر ہی الیکشن کرانے کا حکم دیا تو اس سے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی دم پر تیلی گر گئی جس طرح سٹیل مل فروخت کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور یوسف رضا گیلانی کو گھر بھجوانے کے فیصلوں پر ق لیگ اور پی پی پی کی حکومت کی دم پر گری تھی۔ بلدیاتی الیکشن کرانے کے حوالے سے سیاسی حکومتوں کا خلوص نیت تو چار سال سے ان کو ٹالنے کی پالیسیوں اور اقدامات سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ اب سپریم کورٹ نے کوئی راستہ نہیں چھوڑا توقومی اسمبلی میں ساری پارٹیاں متحد ہو کر سپریم کورٹ کے سامنے سینہ سپر ہو گئیں۔ نیت درست ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔انکی نیت پر عوام کو اعتبار ہے نہ عدلیہ کو۔ حکمرانوں اور عمال کے چہروں پر جسٹس افتخار محمد چودھری کی ریٹائرمنٹ ڈیٹ قریب آنے پر رونق بڑھتی اور اقتدار و اختیار کی خماری چڑھتی جا رہی ہے۔ جسٹس افتخار نے جو Trend سیٹ کر دیا‘ میڈیا کی فعالیت اور عوامی شعور میں قدرے اضافے کے بعد چمڑے کے سکے چلانے کی آرزو رکھنے والے مشکل ہی سے سرخرو ہو سکتے ہیں۔ جیسی یہ خواہشیں پال رہے ہیں مشرف اور زرداری نے ڈوگر کورٹ سے بھی یہی کام لینا چاہا تھا۔ انکے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انکی طرح تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ لگتا ہے کہ ہماری عدلیہ حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور حاشیہ برداری سے ہمیشہ کیلئے نکل چکی ہے۔
مشرف کیخلاف مقدمات ختم نہیں ہوئے۔ عدالتیں شواہد کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ سابق صدر کی ضمانت پر رہائی کو این آر او سے مستفید ہونے والے ہی این آر او قرار دے رہے ہیں۔ بلاول کو اعتراض ہے کہ ان کے والد آصف علی زرداری پر بی ایم ڈبلیو کیس 90 میں بنا تھا اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا جبکہ مشرف کا 6 ماہ میں ہو گیا۔ پی پی پی والے بچے کو بتائیں کہ اس کے پاپا مقدمات لٹکانے میں کتنی مہارت رکھتے ہیں۔ استثنیٰ استثنیٰ استثنیٰ کا راگ قوم نے کس سے سنا؟گیلانی اب بھی کہتے ہیں کہ ان کو استثنیٰ حاصل ہے ۔مشرف نے اپنے لئے استثنیٰ کی بات نہیں کی۔پیپلز پارٹی کے مستقبل کی امیدآصفہ نے بھی کہا کہ ایک منتخب وزیر اعظم کے لئے فیصلہ اور، اور آمر کے لئے کچھ اور ہے ۔ ان کا اشارہ شاید اپنے ناناکی طرف ہو۔ مشرف کی ابھی ضمانت ہوئی، کیس چلیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے پیچھے ایک آمر کی قیادت میں پوری مشینری تھی ۔ مشرف پر بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ بھی ہے ۔اس کیس میں محترمہ کے لواحقین جو پانچ سال ملک کے سیاہ وسفید کے مالک رہے اور جاتے ہوئے ہر طرف تاریکیاں پھیلا گئے، پیروی سے گریزاں ہی نہیں انکاری بھی رہے۔ مشرف کو بے نظیر بھٹوقتل کیس میں سزا کیسے ہو سکتی ہے جب پی پی پی کی قیادت نے’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا فلسفہ ایجاد کر کے مشرف کو معاف کردیا۔میاں نواز شریف بھی مشرف کو معاف کر چکے ہیں ۔ میاں صاحب نے کئی بار کہا کہ مشرف نے جو انکے ساتھ جو کیا ‘ وہ اس کو بھول چکے ہیں البتہ جو کچھ انہوں کے آئین کے ساتھ کیا وہ اس کیلئے جواب دہ ہونگے۔مشرف کا سب سے بڑا جرم بارہ اکتوبر 1999ءکو اس حکومت کا تختہ الٹنا تھا جس کی کرپشن اور گھمنڈ سے عوام ہی نہیں لیگی خواص بھی تنگ تھے۔اس رات لوگ مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے ۔ایک بھی مسلم لیگی مظاہرے کیلئے سڑک پر نہیں آیا۔دو چار ماہ بعد آدھی سے زیادہ نواز لیگ،آئین شکن مشرف کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو رہی تھی ۔یہ نواز شریف ہی کا قول ہے” لوگ کہتے تھے قدم بڑھاﺅ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ میں نے قدم بڑھایا ، پیچھے مُڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔“نواز شریف نے مشرف کو اپنے ساتھ کی جانیوالے زیادتیوں پر معاف کردیا جبکہ مشرف کو سب سے بڑے گناہ ،12 اکتوبر 1999ءکو منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے اقدام کی معافی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے دیدی۔اُ سی پارلیمنٹ نے ایک بار پھر مشرف کو آئین میں ترمیم کرکے حکومت اور اسمبلیاں توڑنے سمیت اختیارات کا گھنٹہ گھر بنا دیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور کی اندھیر نگری میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں عدلیہ حکومت اور حکمرانوں کے خلاف بے لاگ فیصلے دیتی رہی۔ وہ خود اوران کے حامی اسے جسٹس افتخار کا پیپلز پارٹی کے خلاف متعصبانہ رویہ قرار دیتے تھے اور کچھ لوگوں کی طرف نواز لیگی قیادت کیلئے چیف کے نرم گوشے کا اظہار بھی ہوتا رہا۔ اب ن لیگ کو بھی چیف جسٹس سے اپنے پیشرئووں جیسے تحفظات درپیش ہیں۔سول ایوی ایشن کے مشیرشجاعت عظیم سمیت کئی تقرریاں غیر قانونی قرار دی گئی ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کی صوبوں نے خود تاریخ دی۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ اپنی مجبوریاں بتانے گیا کہ اس کیلئے مقررہ تاریخوں پر الیکشن کرانا ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ نے صوبوں کی دی گئی تاریخوں پر ہی الیکشن کرانے کا حکم دیا تو اس سے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی دم پر تیلی گر گئی جس طرح سٹیل مل فروخت کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور یوسف رضا گیلانی کو گھر بھجوانے کے فیصلوں پر ق لیگ اور پی پی پی کی حکومت کی دم پر گری تھی۔ بلدیاتی الیکشن کرانے کے حوالے سے سیاسی حکومتوں کا خلوص نیت تو چار سال سے ان کو ٹالنے کی پالیسیوں اور اقدامات سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ اب سپریم کورٹ نے کوئی راستہ نہیں چھوڑا توقومی اسمبلی میں ساری پارٹیاں متحد ہو کر سپریم کورٹ کے سامنے سینہ سپر ہو گئیں۔ نیت درست ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔انکی نیت پر عوام کو اعتبار ہے نہ عدلیہ کو۔ حکمرانوں اور عمال کے چہروں پر جسٹس افتخار محمد چودھری کی ریٹائرمنٹ ڈیٹ قریب آنے پر رونق بڑھتی اور اقتدار و اختیار کی خماری چڑھتی جا رہی ہے۔ جسٹس افتخار نے جو Trend سیٹ کر دیا‘ میڈیا کی فعالیت اور عوامی شعور میں قدرے اضافے کے بعد چمڑے کے سکے چلانے کی آرزو رکھنے والے مشکل ہی سے سرخرو ہو سکتے ہیں۔ جیسی یہ خواہشیں پال رہے ہیں مشرف اور زرداری نے ڈوگر کورٹ سے بھی یہی کام لینا چاہا تھا۔ انکے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انکی طرح تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ لگتا ہے کہ ہماری عدلیہ حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور حاشیہ برداری سے ہمیشہ کیلئے نکل چکی ہے۔
مشرف کیخلاف مقدمات ختم نہیں ہوئے۔ عدالتیں شواہد کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ سابق صدر کی ضمانت پر رہائی کو این آر او سے مستفید ہونے والے ہی این آر او قرار دے رہے ہیں۔ بلاول کو اعتراض ہے کہ ان کے والد آصف علی زرداری پر بی ایم ڈبلیو کیس 90 میں بنا تھا اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا جبکہ مشرف کا 6 ماہ میں ہو گیا۔ پی پی پی والے بچے کو بتائیں کہ اس کے پاپا مقدمات لٹکانے میں کتنی مہارت رکھتے ہیں۔ استثنیٰ استثنیٰ استثنیٰ کا راگ قوم نے کس سے سنا؟گیلانی اب بھی کہتے ہیں کہ ان کو استثنیٰ حاصل ہے ۔مشرف نے اپنے لئے استثنیٰ کی بات نہیں کی۔پیپلز پارٹی کے مستقبل کی امیدآصفہ نے بھی کہا کہ ایک منتخب وزیر اعظم کے لئے فیصلہ اور، اور آمر کے لئے کچھ اور ہے ۔ ان کا اشارہ شاید اپنے ناناکی طرف ہو۔ مشرف کی ابھی ضمانت ہوئی، کیس چلیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے پیچھے ایک آمر کی قیادت میں پوری مشینری تھی ۔ مشرف پر بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ بھی ہے ۔اس کیس میں محترمہ کے لواحقین جو پانچ سال ملک کے سیاہ وسفید کے مالک رہے اور جاتے ہوئے ہر طرف تاریکیاں پھیلا گئے، پیروی سے گریزاں ہی نہیں انکاری بھی رہے۔ مشرف کو بے نظیر بھٹوقتل کیس میں سزا کیسے ہو سکتی ہے جب پی پی پی کی قیادت نے’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا فلسفہ ایجاد کر کے مشرف کو معاف کردیا۔میاں نواز شریف بھی مشرف کو معاف کر چکے ہیں ۔ میاں صاحب نے کئی بار کہا کہ مشرف نے جو انکے ساتھ جو کیا ‘ وہ اس کو بھول چکے ہیں البتہ جو کچھ انہوں کے آئین کے ساتھ کیا وہ اس کیلئے جواب دہ ہونگے۔مشرف کا سب سے بڑا جرم بارہ اکتوبر 1999ءکو اس حکومت کا تختہ الٹنا تھا جس کی کرپشن اور گھمنڈ سے عوام ہی نہیں لیگی خواص بھی تنگ تھے۔اس رات لوگ مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے ۔ایک بھی مسلم لیگی مظاہرے کیلئے سڑک پر نہیں آیا۔دو چار ماہ بعد آدھی سے زیادہ نواز لیگ،آئین شکن مشرف کے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو رہی تھی ۔یہ نواز شریف ہی کا قول ہے” لوگ کہتے تھے قدم بڑھاﺅ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ میں نے قدم بڑھایا ، پیچھے مُڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔“نواز شریف نے مشرف کو اپنے ساتھ کی جانیوالے زیادتیوں پر معاف کردیا جبکہ مشرف کو سب سے بڑے گناہ ،12 اکتوبر 1999ءکو منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے اقدام کی معافی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے دیدی۔اُ سی پارلیمنٹ نے ایک بار پھر مشرف کو آئین میں ترمیم کرکے حکومت اور اسمبلیاں توڑنے سمیت اختیارات کا گھنٹہ گھر بنا دیا تھا۔
مشرف کے 12 اکتوبر کے اقدام کی توثیق اور ان کو اختیارات سے مالا مال کرنیوالوں کی اکثریت آج نواز شریف کے شانہ بشانہ ہے۔ اس جرم، ستم یا کرم میں مجلس عمل بھی شریک تھی جسکا حصہ مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی اور منور حسن کی جماعت اسلامی بھی تھی۔ ان حضرات کے غیر محتاط رویے سے ”شہید کون“ کی بحث چھڑ گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن جذبات میں آکریہ کہہ بیٹھے کہ امریکہ کتے کو مار ڈالے تو وہ بھی شہید ہے اب اسکی وضاحت نہیں ہو پا رہی۔ اپنے م¶قف پر ہٹ دھرمی بعض کے نزدیک بے شرمی سے قائم ہیں۔ منور حسن کے خیالات اتنے تباہ کن ہیں جن کا خود ان کو بھی اندازہ نہیں۔ کون شہید اور کون مردود، یہ فیصلہ اللہ کے ہاں ہو گا۔ امریکہ کی دشمنی میں آپ اسلامی شعار روایات اور احکامات کو نہیں بدل سکتے۔ منور حسن کا چہرہ مہرہ اور وضع قطع عبدالستار ایدھی کی طرح مشترع ضرور ہے لیکن وہ مفتی ہیں نہ عالم فاضل۔ انہوں نے سوشیالوجی اور تاریخ میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی سے وابستگی اور اب سربراہی کے باعث سید منور حسن کو عموماً عالم و فاضل سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے مرنیوالے فوجی شہید نہیں ہیں۔ اس بیان سے فوج کے مورال اور ڈسپلن پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔جماعتِ اسلامی پر قیام پاکستان کی مخالفت کا داغ ابھی تک دُھل نہیں سکا کہ منور حسن نے ایک اور لگا دیا۔مولانا فضل الرحمان اور سیدمنور حسن کے فلسفے اور فتوے کے تناظر میں افغان جہاد کا تجزیہ کیا جائے تو امریکہ کی مدد سے مارے جانیوالے روسی شہید اور جو مجاہدین امریکہ کی حمایت اور اسلحہ سے لڑتے ہوئے روسیوں کے ہاتھوں مارے گئے وہ شہید نہیں تھے۔ آپکی کسی سے بھی محبت اپنی جگہ تاہم پاک فوج جاگتی ہے تو آپ سوتے ہیں اور امریکہ کی اس جنگ میں مشرف نے ہی جھونکا تھا جسکے آپ حامی تھے۔ اب وہ اقتدار سے تہی دامن ہے تو ہر کوئی ان کو تختہ دار پر لٹکانے پر تلا نظر آتا ہے۔ انکے بڑے جرائم معاف کرکے 2007ءکی ایمرجنسی اور اس سے کم تر سطح کے مقدمات میں پھانسی لگانے کی خواہش نظر آتی ہے جن میں ضمانت ہو گئی ۔گواہوں پر اسی طرح کام ہوتارہا اور مدعی اور گواہ سست ، پھانسی لگانے کے آرزو مند بے چُست رہیں تو وہ بری بھی ہو جائینگے۔
مشرف نے قید کے دوران ایک بار بھی والدہ سے ملنے کے بہانے دبئی جانے کی درخواست نہیں دی۔ ان کی ضدی طبیعت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کو اجازت ملی تو وہ ملک میں اسی طرح آتے جاتے رہیں گے جس طرح آصف علی زرداری ایوان صدر سے رخصتی کے بعد آجا رہے ہیں۔ ویسے بھی مشرف کا شمار ہماری اعلیٰ پاکباز سیاسی قیادت کی صف میں ہونے لگا ہے۔ آصف زرداری، نواز شریف، گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے لوگوں پر مقدمات ہیں اور وہ آزاد بھی پھر رہے ہیں۔ ذرا مشرف کے دور کا موازنہ پی پی پی کے گذشتہ اور نواز شریف کے موجودہ دور سے کریں تو واضح فرق نظر آئیگا۔ مشرف کے دور میں ڈالر 62 سے اوپر نہیں گیا ۔انکے پیشرو نواز شریف کے دور میں 68 روپے بھی رہا تھا۔آج ڈالر کی سپر میسی بلکہ ڈالر گردی کا دور دورہ ہے ۔مشرف دور میں بھی پٹرول کی قیمتوں میں ا تار چڑھا¶ ہوتا تھا۔ 56 روپے لٹر پٹرول رہا اور یہ 28 روپے کی سطح پر بھی گِرجاتا تھا۔ پاکستان کی سیاست روٹین اور روایات سے زیادہ معجزات و کرشمات کی سیاست ہے۔ جونیجو اور ظفر اللہ جمالی اپنی ا پنی واحد سیٹ کے بل بوتے پر وزیراعظم بنے۔ شوکت عزیز کے پاس ایک بھی نہیں تھی۔ مشرف بھاگنے والے نہیں ہیں۔ ان پر آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کی آج کی لیڈر شپ میں جرا¿ت ہی نہیں ہے۔ کسی بھی وقت کوئی کرشمہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں عہدہ جلیل سے جیل اور جیل سے جلیل القدر منصب پر تعیناتی کی روایتیں موجود ہیں جس کو مشرف کی صورت میں تاریخ دہرا سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment