About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, December 9, 2013

رول ماڈلز

رول ماڈلز

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
17 نومبر 20130
Print  
رول ماڈلز
 کراچی کی بد امنی ،لاقانونیت ،دہشت گردی اور قتل و غارت پر قابو پانے کیلئے جنرل نصیر اللہ بابر کے کئے گئے اپریشن کی طرز اپریشن ہی مجرد اور مجرب حل ہے۔ جن لوگوں کے ہاتھ طاقت آگئی وہ مذاکرات کے ذریعے سرنڈر کرنے پر آمادہ کبھی اور قطعی نہیں ہوں گے۔ علیحدگی پسند اور مذہبی جنگجو طاقت کا سمبل بن چکے ہیں۔ حاصل کی گئی طاقت آپ کو نسلر سے واپس لینے کی کوشش کریں گے تو وہ اپنی ذات اور اوقات کے مطابق مزاحمت کریگا۔کونسلر، چیئر مین ، ایم پی اے، ایم این اے، سنیٹر کے انتخابات طاقت کے حصول کا ہی ذریعہ ہے۔ اس کیلئے بے دریغ پیسہ اور خون تک پانی کی طرح بہانے سے دریغ نہیں کیاجاتا۔ ان سے کم تر عہدوں کیلئے اور بھی لوگ دوسروں کی جان لے اور اپنی دے دیتے ہیں۔ طاقت اصولی یا بے اصولی، شرافت یا بد معاشی جس بھی طریقے سے حاصل کی جائے کوئی اس سے رضاکارانہ دستبرداری پر آمادہ نہیں ہوتا۔ملک میں جس قسم کی بھی دہشت گردی ہورہی ہے اس سے نجات کیلئے ہمارے سامنے کئی رول ماڈلز موجود ہیں جیسا کہ کراچی میں جنرل نصیر اللہ بابر نے روڈی جولیانی کے نیو یارک میں کیے گئے اپریشن کی طرز پراپریشن کرکے کراچی کا امن بحال کردیا تھا۔حسین اور جنت نظیر وادی سوات کئی سال بارود کی بُو اور بم و گنوں کے دھویں میں لپٹی رہی، فوج کوجہاں اپریشن کی ذمہ داری سونپی گئی۔ فوج نے لوگوں کو کیمپوں میں منتقل ہونے پر آمادہ کیا۔تیس لاکھ لوگ گھر بار چھوڑ کر امن کی آرزو لئے کیمپوں میں چلے آئے ۔فوج نے ان میں چھپے شدت پسندوں کو نکالا اور وادی میں موجود جنگجوﺅں پر یلغار کی۔ کوئی گرا کوئی مرا اور کوئی فرار ہوگیا۔اس کے بعد سوات پُر امن ہے۔ تھوڑا سا ملک سے باہر جھانک کر دیکھیں تو سری لنکا میں تامل بلوچستان کے علیحدگی پسندوں ہی کی طرح قتل و غارت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔ان کو بالآخر 25 سال بعد ہی سہی نیست کردیا گیا ۔گوریلا کارروائیوں کے توڑ کو ناممکن کی حد تک مشکل سمجھاجاتا ہے دنیا تو اس سے بھی آگے جاچکی ہے۔ جہاں یاسر پیر زادہ کی اس تحقیق پر نظر ڈالی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔” 1972میں میونخ میں اولمپک کھیل منعقد ہوئے۔اس دوران اسرائیلی ٹیم کو ”بلیک ستمبر“ نامی گروہ نے یرغمال بنا لیا۔ اغوا کاروں سے مذاکرات بے نتیجہ رہے اور بالآخر ان کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں گیارہ اسرائیلی ایتھلیٹ ،کوچ اور ایک جرمن پولیس افسر مارا گیا۔”بلیک ستمبر“ کے آٹھ ارکان بھی ہلاک ہوئے، تین کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں جب ”بلیک ستمبر“ نے لفتھنزائیر لائن کا طیارہ اغوا کیاتو جرمنی کو مجبوراً ان گرفتارشدگان کو بھی رہا کر نا پڑا۔اس سارے واقعے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مئیر نے خفیہ ایجنسی موساد کو ایک آپریشن شروع کرنے کا ٹاسک دیا جس کے تحت ان تمام لوگوں کو چن چن کر مارنا تھا جو اسرائیلی ٹیم کو یرغمال بنانے کے منصوبہ ساز تھے۔اس آپریشن کی خاص بات یہ تھی کہ موساد کے ان افسران کو موساد سے ”فارغ “ کر کے یہ تاثر دیا کہ ان کا اسرائیلی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ موساد نے نہایت کامیابی کے ساتھ یہ آپریشن مکمل کیا۔
ہمارے ہاںدہشتگرد ججوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعصاب پر سوار ہیں۔ ان سے بھی نمٹنے کے کامیاب طریقے دنیا میں آزمائے جا چکے ہیں ۔اٹلی کا سسلین مافیابھتہ خوری، قتل، سمگلنگ اور دھونس دھاندلی سے سرکاری اور غیرسرکاری ٹھیکے حاصل کرنے جیسے جرائم میں ملوث تھا۔ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلانا تو دور کی بات ،ان پر ہاتھ ڈالنا ہی نا ممکن تھاکیونکہ مافیا کے جرائم پر بالکل اسی انداز میں پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی جیسے اپنے یہاں آج کل شدت پسندوں،علیحدگی پسندوں اور بھتہ مافیا کا دفاع کرنے والے انہیں ہر واردات کے بعد دودھ سے نہلا کر معصوم بنا دیتے ہیں۔اطالوی مافیا کے خلاف بھی ہر طرح کا ثبوت موجود ہونے کے باوجود کوئی ان کے خلاف ایکشن لینے کی جرات نہیں کرتا تھا کیونکہ مافیا سیاستدانوں، ججوں ، وکلا اور گواہان تک کو اڑا دیتا تھا۔بالآخر 1980میں اٹلی کی حکومت نے مافیا سے نمٹنے کے لئے ایک خاص قانون بنایا جو 1982میں لاگو کر دیا گیا۔اس قانون کی تجویز دینے والے سیاست دان کو مافیا نے قتل کردیا، بے تحاشا خوں ریزی ہوئی اور سینکڑوں افراد کو مافیا جنگ کے نتیجے میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑے جن میں اٹلی کے کاو¿نٹر ٹیریرزم کے سربراہ کے علاو ہ دیگر بے شماربڑے لوگ بھی شامل تھے۔اٹلی کی حکومت ہل کر رہ گئی۔اس نے ایک اینٹی مافیا پول تشکیل دیا جو تفتیشی مجسٹریٹس پر مشتمل ایک گروپ تھا جس نے جدید خطوط پر مافیا کے خلاف تفتیش شروع کی ،ثبوت اکٹھے کئے اور آپس میں ان تمام معلومات کے تبادلے کو یقینی بنایا تاکہ کسی ایک ممبر کے قتل کی صورت میں بھی تمام معلومات محفوظ رہیں۔اینٹی مافیاکے بنانے والے جج چینیسی روکو،کو بھی مافیا نے 1983میں قتل کردیا۔کئی برسوں کی انتھک محنت کے بعدبالآخر فروری 1986میں مافیا کے خلاف مشہور زمانہ میکسی ٹرائل شروع ہوا ،یہ ٹرائل سسلی کی ایک انیسویں صدی کی کنکریٹ سے تعمیر شدہ جیل کے بنکر میں ہوا۔سخت سیکورٹی میں600صحافیوں کی موجودگی میں یہ ٹرائل اٹلی کی تاریخ میں مافیا کے خلاف سب سے بڑا مقدمہ ثابت ہوا جس میں 475 مافیا ممبران کو اپنا دفاع کرنا تھا۔ 16دسمبر1987کو مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا، 474ملزمان میں سے 360کو سزا سنائی گئی اور انہیں کل ملا کر 2665برس کی قید ہوئی۔ اس کے علاوہ مافیا کے 19سرکردہ لیڈران کو عمر بھر کے لئے جیل میں ڈالا گیا۔ 114ملزمان کو ناکافی ثبوت کی بنا پربری کر دیا گیا جس سے یہ تاثر بھی زائل ہوا کہ یہ ٹرائل محض ایک دکھاوا تھا۔ میکسی ٹرائل نے اطالوی مافیا کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ہم کیوں ایسے اپریشنز اور قوانین و اقدامات سے رہنمائی حاصل کر کے دہشتگردی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟

No comments:

Post a Comment