About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, November 27, 2011

شاہ کے وفادار

 اتوار ، 27 نومبر ، 2011


شاہ کے وفادار

شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری کا اظہار کرنیوالے دراصل شاہ کی ذات سے زیادہ اپنی ذات کے وفادار اور اپنے مفادات کے پرستار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی چالاکیوں‘ عیاریوں‘ مکاریوں اور چرب زبانی و چاپلوسی سے جہاں اپنا گھر بقعہ نور بنانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں‘ وہیں ضرورت پڑنے پر کسی دوسرے کی ذات پر گند اچھالنے اور اسکے آشیاں پر بجلیاں گرانے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن جب خدا کا بے آواز کوڑا برستا ہے تو خود کو عقل کل سمجھنے والے اوندھے منہ گرے‘ عبرت کا ساماں اور ذلت کا نشاں بنے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے افراد ہر شعبے اور ادارے میں آسانی سے دریافت ہو سکتے ہیں۔ سیاست میں دریافت کرنے کی ضرورت نہیں‘ اپنے کردار‘ اعمال‘ افعال اور اپنے آقا کیلئے جانثاری و جانبازی سے بھرے ریاکارانہ جذبات کے باعث ایسے لوگ نمایاں ہوتے ہیں۔ آگے چلنے سے پہلے ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے جس سے آسانی سے واضح ہو جاتا ہے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا طریقہ واردات کیا ہوتا ہے اور اپنے راستے سے کانٹے ہٹانے کیلئے کہاں تک چلے جاتے ہیں۔ 
”بادشاہ کی والدہ کا انتقال ہوا تو کچن کیبنٹ کے ایک ممبر نے عرض کیا کہ حضور قبر میں ماں جی پر کڑا وقت آسکتا ہے‘ وہ فرشتوں کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے پائیں گی‘ کیوں نہ فلاں صاحب کو (جو کچن کیبنٹ کے دوسرے بارسوخ ممبر اور انکے حریف تھے) ماں کے مزار میں ساتھ بٹھا دیا جائے‘ تاکہ یہ ماں جی کی جگہ فرشتوں کے سوالات کے جواب دے دیں۔ بادشاہ سلامت کو تجویز پسند آئی اور حکم شاہی صادر فرما دیا جس پر دوسرے ممبر نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے بادشاہ سے عرض کیا کہ حضور ماں جی کے ساتھ مزار میں چلے جانا میرے لئے اعزاز ہے‘ آپ کو علم ہے کہ علم و فضل میں یہ صاحب مجھ سے برتر ہیں۔ مجھ سے لغزش ہو سکتی ہے‘ ان سے نہیں۔ لہٰذا یہ ساتھ جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا اور ماں جی کی منزل سہل ہو جائیگی۔ بادشاہ سلامت نے دوسرے مشیر کی رائے کو زیادہ صائب جانا اور والدہ محترمہ کے ساتھ پہلے مشیر کو مزار میں بٹھا کر اردگرد بغیر دروازے اور کھڑکی کے دیوار چنوا دی۔“ 
ماضی قریب اور حال کا جائزہ لیں تو بہت سے وفادار مطلب نکل جانے پر عیار کے روپ میں نظر آئینگے۔ بھٹو کے کتنے ہی وفادار‘ ضیاءکے حبدار بن گئے‘ ضیاءالحق کی تراشی ہوئی‘ مسلم لیگ کہیں نہ کہیں لڑکھڑاتی پھرتی ہے لیکن جنرل ضیاءکے سامنے کورنش بجا لانے والوں میں سے منزلِ مراد کی تلاش میں کوئی ادھر گرا کوئی ادھر گرا۔ آج پاکستان میں صرف انکی اولاد ہی ان کی نام لیوا ہے۔ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے تو نورتنوں میں گھرے رہتے تھے۔ مشرف نے شب خون مارا تو سب رتن دبک گئے۔ پھر کچھ مشرف کے دامن سے لپٹے اور کچھ تیل اور تیل کی دھار اور مارشل لاءکی نرمی دیکھ کر نواز شریف کی حمایت میں سرگرم ہو گئے۔ مشرف کو دس بار باوردی صدر منتخب کرانے کے دعویدار بھی انکی کمر خالی چھوڑ گئے۔ یوں مشرف آج دربدر، کبھی اس کے گھر، کبھی اس کے گھر ہیں۔آج حسین حقانی کو ایک کربلا اور ابتلا کا سامنا ہے‘ میمو کی تحقیقات بھی ہونا ہیں‘ اس میں وہ بے قصور بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ بڑے شاطر قسم کے انسان کے طور پر جانے جاتے ہیں‘ میمو کے معاملے میں ایسے پھنسے کہ استعفیٰ دینا پڑا۔ وہ کسی کو بھی چکر دیکر اپنا موقف منوانے کا ملکا رکھتے ہیں۔ وہ 88ءمیں سیاست کے آسماں پر طلوع ہوئے پھر اپنی عیاریوں اور مکاریوں سے سیاست کے آسمان پر چھاتے چلے گئے۔ کبھی اپنی چرب زبانی سے میاں نواز شریف کے مصاحبوں میں شامل ہوتے تو کبھی چاپلوسی سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں۔ 88ءسے 97ءتک حکومتوں کی شکست و ریخت اور تبدیلی کی طرح انکی وفاداریاں بھی بازیاں لگاتی رہیں۔ 2008ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو امریکہ میں پاکستان کی سفارت ان کی قسمت میں آئی۔ یہاں وہ آج تک شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری کا اظہار کرتے رہے۔ انکے بیک وقت شاہ بھی دو تھے۔ پہلا امریکہ‘ دوسرا جس نے انہیں امریکہ میں سفیر تعینات کیا۔ کیری لوگر بل میں پاک فوج کے گرد شکنجہ کسنے کا مشورہ بھی شاید انہیں کا تھا۔ پاکستان میں امریکہ کی مداخلت انہیں کی پالیسیوں سے بڑھی۔ بغیر تحقیق کے ہزاروں امریکیوں کو ویزے بھی موصوف نے جاری کئے۔ یہ امریکی آج بھی پاکستان کی گلیوں میں گھومتے پھرتے خوف کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ اپنی وفاداری کا یقین دلانے کیلئے آج حقانی بھٹوز کے مزاروں کا مجاور تک بننے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ کل کیا ہو گا؟ وہی جو ہماری سیاست میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ مرغِ بادنما۔ بابر اعوان بھی اپنی وفاداریاں جتانے اور اپنے دلائل کے ذریعے دن کو رات ثابت کرنے کی بے پایاں صلاحیت رکھتے ہیں‘ ایسے میں بڑے قانون دان ہونے کے باوجود عدالتوں کا احترام بھی بھول جاتے ہیں۔ لیکن کب تک؟ کیا جب تک زرداری کے سر پر تاجِ سردارا ہے؟ پارٹیوں کے سربراہان ذہن میں رکھیں‘ جو کل آپکے مدمقابل تھے‘ آج آپکے ساتھ ہیں‘ کل کسی اور کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں۔ یہاں میاں نواز شریف کا تاریخی جملہ موقع محل کے مطابق ہے ”آپ کہتے تھے قدم بڑھاﺅ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ میں نے قدم بڑھایا‘ پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا۔


Friday, November 25, 2011

دبئی چلیں؟

 نومبر ،24 ,2011


دبئی چلیں؟
(گزشتہ سے پیوستہ)
شہر کے اہم مقامات کی اہمیت سے آگاہی کیلئے نوجوان اسد گائیڈ کے طورپر ہمارے ساتھ تھا۔ اس کا تعلق سوات سے ہے۔پاکستان کے حالات دیکھ کراس کو بھی دکھی دیکھا۔ اُسے پاکستانی ہونے پر فخر ہے تاہم بعض اوقات شرمندگی سے بچنے کیلئے اسے اپنی قومیت چھپانا پڑتی ہے۔
ٹور کے آخر ی روز سب سے اہم ایونٹ انجینئرنگ شعبے کا وزٹ تھا۔ بس اسی مقام کیلئے پاسپورٹ ساتھ رکھنے کو کہا گیا تھا۔ہم وہاں بروقت پہنچ گئے۔ایک کیبن کے سامنے کھڑے تھے اندر بیٹھے نوجوان نے کہا لائن بنا کر پاسپورٹ جمع کرا کے وزٹنگ کارڈ حاصل کرلیں۔ لسٹ اس نے تھام رکھی تھی ۔سات آدمی لائن میںکھڑے ہوئے تو اس نے پہلے جس کو پکارا وہ چھٹے نمبر پر تھا دوسرا چوتھے پر۔لائن بنوانے کا کیا فائدہ؟ اس کے بعد ہمیں امریکہ جیسی سیکورٹی کیلئے کہا گیا۔جوتے اور بیلٹ اتارو! جو آگے کھڑے تھے انہوں نے انکار کردیا اور کہا ایسی بے عزتی نہیں کرائیں گے۔واپس جائیں گے۔ دوسرے کولیگز کے کہنے پر وہ تیار ہوگئے۔کیمرے تو پاسپورٹ کے ساتھ ہی رکھ لیے گئے تھے۔یہاں موبائل جوتے اور پنسل وغیرہ لکڑی کے ڈبے میں رکھ کر مشین سے گزرنے کیلئے رکھ دئیے گئے۔ میٹل ڈیٹیکٹر واک تھرو گیٹ سے گزر کر اپنا سامان اٹھا کر ایک صحافی آگے جانے لگا تو ایک بد مزاج عورت بڑی رعونت سے گویا ہوئی ” او مین ڈبہ واپس ریلنگ پر رکھو“۔عورت کے تحکمانہ لہجے پر میرے کولیگ نے جواب دیا ”آپ لوگ یہاں کس لیے بیٹھے ہیں“؟ دنیا میں کہیں ایسا نہیں کہ باسکٹ سے سامان اٹھانے والا باسکٹ یا ڈبہ واپس رکھ کر آئے۔ نوجوان کے جواب پر پولیس کا عملہ چلانے لگا۔ بات ان کے سنہری کراﺅن لگے افسر کے پاس پہنچی تو وہ بھی عملے کی طرح بد دماغ نکلا۔ ہماری بات ہی نہ سنی۔اس پر ہم سب نے مل کر جواب دیا کہ ہم وزٹ نہیں کریں گے واپس جاتے ہیں۔جس صحافی کے ساتھ عملے نے بد معاشی کی یہ وہی صاحب تھے جنہوں نے جوتے نہ اتارنے والوں کو سمجھایا تھا۔ ایسے صلح جو قسم کے انسان کے ساتھ پولیس کا رویہ انتہائی نامناسب تھا۔ اس کے بعد ہم نے کارڈ جمع کرا کے پاسپورٹ مانگے تو ہمیں بیس منٹ تک پاسپورٹ نہ دئیے گئے اس دوران پاسپورٹ ضبط کرنے کا تاثر اور ہم میں سے کچھ کو گرفتار کرنے کا عندیہ دیا گیا۔اس کے باوجود ہم وزٹ سے انکاری رہے۔ بہرحال ہمیں پاسپورٹ مل گئے۔ہوٹل کے راستے تک ہم نے باقی مصروفیات ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ بد تمیز عملے کا ایمریٹس ائر لائن سے تعلق نہیں یہ دبئی پولیس ہے۔اس تاثر کے بعد کچھ کی رائے تھی کہ باقی پروگرام جاری رکھاجائے۔ ہم ہوٹل پہنچے تو کو آرڈی نیٹر شبھان وہاں پہنچ چکی تھی جس نے معذرت کی اور باقی پروگرام جاری رہا۔ اس میں ایک تو ایمریٹس کے سوا دو کلو میٹر پر پھیلے کچن اور کیٹرنگ کا د ورہ تھا دوسرے انڈین اوشن اور ویسٹ ایشیا کے کمرشل اپریشن کے سینئر نائب صدر شیخ ماجد المعلیٰ سے انٹرویو۔ ایگزیکٹو شیف مکیش کا تعلق بھارت سے تھا جس نے لسی سمیت پاکستانی کے لذیذ کھانے بنائے تھے مکیش بات بات پر ماشاءاللہ کہتا تھا۔ اس نے بتایا کہ سال میں ایک مرتبہ اجمیر شریف خواجہ چشتی کی درگاہ پر حاضری ضرور دیتا ہوں۔ شیخ ماجد معلیٰ سے انٹرویو ہمارے ٹور کا آخری ایونٹ تھا جو بہت اچھا رہا۔شیخ تیس 35سال کے ہوں گے لیکن ان کو اپنے شعبے پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ہمارے ہر سوال کا تشفی جواب دیا یہاں بھی ایک تھوڑی سی بد مزگی ہوئی۔ ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ ایمریٹس کے حوالے سے خبروں کی پریس ریلیز کسی ایونٹ کے چار روز بعد پہنچتی ہے۔جس پر شیخ ماجد کا جز بُز ہونا قدرتی امر تھا اور وہاں سی ایم سی کی افسر مس انعم موجود تھیں۔البتہ شیخ نے شدید ردّعمل کا اظہار نہیں کیا بظاہر انہوں نے اسے سرسری انداز میں نظر انداز کردیا تاہم سی ایم سی کیلئے یہ پریشان کن امر ضرور ہے ۔ہمارے ساتھی نے نہ جانے یہ بات کیوں کردی جس سے ہماری کوآرڈینیٹر کی سبکی ہوئی۔ جس پرانعم نے وضاحت کی کہ ائیر شو کی خبریں سی ایم سی ریلیز کرتی رہی جو ہر اخبار میں بروقت شائع ہوئیں۔ ثبوت کیلئے انہوں نے ریفرنس بھی دئیے۔


یہ خبر نواے وقت کے پرنٹ پیپر میں شائع کی گئی ہے اس تارخیح کا سارا پیپر پھرنے کے لیے.جہاں کلیک کر

Wednesday, November 23, 2011

دبئی چلیں

 بدھ ، 23 نومبر ، 2011

دبئی چلیں
فضل حسین اعوان 
کراچی بیسڈ کارپوریٹ اینڈ مارکیٹنگ کمپنیCMC کی طرف چار دن کیلئے دبئی ٹور کی دعوت تھی۔ جناب مجید نظامی صاحب نے ڈیلی نیشن اور نوائے وقت کی طرف سے مجھے نامزد کیا جس پر ادارے کی طرف سے اسے کرم فرمائی پر خوشی توبھی بہت ہوئی مگرایک خوف بھی محسوس ہوا۔خوف پی آئی اے میں ممکنہ سفر کا تھا۔آج پی آئی اے کی وہ حالت ہوچکی ہے جس کی عکاسی ایک سکھ کے جہاز پر سوار ہوتے ہوئے ائیر ہوسٹس سے مکالمے میں ہوتی ہے۔ سکھ نے پوچھا تھا کہ جہاز میں تیل تو پورا ہے۔ائیر ہوسٹس نے حیرانی سے ہاں کہا۔سردار جی کا دوسرا سوال ہوا کے پورا ہونے اور انجن کے ٹھیک ہونے سے متعلق تھا۔ ائیر ہوسٹس نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا سردار جی آپ کو یہ پریشانی کیوں ہے۔اس پر سردار صاحب نے کہا تھا اس لئے پوچھا کہ کہیں راستے میں دھکا لگانے کو نہ کہہ دینا ! کرپشن اور اقربا پروری نے پی آئی اے کی کمر توڑ کررکھ دی ہے۔جہاز کا بروقت محوِ پرواز ہونا اور بغیر ایمر جنسی کے منزلِ مقصود پر پہنچ جانا آج معجزے سے کم نہیں....!
سی ایم سی کی طرف سے ٹور کی نوعیت کے حوالے سے تفصیلات روانگی سے ایک روز قبل بتائی گئیں۔ سی ایم سی امیج میکنگ اور ایڈورٹائزنگ کی بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس نے اپنے ایک بڑے کلائنٹ امارات ائیر لائن کی دعوت پر فیملرائزیشن ٹور ارینج کیا تھا۔ہمیں ایمر یٹس ائیر لائن پر ہی سفر کرنا تھا۔دیگر ساتھیوں میں دی نیوز کے سلیم قاضی، فرنٹئر پوسٹ کے جلیل آفریدی، پاکستان آبزرور کے گوہر زاہد ملک،ڈیلی ٹائمز کے شبیر سرور، بزنس ریکارڈ رکے محمد علی اور ایکسپریس ٹربیون کے فصیح منگی شامل تھے۔شبیر سرور اور میں نے لاہور سے دیگر نے کراچی،اسلام آباد اور پشاور سے جانا تھا۔ سی ایم سی کی طرف سے کو آرڈینیٹر کے طورپر مس انعم بدھیلیہ اوردبئی میں ایمر یٹس ائیر لائن کی طرف سے مس شبھان برڈٹ کوآرڈینیٹر تھیں۔
لاہور سے دبئی ائیر پورٹ اور پھر لی میریڈین گرہوڈہوٹل تک امارات ائیر لائن نے بڑے پروٹوکول کے ساتھ پہنچایا۔ہوٹل استقبالیے پر موجود نوجوان نے بتایا کہ آپ کی 17نومبر سے بکنگ ہے۔اس وقت صبح کے 4 بجے تھے۔یعنی 17 تاریخ کو شروع ہوئے 4گھنٹے ہوچکے تھے۔نوجوان نے یہ بتا کر ہماری نیم خوابیدہ آنکھوں سے نیند اڑا دی کہ ہوٹل کے قانون کے مطابق اگلی تاریخ دن بارہ بجے شروع ہوگی اور ہمیں کمرے دوبجے بعد از دوپہر ملیں گے۔ پروٹوکول دینے والے جاچکے تھے۔خو ش قسمتی سے استقبالیئے پر تعینات نوجوان عماد ناصر کا تعلق پشاور سے تھا جس نے ہمارے ساتھ تعاون کیا اور ہمیں اسی وقت کمروں میں شفٹ کردیا گیا۔ صبح دس بجے تک باقی ساتھی بھی پہنچ گئے۔ اسی روز ہمیں ایمر یٹس کے کیبن کریوز کے ٹریننگ سنٹر جانا تھا۔ یہیں پہ حامد فیض صاحب سے ملاقات ہوئی وہ سینئر ترین پاکستانی پائلٹ ہیں A380جہاز اڑاتے ہیں جو دنیا کا شاید سب سے بڑا مسافر بردار طیارہ ہے.... امارات ائیر لائنز نے پاکستان سے دو جہاز لیز پرلے کراکتوبر1985 میں سفر کاآغازکیا۔ آج اس کے پاس 164 جدید ترین طیارے ہیں۔2016 تک وہ اس تعدادکو280 تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ آج ایمر یٹس دنیا کی تیسری بڑی ائیر لائن ہے۔خوشی ہوئی کہ متحدہ عرب امارات کی ایک ریاست نے اتنی تیزی سے ترقی کی ساتھ ہی یہ سوچ اور دیکھ کر دل کٹ کے رہ گیا کہ جس پی آئی اے نے ایمریٹس ائیر لائن کو قیام میں مدد دی وہ آج پستی کی گہرائیوں میں جاگری ہے۔کیا پاکستان میں اہلیت و صلاحیت کی کمی ہے؟ ہرگز نہیں۔ نہ صرف ایمر یٹس کے وجود میں آنے میں پاکستان کا کردار ہے بلکہ آج پاکستانی ایمریٹس ائیر لائن میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ایمر یٹس کے ہرشعبے میں پاکستانیوں کی تعداد نمک میں آٹے کے برابر ہے۔مثلا کیبن کریوز کی تعداد14 ہزار ہے۔ان میں 25پائلٹوں سمیت 124پاکستانی ہیں جبکہ انجینئرنگ کے شعبے میں سب سے زیادہ پاکستانی ہیں۔ ان میں سے اکثر پاکستان آناچاہتے ہیں لیکن کرپشن ان کے راستے کا قلزم بن چکا ہے۔ ہما خواجہ 17سال سے ائیر ہوسٹس کے طورپر کام کر رہی ہیں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی وفد کے دورے کا سنا تو اپنی چھٹی کے باوجود چلی آئی وہ بڑے فخر سے پاکستانی گرین پاسپورٹ دکھا رہی تھیں۔
دبئی بڑی خوبصورت اور خوشحال ریاست ہے جس میں ٹورزم کابھی اہم کردار ہے۔ دبئی میں شراب اور شباب کی تلاش اور حصول مشکل نہیں۔ تاہم موجودہ بادشاہ جوئے کے سخت خلاف ہیں۔انہوں نے ریاست میں کوئی کسینو نہیں کھلنے دیا۔وہاں جتنے بھی پاکستانی انڈین یا دیگر قومیتوں کے لوگ ملے سب عزت مآب شیخ محمد کا دل سے احترام کرتے پائے گئے۔
دبئی اور پاکستان کے موازنے کیلئے بہت کچھ ہے۔وہاں آج بھی وافر مقدار میں بجلی موجود ہے اس کے باوجود مستقبل کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ونڈ اور سولر انرجی پر کام شروع ہوچکا ہے۔آج سمندر کے پانی کو ابال کر اس کی بھاپ سے ٹربائن چلا کربجلی پیدا کی جاتی ہے پھر اس بھاپ کو پانی میں تبدیل کرکے شہریوں کے استعمال میں لایاجاتا ہے۔استعمال شدہ پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ کے ذریعے کاشتکاری کے قابل بنادیاجاتا ہے۔صحرا کو اگر سرسبز نہیں بنایا تو اسے سیاحوں کیلئے سفاری مہم جوئی طرز کی سیر گاہ بنادیا گیا ہے یہاں روزانہ ہزاروں سیاح جاتے ہیں فی کس ٹکٹ350 درہم رکھی گئی ہے۔مہم جوئی کے آخر پر شام ڈھلے باربی کیو کا اہتمام اور بیلی ڈانس کا انتظام کیاجاتا ہے۔ پاکستان میں دیانتدار لوگوں کے ہاتھ میں زمامِ کار آجائے تو پاکستان چند سال میں اپنے وسائل اور محنتی عوام کے بل بوتے پر دبئی جیسی ریاستوں سے کہیں آگے جاسکتا ہے۔شہر کے اہم مقامات کی اہمیت سے آگاہی کیلئے نوجوان اسد گائیڈ کے طورپر ہمارے ساتھ تھا۔ اس کا تعلق سوات سے ہے۔پاکستان کے حالات دیکھ کراس کو بھی دکھی دیکھا۔ اُسے پاکستانی ہونے پر فخر ہے تاہم بعض اوقات شرمندگی سے بچنے کیلئے اسے اپنی قومیت چھپانا پڑتی ہے۔
ٹور کے آخر ی روز سب سے اہم ایونٹ انجینئرنگ شعبے کا وزٹ تھا۔ بس اسی مقام کیلئے پاسپورٹ ساتھ رکھنے کو کہا گیا تھا۔ہم وہاں بروقت پہنچ گئے۔ایک کیبن کے سامنے کھڑے تھے اندر بیٹھے نوجوان نے کہا لائن بنا کر پاسپورٹ جمع کرا کے وزٹنگ کارڈ حاصل کرلیں۔ لسٹ اس نے تھام رکھی تھی ۔سات آدمی لائن میںکھڑے ہوئے تو اس نے پہلے جس کو پکارا وہ چھٹے نمبر پر تھا دوسرا چوتھے پر۔لائن بنوانے کا کیا فائدہ؟ اس کے بعد ہمیں امریکہ جیسی سیکورٹی کیلئے کہا گیا۔جوتے اور بیلٹ اتارو! جو آگے کھڑے تھے انہوں نے انکار کردیا اور کہا ایسی بے عزتی نہیں کرائیں گے۔واپس جائیں گے۔ دوسرے کولیگز کے کہنے پر وہ تیار ہوگئے۔(جاری ہے)

”ہندو مسلم دالیں“

 بدھ ، 16 نومبر ، 2011


”ہندو مسلم دالیں“
فضل حسین اعوان ـ 16 نومبر ، 2011

 نہ جانے کسی نے کیا سونگھا دیا‘ پلا دیا یا لگا دیا۔ بھارت سے دوستی‘ تجارت اور تعلقات کے لئے ایک جنون سا بپا ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود ہر پارٹی کسی اور معاملے میں کوئی دوسری سوچ اور پالیسی رکھ سکتی ہے۔ بھارت کی پسندیدگی میں سب ایک دوسری سے آگے ہیں۔ پارلیمنٹ کی دہلیز پر بیٹھے عمران خان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ عمران خان نے نواز شریف کی طرح یہ بھی کہہ دیا کہ مسئلہ کشمیر کو بالائے طاق رکھ کر بھارت سے تجارت کی جائے۔ اس دوڑ میں حکمران‘ اپوزیشن اور عمران ہی کیا صحافی بھی پیچھے نہیں رہے۔ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود پیار کی پینگیں بڑھانے کی خواہش رکھنے والوں نے ”دل کو سمجھانے کے لئے“ خود ساختہ دلائل تراشے ہوئے ہیں۔ ایسے دلائل سے بھرپور جاوید چودھری نے ’ہندو مسلم دالیں“ کے عنوان سے کالم لکھا ہے۔ اس کالم میں چودھری صاحب نے سینٹ موریس سے پیرس تک بھارتی نوجوان ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ ٹرین میں ہمسفری کی روداد بیان کی ہے۔ ان کے ہمسفروں میں ایک لڑکا اور دو لڑکیاں تھیں۔ ”فلموں کی بات شروع ہوئی اور اجنبیت کی دیواریں تیزی سے گرتی چلی گئیں۔ کلکتہ سے تعلق رکھنے والی خاتون نے سپرش فلم کا نام لیا تو (جاوید چودھری نے) نہ صرف پوری فلم کی کہانی سنا دی بلکہ نصیر الدین شاہ اور شبانہ اعظمی کے چند ایسے شارٹس کی تفصیل بھی بتا دی جس کے بارے میں وہ واقف نہیں تھی۔“ پھر یوں ہوا کہ وہ محمد رفیع‘ آشا بھوسلے اور لتا منگیشر کے بول بتاتے اور چودھری صاحب اپنے آئی فون میں محفوظ 4 ہزار گانوں سے مطلوبہ نغمہ نکال کر ان کو سنا دیتے۔ خواتین نے باور کرایا کہ وہ پاکستان کے علی ظفر‘ عاطف اسلم اور راحت فتح علی خان کی انتہائی فین ہیں۔ کالم نگار کے بقول ان کے تینوں ہمراہی کٹر ہندو تھے۔ ایک کلکتہ کے متعصب ترین خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود یہ کھلے ”ذہن اور معتدل مزاج کے لوگ تھے۔ ان کے دل میں اتر جانے والوں نے ان کو بتایا ”بھارت بدل رہا ہے‘ بھارت کا نوجوان بزرگ نسل سے مختلف ہے۔ بھارتی نوجوان ہندو اور مسلم کی تقسیم کو تسلیم نہیں کر رہے‘ ہم پاکستانیوں کو برا بھی نہیں سمجھتے اور ہم چھپ کر گوشت اور مچھلی بھی کھا لیتے ہیں اور اس سے ہمارا دھرم بھی بھرشٹ نہیں ہوتا۔ ہم لوگ بال ٹھاکرے جیسے شدت پسندوں کو بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔ عاطف اسلم‘ علی ظفر اور راحت فتح علی خان ہمارے ہیروز ہیں۔ ہم شعیب ملک‘ شاہد آفریدی اور عمران خان کو پسند کرتے ہیں اور ہمیں پاکستانی شاعروں کی شاعری اور لکھاریوں کی تحریریں بھی اچھی لگتی ہیں۔“ ایک خاتون نے حسرت سے پوچھا ”یہ سرحدیں کب کھلیں گی‘ میں لاہور دیکھنا چاہتی ہوں۔“ نوجوان کالم نگار نے اپنے جذبات چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ فرماتے ہےں”یہ اڑھائی گھنٹے کی ملاقات تھی ہم لوگ پیرس پہنچ کر ایک دوسرے سے الگ ہو گئے لیکن ہمارے جذبات‘ گفتگو کی حدت اور احساسات کا سفر ابھی تک جاری ہے۔“
چودھری نے مزید لکھا ”میں نے بھارتی سائنس دانوں کے ساتھ سفر کے دوران محسوس کیا بھارتی نوجوان انڈین بزرگوں کی طرح متعصب نہیں ہیں۔ ان کا ذہن کھل رہا ہے اور یہ پاکستان کو اس نظر سے نہیں دیکھتے جس نظر سے رام لال یا نتھو رام دیکھتے تھے۔ پاکستان کے اندر بھی صورتحال مختلف نہیں۔ پاکستانی نوجوان بھی بدل رہا ہے۔ یہ 1947ءیا 1971ءمیں زندہ نہیں‘ اس کی سوچ بھی 2011ءکے سانچے میں ڈھل رہی ہے۔ یہ بھی اب مزید دشمنی کا بوجھ اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ یہ درست ہے 1947ءسے پہلے برصغیر کے مسلمان اور ہندو ایک دوسرے سے خوش نہیں تھے۔ یہ بھی درست ہے 1947ءمیں مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ بے انتہا ظلم ہوا تھا اور پاکستانی پنجاب کے مسلمانوں نے اس کا دل کھول کر بدلہ بھی لیا‘ یہ بھی درست ہے آج بھی مشرقی پنجاب میں ایسی ہزاروں مسلمان خواتین موجود ہیں جنہیں سکھوں نے زبردستی سکھ بنا لیا تھا اور لاہور‘ قصور‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ اور فیصل آباد میں ایسی ہندو عورتیں بھی ہیں۔ جنہیں یہاں کے مسلمانوں نے زبردستی اپنے عقد میں لے لیا تھا اور یہ بھی ٹھیک ہے تقسیم کی لکیر خون کی لکیر تھی اور دونوں طرف آزادی کے نام پر اتنا خون بہایا گیا تھا کہ آج تک تاریخ کے ورق خون سے لتھڑے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے ماضی کو ماضی ہوئے 64 سال گزر چکے ہیں اور ان 64 برسوں میں تیسری نسل جوان ہو چکی ہے اور یہ نسل پچھلی تینوں نسلوں سے مختلف ہے‘ یہ نسل بھارتی فلمیں دیکھتی ہے اور سرحد کے دونوں طرف پاکستانی نغمہ نگاروں کی شاعری اور پاکستانی گلوکاروں کے گانے سنے جاتے ہیں چنانچہ اگر سرحد کے اس طرف سے فلمیں آسکتی ہیں اور ادھر سے راحت فتح علی‘ عاطف اسلم اور علی ظفر ادھر جا سکتا ہے تو پھر ادھر سے آلو‘ پیاز اور لہسن کیوں نہیں آسکتا ہے اور ادھر سے کاٹن‘ مٹر اور کوئلہ ادھر کیوں نہیں جا سکتا؟ ہمیں سرحدیں کھولنا ہوں گی کیونکہ یہ آج اور آنے والے کل کا سچ ہے‘ دنیا میں اگر یورپ کے وہ 25 ملک ایک ہو چکے ہیں جو بیس سال پہلے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے تو ہم بھارت اور پاکستان کی سرحد کو کب تک بند رکھ لیں گے چنانچہ جو کام کل ہونا ہے وہ آج کیوں نہ ہو جائے؟ وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
حکومت نے بھارت کو تجارت کیلئے پسندیدہ ترین ملک قرار دیا‘ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور ہم اگر اس اچھے فیصلے کے دوران کشمیر اور کشمیریوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں تو اس کے نتائج بہت اچھے نکلیں گے‘ ہم اگر یہودی دالیں اور یہودی مشروبات پی سکتے ہیں تو ہندو دالیں‘ سبزیاں اور گندم اور مسلمان گنا‘ کپاس اور کوئلے کی تجارت کرنے میں کیا حرج ہے‘ نفرت کی یہ دیواریں گرنی چاہئیں کیونکہ اس سے بند معاشرے میں ہوا کا تازہ جھونکا بھی آئے گا اور ہمیں ترقی کا سبق سیکھنے کا موقع بھی ملے گا‘ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور میں حکومت کو اس پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔“ 
جس لکیر کو آج کالم نگار 64 سال بعد مٹانے کی بات کرتے ہیں وہ کھینچی ہی نہ گئی ہوتی توہم کہاں ہوتے؟ یقیناً ہمارا مقدر وہی ہوتا جو آج بھارت کے عام مسلمان کا ہے۔ بھارت مےں کتنے مسلمان صحافی اور اینکر ہیں جو کالم نگار مذکور کی طرح ملک ملک گھوم رہے ہیں؟ موصوف اگر فرانس تک گئے۔ وہاں ٹرین میں سفر کیا تو اسی لکیر کی بدولت جو پاکستان اور بھارت کی سرحد قرار پائی۔ سائیکل سے لگژری کاروں‘ گدھے سے جہازوں اور مکان سے محل تک کس نے پہنچایا؟ خدانخواستہ آج یہ لکیر مٹ جائے تو کل ہی جدید زندگی کو بیک گیئر لگ جائے گا۔ پھر سائیکل گدھے اور گھروندا اپنے وژن ادراک اور خواہشات کی آنکھ نہ دیکھیں۔ ادھر ادھر نظر دوڑائیں اب بھی کافی بزرگ مل جائیں گے۔ جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا ان سے پوچھیں امن کے بارڈر کو خون کی لکیر میں کس نے تبدیل کیا؟ قائداعظم کے وفاداروں نے یا گاندھی و نہرو کے چیلے چانٹوں نے۔
بھارتی نوجوانوں کے آئیڈیل‘ ہمارے گلوکار بھارت سے عزت اور عظمت سمیٹ کر نہیں جوتے گالیاں کھا کر، نفرتوں اور لعنتوں کا طوق پہن کر لوٹتے ہیں پھر بھی یہ بے غیرت ہمہ وقت بھارت یاترا کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ جو نوجوان موصوف کو ٹرین میں ملے کیا یہ واقعی بھارتی نوجوانوں اور نئی نسل کے نمائندہ ہیں؟ آپ 64 سال قبل کی قتل و غارت بھلانے کی بات کرتے ہیں۔ سمجھوتہ ایکپسریس کی آتشزنی کو صدیاں نہیں بیت گئیں۔ گجرات میں مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ خاندان کے خاندان جلا دئیے گئے۔ یہ کام ہندو بزرگوں نے نوجوانوں سے ہی کرایا۔ یقیناً ایسے ہندو نوجوان ضرور ہوں گے جو پاکستان کے ساتھ دوستوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں ان کی تعداد اتنی ہی ہو گی جتنی پاکستان میں موجود پوتر جل کو مقدس قرار دینے والے نوجوانوں کی۔ ہندو تو اپنی نسل کو پہلا درس ہی اسلام اور مسلم دشمنی کا دیتا۔
آپ پاکستانی نوجوان کے بدلنے کی بات کرتے ہیں کہ وہ 1947ءیا 1971ءمیں زندہ نہیں۔ اس کی سوچ 2011ءمیں ڈھل رہی ہے۔ وہ مزید دشمنی کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستانی نوجوان کی سوچ 47ءاور 71ءکی سوچ ہی نہیں 14 سو سال قبل کی سوچ ہے۔ ہندو سے دوستی کرنی اور سرحدیں کھولنی ہیں تو دل مسلم سے 14 سو سال قبل کی سوچ کھرچنا ہو گی۔ امن کی آشا والے ایسا کر دیکھیں۔ کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ملت کی نمائندگی اپنے آئی فون میں 4 ہزار انڈین گانے بھر کے سننے اور سنانے والے ہندو کلچر اپنانے والے‘ انڈین فلموں کے دیوانے نہیں‘ شمع رسالت کے پروانے‘ چراغ مصطفوی سے دلوں کو روشن بنانے اور اقبال قائد کی محبت کے دیپ جلانے والے کرتے ہیں۔
مسلم اور پاکستانی نوجوان 47 کے مظالم بھلا سکتا ہے نہ 71ءکی تلخ یادوں سے اپنا دامن چُھڑا سکتا ہے۔ البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخم بھرنا شروع ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ پاکستان کی شہ رگ پر دشمن بدستور قابض ہے اور آئے روز نئے زخم دے رہا ہے۔ کوئی بھی غیرت مند پاکستانی کشمیریوں کے قتل‘ خواتین کی بے حرمتی کو برداشت کیسے کر سکتا ہے۔ دست قاتل جو شناسا بھی ہے دست شفقت کیسے بن سکتا ہے؟ ساڑھے سات لاکھ بھارتی سفاک سپاہ کے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم کیا یہ دست شفقت ہے؟
کوئی بھی شخص اپنی رائے رکھنے میں حق بجانب ہے لیکن اظہار میں کسی کا دل دکھے اس کی اجازت شاید اخلاقیات نہیں دیتی۔ جب حقائق اور تاریخ کو اپنے جذبات کی تسکین اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے موم کی ناک بنا کر اسے مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اہل دل کا دل کیوں نہیں جلے گا۔ چھوٹے بڑے‘ واجبی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم کے حامل تک جس کے سامنے بھی یہ دو معاملات رکھے وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ (1) مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ بے انتہا ظلم ہوا اور پاکستانی پنجاب کے مسلمانوں نے اس کا دل کھول کر بدلہ لیا (2) یہ بھی درست ہے کہ آج بھی مشرقی پنجاب میں ایسی ہزاروں مسلمان خواتین موجود ہیں جنہیں سکھوں نے زبردستی سکھ بنا لیا اور لاہور‘ قصور‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ اور فیصل آباد میں ایسی ہندو عورتیں بھی ہیں جنہیں یہاں کے مسلمانوں نے زبردستی اپنے عقد میں لے لیا تھا۔ بعض اوقات انسان کو پتہ نہیں چلتا کہ اس کے قلم سے قرطاس پر بکھیرے ہوئے الفاظ کہاں تک کاٹ اور مار کریں گے۔ کسی کی سوچ پر پابندی نہیں۔ لوگ کہہ سکتے ہیں۔ نادانستگی میں آپ دشمن کے خیراتی گواہ بن رہے ہیں۔ کسی کی زبان نہیں پکڑی جا سکتی کہنے والوں کو نہیں روکا جاسکتا۔ اگر دانستہ یہ کہا ہے تو خدا جانے کیا قیمت وصول کی۔ اگر پاکستانی پنجاب میں ہندو قتل ہوئے تو کیا ان کی تعداد اور طریقہ کار وہی تھا جو بھارتی پنجاب میں اختیار کیا گیا۔ پاکستان بھارت سرحد خون کی لکیر نہیں مسلمانوں کے قتل عام سے خون کا قلزم بن گئی تھی۔ اسے قتل و غارت نہیں بلکہ ہالوکاسٹ کہنا زیادہ صحیح ہے۔ وہاں سے لاشوں سے اٹی کتنی ہی ٹرینیں آئیں اور یہاں سے ایک بھی نہیں گئی۔ لالہ موسیٰ میں اپنی عزتیں بچانے کے لئے ہندو عورتوں نے چھلانگیں لگا کر کتنے کنویں بھر دئیے تھے؟ شاید کالم نگار مذکور اپنے علاقے سے کسی پرانے بابے کو گواہی کے لئے ڈھونڈ لائیں۔ ناموس کی خاطر کنووں میں کودنے والی خواتین کو دیکھنے والی بوڑھی آنکھیں آج بھی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں مل جائیں گی۔ ایسے بزرگ بھی زندہ ہیں جنہوں نے لاشوں سے اٹی ٹرینیں دیکھیں۔ وہاں گاوں کے گاوں اور بستیوں کی بستیاں جلا کر راکھ کر دی گئیں یہاں بتائیے ایک بھی گاوں جلا؟ 
جاوید چودھری بڑے نام والے کالم نگار اور اینکر ہیں۔ جمیلہ ہاشمی نے اپنے ناول میں ایک ہندو عورت کے مسلمان کے عقد میں جانے کا ذکر کیا ہے۔ ناول اور افسانے کتنے حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں؟ اس کے سوا کوئی تذکرہ نہیں سنا کہ ہندو عورتوں کو بالکل اسی طرح جبری نکاح میں لے لیا گیا ہو جس طرح مشرقی پنجاب میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان خواتین کے ساتھ ہوا۔ اگر ایسے واقعات یہاں بھی ہوئے تھے تو جاوید چودھری دوچار دس خواتین یا ان کو اپنے عقد میں لانے والوں کے انٹرویو کرکے اپنی افسانوی داستاں کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کریں۔ ہندو کو اب شاید مسلمانوں کے ہندووں پر مظالم ثابت کرنے کےلئے تاریخ کی خاک نہیں چھاننا پڑے گی۔ ان کو ہزار ہندو اور انگریز تاریخ دانوں سے بڑا پاکستانی مسلمان گواہ مل گیا.... جس طرح ہندو نوجوانوں کے گوشت اور مچھلی کھانے سے دھرم بھرشٹ نہیں ہوتا اسی طرح اگر ہندو کلچر کے دلدادہ اور اس سے تعلقات و تجارت کے تمنائی گائے کو گﺅ ماتا قرار دے کر اس کا مُوت پینے پر تیار ہیں تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ البتہ ایک طرف کشمیریوں کا خون بہایا چلا جا رہا ہو اور دوسری طرف ان کے شانہ بشانہ ہو کر ان کی آزادی کے لئے کوششیں کرنے کے بجائے ان کے قاتلوں سے گلے ملنے کی خواہش رکھنے والوں کو کس نام سے پکارنا چاہئے؟ اس سوال کا جواب قارئین اور محب وطن پاکستانیوں کے ذمے رہا۔ 
موصوف نے سوال کیا ہے کہ اگر یورپ کے وہ 25 ممالک ایک ہو سکتے ہیں جو بیس سال پہلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ تو بھارت اور پاکستان کی سرحد کو کب تک بند رکھ لیں گے؟.... کیا یورپ کے ممالک کی آپس میں دشمنی اسی طرح کی تھی جیسی پاکستان بھارت کی ہے۔ ان کے ایک ہونے سے قبل کیا کوئی ملک دوسرے کے باشندوں کو اسی طرح قتل کرتا تھا جس طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج خونریزی کر رہی ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں جب تک ہندو کا جبر بند نہیں ہوتا پاکستان بھارت سرحد نہیں کھل سکتی۔ وادی کے مکینوں کو حق خودارادیت دلا دیں سرحدیں خود بخود کھل جائیں گی۔ جذبات کی حدت لے کر وکالت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس وقت تک بھارتی دالیں حرام ہیں۔ تعلقات و تجارت شجر ممنوعہ اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا قائد کے افکار کی توہین ہے۔



Monday, November 14, 2011

! ایران پر حملہ ہوا تو

نومبر ,2011,13، 


ایران پر حملہ ہوا تو
فضل حسین اعوان 
اسرائیل نے ایک بار پھر ایران پر حملے کی دھمکی دی ہے۔ صدر شمعون پیریز نے حملے کا جواز تراشتے ہوئے کہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اس لئے اسرائیل اور دیگر ممالک کی طرف سے ایران پر حملے کا جواز بڑھ گیا ہے۔ برطانیہ نے اسرائیل کے جارحانہ رویے کو جائز اور حملے کے ارادے کو اٹل قرار دیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ اسرائیل کرسمس تک ایران پر حملہ کر سکتا ہے۔ برطانوی انٹیلی جنس چیف کی اس اطلاع یا وارننگ کے بعد برطانوی وزارت دفاع کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس نے ایران اسرائیل جنگ کی صورت میں ہنگامی اقدامات کر لئے ہیں۔ گویا میدان لگنے کو ہے۔ اسرائیل کی طرف سے ایران کو پہلی بار جنگ کی دھمکی نہیں دی گئی۔ اس کا مربی امریکہ بھی ایران کو کئی بار دھمکا چکا ہے۔ اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو امریکہ نے ایران پر حملہ کیا بھی تھا.... 24اپریل 1980ءکو جب ایران کی اسلامی انقلابی حکومت شہنشاہ ایران کے بکھرے ہوئے ملک کی شیرازہ بندی کر رہی تھی۔ امریکہ نے اپنے یرغمالی چھڑانے کے لئے ایگل کلا آپریشن کے نام سے ایران پر شب خون مارنے کا منصوبہ بنایا۔ اس آپریشن میں چھ ہیلی کاپٹروں نے حصہ لینا تھا۔ دو ساتھ ایمرجنسی کی صورت میں استعمال کے لئے بھجوائے گئے تھے۔ آٹھ میں سے تین صوبہ یزد (ی زد) میں بے آباد ایئر بیس (ڈیزرٹ ون) پر پہنچنے سے قبل خراب ہو گئے۔ ان میں سے ایک واپس بحرہ ہند میں یو ایس ایس ٹمز پر واپس چلا آیا۔ دو لنگڑاتے ہوئے ڈیزرٹ ون میں باقی پانچ کے ساتھ لینڈ کر گئے۔ ان دو کو مرمت نہ کیا جا سکا تو صدر جمی کارٹر نے جان بچا کر بھاگنے کی اجازت دے دی۔ افراتفری میں ایک ہیلی کاپٹر سی ون 30 کے ساتھ ٹکرا گیا جس سے ہیلی کاپٹر میں موجودہ 3 اور سی ون 30 کے 5 کمانڈو ہلاک ہو گئے۔ امریکہ کے اس حملے کا جواب ایرانیوں کی طرف سے قدرت کاملہ نے دیا تھا۔ آج اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے تو اسے نہ صرف امریکہ و برطانیہ کی پشت پناہی حاصل ہو گی بلکہ متعدد اسلامی ممالک بھی ہو سکتا ہے کہ ایران کے خلاف صلیبی و صہیونی قوت کے معاون بن جائیں تاہم زمینی حقائق میں ان کو نظر میں رکھا جائے تو اسرائیل کی طرف سے ایران پر حملے کا امکان نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کے پاس جو بھی اسلحہ ہے راکٹ، میزائل اور فائٹر جہاز، سب کا رُخ اسرائیل کی طرف ہے۔ اسرائیل۔ایران کے نشانے پر ہے۔ اسرائیل کے حملے سے قبل، حملے کا یقین ہونے پر ایران اپنے تمام تر اسلحہ کا بٹن دبانے سے گریز نہیں کرے گا جو کچھ تمام اسلامی ممالک 63 سال سے نہ کر سکے ایران ایک لمحے میں کر ڈالے گا۔ بالفرض مغرب اور اس کا ناجائز بچہ عقل و دانش سے عاری فیصلہ کرتے ہوئے ایران پر چڑھائی کر دیتے ہیں تو اس کے واقعتا بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ سب سے زیادہ تباہ کن حملہ آور ممالک بالخصوص امریکہ کے لئے۔ جنگ کے پہلے مرحلے میں کم از کم شام، لبنان اور فلسطین تو ایران کے ساتھ ہوں گے۔ گویہ کمزور ریاستیں اور مملکتیں ہیں لیکن متحد ہوں گی تو مضبوط اکائی بن جائیں گی۔ پھر کسی بھی وقت اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی غیرت جاگ سکتی ہے جن کی اپنے آپ نہ جاگے گی ان کے لئے عوامی دباﺅ کا سامنا کرنا ممکن نہیں رہے گا۔فروعی اختلافات اپنی جگہ، ہنود و یہود و نصاریٰ کی برپا کی ہوئی دہشت گردی، ڈرون حملے، بم دھماکے زندگی اور موت کے درمیان فاصلوں کو مٹاتے ہوئے کوئی ملکی تفریق نہیں کرتے۔ایران پر حملہ اصل صلیبی جنگ کا آغاز ہو گا۔ باالفرض صلیبی و صہیونی غدارانِ ملت کی مدد سے ایران پر بھرپور وار کر گزرتے ہیں تو کیا ان کا مشن مکمل ہو جائے گا؟ نہیں بلکہ پھر صلیبی جنگ کا اگلا ٹارگٹ کوئی اور اسلامی ملک ہو گا لیکن ایرانی خود چین سے بیٹھیں گے نہ استعماری قوتوں کو سکون سے بیٹھنے دیں گے۔ پوری دنیا میں آگ لگا دیں گے، کیسے؟ اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں پھر ماضی کے دریچے کھولنا ہوں گے.... رضا شاہ پہلوی کا آخری وزیر اعظم شاہ پور بختیار، شاہ کے فرار کے بعد بھی اس کا وفادار رہا۔ ایران سے فرار ہو کر پیرس میں پناہ لے لی۔ ایران کی انقلابی حکومت کے خلاف تحریک منظم کرنے کے لئے کوشاں رہا۔ ایران کے جذباتی نوجوان بھی موقع کی تلاش میں رہے۔ متعدد بار قاتلانہ حملوں میں شاہ پوربال بال بچا۔ ایک مرتبہ تو پڑوسی اور محافظ مارے گئے۔ بالآخر 7اگست1991ءکو تین ایرانی نوجوانوں کے حملے میں اپنے سیکرٹری سروش کتیہ سمیت مارا گیا۔ دو قاتل بحفاظت ایران لوٹ آئے ایک وکیل رعد سوئٹزر لینڈ میں پکڑا گیا۔ جسے فرانس کی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی۔ 18 سال بعد 2010ءمیں رعد کو رہا کر دیا گیا۔ جس کا ایران میں ہیرو کی طرح استقبال ہوا۔ اندازہ کیجئے دنیا میں کتنے رعد بکھرے ہوئے ہیں جو صلیبی و صہیونی مفادات اور ایران کو تباہی سے دوچار کرنے میں حصہ دار شخصیات پر قہر اور قیامت بن کر ٹوٹ پڑیں گے۔شاید اسی قیامت خیز انجام کے پیش نظر امریکہ نے ایران پر بھی ممکنہ حملے کی مخالفت کی ہے۔ وزیر دفاع لیون پینٹا نے کہا ہے کہ اسرائیل کے حملے سے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور امریکی فوجیوں کے لئے خطرات بڑھ جائیں گے۔ممکن ہے اسرائیل کی یہ شرات تیسری عالمی جنگ کا شاخسانہ ثابت ہو یا مسلم امہ کے اتحاد کی نوید لے آئے۔



Thursday, November 10, 2011

اقبال کا فلسفہءخودی ۔۔۔۔۔ اور ہمارا آج

جمعرات ، 10 نومبر ، 2011




 اقبال کا فلسفہءخودی ۔۔۔۔۔ اور ہمارا آج
فضل حسین اعوان ـ 
”خودی“ کا لفظ اقبال کے پیغا م یا فلسفہ حیات میں تکبر و غروریا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ خودی اقبال کے نزدیک نا م ہے احساسِ غیرت مندی کا‘ جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا‘ اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا‘ مظاہراتِ فطرت سے برسر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے ”خودی“ زندگی کا آغاز ، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد وملت کی ترقی و تنزل، خود ی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ‘ زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام‘ زندگی کا استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے۔ اس کی کامرانیاں اور کار کشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں۔ اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں کیا ہے۔
خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیداری کائنات
کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لاالہ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے توحید‘ خودی کی تلوارکو آب دار بناتی ہے اور خودی‘ توحید کی محافظ ہے۔
خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے۔ قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشاہی کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تصرف میں آجاتا ہے۔اقبال کے نزدیک خودی اپنی تکمیل اور استحکام کے لئے غیر خودی سے ٹکراتی ہے جس نسبت سے کوئی شے خودی میں مستحکم اور غیر خودی پر غالب ہے اسی نسبت سے اس کا درجہ مدارج حیات میں نفیس ہوتا ہے۔مخلوقات میں انسان اس لئے برتر ہے کہ اس کی ذات میں خودی ہے۔ اور اس خودی سے فطرت ِ انسانی مشاہدہ کی پابند ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ خودی کی منزل زمان و مکاں کی تسخیر پر ختم نہیں ہوتی شاعر کا چشمِ تخیل انسان کی جدوجہد و عمل کے لئے نئے نئے میدان دکھاتا ہے۔اقبال کے فلسفہ خودی کی تفصیلات اور جزئیات کے مطالعہ سے اس قانون کا علم ہوتا ہے جس پر عمل کرکے انسان اس درجہ کو پالینے کے قابل ہو جاتا ہے جو اسے حقیقتاً خلیفتہ اللہ کے منصب کا اہل بنا دیتا ہے۔ اس قانون کی پابندی خودی کی تکمیل کے لئے لازمی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسان تنہائی کی زندگی نہیں گزارتا وہ لازماً کسی معاشرہ‘ کسی قوم اور کسی ملت کا فرد ہوتا ہے۔ فرد اور ملت کے درمیان رابطہ کے بھی کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں اسی رابطے اور قوانین و اصولوں کواقبال نے بے خودی سے تعبیر کیا ہے۔آج ہم نے بحیثیت قوم اقبالؒ کا فلسفہ خودی بھُلا دیا۔ جس کی وجہ سے رسوائی مقدر بن گئی‘ ہم خوددار قوم کے بجائے بھکاری بن کر رہ گئے۔ ہم اپنے ملک میں بھی اپنی مرضی کا سسٹم لا سکتے ہیں نہ چلا سکتے ہیں۔ اسلاف کی بہادری کو بٹہ لگا بزدلوں اور تھُڑ دلوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ محمود بننے کا شوق ہے لیکن کردار میر جعفروں سے بھی بدتر۔ میر جعفر نے بھی قوم کی بیٹیوں کے سودے کب کئے ہونگے؟ہمارے اسی کردار نے ہمیں اوجِ ثریا سے زمیں پر دے مارا ہے۔ بحیثیت امت بھی ہم غیروں کے دست نگر ہیں۔ بھارت ہمارا ازلی و ابدی دشمن ہے۔ امریکہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسے میں ہماری خودداری و خود مختاری کا کیا تقاضا ہے؟ کیا ہم اس تقاضے پر پورا اتر رہے ہیں؟ غور فرمائیے۔ امریکہ کی پاکستان میں مداخلت کس حد تک بڑھ چکی ہے۔ تعلیمی نصاب تک میں تبدیلیاں اس کی مرضی سے کر دی گئیں۔ ڈرون حملے ہماری خودمختاری کو پارا پارا کئے دے رہے ہیں۔ ان کے تدارک کی کوئی تدبیر نہیں۔ بھارت لاکھوں مسلمانوں کا قاتل‘ کشمیر میں اس کے مظالم کا سلسلہ جاری۔ ساڑھے سات لاکھ سپاہ کشمیریوں کے تن بدن پر گھاو لگا رہی ہے یا مرہم رکھ رہی ہے! اس کے ساتھ دوستی چہ معنی دارد۔ اسے افغانستان تک راہداری دے دی گئی‘ خوفناک فیصلہ‘ مسئلہ کشمیر پر سرِمو پیشرفت نہیں ہوئی۔ اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دے دیا۔ شرمناک فیصلہ۔ علامہ اقبالؒ کا فلسفہ خود پوری امت اور خصوصی طور پر پاکستانیوں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ اس پر عمل کر کے ہم آج بھی اپنا کھویا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ دنیا کے سامنے سینہ تان کے چل سکتے ہیں ہمیں خود کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ 
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سرِدارا

Sunday, November 6, 2011

تحفہ

اتوار ، 06 نومبر ، 2011

تحفہ
فضل حسین اعوان ـ
اس مرتبہ عید کے ساتھ اقبال ڈے بھی آ رہا ہے۔ خوشی کے دو تہوار ساتھ ساتھ۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنی پالیسیوں سے ان تہواروں کو عوام کے لئے نوید سحر کے بجائے شامِ غم میں بدلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ چاہیے تھا کہ حکومت مسرت کے ان مواقع پر عوام کے لئے کسی ریلیف کا اہتمام و انتظام کرتی لیکن حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں عید سے چند روز قبل مزید اضافہ کر دیا۔ پی آئی اے کے کرائے بڑھا دیئے۔ آٹا فروش بھی پیچھے نہ رہے۔ حکمرانوں کے ستم کی عادی قوم، بجلی و گیس کی جان لیوا لوڈ شیڈنگ کے عتاب، مہنگائی بے روزگاری اور بدامنی کے عذاب کی مانند ظلم کے اس تازیانے کو بھی صبر سے برداشت کر لے گی لیکن بھارت کو تجارت کے حوالے سے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے فیصلے کو قبول کرنا ممکن نہیں۔ ایک طرف بھارت مسلمہ دشمن، دوسری طرف پسندیدہ ترین۔ حکومت کا یہ اقدام پاکستانیوں کے دلوں پر گھاﺅ ہے۔ فردوس عاشق اعوان کا دعویٰ ہے کہ قائد اعظم اور قائد ملت نے بھی بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیا تھا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر زرداری حکومت کو پھر سے بھارت کو پسندیدہ ترین قرار دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ بانیانِ پاکستان کے فیصلوں کی تو توثیق کی بھی ضرورت نہیں۔ وہ ہمیشہ کے لئے نافذ العمل ہیں۔ فردوس عاشق کے بودے استدلال کے استرداد کے لئے بھارت کو MFN قرار دینے کے لئے معاملہ کابینہ میں اٹھانا ہی کافی ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ حکومتی فیصلے کو فوج کی تائید حاصل ہے۔ آج فوج کے تحفظات سامنے آگئے ہیں۔ حکومت نے یہ غلط بیانی کیوں کی؟ جغرافیائی سرحدوں کی نگہبان فوج محض تحفظات کا اظہار نہ کرے، پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملے کے خلاف اقدامات بھی کرے۔حکومت نے محب وطن پاکستانیوں کے دل جلانے کا فیصلہ کیا بھی تو کس موقع پر کیا۔ عید کے موقع پر اور مصور پاکستان کے یوم ولادت پر کیسے کیسے تحفے دیئے حکمرانوں نے قوم کو! بدقسمتی سے سیاست دانوں سے ملک دشمنی پر مبنی اس اقدام پر جس ردّ عمل کو توقع تھی وہ سامنے نہیں آیا۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کا متفقہ موقف ہے ”ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا“ گویا اعتراض دشمن کو پسندیدہ قرار دینے پر نہیں۔ اعتماد میں نہ لینے پر ہے۔ عمران خان بھی بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کا مذکورہ فیصلے پر اعتراض سامنے آیا نہ احتجاج، ق لیگ خود کو قائد اعظم کی اصل پارٹی قرار دیتی ہے۔ وہ اس مضرت رساں فیصلے کی حمایت میں آگے آگے ہے۔ ان سے بہتر تو جماعت اسلامی ہے جس کا قیام پاکستان میں کردار مسلم لیگ جیسا نہیں تھا۔ وہ اس فیصلے کی مذمت کر رہی ہے۔ ”ڈاکٹر“ رحمن ملک نے کہا ہے کہ بھارت کو پسندیدہ قرار دینے کے فیصلے کی پارلیمنٹ نے توثیق کی تو معاملہ آگے بڑھے گا۔ ”ڈاکٹر“ صاحب اپنی صداقت کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ شہباز شریف اور ذوالفقار مرزا جو القاب ان کو دے چکے وہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اب انہوں نے جو کہا اس میں بھی شاید اتنی ہی سچائی ہو جتنی 28 جولائی کو ایئر بلیو کے کریش ہونے کے بعد اس بیان کی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے حادثے کے محض آدھ پون گھنٹے بعد دیا کہ 6 افراد زندہ بچ گئے ہیں جو ہسپتال داخل ہیں حالانکہ اس وقت تک امدادی کارروائی بھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ اگر معاملہ پارلیمنٹ میں بھی چلا جاتا ہے تو امریکی ایجنڈے کی وہاں مخالفت کون کرے گا؟ پیپلز پارٹی، ق لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی یا مسلم لیگ ن۔ جماعت اسلامی یا ہر پارٹی کے باضمیر افراد کے سوا اجتماعی طور پر کوئی بھی نہیں۔ یہ باضمیر بھی کتنے ہوں گے شاید ان کی تعداد سینٹ کے ایک صوبے کے ارکان سے بھی کم ہو۔
مانا کہ بھارت کوMFN کادرجہ دلانا امریکہ کا ایجنڈہ تھا جس کی تکمیل کر دی گئی۔ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ اس کا اپنا ایجنڈا ہونا چاہیے۔ آپ کی امریکہ سمیت کسی بھی ملک سے دوستی ہو سکتی ہے لیکن یہ اپنے قومی مفادات کی قیمت پر ہر گز نہیں۔ جس طرح امریکہ کو اپنے مفادات سے غرض ہے آپ کو بھی اپنے مفادات سے ہونی چاہیے۔ کیا بھارت کو افغانستان تک راہداری اس کے ساتھ تجارت، دوستانہ تعلقات اور اسے MFN کا تاج پہنا دینا مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں پاکستان کے مفاد میں ہے؟ ہر گز اور قطعی نہیں۔ امریکہ کو پاکستان کے امور میں مداخلت کا الزام دینا درست نہیں۔ آپ اپنے بزدلانہ رویوں اور پالیسیوں پر غور کریں۔ غیرت مند بنیں، قومی وقار کا مظاہرہ کریں خود مختاری اور ملکی سالمیت پر آنچ نہ آنے دیں۔اپنا موقف واضح کریں اور اس پر ڈٹ جائیں یقینا امریکہ ڈومور کے تقاضوں اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے دباﺅ سے قبل کئی بار سوچے گا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے لئے اس حد تک چلے جانا ضمیر فروشی ہی نہیں وطن فروشی بھی ہے۔ عید پر قوم کو انگاروں کا تحفہ دینے والے حکمران اور اس پر خاموشی اختیار کرنے والے سیاستدان بھی ایک تحفہ ہیں۔ کاش کوئی انہیں پاکستانی قوم کی طرف سے تحفہ سمجھ کر اپنے ہاں لے جائے!!