About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, November 23, 2011

”ہندو مسلم دالیں“

 بدھ ، 16 نومبر ، 2011


”ہندو مسلم دالیں“
فضل حسین اعوان ـ 16 نومبر ، 2011

 نہ جانے کسی نے کیا سونگھا دیا‘ پلا دیا یا لگا دیا۔ بھارت سے دوستی‘ تجارت اور تعلقات کے لئے ایک جنون سا بپا ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود ہر پارٹی کسی اور معاملے میں کوئی دوسری سوچ اور پالیسی رکھ سکتی ہے۔ بھارت کی پسندیدگی میں سب ایک دوسری سے آگے ہیں۔ پارلیمنٹ کی دہلیز پر بیٹھے عمران خان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ عمران خان نے نواز شریف کی طرح یہ بھی کہہ دیا کہ مسئلہ کشمیر کو بالائے طاق رکھ کر بھارت سے تجارت کی جائے۔ اس دوڑ میں حکمران‘ اپوزیشن اور عمران ہی کیا صحافی بھی پیچھے نہیں رہے۔ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باوجود پیار کی پینگیں بڑھانے کی خواہش رکھنے والوں نے ”دل کو سمجھانے کے لئے“ خود ساختہ دلائل تراشے ہوئے ہیں۔ ایسے دلائل سے بھرپور جاوید چودھری نے ’ہندو مسلم دالیں“ کے عنوان سے کالم لکھا ہے۔ اس کالم میں چودھری صاحب نے سینٹ موریس سے پیرس تک بھارتی نوجوان ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ ٹرین میں ہمسفری کی روداد بیان کی ہے۔ ان کے ہمسفروں میں ایک لڑکا اور دو لڑکیاں تھیں۔ ”فلموں کی بات شروع ہوئی اور اجنبیت کی دیواریں تیزی سے گرتی چلی گئیں۔ کلکتہ سے تعلق رکھنے والی خاتون نے سپرش فلم کا نام لیا تو (جاوید چودھری نے) نہ صرف پوری فلم کی کہانی سنا دی بلکہ نصیر الدین شاہ اور شبانہ اعظمی کے چند ایسے شارٹس کی تفصیل بھی بتا دی جس کے بارے میں وہ واقف نہیں تھی۔“ پھر یوں ہوا کہ وہ محمد رفیع‘ آشا بھوسلے اور لتا منگیشر کے بول بتاتے اور چودھری صاحب اپنے آئی فون میں محفوظ 4 ہزار گانوں سے مطلوبہ نغمہ نکال کر ان کو سنا دیتے۔ خواتین نے باور کرایا کہ وہ پاکستان کے علی ظفر‘ عاطف اسلم اور راحت فتح علی خان کی انتہائی فین ہیں۔ کالم نگار کے بقول ان کے تینوں ہمراہی کٹر ہندو تھے۔ ایک کلکتہ کے متعصب ترین خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود یہ کھلے ”ذہن اور معتدل مزاج کے لوگ تھے۔ ان کے دل میں اتر جانے والوں نے ان کو بتایا ”بھارت بدل رہا ہے‘ بھارت کا نوجوان بزرگ نسل سے مختلف ہے۔ بھارتی نوجوان ہندو اور مسلم کی تقسیم کو تسلیم نہیں کر رہے‘ ہم پاکستانیوں کو برا بھی نہیں سمجھتے اور ہم چھپ کر گوشت اور مچھلی بھی کھا لیتے ہیں اور اس سے ہمارا دھرم بھی بھرشٹ نہیں ہوتا۔ ہم لوگ بال ٹھاکرے جیسے شدت پسندوں کو بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔ عاطف اسلم‘ علی ظفر اور راحت فتح علی خان ہمارے ہیروز ہیں۔ ہم شعیب ملک‘ شاہد آفریدی اور عمران خان کو پسند کرتے ہیں اور ہمیں پاکستانی شاعروں کی شاعری اور لکھاریوں کی تحریریں بھی اچھی لگتی ہیں۔“ ایک خاتون نے حسرت سے پوچھا ”یہ سرحدیں کب کھلیں گی‘ میں لاہور دیکھنا چاہتی ہوں۔“ نوجوان کالم نگار نے اپنے جذبات چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ فرماتے ہےں”یہ اڑھائی گھنٹے کی ملاقات تھی ہم لوگ پیرس پہنچ کر ایک دوسرے سے الگ ہو گئے لیکن ہمارے جذبات‘ گفتگو کی حدت اور احساسات کا سفر ابھی تک جاری ہے۔“
چودھری نے مزید لکھا ”میں نے بھارتی سائنس دانوں کے ساتھ سفر کے دوران محسوس کیا بھارتی نوجوان انڈین بزرگوں کی طرح متعصب نہیں ہیں۔ ان کا ذہن کھل رہا ہے اور یہ پاکستان کو اس نظر سے نہیں دیکھتے جس نظر سے رام لال یا نتھو رام دیکھتے تھے۔ پاکستان کے اندر بھی صورتحال مختلف نہیں۔ پاکستانی نوجوان بھی بدل رہا ہے۔ یہ 1947ءیا 1971ءمیں زندہ نہیں‘ اس کی سوچ بھی 2011ءکے سانچے میں ڈھل رہی ہے۔ یہ بھی اب مزید دشمنی کا بوجھ اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ یہ درست ہے 1947ءسے پہلے برصغیر کے مسلمان اور ہندو ایک دوسرے سے خوش نہیں تھے۔ یہ بھی درست ہے 1947ءمیں مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ بے انتہا ظلم ہوا تھا اور پاکستانی پنجاب کے مسلمانوں نے اس کا دل کھول کر بدلہ بھی لیا‘ یہ بھی درست ہے آج بھی مشرقی پنجاب میں ایسی ہزاروں مسلمان خواتین موجود ہیں جنہیں سکھوں نے زبردستی سکھ بنا لیا تھا اور لاہور‘ قصور‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ اور فیصل آباد میں ایسی ہندو عورتیں بھی ہیں۔ جنہیں یہاں کے مسلمانوں نے زبردستی اپنے عقد میں لے لیا تھا اور یہ بھی ٹھیک ہے تقسیم کی لکیر خون کی لکیر تھی اور دونوں طرف آزادی کے نام پر اتنا خون بہایا گیا تھا کہ آج تک تاریخ کے ورق خون سے لتھڑے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے ماضی کو ماضی ہوئے 64 سال گزر چکے ہیں اور ان 64 برسوں میں تیسری نسل جوان ہو چکی ہے اور یہ نسل پچھلی تینوں نسلوں سے مختلف ہے‘ یہ نسل بھارتی فلمیں دیکھتی ہے اور سرحد کے دونوں طرف پاکستانی نغمہ نگاروں کی شاعری اور پاکستانی گلوکاروں کے گانے سنے جاتے ہیں چنانچہ اگر سرحد کے اس طرف سے فلمیں آسکتی ہیں اور ادھر سے راحت فتح علی‘ عاطف اسلم اور علی ظفر ادھر جا سکتا ہے تو پھر ادھر سے آلو‘ پیاز اور لہسن کیوں نہیں آسکتا ہے اور ادھر سے کاٹن‘ مٹر اور کوئلہ ادھر کیوں نہیں جا سکتا؟ ہمیں سرحدیں کھولنا ہوں گی کیونکہ یہ آج اور آنے والے کل کا سچ ہے‘ دنیا میں اگر یورپ کے وہ 25 ملک ایک ہو چکے ہیں جو بیس سال پہلے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے تو ہم بھارت اور پاکستان کی سرحد کو کب تک بند رکھ لیں گے چنانچہ جو کام کل ہونا ہے وہ آج کیوں نہ ہو جائے؟ وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
حکومت نے بھارت کو تجارت کیلئے پسندیدہ ترین ملک قرار دیا‘ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور ہم اگر اس اچھے فیصلے کے دوران کشمیر اور کشمیریوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں تو اس کے نتائج بہت اچھے نکلیں گے‘ ہم اگر یہودی دالیں اور یہودی مشروبات پی سکتے ہیں تو ہندو دالیں‘ سبزیاں اور گندم اور مسلمان گنا‘ کپاس اور کوئلے کی تجارت کرنے میں کیا حرج ہے‘ نفرت کی یہ دیواریں گرنی چاہئیں کیونکہ اس سے بند معاشرے میں ہوا کا تازہ جھونکا بھی آئے گا اور ہمیں ترقی کا سبق سیکھنے کا موقع بھی ملے گا‘ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور میں حکومت کو اس پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔“ 
جس لکیر کو آج کالم نگار 64 سال بعد مٹانے کی بات کرتے ہیں وہ کھینچی ہی نہ گئی ہوتی توہم کہاں ہوتے؟ یقیناً ہمارا مقدر وہی ہوتا جو آج بھارت کے عام مسلمان کا ہے۔ بھارت مےں کتنے مسلمان صحافی اور اینکر ہیں جو کالم نگار مذکور کی طرح ملک ملک گھوم رہے ہیں؟ موصوف اگر فرانس تک گئے۔ وہاں ٹرین میں سفر کیا تو اسی لکیر کی بدولت جو پاکستان اور بھارت کی سرحد قرار پائی۔ سائیکل سے لگژری کاروں‘ گدھے سے جہازوں اور مکان سے محل تک کس نے پہنچایا؟ خدانخواستہ آج یہ لکیر مٹ جائے تو کل ہی جدید زندگی کو بیک گیئر لگ جائے گا۔ پھر سائیکل گدھے اور گھروندا اپنے وژن ادراک اور خواہشات کی آنکھ نہ دیکھیں۔ ادھر ادھر نظر دوڑائیں اب بھی کافی بزرگ مل جائیں گے۔ جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا ان سے پوچھیں امن کے بارڈر کو خون کی لکیر میں کس نے تبدیل کیا؟ قائداعظم کے وفاداروں نے یا گاندھی و نہرو کے چیلے چانٹوں نے۔
بھارتی نوجوانوں کے آئیڈیل‘ ہمارے گلوکار بھارت سے عزت اور عظمت سمیٹ کر نہیں جوتے گالیاں کھا کر، نفرتوں اور لعنتوں کا طوق پہن کر لوٹتے ہیں پھر بھی یہ بے غیرت ہمہ وقت بھارت یاترا کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ جو نوجوان موصوف کو ٹرین میں ملے کیا یہ واقعی بھارتی نوجوانوں اور نئی نسل کے نمائندہ ہیں؟ آپ 64 سال قبل کی قتل و غارت بھلانے کی بات کرتے ہیں۔ سمجھوتہ ایکپسریس کی آتشزنی کو صدیاں نہیں بیت گئیں۔ گجرات میں مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ خاندان کے خاندان جلا دئیے گئے۔ یہ کام ہندو بزرگوں نے نوجوانوں سے ہی کرایا۔ یقیناً ایسے ہندو نوجوان ضرور ہوں گے جو پاکستان کے ساتھ دوستوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں ان کی تعداد اتنی ہی ہو گی جتنی پاکستان میں موجود پوتر جل کو مقدس قرار دینے والے نوجوانوں کی۔ ہندو تو اپنی نسل کو پہلا درس ہی اسلام اور مسلم دشمنی کا دیتا۔
آپ پاکستانی نوجوان کے بدلنے کی بات کرتے ہیں کہ وہ 1947ءیا 1971ءمیں زندہ نہیں۔ اس کی سوچ 2011ءمیں ڈھل رہی ہے۔ وہ مزید دشمنی کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستانی نوجوان کی سوچ 47ءاور 71ءکی سوچ ہی نہیں 14 سو سال قبل کی سوچ ہے۔ ہندو سے دوستی کرنی اور سرحدیں کھولنی ہیں تو دل مسلم سے 14 سو سال قبل کی سوچ کھرچنا ہو گی۔ امن کی آشا والے ایسا کر دیکھیں۔ کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ملت کی نمائندگی اپنے آئی فون میں 4 ہزار انڈین گانے بھر کے سننے اور سنانے والے ہندو کلچر اپنانے والے‘ انڈین فلموں کے دیوانے نہیں‘ شمع رسالت کے پروانے‘ چراغ مصطفوی سے دلوں کو روشن بنانے اور اقبال قائد کی محبت کے دیپ جلانے والے کرتے ہیں۔
مسلم اور پاکستانی نوجوان 47 کے مظالم بھلا سکتا ہے نہ 71ءکی تلخ یادوں سے اپنا دامن چُھڑا سکتا ہے۔ البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخم بھرنا شروع ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ پاکستان کی شہ رگ پر دشمن بدستور قابض ہے اور آئے روز نئے زخم دے رہا ہے۔ کوئی بھی غیرت مند پاکستانی کشمیریوں کے قتل‘ خواتین کی بے حرمتی کو برداشت کیسے کر سکتا ہے۔ دست قاتل جو شناسا بھی ہے دست شفقت کیسے بن سکتا ہے؟ ساڑھے سات لاکھ بھارتی سفاک سپاہ کے کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم کیا یہ دست شفقت ہے؟
کوئی بھی شخص اپنی رائے رکھنے میں حق بجانب ہے لیکن اظہار میں کسی کا دل دکھے اس کی اجازت شاید اخلاقیات نہیں دیتی۔ جب حقائق اور تاریخ کو اپنے جذبات کی تسکین اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے موم کی ناک بنا کر اسے مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اہل دل کا دل کیوں نہیں جلے گا۔ چھوٹے بڑے‘ واجبی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم کے حامل تک جس کے سامنے بھی یہ دو معاملات رکھے وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ (1) مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ بے انتہا ظلم ہوا اور پاکستانی پنجاب کے مسلمانوں نے اس کا دل کھول کر بدلہ لیا (2) یہ بھی درست ہے کہ آج بھی مشرقی پنجاب میں ایسی ہزاروں مسلمان خواتین موجود ہیں جنہیں سکھوں نے زبردستی سکھ بنا لیا اور لاہور‘ قصور‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ اور فیصل آباد میں ایسی ہندو عورتیں بھی ہیں جنہیں یہاں کے مسلمانوں نے زبردستی اپنے عقد میں لے لیا تھا۔ بعض اوقات انسان کو پتہ نہیں چلتا کہ اس کے قلم سے قرطاس پر بکھیرے ہوئے الفاظ کہاں تک کاٹ اور مار کریں گے۔ کسی کی سوچ پر پابندی نہیں۔ لوگ کہہ سکتے ہیں۔ نادانستگی میں آپ دشمن کے خیراتی گواہ بن رہے ہیں۔ کسی کی زبان نہیں پکڑی جا سکتی کہنے والوں کو نہیں روکا جاسکتا۔ اگر دانستہ یہ کہا ہے تو خدا جانے کیا قیمت وصول کی۔ اگر پاکستانی پنجاب میں ہندو قتل ہوئے تو کیا ان کی تعداد اور طریقہ کار وہی تھا جو بھارتی پنجاب میں اختیار کیا گیا۔ پاکستان بھارت سرحد خون کی لکیر نہیں مسلمانوں کے قتل عام سے خون کا قلزم بن گئی تھی۔ اسے قتل و غارت نہیں بلکہ ہالوکاسٹ کہنا زیادہ صحیح ہے۔ وہاں سے لاشوں سے اٹی کتنی ہی ٹرینیں آئیں اور یہاں سے ایک بھی نہیں گئی۔ لالہ موسیٰ میں اپنی عزتیں بچانے کے لئے ہندو عورتوں نے چھلانگیں لگا کر کتنے کنویں بھر دئیے تھے؟ شاید کالم نگار مذکور اپنے علاقے سے کسی پرانے بابے کو گواہی کے لئے ڈھونڈ لائیں۔ ناموس کی خاطر کنووں میں کودنے والی خواتین کو دیکھنے والی بوڑھی آنکھیں آج بھی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں مل جائیں گی۔ ایسے بزرگ بھی زندہ ہیں جنہوں نے لاشوں سے اٹی ٹرینیں دیکھیں۔ وہاں گاوں کے گاوں اور بستیوں کی بستیاں جلا کر راکھ کر دی گئیں یہاں بتائیے ایک بھی گاوں جلا؟ 
جاوید چودھری بڑے نام والے کالم نگار اور اینکر ہیں۔ جمیلہ ہاشمی نے اپنے ناول میں ایک ہندو عورت کے مسلمان کے عقد میں جانے کا ذکر کیا ہے۔ ناول اور افسانے کتنے حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں؟ اس کے سوا کوئی تذکرہ نہیں سنا کہ ہندو عورتوں کو بالکل اسی طرح جبری نکاح میں لے لیا گیا ہو جس طرح مشرقی پنجاب میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان خواتین کے ساتھ ہوا۔ اگر ایسے واقعات یہاں بھی ہوئے تھے تو جاوید چودھری دوچار دس خواتین یا ان کو اپنے عقد میں لانے والوں کے انٹرویو کرکے اپنی افسانوی داستاں کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کریں۔ ہندو کو اب شاید مسلمانوں کے ہندووں پر مظالم ثابت کرنے کےلئے تاریخ کی خاک نہیں چھاننا پڑے گی۔ ان کو ہزار ہندو اور انگریز تاریخ دانوں سے بڑا پاکستانی مسلمان گواہ مل گیا.... جس طرح ہندو نوجوانوں کے گوشت اور مچھلی کھانے سے دھرم بھرشٹ نہیں ہوتا اسی طرح اگر ہندو کلچر کے دلدادہ اور اس سے تعلقات و تجارت کے تمنائی گائے کو گﺅ ماتا قرار دے کر اس کا مُوت پینے پر تیار ہیں تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ البتہ ایک طرف کشمیریوں کا خون بہایا چلا جا رہا ہو اور دوسری طرف ان کے شانہ بشانہ ہو کر ان کی آزادی کے لئے کوششیں کرنے کے بجائے ان کے قاتلوں سے گلے ملنے کی خواہش رکھنے والوں کو کس نام سے پکارنا چاہئے؟ اس سوال کا جواب قارئین اور محب وطن پاکستانیوں کے ذمے رہا۔ 
موصوف نے سوال کیا ہے کہ اگر یورپ کے وہ 25 ممالک ایک ہو سکتے ہیں جو بیس سال پہلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ تو بھارت اور پاکستان کی سرحد کو کب تک بند رکھ لیں گے؟.... کیا یورپ کے ممالک کی آپس میں دشمنی اسی طرح کی تھی جیسی پاکستان بھارت کی ہے۔ ان کے ایک ہونے سے قبل کیا کوئی ملک دوسرے کے باشندوں کو اسی طرح قتل کرتا تھا جس طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج خونریزی کر رہی ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں جب تک ہندو کا جبر بند نہیں ہوتا پاکستان بھارت سرحد نہیں کھل سکتی۔ وادی کے مکینوں کو حق خودارادیت دلا دیں سرحدیں خود بخود کھل جائیں گی۔ جذبات کی حدت لے کر وکالت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس وقت تک بھارتی دالیں حرام ہیں۔ تعلقات و تجارت شجر ممنوعہ اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینا قائد کے افکار کی توہین ہے۔



No comments:

Post a Comment