About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, November 10, 2011

اقبال کا فلسفہءخودی ۔۔۔۔۔ اور ہمارا آج

جمعرات ، 10 نومبر ، 2011




 اقبال کا فلسفہءخودی ۔۔۔۔۔ اور ہمارا آج
فضل حسین اعوان ـ 
”خودی“ کا لفظ اقبال کے پیغا م یا فلسفہ حیات میں تکبر و غروریا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ خودی اقبال کے نزدیک نا م ہے احساسِ غیرت مندی کا‘ جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا‘ اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا‘ مظاہراتِ فطرت سے برسر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے ”خودی“ زندگی کا آغاز ، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد وملت کی ترقی و تنزل، خود ی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ‘ زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام‘ زندگی کا استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے۔ اس کی کامرانیاں اور کار کشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں۔ اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں کیا ہے۔
خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیداری کائنات
کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لاالہ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے توحید‘ خودی کی تلوارکو آب دار بناتی ہے اور خودی‘ توحید کی محافظ ہے۔
خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے۔ قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشاہی کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تصرف میں آجاتا ہے۔اقبال کے نزدیک خودی اپنی تکمیل اور استحکام کے لئے غیر خودی سے ٹکراتی ہے جس نسبت سے کوئی شے خودی میں مستحکم اور غیر خودی پر غالب ہے اسی نسبت سے اس کا درجہ مدارج حیات میں نفیس ہوتا ہے۔مخلوقات میں انسان اس لئے برتر ہے کہ اس کی ذات میں خودی ہے۔ اور اس خودی سے فطرت ِ انسانی مشاہدہ کی پابند ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ خودی کی منزل زمان و مکاں کی تسخیر پر ختم نہیں ہوتی شاعر کا چشمِ تخیل انسان کی جدوجہد و عمل کے لئے نئے نئے میدان دکھاتا ہے۔اقبال کے فلسفہ خودی کی تفصیلات اور جزئیات کے مطالعہ سے اس قانون کا علم ہوتا ہے جس پر عمل کرکے انسان اس درجہ کو پالینے کے قابل ہو جاتا ہے جو اسے حقیقتاً خلیفتہ اللہ کے منصب کا اہل بنا دیتا ہے۔ اس قانون کی پابندی خودی کی تکمیل کے لئے لازمی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسان تنہائی کی زندگی نہیں گزارتا وہ لازماً کسی معاشرہ‘ کسی قوم اور کسی ملت کا فرد ہوتا ہے۔ فرد اور ملت کے درمیان رابطہ کے بھی کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں اسی رابطے اور قوانین و اصولوں کواقبال نے بے خودی سے تعبیر کیا ہے۔آج ہم نے بحیثیت قوم اقبالؒ کا فلسفہ خودی بھُلا دیا۔ جس کی وجہ سے رسوائی مقدر بن گئی‘ ہم خوددار قوم کے بجائے بھکاری بن کر رہ گئے۔ ہم اپنے ملک میں بھی اپنی مرضی کا سسٹم لا سکتے ہیں نہ چلا سکتے ہیں۔ اسلاف کی بہادری کو بٹہ لگا بزدلوں اور تھُڑ دلوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ محمود بننے کا شوق ہے لیکن کردار میر جعفروں سے بھی بدتر۔ میر جعفر نے بھی قوم کی بیٹیوں کے سودے کب کئے ہونگے؟ہمارے اسی کردار نے ہمیں اوجِ ثریا سے زمیں پر دے مارا ہے۔ بحیثیت امت بھی ہم غیروں کے دست نگر ہیں۔ بھارت ہمارا ازلی و ابدی دشمن ہے۔ امریکہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسے میں ہماری خودداری و خود مختاری کا کیا تقاضا ہے؟ کیا ہم اس تقاضے پر پورا اتر رہے ہیں؟ غور فرمائیے۔ امریکہ کی پاکستان میں مداخلت کس حد تک بڑھ چکی ہے۔ تعلیمی نصاب تک میں تبدیلیاں اس کی مرضی سے کر دی گئیں۔ ڈرون حملے ہماری خودمختاری کو پارا پارا کئے دے رہے ہیں۔ ان کے تدارک کی کوئی تدبیر نہیں۔ بھارت لاکھوں مسلمانوں کا قاتل‘ کشمیر میں اس کے مظالم کا سلسلہ جاری۔ ساڑھے سات لاکھ سپاہ کشمیریوں کے تن بدن پر گھاو لگا رہی ہے یا مرہم رکھ رہی ہے! اس کے ساتھ دوستی چہ معنی دارد۔ اسے افغانستان تک راہداری دے دی گئی‘ خوفناک فیصلہ‘ مسئلہ کشمیر پر سرِمو پیشرفت نہیں ہوئی۔ اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دے دیا۔ شرمناک فیصلہ۔ علامہ اقبالؒ کا فلسفہ خود پوری امت اور خصوصی طور پر پاکستانیوں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ اس پر عمل کر کے ہم آج بھی اپنا کھویا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ دنیا کے سامنے سینہ تان کے چل سکتے ہیں ہمیں خود کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ 
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سرِدارا

No comments:

Post a Comment