About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, November 6, 2011

تحفہ

اتوار ، 06 نومبر ، 2011

تحفہ
فضل حسین اعوان ـ
اس مرتبہ عید کے ساتھ اقبال ڈے بھی آ رہا ہے۔ خوشی کے دو تہوار ساتھ ساتھ۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنی پالیسیوں سے ان تہواروں کو عوام کے لئے نوید سحر کے بجائے شامِ غم میں بدلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ چاہیے تھا کہ حکومت مسرت کے ان مواقع پر عوام کے لئے کسی ریلیف کا اہتمام و انتظام کرتی لیکن حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں عید سے چند روز قبل مزید اضافہ کر دیا۔ پی آئی اے کے کرائے بڑھا دیئے۔ آٹا فروش بھی پیچھے نہ رہے۔ حکمرانوں کے ستم کی عادی قوم، بجلی و گیس کی جان لیوا لوڈ شیڈنگ کے عتاب، مہنگائی بے روزگاری اور بدامنی کے عذاب کی مانند ظلم کے اس تازیانے کو بھی صبر سے برداشت کر لے گی لیکن بھارت کو تجارت کے حوالے سے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے فیصلے کو قبول کرنا ممکن نہیں۔ ایک طرف بھارت مسلمہ دشمن، دوسری طرف پسندیدہ ترین۔ حکومت کا یہ اقدام پاکستانیوں کے دلوں پر گھاﺅ ہے۔ فردوس عاشق اعوان کا دعویٰ ہے کہ قائد اعظم اور قائد ملت نے بھی بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیا تھا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر زرداری حکومت کو پھر سے بھارت کو پسندیدہ ترین قرار دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ بانیانِ پاکستان کے فیصلوں کی تو توثیق کی بھی ضرورت نہیں۔ وہ ہمیشہ کے لئے نافذ العمل ہیں۔ فردوس عاشق کے بودے استدلال کے استرداد کے لئے بھارت کو MFN قرار دینے کے لئے معاملہ کابینہ میں اٹھانا ہی کافی ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ حکومتی فیصلے کو فوج کی تائید حاصل ہے۔ آج فوج کے تحفظات سامنے آگئے ہیں۔ حکومت نے یہ غلط بیانی کیوں کی؟ جغرافیائی سرحدوں کی نگہبان فوج محض تحفظات کا اظہار نہ کرے، پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملے کے خلاف اقدامات بھی کرے۔حکومت نے محب وطن پاکستانیوں کے دل جلانے کا فیصلہ کیا بھی تو کس موقع پر کیا۔ عید کے موقع پر اور مصور پاکستان کے یوم ولادت پر کیسے کیسے تحفے دیئے حکمرانوں نے قوم کو! بدقسمتی سے سیاست دانوں سے ملک دشمنی پر مبنی اس اقدام پر جس ردّ عمل کو توقع تھی وہ سامنے نہیں آیا۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کا متفقہ موقف ہے ”ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا“ گویا اعتراض دشمن کو پسندیدہ قرار دینے پر نہیں۔ اعتماد میں نہ لینے پر ہے۔ عمران خان بھی بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کا مذکورہ فیصلے پر اعتراض سامنے آیا نہ احتجاج، ق لیگ خود کو قائد اعظم کی اصل پارٹی قرار دیتی ہے۔ وہ اس مضرت رساں فیصلے کی حمایت میں آگے آگے ہے۔ ان سے بہتر تو جماعت اسلامی ہے جس کا قیام پاکستان میں کردار مسلم لیگ جیسا نہیں تھا۔ وہ اس فیصلے کی مذمت کر رہی ہے۔ ”ڈاکٹر“ رحمن ملک نے کہا ہے کہ بھارت کو پسندیدہ قرار دینے کے فیصلے کی پارلیمنٹ نے توثیق کی تو معاملہ آگے بڑھے گا۔ ”ڈاکٹر“ صاحب اپنی صداقت کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ شہباز شریف اور ذوالفقار مرزا جو القاب ان کو دے چکے وہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اب انہوں نے جو کہا اس میں بھی شاید اتنی ہی سچائی ہو جتنی 28 جولائی کو ایئر بلیو کے کریش ہونے کے بعد اس بیان کی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے حادثے کے محض آدھ پون گھنٹے بعد دیا کہ 6 افراد زندہ بچ گئے ہیں جو ہسپتال داخل ہیں حالانکہ اس وقت تک امدادی کارروائی بھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ اگر معاملہ پارلیمنٹ میں بھی چلا جاتا ہے تو امریکی ایجنڈے کی وہاں مخالفت کون کرے گا؟ پیپلز پارٹی، ق لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی یا مسلم لیگ ن۔ جماعت اسلامی یا ہر پارٹی کے باضمیر افراد کے سوا اجتماعی طور پر کوئی بھی نہیں۔ یہ باضمیر بھی کتنے ہوں گے شاید ان کی تعداد سینٹ کے ایک صوبے کے ارکان سے بھی کم ہو۔
مانا کہ بھارت کوMFN کادرجہ دلانا امریکہ کا ایجنڈہ تھا جس کی تکمیل کر دی گئی۔ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ اس کا اپنا ایجنڈا ہونا چاہیے۔ آپ کی امریکہ سمیت کسی بھی ملک سے دوستی ہو سکتی ہے لیکن یہ اپنے قومی مفادات کی قیمت پر ہر گز نہیں۔ جس طرح امریکہ کو اپنے مفادات سے غرض ہے آپ کو بھی اپنے مفادات سے ہونی چاہیے۔ کیا بھارت کو افغانستان تک راہداری اس کے ساتھ تجارت، دوستانہ تعلقات اور اسے MFN کا تاج پہنا دینا مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں پاکستان کے مفاد میں ہے؟ ہر گز اور قطعی نہیں۔ امریکہ کو پاکستان کے امور میں مداخلت کا الزام دینا درست نہیں۔ آپ اپنے بزدلانہ رویوں اور پالیسیوں پر غور کریں۔ غیرت مند بنیں، قومی وقار کا مظاہرہ کریں خود مختاری اور ملکی سالمیت پر آنچ نہ آنے دیں۔اپنا موقف واضح کریں اور اس پر ڈٹ جائیں یقینا امریکہ ڈومور کے تقاضوں اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے دباﺅ سے قبل کئی بار سوچے گا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے لئے اس حد تک چلے جانا ضمیر فروشی ہی نہیں وطن فروشی بھی ہے۔ عید پر قوم کو انگاروں کا تحفہ دینے والے حکمران اور اس پر خاموشی اختیار کرنے والے سیاستدان بھی ایک تحفہ ہیں۔ کاش کوئی انہیں پاکستانی قوم کی طرف سے تحفہ سمجھ کر اپنے ہاں لے جائے!!



No comments:

Post a Comment