About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, August 31, 2010

کیا مارشل لاء ایک آپشن ہے؟27.8.2010

Thursday, August 26, 2010

2009..بھارتی فلمیں۔۔۔۔۔۔۔۔ 5 جولائی

گستاخانِ قائداعظمؒ گروہ پھر سرگرم

فضل حسین اعوان ـ 14 جنوری ، 2009


سانحہ سقوط ڈھاکہ کے وقت میں شہر سے کہیں دور چھوٹے سے گائوں میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ گائوں کے بہت سے بزرگوں کی طرح اس کم عمری میں بھی رو دیا تھا۔ اسکی وجہ میرے والد کی تربیت تھی۔ وہ عموماً تحریک پاکستان اور قائداعظمؒ کے حوالے سے بتایا کرتے تھے۔ لاکھوں دیگر مسلمانوں کی طرح ان کو بھی اپنے خاندان سمیت جالندھر سے ہجرت کرکے پاکستان آنا پڑا تھا۔ جس طرح انہوں نے پاکستان بنتے دیکھا۔ سکھوں نے جو قتل و غارت کی اور لٹے پٹے قافلے جس طریقے سے پاکستان پہنچے اس کی منظر کشی کرتے ہوئے آج بھی انکی آواز رندھ جاتی اور آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کی اصل قدروقیمت کا ان کو اور ان جیسے لوگوں کو احساس ہے جنہوں نے آگ اور خون کے دریا پار کرکے پاکستان میں قدم رکھا۔ اسکے بعد میرے جیسی دوسری نسل کو جس کو والدین کی طرف سے ورثے اور تربیت میں احساس ملا‘ ہم تیسری نسل کو کہاں تک ڈلیور کر پائے‘ اس کا جواب انکے ذمے ہے۔
والد محترم کی عمر 88 سال ہے۔ ہمارے گھر کے تمام فیصلے وہی کرتے ہیں۔ میں نے سن رکھا تھا کہ بڑی عمر میں پہنچ کر انسان سٹھیا جاتا ہے مگر میں اپنے والد کی عقل و دانش اور معاملات سلجھانے کی صلاحیت دیکھ کر اس پر قطعاً یقین کرنے کو تیار نہیں تھا لیکن اب کچھ ایسے بابے سامنے آئے ہیں جنکے اعمال دیکھ کر میں سمجھتا ہوں کہ کچھ کی واقعی عمر گزرنے کیساتھ مت ماری جاتی ہے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اصل قدر دان تو وہ لوگ ہیں جو ہندو بنئے کی غلامی سے نکل کر آزاد ملک میں سانس لینے لگے۔ ہم لوگوں کو بزرگوں کی زبانی یا کتابوں کے ذریعے ہی علم ہوا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی معاملہ فہمی‘ سیاست اور دیانت پر آج تک کسی طرف سے انگلی نہیں اٹھی۔ پاکستان میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو پاکستان سے محبت اور اسکی خاطر سب کچھ قربان کرنے میں حضرت قائداعظمؒ کا ثانی ہو۔
زیارت میں سردی زیادہ پڑ رہی تھی۔ کرنل الٰہی بخش نے نئے موزے آپکی خدمت میں پیش کردئیے۔ دیکھے تو بہت پسند فرمائے‘ پوچھنے پر قیمت 2 روپے بتائی گئی۔ جواب دیا کرنل یہ تو بہت مہنگے ہیں۔ عرض کیا آپکے اکائونٹ سے خریدے گئے ہیں۔ فرمایا میرا اکائونٹ بھی تو قوم کی امانت ہے۔ ساتھ ہی موزے واپس کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم اس شخص نے دیا جس کی وصیت کی خبر بھارت کے مشہور انگریزی روزنامہ ’’سٹیٹس مین‘‘ نے 12 اکتوبر 1948ء کو شائع کی: ’’مسٹر جناح نے اپنے ذاتی اکائونٹ میں 40 لاکھ روپے چھوڑے جو مسلم لیگ اور دیگر اداروں کو منتقل ہو جائیں گے۔ پبلک فنڈ میں 84 لاکھ چھوڑے جو مسلم لیگ اور دیگر اداروں کو منتقل ہو جائیں گے۔ اسکے علاوہ بہت سی اراضی وہ اپنی زندگی میں تعلیمی اداروں کے نام کرگئے تھے‘‘۔
حضرت قائداعظمؒ کے کارناموں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ان پر میں نے اگر کبھی کوئی تنقید سنی تو زبانی کلامی‘ کہیں کسی مستند کتاب میں پڑھا نہیں ہے لیکن اب جب ایک بزعم خویش بہت بڑے صحافی کے قلم سے حضرت قائداعظمؒ کے بارے میں ہرزہ سرائی ہوئی تو میں سر تھام کے رہ گیا۔ جیسے جیسے ان کی تحریر نظر سے گزرتی گئی‘ دماغ مائوف ہوتا چلا گیا۔ شاید اس کی وجہ حضرت قائداعظمؒ کی ذات پر رقیق حملے ہوتے دیکھنے کی عادت نہ ہونا ہے۔
ارشاد حقانی صاحب فرماتے ہیں آج میں ایک اہم اور حساس موضوع پر قلم اٹھانے والا ہوں۔ جس موضوع پر انہوں نے قلم اٹھایا وہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کی خواہش کے مطابق جغرافیائی سرحدوں کی موجودگی کے باوجود ان کو عملی طور پر غیرمتعلق بنانا ہے۔ اس حوالے سے ان کو کبھی بے نظیر بھٹو کے اقوال کا حوالہ دینا پڑا اور کہیں میاں محمد نوازشریف کے حالیہ بیانات کو کوٹ کرنا پڑا جن میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزہ ختم کرنے کی بات کی تھی۔ 1947ء سے ٹوٹے ہوئے دل ملانے کیلئے وہ مصطفی صادق کی گواہی ڈال کر 1965-66ء سے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اسلحہ کی خریداری پر خرچ ہونیوالے پیسے بچانے کیلئے بھارت‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان فیڈریشن کے بھی حامی ہیں لیکن وہ اپنی بات کہنے کیلئے مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور ان کو وہ موقع اس وقت ہاتھ لگا جب بھارت پاکستان پر ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا بار بار الزام لگا کر یلغار کی دھمکیاں دے رہا ہے اور اس کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ جناب نے اس کو حساس موضوع بھی قرار دیا لیکن ان کی تان بالآخر جاکر قائداعظمؒ کی توہین پر ٹوٹی ہے۔ قائداعظمؒ قوم کے بڑے اور بزرگ ہیں۔ ان کو بابائے قوم بھی کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ قوم ان کو باپ کے درجے پر فائز کرچکی ہے۔ اس اولاد کو کیا نام دیا جائے جس کو چاہئے تھا کہ اپنے باپ کے اگر ہوں تو عیب چھپائے نہ کہ ان کی خوبیوں کو بھی خامیاں بناکر پیش کیا جائے۔ کیا کبھی کسی نے سگے باپ کے بارے میں ایسا رویہ اختیار کیا ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔ موصوف نے قائداعظمؒ کیخلاف زہرافشانی کیلئے مواد ڈھونڈنے پر نہ جانے کتنے دن غارت اور راتیں ضائع کردیں۔
پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش کو فیڈریشن میں پرو دینے‘ پاکستان بھارت تعلقات اور تجارت پر تجاویز دی اور سنی جا سکتی ہیں۔ قائداعظمؒ کے بارے میں کسی بھی طرف سے کی گئی توہین کوئی پاکستانی کیسے برداشت کرسکتا ہے۔ میں اپنے گھر میں محفوظ ہوں‘ مجھے مذہبی آزادی حاصل ہے‘ میرے بچے میری مرضی کیمطابق دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں تو اسکی وجہ قائداعظمؒ کا دلایا ہوا پاکستان ہے۔ کیا بھارت کے ہر مسلمان کو ایسی سہولتیں حاصل ہیں؟
محترم نے ایک اور قدم آگے بڑھایا۔ ان کو The sun shall rise کا حوالہ دینے کی اسکے علاوہ کیا ضرورت تھی کہ بانی پاکستان کی توہین کی جائے۔ ان کی اصل سوچ تک پہنچنے کیلئے قارئین کیلئے ارشاد احمد حقانی کے کالم میں The sun shall rise کا حوالہ ضروری ہے۔ ’’اسے لاہور کے ایک معروف اور قدیم پبلشر نے شائع کیا ہے۔ اسکے مصنف جناب عطاء ربانی ہیں جن کا ماضی ان کی حب الوطنی پر دلالت کرتا ہے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ رائل انڈین ائرفورس میں شامل ہوگئے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو انہیں یہ اعزاز نصیب ہوا کہ وہ قائداعظمؒ کے پہلے ائرایڈی کانگ مقرر کئے گئے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’…پاکستان بنتے ہی 15 اگست 1947ء کو ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت میں قائداعظمؒ نے تین غلطیاں کیں۔ ان کا ایک بیوروکریٹ ملک غلام محمد کو ملک کا پہلا وزیر خزانہ بنانا پہلی بڑی ’’غلطی‘‘ تھی۔ اس ’’غلطی‘‘ نے آنیوالے دنوں میں نوزائیدہ مملکت کو بے انتہا اور لاتعداد نقصانات پہنچائے۔ عطاء ربانی کا کہنا ہے کہ حضرت قائداعظمؒ‘ غلام محمد کی بجائے نوابزادہ لیاقت علی خان کو وزارت عظمیٰ کیساتھ وزارت خزانہ کا اضافی قلمدان بھی سونپ سکتے تھے کہ لیاقت علی خان کی امانت و دیانت اور پاکستان سے کمٹمنٹ اظہر من الشمس تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ملک غلام محمد کی بجائے قائداعظمؒ کسی ایسے سیاستدان کا بھی بطور وزیر خزانہ تقرر کرسکتے تھے جس میں فنانس کے معاملات کو سمجھنے کی اہلیت ہوتی اور جسے سر رولینڈز کی نگرانی میں مزید پالش کیا جاسکتا (سررولینڈز متحدہ ہندوستان میں وائسرائے کونسل کے آخری فنانس ممبر تھے اور قائداعظمؒ نے پاکستان کیلئے ان کی خدمات عاریتاً لے بھی رکھی تھیں) عطاء ربانی کے بقول ملک غلام محمد کو نوزائیدہ پاکستان کا وزیر خزانہ بنایا جانا اس لئے بھی غیرمناسب تھا کہ ایک تو انکے پاس خزانہ کے معاملات چلانے کا کوئی وسیع تجربہ اور علم نہیں تھا‘ سوائے اسکے کہ انہوں نے جنگ عظیم دوم کے دوران متحدہ ہندوستان کی حکومت میں سپلائی اینڈ پرچیز کے شعبے میں چند سال گزارے تھے اور دوسرا یہ کہ ملک غلام محمد حد سے زیادہ اقتدار کا حریص تھا۔ اپنی اوقات سے بڑھ کر عہدے کا متمنی رہنے والا‘ نہایت ضدی بیوروکریٹ اور منتقم مزاج بھی۔ اقتدار کیلئے اس کی حرص کا یہ نتیجہ نکلا کہ جلد ہی اس غیرمنتخب شخص نے اقتدار کے ایوانوں میں سازشوں کا جال بچھا دیا اور اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے اپنا راستہ ہموار کرنے لگا۔ یہ اسکی سازشوں ہی کا نتیجہ تھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں قائداعظمؒ کی رحلت کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی جگہ ملک غلام محمد بیٹھا تھا۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی بدقسمتی تھی۔ چونکہ وہ اپنے ساتھ کام کرنیوالوں کو سخت ناپسند تھا اس لئے ناپسندیدہ عناصر سے گلوخلاصی کروانے کیلئے ملک غلام محمد نے نہایت جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردئیے۔ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ میں اسکے خلاف بغاوت کے شعلے بلند ہونے لگے۔ نوزائیدہ پاکستان جسے قدم قدم پر جمہوری فیصلوں اور مشوروں کی ضرورت تھی‘ وہاں ملک غلام محمد کے فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے آمریت کی راہ ہموار ہونے لگی۔ عطاء ربانی صاحب کا کہنا ہے کہ ملک غلام محمد نے بلاواسطہ اور بالواسطہ حکومت سازی اور حکومت کے فیصلوں میں بیوروکریسی کو شامل کیا اور آج ہمیں سیاست میں جو آلودگی نظر آرہی ہے وہ ملک غلام محمد کے فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔ ملک غلام محمد ہی کی وجہ سے سول بیوروکریسی کے بعد ملٹری بیوروکریسی نے بھی پَر پُرزے نکالنا شروع کردئیے جس نے پاکستان کو دولخت بھی کیا اور تین بار ملک فوجی جرنیلوں کے قبضے میں بھی رہا۔
پاکستان آرمی کے پہلے سربراہ کو نافرمانی کی سزا نہ دینا‘ دوسری ’’غلطی‘‘ تھی۔ اکتوبر 1947ء کے اواخر میں ہمارے قبائلی سرینگر ائرپورٹ پر قبضہ کرنے کے قریب تھے۔ آس پاس کا علاقہ بھی انکے زیرقبضہ تھا۔ ایسے میں قائداعظمؒ نے لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس گریسی جنہیں عارضی طور پر پاکستان آرمی کی کمان دی گئی تھی‘ کو حکم دیا گیا کہ کشمیری مجاہدین اور قبائلیوں کی اعانت کیلئے ایک بریگیڈ فوج کشمیر بھیجی جائے لیکن جنرل گریسی نے قائداعظمؒ کے حکم کی تعمیل کے برعکس فیلڈ مارشل آکین لیک سے رابطہ کیا جو ان دنوں بھارتی افواج کے سربراہ تھے اور انہیں قائداعظمؒ کے فیصلے سے آگاہ کردیا۔ 
مصنف کا کہنا ہے کہ وقت اور حالات کا تقاضہ تھا کہ قائداعظمؒ فوری طور پر جنرل گریسی کو سزا دیتے ہوئے عہدے سے الگ کردیتے اور انکی جگہ پاکستانی فوج کے کسی سینئر افسر کا تقرر عمل میں آتا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ سرینگر ائرپورٹ بھی ہمارے قبائلیوں کی گرفت سے نکل گیا اور کشمیر کی مکمل فتح بھی ادھوری رہ گئی۔ اگر جنرل گریسی کو فوری سزا دی جاتی تو نہ بعد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تین ہلاکت خیز جنگیں ہوتیں اور نہ ہی سیاچن اور کارگل ایسی لڑائیوں کے سانحات رونما ہوتے۔ مصنف عطاء ربانی نے دعویٰ کیا ہے کہ نامعلوم وجوہ کی بناء پر نہ صرف جنرل گریسی کو سزا نہ دی جاسکی بلکہ قائداعظمؒ نے اسے لیفٹیننٹ جنرل سے ترقی دیکر فل جنرل بنا دیا اور پاکستان آرمی کے پہلے باقاعدہ سربراہ ہونے کا اعزاز بھی اسے بخش دیا۔ عطاء ربانی کے دعوے کے مطابق اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینا قائداعظمؒ کی تیسری ’’غلطی‘‘ تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت اردو بولتی تھی لیکن تقسیم ہند نے معاملات بدل دئیے۔ اب مشرقی پاکستان میں 54 فیصد پاکستانی رہتے تھے جو اردو بولنا‘ لکھنا اور پڑھنا کم کم جانتے تھے۔ ان کی زبان بنگالی تھی لیکن قائداعظمؒ نے مارچ 1948ء کو مشرقی پاکستان پہنچ کر اردو کے قومی زبان ہونے کا اعلان کردیا۔ اگرچہ قائداعظمؒ نے خلوص نیت اور یکجہتی کیلئے یہ اعلان کیا تھا لیکن بنگالی پاکستانیوں نے اس فیصلے کو اپنے کلچر‘ روایات اور اپنی زبان کیخلاف حملہ سمجھا۔ پھر ہنگامے شروع ہوگئے جس میں تین طلبہ بھی ہلاک ہوگئے۔ مصنف کے مطابق اس فیصلے نے پاکستان کے دونوں بازوئوں کے درمیان حائل 1200 میل کے آبی فاصلوں کو دل کی دوریوں میں بدل دیا۔
بہت سے لوگوں کو جناب عطاء ربانی کی رائے سے اختلاف ہوگا لیکن ان کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ (بقیہ سامنے والے صفحہ پر) 
حقانی صاحب نے عطاء ربانی کی کتاب کا حوالہ دیا اور جو اقتباس نقل کیا وہ اس سے مکمل متفق ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کو اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ربانی صاحب بھی عمر کے اس حصے ہیں جس میں انسان کی مت بھی ماری جاسکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ ربانی صاحب کی خوش قسمتی ہے۔ اگر انہوں نے سب کچھ بقائمی ہوش و حواس لکھا ہے تو اس سے نہ صرف ان کی حب الوطنی اور پاکستانیت مشکوک ہے بلکہ ان کی انسانیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
قائداعظمؒ نے قیام پاکستان اور بعد ازاں پاکستان کیلئے جو کچھ کیا وہ صدق دل اور خلوص نیت سے کیا۔ کیا قائداعظمؒ کی ڈیڑھ سال کی زندگی میں جب وہ گورنر جنرل رہے‘ ملک غلام محمد کی کوئی ایسی حرکت سامنے آئی تھی جس پر ان کی گرفت کی جاسکتی؟ قائداعظمؒ کے بعد عنان حکومت لیاقت علی خان کے پاس آئی۔ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے۔ ملک غلام محمد تو لیاقت علی خانؒ کی وفات کے بعد وزیراعظم بنے۔ اگر قائداعظمؒ کی کابینہ میں وہ طاقتور تھے تو قائداعظمؒ کی وفات کے بعد وہ گورنر جنرل بنتے۔ The sun shall rise کے مصنف نے خود تسلیم کیا ہے کہ ’’ملک غلام محمد کے پاس خزانہ کے معاملات چلانے کا وسیع تجربہ نہیں تھا‘‘ یعنی تجربہ تو تھا لیکن وسیع نہیں تھا۔ قائداعظمؒ کے ایڈی کانگ کا یہ کہنا کہ لیاقت علی خانؒ کو وزارت عظمیٰ کے ساتھ وزارت خزانہ کا قلمدان بھی سونپ دینا چاہئے تھا‘ کیا نوزائیدہ مملکت کا وزیراعظم وزارت خزانہ کو بھی سنبھالنے کا متحمل ہوسکتا تھا؟ جب نیا ملک اور اس کا ہر ادارہ صفر سے آغاز کررہا تھا؟ پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے وفاقی وزیر کے ساتھ معاون وزیر بھی ہونا چاہئے تھا چہ جائیکہ وزارت خزانہ بھی وزیراعظم کے سپرد کردی جاتی۔ ملک غلام محمد کی خرافات اور کرتوتوں کی وجہ سے اگر معاملات بگڑے اور نوبت مارشل لائوں اور ملک ٹوٹنے تک جاپہنچی تو اس میں قائداعظمؒ کو قصوروار قرار دینا پاگل پن کے علاوہ کچھ نہیں۔
اردو زبان کیونکر پاکستان کی قومی زبان قرار دی گئی؟ اس کی وجہ اس کا پانچوں صوبوں میں سمجھا جانا ہوسکتا ہے۔ اگر ایک ہی زبان قرار دینا تھا تو اردو کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ یہ مغربی پاکستان کے کسی صوبے کی زبان بھی نہیں ہے۔ اگر قائداعظمؒ نے اسے قومی زبان قرار دیا تو بعد میں آنیوالوں کو کس نے روکا تھا کہ بنگالی کو بھی سرکاری زبان قرار دے دیتے۔
میں نے جنرل حمید گل صاحب سے فون کرکے جنرل گریسی کی پوزیشن اور اسکے بارے میں اٹھائے گئے عطاء ربانی کے سوالات کے ضمن میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ جنرل گریسی پاکستان اور بھارت کی افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل اکین لیک کی کمانڈ میں تھا اس لئے اس کے احکامات کا پابند بھی تھا۔
عطاء ربانی نے پاکستان کے دولخت ہونے تک کا ملبہ قائداعظمؒ کی غلطیوں کو قرار دے ڈالا۔ ایک احسان فرما گئے کہ 911 کے بعد افغانستان پر امریکہ کے قبضے اور قبائلی علاقوں میں اتحادی فوجوں کی بمباری کی ذمہ داری قائداعظمؒ پر نہیں ڈالی۔ غالباً ان کی کتاب قبائلی علاقوں میں حالات خراب ہونے سے پہلے شائع ہوچکی تھی۔ جہاں اتنا کچھ کہہ دیا وہیں نئے ایڈیشن میں اس کو بھی شامل فرما دیں تاکہ بھارت سے پیار کرنیوالوں کی تشفی ہوسکے۔
جناب ارشاد احمد حقانی صاحب کا شمار بلند پایہ صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ بغیر منتخب ہوئے تین ماہ تک وزیر اطلاعات بھی رہ چکے ہیں۔ وہ شروع میں جمعیت سے وابستہ تھے۔ وہ جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کی ادارتی ذمہ داریاں بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ 1951ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے اور پھر سیکرٹری اطلاعات بھی رہے۔ 1957ء میں خود جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کی۔ قائداعظمؒ پر ملک غلام حمد کو خزانہ بنانے کا الزام لگانے والے بتائیں کہ ایسی ہی غلطی کیا مولانا مودودی سے بھی ہوئی جنہوں نے موصوف کو جماعت اسلامی کے اہم عہدے پر تعینات کیا اور موقع ملتے ہی وہ جماعت کو چھوڑ گئے اور بالآخر چور دروازے سے وفاقی وزیر بھی بن گئے۔
موصوف نے قائداعظمؒ کی ذات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے مریم چودھری کے دو انگریزی اقتباسات کا حوالہ دیا ہے اور ان کا ترجمہ بھی نہیں کیا۔ ترجمہ نہ کرنے کی وجہ اندر کی پھٹکار ہے یا قارئین پر حسب صلاحیت قائداعظمؒ کی ذات کے بارے میں رائے قائم کرنے کی گنجائش۔ جب قوم کے باپ کی پگڑی اچھالنے کا عزم صمیم کرلیا تو پھر شرمانے کی کیا بات‘ ترجمہ بھی کردیتے۔ قائداعظمؒ کے سپوتوں تک یہ پہنچانے کیلئے کہ آج اولاد باپ کا کس قدر احترام کرتی ہے اور ان کے دماغ میں بابائے قوم کو سطحی قسم کا رہنماء ثابت کرنے کیلئے کیا خناس ہے‘ ہم ترجمہ کردیتے ہیں:
’’…جناح ایک ایسا معمہ ہے جو ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔ لوگ ان کے بارے میں انتہائی غیرمعمولی کہانیاں سنا سکتے ہیں اور پھر ان کے الہامی سچ ہونے کے بارے میں وہ قسمیں بھی کھا سکتے ہیں یا وہ انہیں اپنی مرضی کے آدمی کے طور پر بھی پیش کرسکتے ہیں۔ پھر محمد علی جناح کون تھے؟ کیا وہ ایسے اعلیٰ پائے کے سیاستدان تھے جو اپنے ہم مذہب لوگوں کے حق کی خاطر لڑے‘ کیا وہ ایسا شخص تھا جس نے محبت کی شادی کی اور اس کی بیٹی اس سرزمین میں گم ہوگئی جو اس کا اپنا وطن تھا لیکن پھر اس کیلئے غیرملک ہوگئی۔ کیا وہ ایک آزادی کے جذبے سے سرشار حریت پسند تھے یا خونی انتقام پر آمادہ ایک ولن‘‘
مریم چودھری مزید لکھتی ہیں:
’’…ارد شیر کائوس جی ایک ایسے کالم نگار تھے جو جناح سے تو مل چکے تھے لیکن وہ بمشکل گرفت میں آتے تھے۔ ان کے کسی ایسے شخص کے بارے میں نظریات معلومات کرنا جس کی شخصیت میں تلخی نہ ہو‘ مشکل تھا۔ مثال کے طور پر جب بھی جدید پاکستان کا موضوع پیش آیا تو مجھے کائوس جی کی تقریر کو بہت زیادہ ایڈٹ کرنا پڑتا کہ وہ سنسرشپ سے بچ سکے۔‘‘ 
حقیقت یہ ہے کہ کاوس جی گستاخ قائد ہیں اور مدیر اعلیٰ نوائے وقت و دی نیشن نے انہیں برملا کہہ دیا تھا کہ آپ یہ فراموش نہیں کر سکے کہ قائداعظم نے ایک پارسی خاتون کو مسلمان کرکے شادی کی تھی۔ آپ ارزاہ کرم ہمارے اخبارات کیلئے نہ لکھا کریں۔ 
کالم نگار موصوف کی حضرت قائداعظمؒ پر تنقید کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ انہوں نے اگلی پچھلی تمام کسریں نکال دی ہیں۔ حرفِ تمنا کی طرح ان کے کالم کا ہر حرف گواہی دیتا ہے کہ وہ متحدہ ہندوستان کے زبردست حامی تھے البتہ ان کو اپنا خبث باطن ظاہر کرنے کا موقع اب ملا ہے۔ وہ قیام پاکستان پر معترض ہیں۔ ان کی عدم تقسیم ہند کی تمنا پوری نہ ہوسکی۔ اپنے کالم کی آخری قسط کا آغاز انہوں نے ان الفاظ سے کیا:
’’اب آئیے آگے چلیں۔ 
28 دسمبر کے کراچی کے ایک انگریزی معاصر میں وہی تبصرہ نگار جن کا میں پہلے حوالہ دے چکا ہوں لکھتے ہیں:
اس ترجمہ یہ ہے:
’’ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کی تخلیق کے لئے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا اس لئے اب ہمیں کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہئے جو ان کے دکھوں میں اضافے کا باعث ہو۔ یاد رہنا چاہئے کہ تقسیم ہند اس وقت ناگزیر ہوئی جب نہرو نے کابینہ مشن پلان کو اس وقت مسترد کر دیا جب مسلم لیگ اور کانگرس دونوں اسے تسلیم کر چکی تھیں۔ اس سے قائداعظم کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ بے وفائی کی گئی ہے۔ اب ان کے لئے اپنے انکار کے فیصلے سے واپس جانا ممکن نہ تھا باوجود اس کے کہ لارڈ مائونٹ بیٹن اور مولانا آزاد نے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ کابینہ مشن پلان کا استرداد ختم کر دیں۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ قائداعظم کابینہ مشن پلان مسترد کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم رہے حالانکہ اگر وہ مائونٹ بیٹن اور ابوالکلام آزاد کا مشورہ مان لیتے تو کابینہ مشن پلان شاید کسی شکل میں برقرار رہتا اور نہرو نے من مانی کرنے کی جو دھمکی دی تھی مائونٹ بیٹن اور مولانا آزاد کو یقین تھا کہ وہ اس میں نرمی پیدا کرا سکیں گے اور کچھ ردوبدل بھی ممکن ہو سکے گا۔ بہرکیف تقدیر کا لکھا پورا ہوا اور ہم 1947ء کے خون کے دریا سے گزر کر پاکستان آ گئے۔ اس ضمن میں بعض لوگوں نے کچھ مزید غلطیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو شاید خون کی اس ہولی کو روک سکتی تھیں۔ ہندوستان میں جب عبوری کابینہ بنی تو جناب لیاقت علی خاں کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان تھا۔ چودھری محمد علی ان کے مشیر تھے۔ اس زمانے میں سردار پٹیل نے اپنی وزارت میں ایک چپڑاسی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ازروئے ضابطہ اس نئی تقرری کا اجازت نامہ وزارت خزانہ نے دینا تھا۔ جب ان کے پاس درخواست پہنچی تو وزارت خزانہ نے جواب دیا کہ اس نئی پوسٹ کے لئے بجٹ میں کوئی تجویز نہیں ہے اس لئے اس تقرر کی منظوری نہیں دی جا سکتی اور سردار پٹیل بہت کھسیانے اور تلخ ہوئے۔ ان کی بات مان لی جاتی تو بے شک مسلمانوں کے اندر وزارت خزانہ کی واہ واہ نہ ہوتی لیکن عبوری کابینہ خوش اسلوبی سے چلنے کے امکانات اتنے زیادہ تاریک نہ ہوتے۔ اسی طرح جب لیاقت علی خان نے پہلا بجٹ پیش کیا تو اس میں انہوں نے ہندو سرمایہ داروں (مسلمان سرمایہ دار تو بہت کم تھے) پر بھاری ٹیکس لگائے جس سے پھر مسلمانوں میں واہ واہ ہوئی (مجھے آج تک مسلمانوں کے ردعمل کی تفصیل یاد ہے) لیکن ظاہر ہے کہ ان بجٹ تجاویز نے ہندو سرمایہ کاروں (اور باایں وجہ سیاستدانوں) میں بڑی تلخی پیدا کی اور یہ بھی ان عوامل میں سے ایک عامل بن گیا جس نے عبوری حکومت کے تجربے کو تلخ بنا دیا۔ اگر یہ تلخ تجربہ یا تجربات نہ ہوئے ہوتے تو کانگریسی قیادت کابینہ مشن پلان کی نامنظوری تک شاید نہ جاتی لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ آج کی پاک ہند قیادت کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے اور اب بھی کسی قسم کے دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ ہو جانا چاہئے۔ میں آج بھی جب کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر غور کرتا ہوں تو میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ ممتاز پاکستانی سکالر اور مورخ ڈاکٹر عائشہ جلال کی بھی یہی رائے ہے جو اسلام آباد سے لندن کے ایک سفر کے دوران اگست 2002ء میں انہوں نے میرے سامنے ظاہر کی۔ ہندوستان کے چوٹی کے صحافیوں نے اطمینان کا اظہار کیا تھا اور جناب ایم جے اکبر (ایک بھارتی صحافی) نے تو کہا تھا کہ آپ نے بہت دانائی کی باتیں کی ہیں۔ ممبئی کے حالیہ واقعے اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے خدشات کے بعد تو پاک ہند تعاون کی ضرورت مزید واضح ہو گئی ہے۔ کیا دونوں طرف کوئی سننے والا ہے؟
’’…جبکہ حقانی صاحب کا دل کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر دکھ سے بھرا ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ متحدہ ہندوستان کے حق میں تھے اور قیام پاکستان پر خوش نہیں ہیں۔ 
اگر یہ حقیقت ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ یہ ان کا حق ہے۔ البتہ میں موقع کی مناسبت سے چند مختصر گزارشات کرنے کی اجازت چاہتا ہوں… کچھ عرصہ قبل میں نے حقانی صاحب سے عرض کی تھی کہ آپ اپنے کالم میں تین بار محترمہ عائشہ جلال کی کتاب کو حرف آخر قرار دے چکے ہیں‘ کیونکہ وہ آپ کے نقطہ کے قریب ہے اور آپ کے بقول ہندوستانی صحافی گپتا نے بھی آپ سے یہی کہا تھا لیکن اصولی بات یہ ہے کہ تحقیق کے میدان میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا‘ حرف آخر صرف الہامی کتابیں ہوتی ہیں۔ دوم عائشہ نے یہ ڈاکٹریٹ کا تھیسس ہندو پروفیسر انیل کی سربراہی میں لکھا تھا اور وہ اپنے سپروائزر کی سوچ کے جبر کا شکار تھی ورنہ اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول میں دشواریاں پیش آتیں‘ چنانچہ اسی پس منظر میں آج سے چند برس قبل جب عائشہ کولمسز (LUMS) میں بطور مہمان مقرر بلایا گیا تو اسے طلبہ کے سامنے اپنی کتاب سے کچھ صفحات پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ عائشہ نے اپنی اسی کتاب ’’جناح‘ ہول سکوپس مین‘‘ سے ایک آدھ صفحہ پڑھا اور فوراً یہ اعلان کیا کہ اس کتاب کے چھپنے کے بعد اور مزید مطالعے اور غور و خوض کے نتیجے کے طور پر میرے نظریات میں تبدیلی آ چکی ہے جبکہ ہم اسے حرف آخر کا درجہ دے رہے تھے۔ حقانی صاحب گپتا اور عائشہ جلال کابینہ مشن پلان کو سودے بازی سمجھتے ہیں‘ کیونکہ وہ قائداعظم کے الفاظ کے پس پردہ محرکات تلاش کرتے ہیں جبکہ میں ایک سادہ لوح قسم کا طالب علم ہوں اور قائداعظم کے الفاظ پر مکمل بھروسہ کرتا ہوں۔
مجھے یقین ہے کہ قائداعظم سچے اور کھرے انسان تھے اور وہ وہی کہتے تھے جو ان کا مطلب ہوتا تھا‘ اس لئے میں ان کے الفاظ کو دوسرے معانی نہیں پہناتا۔ کابینہ مشن پلان قدرے تکنیکی معاملہ ہے اور میں نے کئی بار اس کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ کابینہ مشن پلان کو مسلم لیگ کے سامنے پیش کرتے ہوئے قائداعظم نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہمارا حتمی مقصد حصول پاکستان ہے اور قوم جس پٹڑی پر چڑھ چکی ہے اب یہ پاکستان حاصل کئے بغیر دم نہیں لے گی اور یہ کہ میں کابینہ مشن پلان کو حصول پاکستان کا ذریعہ ہی سمجھتا ہوں۔ کابینہ مشن پلان کی منظوری کے حوالے سے تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا
تفصیل میں گئے بغیر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کو یقین تھا کہ یہ سکیم ناقابل عمل ہے۔ قائداعظم اور نہرو دونوں نے اسے (Unwork able) کہا۔ قائداعظم چاہتے تھے کہ تھوڑا عرصہ انتظار کر لیں۔ اس سکیم کے ذریعے پنجاب اور بنگال تقسیم ہونے سے بچ جائیں گے اور پاکستان بھی معرض وجود میں آ جائے گا۔ خود مسلم لیگ کونسل نے بھی کابینہ مشن پلان کو قبول کرتے ہوئے جو قرارداد پاس کی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ وہ اس سکیم کو اس یقین کے ساتھ قبول کر رہے ہیں کہ یہ سکیم بالآخر پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کرے گی۔ براہ کرم قائداعظم کی پانچ اور چھ جون 1946ء کی تقاریر پڑھیں اور مسلم لیگ کی قرارداد کو بغور پڑھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے۔ محترم حقانی صاحب نے لکھا ہے کہ اگر وہ (قائداعظم) مائونٹ بیٹن اور ابوالکلام کا مشورہ مان لیتے تو کابینہ مشن پلان کسی شکل میں برقرار رہتا۔ ان کی حسرت اپنی جگہ لیکن مائونٹ بیٹن تو وائسرائے بن کر ہی مارچ 1946ء میں آیا تھا‘ جب کہ کابینہ پلان مئی 1946ء میں پیش کیا گیا اور جون میں قبول کرنے کے بعد مسترد کر دیا۔ مائونٹ بیٹن کی آمد تک سیاسی پلوں کے نیچے سے بے شمار پانی بہہ چکا تھا اور حالات یکسر بدل چکے تھے۔ بہرحال میں یہ سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کابینہ مشن پلان کو بھی حصول پاکستان کا ذریعہ سمجھ کر قبول کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ آپ کو حق ہے کہ آپ اسے پاکستان کے مطالبے سے دستبرداری سمجھ لیں۔‘‘
حقانی صاحب کے کالم کی تان بالآخر لاہور میں سائوتھ ایشیائی صحافیوں کی کانفرنس میں کی گئی اپنی تقریر پر ٹوٹی جس میں انہوں نے فرمایا تھا۔ ’’ماضی میں ہم دونوں سے جو بھی غلطیاں ہوئیں اب تاریخ کی قوتیں ہمیں دھکیل رہی ہیں کہ ہم ہوش مندی اور تعاون باہمی کا راستہ اختیار کریں میرے اس تبصرے پر پاکستان اور ہندوستان کے چوٹی کے صحافیوں نے اطمینان کا اظہار کیا تھا اور ایم جے اکبر نے تو کہا تھا کہ آپ نے بہت دانائی کی باتیں کی ہیں‘ ممبئی کے حالیہ واقعے اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے خدشات کے بعد تو پاک ہند تعاون کی ضرورت مزید واضح ہو گئی‘‘۔ حقانی صاحب کی اس رائے سے نہ صرف دونوں ملکوں کے مخصوص چوٹی کے صحافی متفق ہیں بلکہ پاکستان بھارت تعلقات کیلئے بے چین ٹولے کے سامنے مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی دستبرداری کی بات کی جائے تو وہ اس کے حق میں بڑی دور کی کوڑی لائیں گے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ بھارت ہمارا پڑوسی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کے ساتھ بہترین تعلقات قائم ہونے چاہئیں۔ تعلقات کیوں قائم نہیں ہو سکتے؟ مختصر سا جواب مسئلہ کشمیر ہے۔ حقانی صاحب نے آج کشمیر کا جو حصہ آزاد ہے اس کا کریڈٹ قائداعظم کی فہم و فراست کو دینے کے بجائے مقبوضہ وادی کے بھارت کے زیر قبضہ رہنے کو قائداعظم کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ کشمیر کے قضیے کا آخر کوئی تو حل نکلنا چاہئے اور بہترین حل وہی ہے جو حضرت قائداعظم نے جنرل گریسی کو لاہور کے گورنر ہائوس میں حکم کے ذریعے دیا تھا کہ کشمیر میں پاکستان کی فوج داخل کرو اور اس نے حکم عدولی کرتے ہوئے اپنے جنرل فیلڈ مارشل آکین لیک سے پوچھنے کا کہا تھا جس نے بھارت میں مقیم ہونے کی وجہ سے ایسا آرڈر دینے سے انکار کر دیا تھا یا جو اقوام متحدہ نے بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں اٹھانے کے بعد بتایا تھا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ اب اس مسئلے کو ایک طرف رکھ کر بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے جائیں کہاں کی دانشمندی ہے۔ وادی کشمیر 7 لاکھ بھارتی فوجیوں کی یلغار کی وجہ سے جل رہی ہے۔ وہاں ہر روز حریت پسندوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ بھارتی درندے بلا امتیاز بچوں اور خواتین کے ظلم جاری رکھے ہوئے ہیں کیا ان کو اسی حال میں چھوڑ دیا جائے۔ 
اگر مسئلہ کشمیر وہاں کے مکینوں کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل بھی ہو جائے تو بھی بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کا امکان نہیں۔ بھارت اپنے ہر پڑوسی ملک کو مطیع رکھنا چاہتا ہے کیا پاکستان اس کا مطیع بن جائیگا؟ بنگلہ دیش کے ساتھ تو بھارت کا کشمیر جیسا کوئی تنازعہ نہیں۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بھارت آگے آگے تھا کیا بنگلہ دیش کے ساتھ اس کے مثالی تعلقات ہیں؟ 
صرف موصوف ہی نہیں خرِ زمان اور رسوائے عالم ایک ٹولہ موجود ہے جو بھارت کے ساتھ ہر صورت پیار کی پینگیں بڑھانے پر مُصر ہے۔ کیا ان دانشوروں نے کبھی بھارت کو بھی مشورہ دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت بند کرے‘ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دے۔ نوازشریف اور آصف علی زرداری کی بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش ہے۔ نوازشریف صاحب تو ویزہ ختم کرنے کی بھی بات کر چکے ہیں۔ آصف زرداری دونوں ممالک کو مشترکہ اقتصادی طاقت بنانے کے بیانات دے چکے ہیں۔ لیکن ان کی خواہشات کے راستے میں کارگل اور سانحہ ممبئی حائل ہو جاتے ہیں۔ ایسے سانحات سے بچنے‘ پاکستان بھارت دوستانہ نہیں غیر مخاصمانہ تعلقات کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا اور آج اس شہہ رگ پر بھارت نے پانی بند کر کے باقاعدہ انگوٹھا رکھ دیا ہے۔ یہ انگوٹھا عاجزی اور منت سماجت سے نہیں اٹھے گا۔ بھارت ہمیں ایک بار پھر تقسیم کرنا چاہتا ہے یا بھارت حصہ بنا کر بھارت کو نیا بھارت بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ قوم آج بھی قائداعظم کے احترام میں متفق ہے۔ جن کو قائداعظمؒ میں خامیاں نظر آتی ہیں وہ بھارت کی آشیرباد سے متحد ہو رہے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ پاکستان بھارت تعلقات کیلئے اپنا کردار ضرور ادا کریں‘ اس کے لئے بہترین طریقہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ کرنا ہے وہ اس کے لئے جدوجہد کریں۔ خدارا قائداعظمؒ کی ذات کو متنازعہ بنانے کی کوشش نہ کریں ہم آج جو کچھ ہیں قائداعظمؒ اور ان کے آزاد ملک کی بدولت ہیں۔ اگر قائداعظمؒ پاکستان نہ دلاتے اقبال نظریہ نہ دیتے‘ انہیں لندن سے واپس نہ بلواتے تو کیا معلوم کہ آج کے چوٹی کے صحافی‘ جرنیل‘ جج اور دیگر بڑے لوگ عرضی نویس بھی نہ ہوتے۔

فوج کو سیاست میں مداخلت اور حکمرانی کا حق ہے؟.........26 اگست ، 2010

Sunday, August 22, 2010

sub marine

نواز شریف کا کمیشن۔ کمیشن کی نذر


فضل حسین اعوان 
اتوار ، 22 اگست ، 2010
حالات کی گردش نے کچھ لوگوں کو قائداعظم کے پاکستان اور پاکستانیوں کی تقدیر
 کا مالک بنادیا۔ یہ قائداعظم کی کرسی پر بیٹھتے ہیں لیکن قائداعظم جیسا با اصول سیاستدان، باوقار حکمران اور خود دار انسان بننے کی کوشش نہیں کرتے۔ علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کیلئے محمد علی جناح کا انتخاب ہی اس لئے کیا تھا کہ جناح کو خریدا جاسکتا تھا نہ جھکایا جاسکتا تھا۔ایک دفعہ عدالت میں جناح کی یک چشمی عینک زمین پر گر پڑی۔ انگریز جج نے مسکر اکر کہا” مسٹر جناح اب تو آپMONOCLES اٹھانے کیلئے جھکو گے“۔ جناح نے جیب سے دوسری عینک نکال کر لگاتے ہوئے زمین پر پڑی عینک کو پاﺅں رکھ کر توڑ ڈالا۔ مسٹر جناح کے اس عمل سے جج کی جناح کو جھکتے دیکھنے کی حسرت دل میں رہ گئی۔ اور شرمندگی سے اس کا رنگ فق ہوگیا....لندن میں 1930 کی گول میز کانفرنسوں کے دوران برطانوی وزیراعظم رمزے میکڈونلڈنے جناح کو خصوصی دعوت پر بلایا۔ دوران گفتگو کہا” ہم نے آپ کے لئے بہت کچھ سوچ رکھا ہے“۔ وزیراعظم کی یہ بات سن کر جناح کھڑے ہوگئے اور کہا” مسٹر وزیراعظم تم مجھے رشوت دینا چاہتے ہو“ اس کے ساتھ ہی برطانوی وزیراعظم سے ہاتھ ملائے بغیر ان کے دفتر سے نکل آئے.... گزشتہ ماہ کے آخر میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھارت آئے انہوں نے نئی دہلی میں کھڑے ہوکر پاکستان کے خلاف زہر اگلا۔ چند روز بعد صدر پاکستان قائداعظم کی کرسی پر بیٹھنے کا شرف حاصل کرنیوالے آصف علی زرداری نے برطانیہ کے دورے پرجانا تھا۔ان کے حامی اور جامی بھی احتجاجاً دورہ منسوخ کرنے کے مشورے دیتے رہے۔ لیکن صدر صاحب نے دورہ ملتوی یا منسوخ کرنے کا ہر مشورہ اور تجویز ردّ کردی۔ برطانیہ کے دورے سے قبل ہی پاکستان میں سیلاب کی آفت ٹوٹ پڑی تھی۔ اس کے باعث بھی صدر صاحب کو فوری پاکستان آنے کی پکار دی گئی لیکن وہ معمول اور ایڈوانس پارٹی کے طے شدہ شیڈول کے مطابق پورے 5دن لندن میں گزار کر ہی لوٹے اور اس سے پہلے پیرس میں بھی اپنے پیلس کے درشن کر آئے۔ میاں نواز شریف نے سیلاب میں ڈوبی قوم کو بے یارومددگار چھوڑنے پر صدر صاحب پر تنقید کی تو کہا گیا کہ نواز شریف نے تنقید کرکے اپنی ذہنیت کا اظہار کردیا۔ دونوں لیڈروں کے درمیان تنقید اور جوابی تنقید سے پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت کافی اوپر چلا گیا تھا۔ اِدھر زرداری صاحب وطن واپس لوٹے تو اُدھر وزیراعظم گیلانی نے نواز شریف کو ملاقات کی دعوت دے ڈالی۔ نواز شریف کچے دھاگے سے بندھے وزیراعظم ہاﺅس چلے گئے۔14اگست کودونوں کے درمیان بڑی میٹھی باتیں ہوئیں۔ دونوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں کا مل کر مقابلے کا عزم ظاہر کیا۔ بڑی بات ،دونوں کے مابین ایک کمیشن کی تشکیل پر اتفاق رائے تھا۔ جو سیلاب متاثرین کے لئے فنڈ جمع کریگا۔ اس کی نگرانی میں نقصانات کا سروے کرایاجائیگا اور یہی کمشن فنڈز کی منصفانہ تقسیم کی نگرانی بھی کرے گا۔ وزیراعظم گیلانی نے خود نواز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا ” نواز شریف کی تجویز کے مطابق کمشن جلد بنا دیاجائیگا۔اس سلسلے میں جسٹس(ر) رانا بھگوان داس فخر الدین جی ابراہیم جسٹس(ر) اسلم ناصر زاہد ادیب رضوی اور دیگر کے نام زیر غور ہیں“۔ کمشن کی تشکیل فوری ہوجانا چاہئے تھی۔ لیکن 6دن خاموشی سے گزر گئے اور نواز شریف کے کمشن کی تجویز کو ردّ کرتے ہوئے گیلانی صاحب نے قومی نگرانی کونسل قائم کرنے کا اعلان کردیا۔جس کے ذمہ متاثرین میں شفاف طریقے سے امداد کی تقسیم ہے۔ گیلانی صاحب نے قومی کمشن کیلئے جن لوگوں کے نام نواز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران لیے تھے وہ ان کے حافظے سے محو ہوگئے نگران کونسل کے حوالے سے کہا کہ اس کے ممبران کا انتخاب صوبوں کی مشاورت سے کیاجائیگا۔ جس اجلاس میں کمشن بنانے کا اعلان کیا اس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ موجود تھے۔ کیا ان کو موقع دیا گیا ہے کہ واپس جا کر دو دو تین تین ایماندار آدمیوں کو تلاش کریں؟ بے اعتباروں کی بے اعتباری، دوسروں کو سیاسی اداکار قرار دینے والوں کی فنکاری کے باوجود پاکستانیوں کی طرف سے نہ سہی بیرونی دنیا سے تو کم ہی سہی پھر بھی اربوں روپے آرہے ہیں۔کہاں جارہے ہیں؟ وہیں جہاں زلزلہ زدگان کی امداد کی رقوم گئی تھیں۔ نواز شریف کی تجویز صحیح تھی اس پر عملدرآمد کیلئے فریقِ ثانی کی نیت بھی صحیح ہونی چاہئے۔ وہ کتنی صحیح ہے اس کا اندازہ نواز شریف کی تجویز کو ردّ اور ایک لولے لنگڑے اور ادھورے نگران کونسل کی صورت میں سامنے ہے۔ نواز شریف کی تجویز شاید اس لئے بھی وارے میں نہ آئی ہو کہ وہ قومی کمشن کی تشکیل چاہتے تھے۔ یہ سمجھ بیٹھے ہوں کہ کمشن بنا تو نواز شریف کو بھی امداد سے کمشن دینا پڑے گا۔وہ کمیشن نہ ہوں یہ الگ بات ہے۔

Saturday, August 21, 2010

کالا باغ ڈیم کی تعمیر ۔۔ اتفاق رائے ناگزیر نہیں

21-8-10  فضل حسین اعوان ـ 
پاکستان میں سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کے حوالے سے ایک نئی تھیوری سامنے آئی ہے کہ سیلاب قدرتی نہیں انسان کی برپا کی گئی آفت ہے۔ یہ تو کہا گیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا اور تباہ کن سیلاب ہے لیکن یہ نہیں کہا جاتا کہ مون سون میں ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں۔ اگر ریکارڈ بارشیں نہیں ہوئیں تو ریکارڈ سیلاب اور پانی کہاں سے آگیا۔ نئی تھیوری کے مطابق اس کا جواب پانی افغانستان اور بھارت نے چھوڑ کر پاکستان کو ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کابل کے قریب دریائے کابل سروبی ڈیم کا مکمل انتظام ہندو مشینری کے پاس ہے۔ اس نے سروبی ڈیم کے دروازے کھول کر خیبر پی کے کی بربادی کا سامان کیا۔ دریائے کابل نے پورے صوبے میں تباہی مچا دی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے بھی کشمیر میں تعمیر کے مراحل مکمل کرنے والے درجنوں ڈیموں میں سے چند ایک کے پانیوں کا رخ پاکستان کی طرف کر دیا۔ ان میں بگلیہار ڈیم اہم ترین ہے۔ دریائے سندھ‘ جہلم اور چناب میں ریت اڑتی تھی یک بیک بپھر گئے اور ایک چوتھائی پاکستان کو ڈبو دیا۔ تباہ و بربادی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ آج پورا ملک بھارت کے رحم و کرم پر ہے۔ سیلاب اسی لئے تھمنے کا نام نہیں لے رہا کہ سیلاب کا منبع ہمارے دشمن کے قبضے میں ہے۔ آج سیلاب کی تباہ کاریوں کو شروع ہوئے 24 واں دن ہے۔ آج بھی پہلے دن کی طرح علاقے ڈوب رہے ہیں۔ انسان مر رہے ہیں۔ بے گھر ہو رہے ہیں۔ بیماریوں کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ سیلاب کی وجہ اگر بارشوں کو قرار دیا جائے تو بارشیں تو بھارت اور افغانستان میں بھی ہوئی ہیں وہاں پانی آفت کیوں نہیں بنا؟ وہاں سیلاب کیوں نہیں آیا؟ 
ویب سائٹ Haqiqat. Org کے مطابق پاکستان کو ڈبونے کی سازش میں امریکہ بھارت اور افغانستان برابر کے شریک ہیں۔ تینوں ممالک خصوصی طور پر بھارت ہمیشہ سے اے این پی کا پروردہ رہا ہے۔ بھارت نے اے این پی کے بیس کو ہلا کر رکھ دیا۔ اے این پی کی اب آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اس کو ادھر ادھر جھانکنے کے بجائے پاکستان کے مفادات کے بارے میں سوچنا چاہئے پورا پاکستان بشمول کالا باغ ڈیم منصوبے کے خاتمے کی ذمہ دار پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت چیخ رہی ہے کہ کالا باغ ڈیم ہوتا تو سیلاب سے اس قدر وسیع پیمانے پر تباہی نہ ہوتی۔ اے این پی کی سوئی متواتر کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر اٹکی ہوئی ہے۔ کچھ رہنما ¶ں نے فرمایا کہ کالا باغ ڈیم بنا ہوتا تو نقصان 10 گنا زیادہ ہوتا۔ وہ اس کی مزید وضاحت کر دیتے بات دلیل اور منطق سے کرتے تو بہتر تھا۔ ڈیم اوپر سے پانی کو اپنے اندر سموتا ہے آنے والے پانی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ یہ نوشہرہ ڈبونے کی بات کرتے تھے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بنا ہی نہ صرف نوشہرہ ڈوبا بلکہ چارسدہ بھی ڈوب گیا اور ڈبویا بھی ان کے دوست بھارت نے۔
برطانیہ نے جنگ عظیم دوئم کے دوران جرمنی کے سارے ڈیم اڑا دئیے تھے۔ جرمنی ڈوبا تو اس کے حوصلے بھی ڈوب گئے۔ بھارت میں ہزاروں ڈیم ہیں۔ وہ آدھے بھی ٹوٹ جائیں تو بھارت ڈوب سکتا ہے۔ پاکستان بھارت کے مقابلے میں بہت چھوٹا ملک ہے۔ اگر وہ پاکستان کے ڈیم توڑنے میں کامیاب ہو جائے تو پاکستان میں پانی کے آگے بند باندھنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مزید ڈیموں کی تعمیر سے ہاتھ کھینچ لیں۔ ڈیموں کے بے قابو پانی کو بھی ڈیموں سے ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان سے کراچی تک ڈیموں کا ایک سلسلہ بچھا دینا چاہئے۔ جہاں بھی ممکن ہے پانی کے ذخیرے بنا دینے چاہئیں۔ کالا باغ ڈیم اہم ترین ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو بھارت کی آبی دہشت گردی کے باوجود بھی میانوالی سے آگے پورا پاکستان محفوظ ہوتا۔
ایوب خان نے جہاں سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے تین دریا راوی ستلج اور بیاس بھارت کے ہاتھ فروخت کرکے ستم کیا وہیں کالا باغ ڈیم کی تعمیر التوا میں ڈال کر پاکستان پر ظلم کیا۔ شوکت علی شاہ کے مطابق ایوب خان Friends not Masters میں لکھتا ہے کہ تمام انجینئرز کی متفقہ رائے تھی کہ ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ کالا باغ ڈیم سے شروع کیا جائے اور بتدریج آگے بڑھا کر تربیلا بھاشا اور سکردو ڈیم بنائے جائیں ایوب خان نے انجینئرز کی رائے کو اس لئے اہمیت نہ دی کہ وہ فوری نواب سر محمد فرید خان کی امب ریاست کو ڈبونا چاہتا تھا جسے ایوب خان نے تربیلا کے وسیع و عریض رقبے میں ڈبو دیا۔ اگر ایوب خان ڈیموں کی تعمیر کا میرٹ پر فیصلہ کرتے تو کالا باغ ڈیم آج متنازعہ صورت میں ہمارے سامنے کھڑا نہ ہوتا۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر مٹھی بھر مفاد پرست سیاستدانوں کے سوا پوری قوم متفق ہے۔ اچھا ہوتا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو متنازعہ بنائے رکھنے کے بجائے ریفرنڈم کرا لیا جاتا۔ کالا باغ ڈیم کے مخالفین ریفرنڈم سے بھی خوف کھاتے ہیں۔ ان کو ریفرنڈم کی صورت میں یقینی ہار نظر آتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ حکومت کی کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں عدم دلچسپی اور ریفرنڈم کے انعقاد سے گریز کو دیکھ کر نوائے وقت نے اپنے طور پر ریفرنڈم کا اعلان کیا ہے۔ یہاں کالا باغ ڈیم کے حامیوں سے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ وہیں مخالفین کو بھی اپنے رائے دینی چاہئے بلکہ یہ لوگ انتہائی اقلیت میں ہیں ان کو تو بڑھ چڑھ کر اپنی برتری جتلانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں کالا باغ ڈیم کے حامیوں کی خلوص نیت پر اعتبار اور اعتماد ہے وہ مجید نظامی صاحب کی اپیل پر جوق در جوق اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ اس ریفرنڈم میں ایک فرد ایک ووٹ کا اصول کارفرما رکھا گیا ہے اس لئے ووٹر کےلئے نوائے وقت کی کٹنگ کے ساتھ شناختی کارڈ کی کاپی لازمی قرار دی گئی ہے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے اتفاق رائے اہم ہے ناگزیر نہیں۔ اگر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر اکثریتی رائے کے مطابق ہو جانی چاہئے۔ کالا باغ ڈیم کے مخالف تو قیام پاکستان کے بھی حامی نہیں تھے۔ اگر اس وقت اتفاق رائے کا اصول اپنایا جاتا تو پاکستان معرض وجود میں نہ آتا۔ ایٹمی پروگرام شروع کرنے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تو ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی طرح پروگرام کے آغاز کی بھی مخالفت ہوتی اور غیر ایٹمی پاکستان کو بھارت کب کا 
ہڑپ کر چکا ہوتا۔






زیرو گراﺅنڈ پر قرطبہ ہاﺅس کی تعمیر


فضل حسین اعوان ـ 
امریکی تاریخ میں سوائے روز ویلٹ کے کسی کو بھی دو مرتبہ سے زیادہ صدر منتخب نہیں کیا گیا۔روز ویلٹ نے 4مرتبہ الیکشن لڑا اور چاروں بار جیت گئے۔ 4بار الیکشن لڑنے کی وجہ جنگ عظیم دوئم تھی وہ1933 سے 1945 اپنی موت تک امریکہ کے صدر رہے۔ پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن کی اپنے وطن کی آزادی کیلئے بے پناہ خدمات ہیں وہ 1789 سے 1797 تک صدر رہے ان کو تیسری مرتبہ صدر بنانے کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے ٹھکرادی کہ امریکن مائیں بانجھ نہیں ہیں۔ امریکہ میں ٹیلنٹ ختم نہیں ہوا۔ میں نے اپنے آئیڈیا آزمائے ہیں اب نئے آئیڈیا کی ضرورت ہے۔ نئے لوگوں کو آگے آنا چاہئے۔
نیو یارک میں نائن الیون کو دہشت گردی یا سازش کے ذریعے جڑواں ٹاورگرا دئیے گئے۔ امریکہ نے اس جگہ کو گراﺅنڈ زیرو کا نام دیکر تین ہزار سے زائد افراد کی یادگار کھڑی کردی ہے اس سازش میں امریکیوں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ پاکستان سمیت بہت سے دوسرے ممالک کے لوگ بھی مارے گئے۔ نائن الیون کی دہشت گردی کا الزام اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں پر لگا کر امریکہ نے افغانستان کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ بعد ازاں خود امریکی میڈیا نے بھی نائن الیون کی دہشت گردی کو مشکوک قرار دیتے ہوئے اسے افغانستان پر چڑھائی کے لئے ایک منصوبہ قرار دیا۔ اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جو جہاز ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرائے گئے تھے ان میںکوئی مسافر تھا نہ پائلٹ۔ وہ ریموٹ کنٹرولڈ تھے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ میں مسلمان کا بالعموم اور پاکستانیوں کا بالخصوص عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ تاہم مسلمانوں نے امریکیوں کے ساتھ ہمیشہ اظہار یکجہتی کیا۔ امریکہ میں موجود مسلمان تہذیبوں کے درمیان تصادم نہیں، مفاہمت کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ نائن الیون کی کشیدگی کوکم سے کم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے ان کے ذہن میں گراﺅنڈ زیرو پر قرطبہ ہاﺅس کے نام سے مسلم ثقافتی سنٹر کی تعمیر کا منصوبہ آیا۔ جس میں ایک مسجد بھی ہوگی۔ اس مجوزہ 13منزلہ سنٹر میں 500نشستوں کا آڈیٹوریم، لائبریری، باسکٹ بال کورٹ اور سوئمنگ پول بھی تعمیر کئے جائیں گے۔یہ سنٹرہر کسی کے لئے کھلا ہوگاسنٹر کے لئے امریکن سوسائٹی فار مسلم ایڈوانسمنٹ(ASMS) سرگرم ہے۔ اس سنٹر پر لاگت کا تخمینہ 100ملین ڈالر ہے۔ یہ تاریخی سنٹر وہاں موجود ایسی عمارت کو گراکر تعمیر کیاجائیگا جس کی کوئی تاریخی اہمیت نہیں ہے۔ جگہ کے مالک شریف الجمال نے مسلم ثقافتی سنٹر کی تعمیر کے لئے جگہ مسلمانوں کو فروخت کرنے پررضا مندی ظاہرکی ہے۔ مسلمانوں نے یہ منصوبہ نیو یارک کمیونٹی بورڈ کے سامنے رکھا تو بورڈ کے ارکان کی اکثریت نے تعمیر کی اجازت دے دی۔ 39 ارکان نے تعمیر کے حق میں ووٹ دیا۔ مخالفت میں صرف ایک ووٹ تھا۔ جبکہ دو ارکان ووٹنگ کے موقع پر موجود نہیں تھے۔ بورڈ کے اجلاس میں پاکستانی خاتون طلعت ہمدانی بھی موجو د تھیں جن کا بیٹا نائن الیون کو مارا گیا تھا۔
جمعہ 13 اگست کو صدر اوباما نے وائٹ ہاﺅس میں مسلم کمیونٹی کو افطار ڈنر دیا جس میں اوباما نے قرطبہ ہاﺅس کی تعمیر کی حمایت کی۔ امریکی شدت اور انتہا پسندوں کا ردّ عمل دیکھا تو پاﺅں پر مُکر گئے۔ اوردوسرے دن کہا کہ انہوں نے گراﺅنڈ زیرو پر مسجد کی تعمیر کی حمایت نہیں کی تھی۔ انٹر نیٹ پر اوباما کی حمایت اور تردید دونوں کی ویڈیو موجود ہے۔ اوباما کے پینترا بدلنے کی وجہ یہ ہے کہ نومبر میں مڈ ٹرم انتخابات ہورہے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہے۔ لیکن مسلمانوں سے زیادہ ری پبلکن اور ڈیمو کریٹس کو یہودیوں اور ہندوﺅں کے ووٹ اور حمایت عزیز ہے۔ یہودی اور ہندو نہ صرف امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہیں بلکہ یہودیوں کا تو امریکی معیشت پر مکمل کنٹرول بھی ہے۔ اس لئے دونوں پارٹیوں کی طرف سے قرطبہ ہاﺅس کی مخالفت ہورہی ہے۔ اگر قرطبہ ہاﺅس کی تعمیر کی حمایت میں کوئی آواز اٹھتی بھی ہے تو اس کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
امریکہ کا صدر کوئی للو پنجو نہیں ہوسکتا لیکن اوباما کا اپنی پالیسیوں پر عمل نہ کرنا ،تبدیلی کا نعرہ لگا کر اس سے پھر جانا ۔ عراق اور افغانستان کے حوالے سے کسی واضح موقف پہ قائم نہ رہنا اور اب مسجد کی تعمیر کی حمایت پھر تردید کرکے یہ ثابت کردیا کہ و ہ واقعی” ولا جوڑھ“ ہیں۔ یہ بش کے جاں نشین ہیں بش اور اوباما دونوں اضطراری ذہنیت کے مالک ہیں ایک نے دنیا کی تباہی کی ابتدا کی تو دوسرا انتہا تک پہنچانے پر کمر بستہ ہے۔ امریکی صدر کا منصب ہے کہ بات اور فیصلہ سوچ سمجھ کر کرے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اوباما کی ملامت کرتے ہوئے صحیح لکھا ہے” اوباما کو افطار ڈنر کے موقع پر سوچ سمجھ کر بات کرنا چاہئے تھی اگر مسجد کی تعمیر کی حمایت کی تھی تو اس پر قائم رہتے“
جارج واشنگٹن نے تیسری بار صدر بننے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے جو کہا تھا آج سوا دوسو سال بعد غلط ثابت ہورہا ہے؟ کیا امریکہ میں ٹیلنٹ ختم ہوگیا؟ نئے آئیڈیاز کے حامل افراد کا قحط پڑ گیا؟ امریکن مائیں کیا بانجھ ہوگئی ہیں کہ اعلیٰ اقدار کی حامل شخصیات کے بجائے بش اور اوباما جیسے تہذیبوں کے دشمن اور بات کرکے مکر جانیوالے صدر پیدا کر رہی ہیں۔

ارضِ پایک کو کس کی نظرلگ گئ



فضل حسین اعوان ـ 
میرے حسین وطن کو پھولوں سے لدے چمن کو کس کی نظر کھا گئی، یہ خدا کی طرف سے آزمائش ہے یا ہمارے اعمال پر فطرت و قدرت کی پکڑ۔ اگر آزمائش ہے تو معصوم بچوں کو تو قدرت نہیں آزماتی اگر شامت اعمال ہے تو عام لوگوں پر قیامت کیوں برپا ہو گئی ہے۔ پروردگار سے انصاف نہیں رحم کی التجا ہی کرنا چاہیے لیکن یہاں انصاف کے تقاضوں کی بھی بات کی جائے تو وہ ہستی الف کے اعمال کی سزا ب کو نہیں دیتی۔ جن کے شامتِ اعمال کے باعث عذاب نازل ہو وہ محفوظ کیسے رہ سکتے ہیں۔ یہ ایک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ کل تک میرے وطن کی چھاتی پر دریا بڑے بانکپن سے بہہ رہے تھے، ندیاں بل کھاتی ہوئی گنگنا رہی تھیں، پہاڑوں سے شفاف پانی کے چشمے ابل کر ریگزاروں اور صحراوں کو گلزار بنا رہے تھے، مسکراتے چمن لہلہاتی کھیتیاں، سایہ دار جھومتے شجر پھلوں سے لدے پھندے درخت ارض پاک کا نور تھے اہل وطن کی آنکھوں کی ٹھنڈک دماغوں کی طراوت، لطافت اور دلوں کا سرور تھے۔ شفق سے پھوٹتی روشنیاں رنگ و نور کی برسات بن کر افق تک پھیلتی چلی جاتی تھیں جس سے فضائیں منور اور ہوائیں معطر تھیں۔ پھر کیا ہوا! میرے وطن اور ہم وطنوں پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ آدھا ملک ناگہانی آفت کی لپیٹ میں آ گیا، جھومتے دریا بل کھاتی ندیاں لہلہاتے کھیت، پھولوں سے لدے پودے، پھول کی بہار دکھاتے اشجار، سبزے کے زیبا بدن پر مرمریں شبنم کے قطرے کچھ بھی سلامت نہ رہا۔ پانی کی بے رحم موجیں سب کچھ بہا کر لے گئیں۔ انسانوں کو بھی انسانوں کے مسکن، ضروریات زندگی اور جانوروں کو بھی ایسی دربدری کہ انسان اپنے ٹھکانے اور پرندے آشیانے کھو بیٹھے۔ آدھا ملک ڈوب گیا 4 کروڑ انسان متاثر ہوئے.... جو محفوظ ہیں ومجبور ہیں، زمین پر آفتیں آتی اور قیامتیں ٹوٹتی ہوئی دیکھی ہیں ان کا عرصہ ہی کتنا ہوتا ہے۔ پاکستان کی سرزمین کو تہہ و بالا کر دینے والے زلزلے کا دورانیہ آدھا منٹ تھا اس کے بعد امدادی کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ بڑے بڑے سونامی دوچار دن سرپٹخ کر اتر جاتے ہیں۔ یہ سیلاب ایک قہر بن چکا ہے ایک طرف سے زور ٹوٹتا ہے تو دوسری طرف بپھر کر تباہی مچا دیتا ہے۔ قوم کو ریلیف فنڈ قائم کرنے والوں کی نیت پر اعتبار نہیں وہ خود مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کی حسرت لئے بیٹھی ہے۔ پانی اسے متاثرین تک پہنچنے نہیں دیتا ادھر لینے والوں کی بے بسی کی داستانیں ہیں ادھر دینے والوں کی حسرتیں ہیں۔ پانی میں گھرے زندہ بچ جانے والے انسان خوراک اور ادویات سے محروم، مرنے والوں کی لاشیں محفوظ نہ ان کو قبریں نصیب، بچے بھوک سے بلک بلک کر سو جاتے ہیں۔ کل کے لکھ، کروڑ اور ارب پتی لوگوں کو ایک پل چین نہیں قرار نہیں ان کی اشکوں میں سحر ہوتی اور اشکوں میں شام ہوتی ہے۔ ان کی زندگیوں میں طرب کی جگہ کرب نے لے لی، سُکھ ہوا ہوا دکھ برسنے لگا شامِ غم شبِ ظلمات میں ڈھلتی نظر آ رہی ہے یہ لوگ اپنے پیاروں سے بچھڑنے آشیانوں اور شبستانوں سے نکلنے، خاندانوں کے بکھرنے، اپنا سب کچھ کھونے پر مغموم ہیں۔ ان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا تو یہ زندگی سے بیزار ہو سکتے ہیں ان کے ہاتھ محلات میں بیٹھے دنیا کی ہر نعمت سے سرفراز، حکمرانی کے نشے میں چور، مصائب سے دور لوگوں کے گریبانوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ دونوں صورتیں خوفناک اور تباہ کن ہیں، ہمیں بطور قوم متاثرین کی ڈھارس بندھانا ہو گی ان کو زندگی اور حیات کی روشنی لوٹانا ہو گی۔ ان کے اجڑے گھروں کو آباد کرنا ہو گا جہاں سے پانی اتر گیا ہے وہاں سے آلام کی سولی پر ٹنگے اپنے بھائیوں کو اتارنا ہو گا.... لیکن یہ کیا ہے؟ پاکستان کے دوسرے امیر ترین شخص جس کی دولت کے انبار گننے میں نہیں آ رہے۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں جس کے شہنشاہوں کے محلات کو مات کر دینے والے محلات ہیں اندرونِ بیرون ممالک کھربوں روپے کی جائیدادیں اور کاروبار ہیں۔ فرانس کا 20 سال پہلے خریدا ہوا محل اب دریافت ہوا ہے اس خدا کے بندے نے 25 لاکھ کا عطیہ دیا بعد میں اسے ڈبل کرتے ہوئے 50 لاکھ کر دیا ”بڑے بھائی“ نے ایک کروڑ دے کر حاتم طائی کی قبر کو لات مار دی۔ مشرف جو خود کو قوم کے لئے نوید سحر قرار دیتے ہیں بھی ایک کروڑ دان کر کے قوم پر احسان جتا رہے ہیں۔ پاکستان میں لوٹوں اور لٹیروں کی کمی نہیں۔ کیا یہ ڈاکے ڈالنا ہی جانتے ہیں ان کو انسانوں اور انسانیت کی کوئی پروا نہیں؟ شرم کی بات ہے ہمارے بڑے سیاستدان، حکمران موجودہ اور سابق فوجی و سول بیورو کریٹ دولت کے ڈھیر پر بیٹھ کر متاثرین کی امداد کے لئے غیروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ دنیا سے امداد کی اپیلیں کر رہے ہیں اپنی گرہ کھولیں تو کسی سے امداد لینے کی ضرورت نہیں رہے گی، نواز شریف نے درست کہا کہ حکومت بچت کرے 2 ارب پاﺅنڈ متاثرین کے لئے جمع کر سکتی ہے۔ لیکن ہماری سیاست کے ناخداوں کے سفینے بھی تنگ اور دل بھی تنگ ہیں ان کی دولت سازیاں اور ہوس افروزیاں اپنے ہم وطنوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیتیں۔ ان کے جسم دیسی اور روحیں بدیسی ہیں ان سے وطن کی عظمت کے گیت گانے کی توقع تھی لیکن ان کے گلے میں مفادات کی ہڈیاں پھنس گئی ہیں جس سے نغمہ تر کے بجائے اور لا اور لا کی غراہٹ سنائی دیتی ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ملک ہے تو سب کچھ ہے۔ ان کی عزت ہے عظمت ہے، سیاست ہے حکومت ہے۔ ملک ان کے دم قدم سے آباد ہے جو اپنے خون پسینے کی کمائی سے اسے چلانے میں مدد دے رہے ہیں، خون پسینہ بہانے والے آج امداد کے منتظر ہیں ارب اور کھرب پتی یونہی دولت پر سانپ بن کر بیٹھے رہے تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ع
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

! میں ہوں ناں


فضل حسین اعوان ـ 18 اگست ، 2010

 پیپلز پارٹی اور اس کی سیاست سے کوئی ہزار اختلاف کرے، اس کی پالیسیوں پر انگلی اور سوال اٹھائے، اسے جس طرح چاہے دوش دے لیکن یہ آج کی اٹل حقیقت ہے کہ اس کے چیئرمین کا پارٹی پر مکمل کنٹرول ہے۔ لوگوں کے وہ خدشے یکسر غلط ثابت ہوئے کہ صدارتی اختیارات سے دستبردار ہونے کے بعد صدر آصف علی زرداری کی پارٹی پر گرفت بھی ڈھیلی پڑ جائے گی۔ اٹھارہویں ترمیم بہت سے صدارتی اختیارت بہا کر لے گئی لیکن بے اختیار صدر آج بھی طاقتور صدر ہے اور حکومتی معاملات ان کی منشا و مرضی کے مطابق چل رہے ہیں۔ دوسری حقیقت یہ بھی ہے آصف علی زرداری نے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے بڑے عہدوں پر براجمان گورووں کا سنہری اصول بھی اپنا رکھا ہے کہ ماتحتوں میں نالائقوں اور کم عقلوں کو جمع کیا جائے۔ کم از کم ایسے شخص کو قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جائے جو اپنی اہلیت اور محنت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہو۔ جناب صدر صاحب نے بھی اپنے گرد ایسے ہی لوگوں کا مجمع لگا رکھا ہے۔ جن کی اہلیت و قابلیت سے کوئی خطرہ تھا ان کو کھڈے لائن لگا دیا جن سے مٹی کے مادھو بنے رہنے کی توقع تھی ان کو قوم کے سر پر سوار کر دیا اور خود ان کے سر پر سوار ہو گئے۔ 
اپنی دانست میں صدر محترم نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ ایک پُرعزم شخصیت ہیں ”لائی لگ“ نہیں۔ لائی لگ ہوتے تو سیلاب میں چیختے اور بلکتے بچوں اور خواتین کی پکار پر فرانسس اور برطانیہ کا دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس چلے آتے لیکن انہوں نے جو پروگرام ترتیب دیے ان کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیا۔ ان کے بعد ملک میں سیلاب زدگان کی مدد کے لئے فوج اور صوبائی حکومتیں اپنے طور پر جو بھی بن پڑا کرتی رہیں۔ مرکزی حکومت اپنے لیڈر کی عدم موجودگی کی وجہ سے بے مہار سے زیادہ لاوارث تھی اس لئے وزیراعظم سمیت کوئی وزیر مشیر ٹھنڈے کمرے چھوڑ کر باہر نہ آیا وزیراعظم صاحب کی یہ حالت ہے کہ رات کو بطورِ وزیراعظم پھونکیں مار کر سوتے ہیں صبح جاگتے ہیں تو سر جھٹک کر یقین کرتے ہیں کہ کیا میں اب بھی وزیراعظم ہوں۔ انہوں نے صدر کی عدم موجودگی میں سیلاب زدگان کی مدد کا ایک ہی ڈرامہ کیا اور میانوالی میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ان کے ساتھ ڈرامہ کر دیا ۔۔۔ حساب برابر۔ اس کے بعد ان کو سیلاب زدہ علاقوں میں جانے کی توفیق ہوئی نہ کوئی مرکزی وزیر مشیر ”علاقہ غیر“ میں گیا۔ البتہ جب یہ کہا گیا کہ صدر کو اس مصیبت کی گھڑی میں اپنی قوم کے درمیان موجود ہونا چاہیے تو فرمایا ”وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے ۔۔۔ میں ہوں ناں“ ۔۔۔ شہباز شریف نے کہا سیلاب زدگان کی مدد کے لئے 125 ارب چاہئیں۔ گیلانی صاحب نے کہا میں ہوں ناں، غور کریں گے۔ لوگ مر رہے ہیں وزیراعظم صاحب غور کر رہے ہیں، جہاں جہاں صدر کی کمی محسوس ہوئی مخدوم نے کہا میں ہوں ناں۔ برمنگھم میں ہوتے تو شاید حاجی شمیم کے ایکشن پر سامنے آ کر کہہ دیتے میں ہوں ناں! بس ایسے ہی کاموں کے لئے زرداری صاحب نے کئی مخدوم اور خادم پال رکھے ہیں۔ 
کچھ مہربان شہباز شریف کی امدادی کارروائیوں کو ڈرامہ قرار دیتے تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ زرداری صاحب گھر لوٹے ہیں تو خود سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیں، بختاور کروڑوں کا سامان متاثرین میں تقسیم کر چکی ہیں گیلانی صاحب کے جیسے انگاروں پر پاوں آ گئے ہیں، وزیروں مشیروں کی دُم کو آگ لگ گئی ہے آج سب کے سب متاثرین کے درمیان ان کی امداد پر کمربستہ ہیں۔ صدر ملک میں ہوتے تو پہلے دن سے امدادی کارروائیاں پوری تندہی سے شروع ہو جاتیں جو تقریباً تباہی و بربادی کے دس بارہ دن بعد شروع ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیلاب زدگان ریلیف سے مطمئن نہیں خصوصی طور پر سرکاری اداروں کی کارکردگی سے۔ جماعت الدعوة، جماعت اسلامی جیسی تنظیمیں اپنے مکمل نیٹ ورکس کے ساتھ دن رات ایک کئے ہوئے ہیں لیکن آفت اور مصیبت اتنی بڑی ہے کہ متاثرین کی امداد کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ متاثرین کیا عام آدمی بھی سوال کرتا ہے کہ گو عالمی برادری نے مصیبت کے مقابلے میں بہت کم مدد کی ہے لیکن یہ بھی کروڑوں ڈالر میں ہے۔ یہ رقم کہاں جا رہی ہے؟ کیا زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے دیے گئے برطانیہ کے 30 کروڑ پاونڈ کی طرح یہ اربوں روپے بھی اِدھر اُدھر ہو جائیں گے؟ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے پاک فوج کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ آج سب سے زیادہ فوج ہی سرگرم ہے جس نے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے ریلیف فنڈ قائم کر دیا ہے جس کی مناسب تشہیر نہ ہونے سے عوام اس سے لا علم ہیں۔ یقیناً اتنے بڑے بحران سے نبرد آزما ہونے کا پاک فوج ہی یارا رکھتی ہے جس پر قوم کو اعتماد بھی ہے۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا خبط


فضل حسین اعوان ـ 17 اگست ، 2010

 یہودی اسرائیل کے ہوں، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا یا دوسرے ممالک اور خطے کے۔ ان کی سوچ ایک۔ ان کے مفادات یکساں۔ ان کے دوست مشترکہ اور دشمن بھی۔ یہ سود خور قوم پوری دنیا میں اپنا سکہ جمانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں یہودی ملٹی نیشنل کمپنیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ گو ان کمپنیوں میں یہودی کام نہیں کرتے۔ یہ کمپنیاں مقامی لوگ چلاتے ہیں لیکن ان کی آمدن کا ایک مخصوص حصہ مسلمانوں سے برسرپیکار اسرائیل کو جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے جہاں پاکستان میں یہودیوں کی کمپنیوں کا براہِ راست عمل دخل بڑھ رہا ہے وہیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا خبط بھی پایا جاتا ہے۔
چند روز قبل قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سنیٹر طلحہ محمود نے انکشاف کیا تھا کہ پی ایس او نے ملک بھر کے پٹرول پمپس کی مانیٹرنگ کے ٹھیکے دو اسرائیلی کمپنیوں کو دئیے ہیں۔ ان کمپنیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی RAW اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے لوگ بھی موجود ہیں۔ دونوں بدنام زمانہ خفیہ ایجنسیوں کے پاکستان کے خلاف عزائم کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان پر شوکت عزیز جیسے دشمن کے ایجنٹ بھی حکمرانی کرتے رہے۔ پاکستان آنے سے قبل شوکت عزیز دنیا میں سٹیل مافیا کے سرغنہ بھارتی نژاد متل کے ملازم تھے۔ پاکستان سے حکمرانی کے بعد واپس گھر گئے تو پھر سے اس کی ملازمت اختیار کر لی۔ اسی بنا پر کھربوں مالیت کی سٹیل مل متل کے ہاتھوں صرف 21 ارب روپے میں بیچنے پر تیار ہو گئے تھے۔ شوکت عزیز کے ہی دور میں بلوچستان میں سونے کی کانوں کا ٹھیکہ بھی یہودی کمپنی کو دیا گیا۔
ریکوڈیک پاکستان میں ایران اور افغانستان کے سنگم پر واقع ضلع چاغی کا ایک ریگستانی قصبہ ہے۔ اس علاقے میں دنیا کے سونے اور تانبے کے سب سے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کی دنیا میں سونے اور تانبے سے متعلق معلومات رکھنے والے اداروں کے ہاں بڑی اہمیت ہے لیکن پاکستانیوں کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ رپورٹس کے مطابق سونے اور تانبے کے یہ ذخائر 65 ارب ڈالر مالیت کے ہیں جو آسٹریلوی کمپنی کے پاس 21 ارب ڈالر میں بیچ دئیے گئے۔ اس کمپنی کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ یہ یہودیوں کی ملکیت ہے۔ سونے اور تانبے کے یہ ذخائر ایران کے سرچشمہ اور چلی کے اسنڈیڈا سے بھی کئی گنا بڑے ہیں۔ ریکوڈیک سے سونا نکالنے کا ٹھیکہ ٹیتھیان کمپنی نے لیا تھا۔ اس نے آگے چل کر دو مزید کمپنیوں کو بھی شراکت دار بنا لیا جن میں کینیڈا سے تعلق رکھنے والی یہودی کمپنی بیرک گولڈ بھی ہے۔ اس کے سونے کی کانوں سے مفادات تو وابستہ ہیں ہی اس کے مالک جارج وال کینس نے اپنی یہودی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ پراپیگنڈہ بھی شروع کر دیا کہ بلوچستان القاعدہ اور طالبان کا گڑھ ہے۔ جس کے بعد امریکہ نے بلوچستان میں بھی ڈرون حملے کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی اور یہ پلاننگ ابھی تک ہو رہی ہے۔ اگر بلوچستان میں طالبان اور القاعدہ ہوتی تو نہ آسٹریلوی کمپنی ٹیتھیان کے پاﺅں یہاں جمتے نہ کینیڈین بیرک گولڈ موجود ہوتی اور نہ ہی چلی کی انٹو فیگسٹا اپنا کام جاری رکھ سکتی۔ یہودی کمپنیوں کو قیمتی معدنیات کے اونے پونے داموں ٹھیکے دینا یقیناً شرمناک ہے۔
اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے لئے حکومت پاکستان نے تل ابیب میں کیمپ آفس قائم کر دیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا خبط صرف موجودہ حکمرانوں کو ہی نہیں سابقون کو بھی تھا۔ 2005ءمیں وزیر خارجہ قصوری نے ترکی میں اسرائیلی وزیر خارجہ سلمان شیلوم اور جنوری 2008ءکو مشرف نے پیرس میں وزیر دفاع ایہود بارک سے ملاقات کی تھی۔ مشرف کو دو چار سال مزید جبری حکمرانی کا موقع مل جاتا تو شاید اسرائیل کو تسلیم بھی کر لیتے۔ البتہ دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے تل ابیب میں کیمپ آفس قائم کرنے کی تردید کی ہے۔ اس تردید پر سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کی فیملی میگزین سے گفتگو کا اقتباس سامنے رکھنا چاہئے۔ وہ فرماتے ہیں ”میرا خیال ہے کہ میں نے 40 سال بطور سفارتکار جھوٹ بولا ہے۔ وہ جھوٹ جو میں نے بولا تقریباً سب سفارتکار بولتے ہیں۔ یہ میں نے ذاتی نہیں ملکی مفاد میں بولا۔“ عبدالباسط صاحب بھی سفارتکار ہیں انہوں نے بھی شاید یہ جھوٹ ملکی مفاد میں بولا ہو۔
اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے خبط میں مبتلا حکمرانوں کو قائداعظم کا فرمان یاد رکھنا چاہئے۔ قائداعظم نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا۔ اگر قوم نے قیادت کے لئے ایسے لوگوں کو چن لیا ہے تو ان کو حق نہیں پہنچتا کہ قائد کے فرمان سے روگردانی کریں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ترکی کا ریفرنس نہ دیں۔ موجودہ ترکی کا بس چلے تو وہ بھی تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے لے۔ ترکی کے فلوٹیلا کا جو حشر اسرائیل نے کیا تھا موجودہ اسلام پسند ترکی اسے فراموش نہیں کر سکتا۔ فلسطینیوں پر جو بیت رہی ہے اس کو پیش نظر رکھیں۔ اسرائیل تو فلسطینیوں کو سانس تک لینے کی آزادی دینے پر تیار نہیں۔ ہمارے ”بانکے“ چلے ہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے۔

حکومتی ریلیف فنڈ؟


فضل حسین اعوان ـ 16 اگست ، 2010

 نیدر لینڈ کو پھولوں کا ملک بھی کہا جاتا ہے۔ پھول اس کی معیشت میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہاں پھولوں کی کاشت سائنسی طریقے سے کی جاتی ہے۔ شام کو بیج بویا جاتا ہے۔ صبح تک پودا تیار ہو کر پھولوں سے لدا ہوتا ہے۔ ایمسٹرڈیم ہالینڈ کا دارالحکومت ہے۔ خوبصورتی کے حوالے سے اسے یورپ کی جنت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس وقت ایمسٹرڈیم میں 150ممالک کے باشندے آباد ہیں۔ یہ شہر عین سمندر کے کنارے واقع ہے۔ نیڈر لینڈ کو ہالینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک تہائی رقبہ سطح سمندر سے نیچے سے کئی مقامات پر سطح سمندر خشکی سے 8میٹر تک بلند ہے۔ سمندر کی لہروں نے ہالینڈ کو کئی بار ڈبویا۔ ایمسٹرڈیم 2ویں صدی عیسویں تک محض مچھیروں کی بستی تھی۔ یہ شاید آج بھی مچھیروں کا مسکن ہوتا مگر ڈچ قوم نے بڑی جدوجہد کی۔ اس کے راستے میں بند باندھے گئے جو ہمارے بندوں کی طرح کئی بار پانی کی لہروں میں بہہ گئے۔ بالآخر ڈچ قوم ایسے فولادی اور دیوقامت بند بنانے میں کامیاب ہو گئی جن سے سمندر کی بپھری ہوئی لہریں سر ٹکرا کر سمندر میں واپس چلی جاتی ہیں۔ نیدر لینڈ میں آج سیلاب کا کوئی خطرہ نہیں۔ آج سمندر ان عجوبہ بندوں کے سامنے اس قدر بے بس ہے کہ سمندر کا ایک بڑا حصہ ڈچ قوم نے خشکی میں تبدیل کر کے آبادی میں شامل کر لیا ہے۔ یہ کل رقبے کا پانچواں حصہ ہے۔ 
پاکستان میں بندوں کی حالت ملاحظہ فرمائیے۔ معمولی سیلاب بھی ان کو بہا کر لے جاتا ہے۔ یہ ریت سے بنائے جاتے ہیں۔ یا مٹی سے۔ طوفانوں اور سیلابوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بند بنانے والے ٹھیکیداروں اور سول انجینئروں کے خاندان بھی آج سیلاب زدگان میں شامل ہوں لیکن حرام خوری کی لت نہیں چھوٹتی۔ اب شاید عقل آ جائے۔ بندوں کے ساتھ پل اورسڑکیں سیلاب کیا ایک زوردار بارش کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ پاکستان میں وقفے وقفے سے سمندر میں طوفان اٹھتا۔ اور سیلاب آتے ہیں۔ حکومت کوئی بھی ہو کسی مستقل پیش بندی کی کوشش نہیں کی گئی۔ لوگ مصیبت سر پر آن پہنچے تب بھی کوئی تدبیر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسا بھی نہیں ہوتا۔ خیبر پی کے والوں نے سوات کو ڈوبتے دیکھا۔ پنجاب نے خیبر پی کے کو ڈوبتے دیکھا۔ سندھ نے پنجاب کو ڈوبتے دیکھا۔ لیکن صوبائی حکومتوں نے اپنے لوگوں کو بچانے کے اقدامات نہ کئے۔ اب بحالی کے لئے خلوص نیت سے کام کرنے کی بجائے ڈرامے بازی زیادہ ہو رہی ہے۔ 
اب فوری مسئلہ طوفانوں اور سیلابوں کی پیش بندی کا نہیں۔ سیلاب متاثرین کی فوری مدد اور بحالی کا ہے۔ پاکستان میں جب بھی کوئی آفت آئی یا دشمن نے للکارا تو پوری قوم نے متحد ہو کر مقابلہ کیا۔ اب عام پاکستانی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ متاثرین تک رسائی ہے۔ جو سڑکیں ٹوٹنے اور لوگوں کے بدستور پانی میں گھرے ہونے کی وجہ سے مدد کرنے والوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ متاثرین کی مدد فوج کر رہی ہے یا حکومت۔ فوج اپنی مدد آپ کے تحت سب کچھ کر رہی ہے۔ حکومت نے ریلیف فنڈ قائم کیا ہے جس میں نہ صرف پاکستانی حکومت کی وجہ شہرت سے فنڈ جمع نہیں کرا رہے بلکہ عالمی برادری بھی اس طرح مدد کو نہیں آ رہی جس طرح اسے آنا چاہئے وہ بھی حکمرانوں پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں۔ برملا کہتے ہیں کہ ہمارے پیسے چوری ہو جائیں گے۔ ہمارے سول اداروں اور سیاستدانوں میں صرف 2فیصد ایماندار ۔ حکومت نے ریلیف فنڈ قائم کر کے اپنی ساکھ آزما لی۔ کچھ ان کا کردار مشکوک اور کچھ سابق حکمرانوں نے زلزلہ زدگان کی امداد مقیم کر کے لوگوں کے اعتماد کوٹھیس پہنچائی۔ قوم کو فوج پر اعتبار ہے۔ پاکستانی فوج پر، امریکی فوج پر نہیں جو سیلاب زدگان کی مدد کے لئے پہنچ رہی ہے۔ پاکستان حکومت امریکی فوج کی مدد سے معذرت کر لے۔ پاک فوج کو مستعدی سے کام کرنے دے۔ اگر جلد بحالی درکار ہے تو فوج کو ریلیف فنڈ قائم کرنے کی اجازت دے لوگ آج بھی اس میں دفاعی فنڈ کی طرح حصہ لیں گے۔

HOPE- HELP


فضل حسین اعوان ـ 15 اگست ، 2010

 شوکت خانم میموریل ہسپتال جیسے اربوں روپے بجٹ کے ادارے لوگوں کی زکوٰة اور صدقات پر چل رہے ہیں۔ ان اداروں کے اخراجات میں ہر سال پچھلے سال کی نسبت کم از کم بھی 50 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ عمران خان بیک وقت سیاستدان اور سماجی رہنما ہیں۔ ان کی سیاست میں کسی کو کامیابی کا یقین ہو نہ ہوان کی دیانت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ البتہ ان کے سیاستدان ہونے کی بات کی جائے تو وہ پاکستانی روایتی سیاستدانوں سے منفرد ہیں۔ ہمارے سیاستدان قومی دولت ملک سے باہر لے جاتے ہیں۔ عمران خان باہر سے کما کہ پاکستان لائے۔ بہرحال عمران خان سیاست اور سماجی کاموں کو متوازی چلائے جا رہے ہیں۔ ان کے سماجی کام مضبوط اور مربوط‘ سیاست ڈانوا ڈول ہے۔ پاکستانی بھی ان کی سیاست اور سماجی خدمات کو الگ الگ سمجھتے اور اسی کے مطابق اہمیت دیتے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کی شاخیں آج پورے ملک میں پھیل چکی ہیں۔ اس سال ان کو خسارہ پورا کرنے کیلئے ایک ارب کی ضرورت ہے جبکہ 2 ارب روپے ہسپتال اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی 56 لیبارٹریز کی آمدن سے اکٹھے ہوں گے۔ گذشتہ شب شوکت خانم ہسپتال لاہور میں فنڈ ریزنگ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جس میں لوگوں نے دس کروڑ روپے کے عطیات جمع کرائے۔ اس تقریب میں بتایا گیا کہ ہسپتال میں 65 فیصد مریضوں کا علاج بالکل مفت 15 فیصد کا رعایتی اور صرف 20 فیصد سے پورے اخراجات وصول کئے جاتے ہیں۔ وہ کراچی میں بھی ہسپتال بنانا چاہتے ہیں لیکن وہاں شہر میں جگہ کا مسئلہ درپیش ہے۔ کراچی میں الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کا ہولڈ ہے۔ عمران خان اور متحدہ کا اٹ کھڑکا رہتا ہے۔ تاہم دونوں انسانوں اور نسانیت کےلئے اگر وہ جگہ کا اہتمام کر دے تو اس سے بڑی انسانیت کی خدمت کیا ہو گی۔ یقین رکھنا چاہئے کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اس حوالے سے اپنے قائد الطاف حسین سے مشورہ ضرور کرے گی اور جواب ہاں میں ہو گا۔
کینسر بڑا موذی مرض ہے۔ خدا اس مرض کو دنیا سے اٹھا لے عمران کے ہسپتال ڈائیگناسٹک اور ٹریٹ منٹ سنٹر ویران ہو جائیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ پھر عمران خان ان کو تعلیمی اداروں میں بدل دے گا۔ لیکن ان کے ہسپتال تو ہر سال پہلے سے بھی زیادہ آباد ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہسپتالوں میں توسیع اور ڈائیگناسٹک سنٹروں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے لامحالہ اخراجات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ جو پورے کرنے کیلئے مخیر حضرات کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ مخیر حضرات کوئی اور نہیں صرف پاکستانی ہیں۔
دولت کا کوئی بھروسا نہیں۔ سیلاب زدگان کو دیکھئے ارب پتی راتوں رات کنگال اور بے حال ہو گئے۔ ان میں سے لاکھوں صاحب حیثیت و صاحب استطاعت تھے شاید شوکت خانم ہسپتال جیسے اداروں کو لاکھوں روپے عطیات بھی دیتے ہوں آج خود زکوٰة کے مستحق ہیں۔ یہ وقت کسی پر بھی آسکتا ہے مجھ پر‘ آپ پر لاکھ پتیوں پر اربوں کھربوں کی جائیداد والوں پر آج کے وزیروں مشیروں گورنروں وزرائے اعلیٰ صدر اور وزیراعظم پر بھی۔ یہی سوچ کر اپنی دولت کا کچھ حصہ غریبوں کے علاج‘ ناداروں کی خوراک‘ بے بس والدین کی اولاد کی تعلیم اور سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے عطیہ کیجئے۔ شاید آپ کی امداد سے کسی کے جگر گوشے کی زندگی بچ جائے کسی غریب کی بیٹی کے ہاتھ پیلے ہو جائیں۔ کسی متاثرہ کے مکان دیواریں کھڑی ہو جائیں اور اس کے معصوم بچوں کو چھت کا سایہ میسر آجائے۔ 
آج ہم سیلاب کی صورت میں ایک بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں عمران خان نے متاثرین کی بحالی کیلئے وسیع پیمانے پر اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ پہلے جائزہ لیں گے پھر اپنے کارکنوں کو لے سیلاب زدہ علاقوں میں پھیل جائیں گے۔ ہم جس حیثیت میں بھی ہیں اپنے حصے کی شمع ضرور روشن کرنا چاہئے۔ اگر ہم متحد ہو کر متاثرین کا ہاتھ تھام لیں۔ انصار مدینہ اور تحریک پاکستان والا جذبہ پیدا کر لیں تو سیلاب کا پانی خشک ہونے سے پہلے متاثرین کی بحالی شروع اور پانی خشک ہونے کے ساتھ مکمل ہو سکتی ہے۔ ہم اپنے بھائیوں کو ان کی خوشیاں اس عید پر لوٹا سکتے ہیں۔

یوم آزادی سیلاب اور ہماری ذمہ داری

پاکستان میں اسرائیلی کمپنیوں کو ٹھیکے


فضل حسین اعوان ـ 13 اگست ، 2010

 جنرل ٹکا خان ایک پیشہ ور اور محنتی فوجی تھے۔ محنت کے بل بوتے پر وہ سپاہی سے فوج کے سب سے بڑے عہدے تک پہنچے۔ خدا نے ان کو شیر کا جگر دیا تھا۔ وہ 1965 میں میجر جنرل تھے ۔انہوں نے بھارتی ٹینکوں کی یلغار کو دیکھتے ہوئے اپنے سپاہیوں سے جذباتی خطاب کیا اور اپنے جسم کےساتھ دو بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کو تباہ کرنے کےلئے چلنے لگے تو کئی جوان اور افسر ان کو روک کر کھڑے ہوگئے اور اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کے دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ جس سے دشمن کے ٹینکوں کا صفایا ہوا اور اس کا پاکستان کو تباہ کرنے اور وسیع علاقے پر قبضے کا خواب چکنا چُور ہو گیا۔ محاذ پر ایک دن ٹکا خان نے دیکھا کہ ایک OP اپنی ہی پوزیشنوں پر توپ خانے سے فائرنگ کرا رہا تھا۔ اسے فوری طور پر بلوایا گیا۔ تھوڑے سے لیت و لعل کے بعدOP نے تسلیم کر لیا کہ وہ دشمن کے ہاتھوں بکا ہوا تھا۔ جنگ کے دوران کیا ایسی حرکت قابلِ قبول ہو سکتی ہے؟۔ ٹکا خان نے اس کے اوپر ٹینک چڑھانے کا حکم دیدیا۔ اس حکم پر فوری طور پرعمل درآمد بھی کر دیا گیا۔
قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے انکشاف کیا ہے کہ پی ایس او نے 2008ءمیں پاک ترک نامی کمپنی کو ملک بھر کے پٹرول پمپس کی مانیٹرنگ کیلئے مواصلاتی نظام نصب کرنے کا ٹھیکہ دیا اس کمپنی کے سو فیصد شیئرز دو اسرائیلی کمپنیوں ”اورپاک اور ایلسن“ کے پاس ہیں‘ ان کمپنیوں کے انجینئر پاکستان آتے ہیں ان میں”موساد “ اور”را “کے ایجنٹ ہیں‘ ان کمپنیوں میں کام کرنے والے بھارتی ڈائریکٹر کا نام معدد لعل جبکہ اسرائیلی فوج کے حاضر سروس میجر جنرل کا نام ڈیم مالز ہے۔ ان کمپنیوں کے ایجنٹوں نے پاکستان کے تمام دفاعی اور حساس مقامات کے قریب مواصلاتی نظام نصب کر رکھا ہے جس میں جی ایچ کیو اور ریڈ زون کا علاقہ شامل ہے۔ سینیٹرطلحہ محمود نے یہ انکشاف اپنی صدارت میں ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا۔ کمیٹی نے اسرائیلی کمپنی کو ٹھیکہ دینے کی فوری تحقیقات کیلئے وزارت پٹرولیم کو ہدایت جاری کر کے پندرہ روز کے اندر رپورٹ طلب کی۔ اجلاس میں وزیر داخلہ‘ سیکرٹری داخلہ‘ سیکرٹری پٹرولیم‘ چیئرمین سی ڈی اے‘ پی ایس او کے نمائندوں‘ نیب حکام اور ایف آئی اے کے افسروں نے شرکت کی۔کمیٹی نے پی ایس او حکام اور وزارت پٹرولیم سے جب اس ٹھیکے کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ سابقہ انتظامیہ نے کیا۔ تاہم مینجنگ ڈائریکٹر نے اجلاس میں یہ بات تسلیم کی کہ پاک ترک کے پیچھے اسرائیلی کمپنیاں ہیں اور کہا کہ ہمیں وقت دیا جائے تاکہ ہم مکمل تحقیقات کر کے حقائق سامنے لائیں۔ کمیٹی نے وزارت پٹرولیم کو ہدایت کی کہ وزارت داخلہ کے تعاون سے اس پراجیکٹ کی تحقیقات کرا کے پندرہ دن کے اندر کمیٹی کو رپورٹ دی جائے تاکہ اس پر مزید کارروائی کرتے ہوئے ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے والے افسروں کو قرار واقعی سزا دلانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
دنیا میں پاکستان کے سب سے بڑے دشمن بھارت اور اسرائیل ہیں۔ پاکستان قائدِاعظم نے انگریزوں کے ہاتھوں اس وقت چھینا جب وہ برصغیر کے مسلمانوں کی تقدیر کا مالک ہندوﺅں کو بنانا چاہتے تھے۔ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے اسرائیل کے لئے پاکستان کا وجود ناقابلِ برداشت ہے۔ دونوں ممالک نے اپنی پاکستان دشمنی کبھی اخفاءمیں نہیں رکھی۔ ایسے میں کیا کسی بھارتی یا یہودی کا پاکستان میں موجود ہونا خطرے سے خالی ہو سکتا ہے اور پھر موساد اور ”را“ کے غنڈوں کی موجودگی کیسے برداشت کی جا سکتی ہے؟اسرائیلی کمپنیوں کی پاکستان میں سرگرمیوں کا انکشاف ایک انتہائی ذمہ دار شخص نے کیا ہے۔کمیٹی کی طرف سے وزارت پٹرولیم کو وزارت داخلہ کے تعاون سے اس پراجیکٹ کی تحقیقات کرا کے پندرہ دن کے اندر کمیٹی کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدا یت محبِ وطن حلقوں کے لئے ایک بجھارت اور معمے سے کم نہیں ۔ ضرورت تو فوری طور پر نوٹس لینے کی ہے۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوگئی ۔ یہاں وزیرِ داخلہ رحمان ملک کا عمل دخل ہو وہاں سے خیر کی خبر کیسے آ سکتی۔ یہاں تو ملک صاحب بنفسِ نفیس موجود تھے۔ انہوں وہی کیا اور کہا جس کی وہ شہرت رکھتے ہیں۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ”سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث تمام افسر اس وقت متاثرہ علاقوں کی صورتحال مانیٹر کرنے اور وہاں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں لہٰذا آئندہ ایک ماہ تک کمیٹی کا کوئی اجلاس نہ طلب کیا جائے۔ اس وقت ملک حالت جنگ میں ہے۔“ ارضِ پاک پر دشمن کا قدم ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔15دن اور ایک ماہ تو معاملے کی سنگین نوعیت کے پیشِ نظر ایک لمبا عرصہ ہے ۔ ملک صاحب نے خود قرار دیا ہے کہ ملک حالتِ جنگ میں ہے تو پھر فیصلے بھی جنگی نوعیت کے ہونے چاہیئں۔ ان کمپنیوں کو فوری طور پر چلتا کر دینا چاہیے اور ٹکا خان کے فیصلے کی طرز پر ملک و قوم سے غداری کرنیوالوں کو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر انجام تک پہنچا دینا چاہیے۔

پھر یہ جاوید کون ہے؟


فضل حسین اعوان ـ 12 اگست ، 2010

 یہ دسمبر 1999ءکی ایک سرد شام تھی۔ کسی کی زندگی کی شام کسی کیلئے شب ظلمات کا آغاز لیکن یہ شام مسجد میں داخل ہونے والے بے چین اور پریشان حال اجنبی کیلئے نوید سحر تھی۔ ملتان روڈ پر مانگا منڈی اور پھول نگر کے درمیان چھوٹی سی بستی چاہ کلالاں والا مین روڈ پر واقع ہے۔ مغرب کی نماز سے فارغ ہوئے تو اجنبی کئی بار مسجد سے باہر گیا اور اندر آیا۔ نمازیوں نے اس کی بے چینی کو محسوس کیا۔ آج کے دہشت گردی کے حالات میں ایسا ہوا ہوتا تو اسے بلاتحقیق پولیس کے حوالے کر دیا جاتا۔ نمازیوں نے اسے احترام کے ساتھ اپنے درمیان بٹھا کر اس سے اس کی اضطراری کیفیت کے بارے میں پوچھا۔ امام مسجد بھی اس حلقے میں موجود تھا۔ اجنبی نے چند الفاظ میں اپنا مدعا بیان کیا ”میں بہت گناہ گار ہوں۔ میں بڑا ظالم ہوں۔ میرے گناہوں اور مظالم کا کوئی شمار نہیں۔ میں توبہ کرنا چاہتا ہوں۔ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ خدا مجھے معاف کر سکتا ہے“؟ یہ سن کر نمازیوں کی اس کے ساتھ ہمدردی اور اپنائیت سی ہو گئی۔ مولوی صاحب نے کہا ”مایوسی گناہ ہے اگر تم صدق دل سے توبہ کر رہے ہو خدا ہر چیز پر قادر ہے تمہارے جتنے بھی گناہ ہیں معاف کر سکتا ہے۔“ اس کے بعد اجنبی نے قرآن پاک اٹھایا اور ایک رکوع کی تلاوت کی۔ وہاں موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی قرآت کمال کی تھی۔ ایسی خوش الہانی سے تلاوت انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ مولوی صاحب نے اس کےلئے خیر کی دعا کرائی۔ مغرب سے عشاءتک یہ لوگ مسجد میں بیٹھے رہے۔ عشاءکے بعد اجنبی نے پوچھا کہ وہ رات مسجد میں ہی گزارنا چاہتا ہے۔ مسجد کی انتظامیہ نے بتایا کہ مسجد کے ساتھ ایک کمرہ موجود تھا جو گرا کر دوبارہ بنایا جا رہا ہے اس لئے یہاں شب بسری ممکن نہیں۔ تھوڑی دیر بعد اجنبی نے پوچھا آپ لوگ اپنے گھروں کو کیوں نہیں جاتے؟ بتایا گیا کہ ساتھ والے گاوں میں میلاد ہے گاڑی آرہی ہے ہم وہاں جائیں گے۔ اجنبی نے بھی ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ رات بسر ہو جائے۔ نمازیوں نے اجنبی کی خواہش پر خوش آمدید کہا۔ اس کے بعد یہ خدا کا بندہ اٹھا مسجد سے باہر گیا اور واپس نہ آیا۔ نمازی میلاد پر جانے کیلئے باہر نکلے تو سڑک پر ایک آدمی کو لیٹے ہوئے پایا۔ یہ وہی اجنبی تھا۔ ہلاجلا کر دیکھا تو روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ پولیس آئی جس نے موت کو حادثے کی وجہ قرار دیا عینی شاہدین کے مطابق اس کے جسم پر زخم یا چوٹ کا ایک بھی نشان نہیں تھا۔ اس چہرے پر مغرب کے بعد جو اضطراب اور پریشانی تھی اب اس پر ایک اطمینان تھا۔ اسے نہلا کر دفن کرنے کا اہتمام ہو رہا تھا کہ نہلانے والے نے بتایا کہ اس کے بازو پر ”جاوید“ کندہ ہے۔ علاقے میں اعلان کر دیا گیا۔ ساتھ والے گاوں سے کچھ لوگ آئے ان کا بیٹا نشئی قسم تھا وہ کئی کئی روز گھر سے غائب رہتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کا جاوید ہے۔ وہ میت گھر لے گئے تاہم اس کی بیوی نے کہا کہ یہ اس کا خاوند نہیں ہے۔ باقی سب گھر والے اسے اپنا جاوید قرار دیتے رہے اور دفنا دیا۔ اگلے دن قل ہو رہے تھے کہ نشئی جاوید بھی جھومتا ہوا گھر واپس آگیا اور اپنے قلوں میں شامل ہوا۔ یہ جہاں گھر والوں کےلئے ایک خوشی کا موقع تھا وہیں عام آدمی کیلئے سوالیہ نشان کہ قبر میں پڑا جاوید کون ہے؟ ان دنوں سو بچوں کے قاتل جاوید مغل کا معاملہ میڈیا میں چل رہا تھا۔ اس نے ابھی گرفتاری نہیں دی تھی۔ پولیس سے پوچھا گیا کہ تصاویر دکھائے۔ پولیس کا موقف تھا کہ جب وارث مل گئے تو تصاویر لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم لاش لاوارث ہونے کی صورت میں تصویریں اتارتے ہیں۔ تین دن بعد قبر کشائی کی گئی۔ میت صحیح سلامت تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ خدا نے واقعی اسے معاف کر دیا ہے۔ جاوید اقبال مغل کے رشتہ داروں کو بلایا گیا۔ انہوں نے پہلی نظر دیکھتے ہی کہہ دیا کہ یہ ان کا جاوید نہیں ہے۔ پولیس نے تصویریں لیں اور اسے پھر سپرد خاک کر دیا۔اجنبی جاوید جس سرد شام کو مسجد میں داخل ہوا اندر سے گیلی لکڑی کی طرح سلگتا محسوس ہو رہا تھا۔ مرا تو چہرے پر طمانیت تھی۔ تین دن بعد قبر سے لاش نکالی گئی تو بقول عینی شاہدین چہرے پر اطمینان بدستور جھلک رہا تھا اور نعش بھی بالکل سلامت تھی۔ وہ لاوارث تھا‘ خدائی قدرت کہ ایک خاندان کی وراثت میں وہ سپرد خاک ہوا۔ خدا اپنے بندوں کو معاف کرنے پر قادر ہے لیکن بندے ذاتی مفادات کی خاطر دوسرے بے قصور بندوں کو راندہ درگاہ قرار دلانے میں کوئی جھجک‘ شرم اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ خدا کی پکڑ سخت اور یقینی ہے۔ تاہم توبہ کے دروازے کبھی بند نہیں ہوئے۔
جاوید کے حوالے سے آج بھی بہت بڑا سوال سامنے ہے کہ پھولنگر کا جاوید گھر واپس آگیا۔ سو بچوں کا قاتل جاوید اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ پھر چاہ کلالاں والا کی مسجد میں گناہ قبول کرنے اور آج قبر میں پڑا جاوید کون ہے۔ آج کے کالم کا مقصد یہی ہے کہ یہ جاوید جس کے بازو پر اس کا نام کندہ ہے کون ہے؟ اور جن کا ہے وہ چاہ کلالاں والہ کی مسجد میں امام صاحب سے مل لیں۔

!پائلٹ کا کارنامہ


فضل حسین اعوان ـ 11 اگست ، 2010

 پائلٹ کی تربیت کے دوران ایک مرحلے پر کاک پٹ پوری طرح ڈھانپ دی جاتی ہے پائلٹ کو صرف آلات اور ائیر ٹریفک کنٹرورل کی مدد سے ٹیک آف آنا، مشن مکمل کرنا اور لینڈ کرنا ہوتا ہے۔پائلٹ سینئر ہویا جونیئر، جہاز میںدوچار مسافر ہوں یا تین چار سو، مسافر جہاز میں بیل آﺅٹ سسٹم نہیں ہوتا۔ پائلٹ جتنا بھی پُراعتماد ہو، وہ موٹر سائیکل نہیں چلا رہا ہوتا کہ لا پروائی کا مظاہرہ کرے۔ جہاز میں سوار ہر مسافر کی بقا پائلٹ کی بقاءسے وابستہ ہوتی ہے۔ فضا میں پائلٹ کیلئے غلطی اور غفلت کا کوئی چانس نہیں ہوتا۔انسان بقائمی ہوش و حواس اور بلا وجہ اپنی جان نہیں لے سکتا۔ یوں اس مفروضے پر بحث فضول ہے کہ 28جولائی 2010ءکو ائیر کا جہاز اسلام آباد کے قریب اور 19فروری 2003 کو ائیر فورس کے سربراہ ائیر چیف مارشل مصحف علی میر اور ساتھیوں کو کوہاٹ لے کر جانے والا فوکر موسم کی خرابی کے باعث پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہوئے۔ دونوں جہازوں کے پائلٹ تجربہ کار تھے۔ جہاز حوالے ہی تجربہ کار پائلٹ کے کیاجاتا ہے۔
ہمارے ہاں بڑے سے بڑے سانحہ کی تحقیقات کیلئے کمیٹیاں بنتی ہیں تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں۔عموماًنتیجہ صفر نکلتا ہے۔خصوصی طورپر فضائی حادثات کے حوالے سے تحقیقات کے تلخ تجربات سامنے آئے ہیں۔ مصحف علی میر کے جہاز کی تباہی کی اگر کوئی تحقیقات ہوئی ہیں تو میڈیا اس سے مکمل طورپر آگاہ نہیں۔ ایک مختصر سی خبر ضرور شائع ہوئی کہ حادثہ پائلٹ کی غلطی کے پاعث پیش آیا۔ پاکستان کے صدر اور آرمی چیف جنرل ضیاءالحق کا جہاز تباہ ہوا اس میں اہم فوجی افسر بھی سوار تھے امریکی سفیر بھی موجود تھے۔اس کے باوجود تحقیقات کا نتیجہ کبھی سامنے آیا نہ تخریب کاروں کی نشاندہی ہوسکی۔ فضائی حادثات کے بعد ہمارے اداروں کی تحقیقات میں دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ25اگست 1989ءکو پی آئی اے کا فوکر54مسافروں سمیت گلگت میں دوران پرواز غائب ہوگیا۔اسے زمین نگل گئی یا آسمان نے اُچک لیا۔ آج تک اس کا ملبہ مل سکا نہ مسافروں کا کوئی سراغ ۔ اب اسے متعلقہ اداروں کی بے حسی کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے جدید دور اور جدید آلات کے باوجود ابھی جہاز اور مسافر لا پتہ ہیں۔ اب جس طریقے سے ائیر بلیو کریش ہوا اور تحقیقات کی جارہی ہیں اس سانحہ کی وجوہات سامنے آنے کے احکامات معدوم ہیں۔ تحقیقاتی ٹیمیں سادہ اور آسان سوالات کا جواب دینے سے بھی گریزاں ہیں۔ حادثے کے فوری بعد وزیر داخلہ رحمن ملک نے بیان دیا کہ پائلٹ پرویز اقبال چودھری سمیت 5 مسافر زندہ بچے ہیں جن کو ہسپتال داخل کرادیا گیا ہے بعد ازاں تمام مسافروں کے جاں بحق ہونے کی اطلاع دی گئی۔عجب صورت حال ہے کہ آج حادثے کے 15روز بعد بھی پرویز اقبال چودھری کی نعش ان کے لواحقین کے حوالے نہیں کی گئی۔ جس سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ پائلٹ زندہ ہے اور شاید انویسٹی گیشن کیلئے ایجنسیوں کے پاس ہے۔ جہاز کا نوگو ایریا نو فلائنگ زون میں چلے جانا بھی بہت بڑا سوال ہے۔اس کا جواب سول ایوی ایشن والے اپنی نجی گفتگو میں تو دیتے ہیں سرکاری طورپر اس کی تردید کی جاتی ہے۔نو فلائنگ زون کا کیا مطلب ہے؟ یہ ڈیڑھ دومنٹ کی پرواز کا ایریا ہے۔ اگر جہاز اس میں داخل ہوجائے تو ظاہر ہے کہ وارننگ نہیں دی جاسکتی۔سارا سسٹم خود کار ہوگا۔ اگر جہاز نو فلائنگ زون میں داخل ہوا تو وہی کچھ ہونا تھا جو ہوا اور بہت ہی برا ہوا۔اس کا کسی کو الزام بھی نہیں دیا جاسکتا۔ بلیک باکس کو ملے بھی آدھا ماہ ہونے کو ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ اس کی آج کے کمپیوٹرائزڈ دور میں بھی ڈی کوڈنگ نہیں ہوسکی۔ آخر عوام سے سب کچھ کیوںچھپایا جارہا ہے۔تمام جزیات اور تفصیلات کومدِ نظر رکھا جائے تو8 اگست 2010 کو اقبال حسین لکھویرا کی نوائے وقت میں شائع ہونیوالی سٹوری درست ثابت ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ بلیک واٹر کے دو ارکان پائلٹ کو کہوٹہ پر جہاز گرانے پرمجبو ر کررہے تھے کہ پائلٹ نے انتہائی قدم اٹھالیا۔ انتہائی قدم اس صورت میں بھی کہ پائلٹ جہاز کو نو فلائی زون میںلے گیا یا پہاڑی سے ٹکرادیا۔ اگر ایسا ہوا ہے تو پائلٹ پرویز اقبا ل چودھری پاکستان کے سب سے بڑے اعزاز اور میڈل کے مستحق ہیں۔ اگر وہ جاں بحق ہوگئے تب بھی۔ اگر زندہ ہیں تو بھی۔ اگر زندہ ہیں تو حقیقت حال وہ خود بیان کردیں گے۔ جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں سول ایوی ایشن کے ذمہ داروں کے بیان کو ہی سچ سمجھا جانا چاہیے کہ پائلٹ کو بلیک واٹر کے ارکان نے یرغمال بنا لیا تھا اور پائلٹ نے جہاز کی تباہی کا کہوٹہ کو تباہی سے بچانے کیلئے اہتمام کیا تھا۔ماضی کے تجربات کے پیشِ نظر اس حادثے کی وجوہات تحقیقاتی کمیٹیوں کے ذریعے سامنے آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

دھند کے بادل


فضل حسین اعوان ـ 10 اگست ، 2010

 بڑے شہروں کی کھلی اور چار چار رویہ شاہراہوں پر یہاںچمکتی اور لشکتی بڑی بڑی لگژری گاڑیاں فراٹے بھرتی رواں دواں ہیں۔ وہیںپھٹیچر سائیکلوں پر گھسٹتے اور سائیکلوں کو گھسیٹتے انسان نما ڈھانچے بھی زندگی کی گاڑی کو دھکا لگا رہے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے پاس پرانی سائیکل خریدنے کی بھی سکت نہیں۔ یہاں پالتو جانوروں گھوڑے ، شیروں کتوں وغیرہ کے لئے اے سی، مربہ جات و میوہ جات اور انواع و اقسام کی خوراک وافر دستیاب ہے وہیں دو وقت کی روٹی کے محتاج انسان بھی اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے ہیں۔ شہر میں روشنیوں کا سیلاب اور رنگ و نور ‘ پھولوں سے لدے باغات اور پارکیں دن کو دھوپ میں چمکتی اور رات کو روشنیوں سے دمکتی شاہراہیں ‘ بڑے لوگوں کے ذہن کے لئے طراوت اور دل کی تسکین کا باعث تو ہو سکتے ہیں لیکن اس سے غریب کا پیٹ بھر سکتا ہے نہ اس کے بیمار بچوں کا علاج اور نہ ہی تعلیم کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ شہر سے بہت دور کسی گاﺅں‘ گوٹھ‘ کِلی یا بستی میں ننگے پاﺅں پھرنے والے تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم بچے نظر آئیں گے۔ غربت ‘ بے کسی ‘ بے بسی شہروں قصبوں دیہات اور چھوٹی بڑی بستیوں میں ہر کہیں موجود ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔ اس کے جواب کے لئے کسی عقلِ سقراط اور حکمتِ بقراط کی ضرورت نہیں۔ ہم ایک خوابیدہ قوم ہیں۔ ہمارے کرپٹ ادارے۔ نااہل حکمران ‘ جن کے مذموم مقاصد اور مفاداتی ارادے ہیں حکمرانوں اور سیاست دانوں میںملک و قوم کی خاطر سوچنے والے کم لوٹ مار کرنے والے زیادہ ہیں۔ ادارے چلانے والے لوگ ہم میں سے ہیں اور حکمرانوں کو بھی ہم ہی منتخب کرتے ہیں۔ ہم اٹھارہ کروڑ عوام اپنے مسائل کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ ہم خود اپنی نسلوں کے قاتل اور وطن کے دشمن ہیں۔ ہمارے ووٹوں سے اقتدار حاصل کرنے والے لوگ ملک و قوم کے اثاثوں پر ہاتھ صاف کر کے اپنے اثاثوں میں اضافہ در اضافہ کئے جا رہے ہیں۔کئی چند سال میں کھربوں روپے کی جائیداد کے مالک بن کر پاکستان کے امیر ترین لوگوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ اکثر نے نہ صرف پاکستان کے ہر بڑے شہر میں محلات کھڑے کر لئے بلکہ بیرونِ ممالک بھی عالی شان عمارتیں اور جائیدادیں خرید لی ہیں۔ بنکوں میں پڑی دولت کا کوئی شمار نہیں۔کسی پاکستانی کو شک ہے کہ یہ دولت کہاں سے آئی ؟۔ اکثر نے یہ کہا پاکستان کو لوٹ کر اکٹھی کی گئی ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس لیڈر کو ووٹ دو یہ آکسفورڈ کا پڑھا ہے ‘ یہ ہاورڈ کا تعلیم یافتہ ہے۔ جو اس وطن میں رہا ہی نہیں اسے اس ملک کے باسیوں کے مسائل کا کیا ادراک ہو سکتا ہے۔ ان کو کیا پتہ کہ ایک معمولی کسان اور مزدور اپنے بلاول ‘ حسین ‘ حمزہ ‘ مونس‘ مریم ‘ بختاور اور آصفہ کی پرورش کیسے کرتا ہے؟ پوہ ماگھ کی راتوں کو کھیتوں میں پانی کیسے لگایا جاتاہے؟ دنیا کی سب سے مشکل مزدوری اینٹوں کے بھٹے اور لوہے کی بھٹی کی ہے۔ اس کا کیا ان کو کبھی تجربہ ہوا؟ انگریزی بولنا اہلیت اور قابلیت کا معیار نہیں ، انسانیت کا ادراک اور احساس ہونا چاہئے جو بد قسمتی سے قائداعظم کی رحلت کے بعد کسی قیادت میں نظر نہیں آیا۔ قائداعظم اپنے لوگوں پر اللہ کی رحمت کا سایا تھے۔ پنڈی سے میجر نذیر فاروق نے درست کہا‘ آج کے سیاستدانوں کی اکثریت کا حال کاغذ کے پھولوں اور دھند کے بادلوں جیسا ہے۔کاغذ کے پھول جتنے بھی خوبصورت ہوں ان سے خوشبو نہیں آ سکتی، بارانِ رحمت ہمیشہ برساتی بادلوں سے ہی ہوتی ہے ۔ دھند کے بادلوں سے اندھیر اور اندھیرا ہو سکتا ہے ‘ حادثات ہو سکتے ہیں، آپ کے کپڑے اور ہاتھ منہ لتھڑ سکتے ہیں۔ ان میں غلاظت ہی غلاظت ہے۔ دھند کے بادل مینہ کے بادلوں کا متبادل نہیں ہو سکتے۔کونسا سیاست دان ہے جس کو قوم نے آزما کر نہیں دیکھا۔ اٹھارہ کروڑ پاکستانی مٹی کے مادھو نہیں‘ جیتے جاگتے انسان ہیں۔ ان کے 18کروڑ دماغ‘ 36کروڑ بازو‘36کروڑ آنکھیں ‘36کروڑ کان ہیں جو صرف 2 فیصد اشرافیہ کے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ بدامنی، مہنگائی، بےروزگاری، دہشتگردی ‘ بجلی گیس اور پانی کی کمی ،کونسا ستم ہے جو ان 2 فیصد نے عوام پر نہیںڈھایا پھر بھی 98 فیصد سب کچھ خاموشی سے سہہ رہے ہیں۔کوئی آواز نہیں، کوئی احتجاج نہیں، وجہ یہ کہ مظلوموں کے درمیان کوئی اتحاد نہیں بلکہ اکثر کو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا احساس تک نہیں۔ اکثر آواز اٹھتی ہے کہ عوام احتجاج نہیں کرتے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کے علاوہ دوسروں کو عوام سمجھتا ہے اور امید کرتا ہے کہ یہی عوام سڑکوں پر آئیں۔ ویسے سڑکوں پر آنے کی ضرورت بھی نہیں۔ عوام انتخابات کے دوران اپنا کردار ادا کریں۔کیا 18کروڑ میں سے ایک بھی قائد اعظم کا پیروکار نہیں مل سکتا؟ ہم لٹیروں اور کرپٹ لوگوں کو ہی اپنا راہبر و رہنما کیوں منتخب کرتے ہیں؟۔گزشتہ کئی دہائیوں سے کس لیڈر کے کارنامے ہمارے سامنے نہیں ہیں پھر بھی ان پر ہی ووٹ نچھاور کئے جاتے ہیں۔کیا ہم خود ہی اپنی تقدیر سنوارنے کی خواہش سے بیزار ہیں۔ اگر ہم خود اپنی تقدیر سنوارنے کی کوشش کریں گے تو خدا بھی ہماری مدد کرے گا۔ دوسری صورت میں ہمارے اوپر ظلم ہوتا رہے گا، ڈرون حملہ آور ہوتے رہیں گے، ملک کی دولت دوسرے ممالک میں ٹرانسفر ہوتی رہے گی، نئی نسلیں انپڑھ اور جاہل رہیں گی ۔ لاعلاج مرتی رہیں گی۔ یہ عام پاکستانی کے جاگنے کا وقت ہے غیرت کھانے اور دکھانے کا وقت ہے

دوسری جنگ عظیم ۔ اگر جاپان کے پاس بھی ایٹم بم ہوتا ۔۔

دوسری جنگ عظیم ۔ اگر جاپان کے پاس بھی ایٹم بم ہوتا ۔۔۔
فضل حسین اعوان ـ 9 اگست ، 2010

 جنگ عظیم دوم میں جاپان کے ساتھی ممالک جرمنی اور اٹلی مسلسل شکست سے دوچار ہو رہے تھے۔ مئی 1945ءمیں جرمنی اور اٹلی نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ جاپان ڈٹا رہا۔ 8 مئی 1945ءکو اتحادیوں نے اپنی فتح کا اعلان کر دیا۔ 26 جولائی 1945ءکو اتحادیوں نے پوسٹ ڈیم اعلامیہ جاری کیا جس میں جاپان کو ہتھیار ڈالنے کےلئے کہا گیا۔ جاپانی وزیراعظم کانتارو سوزوکی اور شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے ہر قیمت پر اپنے وطن کے دفاع کا عزم ظاہر کیا۔ جاپانی فوج کے جرنیل آخری دم تک لڑنے اور مرنے کےلئے اپنے وزیراعظم اور بادشاہ سے بھی زیادہ پَُرعزم تھے۔ گو اتحادیوں نے جاپان کی بحری ناکہ بندی کر لی تھی لیکن فوج کسی صورت بھی شکست تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی۔ امریکہ نے جاپان کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کےلئے 6 اگست 1945ءکو اڑھائی لاکھ سے زائد آبادی کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرا دیا جس سے انسانیت اور انسانوں کے پرخچے اڑ گئے۔ اس تباہی کے باوجود بھی جاپان ہتھیار پھینکنے پر تیار نہ ہوا۔ امریکہ نے ایک اور بم چلانے کی دھمکی دی جس کا جاپانی حکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ اعلیٰ فوجی حلقوں نے یقین ظاہر کیا کہ امریکہ کے پاس ایک ہی ایٹم بم تھا جو اس نے ہیروشیما پر گرا دیا ہے۔ جاپانی ماہرین کے یہ اندازے اس وقت غلط ثابت ہو گئے جب آج کے دن 9 اگست 1945ءکو میجر چارلس ڈبلیو سوینی نے بھی تینیان کے ہَوائی اڈے سے اڑان بھری اور 11 بج کر ایک منٹ پر ناگاساکی پر قیامت برپا کر دی۔ ہیروشیما میں 2 لاکھ اور ناگاساکی میں 70 ہزار انسان مارے گئے تھے۔ جاپانی فوج کا اس کے باوجود حوصلہ نہ ٹوٹا لیکن بادشاہ اپنے عوام کی مزید ہلاکتوں پر تیار نہیں تھا۔ جنرل انامی کورے چیکا جاپان کا وزیر جنگ تھا جس نے امریکہ کے سامنے سرینڈر کی بھرپور مخالفت کی۔ امریکہ نے جاپان کو ایک اور ایٹم بم چلانے کی دھمکی دے رکھی تھی، بادشاہ نے جرنیلوں کی جنگ جاری رکھنے کی تجویر سے اتفاق نہ کیا اور اپنے طور پر جنگ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ جنرل کورے چیکا کو اس کے ہم خیالوں نے جنگ کے خلاف ووٹ دینے یا مستعفی ہونے کا مشورہ دیا، اس سے انامی کورے چیکا نے اتفاق نہ کیا۔ اس نے اپنے کزن سے اس موقع پر کہا ”ایک جاپانی سپاہی ہونے کے ناطے شہنشاہ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے“ ۔۔۔ 14 اگست 1945ءکو انامی کورے چیکا نے کابینہ کے اجلاس میں سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ ایسا موقع جنرل نیازی پر بھی آیا لیکن جو کچھ اس کے بعد انامی نے کیا نیازی وہ نہ کر سکا۔ سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے اگلے روز جنرل انامی نے خودکشی کر لی۔ جاپانی روایات کے مطابق اسے باوقار خودکشی کا نام دیا جاتا ہے۔ جنرل انامی کورے چیکا نے اپنے لئے باوقار موت کا انتخاب کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اس کا انجام بھی جنرل تومو یوکی یاما شیتا سے مختلف نہ ہوتا۔ یاما شیتا پر فلپائن میں جاپانی فوج کے مظالم کے خلاف امریکہ نے مقدمہ چلایا۔ اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ یاما شیتا نے امریکی صدر ہیری ٹرومین سے معافی کی اپیل کی کہ جو مسترد کر دی گئی۔ بالآخر اسے 23 فروری 1946ءکو منیلا میں پھانسی دیدی گئی۔ جاپانی فوج نے بڑی بے جگری سے اتحادیوں کا مقابلہ کیا۔ وہ بدستور لڑنا چاہتی تھی لیکن بادشاہ کو ادراک تھا کہ امریکہ ایٹم بموں سے شہر کے شہر برباد کر دے گا اس لئے شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے اپنی رعایا کو بچانے کی خاطر سرنڈر قبول کر لیا۔ جنگ عظیم دوم کا اختتام 74 لاکھ جاپانی فوج کے ہتھیار پھینکنے پر ہوا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جاپان کے پاس بھی ایٹم بم ہوتا تو کیا جاپان جیسی بہادر افواج اور شہنشاہ ہیرو ہیٹو جیسا غیرت مند بادشاہ سرنڈر قبول کر لیتا؟ ۔۔۔ اس کا جواب ہے ۔۔۔ کبھی نہیں؟ جاپان شاید امریکی چڑھائی کی نوبت ہی نہ آنے دیتا، اگر نوبت آ بھی جاتی تو امریکہ کے ایک ایٹم بم کے جواب میں تین چلا دیتا۔ جاپانی فوج کا سرنڈر دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا سرنڈر اور بدترین شکست ہے جس کی ہزیمت کا داغ بدستور جاپانیوں کے ماتھے پر لگا ہوا ہے۔ آج پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور اپنے دشمن سے محفوظ بھی اسی بنا پر ہے۔ لیکن ایٹم بم چلانے کےلئے بھی حوصلے کی ضرورت ہے۔ کیا گزشتہ اور موجودہ حکمرانوں میں ایسی جرات موجود تھی یا ہے۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو آج کشمیر آزاد اور پاکستان کے حصے کا پانی بھی واگزار ہو چکا ہوتا۔ اگر جواب نہیں میں ہے تو ووٹر اگلے الیکشن میں حکمرانوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں۔