21-8-10 فضل حسین اعوان ـ
پاکستان میں سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کے حوالے سے ایک نئی تھیوری سامنے آئی ہے کہ سیلاب قدرتی نہیں انسان کی برپا کی گئی آفت ہے۔ یہ تو کہا گیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا اور تباہ کن سیلاب ہے لیکن یہ نہیں کہا جاتا کہ مون سون میں ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں۔ اگر ریکارڈ بارشیں نہیں ہوئیں تو ریکارڈ سیلاب اور پانی کہاں سے آگیا۔ نئی تھیوری کے مطابق اس کا جواب پانی افغانستان اور بھارت نے چھوڑ کر پاکستان کو ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کابل کے قریب دریائے کابل سروبی ڈیم کا مکمل انتظام ہندو مشینری کے پاس ہے۔ اس نے سروبی ڈیم کے دروازے کھول کر خیبر پی کے کی بربادی کا سامان کیا۔ دریائے کابل نے پورے صوبے میں تباہی مچا دی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے بھی کشمیر میں تعمیر کے مراحل مکمل کرنے والے درجنوں ڈیموں میں سے چند ایک کے پانیوں کا رخ پاکستان کی طرف کر دیا۔ ان میں بگلیہار ڈیم اہم ترین ہے۔ دریائے سندھ‘ جہلم اور چناب میں ریت اڑتی تھی یک بیک بپھر گئے اور ایک چوتھائی پاکستان کو ڈبو دیا۔ تباہ و بربادی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ آج پورا ملک بھارت کے رحم و کرم پر ہے۔ سیلاب اسی لئے تھمنے کا نام نہیں لے رہا کہ سیلاب کا منبع ہمارے دشمن کے قبضے میں ہے۔ آج سیلاب کی تباہ کاریوں کو شروع ہوئے 24 واں دن ہے۔ آج بھی پہلے دن کی طرح علاقے ڈوب رہے ہیں۔ انسان مر رہے ہیں۔ بے گھر ہو رہے ہیں۔ بیماریوں کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ سیلاب کی وجہ اگر بارشوں کو قرار دیا جائے تو بارشیں تو بھارت اور افغانستان میں بھی ہوئی ہیں وہاں پانی آفت کیوں نہیں بنا؟ وہاں سیلاب کیوں نہیں آیا؟
ویب سائٹ Haqiqat. Org کے مطابق پاکستان کو ڈبونے کی سازش میں امریکہ بھارت اور افغانستان برابر کے شریک ہیں۔ تینوں ممالک خصوصی طور پر بھارت ہمیشہ سے اے این پی کا پروردہ رہا ہے۔ بھارت نے اے این پی کے بیس کو ہلا کر رکھ دیا۔ اے این پی کی اب آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اس کو ادھر ادھر جھانکنے کے بجائے پاکستان کے مفادات کے بارے میں سوچنا چاہئے پورا پاکستان بشمول کالا باغ ڈیم منصوبے کے خاتمے کی ذمہ دار پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت چیخ رہی ہے کہ کالا باغ ڈیم ہوتا تو سیلاب سے اس قدر وسیع پیمانے پر تباہی نہ ہوتی۔ اے این پی کی سوئی متواتر کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر اٹکی ہوئی ہے۔ کچھ رہنما ¶ں نے فرمایا کہ کالا باغ ڈیم بنا ہوتا تو نقصان 10 گنا زیادہ ہوتا۔ وہ اس کی مزید وضاحت کر دیتے بات دلیل اور منطق سے کرتے تو بہتر تھا۔ ڈیم اوپر سے پانی کو اپنے اندر سموتا ہے آنے والے پانی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ یہ نوشہرہ ڈبونے کی بات کرتے تھے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بنا ہی نہ صرف نوشہرہ ڈوبا بلکہ چارسدہ بھی ڈوب گیا اور ڈبویا بھی ان کے دوست بھارت نے۔
برطانیہ نے جنگ عظیم دوئم کے دوران جرمنی کے سارے ڈیم اڑا دئیے تھے۔ جرمنی ڈوبا تو اس کے حوصلے بھی ڈوب گئے۔ بھارت میں ہزاروں ڈیم ہیں۔ وہ آدھے بھی ٹوٹ جائیں تو بھارت ڈوب سکتا ہے۔ پاکستان بھارت کے مقابلے میں بہت چھوٹا ملک ہے۔ اگر وہ پاکستان کے ڈیم توڑنے میں کامیاب ہو جائے تو پاکستان میں پانی کے آگے بند باندھنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مزید ڈیموں کی تعمیر سے ہاتھ کھینچ لیں۔ ڈیموں کے بے قابو پانی کو بھی ڈیموں سے ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان سے کراچی تک ڈیموں کا ایک سلسلہ بچھا دینا چاہئے۔ جہاں بھی ممکن ہے پانی کے ذخیرے بنا دینے چاہئیں۔ کالا باغ ڈیم اہم ترین ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو بھارت کی آبی دہشت گردی کے باوجود بھی میانوالی سے آگے پورا پاکستان محفوظ ہوتا۔
ایوب خان نے جہاں سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے تین دریا راوی ستلج اور بیاس بھارت کے ہاتھ فروخت کرکے ستم کیا وہیں کالا باغ ڈیم کی تعمیر التوا میں ڈال کر پاکستان پر ظلم کیا۔ شوکت علی شاہ کے مطابق ایوب خان Friends not Masters میں لکھتا ہے کہ تمام انجینئرز کی متفقہ رائے تھی کہ ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ کالا باغ ڈیم سے شروع کیا جائے اور بتدریج آگے بڑھا کر تربیلا بھاشا اور سکردو ڈیم بنائے جائیں ایوب خان نے انجینئرز کی رائے کو اس لئے اہمیت نہ دی کہ وہ فوری نواب سر محمد فرید خان کی امب ریاست کو ڈبونا چاہتا تھا جسے ایوب خان نے تربیلا کے وسیع و عریض رقبے میں ڈبو دیا۔ اگر ایوب خان ڈیموں کی تعمیر کا میرٹ پر فیصلہ کرتے تو کالا باغ ڈیم آج متنازعہ صورت میں ہمارے سامنے کھڑا نہ ہوتا۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر مٹھی بھر مفاد پرست سیاستدانوں کے سوا پوری قوم متفق ہے۔ اچھا ہوتا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو متنازعہ بنائے رکھنے کے بجائے ریفرنڈم کرا لیا جاتا۔ کالا باغ ڈیم کے مخالفین ریفرنڈم سے بھی خوف کھاتے ہیں۔ ان کو ریفرنڈم کی صورت میں یقینی ہار نظر آتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ حکومت کی کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں عدم دلچسپی اور ریفرنڈم کے انعقاد سے گریز کو دیکھ کر نوائے وقت نے اپنے طور پر ریفرنڈم کا اعلان کیا ہے۔ یہاں کالا باغ ڈیم کے حامیوں سے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ وہیں مخالفین کو بھی اپنے رائے دینی چاہئے بلکہ یہ لوگ انتہائی اقلیت میں ہیں ان کو تو بڑھ چڑھ کر اپنی برتری جتلانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں کالا باغ ڈیم کے حامیوں کی خلوص نیت پر اعتبار اور اعتماد ہے وہ مجید نظامی صاحب کی اپیل پر جوق در جوق اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ اس ریفرنڈم میں ایک فرد ایک ووٹ کا اصول کارفرما رکھا گیا ہے اس لئے ووٹر کےلئے نوائے وقت کی کٹنگ کے ساتھ شناختی کارڈ کی کاپی لازمی قرار دی گئی ہے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے اتفاق رائے اہم ہے ناگزیر نہیں۔ اگر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر اکثریتی رائے کے مطابق ہو جانی چاہئے۔ کالا باغ ڈیم کے مخالف تو قیام پاکستان کے بھی حامی نہیں تھے۔ اگر اس وقت اتفاق رائے کا اصول اپنایا جاتا تو پاکستان معرض وجود میں نہ آتا۔ ایٹمی پروگرام شروع کرنے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تو ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی طرح پروگرام کے آغاز کی بھی مخالفت ہوتی اور غیر ایٹمی پاکستان کو بھارت کب کا
ہڑپ کر چکا ہوتا۔
No comments:
Post a Comment