About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, August 21, 2010

وہ دکاندار قوم ۔۔ یہ دکاندار حکمران

فضل حسین اعوان ـ 3 اگست ، 2010

 برطانوی ماہر معاشیات اور فلسفی ایڈم سمتھ کی وجہ شہرت اس کی کتاب The Wealth of Nation تھی۔ ایڈم سمتھ 1723ءکو آئرلینڈ میں پیدا ہوا۔ 1776ءمیں اس نے مذکورہ شہرہ آفاق کتاب لکھی۔ اس کتاب کا یہ جملہ تاریخی ثابت ہوا۔ برطانوی بادشاہت اس لئے قائم نہیں ہے کہ برطانوی حکومت دکانداروں پر مشتمل ہے بلکہ اس لئے قائم ہے کہ یہ دکانداروں کی منتخب کردہ ہے۔ بعدازاں فرانسیسی سپہ سالار اور شہنشاہ نپولین بونا پارٹ (1769-1821) نے مذاق اڑاتے ہوئے انگریزوں کو دکاندار قوم (A Nation of shopkeepers) قرار دیا تھا۔ دونوں دانشوروں نے برطانوی قوم کا صحیح تجزیہ کیا۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ ایک بڑی مثال ایسٹ انڈیا کمپنی کا دکاندار کی حیثیت سے ہندوستان آکر تجارت کے نام پر برصغیر پر قابض ہو جانا ہے۔ دنیا بدل گئی برطانوی سلطنت ڈوب گئی لیکن انگریزوں کی دکانداری والی ذہنیت نہیں بدلی۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے گذشتہ ماہ جولائی 2010ءکے آخر میں بھارت کا دورہ کیا جہاں بھارت کے ہاتھ 9400 کروڑ روپے کے ہاک جیٹ طیاروں کی فروخت کا معاہدہ ہوا یہ جنگی ٹرینر طیارے بھارت میں ہی تیار ہوں گے۔ اس کے علاوہ برطانوی نیو کلیئر کمپنیوں کو بھارت کے ساتھ 1.1 ارب ڈالر تجارت کی اجازت کے معاہدے پر بھی دستخط ہوئے۔ بھارت کو امریکہ سے جدید ترین F18 فرانس سے میراج اور روس سے سنحوئی جنگی جہاز مل رہے۔ بھارت کے امریکہ روس فرانس‘ آسٹریلیا اور کینیڈا سے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے معاہدے ہو چکے ہیں۔ بھارت کو برطانیہ سے ہاک جیسے ماٹھے طیارے خریدنے کی اتنی ضرورت ہے نہ برطانوی کمپنیوں سے غیر معیاری ایٹمی ٹیکنالوجی کی تجارت کی۔ ڈیوڈ کیمرون نے دکاندارانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کی خواہش کے مطابق دہلی میں کھڑے ہو کر پاکستان کے خلاف زہر اگلا اور اربوں روپے کی اپنی مصنوعات بیچ ڈالیں۔ کیمرون نے پاکستان کو خبردار کیا کہ وہ پڑوسی ممالک میں دہشت گرد بھجوانے والے گروپوں کے خلاف کارروائی کرے۔ کیمرون نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ملک دہشت گردی کے حوالے سے دوہرا اور اختیار نہ کرے۔ کیمرون نے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ گو حکومت نے کیمرون کے بیان پر احتجاج کیا لیکن اس کی حیثیت امریکہ کے پاکستانی علاقوں میں ہونے والے ظالمانہ ڈرون حملوں پر احتجاج سے زیادہ نہیں جس کا امریکہ نے کبھی نوٹس نہیں لیا۔ امریکی میڈیا انکشاف کر چکا ہے کہ ڈرون حملے ایک خفیہ معاہدے کے تحت ہو رہے ہیں حکومت پاکستان کی طرف سے احتجاج ایک ڈرامہ ہے۔
کیمرون کے پاکستان کے بارے میں زہر آلود خیالات کے بعد آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کی قیادت میں برطانیہ جانے والے وفد کا دورہ منسوخ کر دیا گیا گویا دورہ حکومت پاکستان کی مشاورت سے منسوخ کیا گیا لیکن صدر صاحب نے طے شدہ دورہ ملتوی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ صدر کی حیثیت قوم کے بڑے کی سی ہوتی ہے بدقسمتی سے آج کے صدر کو بھی قوم کا بڑا تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ 28 جولائی کو ائربلیو کی پرواز کریش ہو گئی اس میں 152 افراد مارے گئے۔ اس کے اگلے روز سیلاب نے تباہی مچادی ہر گزرتے دن کے ساتھ سیلاب سے تباہی‘ انسانی ہلاکتوں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے موقع پر قوم کے بڑے کو قوم کے درمیان موجود ہونا چاہئے تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ اپنے کاروبار کی نگرانی کےلئے دبئی چلے گئے۔ آج برطانیہ کے 6 روزہ دورے پر جائیں گے۔ کوئی بھی ملک دیگر ممالک سے رابطے منقطع کرکے مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ برطانیہ سے کُٹی کر لی جائے اس سے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے جائیں۔ ایک خوددار اور باوقار قوم کے ناتے ضروری ہے کہ کیمرون نے جو کچھ کہا اس پر شدید احتجاج کیا جائے۔ جب تک وہ اپنے کہے پر ندامت کا اظہار نہ کریں صدر سمیت کوئی بھی برطانیہ کے دورے پر نہ جائے۔ زرداری صاحب خود کو بلاول‘ آصفہ اور بختاور کا ہی نہیں قوم کے ہر بلاول آصفہ اور بختاور کا باپ ثابت کریں آج ان کی برطانیہ جانے سے زیادہ پاکستان میں موجودگی کی ضرورت ہے۔ اگر بلاول کو سیاست میں لانے کی تقریب منعقد کرنا ہے تو پاکستان میں کریں برمنگھم میں 60 ہزار پاونڈ خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر یہ رقم حکومت پاکستان بھی خرچ نہیں کر رہی تو بھی کسی کی جیب سے تو جائے گی۔ شہباز شریف کے بقول صدر کے دورے پر تین چار لاکھ پاونڈ خرچ آئے گا۔ برطانوی قوم کی طرح پاکستانی قوم ہرگز دکاندار نہیں البتہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی پوری کھیپ سوائے ایک دو فیصد کے بمعہ بڑی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کے دکاندار ہے۔ ان کی پالیسیوں اور ذاتی مفادات کے تحفظ کے باعث قوم کی قوت خریدار ایسی کم ہو رہی ہے کہ لوگ دکان دوری پر مجبور ہیں۔

No comments:

Post a Comment