About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, August 22, 2010

نواز شریف کا کمیشن۔ کمیشن کی نذر


فضل حسین اعوان 
اتوار ، 22 اگست ، 2010
حالات کی گردش نے کچھ لوگوں کو قائداعظم کے پاکستان اور پاکستانیوں کی تقدیر
 کا مالک بنادیا۔ یہ قائداعظم کی کرسی پر بیٹھتے ہیں لیکن قائداعظم جیسا با اصول سیاستدان، باوقار حکمران اور خود دار انسان بننے کی کوشش نہیں کرتے۔ علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کیلئے محمد علی جناح کا انتخاب ہی اس لئے کیا تھا کہ جناح کو خریدا جاسکتا تھا نہ جھکایا جاسکتا تھا۔ایک دفعہ عدالت میں جناح کی یک چشمی عینک زمین پر گر پڑی۔ انگریز جج نے مسکر اکر کہا” مسٹر جناح اب تو آپMONOCLES اٹھانے کیلئے جھکو گے“۔ جناح نے جیب سے دوسری عینک نکال کر لگاتے ہوئے زمین پر پڑی عینک کو پاﺅں رکھ کر توڑ ڈالا۔ مسٹر جناح کے اس عمل سے جج کی جناح کو جھکتے دیکھنے کی حسرت دل میں رہ گئی۔ اور شرمندگی سے اس کا رنگ فق ہوگیا....لندن میں 1930 کی گول میز کانفرنسوں کے دوران برطانوی وزیراعظم رمزے میکڈونلڈنے جناح کو خصوصی دعوت پر بلایا۔ دوران گفتگو کہا” ہم نے آپ کے لئے بہت کچھ سوچ رکھا ہے“۔ وزیراعظم کی یہ بات سن کر جناح کھڑے ہوگئے اور کہا” مسٹر وزیراعظم تم مجھے رشوت دینا چاہتے ہو“ اس کے ساتھ ہی برطانوی وزیراعظم سے ہاتھ ملائے بغیر ان کے دفتر سے نکل آئے.... گزشتہ ماہ کے آخر میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھارت آئے انہوں نے نئی دہلی میں کھڑے ہوکر پاکستان کے خلاف زہر اگلا۔ چند روز بعد صدر پاکستان قائداعظم کی کرسی پر بیٹھنے کا شرف حاصل کرنیوالے آصف علی زرداری نے برطانیہ کے دورے پرجانا تھا۔ان کے حامی اور جامی بھی احتجاجاً دورہ منسوخ کرنے کے مشورے دیتے رہے۔ لیکن صدر صاحب نے دورہ ملتوی یا منسوخ کرنے کا ہر مشورہ اور تجویز ردّ کردی۔ برطانیہ کے دورے سے قبل ہی پاکستان میں سیلاب کی آفت ٹوٹ پڑی تھی۔ اس کے باعث بھی صدر صاحب کو فوری پاکستان آنے کی پکار دی گئی لیکن وہ معمول اور ایڈوانس پارٹی کے طے شدہ شیڈول کے مطابق پورے 5دن لندن میں گزار کر ہی لوٹے اور اس سے پہلے پیرس میں بھی اپنے پیلس کے درشن کر آئے۔ میاں نواز شریف نے سیلاب میں ڈوبی قوم کو بے یارومددگار چھوڑنے پر صدر صاحب پر تنقید کی تو کہا گیا کہ نواز شریف نے تنقید کرکے اپنی ذہنیت کا اظہار کردیا۔ دونوں لیڈروں کے درمیان تنقید اور جوابی تنقید سے پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت کافی اوپر چلا گیا تھا۔ اِدھر زرداری صاحب وطن واپس لوٹے تو اُدھر وزیراعظم گیلانی نے نواز شریف کو ملاقات کی دعوت دے ڈالی۔ نواز شریف کچے دھاگے سے بندھے وزیراعظم ہاﺅس چلے گئے۔14اگست کودونوں کے درمیان بڑی میٹھی باتیں ہوئیں۔ دونوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں کا مل کر مقابلے کا عزم ظاہر کیا۔ بڑی بات ،دونوں کے مابین ایک کمیشن کی تشکیل پر اتفاق رائے تھا۔ جو سیلاب متاثرین کے لئے فنڈ جمع کریگا۔ اس کی نگرانی میں نقصانات کا سروے کرایاجائیگا اور یہی کمشن فنڈز کی منصفانہ تقسیم کی نگرانی بھی کرے گا۔ وزیراعظم گیلانی نے خود نواز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا ” نواز شریف کی تجویز کے مطابق کمشن جلد بنا دیاجائیگا۔اس سلسلے میں جسٹس(ر) رانا بھگوان داس فخر الدین جی ابراہیم جسٹس(ر) اسلم ناصر زاہد ادیب رضوی اور دیگر کے نام زیر غور ہیں“۔ کمشن کی تشکیل فوری ہوجانا چاہئے تھی۔ لیکن 6دن خاموشی سے گزر گئے اور نواز شریف کے کمشن کی تجویز کو ردّ کرتے ہوئے گیلانی صاحب نے قومی نگرانی کونسل قائم کرنے کا اعلان کردیا۔جس کے ذمہ متاثرین میں شفاف طریقے سے امداد کی تقسیم ہے۔ گیلانی صاحب نے قومی کمشن کیلئے جن لوگوں کے نام نواز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران لیے تھے وہ ان کے حافظے سے محو ہوگئے نگران کونسل کے حوالے سے کہا کہ اس کے ممبران کا انتخاب صوبوں کی مشاورت سے کیاجائیگا۔ جس اجلاس میں کمشن بنانے کا اعلان کیا اس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ موجود تھے۔ کیا ان کو موقع دیا گیا ہے کہ واپس جا کر دو دو تین تین ایماندار آدمیوں کو تلاش کریں؟ بے اعتباروں کی بے اعتباری، دوسروں کو سیاسی اداکار قرار دینے والوں کی فنکاری کے باوجود پاکستانیوں کی طرف سے نہ سہی بیرونی دنیا سے تو کم ہی سہی پھر بھی اربوں روپے آرہے ہیں۔کہاں جارہے ہیں؟ وہیں جہاں زلزلہ زدگان کی امداد کی رقوم گئی تھیں۔ نواز شریف کی تجویز صحیح تھی اس پر عملدرآمد کیلئے فریقِ ثانی کی نیت بھی صحیح ہونی چاہئے۔ وہ کتنی صحیح ہے اس کا اندازہ نواز شریف کی تجویز کو ردّ اور ایک لولے لنگڑے اور ادھورے نگران کونسل کی صورت میں سامنے ہے۔ نواز شریف کی تجویز شاید اس لئے بھی وارے میں نہ آئی ہو کہ وہ قومی کمشن کی تشکیل چاہتے تھے۔ یہ سمجھ بیٹھے ہوں کہ کمشن بنا تو نواز شریف کو بھی امداد سے کمشن دینا پڑے گا۔وہ کمیشن نہ ہوں یہ الگ بات ہے۔

No comments:

Post a Comment