About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, August 20, 2010

استحصالی سود۔ خوشحالی سود


فضل حسین اعوان 
 2 اگست ، 2010

 چند روز قبل گاوں جانا پڑا۔ کاشتکار آپس میں اپنی فصلوں کی بپتا سنا رہے تھے۔ ایک نے کہا کہ اس کی خربوزوں کی فصل بڑی زبردست ہوئی ہے لیکن وہ پکنے نہیں پاتے۔ وجہ یہ ہے کہ رات کو گیدڑ اور سیہہ تیار فصل کو تباہ کر ڈالتے ہیں۔ تنگ آ کر میں نے تمام بیلیں اکھاڑ پھینکیں۔ میں اپنے ہاتھوں اپنی فصل تباہ کر کے گھر واپس آ رہا تھا کہ راستے میں فلاں آدمی ملا۔ علیک سلیک کے بعد میں نے اس کے استفسار پر ”اپنے کارنامے“ سے آگاہ کیا تو اس نے افسوس کرتے ہوئے کہا ”فصل اجاڑنے سے قبل مجھ سے پوچھ لیا ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ بہرحال آئندہ ایسی صورت حال میں گاوں کے چار سود خوروں کے نام کاغذ پر لکھ کر کھیت کے چاروں کونوں میں ایک ایک نام دبا دینا، اگر گیدڑ، سیہہ اور خنزیر تک بھی کوئی نقصان پہنچا دے تو فصل کی رقم کے علاوہ میں 50 ہزار جرمانہ بھی دوں گا۔ تجویز کنندہ کا یہ اعلان بقول اس کے ہر کسی کےلئے ہے۔“ سود کو عربی میں ربا کہتے ہیں۔ اس معاملے میں کلیدی لفظ قرض ہے۔ جب بھی دو فریقین کے مابین معاملہ قرض خواہ اور مقروض کا ہو گا تو قرض دینے والا اگر قرض دینے کو اس شرط سے مشروط کر دے کہ وہ ایک معین اضافہ ایک معین مدت کےلئے اپنے قرض پر وصول کرے گا تو اس اضافے کو سود یا ربا کہا جائے گا۔ قرآن کریم میں سود کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ حضور نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، لکھنے والے اور دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ گویا سود ایک ایسا ناس ±ور ہے جو کئی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ کچھ علمائے کرام نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن میں ربا کا لفظ استحصالی سود کےلئے استعمال ہوا ہے۔ یہ علمائ شاید اس سود کو خوشحالی سود کا نام دیتے ہوں جو بنک اور دیگر ادارے لیتے اور دیتے ہیں۔ جس چیز کو آپ نے ربا یا سود کہہ دیا وہ تو حرام کے زمرے میں آ گیا۔ اگر کوئی دوسرا نام دےکر اسے حلال قرار دینے کی بات کی جائے تو یہ الگ معاملہ ہے۔ جھوٹ کی اچھی اور ب ±ری قسم نہیں ہو سکتی، ہر قسم کا جھوٹ جھوٹ ہے۔ منافقت کو مصلحت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔۔۔ پاکستان اسلامیہ جمہوریہ ہے سود کو اللہ اور رسول کے ساتھ کھلی جنگ قرار دیا گیا ہے۔ یہ جنگ حکومت بڑی دیدہ دلیری سے لڑ رہی ہے، عرصے سے اس جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز سٹیٹ بنک نے شرح سود میں 50 پوائنٹس اضافے کا اعلان کر دیا جس سے شرح سود 12.5 سے 13 فیصد ہو گئی۔ اب حکومت جس چیز میں سود کا نام لےکر اضافہ کر رہی ہے وہ جائز کیسے ہو گی؟ آج پوری مشینری سود پر چل رہی ہے۔ حکومت اور اہل ایمان تھوڑی سی کوشش کریں تو بلاسود بینکاری بھی ہو سکتی ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو بلاسود اپنی رقوم بنکوں میں رکھوانا چاہتے ہیں۔ بنک ان کی رقوم سے کاروبار کریں۔ اس کاروبار سے اپنا انتظام چلائیں، ملازمین کو تنخواہیں اور مراعات دیں، آج قرض کےلئے بنک جانے والے لوگ قرض بھی کمشن دےکر لیتے ہیں عموماً قرض ملتا بھی کمشن دینے والوں کو ہے۔ قرض خواہ قرض کے فارم کے ساتھ ایک قرض کی معافی کا فارم بھی حاصل کر لیتا ہے۔ اس کی نیت قرض لوٹانے کی اور دینے والوں کی قرض وصولی کی نہیں ہوتی۔ بنکوں سے بلاسود قرض کیسے حاصل کیا جائے۔ اس پر ماہرین کام کریں اور بات کریں۔۔۔ بہت سے لوگوں کے تجربہ کا نچوڑ ہے کہ جس نے مکان کی تعمیر اور بیٹی کی شادی تہی دامن ہونے کے باوجود سود پر قرض نہ لینے کے عزم کے ساتھ کرنے کی کوشش کی وہ کبھی ناکام نہیں ہوا خدا نے اس کی ایسے ذرائع سے مدد کی جو وہم و گمان مےں بھی نہیں تھے۔ استحصالی سود اور خوشحالی سود کی بحث میں پڑے بغیر سوچئے۔ صاف شفاف دودھ کے گلاس میں آپ کو گندگی کے قطرے کے گرنے کا شک پڑ جائے۔ دودھ بدستور صاف اور سفید بھی نظر آ رہا ہو۔ کیا آپ پی جائیں گے؟ نہیں پئیں گے۔۔ جب سود کے بارے میں حرام کا شک پڑ گیا تو اس پر لعنت بھیجیں۔۔ بلا سود کاروبار کریں۔۔ خدا اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ سے بچیں۔

No comments:

Post a Comment