About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, August 21, 2010

دھند کے بادل


فضل حسین اعوان ـ 10 اگست ، 2010

 بڑے شہروں کی کھلی اور چار چار رویہ شاہراہوں پر یہاںچمکتی اور لشکتی بڑی بڑی لگژری گاڑیاں فراٹے بھرتی رواں دواں ہیں۔ وہیںپھٹیچر سائیکلوں پر گھسٹتے اور سائیکلوں کو گھسیٹتے انسان نما ڈھانچے بھی زندگی کی گاڑی کو دھکا لگا رہے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے پاس پرانی سائیکل خریدنے کی بھی سکت نہیں۔ یہاں پالتو جانوروں گھوڑے ، شیروں کتوں وغیرہ کے لئے اے سی، مربہ جات و میوہ جات اور انواع و اقسام کی خوراک وافر دستیاب ہے وہیں دو وقت کی روٹی کے محتاج انسان بھی اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے ہیں۔ شہر میں روشنیوں کا سیلاب اور رنگ و نور ‘ پھولوں سے لدے باغات اور پارکیں دن کو دھوپ میں چمکتی اور رات کو روشنیوں سے دمکتی شاہراہیں ‘ بڑے لوگوں کے ذہن کے لئے طراوت اور دل کی تسکین کا باعث تو ہو سکتے ہیں لیکن اس سے غریب کا پیٹ بھر سکتا ہے نہ اس کے بیمار بچوں کا علاج اور نہ ہی تعلیم کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ شہر سے بہت دور کسی گاﺅں‘ گوٹھ‘ کِلی یا بستی میں ننگے پاﺅں پھرنے والے تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم بچے نظر آئیں گے۔ غربت ‘ بے کسی ‘ بے بسی شہروں قصبوں دیہات اور چھوٹی بڑی بستیوں میں ہر کہیں موجود ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔ اس کے جواب کے لئے کسی عقلِ سقراط اور حکمتِ بقراط کی ضرورت نہیں۔ ہم ایک خوابیدہ قوم ہیں۔ ہمارے کرپٹ ادارے۔ نااہل حکمران ‘ جن کے مذموم مقاصد اور مفاداتی ارادے ہیں حکمرانوں اور سیاست دانوں میںملک و قوم کی خاطر سوچنے والے کم لوٹ مار کرنے والے زیادہ ہیں۔ ادارے چلانے والے لوگ ہم میں سے ہیں اور حکمرانوں کو بھی ہم ہی منتخب کرتے ہیں۔ ہم اٹھارہ کروڑ عوام اپنے مسائل کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ ہم خود اپنی نسلوں کے قاتل اور وطن کے دشمن ہیں۔ ہمارے ووٹوں سے اقتدار حاصل کرنے والے لوگ ملک و قوم کے اثاثوں پر ہاتھ صاف کر کے اپنے اثاثوں میں اضافہ در اضافہ کئے جا رہے ہیں۔کئی چند سال میں کھربوں روپے کی جائیداد کے مالک بن کر پاکستان کے امیر ترین لوگوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ اکثر نے نہ صرف پاکستان کے ہر بڑے شہر میں محلات کھڑے کر لئے بلکہ بیرونِ ممالک بھی عالی شان عمارتیں اور جائیدادیں خرید لی ہیں۔ بنکوں میں پڑی دولت کا کوئی شمار نہیں۔کسی پاکستانی کو شک ہے کہ یہ دولت کہاں سے آئی ؟۔ اکثر نے یہ کہا پاکستان کو لوٹ کر اکٹھی کی گئی ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس لیڈر کو ووٹ دو یہ آکسفورڈ کا پڑھا ہے ‘ یہ ہاورڈ کا تعلیم یافتہ ہے۔ جو اس وطن میں رہا ہی نہیں اسے اس ملک کے باسیوں کے مسائل کا کیا ادراک ہو سکتا ہے۔ ان کو کیا پتہ کہ ایک معمولی کسان اور مزدور اپنے بلاول ‘ حسین ‘ حمزہ ‘ مونس‘ مریم ‘ بختاور اور آصفہ کی پرورش کیسے کرتا ہے؟ پوہ ماگھ کی راتوں کو کھیتوں میں پانی کیسے لگایا جاتاہے؟ دنیا کی سب سے مشکل مزدوری اینٹوں کے بھٹے اور لوہے کی بھٹی کی ہے۔ اس کا کیا ان کو کبھی تجربہ ہوا؟ انگریزی بولنا اہلیت اور قابلیت کا معیار نہیں ، انسانیت کا ادراک اور احساس ہونا چاہئے جو بد قسمتی سے قائداعظم کی رحلت کے بعد کسی قیادت میں نظر نہیں آیا۔ قائداعظم اپنے لوگوں پر اللہ کی رحمت کا سایا تھے۔ پنڈی سے میجر نذیر فاروق نے درست کہا‘ آج کے سیاستدانوں کی اکثریت کا حال کاغذ کے پھولوں اور دھند کے بادلوں جیسا ہے۔کاغذ کے پھول جتنے بھی خوبصورت ہوں ان سے خوشبو نہیں آ سکتی، بارانِ رحمت ہمیشہ برساتی بادلوں سے ہی ہوتی ہے ۔ دھند کے بادلوں سے اندھیر اور اندھیرا ہو سکتا ہے ‘ حادثات ہو سکتے ہیں، آپ کے کپڑے اور ہاتھ منہ لتھڑ سکتے ہیں۔ ان میں غلاظت ہی غلاظت ہے۔ دھند کے بادل مینہ کے بادلوں کا متبادل نہیں ہو سکتے۔کونسا سیاست دان ہے جس کو قوم نے آزما کر نہیں دیکھا۔ اٹھارہ کروڑ پاکستانی مٹی کے مادھو نہیں‘ جیتے جاگتے انسان ہیں۔ ان کے 18کروڑ دماغ‘ 36کروڑ بازو‘36کروڑ آنکھیں ‘36کروڑ کان ہیں جو صرف 2 فیصد اشرافیہ کے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ بدامنی، مہنگائی، بےروزگاری، دہشتگردی ‘ بجلی گیس اور پانی کی کمی ،کونسا ستم ہے جو ان 2 فیصد نے عوام پر نہیںڈھایا پھر بھی 98 فیصد سب کچھ خاموشی سے سہہ رہے ہیں۔کوئی آواز نہیں، کوئی احتجاج نہیں، وجہ یہ کہ مظلوموں کے درمیان کوئی اتحاد نہیں بلکہ اکثر کو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا احساس تک نہیں۔ اکثر آواز اٹھتی ہے کہ عوام احتجاج نہیں کرتے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ کے علاوہ دوسروں کو عوام سمجھتا ہے اور امید کرتا ہے کہ یہی عوام سڑکوں پر آئیں۔ ویسے سڑکوں پر آنے کی ضرورت بھی نہیں۔ عوام انتخابات کے دوران اپنا کردار ادا کریں۔کیا 18کروڑ میں سے ایک بھی قائد اعظم کا پیروکار نہیں مل سکتا؟ ہم لٹیروں اور کرپٹ لوگوں کو ہی اپنا راہبر و رہنما کیوں منتخب کرتے ہیں؟۔گزشتہ کئی دہائیوں سے کس لیڈر کے کارنامے ہمارے سامنے نہیں ہیں پھر بھی ان پر ہی ووٹ نچھاور کئے جاتے ہیں۔کیا ہم خود ہی اپنی تقدیر سنوارنے کی خواہش سے بیزار ہیں۔ اگر ہم خود اپنی تقدیر سنوارنے کی کوشش کریں گے تو خدا بھی ہماری مدد کرے گا۔ دوسری صورت میں ہمارے اوپر ظلم ہوتا رہے گا، ڈرون حملہ آور ہوتے رہیں گے، ملک کی دولت دوسرے ممالک میں ٹرانسفر ہوتی رہے گی، نئی نسلیں انپڑھ اور جاہل رہیں گی ۔ لاعلاج مرتی رہیں گی۔ یہ عام پاکستانی کے جاگنے کا وقت ہے غیرت کھانے اور دکھانے کا وقت ہے

No comments:

Post a Comment