فضل حسین اعوان ـ 11 اگست ، 2010
پائلٹ کی تربیت کے دوران ایک مرحلے پر کاک پٹ پوری طرح ڈھانپ دی جاتی ہے پائلٹ کو صرف آلات اور ائیر ٹریفک کنٹرورل کی مدد سے ٹیک آف آنا، مشن مکمل کرنا اور لینڈ کرنا ہوتا ہے۔پائلٹ سینئر ہویا جونیئر، جہاز میںدوچار مسافر ہوں یا تین چار سو، مسافر جہاز میں بیل آﺅٹ سسٹم نہیں ہوتا۔ پائلٹ جتنا بھی پُراعتماد ہو، وہ موٹر سائیکل نہیں چلا رہا ہوتا کہ لا پروائی کا مظاہرہ کرے۔ جہاز میں سوار ہر مسافر کی بقا پائلٹ کی بقاءسے وابستہ ہوتی ہے۔ فضا میں پائلٹ کیلئے غلطی اور غفلت کا کوئی چانس نہیں ہوتا۔انسان بقائمی ہوش و حواس اور بلا وجہ اپنی جان نہیں لے سکتا۔ یوں اس مفروضے پر بحث فضول ہے کہ 28جولائی 2010ءکو ائیر کا جہاز اسلام آباد کے قریب اور 19فروری 2003 کو ائیر فورس کے سربراہ ائیر چیف مارشل مصحف علی میر اور ساتھیوں کو کوہاٹ لے کر جانے والا فوکر موسم کی خرابی کے باعث پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہوئے۔ دونوں جہازوں کے پائلٹ تجربہ کار تھے۔ جہاز حوالے ہی تجربہ کار پائلٹ کے کیاجاتا ہے۔
ہمارے ہاں بڑے سے بڑے سانحہ کی تحقیقات کیلئے کمیٹیاں بنتی ہیں تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں۔عموماًنتیجہ صفر نکلتا ہے۔خصوصی طورپر فضائی حادثات کے حوالے سے تحقیقات کے تلخ تجربات سامنے آئے ہیں۔ مصحف علی میر کے جہاز کی تباہی کی اگر کوئی تحقیقات ہوئی ہیں تو میڈیا اس سے مکمل طورپر آگاہ نہیں۔ ایک مختصر سی خبر ضرور شائع ہوئی کہ حادثہ پائلٹ کی غلطی کے پاعث پیش آیا۔ پاکستان کے صدر اور آرمی چیف جنرل ضیاءالحق کا جہاز تباہ ہوا اس میں اہم فوجی افسر بھی سوار تھے امریکی سفیر بھی موجود تھے۔اس کے باوجود تحقیقات کا نتیجہ کبھی سامنے آیا نہ تخریب کاروں کی نشاندہی ہوسکی۔ فضائی حادثات کے بعد ہمارے اداروں کی تحقیقات میں دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ25اگست 1989ءکو پی آئی اے کا فوکر54مسافروں سمیت گلگت میں دوران پرواز غائب ہوگیا۔اسے زمین نگل گئی یا آسمان نے اُچک لیا۔ آج تک اس کا ملبہ مل سکا نہ مسافروں کا کوئی سراغ ۔ اب اسے متعلقہ اداروں کی بے حسی کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے جدید دور اور جدید آلات کے باوجود ابھی جہاز اور مسافر لا پتہ ہیں۔ اب جس طریقے سے ائیر بلیو کریش ہوا اور تحقیقات کی جارہی ہیں اس سانحہ کی وجوہات سامنے آنے کے احکامات معدوم ہیں۔ تحقیقاتی ٹیمیں سادہ اور آسان سوالات کا جواب دینے سے بھی گریزاں ہیں۔ حادثے کے فوری بعد وزیر داخلہ رحمن ملک نے بیان دیا کہ پائلٹ پرویز اقبال چودھری سمیت 5 مسافر زندہ بچے ہیں جن کو ہسپتال داخل کرادیا گیا ہے بعد ازاں تمام مسافروں کے جاں بحق ہونے کی اطلاع دی گئی۔عجب صورت حال ہے کہ آج حادثے کے 15روز بعد بھی پرویز اقبال چودھری کی نعش ان کے لواحقین کے حوالے نہیں کی گئی۔ جس سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ پائلٹ زندہ ہے اور شاید انویسٹی گیشن کیلئے ایجنسیوں کے پاس ہے۔ جہاز کا نوگو ایریا نو فلائنگ زون میں چلے جانا بھی بہت بڑا سوال ہے۔اس کا جواب سول ایوی ایشن والے اپنی نجی گفتگو میں تو دیتے ہیں سرکاری طورپر اس کی تردید کی جاتی ہے۔نو فلائنگ زون کا کیا مطلب ہے؟ یہ ڈیڑھ دومنٹ کی پرواز کا ایریا ہے۔ اگر جہاز اس میں داخل ہوجائے تو ظاہر ہے کہ وارننگ نہیں دی جاسکتی۔سارا سسٹم خود کار ہوگا۔ اگر جہاز نو فلائنگ زون میں داخل ہوا تو وہی کچھ ہونا تھا جو ہوا اور بہت ہی برا ہوا۔اس کا کسی کو الزام بھی نہیں دیا جاسکتا۔ بلیک باکس کو ملے بھی آدھا ماہ ہونے کو ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ اس کی آج کے کمپیوٹرائزڈ دور میں بھی ڈی کوڈنگ نہیں ہوسکی۔ آخر عوام سے سب کچھ کیوںچھپایا جارہا ہے۔تمام جزیات اور تفصیلات کومدِ نظر رکھا جائے تو8 اگست 2010 کو اقبال حسین لکھویرا کی نوائے وقت میں شائع ہونیوالی سٹوری درست ثابت ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ بلیک واٹر کے دو ارکان پائلٹ کو کہوٹہ پر جہاز گرانے پرمجبو ر کررہے تھے کہ پائلٹ نے انتہائی قدم اٹھالیا۔ انتہائی قدم اس صورت میں بھی کہ پائلٹ جہاز کو نو فلائی زون میںلے گیا یا پہاڑی سے ٹکرادیا۔ اگر ایسا ہوا ہے تو پائلٹ پرویز اقبا ل چودھری پاکستان کے سب سے بڑے اعزاز اور میڈل کے مستحق ہیں۔ اگر وہ جاں بحق ہوگئے تب بھی۔ اگر زندہ ہیں تو بھی۔ اگر زندہ ہیں تو حقیقت حال وہ خود بیان کردیں گے۔ جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں سول ایوی ایشن کے ذمہ داروں کے بیان کو ہی سچ سمجھا جانا چاہیے کہ پائلٹ کو بلیک واٹر کے ارکان نے یرغمال بنا لیا تھا اور پائلٹ نے جہاز کی تباہی کا کہوٹہ کو تباہی سے بچانے کیلئے اہتمام کیا تھا۔ماضی کے تجربات کے پیشِ نظر اس حادثے کی وجوہات تحقیقاتی کمیٹیوں کے ذریعے سامنے آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment