دو انتہائیں
فضل حسین اعوان ـ 6 اگست ، 2010
ظہیر الدین بابر نے بچپن سے جوانی میں قدم رکھا تو خود کو سخت جان بنانے کیلئے سنگلاخ پہاڑوں اور چٹانوں پر ننگے پاوں دوڑا کرتا تھا۔ برف بنے پانی کے تالابوں میں بے خطر کود جاتا۔ بابر نے اپنے جسم کو اس قدر مضبوط اور فولادی بنا لیا تھا کہ اس کے عزم کے راستے میں پہاڑ حائل ہو سکے نہ چلچلاتی دھوپ اور یخ بستہ سردی کچھ بگاڑ سکی۔ بالآخر وہ برصغیر میں مضبوط مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس بہادر بادشاہ نے 11 سال کی عمر میں تلوار تھامی جو مرتے دم تک نہ چُھٹی۔ پھر اس کی کئی نسلیں حالات کے مطابق برصغیر پر حکومت کرتی ہیں۔ بابر کی طرح تلوار سونپ کر گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہنے والے بڑی شجاعت بہادری اور بیداری سے بادشاہت کرتے رہے۔ بعض نے حکمت مصلحت اور منافقت سے بھی کام لیا۔ جب گھوڑے کی پیٹھ سے اتر کر طاوس و رباب کے عادی ہونے لگے تو بابر کی میراث پر بھی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی۔ عیاشی اور تن آسانی یکجا ہوئی تو بادشاہت اور بابر کی ناموس بھی جاتی رہی ایک موقع وہ بھی آیا۔ دلی اجڑی تو بادشاہ سلامت گرفتار ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا ”حضور! نوکر چاکر شہزادے شہزادیاں اور بیگمات تک بھاگ لئے آپ کیوں محو استراحت رہے“ جواب دیا ”ہم بھی بھاگ جانا چاہتے تھے لیکن جوتا پہنانے والا غلام موجود نہیں تھا۔“ ایک انتہا یہ کہ بابر خود کو جسمانی طور پر مضبوط بنانے کیلئے پہاڑوں میں ننگے پاوں چلتا پھرتا تھا۔ دوسری انتہا یہ کہ بادشاہ جوتا پہنانے والے غلام کا منتظر رہتا تھا۔ ایک اعلیٰ و ارفع مقاصد کی انتہا جو اوج ثریا پر لے گئی۔ دوسری بے حوصلگی تن آسانی نالائقی اور نااہلی کی انتہا جو پستیوں میں لے گئی۔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی دانش‘ حکمت محنت اور جدوجہد سے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے وقت کی سب سے بڑی آزاد مسلم ریاست حاصل کرکے دے دی۔ دوسری انتہا کہ عقل سے عاری اور ذاتی مفادات کے اسیر حکمرانوں نے قائداعظم کا پاکستان دو لخت کر دیا۔ ایک انتہا یہ کہ قائداعظم اور ان کی ہمشیرہ محترمہ مادر ملت نے اپنی کروڑوں کی جائیداد پاکستان کے نام کر دی دوسری یہ انتہا کہ قائداعظم کی کرسی پر بیٹھنے والوں نے قائداعظم کا پاکستان لوٹ کر بیرونی ممالک میں بڑی بڑی جائیدادیں محلات اور بنگلے خرید لئے۔ بنک بھر لئے۔ ایک انتہا وہ کہ قیام پاکستان کے موقع پر پوری قوم ایک مقصد کیلئے متحد تھی۔ برادری ازم کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ پٹھانوں میں تعصب کی گہری چھاپ پائی جاتی ہے۔ صوبہ سرحد کو بھارت کا حصہ بنانے کیلئے باچا خان اینڈ کمپنی نے اس تعصب کو انگیخت کرنے کی پوری کوشش کی لیکن پٹھانوں نے باچا خان کی حسرتوں اور تعصب کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اسلام اور پاکستان سے عظیم تر محبت کا ثبوت دیا پاکستان کے حق میں رائے دی۔ اب دوسری انتہا دیکھئے ہم ذات برادریوں میں بٹ گئے ہیں متحد قوم تو کیا صرف قوم بھی نہیں رہے۔ ایک بے سمت اور بے مہار ہجوم ہیں۔نوائے وقت کے دیرینہ قاری کا گگو منڈی سے فون آیا۔ انہوں نے تاریخ کے ایک گوشے سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا ایک جماعت کے امیر نے فتویٰ دیا تھا کہ جو پیپلز پارٹی کو ووٹ دے گا اس کا نکاح فسق ہو جائے گا میرے پڑوسی اس جماعت کے مقامی امیر تھے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو برادری کی بنیاد پر ووٹ دیا میں نے ان کی توجہ جماعت کے مرکزی امیر کے فتوے کی طرف توجہ دلائی تو ان کا کہنا تھا برادری نہیں چھوڑ سکتا۔“ یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ برادری کا آدمی لچا ہو لفنگا ہم اس کو ووٹ دیں گے۔ جس نے تھانے سے چور کو چھڑا دیا وہ ہمارا ہیرو ٹھہرا۔ جس نے گلیاں اور نالیاں پکی کرا دی وہ راہبر اور رہنما بن گیا۔ ہم ہزار سال تک الیکشن لڑتے رہیں برادری ازم‘ چھوڑ کر ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اگر نہیں سوچیں گے تو ہماری حالت نہیں بدل سکتی۔ہمیں اس انتہا کی طرف جانا ہے۔ جو عروج ثریا تک لے جائے۔ اس انتہا کو چھوڑنا ہے جس سے پستیاں مقدر بن جائیں۔
No comments:
Post a Comment