About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, October 26, 2012

سیدہ عابدہ کا اعتراف قابل تقلید


26-10-12



26 اکتوبر 2012 0

 سیدہ عابدہ حسین کی طرف سے آئی ایس آئی سے رقم وصول کرنے کا اعتراف اگر آج کی سب سے بڑی خبر نہیں تو بڑی خبروں میں سے ایک ضرور ہے۔90میں آئی ایس آئی یا ایم آئی نے آئی جے آئی بنانے میں جو پیسے تقسیم کئے اس میں سے محترمہ عابدہ کے حصے ایک رپورٹ کے مطابق 10 لاکھ روپے آئے تھے۔بیگم صاحبہ کی طرف سے رقم وصول کرنے کا بغیر کسی دباﺅ،تحقیق اور تفتیش کے اقرار ہوس زدہ اور جھلسی ہوئی سیاست میں بادِ صبا کا ایک جھونکا اور صبح نوید کی ایک کرن قرار دیا جاسکتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں بیگم صاحبہ شاید پہلی سیاستدان ہیں جنہوںنے ایسا اعتراف کیا۔ بعض لوگ شاید اس میں بھی کوئی سازش تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ بہر حال ایک خاتون مردوں پر بازی لے گئیں۔ انہوں نے رقم کی وصولی کا اعتراف کرکے بڑے پن کا مظاہرہ کیا تو رقم منافع سمیت قومی خزانے میں جمع کرانے کا اعلان کرکے اپنے احترام میں مزید اضافہ کرالیا۔ ان کے اعتراف سے یہ تو واضح ہوگیا کہ اگر رقم دینے والے موجود تھے تو لینے والے بھی لا موجود نہیںتھے۔
سپریم کورٹ نے 1990 میں رقم وصول کرنیوالوں کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیتے ہوئے سود سمیت وصولی کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس حکم کو ہمارے سیاستدان اپنی مرضی کے معانی پہنارہے ہیں۔ اس حوالے سے ابھی تحقیق اور تفتیش ہونی ہے اس کے بعد سزا، وصولیوں اور مستقبل میں وصول کنندگان کے سیاست میں کردار کا فیصلہ ہونا ہے۔اِدھرسپریم کورٹ کا فیصلہ ہوا اُدھر حکومتی پارٹی اپنی کل کی اتحادی مسلم لیگ ن پر جھپٹ پڑی۔” نواز شریف سیاست چھوڑ دیں۔ ان کو نا اہل قرار دیاجائے،سزا سے بچنے کیلئے جدہ چلے جائیں“ ایسے اور اس سے بھی سخت بیانات سامنے آنے لگے۔حالانکہ ابھی یہ تعین ہونا ہے کہ کس کس نے کیا وصول کیا۔ جن کے نام پر جتنی رقم کی فہرستیں سامنے آئی ہیں۔ ان لوگوں نے واقعی رقم لی اور اتنی ہی لی؟ مرزا اسلم بیگ نے آج کہا ہے نواز شریف نے رقم نہیں لی۔ جنرل بیگ اس کیس کو اٹھانے پر اصغر خان کو غدار قرار دیتے ہیں۔ ہر فوجی قومی سلامتی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے اور قومی رازوں کو ہمیشہ کیلئے سینے میں دفن رکھنے کی قسم کھاتا ہے۔نصیر اللہ بابر مرحوم اور جنرل اسد درانی موجود نے بھی ایسا حلف اٹھایا تھا۔ کیا ان لوگوں نے اپنے حلف سے روگردانی کی؟ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق یہ معاملہ آگے چلا ، اگر آگے چلا تو یہ سوالات ضرور اٹھیں گے اور ان کے جوابات بھی مانگے جائیں گے۔قومی راز افشا کرنے والے مزید کئی کردار بھی سامنے آئیںگے جو آنے بھی چاہئے۔ قومی راز کسی صورت ،کسی بھی صورت افشا نہیں ہونے چاہئیں۔
 اصغر خان فیصلے پر تنقید ہورہی ہے اور اس کی تحسین بھی جاری ہے۔پیپلز پارٹی رقوم بانٹنے اور وصول کرنے والوں کے احتساب پر خوش جبکہ ایوان صدر کو سیاست سے پاک کرنے کے حکم پر منہ بسورتی ہے۔ ن لیگ کو جرنیلوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ تو من بھاتا ہے۔آئی جے آئی کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دینے کا حکم دل جلاتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اس فیصلے کو سیاست میں انتشار کا باعث قرار دے رہے ہیں۔قانون واقعی اندھا ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جاناچاہئے۔ قانون بنانے اور قانون نافذکرنیوالے اندھے نہیں ہونے چاہئےں۔ آئی جے آئی کی تشکیل سے سیاست میں ہلچل ضرور مچی۔ فوج نے پیسے تقسیم کرکے غلطی کی اور بدنامی مول لی۔ وہ یہ کام پیسوں کی تقسیم کے بغیر بھی کرسکتی تھی۔ آئی جے آئی کی تشکیل کے بعد جو انتخابی نتائج سامنے آئے کیا ان کو اُسی قسم کی دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے جیسی جنرل ضیا ءالحق و جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم اور ذوالفقار علی بھٹو کے کرائے گئے 1977 کے عام انتخابات میں ہوئی؟ فو ج کا سیاست میں قطعاً قطعاً کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے لیکن کونسی سیاست میں کس فطرت کے سیاستدانوں کی موجودگی میں؟ ہم چاہتے ہیں جمہوریت تو امریکہ و برطانیہ کی طرز کی ہو لیکن وہ دودھ ہمارے مفادات کے مطابق دے۔ ہماری90 فیصد آبادی انڈر میٹرک ہے، گو باشعور ہونے کیلئے سکول و کالج کی تعلیم ضروری نہیں۔ اس کے باوجود بھی باشعور ووٹر کی تعداد 15 فیصدسے زیادہ نہیں۔ ہمارے ہاں سیاست عموماً گلیوں، نالیوں، سڑکوں کی تعمیر ، کورٹ کچہری اور نوکریوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ برادری ازم بھی اہم فیکٹر ہے جب منتخب کرنے اور ہونیوالوں کا یہ معیار اہلیت اور قابلیت ہو گی تو جس قسم کی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی، آج کی پارلیمنٹ اور اکثر پارلیمنٹرین اسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اب پارلیمنٹ میں داخلے کیلئے گریجوایشن کی شرط ختم ہوچکی ہے جس سے ان پڑھوں پر بھی پارلیمنٹ کے دروازے کھل چکے ہیں۔ ان کو جعلی ڈگری کا تکلف بھی نہیں کرنا پڑیگا۔ حکومت سمیت کسی بھی ادارے کو ٹریک پر رکھنے کیلئے عدلیہ کا کردارناقابل فراموش ہے۔ ہمارے ہاں ہر حکمران نے عدلیہ کو رام کرنے کی کوشش کی، مشرف نے کچھ زیادہ ہی کی، سلطانی جمہور کے دور دورے کے باوجود بھی آج کی حکومت عدلیہ کے حوالے سے مشرف کی صحیح جاں نشین ثابت ہوئی ہے گو کہ عدالت پر حملہ نہیں ہوا۔ مشرف کی طرح ججوںکو قید نہیں کیا گیا مگر فیصلوں کی ایسی بے توقیری کبھی دیکھنے میں نہیں آئی جو آج آرہی ہے۔ 
مغربی طرز کی جمہوریت کو اس کی روح کے مطابق رائج کیاجائے تو حکمران آئین و قانون سے سرتابی کی جسارت نہیں کرتے۔ اگر کہیں کوئی تنازع ہوتو عدلیہ اپنا کردارادا کرتی اور ہر کوئی اس کے سامنے سرتسلیم خم کرلیتا ہے۔ پاکستان میں فوج ہمیشہ سے آج تک ایک طاقت رہی ہے کبھی پس آئینہ اور کبھی سر آئینہ، اس کی وجہ وہی کہ ہر کسی کے اندر سیاست اپنے رنگ اور ڈھنگ سے کرنے کی بے پا یاں خواہش مچلتی ہے تو آئین اور قانون کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ایسے میں بتائیے ریاست کو ڈوبنے دیاجائے اور جو اسے کسی بھی طریقے سے بچانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں کیا خاموش تماشائی بنے رہتے ہوئے ملک کی بربادی کا سامان اور اسے تباہ ہوتے دیکھتا رہیں؟ مغربی طرز سیاست قیامت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک آپ اس سیاست یا جمہوریت کیلئے وہی ماحول پیدا نہیں کردیتے جس میں مغربی جمہوریت پنپ رہی ہے۔ اس کیلئے سب سے بڑی اور شاید واحد ضرورت صد فی صدووٹرزکا باشعور ہونا ضروری ہے۔
سیدہ عابدہ حسین کا اعتراف قابل تحسین اور ہمارے سیاستدانوں، جرنیلوں ججوں اور بیورو کریٹس کیلئے قابل تقلید بھی ہے یہ بھی مہربانی فرمائیں۔ جس نے جو بھی غیر قانونی طریقے سے دولت کمائی ہے پاکستان کے خزانے میں جمع کرادیں بغیر منافع کے ہی سہی۔90 میں فوج سے وصولی کرنے والے بھی باضمیر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اعتراف فرما کر وصول شدہ رقمیں لوٹا دیں۔

Tuesday, October 23, 2012

روایتی‘ غیر روایتی میڈیا





روایتی‘ غیر روایتی میڈیا 23 اکتوبر 2012 0 روایتی میڈیا کی ترقی نے دنیا کو گلوبل ویلج بنایا تو غیر روایتی میڈیا نے دنیا کو ہر اس فرد کی ہتھیلی پر رکھ دیا جو سوشل میڈیا سے واقف اور اس کے استعمال کا فن جانتا ہے۔ اس فن میں مہارت کے لئے ماہ و سال کی ریاضت کی نہیں۔ محض کمپیوٹر تک رسائی اور ایک دو دن کی پڑھائی کی ضرورت ہے۔ بہت سے معاملات میں سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا پر سبقت حاصل کی ہے۔ روایتی میڈیا کے ذمہ دار بعض معاملات میں گومگو کا شکار اور مخمصے میں پڑے ہوتے ہیں کہ سوشل میڈیا حقائق آنا فاناً دنیا کے ایک کونے سے دوسرے تک پہنچا دیتا ہے۔ مبشر لقمان مہر بخاری اور ملک ریاض حسین کی آف دی ریکارڈ باتیں سوشل میڈیا کے ذریعے آن ائیر ہوئیں۔ رابعہ عمران کی بیکری ملازم سے گرم گفتاری اور محافظوں کے تشدد کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا میں بریک ہوئی جسے ٹی وی چینل آن ایئر کرنے سے گریز کرتے رہے تاہم ویڈیو جب ایک پر چلی تو مقابلے میں چینلز نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ملالہ کی پٹی بندھی تصویر خبر کے ساتھ ہی 10 اکتوبر کو اخبارات میں آگئی تھی۔ کوئین الزبتھ ہسپتال میں ہوش میں آنے کی تصویر 20 اکتوبر کو اخبارات میں شائع ہوئی۔ آج سوشل میڈیا میں دونوں تصویروں کا موازنہ بڑے زوروں پر جبکہ روایتی میڈیا خاموش ہے۔ بعض لوگ ٹی وی چینلز‘ اخبارات کے دفاتر اور کالم نگاروں کو فون کرکے اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ جس جگہ گولی لگی اور پٹی بندھی تھی وہ 20 اکتوبر کو شائع ہونے والی تصویر میں بالکل کلیئر ہے۔ کوئی زخم اور نہ زخم کا نشان‘ ملالہ پر حملے کو ڈرامہ قرار دینے والے متعدد سوالوں کا باصرار جواب مانگتے ہیں۔ مریض زندگی و موت کی کشمکش میں ہو تو پہلی ترجیح اسکی جان بچانا ہوتی ہے۔ پلاسٹک سرجری نہیں۔ جہاں پٹی بندھی‘ اس جگہ گولی لگنے سے زندہ رہنا ممکن نہیں۔ گولی ابرو کے اوپر لگی 10 دن میں زخم مندمل ہو گئے؟ ڈاکٹروں کے مطابق دماغ کا میجر آپریشن ہوا ڈاکٹروں نے سر کا بال تک نہیں کاٹا۔ ملالہ مریضہ ہے‘ انگریزوں کی قیدی نہیں۔ برمنگھم کے ہسپتال میں پاکستان کے سب سے بڑے نمائندے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو ملالہ کی تیمار داری کی اجازت نہیں دی گئی۔ فیس بک موبائل میسج اور ای میلز سوشل میڈیا میں اہم ترین ہیں۔ اس میڈیا میں ہر طبقہ فکر کے لئے اس کے مطلب کا سامان ہے۔ آپ کو قرآن و احادیث کے مطالب اور مفاہیم مل سکتے ہیں۔ بزرگوں کے اقوال موجود ہیں۔ فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے کی مطلب براری ہو سکتی ہے۔ کسی بھی شعبہ کے طالب علموں کےلئے یہ میڈیا ایک چشمہ و سرچشمہ ہے۔ گویا وہ کیا ہے جو سوشل میڈیا پر موجود نہیں۔ سیاستدانوں و حکمرانوں کی تعریف‘ تذلیل اور ان پر تنقید سمیت سب کچھ ہے۔ آپ جہاں کسی کی سن سکتے ہیں اپنی کہہ بھی سکتے ہیں جو پورا زمانہ دیکھے اور سنے گا۔ فیس بک پر کسی صاحب نے ایک سبق آموز کہانی چسپاں کی ہے۔ جو ہمارے سیاسی حالات کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔ ایک شہنشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گزر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ بستی کے باشندے شہنشاہ اعظم کو مہمان کی طرح ساتھ لے کر اپنے سردار کی رہائش گاہ پر پہنچے جو صرف ایک جھونپڑی پر مشتمل تھی۔ سردار نے اس کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے شہنشاہ کی تواضع کی.... کچھ دیر میں دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا علیہ کی حیثیت سے اندر داخل ہوئے۔ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی تھی۔ مدعی نے کہا۔ ”میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں لیتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس سے صرف زمین خریدی تھی۔ اور اسے صرف زمین کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں“ مدعا علیہ نے جواب میں کہا ”میرا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں‘ میں نے تو اس کے ہاتھ زمین فروخت کردی تھی۔ اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے۔“ سردار نے غور کرنے کے بعد مدعی سے دریافت کیا۔”تمہارا کوئی لڑکا ہے؟“ ”ہاں ہے!“ پھر مدعا علیہ سے پوچھا۔ ”اور تمہاری کوئی لڑکی بھی ہے؟“ ”جی ہاں....“ مدعا علیہ نے بھی اثبات میں گردن ہلا دی۔ ”تو تم ان دونوں کی شادی کرکے یہ خزانہ ان کے حوالے کردو۔“ اس فیصلے نے شہنشاہ کو حیران کردیا۔ سردار نے متردد شہنشاہ سے دریافت کیا۔ ”کیوں کیا میرے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟“ ”نہیں ایسی بات نہیں ہے۔“ شہنشاہ نے جواب دیا۔ ”لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔“ سردار نے سوال کیا۔ ”اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟“شہنشاہ نے کہا کہ۔ ” پہلی تو بات یہ ہے کہ اگر یہ معاملہ ہمارے ملک میں ہوتا تو دونوں خزانے کی مالیت کے لئے آپس میں لڑ پڑتے۔سردار نے شہنشاہ سے پوچھا کہ ، پھر تم کیا فیصلہ سناتے؟ شہنشاہ نے اس کے ذہن میں موجود سوچ کے مطابق فورا جواب دیا کہ: ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کردیا جاتا۔“ ”بادشاہ کی ملکیت!“ سردار نے حیرت سے پوچھا۔ ”کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے؟“ ”جی ہاں کیوں نہیں؟“ ”وہاں بارش بھی ہوتی ہے....“ ”بالکل!“ ”بہت خوب!“ سردار حیران تھا۔ ”لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائے جاتے ہیں جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں؟“ ”ہاں ایسے بے شمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔“ ”اوہ خوب‘ میں اب سمجھا۔“ سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔ ”تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کر رہی ہے۔ یہ کہانی صرف ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں ہی پر منطبق نہیں ہوتی ہمارے رویوں کی بھی چغلی کھاتی ہے۔ ہم ایسی ہی روایات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ سو‘ سوا سو سال زندگی ہو وہ بھی ٹک ٹک کرکے گزر جاتی ہے۔ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے زندگی لمحہ لمحہ کرکے اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہے۔ انجام موت ہے اسکے سوا کچھ نہیں۔ لوٹ مار‘ دوسروں کا حق مارنے‘ ان کو ستانے اور رلانے سے کیا حاصل؟ چند روزہ عارضی مفادات اور پھر اس کا حساب تو ہونا ہی ہے۔ کیوں نہ کچھ ایسا کر جائیں کہ انسانیت کی بھلائی ہو اور موت کے بعد انسان آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں ۔نہ کہ کہیں مر گیا مردود۔

Friday, October 19, 2012

صدمات پر کڑھنے‘ غیروں کی بارات پر اچھلنے والی

صدمات پر کڑھنے‘ غیروں کی بارات پر اچھلنے والی قوم ملالہ پر حملے کا پوری دنیا میں عوامی اور حکمرانی‘ دونوں سطحوں پر شدید ردعمل ہوا۔ حملے کی کسی نے حمایت نہیں کی۔ جن کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں وہ بھی طالبان کی طرح نہیں بولے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ کارروائی ان قوتوں کی پلاننگ‘ منصوبہ بندی یا سازش ہے جو شمالی وزیرستان میں آپریشن کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسرے حلقے کی رائے ہے کہ جب طالبان خود ذمہ داری قبول کر رہے تو پھر کسی سازش کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب رحمان ملک نے طالبان ترجمان احسان اللہ کے سر کی قیمت بھی مقرر کر دی ہے اس کے ساتھ ہی ملالہ کے لئے تمغہ شجاعت کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ طالبان ترجمان میڈیا سے گھنٹوں گفتگو کرتے ہیں۔ جبکہ اسامہ کا ٹھکانہ صرف ایک خفیہ چند لمحاتی کال سے ڈھونڈ نکالا گیا تھا۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ طالبان کی ایک ہی تنظیم ہے یا یہ گروپوں میں بٹے ہیں۔ ان کا افغان طالبان سے بھی کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ کرنل امام اور خالد خواجہ تو طالبان کے بڑے حامی اور ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ وہ دونوں طالبان کے کس گروپ کے ہاتھوں مار دئیے گئے؟ ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان کی اب ایک اور وضاحت سامنے آئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ملالہ کو تعلیم کی وجہ سے نشانہ نہیں بنایا گیا۔ وہ امریکہ کی حامی اور طالبان کی مخالف تھی۔ وہ امریکہ کے لئے جاسوسی کرتی تھی۔ جنگ میں دشمن کا ساتھ دینے والوں کو ہلاک کرنا جائز ہے۔ ملالہ پر حملے کی مذمت بلاشبہ ہر کسی نے کی لیکن اس کے ساتھ میڈیا میں اس واقعہ کی اس سطح پر پذیرائی اور کچھ حلقوں کی طرف سے پرجوش حمایت پر یہ سوال بھی اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا لال مسجد اور دہشت گردی کی جنگ میں مرنے والی اور ملالہ کے ساتھ زخمی ہونے والی بچیاں قوم کی بیٹیاں نہیں؟ عافیہ صدیقی کے لئے ایسے جذبات کیوں نہیں؟ اب شاید ملالہ کو تمغہ ملنے پر بھی تنقید ہو۔ جہاں ہمیں حقائق سے چشم پوشی نہیںق کرنی چاہئے۔ ردعمل‘ حمایت‘ مخالفت یا مخاصمت فرد یا شخص کی اہمیت کے مطابق ہوتی ہے۔ بے نظیر بھٹو قتل ہوئیں۔ کتنے پاکستانی ہیں جو محترمہ کے ساتھ اسی جگہ جاں بحق ہونے والوں کے نام جانتے ہیں؟ چلئے کسی ایک کا نام ہی بتا دیجئے؟ سوائے ان کے لواحقین عزیزوں دوستوں یا پارٹی والوں کے کسی کو بھی معلوم نہیں۔ اجتماعی قتل جیسے روزانہ پرتشدد واقعات ہوتے ہیں لیکن لاہور میں ایک سیاسی خاندان کی بیٹی کے گارڈوں کے بیکری ملازم پر تشدد کی طرح کتنے واقعات اچھلتے ہیں؟ ہر لڑکی ملالہ نہیں ہو سکتی۔ اسے برطانیہ لے جانے پر بھی لے دے ہو رہی ہے۔ اگر عوامی نمائندے سرکاری خرچ پر علاج کے لئے بیرون ممالک جا سکتے ہیں تو ملالہ کے جانے پر بھی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ اعلان کیا گیا ہے کہ ملالہ کا علاج سرکاری خرچے پر ہو گا۔ اس سے قبل صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری اور شہباز پاکستان میاں محمد شہباز شریف ملالہ کے علاج کے اخراجات اپنی جیب سے اٹھانے کا الگ الگ اعلان فرما چکے ہیں برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال سے بل آنے پر حکومت یہ بل دونوں صاحبان کو بھجوا دے۔ ایک کے پیسے ہسپتال کو بھجوا دئیے جائیں دوسرے کی رقم سے دہشت گردی کی جنگ اور لال مسجد میں شہید ہونے والی بچیوں کی اسلام آباد میں یادگار تعمیر کر دی جائے۔ ملک میں دہشت گردی‘ مہنگائی اور لاقانونیت جیسی خرابات کی بھرمار سے قوم صدمات سے دوچار تھی کہ سری لنکا میں ہونے والے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں پاکستان نے بھارت کو مات کرکے گویا سومنات کا مندر گرا لیا جس سے قوم کے چہرے کھل اٹھے۔ تمام دکھ درد دور ہوئے اور جشن منایا گیا۔ چند ماہ قبل راجیش کھنہ کا انتقال ہوا تو کیبلائی ہوئی قوم افسردہ تھی۔ اب لوگوں کے چہرے سیف علی اور کرینہ کپور کی شادی پر کھل اٹھے ہیں۔ ملالہ کا صدمہ کافور ہو رہا ہے۔ سنا تھا سیف علی خان نے شادی کے لئے کرینہ کپور کے مسلمان ہونے کی شرط رکھی تھی۔ بندھن کے بعد دونوں کی جو تصویر سامنے آئی اس میں پٹودی ریاست کے نواب بالکونی میں کھڑے ہو کر اپنے پرستاروں کو ہاتھ باندھ کر نمستے کر رہے ہیں۔ 32 سالہ ناری نے 42 سالہ دو بچوں کے باپ سے شادی کے لئے بھی کوئی شرط نہ رکھی ہوئی ہو؟ اور سنئے علمائے کرام نے بغیر نکاح کے شادی کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔ بہرحال اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہندو نام اختیار کرکے بھارتی فلموں میں کامیابی کے پھریرے لہرانے والے دلیپ کمار اور راج کمار جیسے اداکار ہماری آنکھوں کا تارا ہیں۔ سیف علی نے نیا دھرم اختیار کر لیا تو نو پرابلم! نام تو مسلمانوں جیسا ہے۔ صدمات پر کڑھنا اور غیروں کی بارات پر خوشی سے ا ±ڑنا کودنا‘ ناچنا اور اچھلنا کوئی ہم سے سیکھے۔ چلئے اگلے وار تک مسکراہٹیں تو ہمارے لبوں پر آئیں۔

Thursday, October 18, 2012

صدمات پر کڑھنے‘ غیروں کی بارات پر اچھلنے والی قوم

ملالہ پر حملے کا پوری دنیا میں عوامی اور حکمرانی‘ دونوں سطحوں پر شدید ردعمل ہوا۔ حملے کی کسی نے حمایت نہیں کی۔ جن کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں وہ بھی طالبان کی طرح نہیں بولے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ کارروائی ان قوتوں کی پلاننگ‘ منصوبہ بندی یا سازش ہے جو شمالی وزیرستان میں آپریشن کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس دوسرے حلقے کی رائے ہے کہ جب طالبان خود ذمہ داری قبول کر رہے تو پھر کسی سازش کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب رحمان ملک نے طالبان ترجمان احسان اللہ کے سر کی قیمت بھی مقرر کر دی ہے اس کے ساتھ ہی ملالہ کے لئے تمغہ شجاعت کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ طالبان ترجمان میڈیا سے گھنٹوں گفتگو کرتے ہیں۔ جبکہ اسامہ کا ٹھکانہ صرف ایک خفیہ چند لمحاتی کال سے ڈھونڈ نکالا گیا تھا۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ طالبان کی ایک ہی تنظیم ہے یا یہ گروپوں میں بٹے ہیں۔ ان کا افغان طالبان سے بھی کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ کرنل امام اور خالد خواجہ تو طالبان کے بڑے حامی اور ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ وہ دونوں طالبان کے کس گروپ کے ہاتھوں مار دئیے گئے؟ ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان کی اب ایک اور وضاحت سامنے آئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ملالہ کو تعلیم کی وجہ سے نشانہ نہیں بنایا گیا۔ وہ امریکہ کی حامی اور طالبان کی مخالف تھی۔ وہ امریکہ کے لئے جاسوسی کرتی تھی۔ جنگ میں دشمن کا ساتھ دینے والوں کو ہلاک کرنا جائز ہے۔ ملالہ پر حملے کی مذمت بلاشبہ ہر کسی نے کی لیکن اس کے ساتھ میڈیا میں اس واقعہ کی اس سطح پر پذیرائی اور کچھ حلقوں کی طرف سے پرجوش حمایت پر یہ سوال بھی اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا لال مسجد اور دہشت گردی کی جنگ میں مرنے والی اور ملالہ کے ساتھ زخمی ہونے والی بچیاں قوم کی بیٹیاں نہیں؟ عافیہ صدیقی کے لئے ایسے جذبات کیوں نہیں؟ اب شاید ملالہ کو تمغہ ملنے پر بھی تنقید ہو۔ جہاں ہمیں حقائق سے چشم پوشی نہیںق کرنی چاہئے۔ ردعمل‘ حمایت‘ مخالفت یا مخاصمت فرد یا شخص کی اہمیت کے مطابق ہوتی ہے۔ بے نظیر بھٹو قتل ہوئیں۔ کتنے پاکستانی ہیں جو محترمہ کے ساتھ اسی جگہ جاں بحق ہونے والوں کے نام جانتے ہیں؟ چلئے کسی ایک کا نام ہی بتا دیجئے؟ سوائے ان کے لواحقین عزیزوں دوستوں یا پارٹی والوں کے کسی کو بھی معلوم نہیں۔ اجتماعی قتل جیسے روزانہ پرتشدد واقعات ہوتے ہیں لیکن لاہور میں ایک سیاسی خاندان کی بیٹی کے گارڈوں کے بیکری ملازم پر تشدد کی طرح کتنے واقعات اچھلتے ہیں؟ ہر لڑکی ملالہ نہیں ہو سکتی۔ اسے برطانیہ لے جانے پر بھی لے دے ہو رہی ہے۔ اگر عوامی نمائندے سرکاری خرچ پر علاج کے لئے بیرون ممالک جا سکتے ہیں تو ملالہ کے جانے پر بھی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ اعلان کیا گیا ہے کہ ملالہ کا علاج سرکاری خرچے پر ہو گا۔ اس سے قبل صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری اور شہباز پاکستان میاں محمد شہباز شریف ملالہ کے علاج کے اخراجات اپنی جیب سے اٹھانے کا الگ الگ اعلان فرما چکے ہیں برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال سے بل آنے پر حکومت یہ بل دونوں صاحبان کو بھجوا دے۔ ایک کے پیسے ہسپتال کو بھجوا دئیے جائیں دوسرے کی رقم سے دہشت گردی کی جنگ اور لال مسجد میں شہید ہونے والی بچیوں کی اسلام آباد میں یادگار تعمیر کر دی جائے۔ ملک میں دہشت گردی‘ مہنگائی اور لاقانونیت جیسی خرابات کی بھرمار سے قوم صدمات سے دوچار تھی کہ سری لنکا میں ہونے والے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں پاکستان نے بھارت کو مات کرکے گویا سومنات کا مندر گرا لیا جس سے قوم کے چہرے کھل اٹھے۔ تمام دکھ درد دور ہوئے اور جشن منایا گیا۔ چند ماہ قبل راجیش کھنہ کا انتقال ہوا تو کیبلائی ہوئی قوم افسردہ تھی۔ اب لوگوں کے چہرے سیف علی اور کرینہ کپور کی شادی پر کھل اٹھے ہیں۔ ملالہ کا صدمہ کافور ہو رہا ہے۔ سنا تھا سیف علی خان نے شادی کے لئے کرینہ کپور کے مسلمان ہونے کی شرط رکھی تھی۔ بندھن کے بعد دونوں کی جو تصویر سامنے آئی اس میں پٹودی ریاست کے نواب بالکونی میں کھڑے ہو کر اپنے پرستاروں کو ہاتھ باندھ کر نمستے کر رہے ہیں۔ 32 سالہ ناری نے 42 سالہ دو بچوں کے باپ سے شادی کے لئے بھی کوئی شرط نہ رکھی ہوئی ہو؟ اور سنئے علمائے کرام نے بغیر نکاح کے شادی کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔ بہرحال اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہندو نام اختیار کرکے بھارتی فلموں میں کامیابی کے پھریرے لہرانے والے دلیپ کمار اور راج کمار جیسے اداکار ہماری آنکھوں کا تارا ہیں۔ سیف علی نے نیا دھرم اختیار کر لیا تو نو پرابلم! نام تو مسلمانوں جیسا ہے۔ صدمات پر کڑھنا اور غیروں کی بارات پر خوشی سے ا ±ڑنا کودنا‘ ناچنا اور اچھلنا کوئی ہم سے سیکھے۔ چلئے اگلے وار تک مسکراہٹیں تو ہمارے لبوں پر آئیں۔

Tuesday, October 16, 2012

آپریشن بے سمت و ناحق کی تیاری؟






آپریشن بے سمت و ناحق کی تیاری؟

16 اکتوبر 2012 0   

ملالہ پر 9 اکتوبر 2012ءکو بہیمانہ اور سفاکانہ حملے کے پس پردہ حقائق اور محرکات جو بھی ہوں۔ اس دلدوز واقعہ جس میں دیگر دو بچیاں شازیہ اور کائنات بھی زخمی ہوئیں‘ سے فوری طور پر فائدہ ان قوتوں‘ طبقوں اور حلقوں نے اٹھایا جو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان کے اندر اس جنگ میں سرگرم کرداروں اور ان کے حامیوں کے لئے ایک خاص سوچ اور ذہنیت رکھتے ہیں۔ امریکہ اس کے اتحادی ممالک اور حامیوں کی طرف سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ جس کو سیاسی و فوجی قیادت نے کبھی خاص پذیرائی نہیں بخشی۔ ملالہ پر حملے کے ساتھ ہی شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے مطالبات میں شدت آگئی۔ شاید کچھ لوگ اسے اتفاق قرار دیں کہ ایسے مطالبات کو مزید تقویت کے عوامل اور مظاہر بھی سامنے آرہے ہیں۔ مولوی فضل اللہ کی طرف سے ملالہ کے والد اور سکول ہیڈ ماسٹر کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں، طالبان ترجمان کی جانب سے ملالہ کو زندہ نہ چھوڑنے کا بیان‘ سیکورٹی اہلکاروں پر حملوں اور خودکش دھماکوں میں تیزی کی خبروں سے یوں لگتا ہے جیسے شدت پسند پوری دنیا کو للکار رہے ہیں۔ گستاخانہ فلم کے خلاف احتجاج بھی ملالہ پر حملے کے باعث پسِ منظر میں چلا گیا۔ اس کا فائدہ کس کو ہوا؟ پاک فوج نے متعدد جنگیں لڑیں اور آپریشن کئے۔ آپریشن جیرالڈ آپریشن مڈنائٹ جیکال‘ آپریشن سائلنس‘ آپریشن راہ حق‘ آپریشن راہ نجات اور آپریشن راہ راست کے حوالے سے پاک فوج کے حصے میں نیک نامی سے زیادہ بدنامی آئی۔ حالانکہ یہ فوجی آپریشن حکومتوں کے حکم پر ہوئے تھے۔ اچھائی برائی بھی حکومت کے کھاتے میں ہی جانی چاہئے۔ ایک وہ وقت تھا کہ بسوں ٹرکوں اور دکانوں و مکانوں کے ماتھے پر پاک فوج کو سلام لکھا ہوتا تھا ایک موقع آیا کہ لال مسجد پر آپریشن سائلنس کے بعد فوج کو عوامی غیظ و غضب کا سامنا تھا۔ اس پر فوجیوں کو اپنے ہی وطن میں اپنے ہی لوگوں کے درمیان جانے کے لئے بھی اپنی شناخت چھپانے کی ہدایت کی گئی۔ یقیناً سیاستدانوں کی طرح فوج کو عوام میں مقبولیت کی ضرورت نہیں۔ فوج کا دلوں میں احترام ہونا چاہئے۔ مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کو ملوث کرکے اسے کچھ حلقوں کے لئے متنازعہ بنا دیا۔ پرامن قبائلیوں کو شدت پسند بنانے اور فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر بھی مشرف کی پالیسیوں نے مجبور کیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پاک فوج اور سیاسی حکومت بھی اس جنگ کو اپنی جنگ کہتی ہے جس کا معاوضہ ڈالروں میں وصول کیا جاتا ہے۔ اگر یہ آپ کی اپنی جنگ ہے تو اپنے وسائل سے لڑیں۔ امریکی مطالبات پر اس میں توسیع کیوں کی جاتی ہے؟
شمالی وزیرستان میں آپریشن سے انکار کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ (1) فوج وہاں کے قبائل کو پاکستان دشمن نہیں سمجھتی یا (2) وہ اتنے طاقتور ہیں کہ فوج آپریشن سے خائف ہے۔ فوج نے سوات میں آپریشن کیا۔ جنوبی وزیرستان میں آپریشن کیا وہ ہنوز سیاسی حکومت سے نہیں سنبھلے۔ 
2009ءکے وسط میں ہونے والے آپریشن راہ راست نے سوات میں لڑکی کو کوڑے لگائے جانے کے ڈرامہ اور آپریشن راہ نجات نے جی ایچ کیو پر حملے کے واقعہ سے جنم لیا تھا۔ شدت پسند فوج کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو مہران نیول اور کامرہ ائر بیس میں گھس کر مسلح افواج کی آنکھوں میں سلائی پھرتے ہوئے جانیں گنوانے کی ضرورت نہیں۔ ان حملوں کے پیچھے ان قوتوں کا ہاتھ ہے جو پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں سے خوفزدہ ہیں اور اس کے لئے استعمال ہونے والوں کو ملت فروش اور وطن کے غدار سے کم کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اب ملالہ پر حملے کے واقعہ سے ایک اور آپریشن کی بازگشت ایک گونج اور دھماکہ بنتی جا رہی ہے۔ رحمن ملک فرماتے ہیں حکومت آپریشن پر غور کر رہی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ پاکستان میں ملالہ حملہ کے خلاف سامنے آنے والے شدید ردعمل پر کہتی ہیں عوام طالبان کے شدید مخالف ہو گئے۔ حکومت کو ان کا پیچھا کرنے میں مدد ملے گی۔ گویا وہ لوہا گرم ہونے کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ اب الطاف بھائی نے بھی کہہ دیا ہے کہ فوج طالبان کو نیست و نابود کر دے۔ فوج کی طرف سے شمالی وزیرستان میں آپریشن پر دیرینہ موقف میں بھی پہلے جیسا دم خم نہیں۔ فوج سیاسی حکومت کے احکامات کی پابند ہے‘ تاہم حکومت نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے فیصلے کا اختیار پاک فوج کو دیا ہوا ہے۔ وہ آپریشن سے قبل ہزار بار سوچے۔ اس حقیقت کو کسی لمحے فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ کوئی بھی جنگ عوامی حمایت کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ کیا وہ جنگ جسے فوج اور حکومت اپنی جنگ قرار دیتی ہے قوم کو بھی اس سے اتفاق ہے؟ پارلیمنٹ قوم کی نمائندہ ہوتی ہے۔ آج کی پارلیمنٹ میں اکثریت مفادات کے اسیروں اور امریکہ کے فقیروں کی ہے۔ کیا یہ پارلیمنٹ بھی سیاسی و عسکری قیادت کی سوچ سے متفق ہے؟ حکمران جس پارلیمنٹ کو سپریم کہتے ہیں اس کو بھی بے توقیر کر دیتے ہیں۔ ڈرون حملوں کے خلاف قراردادوں پر کبھی عمل نہیں ہوا۔ پرسوں قومی اسمبلی نے تیل کی قیمتوں میں ردوبدل کو ہفتہ وار کی بجائے ماہانہ بنیادوں پر لانے کی متفقہ قرارداد منظور کی کل حکومت نے اسے جوتے کی نوک پر رکھ کے ہفتہ واری ردوبدل کے فارمولے پر عمل کر دکھایا۔ دوسری طرف دیکھئے اوورسیز کال ریٹس میں پارلیمنٹ کو پوچھے بغیر ہی کئی گنا اضافہ کر دیا جس پر تارکین وطن اور ان کے پاکستان میں موجود عزیز رشتہ دار سخت پریشان ہیں۔ بھارت بنگلہ دیش کے لئے عرب ممالک سے کال 30 سے 35 پیسے فی منٹ ہے پاکستان کے لئے 16 روپے منٹ کر دی گئی۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سے سالانہ 6 ارب ڈالر کا فائدہ ہو گا۔ تارکین وطن کالیں سے پہلے کی طرح کریں گے تو فائدہ ہو گا؟ پھر یہ 6 ارب ڈالر قومی خزانے میں نہیں۔ کابینہ میں موجود پھرتی دکھانے والوں کے بے پیندا پیٹوں میں اتر جائیں گے۔ اس نئے ٹیکس کے بارے میں حکومت نے پارلیمنٹ کو بتانا گوارہ کیا نہ پارلیمنٹ نے پوچھنے کو اپنا فرض سمجھا۔
صدر صاحب کا اچھا اقدام ہے کہ انہوں نے ملالہ کا علاج اپنے خرچے پر کرانے کا علان کیا اس اعلان کے تیسرے روز انہوں نے فرمان جاری کیا کہ شازیہ اور کائنات کا علاج سرکاری خرچ پرکیا جائے اس کا مطلب کہ ان زخمی بچیوں کو نظرانداز کیا گیا تھا۔ ملالہ کے لئے کچھ لوگ واقعی ہمدردی پیار اور محبت کا اظہار کرتے ہیں کچھ جذبات کی لہر میں اس کو مافوق الفطرت اور دیومالائی کردار بھی بنا دیتے ہیں حالانکہ وہ ایک مسلمہ روایات کے معاشرے میں جدت کی علامت ہے اور یہی اعزاز اس کے لئے کافی ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنے آقا¶ں کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ واہ رے قوم‘ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ملالہ کے لئے آنسو بہانا درست ہے۔ اگر ایسے ہی جذبات کا اظہار دہشت گردی کی جنگ کے دوران اور لال مسجد اپریشن میں مرنے والی ہر بچی کے لئے کیا جاتا تو ان کے والدین کا آدھا غم کم ہو جاتا۔ حکمرانوں نے عافیہ صدیقی کو ملالہ کی طرح اپنی بیٹی سمجھا ہوتا تو وہ آج اپنے ملک میں اپنے خاندان اور ہم وطنوں کے درمیان ہوتی۔
حرف آخر یہ کہ فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کے تذبذب سے نکلے۔ ماضی کے آپریشنز کے نتائج و عواقب کو ایک بار پھر جانچ لے۔ اسلم بیگ اور حمید گل جیسے جرنیلوں کی رائے کو تو لے اور پھر جو بھی فیصلہ کرے اس پر ڈٹ جائے۔ یہ بھی مدنظر رکھے کہ ملالہ پر حملہ کہیں فوج کو ٹریپ میں لاکر شمالی وزیرستان پر حملہ کی راہ ہموار کرنا تو نہیں ہے۔ جلدی میں کیا جانے والا آپریشن، آپریشن بے سمت اور آپریشن ناحق ثابت ہو سکتا ہے۔


دہری شہریت۔ڈبل ایجنٹ؟


     
دہری شہریت۔ڈبل ایجنٹ؟

14 اکتوبر 2012 0   

ہیرالڈفلبی1930کی دہائی میں برطانوی جاسوس ادارے ایم آئی سکس کا ایجنٹ تھا۔اس نے تیس سال تک بڑے بڑے آپریشنز میں حصہ لیا۔ بادشاہ اور ریاست برطانیہ کیلئے بے پایاں خدمات کے اعتراف میں اسے کنگ جارج پنجم نے آرڈر آف دی برٹش ایمپائر کے اعزازسے سرفراز فرمایا تھا۔ ایک موقع پر اس کی سرگرمیاں مشکوک ہوئیں تو وہ 1970 میں فرار ہوکر روس جاپہنچا۔ جہاںاس کا والہانہ استقبال ہوا اس کا اعزاز یہ مقرر کیا گیا ۔رہائش کیلئے محل نما رہائش گاہ فراہم کی گئی اور اعلیٰ ترین روسی ایوارڈ آرڈر آف دی ریڈ بینر بھی دیا گیا۔عقدہ کھلا کہ وہ ڈبل ایجنٹ کا کردارادا کر رہا تھا۔دنیا میں آج بھی کئی جاسوس ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ان کی تعداد لاکھوں میں چند ایک ہوسکتی ہے لیکن پوزیشن سب کی مشکوک ٹھہرتی ہے۔
آج کل دُہری شہریت کا معاملہ گرم ہے۔سپریم کورٹ نے 11ارکان کو دہری شہریت رکھنے پر نا اہل قرار دیا کچھ ارکان اپنے طورپر رکنیت چھوڑ رہے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل63کے تحت دہری شہریت رکھنے والا الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے سکتا اس کے باوجود بھی الیکشن لڑا جائے تو اسے آئین کی خلاف ورزی کیوں قرار نہ دیاجائے ؟ اب شاید کئی ارکانِ اسمبلی و سینٹ دُبکے بیٹھے ہوں۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمشن تمام ارکان سے دہری شہریت کے حوالے سے حلف لینے پر کاربند ہے۔ اس اقدام پر کچھ پارلیمنٹرین ناخوش اور اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی توہین قرار دے رہے ہیں۔حلف دینے والوں کو اگر کوئی پریشانی ہے تو اس کا سبب وہ لوگ ہیں جنہوں نے دھوکہ دہی کی۔ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا اور ان میں سے کچھ پکڑے گئے۔ رحمن ملک کہتے ہیں کہ اب بھی پارلیمنٹ میں دُہری شہریت والے موجود ہیں لیکن وہ نشاندہی نہیں کرتے اگر سپریم کورٹ نے 11ارکان کو نا اہل قرار نہ دیاہوتا تو کوئی بھی رضا کارانہ استعفےٰ نہ دیتا۔ ویسے جن لوگوں نے دانستہ آئین و قانون کو پامال کیا ان کی صحت پر حلف نامے داخل کرانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ایک بار نہیں،بار بار سہی، خواہ ہزار با ر سہی۔
دہری شہریت کوئی جرم نہیں یہ خود ان کے اور پاکستان کیلئے اعزاز ہے۔ان کی اپنے خاندانوں اور وطن کیلئے بڑی خدمات ہیں۔ بگڑے ہوئے لوگ پاکستان میں ہوں یا کسی دوسرے ملک،ان کی اکہری شہریت ہویا دُہری ان میں معاشرتی اوصاف یکساں موجود رہتے ہیں۔ دیانتدار پاکستانیوں کی اکثریت ہے تاہم دونمبری کرنے والے بھی کم نہیں۔پارلیمنٹ میں جہاں جعلی ڈگری والے موجود ہیں وہیں دہری شہریت والے بھی پائے گئے۔قانو ن اور اخلاقیات کو جوتے کی نوک پررکھنے والو ں میں اکہری اور دہری شہریت والے دونوں شامل ہیں۔ دہری شہریت کے باوجود پارلیمنٹ میں گھسنے کی خواہش اور کوشش ہمارے معاشرے میں سرایت کرجانے والے بگاڑ کی ایک جھلک ہے۔
پاکستان دشمن طاقتوں کو ڈبل ایجنٹ تو وطن عزیز کے اندر سے بھی دستیاب ہوجاتے ہیں۔تاہم اپنے ہاں موجود ہونیوالوں کو زیادہ آسانی سے دام الفت میں پھنسا کر ان کی تربیت بھی کرسکتے ہیں۔معین قریشی اور شوکت عزیز نے زندگیاں تو بیرون ملک گزاریں حکمرانی کیلئے پاکستان بھجوا دئیے گئے۔ شوکت عزیز جس ہندو متل کی نوکری چھوڑ کر آیا تھا اُسی کی چاکری پھر شروع کردی۔ اسے تو ایٹمی معائنہ بھی کرادیا گیا۔خدا پاکستان کو اپنی حفظ امان میں رکھے اور چوروں سے محفوظ فرمائے۔دہری شہریت والا ہر کوئی ڈبل ایجنٹ اور بکاﺅ نہیں البتہ ان میں سے چند ایک باقیوں کی پوزیشن کو بھی خراب کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی اعلیٰ عہد ے پر پہنچ جائے تو یوں سمجھئے پورا پاکستان اور اسکی حساس تنصیبات دشمن کی ہتھیلی پر آگئی ہیں۔ ایسے ایجنٹوں سے بچنے کی ضرورت ہے خواہ وہ کسی بھی بھیس میں ہوں۔ چیف الیکشن کمشنر نے درست کہا کہ پارلیمنٹ خالص اور مکمل پاکستانیوں کی ہونی چاہئے۔ دہری شہریت والے جب دوسرے ممالک کی شہریت کیلئے اُس ملک کی خاطر ہتھیار اٹھانے اور ملکہ و بادشاہ سے وفاداری کی قسم کھاتے ہیں تو اس قسم سے وہ اپنے مکمل پاکستانی ہونے کا حق کھودیتے ہیں۔ ان کی عزت تکریم شہرت و دولت بنیادی طورپر پاکستان ہی کی بدولت ہے۔اگر انہوں نے سیاست کرنی ہے تو خالص پاکستانی بن کر کریں،مکمل پاکستانی بن کر کریں۔تاہم یہ صرف دہری شہریت والوں پر ہی موقوف نہیں ۔حساس عہدوں پر خواہ وہ جج ہوں یا بیور و کریٹ ہوں یاعسکری اداروں سے متعلق ،کسی کی بھی دہری شہریت نہیں ہونی چاہئے۔

Thursday, October 11, 2012

بے پَر



بے پَر

وہ گلستاں تو نااہلی کے فیصلے کی ل ±و سے ہی جھلس گیا جس میں سید یوسف رضا گیلانی کا نشیمن تھا۔ ایوان صدر اور وزیراعظم راجہ کو موضوع بحث بنا کر اب انہوں نے خود اس پر بجلیاں گرا دی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے صدر زرداری کے استثنیٰ پر اپنی وزارت عظمیٰ نچھاور کرتے ہوئے وفاداری کا ہمالہ ان کے قدموں میں ڈھیر کر دیا اور توقع یہ لگا لی کہ وہ اپنی اسی قربانی کے انعام میں وزارت عظمیٰ کے اختیارات بدستور استعمال کرتے رہیںگے۔ صدر کے استثنیٰ پر قربان ہو جانا‘ گیلانی کا بڑا احسان تھا لیکن ان کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھانا بہت بڑا احسان تھا۔ بہت ہی بڑا احسان! مگر جب امیدیں بر نہیں آتیں تو دل جلتے اور دل کے ارمان پگھلتے ہیں۔ یہی کچھ گیلانی مخدوم کے ساتھ ہوا۔ شاہ محمود قریشی سے وزارت خارجہ چھنی تو وہ بغیر وزارت اور اپنے خرچے پر کئی ماہ پیپلز پارٹی کے ڈسپوزل پر رہے۔ گیلانی 19جون 2012ئ کو وزارت عظمیٰ سے ہٹے تو وزیراعظم ہا¶س سے سیدھے ایوان صدر منتقل ہو گئے۔ آج مجموعی اثاثوں کی مالیت کے لحاظ سے موسیٰ پاک کے گدی نشین گیلانی خاندان کا شمار ملک کے چند امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے۔ 2008ئ کے الیکشن سے قبل مالی حالات مختلف تھے۔ ان کی حکومت کے دوران سابق وزرائے اعظم کے لئے خصوصی مراعات کا قانون بھی بن چکا ہے۔ جس کے وہ خود بھی حقدار ہیں۔ پھر ان کو ایوان صدر میں قیام پذیر ہونے کی کیا ضرورت تھی؟کیااس خواہش کے ساتھ بیٹھ گئے کہ سابقہ اختیارات استعمال کریں کرتے رہیں گے؟ وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد بھی وہ چند اجلاسوں میں نئے وزیراعظم کے شانہ بشانہ تھے پھر رفتہ رفتہ چراغ الفت بجھتے چلے گئے اور بات گیلانی صاحب کے اس بیان پر پہنچ گئی کہ ”میرے کچھ پر عدلیہ اور کچھ بیورو کریسی نے کاٹے۔ اب میں اپنے پروں اور اڑوں گا“ اگلے دن ذرا سا غصے میں دکھائی اور سنائی دئیے کہ ایوان صدر کے دروازے سے میرے بیٹے کو گرفتار کیا۔ حکومت بے بس دکھائی دی۔ دہری شہریت پر رونے والے پارلیمنٹیرین کو میرے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر رونا چاہئے تھا“ وغیرہ وغیرہ۔ گیلانی صاحب نے پر کٹنے کی بات کی یہ نہیں بتایا کہ پر باز کے کٹے یا شہباز کے؟ چلئے پر کٹنے کا انکشاف کیا،کیا ناک سلامت ہے؟ البتہ برائلر کے کٹے پر اس کی پرواز میں مخل ہو سکتے ہیں نہ سلامت ہونے پر اس کی پرواز میں بلندی پیدا کر سکتے ہیں۔ اپنی پارٹی بنا کر گیلانی راجہ پرویز اشرف یا دوسرے پارٹی رہنما قیامت تک صدارت اور وزارت عظمیٰ کے منصب تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ پارٹی اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے وفاداری کا انعام ہے کہ فاروق لغاری اور رفیق تارڑ صدر پاکستان ،گیلانی اور راجہ وزیراعظم بنے۔ منموہن کانگریس کا وفادار اور کانگریس کی قائد کے اعتماد کے اوپر پورا اترا تو اسے دوسری ٹرم کے لئے بھی وزیراعظم بنا دیا گیا۔ وزیر اطلاعات کائرہ کہتے ہیں کہ پارٹی کے اندر اختلافات معمول کا حصہ ہیں۔ گذشتہ سال گیلانی نے اپنی کابینہ ”کوتر سو“سے مختصر کرکے 22 کی تو کائرہ اور راجہ پرویز اشرف کو نظرانداز کر دیا گیا لیکن وہ ثمر بارشاخ سے پیوستہ رہے۔ پارٹی کے دفاع میں ہر جگہ پیش پیش تھے تاآنکہ صدر زرداری نے ایک کو وزیر اطلاعات کا قلمدان لوٹا دیا تو دوسرے کو وزیراعظم بنا دیا۔
یوسف رضا گیلانی خود کو نئے تقاضوں کے مطابق حالات میں ڈھال لیتے تو ان کا سیاسی مستقبل تابناک تھا۔ جواب تاریک اور اندوہناک ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ آج منموہن کی جتنی عمر ہے گیلانی اس عمر کو پہنچے تک پانچ سال کی نااہلی کاٹ کر بھی کم از کم تین مرتبہ وزیراعظم بن سکتے تھے۔ منموہن کی تاریخ پیدائش 26 ستمبر 1932ئ اور گیلانی کی 9جون 1952ئ ہے۔ لیکن اپنے بیٹے کی 25 منٹ کی باعزت حراست سے ج ±ز ب ±ز ہوکر معاملے کو اس انداز میں اچھالاکہ نہ صرف ایوان صدر سے بلکہ ایوان صدر کے مکینوں کے دل سے بھی کوچ کر گئے۔ جیلوں میں پڑے قیدی بھی کسی گیلانی کے موسیٰ رضا ہیں۔ اپنے موسیٰ کی لمحاتی حراست پر گیلانی کی دل گرفتگی اور برافروختگی بلا جواز ہے۔ گیلانی کے پر کسی اور نے نہیں خود انہوں نے اپنی زبان سے کاٹے ہیں۔ البتہ معاملہ اب بھی دو انتہا¶ں تک نہیں پہنچا۔ ابھی پیپلز پارٹی کے حلقوں میں گیلانی صاحب کا احترام موجود ہے۔ ان سے متعلق بات بڑے محتاط انداز اور دبے دبے الفاظ میں ہو رہی ہے۔ گیلانی صاحب کے ایک دو ایسے مزید بیانات آئے تو ان کا پارٹی کے حلقوں میں وہی مقام ہو گا جس پر آج صفدر عباسی ناہید خان اور بابر اعوان جیسے رہنما ہیں۔ اگر وہ پارٹی بدلتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں ریکوریاں ہونے لگیں اور ان کو نئے محلات سے دستکش ہو کر ایک بار پھر ملتان والا آدھا گھر فروخت کرنا پڑے۔ گیلانی صاحب اتنے بھی ناسمجھ نہیں کہ پارٹی کو خیرباد کہہ دیں۔ جو سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ملتانی مجاور کے ہاتھ میں سوا چار سال تک 18کروڑ پاکستانیوں کی تقدیر تھما دی تھی ان کے لئے گیلانی کے بیانات پتھر سے کم نہیں اور شاید انہیں ”یوٹو بروٹس“ بھی یاد آتا ہو۔ یقیناً اس سے ان کے دل پر چوٹ پڑی ہے اور ع
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
تاہم معاملات ابھی بگاڑ کی ابتدائی سطح پر ہیں جن کو آسانی سے سدھارا جا سکتا ہے۔ گیلانی صاحب اور ان کے خاندان کا مستقبل پیپلز پارٹی میں جتنا اور جیسا بھی ہے محفوظ ہے....ع
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں


Monday, October 8, 2012

چکر؟



چکر؟
 اکتوبر 2012,7    

سوئس حکام کو خط لکھنے والے کیس میں حکومت چکر دئیے اور مہلت لئے جا رہی ہے۔ گذشتہ سے پیوستہ پیشی پر حکم دیا گیا تھا کہ پانچ اکتوبر آخری مہلت ہے۔ آخری مہلت قرار دینے والوں کے ہاں آخری سے نہ جانے کیا مراد اور اس کا کیا مفہوم ہے۔؟ بہرحال ان کو ایک بار پھر 10 اکتوبر کو طلب کیا گیا ہے جن کا اٹل موقف ہے کہ شہید بی بی کی قبر کا ٹرائل نہیں ہوں گے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو اگلی پیشی‘ مزید مہلت‘ نئی تاریخ اور مہلت در مہلت حتیٰ کہ الیکشن‘ اپنی حکومت آگئی تو واہ بھلا‘ دوسرے جیتے تو زرداری صاحب ستمبر 2013ئ تک صدر ہیں۔ لو اور دو میں کمال‘ مفاہمت میں ملکہ بے مثال رکھتے ہیں۔ اپنی آئینی مدت پوری ہونے تک کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیں گے۔ سنا ہے اسی پارلیمنٹ سے ایک بار پھر صدر منتخب ہونے کا خیال رکھتے ہیں۔ تاہم جسٹس افتخار محمد چودھری کے چیف جسٹس سپریم کورٹ ہوتے ہوئے غچہ دئیے چلے جانا‘ دئیے چل جانا ممکن نہیں۔ ان کی مدت ملازمت 12 دسمبر 2013ئ کو پوری ہو گی۔ دیکھئے کوئی کہاں تک چکر چلاتا ہے۔ ویسے ہمارے سیاستدان چکر چلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ 
ترقی و خوشحالی کے لئے معیشت کی مضبوطی شرط اول ہے۔ مستحکم معیشت کا دار و مدار وافر اور سستی توانائی کی کار فرمائی پر ہے جس کا آج شدید بحران اور فقدان ہے۔ حکومت نیشنل گرڈ میں ساڑھے تین ہزار میگا واٹ بجلی شامل کرنے کی دعویدار ہے جس کی زمینی حقائق تصدیق نہیں کرتے۔ گذشتہ دور میں چند گھنٹے بجلی جاتی تھی آج چند گھنٹے آتی ہے۔ گیس کی کبھی لوڈشیڈنگ نہیں ہوئی تھی۔ یہ رسم بھی جمہوری حکومت نے شروع کی۔ بجلی و گیس جتنی بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے نرخ آسمان سے باتیں کرتے ہیں اور ان میں ہر ماہ اضافے کی بھی حکومت نے قسم کھا رکھی ہے۔ ساڑھے تین ہزار میگاواٹ نیشنل گرڈ میں شامل کرنے کے بیانات عوام کو تسلی نہیں چکر دینے کے لئے ہیں۔ راجہ پرویز پانی و بجلی کے وزیر تھے تو انہوں نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے کتنے بیاناتی چکر چلائے! کالا باغ ڈیم کا باب بھی راجہ صاحب نے بند کیا۔ اس کے بجائے بھاشا ڈیم کی تعمیر پر بڑے جوش کا منظر دیکھنے میں آتا رہا ہے وزیراعظم گیلانی نے اس کی تعمیر کا اکتوبر 2011ئ میں تیسرا سنگ بنیاد رکھا قبل ازیں 2006ئ مشرف 2007ئ میں شوکت عزیز سنگ بنیاد رکھ کر چکر چلا چکے تھے۔ گیلانی کی رکھی ہوئی سنگ بنیاد کی تیسری اینٹ بھی چکر ثابت ہوئی آج ایک سال بعد بھی تعمیر شروع نہیں ہو سکی۔ کب سے سن رہے ہیں کہ واپڈا گھر گھر انرجی سیور تقسیم کرے گی۔ شاید کاغذوں میں میں خریداری بھی ہو چکی ہو۔ یہ بھی چکر۔ دو سال قبل پی ایس او اس جذبے و ولولے سے دوہری ہوئے جا رہی تھی کہ پٹرول سستا کرنے کے لئے اس میں ایتھول ملا کر پٹرول پمپوں پر فراہم کیا جائے گا۔ بتائیے کسی کو ایسا پمپ پورے ملک میں کہیں نظر آیا؟ یہ ضرور کہا گیا کہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ یہ تجربہ کتنے میں پڑا؟ یہ بھی چکر۔
بجلی کی سستی ترین پیداوار کا ذریعہ ہائیڈل یعنی پانی سے بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹس ہیں۔ آج 18 ہزار میگاواٹ میں سے 6 ہزار میگاواٹ بجلی پانی سے پیدا کی جاتی ہے۔ جو حکومت کو ڈیڑھ دو روپے یونٹ تک پڑتی ہے۔ پوری دنیا میں زیادہ خریداری کی صورت میں رعایت دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں عجب تماشا ہے زیادہ بجلی کے استعمال پر قیمت بھی بڑھا دی جاتی ہے۔ مصنوعات بنانے والے خریداروں کو زیادہ سے زیادہ خریداری کی ترغیب دیتے ہیں ہمیں بجلی و گیس فراہم کرنے والے محکمے کم سے کم استعمال کی تلقین کرتے ہیں حالانکہ یہ فری نہیں دیتے۔ اس کی وجہ بھی یقیناً انرجی کی کمی ہے۔ اس پر حکومتیں عزم و ارادے اور خلوص نیت سے آسانی کے ساتھ قابو پا سکتی ہے۔ تھرمل پاور پلانٹس سے مہنگی ترین اور ہائیڈل سے سستی ترین بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ہماری آج کی ضروریات 18 ساڑھے 18 ہزار میگاواٹ ہے وہ بھی اس صورت میں کہ بجلی کی قلت کے باعث بند ہونے والی لاکھوں فیکٹریاں اور چھوٹے بڑے کاروبار بھی چل پڑیں۔ آج پانی سے 6 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے جبکہ تمام ممکنہ ہائیڈل منصوبے مکمل ہو جائیں تو ہمیں ضرورت سے کہیں زیادہ بجلی دستیاب ہو گی۔ کالا باغ ڈیم 3600 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا منصوبہ ہے۔ بھاشا ڈیم 4200 سکردو ڈیم 15000 بونجی ڈیم 7000 داسو ڈیم 4300 نیلم جہلم پراجیکٹ 1100 منڈا ڈیم 1000 اور اکھوڑی ڈیم 600 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یوں موجودہ 6 ہزار میگاواٹ اور مجوزہ 37 ہزار میگاواٹ بجلی کی دستیابی سے ہمیں تھرمل بجلی کی ضرورت نہیں رہے۔ سستی ترین بجلی سے صنعتوں کا جام ہوتا پہیہ پھر سے رواں دواں ہو جائے گا۔ پھر کسی کو بچت کا درس دینے کے بجائے بجلی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی ترغیب دی جائے گی اور زیادہ استعمال کرنے والوں کو رعایت بھی۔ 
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے تھرکول انرجی بورڈ کے اجلا کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہمستقبل میں صرف تھر کے کوئلے کو تھرمل بجلی کی پیداوار کیلئے استعمال کیا جائے گا‘ موجودہ پاور پلانٹس کے ساتھ ساتھ نئے بجلی گھر بھی تھر کا کوئلہ کو بروئے کار لانے کیلئے تعمیر کئے جائیں گے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ایس سی ایم سی اور اینگرو کارپوریشن کول مائن اینڈ پاور پراجیکٹ تھر کول منصوبے کے بلاک II میں 65 لاکھ ٹن کوئلہ سالانہ نکالنے اور 1200 میگاواٹ کے بجلی گھر کیلئے کام کر رہی ہیں جس پر اخراجات کا تخمینہ 1.3 ارب ڈالر ہے۔ کچھ عرصہ قبل وزیر پانی و بجلی احمد مختار فرما چکے ہیں کہ کوئلہ برآمد کرکے اس کی قیمت سے تھرمل پراجیکٹس کے لئے تیل خریدا جائے گا۔ یہ بھی ایک چکر نظر آتا ہے۔ اب راجہ جی تھرمل منصوبے کوئلہ پر لانے کی حکمت عملی سے قوم کو آگاہ کر رہے ہیں۔ اس میں عرصہ کتنا لگے گا اور پھر آپ کی کمٹمنٹ کیا ہے؟ پاکستان میں موبائل کمپنیاں آئیں تو پی ٹی سی ایل کے حکام کے پیٹ تندو بن گئے یہ کمپنیاں اس میں ڈالر جھونکتی رہیں اور یو فون کی سروس کو موخر کراتی ہیں۔ آج بھی حکومت کی طرف سے ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمد کی بات ہوتی ہے توڈیلر نوٹوں سے بھرے بیگ لے کر حکام کی درگاہ میں نذر کر دیتے ہیں۔ تھرمل پاور کمپنیوں کو ہر پیٹ کے سائز کا علم ہے۔ وہ کیسے آپ کے کوئلے اور ہائیڈل پاور پراجیکٹس کو روبہ عمل آنے دیں گی؟ اس کا سب سے زیادہ علم رینٹل پاور منصوبے کی جزیات سے واقف اور فیض یافتہ راجہ کو ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی طرف سے ایسا کوئی منصوبہ بنانا اور اسے عملی جامہ پہنانا حقیقت نہیں بلکہ چکر ہوسکتا ہے۔ البتہ کوئی قائد جیسا ملے تو انتہائی آسانی سے ملکی مفاد کے ہائیڈل اور کوئلے کے منصوبے عملی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔



Thursday, October 4, 2012

توند بے سبب نہیں!





توند بے سبب نہیں
 اکتوبر4, 2012    

پروردگار نے کائنات میں کوئی بھی چیز بے سبب پیدا نہیں کی۔ حتیٰ کہ سانپ بچھو جیسے زہریلے چرند و پرند کی کوئی نہ کوئی وجہ تخلیق ضرور ہے۔ اس سے اگر انسان آگاہ نہیں تو الگ بات ہے۔ جن لوگوں کو کسی جسمانی انگ سے معذوری کا سامنا ہوتا ہے ۔ اللہ ان کو کچھ نہ کچھ صحیح و سالم انسانوں سے بڑھ کر عطا کر دیتا ہے۔ ان کی ایک رگ یا حس زائد ہونے کا مقولہ بھی شاید اسی سبب ایجاد ہوا ۔ 
پولیس پورے پاکستان کی ایک جیسی ہے۔ کردار‘ یلغار‘ مار اور ڈکار‘ ہر حوالے سے ۔ اس کے اہلکاروں اور افسروں کی بڑھی ہوئیں اور بڑھائی جانے والی توندیں بھی یکساں ہیں لیکن پنجاب پولیس کے توندئیے کچھ عرصہ زیر عتاب رہے ہیں۔ توند کے باعث ان کو ڈیوٹیوں سے ہٹا دیا گیا تھا اب پھر واپس ”بٹھا “ دیا گیا ہے۔ شاید حکام پر توند کے فضائل عیاں ہو گئے ہیں۔ ایک تھانیدار اپنی توند کو سمیٹ کر ملزم کی پشت پر چوکڑی جما کر بیٹھتا تو وہ ناکردہ جرائم بھی قبول کرتا چلا جاتا تھا۔ قبولیت کے دوران ہی مجرم کی دھوتی یا شلوار گیلی ہو جاتی اور کبھی لتھڑ بھی جاتی تھی ۔ یہ وہی تھانیدار ہے جو ایک گا¶ں میں نمبردار کے ڈیرے پر بیٹھا تھا کہ مسلم شیخوں کا مُنڈا وہاں چلا آیا۔ اس نے تھانیدار کو سلام تو ضرور کیا ‘ ساتھ ہی سادگی میں پیٹ کی طرف حیرانگی سے دیکھتے ہوئے کہہ دیا ”یہ ڈھڈ ہے یا ڈھول“۔ تھانیدار نے گرج کر کہا ”اوئے گدھے کیا بکواس کی ہے“۔ بھولا نوجوان سمجھا شاید تھانیدار کے پلے اس کی بات نہیں پڑی ‘ اس نے اپنی طرف سے آسان لفظوں میں کہا ”جناب یہ توند ہے یا تندور ہے“۔ تھانیدار نے طیش میں آکر حوالدار سے کہا ”اس الو کے پٹھے کو ہتھکڑی لگا لو“.... یہ بات نوجوان کے باپ تک پہنچی تو فوراً ڈیرے پر چلا آیا ۔بیٹے سے پوچھا ”اوئے تو نے تھانیدار صاحب کو کیا کہا ہے؟“ بیٹے نے پیٹ معلی کے بارے میں جو کہا تھا دہرا دیا‘ باپ نے اپنی دانست میں معاملہ پر مٹی پا¶ فارمولا آزمانے کی کوشش کرتے ہوئے گرجدار آواز میں کہا” اوئے تو نے ڈِھڈ پر بَول کرنا تھا۔“ اس پر تھانیدار مزید تپا ۔اسے بھی ہتھکڑی لگوا ئی اور دونوں کو تھانے لے گیا۔ نوجوان کی دادی کو خبر ہوئی تو اس نے بیٹے اور پوتے کو چھڑانے کا قصد کیا۔ وہ پولیس کی ”دام کے بغیر کام حرام“ کی جبلت سے واقف تھی۔مائی کے پاس جو بھی جمع پونجی تھی ‘ اس سے دو کلو چھوہارے لئے اور پیدل تھانے پہنچ گئی۔ تھانیدار کی خدمت میں چھوہارے پیش کئے جو دو بھانت کے تھے۔اصل ‘ کڑک اور خشک ۔دوسرے نرم ‘پولے اور گیلے۔مائی کے مدعا بیان کرنے کے دوران تھانیدار چھوہارے کھا نے میں جُت گیا۔ تھانیدار بڑے مزے سے نرم نرم‘ گیلے گیلے اور پولے پولے چن چن کر کھا رہا تھا۔ اماں جی سے پوچھا ”یہ دو طرح کے کیوں ہیں؟۔“ بی اماں کا جواب تھا۔ ” پتر! 5 چھ کوس پیدل چل کر آئی ہوں منہ میں دانت نہیں ہیں‘ ایک ایک چھوہارا منہ میں ڈال کر بھنبھوڑنے کی کوشش کرتی رہی جو دس پندرہ منٹ منہ میں رہا وہ نرم پولا اور گیلا ہو گیا“۔ اس پر تھانیدار نے اپنی توند پر دوہتھڑ مارتے اور سر پیٹتے ہوئے توہینِ توند کے مجرموں اور مائی کوفوراً دفعان کرنے کا حکم صادر فرما دیا ۔پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرے روزمرہ کا معمول ہیں۔ اب تو ان میں تشدد کا عنصر بھی غالب آگیا ہے۔ لوگ امریکہ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہوں یا اسرائیل اور بھارت کے خلاف‘ خواہ ملازمین اپنی ترقیوں اور تنخواہوں میں اضافے کے لئے سڑکوں پر ہوں ان کے سامنے امریکہ ہوتا ہے نہ بھارت اور اسرائیل اور نہ ہی ان کو مسائل و مصائب کی دلدل میں دھکیلنے والے حکام‘ ایسے مظاہرین اپنا غصہ مظاہروں کو پرامن بنانے کے لئے تعینات پولیس پر نکالتے ہیں۔ کہیں مظاہرین پولیس کے آگے دوڑ لگاتے ہیں تو کہیں پولیس ڈنڈہ بردار جلوس کے آگے سر پٹ دوڑتی دکھائی دیتی ہے ۔ اگر پولیس جم اور ڈٹ جائے تو یقین مانیئے مظاہرین کو ایک قدم آگے بڑھانے کی ہمت نہ ہو۔تاج برطانیہ کی ہندوستان میں عملداری کے دوران کمی ذاتوںکو فوج میں بھرتی نہیں کیا جاتا تھا۔ آج ایسی کوئی قید نہیں بلکہ ہر منڈی کی جنس پر در وا ہیں۔ایک نئے انگریز کپتان نے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ یہ تھُڑ دلے ہیں۔ کپتان نے کہا ”ایسا نہیں ہو سکتا! یقیناً ان میں سے کام کے بندے بھی نکل آئیں گے“۔ اس نے ایسے قبیل کے نو جوانوںکو اکٹھا کیا اور ان کو بتائے بغیر ایک دھماکہ کرا دیا۔ جس پر میدان خالی ہوگیا۔سب بھاگ گئے۔ تاہم ایک اپنی جگہ پر ثابت قدم تھا۔ کپتان نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا” ویل ڈن‘ شیر کا بچہ نکلا‘ بہادر‘ نڈر‘ ہمت و جرا¿ت والا‘ جب اسے تھپکی دی تو قدموں میں آگرا‘ وہ مر چکا تھا۔ 
توند والے مظاہروں کو کنٹرول کرنے میں بڑے کار آمد ہو سکتے ہیں۔ مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے لئے ان کو جہاں ڈھیر کر دیا ۔ وہیں سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوں گے مظاہرین کے پیچھے بھاگنے سے عاجز اور جان بچا کر بھاگنے سے قاصر ۔ وہ اپنی جگہ پر جمے رہنے پر مجبور اور ہلنے جلنے سے معذور‘دیکھنے والوں کے گمان میں ڈٹے ہوئے ۔ اس سے مفت میں نیک نامی پولیس کے کھاتے میں....! پولیس حکام اس مخلوق کو ضائع نہ کریں۔ بلکہ ان کی تعداد ضرورت کے مطابق بڑھانے کی کوشش کی جائے مشتعل مظاہرین کو ڈرانے اور ان پر قابو پانے میں آسانی رہے گی۔ ایسے اہلکاروں پر مشتمل توند سکواڈ قائم کر دیا جائے تو مزید بہتر ہے۔ آگے ان کی مرضی جو اس ڈیوٹی کو جزا سمجھیں وہ یہی کرتے رہیں جو سزا جانیں وہ توند گھٹا کر من مرضی کی ڈیوٹی لے کر زندگی کی بیوٹی سے لطف اندوز ہوں۔