About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, October 23, 2012

روایتی‘ غیر روایتی میڈیا





روایتی‘ غیر روایتی میڈیا 23 اکتوبر 2012 0 روایتی میڈیا کی ترقی نے دنیا کو گلوبل ویلج بنایا تو غیر روایتی میڈیا نے دنیا کو ہر اس فرد کی ہتھیلی پر رکھ دیا جو سوشل میڈیا سے واقف اور اس کے استعمال کا فن جانتا ہے۔ اس فن میں مہارت کے لئے ماہ و سال کی ریاضت کی نہیں۔ محض کمپیوٹر تک رسائی اور ایک دو دن کی پڑھائی کی ضرورت ہے۔ بہت سے معاملات میں سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا پر سبقت حاصل کی ہے۔ روایتی میڈیا کے ذمہ دار بعض معاملات میں گومگو کا شکار اور مخمصے میں پڑے ہوتے ہیں کہ سوشل میڈیا حقائق آنا فاناً دنیا کے ایک کونے سے دوسرے تک پہنچا دیتا ہے۔ مبشر لقمان مہر بخاری اور ملک ریاض حسین کی آف دی ریکارڈ باتیں سوشل میڈیا کے ذریعے آن ائیر ہوئیں۔ رابعہ عمران کی بیکری ملازم سے گرم گفتاری اور محافظوں کے تشدد کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا میں بریک ہوئی جسے ٹی وی چینل آن ایئر کرنے سے گریز کرتے رہے تاہم ویڈیو جب ایک پر چلی تو مقابلے میں چینلز نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ملالہ کی پٹی بندھی تصویر خبر کے ساتھ ہی 10 اکتوبر کو اخبارات میں آگئی تھی۔ کوئین الزبتھ ہسپتال میں ہوش میں آنے کی تصویر 20 اکتوبر کو اخبارات میں شائع ہوئی۔ آج سوشل میڈیا میں دونوں تصویروں کا موازنہ بڑے زوروں پر جبکہ روایتی میڈیا خاموش ہے۔ بعض لوگ ٹی وی چینلز‘ اخبارات کے دفاتر اور کالم نگاروں کو فون کرکے اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ جس جگہ گولی لگی اور پٹی بندھی تھی وہ 20 اکتوبر کو شائع ہونے والی تصویر میں بالکل کلیئر ہے۔ کوئی زخم اور نہ زخم کا نشان‘ ملالہ پر حملے کو ڈرامہ قرار دینے والے متعدد سوالوں کا باصرار جواب مانگتے ہیں۔ مریض زندگی و موت کی کشمکش میں ہو تو پہلی ترجیح اسکی جان بچانا ہوتی ہے۔ پلاسٹک سرجری نہیں۔ جہاں پٹی بندھی‘ اس جگہ گولی لگنے سے زندہ رہنا ممکن نہیں۔ گولی ابرو کے اوپر لگی 10 دن میں زخم مندمل ہو گئے؟ ڈاکٹروں کے مطابق دماغ کا میجر آپریشن ہوا ڈاکٹروں نے سر کا بال تک نہیں کاٹا۔ ملالہ مریضہ ہے‘ انگریزوں کی قیدی نہیں۔ برمنگھم کے ہسپتال میں پاکستان کے سب سے بڑے نمائندے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو ملالہ کی تیمار داری کی اجازت نہیں دی گئی۔ فیس بک موبائل میسج اور ای میلز سوشل میڈیا میں اہم ترین ہیں۔ اس میڈیا میں ہر طبقہ فکر کے لئے اس کے مطلب کا سامان ہے۔ آپ کو قرآن و احادیث کے مطالب اور مفاہیم مل سکتے ہیں۔ بزرگوں کے اقوال موجود ہیں۔ فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے کی مطلب براری ہو سکتی ہے۔ کسی بھی شعبہ کے طالب علموں کےلئے یہ میڈیا ایک چشمہ و سرچشمہ ہے۔ گویا وہ کیا ہے جو سوشل میڈیا پر موجود نہیں۔ سیاستدانوں و حکمرانوں کی تعریف‘ تذلیل اور ان پر تنقید سمیت سب کچھ ہے۔ آپ جہاں کسی کی سن سکتے ہیں اپنی کہہ بھی سکتے ہیں جو پورا زمانہ دیکھے اور سنے گا۔ فیس بک پر کسی صاحب نے ایک سبق آموز کہانی چسپاں کی ہے۔ جو ہمارے سیاسی حالات کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔ ایک شہنشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گزر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ بستی کے باشندے شہنشاہ اعظم کو مہمان کی طرح ساتھ لے کر اپنے سردار کی رہائش گاہ پر پہنچے جو صرف ایک جھونپڑی پر مشتمل تھی۔ سردار نے اس کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے شہنشاہ کی تواضع کی.... کچھ دیر میں دو قبائلی فریق مدعی اور مدعا علیہ کی حیثیت سے اندر داخل ہوئے۔ سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی تھی۔ مدعی نے کہا۔ ”میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں لیتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیوں کہ میں نے اس سے صرف زمین خریدی تھی۔ اور اسے صرف زمین کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں“ مدعا علیہ نے جواب میں کہا ”میرا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں‘ میں نے تو اس کے ہاتھ زمین فروخت کردی تھی۔ اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے۔“ سردار نے غور کرنے کے بعد مدعی سے دریافت کیا۔”تمہارا کوئی لڑکا ہے؟“ ”ہاں ہے!“ پھر مدعا علیہ سے پوچھا۔ ”اور تمہاری کوئی لڑکی بھی ہے؟“ ”جی ہاں....“ مدعا علیہ نے بھی اثبات میں گردن ہلا دی۔ ”تو تم ان دونوں کی شادی کرکے یہ خزانہ ان کے حوالے کردو۔“ اس فیصلے نے شہنشاہ کو حیران کردیا۔ سردار نے متردد شہنشاہ سے دریافت کیا۔ ”کیوں کیا میرے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟“ ”نہیں ایسی بات نہیں ہے۔“ شہنشاہ نے جواب دیا۔ ”لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔“ سردار نے سوال کیا۔ ”اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟“شہنشاہ نے کہا کہ۔ ” پہلی تو بات یہ ہے کہ اگر یہ معاملہ ہمارے ملک میں ہوتا تو دونوں خزانے کی مالیت کے لئے آپس میں لڑ پڑتے۔سردار نے شہنشاہ سے پوچھا کہ ، پھر تم کیا فیصلہ سناتے؟ شہنشاہ نے اس کے ذہن میں موجود سوچ کے مطابق فورا جواب دیا کہ: ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کردیا جاتا۔“ ”بادشاہ کی ملکیت!“ سردار نے حیرت سے پوچھا۔ ”کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے؟“ ”جی ہاں کیوں نہیں؟“ ”وہاں بارش بھی ہوتی ہے....“ ”بالکل!“ ”بہت خوب!“ سردار حیران تھا۔ ”لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائے جاتے ہیں جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں؟“ ”ہاں ایسے بے شمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔“ ”اوہ خوب‘ میں اب سمجھا۔“ سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔ ”تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کر رہی ہے۔ یہ کہانی صرف ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں ہی پر منطبق نہیں ہوتی ہمارے رویوں کی بھی چغلی کھاتی ہے۔ ہم ایسی ہی روایات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ سو‘ سوا سو سال زندگی ہو وہ بھی ٹک ٹک کرکے گزر جاتی ہے۔ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے زندگی لمحہ لمحہ کرکے اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہے۔ انجام موت ہے اسکے سوا کچھ نہیں۔ لوٹ مار‘ دوسروں کا حق مارنے‘ ان کو ستانے اور رلانے سے کیا حاصل؟ چند روزہ عارضی مفادات اور پھر اس کا حساب تو ہونا ہی ہے۔ کیوں نہ کچھ ایسا کر جائیں کہ انسانیت کی بھلائی ہو اور موت کے بعد انسان آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں ۔نہ کہ کہیں مر گیا مردود۔

No comments:

Post a Comment