26-10-12
26 اکتوبر 2012 0
سیدہ عابدہ حسین کی طرف سے آئی ایس آئی سے رقم وصول کرنے کا اعتراف اگر آج کی سب سے بڑی خبر نہیں تو بڑی خبروں میں سے ایک ضرور ہے۔90میں آئی ایس آئی یا ایم آئی نے آئی جے آئی بنانے میں جو پیسے تقسیم کئے اس میں سے محترمہ عابدہ کے حصے ایک رپورٹ کے مطابق 10 لاکھ روپے آئے تھے۔بیگم صاحبہ کی طرف سے رقم وصول کرنے کا بغیر کسی دباﺅ،تحقیق اور تفتیش کے اقرار ہوس زدہ اور جھلسی ہوئی سیاست میں بادِ صبا کا ایک جھونکا اور صبح نوید کی ایک کرن قرار دیا جاسکتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں بیگم صاحبہ شاید پہلی سیاستدان ہیں جنہوںنے ایسا اعتراف کیا۔ بعض لوگ شاید اس میں بھی کوئی سازش تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ بہر حال ایک خاتون مردوں پر بازی لے گئیں۔ انہوں نے رقم کی وصولی کا اعتراف کرکے بڑے پن کا مظاہرہ کیا تو رقم منافع سمیت قومی خزانے میں جمع کرانے کا اعلان کرکے اپنے احترام میں مزید اضافہ کرالیا۔ ان کے اعتراف سے یہ تو واضح ہوگیا کہ اگر رقم دینے والے موجود تھے تو لینے والے بھی لا موجود نہیںتھے۔
سپریم کورٹ نے 1990 میں رقم وصول کرنیوالوں کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیتے ہوئے سود سمیت وصولی کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس حکم کو ہمارے سیاستدان اپنی مرضی کے معانی پہنارہے ہیں۔ اس حوالے سے ابھی تحقیق اور تفتیش ہونی ہے اس کے بعد سزا، وصولیوں اور مستقبل میں وصول کنندگان کے سیاست میں کردار کا فیصلہ ہونا ہے۔اِدھرسپریم کورٹ کا فیصلہ ہوا اُدھر حکومتی پارٹی اپنی کل کی اتحادی مسلم لیگ ن پر جھپٹ پڑی۔” نواز شریف سیاست چھوڑ دیں۔ ان کو نا اہل قرار دیاجائے،سزا سے بچنے کیلئے جدہ چلے جائیں“ ایسے اور اس سے بھی سخت بیانات سامنے آنے لگے۔حالانکہ ابھی یہ تعین ہونا ہے کہ کس کس نے کیا وصول کیا۔ جن کے نام پر جتنی رقم کی فہرستیں سامنے آئی ہیں۔ ان لوگوں نے واقعی رقم لی اور اتنی ہی لی؟ مرزا اسلم بیگ نے آج کہا ہے نواز شریف نے رقم نہیں لی۔ جنرل بیگ اس کیس کو اٹھانے پر اصغر خان کو غدار قرار دیتے ہیں۔ ہر فوجی قومی سلامتی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے اور قومی رازوں کو ہمیشہ کیلئے سینے میں دفن رکھنے کی قسم کھاتا ہے۔نصیر اللہ بابر مرحوم اور جنرل اسد درانی موجود نے بھی ایسا حلف اٹھایا تھا۔ کیا ان لوگوں نے اپنے حلف سے روگردانی کی؟ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق یہ معاملہ آگے چلا ، اگر آگے چلا تو یہ سوالات ضرور اٹھیں گے اور ان کے جوابات بھی مانگے جائیں گے۔قومی راز افشا کرنے والے مزید کئی کردار بھی سامنے آئیںگے جو آنے بھی چاہئے۔ قومی راز کسی صورت ،کسی بھی صورت افشا نہیں ہونے چاہئیں۔
اصغر خان فیصلے پر تنقید ہورہی ہے اور اس کی تحسین بھی جاری ہے۔پیپلز پارٹی رقوم بانٹنے اور وصول کرنے والوں کے احتساب پر خوش جبکہ ایوان صدر کو سیاست سے پاک کرنے کے حکم پر منہ بسورتی ہے۔ ن لیگ کو جرنیلوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ تو من بھاتا ہے۔آئی جے آئی کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دینے کا حکم دل جلاتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اس فیصلے کو سیاست میں انتشار کا باعث قرار دے رہے ہیں۔قانون واقعی اندھا ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جاناچاہئے۔ قانون بنانے اور قانون نافذکرنیوالے اندھے نہیں ہونے چاہئےں۔ آئی جے آئی کی تشکیل سے سیاست میں ہلچل ضرور مچی۔ فوج نے پیسے تقسیم کرکے غلطی کی اور بدنامی مول لی۔ وہ یہ کام پیسوں کی تقسیم کے بغیر بھی کرسکتی تھی۔ آئی جے آئی کی تشکیل کے بعد جو انتخابی نتائج سامنے آئے کیا ان کو اُسی قسم کی دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے جیسی جنرل ضیا ءالحق و جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم اور ذوالفقار علی بھٹو کے کرائے گئے 1977 کے عام انتخابات میں ہوئی؟ فو ج کا سیاست میں قطعاً قطعاً کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے لیکن کونسی سیاست میں کس فطرت کے سیاستدانوں کی موجودگی میں؟ ہم چاہتے ہیں جمہوریت تو امریکہ و برطانیہ کی طرز کی ہو لیکن وہ دودھ ہمارے مفادات کے مطابق دے۔ ہماری90 فیصد آبادی انڈر میٹرک ہے، گو باشعور ہونے کیلئے سکول و کالج کی تعلیم ضروری نہیں۔ اس کے باوجود بھی باشعور ووٹر کی تعداد 15 فیصدسے زیادہ نہیں۔ ہمارے ہاں سیاست عموماً گلیوں، نالیوں، سڑکوں کی تعمیر ، کورٹ کچہری اور نوکریوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ برادری ازم بھی اہم فیکٹر ہے جب منتخب کرنے اور ہونیوالوں کا یہ معیار اہلیت اور قابلیت ہو گی تو جس قسم کی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی، آج کی پارلیمنٹ اور اکثر پارلیمنٹرین اسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اب پارلیمنٹ میں داخلے کیلئے گریجوایشن کی شرط ختم ہوچکی ہے جس سے ان پڑھوں پر بھی پارلیمنٹ کے دروازے کھل چکے ہیں۔ ان کو جعلی ڈگری کا تکلف بھی نہیں کرنا پڑیگا۔ حکومت سمیت کسی بھی ادارے کو ٹریک پر رکھنے کیلئے عدلیہ کا کردارناقابل فراموش ہے۔ ہمارے ہاں ہر حکمران نے عدلیہ کو رام کرنے کی کوشش کی، مشرف نے کچھ زیادہ ہی کی، سلطانی جمہور کے دور دورے کے باوجود بھی آج کی حکومت عدلیہ کے حوالے سے مشرف کی صحیح جاں نشین ثابت ہوئی ہے گو کہ عدالت پر حملہ نہیں ہوا۔ مشرف کی طرح ججوںکو قید نہیں کیا گیا مگر فیصلوں کی ایسی بے توقیری کبھی دیکھنے میں نہیں آئی جو آج آرہی ہے۔
مغربی طرز کی جمہوریت کو اس کی روح کے مطابق رائج کیاجائے تو حکمران آئین و قانون سے سرتابی کی جسارت نہیں کرتے۔ اگر کہیں کوئی تنازع ہوتو عدلیہ اپنا کردارادا کرتی اور ہر کوئی اس کے سامنے سرتسلیم خم کرلیتا ہے۔ پاکستان میں فوج ہمیشہ سے آج تک ایک طاقت رہی ہے کبھی پس آئینہ اور کبھی سر آئینہ، اس کی وجہ وہی کہ ہر کسی کے اندر سیاست اپنے رنگ اور ڈھنگ سے کرنے کی بے پا یاں خواہش مچلتی ہے تو آئین اور قانون کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ایسے میں بتائیے ریاست کو ڈوبنے دیاجائے اور جو اسے کسی بھی طریقے سے بچانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں کیا خاموش تماشائی بنے رہتے ہوئے ملک کی بربادی کا سامان اور اسے تباہ ہوتے دیکھتا رہیں؟ مغربی طرز سیاست قیامت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک آپ اس سیاست یا جمہوریت کیلئے وہی ماحول پیدا نہیں کردیتے جس میں مغربی جمہوریت پنپ رہی ہے۔ اس کیلئے سب سے بڑی اور شاید واحد ضرورت صد فی صدووٹرزکا باشعور ہونا ضروری ہے۔
سیدہ عابدہ حسین کا اعتراف قابل تحسین اور ہمارے سیاستدانوں، جرنیلوں ججوں اور بیورو کریٹس کیلئے قابل تقلید بھی ہے یہ بھی مہربانی فرمائیں۔ جس نے جو بھی غیر قانونی طریقے سے دولت کمائی ہے پاکستان کے خزانے میں جمع کرادیں بغیر منافع کے ہی سہی۔90 میں فوج سے وصولی کرنے والے بھی باضمیر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اعتراف فرما کر وصول شدہ رقمیں لوٹا دیں۔
No comments:
Post a Comment