اُمہ کا اتحاد بھی.... اقبال کا خواب
9-11-12
فیملی میگزین کے تازہ شمارے میں امتنان ظفر کی دلکش تحریر کے ساتھ حسن البلقیہ کی دیدہ زیب تصویر بھی شائع ہوئی ہے‘ ان کو پڑھنے اور دیکھنے والا سونے اور سنہرے خیالات میں گم ہو جاتا ہے۔ برونائی دارالسلام کے سلطان حسن البلقیہ کی شان و شوکت کی دھوم ساری دنیا میں ہے اس کی ایک وجہ ان کا بادشاہوں جیسا طرز رہائش اور شاہانہ لباس ہی نہیں‘ انکے زیر استعمال قیمتی اشیاءبھی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق انکی دولت میں ہر سیکنڈ نوے یوروز کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حساب سے انکی دولت میں ہر منٹ پانچ ہزار چار سو‘ ہر گھنٹے تین لاکھ چوبیس ہزار‘ روزانہ ستر لاکھ چھہتر ہزار یورو اور ہر ہفتے پانچ کروڑ چوالیس لاکھ بتیس ہزار یورو کا اضافہ ہوتا ہے۔ وہ ریشم و اطلس و کم خواب کے ایسے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں جن پر سونے اور چاندی کے تاروں سے ایمبرائیڈری کا کام کیا گیا ہوتا ہے ان کا محل دنیا کا سب سے بڑا اور آرام دہ رائل پیلس ہے جس میں ایک ہزار سات سو اٹھاسی کمرے ہیں۔ ہر کمرے کی اشیاءپر سونے اور ہیروں کی تہ چڑھائی گئی ہے۔ یہاں سونے اور چاندی سے مرصع دو سو ستاون باتھ روم ہیں۔
حسن البلقیہ کے گیراج میں مختلف ماڈلز کی ایک سو دس قیمتی کاریں ہیں‘ رولز رائس کمپنی نے انکی خصوصی کار ڈیزائن کی ہے جو یہ برطانیہ میں قیام کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ یہ کار خالص سونے سے مرصع ہے۔ انکی ملکیت میں مجموعی طور پر ایک ہزار نو سو بتیس گاڑیاں ہیں۔ انکے جہازوں کے بیڑے میں ایک بوئنگ 747 بھی شامل ہے۔ جسے سلطان کی ہدایت پر ازسر نو سونے سے ڈیزائن اور سونے سے بنی اشیاءسے سجایا گیا ہے۔ اسکے علاوہ چھ چھوٹے ائیر کرافٹ اور دو ہیلی کاپٹر بھی شاہی بیڑے کا حصہ ہیں۔
اتنی دولت مندی اور سوائے سونے کے تناول ماحضر کے‘ سونے کے بجا اور بے جا استعمال کے سلطان حسن البلقیہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سرفہرست نہیں‘ بلومبرگ کی شائع کردہ تازہ ترین لسٹ کے مطابق 200 امیر ترین لوگوں میں سے چار کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ ویسے دنیا کے امیر ترین لوگوں میں بالترتیب میکسیکو کا کارلوس سلم‘ امریکی بل گیٹس اور ہسپانوی امانسیواوریگا‘ 77.5 ارب ڈالر 64.34 اور 53.6 کے ساتھ پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ سعودی روزنامے الوطن نے اپنے چار ہموطنوں کے اثاثوں کی مالیت 2.7 ٹریلین ڈالر بتائی ہے جو دنیا کی پانچویں بڑی اقتصادی طاقت فرانس کی مجموعی پیداوار کے برابر ہے۔ سعودی عرب کے امیر ترین شخص ”کنڈم ہولڈنگ“ کے مالک شہزادہ ولید بن طلال ہیں جو اپنے 22.9 ارب ڈالر اثاثوں کے ساتھ دنیا کے 20ویں امیر ترین شخص ہیں۔
عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں کے حکمرانوں‘ بادشاہوں اور شہزادوں کے اثاثوں کی مالیت ہو سکتا ہے کارلوس سلم‘ بل گیٹس کی دولت سے زیادہ ہو امیر ترین عالمی شخصیات کا تعین کرتے وقت ان کو انکی دولت کے کسی حد و حساب سے باہر ہونے پر متعینہ پیمانے سے ہی نہ جانچا جاتا ہو۔ مسلم ممالک کے ہاں ایک طرف دولت کی یہ ریل پیل تو دوسری طرف اسلامی ممالک میں سسکتی ہوئی انسانیت بھی دیکھی جاتی ہے۔ پاکستان‘ صومالیہ‘ بنگلہ دیش‘ یوگنڈہ جیسے ممالک میں ایلیٹ کلاس تو ضرور موجود ہے لیکن مفلوک الحال افراد کی تعداد کا کوئی شمار قطار نہیں جن کو دو وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہو۔ وہ اپنے بچوں کو سکول بھجوانے اور جوانی سے بڑھاپے کی عمر میں داخل ہوتی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر سکیں۔
کیا امیر مسلم ممالک اپنی دولت غریب برادر اسلامی ممالک کے بے چاروں اور لاچاروں پر نچھاور کر دیں؟ تاکہ یہ ویلیاں کھانے کے عادی ہو جائیں؟ ہمارے ہاں کسمپرسی کا شکار لوگوں کی دو قسمیں ہیں‘ ایک ہڈحرام اور دوسرے زندگی کی بقاءکیلئے لڑتے لڑتے اپنی توانائیوں کا بھرپور استعمال کرکے بھی غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ یہ کچھ کر گزرنے کا عزم ضرور رکھتے ہیں لیکن مواقع اور وسائل ان سے کوسوں دور ہیں۔ اس دوسری قسم کے لوگوں کا ہاتھ تھامنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام امیر ممالک مل کر آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس میں کسی قسم کے خسارے کا احتمال نہیں
آج عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں میں مجموعی طور پر کروڑوں غیرملکی انجینئرز‘ پروفیسرز‘ بزنس مین‘ ہنرمند‘ نیم ہنرمند اور مزدور کام کر رہے ہیں۔ بعض ممالک کی فوج اور پولیس بھی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ سوائے مکة المکرمہ اور مدینہ منورہ کے کسی شہر اور ملک میں غیرملکی بلاامتیاز مذہب موجود ہیں۔ مکہ اور مدینہ مقدس شہروں میں غیرمسلموں کو داخلے کی اجازت نہیں۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ کسی سے اس کا روزگار نہ چھینا جائے۔ اسلامی اخوت کے ناطے برادر اسلامی ممالک کے غریبوں کا بھی احساس ضروری ہے اس لئے امیر مسلمان ممالک اپنے ہاں موجود غیرمسلموں کو اپنا معینہ عرصہ مکمل کرنے دیں البتہ مزید نفری اور ہنرمند افرادی قوت مسلم ممالک سے حاصل کی جائے۔ یہ ایسا کارخیرہے جو امیر اسلامی ممالک اپنے برادر ممالک کے غریب اور ہنرمند افراد کی فلاح کیلئے اپنے پلے سے ایک بھی درہم و دینار خرچ کئے بغیر کر سکتے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے قطر کے دورے کے موقع پر کہا کہ قطر کو 20 لاکھ ورکرز کی ضرورت ہے‘ یہ پاکستان سے منگوائے جائیں‘ کتنا اچھا ہو کہ قطر میں مقیم 90 ہزار پاکستانیوں کی تعداد 20 لاکھ نوے ہزار ہو جائے اور وہ بھی بغیر کمیشن کے۔
امیر ممالک کے خزانے درہم ریال اور دینار کی بہتات سے چھلک چھلک جاتے ہیں۔ ہمارے صدر مملکت آصف علی زرداری پاکستان کے تیسرے امیر ترین آدمی ہیں‘ انکے اثاثوں کی مالیت 8 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ بعض ممالک کے سربراہان دس ارب ڈالر جوئے میں ایک ہی رات میں ہار کو بار نہیں سمجھتے۔ ایسے حکمرانوں کو کون تقویٰ اختیار کرنے کا مشورہ دے سکتا ہے؟ البتہ ان سے بعض اسلامی ممالک کی پسماندگی دور کرنے اور پوری دنیا میں ستم زدہ مسلمانوں کی دادرسی کی درخواست تو کی جا سکتی ہے۔ جن کیلئے جوئے میں دس ارب تک بھی ہار دینا ایک مشغلہ ہے‘ جن کی دولت کی کوئی حد نہیں ہے‘ وہ ممالک اگر کچھ رقم مسلم ممالک کی دولت مشترکہ قائم کرکے اس میں جمع کرادیں‘ دولت مند لوگ بھی اس میں حصہ ڈالیں تو بلاشبہ یہ فنڈ کھربوں ڈالر میں ہو سکتا ہے جو پسماندہ اسلامی ممالک کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے استعمال ہو۔ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کی تحریکوں میں تیزی لائی جا سکے اور بدھوں کی ستمگری کا نشانہ بننے والے روہنگیا مسلمانوں کیلئے آزادی کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی ممالک کی دولت ِمشترکہ اس قابل ہو سکتی ہے جو دنیا میں بے وطن مسلمانوں کو وطن تک خرید کے وہاں انکو بسا سکتی ہے۔ پاکستان ہم نے دو قومی نظریے پر حاصل کیا‘ قائد اس عزم پر قائم رہے کہ مسلمان الگ قوم ہیں تو پاکستان حاصل کرلیا۔ اقبال نے تو پوری دنیا کو مسلمانوں کا وطن قرار دیا تھا۔
چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں وطن ہے سارا جہاں ہمارا
حضرت اقبالؒ نے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کا تصور پیش کیا‘ اس کو حضرت قائداعظمؒ نے عملی شکل دیدی۔ علامہ اقبال مسلمانوں کے بھی اتحاد کے حامی تھے۔ عالم اسلام کا اتحاد بھی ان کا خواب تھا........
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
نبی کریم نے فرمایا تھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں‘ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا بدن بے چین ہو جاتا ہے۔ اس سوچ سے اسلامی ممالک کے سربراہان کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام کون کرے؟ یہ کام عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت پاکستان کے کرنے کا ہے۔ پاکستان یہ کام کرنے کی ٹھان لے تو اسلامی دولت مشترکہ کا قیام بڑی آسانی سے عمل میں آسکتا ہے۔ آپکے پاس او آئی سی کا پلیٹ فارم پہلے سے موجود ہے‘ ضرورت اس کو تھوڑا سا فعال کرنے کی ہے۔
No comments:
Post a Comment