About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, November 9, 2012

 
 
 
امریکی صدارتی اور پاکستانی پارلیمانی الیکشن
6-11-12

امریکہ میں صدارتی انتخابات آج بروز منگل 6 نومبر 2012ءکو ہو رہے ہیں‘ امریکی عوام اگلے چار سال کیلئے ری پبلکن مٹ رومنی اور ڈیموکریٹک باراک اوباما میں سے کسی ایک کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھا دینگے۔ چار سال قبل 2008ءنومبر کے پہلے منگل کو ہونیوالے انتخابات میں اوباما نے اپنے مدمقابل جان مکین کو شکست دی‘ اگلے امریکی صدارتی الیکشن میں مدِمقابل کون ہونگے؟ اس بارے میں وثوق سے پیشگوئی نہیں کی جا سکتی البتہ دو باتیں کرسٹل کلیئر ہیں کہ اگلے امریکی صدارتی انتخابات نومبر 2016ءکے پہلے منگل کو ہونگے اور مدمقابل ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیاں ہی ہونگی۔ ہماری جمہوری حکومت جن انتخابات کے نتیجے میں اقتدار کے آسمان تک پہنچی‘ وہ آج سے پورے چار سال ساڑھے آٹھ ماہ قبل 18 فروری 2008ءکو ہوئے تھے۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے منگل کو ہوتے ہیں۔ منتخب ہونیوالا صدر اگلے ہی روز وائٹ ہاﺅس میں براجمان نہیں ہو جاتا‘ اقتدار کی منتقلی جنوری میں مکمل ہوتی ہے۔ چار سال کے اندر سارا عمل مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اسکے مقابلے میں ہمارے ہاں حالت یہ ہے کہ 2008ءکے انتخابات پونے پانچ سال قبل ہوئے تھے۔ حکومت آئندہ انتخابات کا پروگرام دینے اور ایک تاریخ طے کرنے پر تیار نہیں۔ غصے سے بھرے ہر وقت سپریم کورٹ کے ساتھ آمادہ دنگل وزیر اطلاعات مسٹر کائرہ کبھی کہتے ہیں‘ عبوری حکومت 18 مارچ کو بنے گی‘ کبھی کہتے ہیں الیکشن مئی میں ہونگے۔ حکمرانوں کے رویے سے نظر آتا ہے کہ وہ مقررہ وقت پر الیکشن کرانے کیلئے سنجیدہ ہی نہیں۔ وہ آسمان سے ایسی آفت ٹوٹنے کے متمنی ہیں جس کو جواز بنا کر انتخابات ملتوی کر سکیں۔ پنجاب والوں کو بھی الیکشن سال چھ ماہ آگے لے جانے پر اعتراض نہیں کیونکہ انہوں نے بھی حکمرانی کے سینگوں پر ملک کا سب سے بڑا صوبہ اٹھایا ہوا ہے۔ امریکہ میں سینڈی طوفان نے تباہی مچا دی‘ 11 ریاستوں کے پانچ کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوئے‘ حکومتی پارٹی کیلئے صدارتی الیکشن ملتوی کرنے کا یہ سنہری موقع اوربہانہ تھا‘ امریکی آئین میں اسکی گنجائش بھی ہے لیکن ایسی سوچ کسی امریکی عہدیدار کے دماغ میں نہ آئی‘ انہوں نے پورا زور متاثرین کی بحالی پر لگا دیا۔ ادھر ہم لوگ سینڈی طوفان کو امریکہ پر اللہ کا عذاب قرار دے رہے ہیں اور اس کو ہم اپنی دعاﺅں کے اللہ کے حضور قبولیت کا شرف عطا ہونے کا نتیجہ سمجھ رہے ہیں‘ یہ کیا عذاب ہوا جس میں مرنیوالوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے بھی کم ہے؟ اتنے لوگ تو ہمارے ہاں روزانہ کی بنیاد پر ڈرون حملوں‘ کراچی بلوچستان کی ٹارگٹ کلنگ اور گلگت بلتستان جیسے علاقوں میں فرقہ واریت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ عذاب تو وہ تھا جو قوم عاد اور ثمود پر آیا۔ علماءکرام بتائیں کہ ہم کسی ملک یا خاص طبقے کی تباہی و بربادی کی دعا کریں یا خدا سے ان کو راہِ راست پر لانے کی التجا کریں؟ ہم جن کی بربادی و ہلاکت کی دعا کرتے ہیں‘ ان کا تیار کردہ لباس پہنتے‘ ان کے چینلز دیکھتے‘ انکے کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ اور موبائل فون جیسے آلات استعمال کرتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے ان ممالک کے مشروبات و بوتلیں پینے اور فاسٹ فوڈ کھانے سے ہاتھ کھینچا ہے؟ دعائیں بھی اسی تناسب سے منظور ہونگی!
مٹ رومنی نے سینڈی طوفان کو ڈیموکریٹک کے کھاتے میں ڈال کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور نہ اوباما نے متاثرین کی برق رفتار بحالی کا کریڈٹ سمیٹنے کی ۔البتہ دونوں صدارتی امیدواروں نے وقتی طور پر اپنی اپنی انتخابی مہم روک کر متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی ضرور کیا اور پوری توجہ انکی بحالی کی طرف مبذول کر دی۔ ہمارے ہاں چھوٹی بڑی پارٹیاں جن کی تعداد ماشاءاللہ 160 ہے‘ سیلاب کو سروں پر اٹھائے پھرتی ہیں۔ خصوصی طور پر بڑی پارٹیاں سیلاب کی تباہ کاریوں کا الزام ایک دوسرے پر لگاتے ہوئے خود کو 2010ءاور 2011ءکے سیلاب متاثرین کا مسیحا ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ آئندہ الیکشن ہر پارٹی اپنے ایسے گن گنوا کر اور حریفوں کے لچھن سنا کر جیتنے کی کوشش کریگی۔
آج کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ الیکشن بروقت ہوئے تو جیتے گا کون؟ الیکشن کے بروقت انعقاد کا مطلب ہے کہ موجودہ حکومتوں کے آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد جو الیکشن ہونگے‘ ان میں جیتنے کے بارے میں حتمی طور پر کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ جس ملک میں سرکاری کھاتے میں آئی جے آئی بن جائے‘ الیکشن کے نتائج آنے کے بعد بھی بدل جائیں۔ مشرف صاحب اپنی جیبی کے لیڈروں کو بیس 25 سیٹیں دینے کی بات کریں اور پھر عدالتیں‘ ماشاءاللہ ہارے ہوئے امیدوار کی جیت کا اعلان کرنے میں پانچ سال لگا دیں‘ ایسے ملک میں دنیا کا بڑے سے بڑا تجزیہ کار بھی کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا۔ البتہ اندر کا بندہ کوئی راز افشا کر دے تو یہ پیشگوئی نہیں اطلاع ہو گی۔ فی الحال کسی طرف سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے۔ پھر بھی ہم تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی انہونی نہ ہوئی‘ کوئی آئی جے آئی نہ بنی‘ الیکشن شفاف ہوئے تو کس پارٹی کا پلڑا بھاری رہے گا‘ برادری ازم‘ گلیوں‘ سڑکوں اور تھانہ کچہری کے عوامل اپنی جگہ‘ لیکن باشعور لوگ جتنے بھی ہیں‘ وہ اب اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر استعمال کرینگے۔ خصوصی طور پر ان حالات میں جب ملک سنگین بحرانوں سے گزر رہا ہے جس کے ذمہ دار یقیناً حکمران ہی ہیں۔ ایسی حکمرانی سے آج ہر فرد متاثر ہے اور شدید متاثر ہے البتہ جن کے وارے نیارے ہیں‘ ظاہر ہے‘ وہ تو ان کو ہی سلام کرینگے جن کے دم قدم سے انکی گاڑی اڑان بھر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے اسکے سامنے تحریک انصاف کو لاکھڑا کیا۔ اس کا اعتراف نجی محفلوں میں پی ٹی آئی کے رہنما کرتے ہیں۔ آج تحریک انصاف ن لیگ کے بجائے پیپلز پارٹی کےلئے خطرہ بن چکی ہے۔ اس کو پذیرائی بھی خصوصی طور پر پیپلز پارٹی کی عوام میں ناپسندیدگی سے دیکھی جانیوالی پالیسیوں کے باعث ہی ملی ہے۔ جیالے کسی صورت اپنی پارٹی نہیں چھوڑتے لیکن پارٹی سے ناراضی کی صورت میں پولنگ سٹیشن پر نہیں جاتے۔ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ لاقانونیت‘ بجلی و گیس کی قلت‘ پٹرول کی قیمت میں بے تحاشا اضافے جیسے اقدامات کے باعث ہر پاکستانی بلاامتیاز جیالوں‘ متوالوں اور عمران کے نرالوں کے تنگ اور پریشان ہے۔ ان عوامل کو دیکھتے ہوئے یہ نظر آتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں آج مرکزی حکمران اور اتحادی اسی طرح غروب ہو جائینگے جس طرح 1988ءاور 2008ءکے الیکشن میں آمریت کے پروردہ سیاست دان ڈوب گئے تھے۔ اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے مابین ہو سکتا ہے جس میں بہرحال مسلم لیگ ن کی نسبتاً برتری کے امکانات ہیں۔ یہ صرف آج کے حالات اور سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ ہے‘ اصل صورتحال انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد ایک ہفتے میں واضح ہو گی۔ جب ہماری روایتی سیاست میں ہمدردیاں اور وفاداریاں بدلنے کا طوفان اٹھے گا‘ اس طوفان سے اٹھنے والی دھول کے بیٹھنے پر پاکستان کے سیاسی مستقبل کا نقشہ واضح ہو جائیگا۔
 
 
 
 
 
 
 
 

No comments:

Post a Comment