یہ جمہوریت!
4-11-12
اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے پر ہر مسلمان کا پختہ یقین ہے۔ خلافتِ راشدہ کی صورت میں دنیا نے اس کا عملی نفاذ بھی دیکھا جس دوران اسلامی حکومت کی سرحدیں ایران سے بھی آگے مکران تک پہنچ گئی تھیں۔ سعودی عرب سمیت بعض دیگر ممالک میں آج بھی کسی حد تک وہی نظام نافذ ہے جسے ضابطہ حیات قرار دیا گیا ہے۔آج کی پاکستان میں مروجہ جمہوریت ہم نے مغرب سے درآمد کی جہاں شرح خواندگی100فیصد نہیں تو اس کے قریب ضرور ہے۔ ہمارے ہاں میٹرک تک پہنچنے والوں کو بھی تعلیم یافتہ قرار دیاجائے تو پڑھے لکھوں کی تعداد دس پندرہ فیصد سے زائد نہیں جبکہ ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنیوالوں کیلئے کوئی تعلیمی معیار مقرر نہیں ہے۔گو سکول و کالج کی تعلیم کو شعور کا پیمانہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ایک دن بھی سکول نہیں گئے لیکن وہ عقل و دانش میں اپنی مثال آپ ہیں جن لوگوں کے ووٹ بن چکے ہیں ان میں پڑھے لکھے،با شعور لوگوں کی تعداد 25 تیس فیصد سے زائد نہیں۔ ان میں سے بھی کتنے ہیں جو اپنے ووٹ کا حق اسے قو می امانت سمجھ کر استعمال کرتے ہیں؟۔شہری حلقوں میں بالعموم اور دیہی علاقوں میں بالخصوص برادری ازم کو فوقیت دی جاتی ہے۔ امیدوار کے ذاتی کردار سے کوئی غرض نہیں ہوتی دیکھا جاتا ہے کہ اس نے گلیاں، نالیاں بنوا دیں، نوکریاں دلا دیں، تھانے کچہری میں ساتھ دیا۔ دوسرا امیدوار تعلیم یافتہ ہے اس کی قوم و ملک کےلئے کوئی کمٹمنٹ ہے وہ عالمی امور پر نظر رکھتا ہے قانون سازی میں کردارادا کرسکتا ہے اس سے ووٹر کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ امیدوار کی شہرت و کردار اور مقامی مسائل کے حل میں فعالیت کو بھی نظر انداز کرکے صرف اس کی پارٹی وابستگی کو دیکھتے ہوئے اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں ان کو جیالا اور متوالا قرار دیاجاتا ہے۔
اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے پر ہر مسلمان کا پختہ یقین ہے۔ خلافتِ راشدہ کی صورت میں دنیا نے اس کا عملی نفاذ بھی دیکھا جس دوران اسلامی حکومت کی سرحدیں ایران سے بھی آگے مکران تک پہنچ گئی تھیں۔ سعودی عرب سمیت بعض دیگر ممالک میں آج بھی کسی حد تک وہی نظام نافذ ہے جسے ضابطہ حیات قرار دیا گیا ہے۔آج کی پاکستان میں مروجہ جمہوریت ہم نے مغرب سے درآمد کی جہاں شرح خواندگی100فیصد نہیں تو اس کے قریب ضرور ہے۔ ہمارے ہاں میٹرک تک پہنچنے والوں کو بھی تعلیم یافتہ قرار دیاجائے تو پڑھے لکھوں کی تعداد دس پندرہ فیصد سے زائد نہیں جبکہ ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنیوالوں کیلئے کوئی تعلیمی معیار مقرر نہیں ہے۔گو سکول و کالج کی تعلیم کو شعور کا پیمانہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ایک دن بھی سکول نہیں گئے لیکن وہ عقل و دانش میں اپنی مثال آپ ہیں جن لوگوں کے ووٹ بن چکے ہیں ان میں پڑھے لکھے،با شعور لوگوں کی تعداد 25 تیس فیصد سے زائد نہیں۔ ان میں سے بھی کتنے ہیں جو اپنے ووٹ کا حق اسے قو می امانت سمجھ کر استعمال کرتے ہیں؟۔شہری حلقوں میں بالعموم اور دیہی علاقوں میں بالخصوص برادری ازم کو فوقیت دی جاتی ہے۔ امیدوار کے ذاتی کردار سے کوئی غرض نہیں ہوتی دیکھا جاتا ہے کہ اس نے گلیاں، نالیاں بنوا دیں، نوکریاں دلا دیں، تھانے کچہری میں ساتھ دیا۔ دوسرا امیدوار تعلیم یافتہ ہے اس کی قوم و ملک کےلئے کوئی کمٹمنٹ ہے وہ عالمی امور پر نظر رکھتا ہے قانون سازی میں کردارادا کرسکتا ہے اس سے ووٹر کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ امیدوار کی شہرت و کردار اور مقامی مسائل کے حل میں فعالیت کو بھی نظر انداز کرکے صرف اس کی پارٹی وابستگی کو دیکھتے ہوئے اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں ان کو جیالا اور متوالا قرار دیاجاتا ہے۔
پی پی پی کے جیالے ، ن لیگ کے متوالے اپنی اپنی پارٹی کے کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تحریک انصاف گزشتہ سال 30اکتوبر کے جلسے کے بعد ایک نئی اٹھان اور اڑان کے ساتھ سامنے آئی تو اس کے ورکرز نے نیا کلچر متعارف کرایا جسے نرالا کلچر کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیاجاسکتا۔ جلسوں سے سامانِ آرائش اور کرسیوں تک اٹھا لیجانے کھانے اور کیک پر لپکنے اور جھپٹنے کے مناظر لعن و طعن وتبراّ نرالا کلچر کی ایجاد ہے۔آئندہ الیکشن میں نرالے پولنگ سٹیشن مع عملہ،بیلٹ باکسز اور تمبو کناتوں کو لپیٹ کے نہ لے جائیں۔
ہمارے ہاں امیدوار کے کردار کو پرکھ کر، اس کی اہلیت کو جانچ اور اس کی پارٹی وابستگی کو دیکھ کر ووٹ دینے والوں کی تعداد،2فیصد سے زائد نہیں۔ہم اپنے آپ کو دیکھیں ساتھیوں سے پوچھیں تو عیاں ہوجاتا ہے کہ ہم کس کو کس بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ مجید نظامی صاحب نے محض اس لئے 70 ءکے الیکشن میں مجیب الرحمن کے امیدوار.... کو ووٹ دیا تھا کہ اسے احساس ہو کہ مغربی پاکستان میں ہر بندہ متعصب نہیں ہے۔ لوگ بھٹو کی محبت کی لہر میں نہ بہہ چکے ہوتے تو عوامی لیگ کا ایک امیدوار کامیاب ہوجاتا جس سے مجیب اور اس کی پارٹی کیلئے مغربی پاکستان کے خلاف نفرتیں پھیلانے کا کوئی جواز نہ رہتا۔
جمہوریت میں ہم برطانیہ اور امریکہ کی نقالی کرتے ہیں۔ ایک میں پارلیمانی، دوسرے میں صدارتی نظام ہے۔دونوں ملکوں میں الگ الگ نظام بڑی کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ہم صدارتی نظام سے مستفیض ہوئے اب پارلیمانی نظام سے مستفید ہورہے ہیں۔ہر دو سسٹم نے ہماری سوچ کا کچھ نہیں بگاڑا۔ہم امیدوار کوجس بنیاد پر کامیاب کراتے ہیں۔ وہ یہ کام بڑی کامیابی سے کرتا ہے۔نالی گلی پختہ کرانے، کورٹ کچہری میں مدد کرنے،نوکری دلانے اور چوری چکاری معاف کرانے والے آگے جاکر اپنے جیسے ہی لوگوں کو صدر،وزیراعظم اور وزیراعلیٰ منتخب کرتے ہیں۔ پھر وہ وہی کچھ کریںگے جو آج ملک و قوم کے ساتھ ہورہا ہے۔
سسٹم کوئی بھی بُرا نہیں، وہ پارلیمانی ہے یا صدارتی، اگر سسٹم بُرا ہوتا تو یہ مغرب میں کامیابی سے نہ چل رہا ہوتا۔سسٹم چلانے والوں پر منحصر ہے کہ وہ کیسے ہیں؟ ہم نے جن ممالک سے جمہوریت سیکھنے کی کوشش کی کیا کبھی وہاں ایسا دیکھا یا سنا گیا ہے کہ فلاں سیاست میں جوڑ توڑ کا بڑا ماہر ہے۔ بڑے سیاسی داﺅ پیچ جانتا ہے۔ فلاں کی وفاداری خریدنے کو فلاں کو بکنے سے بچانے کیلئے جتھوں کی صور ت میں مری، سوات اور چھانگا مانگا کے ریسٹ ہاﺅسں میں قید کردو۔ یہ ایسی شیریں حراست ہے جس پر محصور ہونے والا اش اش کر اٹھتا ہے۔ آج ہم دیکھ رہے فلاں سابق وزیر، مشیر، وڈیرہ، جاگیردار ہزاروں ساتھیو ں سمیت فلاں پارٹی چھوڑ کر فلاں میں شامل ہوگیا۔ مہذب جمہوری ممالک میں ایسا کب ہوتا ہے!
ججوں کو قید کرنا، ان کی تذلیل، عدالتوں پر حملے اور عدالتی فیصلوں کی تضحیک کس جمہوریت میں روا ہے؟ لیکن یہ سب کچھ ہمارے ہاں ہوتا ہے اور بڑے دھڑلے اور ڈنکے کی چوٹ پر ہوتا ہے ۔سپریم کورٹ نے چینی کی قیمتیں کم کیں،اس پر عمل نہیں ہونے دیا گیا۔ این آر او فیصلہ تین سال سے عمل کا منتظر ہے،سپریم کورٹ لاپتہ افراد کے حوالے سے ایک ادارے کو ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ اس کو سنجیدگی سے نہیں لیاجاتا۔ کراچی کی قتل و غارت کے حوالے سے عدلیہ کی ہدایت کو پسِ پشت ڈال دیاجاتا ہے۔ بلوچستان میں امن کے قیام کیلئے صوبائی حکومت کو ناکام قرار دینے کے سپریم کورٹ کے حکم کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ نیب حکومت کے متعین کردہ لوگوں کو ملزم اور مجرم سمجھتا ہے ۔حکومت میں موجودہ سیاہ کاروں کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں ۔ عدلیہ نے سی این جی کی قیمتیں کم کرنے کا حکم دیا تو اکثر مالکان نے منافع کم ہونے کا بہانہ بنا کر سٹیشن ہی بند کردئیے۔ سی این جی پر حکومت 40 روپے فی کلو منافع لے رہی ہے سٹیشن مالکان کی جیب میں اس گیس کا فی کلو 31 روپے منافع جاتا تھا جس کی لاگت 17 روپے فی کلو ہے۔حکومت اپنا منافع چھوڑنے پر تیار نہیں۔سی این جی سٹیشن مالکان حکومت سے منافع کم کرکے اپنا منافع بڑھانے کا مطالبہ کرنے کے بجائے صارفین کی چمڑی ادھیڑنے پر بضد ہیں۔ جمہوری دور میں کوئی ادارہ سلامت نہیں بچا۔ پی آئی اے سٹیل مل ریلوے اور دیگر ادارے اجاڑ دئیے گئے۔ حکمرانوں کے سونے کے محل تعمیر ہورہے ہیں۔ عوام کی جھونپڑیاں بھی جل رہی ہیں۔ کیا یہی جمہوریت کے ثمرات ہوتے ہیں؟ نقل ہم امریکہ و برطانیہ کے جمہوری نظام کی کرتے ہیں۔ امریکہ میں صرف دو اور برطانیہ میںسوادو سیاسی پارٹیاں ہیں۔ہمارے ہاں تعداد 160ہے جو الیکشن کمشن کے پاس باقاعدہ رجسٹریشن کراچکی ہیں۔ باقی لولی لنگڑی پارٹیوں کا کوئی شمار قطار نہیں ہے۔ مروجہ جمہوریت میں یہ تو ہوسکتا ہے کہ اچھے کردار کے لوگ حکومت میں آجائیں تو عوام کو کچھ ریلیف بھی مل جائے۔ پھر بھی جمہوریت کے مکمل ثمرات عوام تک پہنچنا ممکن نہیں۔ آپ یہ جمہوریت صدیوں آزما لیں اس کے ثمر بار ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ جمہوریت کیلئے ماحول بھی ویسا بنانا ہوگا جیسا ان ممالک میں ہے جہاں سے ہم نے جمہو ریت اڑائی ہے۔ووٹر کو باشعور بنانا ہوگا جس کیلئے شرح خواندگی کا سو فیصد یا اس کے قریب تر ہونا لازم ہے۔
No comments:
Post a Comment