About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, July 31, 2013

سرد جنگ

سرد جنگ

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
16 جون 2013 0

ہمارے حکمران ہر بحران اور مسئلے کو جنگی بنیادوں پر حل کرنے کے عزم میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ شہباز شریف اکثر منصوبے جنگی بنیادوں پر شروع کرکے تکمیل تک پہنچانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ دورتین روز قبل انہوں نے اپنی کابینہ کو حکم دیا کہ کرپشن کے خلاف جنگی بنیادوں پر کام کیاجائے ۔ احبا ب کی محفل میں رضاءالدین صدیقی ایڈووکیٹ خالد حبیب الٰہی ‘لندن پلٹ بیرسٹر نعیم بٹ ملکی صورتحال پر گفتگو کر رہے تھے۔ ایک صاحب نے بتایا ”میاں نواز شریف جب پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تو مجید نظامی صاحب نے انکے اباجی مرحوم و مقفور سے کہا تھا کہ وہ اپنے اثاثے ڈیکلیئر کرکے جب تک نواز شریف وزیرِاعظم ہیں کاروبار سیز کردیں۔ اس پربڑے میاں صاحب کا جواب تھا ،پھر میں کیا کروں؟ شہباز شریف نے جب وزراءسے کہا، کرپشن کے خاتمے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کریں تو انہوں نے سوچا ہو گا ۔۔۔ پھروزیر بننے کا فائدہ؟
حالیہ دنوں میں شہباز شریف نے 500 ارب کے سرکوکلر ڈیٹ کوایسا شیطانی چکر قرار دیا جس نے پوری قوم کو چکرا یا ہوا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ کچھ بااثر لوگ ماہانہ اربوں کی بجلی‘ گیس اور تیل چوری میں ملوث ہیں۔ انہوں نے عزم ظاہرکہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ جنگی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ 6 جون کو قیامت کی گرمی میں گھنٹے گھنٹے بعد بجلی کی بندش لاہوریوں پر عذاب بن کر برس رہی تھی۔ قرب و جوار میں 16 سے 20 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہوتی رہی۔ اس روز شہباز شریف نے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا اور میاں نواز شریف نے اپنی حلف برداری کے دوسرے روز سٹیٹ گیسٹ ہاﺅس لاہور میں انرجی کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس میں مستقبل کے وزیر بجلی خواجہ آصف بھی موجود تھے۔ انکی گردن میں بل ہے لوگ اسے سریا سمجھنے لگے ہیں۔ میاں نواز شریف نے اس کانفرنس میں فرمایا تھا ”لوڈشیڈنگ ختم کرنے کیلئے بجلی کی سی تیزی دکھانے کو بے قرار ہیں۔ سرکولر ڈیٹ کے خاتمے کیلئے جمعہ کو کام شروع کر دیا جائے گا۔ بجلی چوری روکنے اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے“
عام آدمی کام جنگی بنیادوں پر ہونے کے اعلان سے مطمئن ہے۔ پاکستانیوں کو تین سوا تین یا ساڑھے تین جنگوں کا تجربہ ہے۔ 48ء65ءاور 71ءکی مکمل جنگیں اور کارگل کی مہم جوئی میں سے کوئی بھی ایک ماہ سے زیادہ جاری نہیں رہی تھی۔قوم،فوج اور حکومت کی پوری توجہ جنگ پرہوتی اورکامیابی کے لئے تمام وسائل جھونک دیئے جاتے ہیں۔ عوام لوڈشیڈنگ سے نجات کیلئے بھی اسی طرح کی تیاری اورتوجہ کی امید کرتے اور اسی کوجنگی بنیادوںکام سمجھتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ نے چونکہ کرپشن کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ اس لئے دونوں کو ایک ہی قبر میں دفنائے بنا عذاب ٹل نہیں سکتا۔ ن لیگ کی لیڈر شپ جوکام جنگی بنیادوں پر شروع کرنے کا عزم کر رہی ہے اس کا آغاز نظر نہیں آرہا۔ گو حکومت کو قائم ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ 65ءکی جنگ 17 دن میں ختم ہو گئی تھی۔ جنگی بنیادوں پر کرپشن اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا آغاز ہو جاتا تو اب تک کچھ نہ کچھ سفر طے ہوچکا ہوتا۔سوال یہ ہے، عوام جس کو جنگی بنیاد سمجھتے ہیں کیا حکمرانوں کے ہاں بھی جنگی بنیاد کا یہی مفہوم ہے؟ جنگ کی کئی قسمیں ہیں۔ان میں معروف ایک مسلح اوردوسری سرد جنگ ہے ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان مسلح جنگیں ہوئیںاور فریقین کے دنوں میں دانے مُک گئے۔سرد جنگ کئی سال جاری رہتی ہے۔روس اور امریکہ کی سرد جنگ 1945ءسے 90ءکی کئی دہائی تک جاری رہی۔ خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے میں 6 سال لگ جائیں گے۔ گویا وہ سرد جنگ کی بنیاد پر یہ مسئلہ کرنا چاہتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے یہ بیان ایوان صدر میں مبینہ طور پر گوشہ تنہائی میں رازو نیاز کے متمنی شخص کی خواہش کو ٹھکرانے کے کئی روز بعد دیا۔ جس کا احوال ایک معاصر کالم نگار نے بیان کیا ہے۔کابینہ کی حلف برداری کی تقریب کے بعداس شخص نے خواجہ صاحب کو نئی مرسڈیز کی پیشکش کی، انکارپر ایوان صدر کے مہمان جو یقیناً کوئی للو پنجو نہیںتھا، نے خواجہ کی اہلیہ کیلئے اسلام آباد میں نئے کھلنے والے جیولرز سٹور سے ہیرے جواہرات کے زیورات کی شاپنگ کی دعوت بھی دے ڈالی۔اس پر خواجہ آصف نے طیش میں آکر تھپڑ کیلئے ہاتھ اٹھایا اور جنرل کیانی کودیکھ کر ہاتھ اور اپنے جذبات پر قابو پالیا۔ اس سٹوری پر یقین کرنے میں کوئی امرمانع نہیں ہے۔ خواجہ صاحب بڑے دلیر ہیں۔انہوں نے تمام سی این جی سٹیشن مالکان کو گیس چور قرار دیا ۔ ان میں سے بہت سے سینٹ اور اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ اب خواجہ اس شخص کو بھی بے نقاب کریں جس نے انکا ضمیر کو خریدنے کی کوشش کی اور خواجہ نے فرما دیا کہ لوڈشیڈنگ چھ سال میں ختم ہو گی، سرد جنگ کی بنیاد پر۔
 پاکستان میں 207 ارب بجلی چوری کی وجہ سے خسارہ ہوتا ہے۔426 ارب کے سرکاری و غیرسرکاری ادارے نادہندہ ہیں۔ ٹیکسوں کی وصولی ہر حکومت کیلئے آزمائش ثابت ہوئی ہے حالانکہ اس کام کیلئے کئی ادارے موجود ہیں جن کی پرورش پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگریہ طاقتور محکموں اور شخصیات سے وصولی کرنے سے بوجوہ قاصرہیں۔طاقتورچوروں ،سرپھرے ڈاکوﺅںاور سرکش نادہندگان کا مکو ٹھپنے والی قوتیں موجود ہیںجن کی طاقت کا لوہا ہر کوئی مانتا اور ان سے پنگا لینے کا انجام جانتا ہے۔ مصلحتوں کی سولی پر لٹکی ہوئی حکومت ان سے ٹھیکہ مکا سکتی ہے۔ بلیک واٹر، طالبان اور ایم کیو ایم یہ نیک کام اسی معاوضے پر کر سکتے ہیں جو بل،ٹیکس وصولی اور بجلی چوری روکنے پر مامور اداروں کو دیا جاتا ہے۔یہ فریضہ ایم ایس ایف کہیں کم مزدوری پرانجام دے سکتی ہے۔پھر کیوں نہ آرام اور عیش پرست محکموں اور اداروں کے افسروں اور اہلکاروں کی خدمات فوج کے حوالے کر دی جائیں۔ اس حکومت کی بصارت کا اندازہ کر لیجئے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میںدس فیصد کردیا ہے تاکہ احتجاج اور مظاہرے زور نہ پکڑ جائیں۔ حکمران صورتحال کا ادراک کیوں نہ کرسکے؟باقی مسائل تو بہت گھمبیر ہیں ۔

غلاف کعبہ برائے فروخت

غلاف کعبہ برائے فروخت

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
18 جون 2013 0

میرے سامنے اتوار 16 جون 2013ءکو راولپنڈی سے شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار کا صفحہ 4 کھلا ہے۔ اس پر چھوٹے سے اشتہار کی موٹے الفاظ میں ہیڈ لائن ”غلاف کعبہ“ توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتی ہے۔ اشتہار کی پوری عبارت یوں ہے۔ غلافِ کعبہ کے دو پیس تقریباً 4 کلو سونے کی تار سے بنے، ”ضرورتاً برائے فروخت“ ہدیہ 4 کروڑ۔۔۔ ان مختصر الفاظ پر مشتمل اشتہار کے آخر میں jghilaf@gmail.com ای میل ایڈریس دیا گیا ہے۔ یہ اشتہار لاہور ایڈیشن کے صفحہ 17 پر شائع ہوا ہے۔ میں نے اشتہار میں دئیے گئے ایڈریس پر مزید تفصیلات کے لئے میل کی تو مختصر سا جواب دیا گیا ”یہ کعبہ شریف کے اوپری، دائیں کونے کے دو حصے ہیں“ اس میل کے جواب میں، میں نے درخواست کی کہ آپ کے پاس یہ متبرک ٹکڑے کیسے آئے اور ان کو فروخت کرنے کی کیا مجبوری ہے؟ اس کا جواب کالم لکھنے تک موصول نہیں ہوا اور ان صاحب کیلئے جواب دینا کوئی ضروری اور مجبوری بھی نہیں ہے۔ ہر مسلمان کی آنکھوں کی ٹھنڈک خانہ کعبہ کے غلاف کی تاریخ اور اس کی تیاری پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ ”اخبار مکہ“ کے مصنف کے مطابق ۔۔۔ کعبة اللہ پر غلاف چڑھانے کی رسم بہت پرانی ہے خانہ کعبہ پر سب سے پہلے غلاف حضرت اسماعیل نے چڑھایا تھا۔ ظہو ر اسلام سے قبل بھی حضور اکرمﷺ کا خاندان مکہ مکرمہ میں بہت عزت واحترام سے دیکھا جاتا تھا‘ آپﷺکے جدامجد بھی تمام قبائل میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے‘ انہوں نے بڑی سمجھداری اور فراست سے کام لیتے ہوئے غلاف کعبہ کی تیاری کےلئے خصوصی بیت المال قائم کیا تاکہ تمام قبائل اپنی حیثیت کے مطابق غلاف کعبہ کی تیاری میں حصہ لے سکیں۔ فتح مکہ کی خوشی پر حضور اکرمﷺ نے یمن کا تیار کیا ہوا‘ سیاہ رنگ کا غلاف اسلامی تاریخ میں پہلی بار چڑھانے کا حکم دیا۔ آپﷺ کے عہد میں دس محرم کو نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا‘ بعد میں یہ غلاف عیدالفطر کو اور دوسرا دس محرم کو چڑھایا جانے لگا۔ بعدازاں حج کے موقع پر غلاف کعبہ چڑھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ 9اور 10ہجری میں بھی آپﷺ نے حجتہ الوداع فرمایا تو غلاف چڑھایا گیا۔ اس زمانے سے آج تک ملت اسلامیہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ غلاف خوبصورت اور قیمتی کپڑے سے بنا کر اس پر چڑھاتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے دور میں مصری کپڑے کا قباطی غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ سیدنا عمر فاروق پہلے پرانا غلاف اتار کر زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے لیکن بعد میں اسکے ٹکڑے حجاج اور غربا میں تقسیم کر دیئے جاتے۔ آج کل یہ ٹکڑے اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور اہم شخصیات کو تحفہ میں دیئے جاتے ہیں۔حضرت عثمان غنی اسلام کی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے پرانے غلاف پر غلاف چڑھایا اور سال میں دو مرتبہ کعبہ پر غلاف چڑھانے کی رسم ڈالی۔ بنو عباس نے اپنے 500 سالہ دور حکومت میں ہر سال بغداد سے غلاف بنوا کر مکہ مکرمہ روانہ کئے۔ عباسیوں نے اپنے دور حکومت میں غلاف کعبہ کی بنوائی میں خصوصی دلچسپی لی اور اسکو انتہائی خوبصورت بنایا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے سال میں 2 مرتبہ اور مامون الرشید نے سال میں تین مرتبہ غلاف کعبہ کو تبدیل کرنے کا اہتما م کیا۔ مامون الرشید نے سفید رنگ کا غلاف چڑھایا تھا‘ خلیفہ الناصر عباس نے پہلے سبز رنگ کا غلاف بنوایا لیکن پھر اس نے سیاہ ریشم سے تیار کروایا‘ اسکے دور سے آج تک غلاف کعبہ کا رنگ سیاہ ہی چلا آرہا ہے البتہ اوپر زری کا کام ہوتا ہے۔140ھ سے غلاف پر لکھائی شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے ۔ 761 ہجری میں والی مصر سلطان حسن نے پہلی مرتبہ کعبہ کے بارے میں آیات قرآنی کو زری سے کاڑھنے کا حکم دیا۔ 810 ہجری میں غلاف کعبہ بڑے خوبصورت انداز میں جاذب نظر بنایا جانے لگا‘ جیسا کہ آج بھی نظر آتا ہے۔ محمود غزنوی نے ایک مرتبہ زرد رنگ کا غلاف بھیجا۔ سلمان دوم کے عہد حکومت تک غلاف مصر سے جاتا تھا‘ جب اس رسم میں جاہلانہ باتیں شامل کرلی گئیں تو سعودیہ عرب سے مصریوں کے اختلافات بڑھ گئے اور مصریوں کا تیار کردہ غلاف لینے سے انکار کر دیا گیا۔ شریف حسین والی مکہ کے تعلقات مصریوں سے 1923ء میں خراب ہوئے چنانچہ مصری حکومت نے غلاف جدہ سے واپس منگوا لئے۔1927ءمیں شاہ عبد العزیز السعود نے وزیر مال عبداللہ سلیمان المدن اور اپنے فرزند شہزادہ فیصل کو حکم دیا کہ وہ غلاف کعبہ کی تیاری کےلئے جلدازجلد ایک کارخانہ قائم کریں اور 1346 ہجری کےلئے غلاف کی تیاری شروع کر دیں چنانچہ انہوں نے فوری طور پر ایک کارخانہ قائم کرکے ہندوستانی کاریگروں کی نگرانی میں غلاف کی تیاری شروع کر دی اور یوں سعودیہ کے کارخانے میں تیار ہونیوالا یہ پہلا غلاف کعبہ تھا۔ مکہ میں قائم ہونیوالی اس فیکٹری کا نام ”دارالکسوہ“ ہے۔1962ء میں غلاف کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں بھی آئی۔ (کہا جاتا ہے کہ فیصل آباد کے صنعتکاروں کی طرف سے بنائے گئے غلاف کا رنگ اتر گیا تھا) غلاف میں 150کلو سونے اور چاندی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں، اس میں خانہ کعبہ کے غلاف کے ٹکڑے کروڑوں میں فروخت کرنے والا لوگوں کی لعن طعن سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کا ان صاحب کو ادراک ہے تبھی تو انہوں اشتہار میں اپنا فون نمبر اور ایڈریس نہیں دیا۔ انکی نیت کے بارے میں مکمل تفصیلات کے سامنے آنے تک کوئی حتمی رائے قائم کرنا مناسب نہیں۔ یہ صاحب تو غلافِ کعبہ کے دو ٹکڑے ہی فروخت کر رہے ہیں‘ بلاشبہ دینِ حنیف کی حفاظت کیلئے جہاں کفن بردوشوں کی کمی نہیں‘ وہیں وطن فروشوں، ملت فروشوں اور مزیدبراں قلم فروشوں کی بھی بہتات نظر آتی ہے۔ آباءتو بت شکن تھے‘ ملت ِ اسلامیہ نے اپنے اندر کعبہ شکن بھی دیکھے۔ عبداللہ بن زبیر نے خدا کے گھر میں پناہ لی تو حجاج بن یوسف نے خانہ کعبہ پر سنگ باری کرادی۔ حج کے ایام میں غلاف کعبہ کو آدھا اوپر اٹھا دیا جاتا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ بعض سادہ لوح لوگ غلاف سے لپٹ کر دھاگہ کاٹ کر تبرک کے طور پرمحفوظ کر لیتے تھے بعض بخشش کےلئے میت کی آنکھوں میں ڈالتے تھے۔ ایک طرف غلاف کعبہ سے عقیدت کی یہ انتہا ہے تو دوسری طرف آج ملت اسلامیہ کے ایک فرزند نے اسکے غلاف کی قیمت لگا دی ہے۔

توانائی بحران اور بھارت کا ایثار

توانائی بحران اور بھارت کا ایثار

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
13 جون 2013 0



گذشتہ حکومت کی نااہلی‘ بدنظمی‘ لالچ اور سب سے بڑھ کر کرپشن کے ہر سو بکھیرے ہوئے کانٹے موجودہ حکومت کو پلکوں سے چننا پڑیں گے۔ اس حکومت نے بھی اپنے پیشرو¶ں جیسا رویہ اپنائے رکھا تو ان کا انجام جو ہو گا سو ہو گا‘ اس میں ملک و قوم کی بھی بدقسمتی ہو گی۔ نواز لیگ کو اقتدار میں آئے ہوئے ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ ہوا ہے۔ اس دوران گو انکی مستقبل کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی لیکن بجٹ‘ اقتصادی سروے‘ قومی اقتصادی کونسل کے فیصلوں اور توانائی بحران سے نمٹنے کی ابتدائی کوششوں کو دیکھتے ہوئے بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ قومی اقتصادی کونسل کے فیصلوں میں بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے 5.2 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ قومی اقتصادی کونسل کے فیصلوں سے کالا باغ ڈیم کا ذکر غائب ہے۔
اسی انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے جاری کردہ منشور میں بھی کالاباغ ڈیم کا ذکر نظر نہیںآتا۔ اقتصادی سروے میں بجلی مرحلہ وار 6 روپے یونٹ مہنگی کرنے کی نوید سنائی گئی ہے جبکہ بجلی بحران میں سرِمو کمی نہیں آئی۔
سپریم کورٹ نے پورے ملک اور ہر ادارے میں لوڈشیڈنگ کا یکساں اطلاق کرنے کا حکم دیا۔اس پر نگرانوں نے عمل کیا نہ آج کے مہر بانوں نے۔ عمل ہوجاتا ملک میں کہیں بھی 6 گھنٹے سے زیادہ لوڈشیڈنگ نہ ہوتی۔ اس حکم پر عمل کےلئے کونسے پاور پراجیکٹ درآمد کرنے کی ضرورت ہے؟
کل نواز شریف لوڈشیڈنگ کیخلاف‘ تلملاتے‘ شہباز شریف مظاہروں کی قیادت کرتے نظر آتے تھے ،آج انکی حکومت کیخلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ماضی کی طرح مظاہرین اسی جوش سے باہر نکلے جب پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی تھی۔ اب بہت کچھ بدل گیا ہے‘ مرکز اور پنجاب میں ن لیگ کا اقتدار اورپولیس راج ہے پولیس اب گھروں میں گھس کر خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے ۔شیروں کی پولیس نے ابتدا شیر علی کے شہر سے کی ہے ۔
 عوام کو تسلی دینے کے بجائے بجلی کے وزیر عوام پر اپنے بیانات سے پر بجلی گرارہے ہیں، ایک سانس میںچھ سال میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی بات کرتے ہیں دوسرے ہی سانس میں ڈیڈ لائن دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کل تمام سی این جی سٹیشن مالکان کو چور قرار دیا‘ جواب میں ایسوسی ایشن نے بھی نہلے پہ دہلا مارا تو آج فرما دیا‘ سی این جی سٹیشنز کو جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ گزشتہ روز شیر پنجاب سے بھارت سے آئے ہوئے وفد نے ملاقات کی جس میں بجلی و گیس کے شعبہ میں تعاون پر اتفاق کیا گیا۔ بھارت پاکستان کو امرتسر سے لاہور تک ٹرانسمیشن لائن اور جلو تک گیس پائپ لائن بچھا کر بجلی و گیس فراہم کریگا۔ بھارت پاکستان پر کتنا فریفتہ ہے۔۔۔ ؟
اسکے ہاں بھی ہماری طرح بجلی کی قلت کی کےخلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔ گیس وہ ایران اور ترکمانستان سے پاکستان کے ذریعے درآمد کرنے کے معاہدے کر رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر قبضہ، 7 لاکھ سفاک سپاہ کے ذریعے کشمیریوں کے خون سے ہولی‘ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں‘ لائن آف کنٹرول پر گولہ باری اور دوسری طرف اپنا پیٹ کاٹ کر گیس و بجلی کی فراہمی کی صورت میں ایثار بے شمار!چہ معنی؟ کاروباری شیروں کی نظر سے نہیں ایک پاکستانی کے دل کی دھڑکن کو سنیں تو یقیناً یہ ضرب المثل سنائی دیگی ”بنئے کا بیٹا کچھ دیکھ کر گرتا ہے“۔
 بھارت سے بجلی اور گیس کی درآمد کے معاہدے مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں پائے تکمیل تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ بھارت کے ساتھ پائیدار تعلقات‘ تجارت اور دوستی بھی اس مسئلہ کی موجودگی میں جاری نہیں رہ سکتی۔ تجارت ہو رہی ہے‘ دوستی بھی جاری ہے لیکن اسکی حقیقت کچے دھاگے سے زیادہ نہیں‘ قائد کے جعلی جانشینوں کے بجائے اصل پیروکار جب بھی اقتدار میں آئے وہ کشمیر کو وہی حیثیت دلائیں جو قائداعظم چاہتے تھے۔ قائد کی رحلت کے بعد آج تک کے حکمرانوں نے ایسا کیا ہوتا تو کشمیر تنازع طے ہو چکا ہوتا۔
معذرت سے کہنا پڑتا ہے کہ نئے حکمرانوں کی طرف سے بجلی بحران سے فوری نجات پانے کی کمٹمنٹ ظاہر نہیں ہو رہی۔ حالانکہ بجلی بحران پی پی پی کی حکومت کو لے ڈوبا اور ن لیگ کی کامیابی کا باعث بنا۔ یہ شاید آخری سال میں عوام کو مطمئن کرنے کیلئے شعبدہ بازی کی پلاننگ کر رہے ہوں۔
بجلی کا بحران عام آدمی کیلئے کسی طوفان اور عفریت سے کم نہیں لیکن حکمرانوں کی طرف سے اس کو ہمالہ سر کر لینے کے مترادف باور کرانا نیک نیتی نہیں ہے۔ ضرورت سے بھی زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسکی راہ میں رکاوٹ سابق اور موجودہ حکمرانوں کے قریب 5 سو ارب روپے کے گردشی قرضے ہیں جن پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دو ماہ میں قابو پانے کا یقین دلایا ہے۔ ویسے بھی شیر پنجاب کے مطابق 207 ارب روپے کا خسارہ بجلی چوری کی وجہ سے ہے۔ اس پر قابو نہ پانا نااہلی ہو گی۔
 426 ارب روپے کے وفاقی اور صوبائی حکومتیں و ادارے نادہندہ ہیں۔ یہ ریکوری کر لیں تو گردشی قرضے ختم اور ہر پاور پلانٹ کا پہیہ چلنے لگے گا۔ پھر 6 سال کا چکمہ کیوں؟ یہ تاخیری حربے اور ہتھکنڈے کہیں یو پی ایس اور جنریٹر مافیا کی خدمات کا شاخسانہ تو نہیں؟

میرٹ اور پروٹوکول....؟

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان





پانج جون کی تپتی دوپہر کی ڈھلتی ہوئی شام کو ایوانِ صدر کے یخ بستہ ماحول میں، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی حلف برداری کی پروقار تقریب کے شرکاءزرق برق ملبوسات میں چہروں پر ہشاشت بشاشت اور مسکراہٹ سجائے ہوئے شامل تھے۔ اگلی نشستوں پر سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویزاشرف کو انکے پسندیدہ ترین پیرہن میں براجمان دیکھ کر تصورمیں آج سے سوا پانچ سو سال قبل کی تقریب کی فلم چلنے لگی۔”2 جنوری 1492ءکو اندلس میں مسلمانوں کے 8 سو سالہ اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔ یہ دوپہر مسلمانوں پر بھاری تھی۔ اس شام پہلی بار مسجدوں سے مغرب کی اذان سنائی نہیں دی۔ اسکے بجائے ہرطرف مسلمانوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی تھی۔ بے لباس خواتین عزتیں بچانے کیلئے بھاگ رہی تھیں لیکن کہاں جاتیں، بے حمیتی کی انتہا کہ غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ مصاحبین سمیت معاہدے کے تحت شہر کی چابیاں ملکہ ازبیلا اور شہنشاہ فرڈی ننڈس کو پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ملی غیرت دشمن کے قدموں میں ڈھیر کرنیوالی تقریب میں شرکت کیلئے ابو عبداللہ ، شاہی خاندان کے افراد اور امرا زرق برق لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ انکے زرہ بکتر سونے چاندی کی لڑیوں سے دمک رہے تھے“ ۔گیلانی ٹائی لگا سوٹ ،راجہ سنہری بٹنوں والی واسکٹ زیب تن کئے ہوئے تھے۔ لشکارے مارتے بٹن شاید سونے کے ہوں۔اس بار انہیں مسند اقتدار نصیب نہ ہوا تو کیا ہوا‘البتہ دونوں کے پاس رینٹل منصوبوں، درجنوں وزارتوں، سی این جی سٹیشنوں، بجلی کنکشنوںاور کنٹریکٹ ملازمتوں وغیرہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ سونے کے بٹنوں اور سات آٹھ لاکھ کے سوٹوں پر ہی کیا موقوف انکے گھروں میں تو سپون فورک، چمٹا، پھوکنی اور حقے کی چلم سمیت استعمال کی ہر چیز سونے کی ہو سکتی ہے۔ تقریب میں موجود یہ دونوں چہرے ہر حکمران کیلئے عبرت کا سامان اور سبق لئے ہوئے تھے۔انہوں نے میرٹ اور دیانت کو معیار بنایا ہوتا تو وہ اپنے صدر سے حلف لے رہے ہوتے۔میا ں نواز شریف نے انتخابی مہم میں لوگوں سے جو وعدے کئے ان کو ایفا ءکرنے میں سرخرو نہ ہو سکے تو اگلی ٹرم کا حلف کوئی اور لے رہا ہوگا۔گورنر ہاﺅس میں حلف برداری کے موقع پر جہاز سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ اس پر چھوٹے شیر نے اگلے روز ناراضی اور ناگواری کا اظہار کیا۔ ایک روز قبل اخبارات میں خبر موجود تھی ۔جس سے وہ لاعلم رہے ۔ سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ کا تختہ کیا گیا تو اس سے بھی شیروں نے ایسی ہی لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ عظیم الشان خوشی کے موقع پر اپنی جیب سے پھول کیا ہزار ہزار کے نوٹ بھی برسائے جائیں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔دل قومی خزانے کے بے دریغ استعمال پر کُڑھتا ہے ۔میاں نواز شریف طویل عرصے کی صعوبتوں کے بعد اقتدار میں آئے تو عوامی توقعات کے عین مطابق انہوں نے بچت اور میرٹ کو اصول بنانے کا عزم ظاہر کیا۔انکے وزیر اعظم ہاﺅس میں قیام کے اٹل فیصلے کی بے کنا ر تحسین کی گئی۔ لیکن یہ جذبہ وزیر ِ اعظم ہاﺅس کے آفتاب کی چکا چوند دیکھ کر سرد پڑگیا۔مختصر کابینہ لانے کا عہد کیا گیا تھا۔ پہلی کھیپ میں 25وزیر اور 4معاونین خصوصی بنائے گئے ہیں۔ کچھ وزراءانرجیٹک ہیں تو کئی ایسے بھی جو مسلم لیگ ن کی سبکی کا باعث بنتے رہے اور کچھ کے مشوروں نے میاں صاحب کوجیل اور جلاوطنی تک پہنچا دیا۔امیر مقام کو وزیر اعظم کا مشیر مقرر کیا گیا ہے انتخابات میں عوام نے مشرف کی یادگاروں کو نقش کہن سمجھ کر گرا اور مٹا دیا۔ان میں ایک امیر مقام بھی تھے ۔تہمینہ دولتانہ الیکشن ہار گئیں ان کو خصوصی نشستوں پر ایم این اے بنا دیا گیا۔ایسا ہر پارٹی میں ہوتاہے ۔جو الیکشن ہار کر بھی قائدین کے دل سے نہیں نکلتے ان کو سینٹر بنا دیا جاتاہے۔یہ عوامی مینڈیٹ کے سامنے تسلیم خم ہے یا اسکی توہین؟ اس سے زیادہ ووٹر کے جذبات و احساسا ت کا کیا خون ہو سکتا ہے!اتفاق سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حلف کی تقریب اور وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت انرجی کانفرنس ایک ہی وقت میں تھی سہ پہر چارسے شام سات بجے تک لاہوریئے پروٹوکول کی ٹریفک کے عذاب میں جکڑے رہے ۔ مسلم لیگ ن کی جیت پر متوالے جشن مناتے ،مٹھائیاں بانٹتے اور تحسین کے نعرے لگاتے رہے۔ میرٹ کا گزشتہ حکمرانوں کی طرح جنازہ نکلتا رہا تو انہی متوالوں کے ہاتھوں میں پکڑے پھول پتھر بن جائینگے اور تحسین کے نعرے زبان سے انگارے بن کر نکلیں گے ۔ہفتے کی چھٹی ختم کرنے جیسے بےشمار اچھے فیصلے ہونگے لیکن میرٹ سے ہٹ کر ہونیوالے چند فیصلے ووٹر کو عمران خان کی پی ٹی آئی کے قریب کرتے چلے جائینگے۔ہم تو ویسے بھی بے صبرے لوگ ہیں ۔اڑھائی تین سال میں حکمرانوں شکلیں دیکھ کے تنگ آ کر تبدیلی کی خواہش کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ عرب ممالک میں شاہی آمریت کامیابی سے چل رہی ہے ۔ہمارے ہاں جمہوریت بھی ایک ستم دکھائی دیتی ہے ۔اسکی وجہ ہمارے حکمرانوں کے غیر جمہوری روئیے ، میرٹ سے ہٹ کر فیصلے اور عوام سے دوری ہے۔ صحرائے عرب کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور مملکتوں میں شہر سے سیکڑوں میل دور بیاباں میں بسنے والوں کو بجلی گیس فون سڑک کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔تعلیم اور علاج فری ہے۔ہم شہروں میں بھی بجلی گیس اور پانی جیسی سہولتوں سے محروم جو مغرب اور عرب ممالک میں قدیم ہو چکی ہیں۔غریب کو علاج میسر نہیں جبکہ اعلیٰ طبقہ اپنا علاج بیرونِ ممالک سرکاری خرچ پر کراتا ہے۔وسائل کی کمی نہیںضرورت توازن کی ہے ۔ایک آدمی پر بیرونِ ملک علاج پر ایک کروڑ روپیہ خرچ آتا ہے۔ اس سے اپنے ملک میں ہزاروں مریضوں کا علاج ہو سکتا ہے بشمول اسکے جو بیرون ملک علاج کراتاہے۔یہی طریقہ دوسرے اداروں اور شعبوں میں بھی رہنما اصول بن سکتا ہے۔عوامی نفرت سے بچنے کیلئے میاں صاحب کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔جتنے بنا لئے اتنے ہی وزیر کافی ہیں۔انہی کی اہلیت کو پالش کیا جائے جو توقعات پر پورا نہیں اترتااسکی چھٹی اور نیا لانے کی ضرورت نہیں۔ اس سے ضرورت سے قدرے بڑی کابینہ کی غلطی کا کفارہ ادا ہو گا اور دوسرے وزیر مسائل سے نمٹنے کی انتھک کوشش کرینگے۔