سرد جنگ
ہمارے حکمران ہر بحران اور مسئلے کو جنگی بنیادوں پر حل کرنے کے عزم میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ شہباز شریف اکثر منصوبے جنگی بنیادوں پر شروع کرکے تکمیل تک پہنچانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ دورتین روز قبل انہوں نے اپنی کابینہ کو حکم دیا کہ کرپشن کے خلاف جنگی بنیادوں پر کام کیاجائے ۔ احبا ب کی محفل میں رضاءالدین صدیقی ایڈووکیٹ خالد حبیب الٰہی ‘لندن پلٹ بیرسٹر نعیم بٹ ملکی صورتحال پر گفتگو کر رہے تھے۔ ایک صاحب نے بتایا ”میاں نواز شریف جب پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تو مجید نظامی صاحب نے انکے اباجی مرحوم و مقفور سے کہا تھا کہ وہ اپنے اثاثے ڈیکلیئر کرکے جب تک نواز شریف وزیرِاعظم ہیں کاروبار سیز کردیں۔ اس پربڑے میاں صاحب کا جواب تھا ،پھر میں کیا کروں؟ شہباز شریف نے جب وزراءسے کہا، کرپشن کے خاتمے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کریں تو انہوں نے سوچا ہو گا ۔۔۔ پھروزیر بننے کا فائدہ؟
حالیہ دنوں میں شہباز شریف نے 500 ارب کے سرکوکلر ڈیٹ کوایسا شیطانی چکر قرار دیا جس نے پوری قوم کو چکرا یا ہوا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ کچھ بااثر لوگ ماہانہ اربوں کی بجلی‘ گیس اور تیل چوری میں ملوث ہیں۔ انہوں نے عزم ظاہرکہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ جنگی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ 6 جون کو قیامت کی گرمی میں گھنٹے گھنٹے بعد بجلی کی بندش لاہوریوں پر عذاب بن کر برس رہی تھی۔ قرب و جوار میں 16 سے 20 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہوتی رہی۔ اس روز شہباز شریف نے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا اور میاں نواز شریف نے اپنی حلف برداری کے دوسرے روز سٹیٹ گیسٹ ہاﺅس لاہور میں انرجی کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس میں مستقبل کے وزیر بجلی خواجہ آصف بھی موجود تھے۔ انکی گردن میں بل ہے لوگ اسے سریا سمجھنے لگے ہیں۔ میاں نواز شریف نے اس کانفرنس میں فرمایا تھا ”لوڈشیڈنگ ختم کرنے کیلئے بجلی کی سی تیزی دکھانے کو بے قرار ہیں۔ سرکولر ڈیٹ کے خاتمے کیلئے جمعہ کو کام شروع کر دیا جائے گا۔ بجلی چوری روکنے اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے“
عام آدمی کام جنگی بنیادوں پر ہونے کے اعلان سے مطمئن ہے۔ پاکستانیوں کو تین سوا تین یا ساڑھے تین جنگوں کا تجربہ ہے۔ 48ء65ءاور 71ءکی مکمل جنگیں اور کارگل کی مہم جوئی میں سے کوئی بھی ایک ماہ سے زیادہ جاری نہیں رہی تھی۔قوم،فوج اور حکومت کی پوری توجہ جنگ پرہوتی اورکامیابی کے لئے تمام وسائل جھونک دیئے جاتے ہیں۔ عوام لوڈشیڈنگ سے نجات کیلئے بھی اسی طرح کی تیاری اورتوجہ کی امید کرتے اور اسی کوجنگی بنیادوںکام سمجھتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ نے چونکہ کرپشن کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ اس لئے دونوں کو ایک ہی قبر میں دفنائے بنا عذاب ٹل نہیں سکتا۔ ن لیگ کی لیڈر شپ جوکام جنگی بنیادوں پر شروع کرنے کا عزم کر رہی ہے اس کا آغاز نظر نہیں آرہا۔ گو حکومت کو قائم ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ 65ءکی جنگ 17 دن میں ختم ہو گئی تھی۔ جنگی بنیادوں پر کرپشن اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا آغاز ہو جاتا تو اب تک کچھ نہ کچھ سفر طے ہوچکا ہوتا۔سوال یہ ہے، عوام جس کو جنگی بنیاد سمجھتے ہیں کیا حکمرانوں کے ہاں بھی جنگی بنیاد کا یہی مفہوم ہے؟ جنگ کی کئی قسمیں ہیں۔ان میں معروف ایک مسلح اوردوسری سرد جنگ ہے ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان مسلح جنگیں ہوئیںاور فریقین کے دنوں میں دانے مُک گئے۔سرد جنگ کئی سال جاری رہتی ہے۔روس اور امریکہ کی سرد جنگ 1945ءسے 90ءکی کئی دہائی تک جاری رہی۔ خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے میں 6 سال لگ جائیں گے۔ گویا وہ سرد جنگ کی بنیاد پر یہ مسئلہ کرنا چاہتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے یہ بیان ایوان صدر میں مبینہ طور پر گوشہ تنہائی میں رازو نیاز کے متمنی شخص کی خواہش کو ٹھکرانے کے کئی روز بعد دیا۔ جس کا احوال ایک معاصر کالم نگار نے بیان کیا ہے۔کابینہ کی حلف برداری کی تقریب کے بعداس شخص نے خواجہ صاحب کو نئی مرسڈیز کی پیشکش کی، انکارپر ایوان صدر کے مہمان جو یقیناً کوئی للو پنجو نہیںتھا، نے خواجہ کی اہلیہ کیلئے اسلام آباد میں نئے کھلنے والے جیولرز سٹور سے ہیرے جواہرات کے زیورات کی شاپنگ کی دعوت بھی دے ڈالی۔اس پر خواجہ آصف نے طیش میں آکر تھپڑ کیلئے ہاتھ اٹھایا اور جنرل کیانی کودیکھ کر ہاتھ اور اپنے جذبات پر قابو پالیا۔ اس سٹوری پر یقین کرنے میں کوئی امرمانع نہیں ہے۔ خواجہ صاحب بڑے دلیر ہیں۔انہوں نے تمام سی این جی سٹیشن مالکان کو گیس چور قرار دیا ۔ ان میں سے بہت سے سینٹ اور اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ اب خواجہ اس شخص کو بھی بے نقاب کریں جس نے انکا ضمیر کو خریدنے کی کوشش کی اور خواجہ نے فرما دیا کہ لوڈشیڈنگ چھ سال میں ختم ہو گی، سرد جنگ کی بنیاد پر۔
پاکستان میں 207 ارب بجلی چوری کی وجہ سے خسارہ ہوتا ہے۔426 ارب کے سرکاری و غیرسرکاری ادارے نادہندہ ہیں۔ ٹیکسوں کی وصولی ہر حکومت کیلئے آزمائش ثابت ہوئی ہے حالانکہ اس کام کیلئے کئی ادارے موجود ہیں جن کی پرورش پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگریہ طاقتور محکموں اور شخصیات سے وصولی کرنے سے بوجوہ قاصرہیں۔طاقتورچوروں ،سرپھرے ڈاکوﺅںاور سرکش نادہندگان کا مکو ٹھپنے والی قوتیں موجود ہیںجن کی طاقت کا لوہا ہر کوئی مانتا اور ان سے پنگا لینے کا انجام جانتا ہے۔ مصلحتوں کی سولی پر لٹکی ہوئی حکومت ان سے ٹھیکہ مکا سکتی ہے۔ بلیک واٹر، طالبان اور ایم کیو ایم یہ نیک کام اسی معاوضے پر کر سکتے ہیں جو بل،ٹیکس وصولی اور بجلی چوری روکنے پر مامور اداروں کو دیا جاتا ہے۔یہ فریضہ ایم ایس ایف کہیں کم مزدوری پرانجام دے سکتی ہے۔پھر کیوں نہ آرام اور عیش پرست محکموں اور اداروں کے افسروں اور اہلکاروں کی خدمات فوج کے حوالے کر دی جائیں۔ اس حکومت کی بصارت کا اندازہ کر لیجئے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میںدس فیصد کردیا ہے تاکہ احتجاج اور مظاہرے زور نہ پکڑ جائیں۔ حکمران صورتحال کا ادراک کیوں نہ کرسکے؟باقی مسائل تو بہت گھمبیر ہیں ۔
No comments:
Post a Comment