About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, August 14, 2013

غلاف کعبہ برائے فروخت-کمیشن-مصر ،مرسی اور پاکستان-مصر ،مرسی اور پاکستان-آزمائش-”دلدل“-

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
11 جولائی 2013 0
ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ میں جو کچھ کہا گیا‘ اس سے زیادہ کی امید بھی نہیں تھی لیکن جس طرح یہ رپورٹ منظرعام پر آئی وہ حیران کن ہے۔ الجزیرہ نے اسے نشر اور اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا۔ پہلے روز تو کمیشن کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال نے اس رپورٹ کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا اگلے روز فرما دیا کہ کسی کو کلین چٹ نہیں دی۔کمیشن ذمہ داروں کا تعین کر رہا ہے۔
جسٹس صاحب کی یہ رپورٹ بھی حمود الرحمن رپورٹ کی طرح ہی مبہم اسی طرح اخفا میں رکھی گئی ۔ اُسکے بارے میں کہا گیا کہ چوری ہو گئی تاہم اسکے کچھ حصے لیک ہوتے رہے۔ چنانچہ کئی سال بعدوہ مصدقہ یا غیر مصدقہ رپورٹ منظر عام پر آ آگئی۔ اس میں سقوط ڈھاکہ کا کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔ اب جس کا دل چاہے اُس سانحہ کا ذمہ دار بھٹو کو قرار دے یا یحییٰ کو۔ کسی کو سزا کا مرتکب تو تب قرار دیا جائے جب مجرم کا تعین ہو جائے۔ مجرم یا مجرموں کا تعین حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ میں ہوا نہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں۔ دونوں رپورٹوں میں ایک مماثلت ان کا چوری ہونا ہے۔ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے یہ وزیر اعظم ہاﺅس سے چوری ہوئی ۔یہ رپورٹ وزیر اعظم راجہ پر ویز اشرف کو اسی سال جنوری میں پیش کی گئی تھی۔اس پر بھی ایک کمیشن بننا چاہئے کہ رپورٹ چوری ہوئی یا فروخت کی گئی۔ دوسرا امکان قوی دکھائی دیتا ہے۔سوئس حکام کو خفیہ خط بھی راجہ کے دور میں ہی لکھاگیا تھا، جس میں پہلے خط سے لاتعلقی ظاہر کی گئی تھی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام گزشتہ پانچ سال میں چوری اور فروخت ہونے سے محفوظ رہا اسے ایک معجزہ ہی سمجھنا چاہیئے ۔
 ایبٹ آباد کمیشن نے سماعت تو بڑی دلیری سے کی، 200گواہوں کی لائن لگوادی۔ لگتا ہے رپورٹ مرتب کرتے وقت انکی ٹانگیں اور ہاتھ لرز رنے لگے تھے۔ ہر ادارے کو بیک مجرم اور محرم قرار دے دیا۔ فرد یا افراد کی طرف انگلی نہیں اٹھائی۔ اب مجرموں کی نشاندہی کیلئے ایک اور کمیشن تشکیل دینے کی ضرورت پڑیگی وہ بھی اس صورت میں کہ حکمران اس معاملے میں دلچسپی لیں۔ ماضی کو مد نظر رکھیں تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ ایبٹ آباد آپریشن کی کوتاہی کے اسباب سقوط ڈھاکہ اور اوجڑی کیمپ کے سانحہ کی طرح شائد کبھی منظرعام پر نہ آسکیں۔البتہ کرگل پر ایک بااختیار کمیشن بننے ، اس کا ذمہ دار کون تھا اور کون کرگل محاذ آرائی سے آگاہ تھا اور کس کو بے خبر رکھا گیا؟ ان حقائق سے پردہ اٹھ سکتا ہے ۔ نواز شریف بارہا کمیشن بنانے کا مطالبہ کر چکے ہیں اور اب وزیراعظم بننے کے بعد وہ ایساکرنے میں بااختیار ہونگے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ دوتہائی اکثریت سے لش پش حکومت کے دوران ایک غیر جانبدار کمیشن تشکیل دے پائیں گے؟ کمیشن تشکیل پا جائے تو بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ن لیگ کی آئینی مدت میں ہی اپنی رپورٹ مرتب کر لے۔ اسے کئی بظاہر نظر نہ آنیوالے معاملات ، مسائل اور” خاکی گھوریاں“ درپیش ہوں گی اور حکمران اپنی مرضی کی کارروائی چاہتے ہونگے تو ”جانبدار“ کمیشن بھی سلسلے کو دراز کر سکتا ہے اور ماضی کی طرح خفیہ ہاتھ آئینی مدت بھی سکیڑ سکتے ہیں۔ مشرف تو ویسے ہی زیر عتاب ہیں۔ ان کو 12 اکتوبر 1999ءکے آئین شکنی کے اقدام سے معافی مل گئی اب 3 نومبر کی ایمرجنسی کے مقدمہ میں لٹکانے کی خواہش نمایاں اور بے پایاںہے۔ بے نظیر قتل کیس میں مشرف کو سامنے کھڑا کرکے پولیس کو کہا جا رہا ہے اس پر قتل ثابت کر دو۔مشرف کیخلاف کیسز سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ انہیں کسی بھی صورت پھانسی گھاٹ تک پہنچانا ہے ۔
آج سپریم کورٹ میں موجود اکثر جج مشرف کی بے رحمی کا نشانہ بن بنے ۔ اگر وہ مشرف کا کیس سنتے ہیں تو وہ اپنی ساکھ کو متاثر کرینگے۔ 12 اکتوبر1999ءکا اقدام مشرف کو سیدھا آرٹیکل چھ کی زد میں لا سکتا ہے لیکن اس میں مشرف کے اقدام کو توثیق کرنیوالے اس وقت کے تمام پارلیمنٹرین جن میں سے بہت سے آج بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہیںمشرف کے ساتھ آرٹیکل چھ کی قطار میں کھڑے ہونگے اور پھر وہ جج حضرات بھی جنہوں نے مشرف کے آئین شکنی کے اقدام کو جائز قرار دیا اور انہیں اپنی طرف سے آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دیدی وہ قابل معافی تو نہیں ہونگے ۔ اس معاملے کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
پاکستان اپنے قیام کے بعد زیادہ عرصہ آمروں کی تجربہ گاہ ،لٹیروں کی آماجگاہ،آئین و قانون شکنوں کی چارہ گاہ اور وطن و ملت فروشوں کی شکار گاہ بنا رہا۔ گزشتہ پانچ سال میں تو کرپشن کی ندیوں کو قلز م بنادیا گیا۔ کل اوگرا کے سابق چیئر مین توقیر صادق کو یو اے ای سے گرفتار کرکے پاکستان لایا گیاجس پر 82ارب کی لوٹ مار کے الزامات ہیں۔ان میں صداقت اس لئے نظر آتی ہے کہ کرپشن پی پی پی کی گزشتہ حکومت کا کلچر تھا اور پھر توقیر صادق سپریم کورٹ کے نوٹس لینے پر ملک سے فرار ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ انکی واپسی عمران فاروق کے مبینہ دو قاتل جو ملائیشیا سے سری لنکا گئے اور کراچی ائیرپورٹ سے ایجنسیوں نے اچک لئے ‘ کے تبادلے کے طور پر ہوئی ہے۔پاکستان میں ایک نہیں سینکڑوں کی تعداد میں توقیرصادق موجود ہیں۔ کیوں نہ پاکستان کو اب تک جھٹکے دینے والوں کے ”مقام“ کا صحیح تعین کرنے کیلئے ایک اعلیٰ سطح کا دیانتدار افراد پر مشتمل کمیشن بنادیاجائے اور ایسے لوگ ملک میں موجود نہیں تو اقوام متحدہ یا مضبوط جمہوری روایات کے حامل ممالک سے مستعار لے لئے جائیں تاکہ 62,60 سال کا گند ایک ہی بار صاف ہوجائے اور پاکستان اور پاکستانی ایک نئے سفر کا آغاز کرسکیں۔


مصر ،مرسی اور پاکستان

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
07 جولائی 2013 0
مصریوں کی فطرت نے ایک سال بھی جمہوریت برداشت نہیں کی۔ آمریت کا بت مصریوں نے اپنے ہاتھوں 2011ء اس وقت توڑا جب وہ لاکھوں کی تعداد میں قاہرہ کے تحریر چوک میں ڈیرے جما کر بیٹھ گئے۔ان کا تحریر چوک کی یخ بستہ ہوا اوربارود کی فضا میں ایک ہی مطالبہ تھا ”حسنی مبارک استعفیٰ دو“انکے عزم کو شیلنگ تو کیا فائرنگ بھی متزلزل نہ کر سکی ۔جنوری کے آخر میں تحریر چوک کی سانسوں کو بھی جمادینے والی سردی میں مصریوں کا کھولتا ہوا خون رنگ لایا، 11فروری کو حسنی مبارک استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے۔اسکے بعد انتخابات میں52فیصد مصریوں نے اخوان المسلمون پر اعتماد کیا۔ کیا محض ایک ہی سال کے اندر مصری جمہوریت سے عاجز آکر اخوان المسلمون کے وزیر اعظم مرسی کیخلاف تحریر چوک میں براجمان ہوگئے۔ مظاہرین مرسی سے استعفے کا مطالبہ کیا جن کو پانچ سال کیلئے منتخب کیا گیا تھا۔انہوں استعفیٰ دینے سے انکا ر کیا تو فوج کے صبر کا پیمانہ چار دن میں لبریز ہوگیا۔جنرل عبدالفتاح السیسی کو مرسی نے ہی آرمی چیف بنایا،اس جرنیل نے پاکستان کی تاریخ مصر میں دہراتے ہوئے جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی یاد دلا دی۔تحریر چوک میں مظاہرین کا جنوری فروری والا ہی عزم تھا لیکن مظاہرین وہ نہیں تھے جو حسنی مبارک کی طاقتور فوج کے سامنے18دن سینہ سپر رہے۔48 فیصد ووٹ لینے والوں کے سینے پر مرسی کی کامیابی کا سانپ ہمہ وقت لوٹتا رہا۔مرسی بھی خود کو فرعونی آمریت کا صحیح متبادل ثابت نہ کرسکے۔ ایران اور شام سے قربت کے باعث قطراور سعودی عرب ناراض ہوئے ان راضی کرنے کی کوشش میںشام اور ایران سے فاصلے بڑھا ئے لیکن کمان سے نکلا تیرا واپس نہ آسکا۔ امریکہ اور اسرائیل پہلے ہی مرسی کی پالیسیوں سے نالاں تھے۔اس سب کا یہ مطلب نہیں کہ ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جائے۔ جنرل السیسی نے اندرونی اور بیرونی ماحول کو اپنے لئے سازگار دیکھا تو مظاہرین کی خواہش چار دن میں ہی پوری کردی۔ کسی بھی پارٹی کیلئے تحریر سکوائر کو بھرنا مشکل نہیں تاہم اس کو پوری قوم کی آواز قرار دیناحماقت ہے ایسی حماقت کوئی سیاستدان نہیں جمہوری روایات سے نابلد جرنیل ہی کرسکتا ہے جو ہمارے مشرف کی طرح خود کو عقل کل سمجھتا ہو۔جرنیل کی طاقت وردی اور بوٹ ہوتی ہے۔ اسی کے بل بوتے پر وہ خود کو سیاست ، فلسفہ،علم وہنر اور دانش کا پیکر سمجھنے لگتا ہے ۔ پھروردی اور بوٹ کے اترنے پر اس کے ساتھ ہی سب کچھ کسی کونے کھدرے میں پڑا گل سڑ رہا ہوتا ہے ۔مشرف کا کروفر انکی وردی بوٹ اترنے کے ساتھ ہی کافور ہوگیا۔ اسکے بغیر وہ ایک سال بھی اقتدار میں نہ رہ سکے۔مصر میں ایک ہی سال کے اندر جمہوریت کا خاتمہ کرکے دراصل جمہوریت کے پودے کو اس وقت ا کھاڑ کر لگانے کی کوشش کی گئی ہے جب اس نے جڑیں بھی نہیں پکڑی تھیں۔اب اس پر برگ وبار لانے اور اسے ثمر آور بنانے کیلئے کسی لی جینڈکمٹڈ اور جینیئس کی ضرورت ہے۔یہ جنرل السیسی جیسے ماورائے عقل جرنیل ،عمرو موسیٰ اور محمدالبرادی جیسے خود غرض اور سازشی سیاستدان کے بس کا روگ نہیں۔گو پاکستان میں بھی جمہوریت تناور شجر نہیں بن سکی لیکن اسکی جڑیں کافی مضبوط ہو چکی ہیں۔ہمارے سیاستدان جو کچھ بھی کرتے ر ہیں وہ معاملات کو سمجھتے ضرور ہیں۔مرسی کچھ بھی نہ کرنے کے باوجود سادگی میں مارے گئے۔ ہمارے اکابرین سیاست اور جغادریانِ جمہویت عموماًبہت کچھ کرکے بھی چالاکی سے بچ نکلتے ہیں۔ کوئی انگلی اٹھائے تو کہتے ہیں آئینی مدت کے اختتام پر عوام کو احتساب کا حق اور اختیار ہے۔مشرف کے پروردگان نے گورننس کی ایسی کی تیسی پھیری دی جس پر عوام 2008ءمیں ق لیگ سے نجات حاصل کرلی پیپلز پارٹی نے تو ہر ادارہ اجاڑتے ، اجاڑتے پانچ سال پورے کئے۔ اربوں، کھربوں کے لاتعداد سکینڈل سامنے آئے۔اس نے بیوروکریسی کو ساتھ ملایا اور عدلیہ کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔پہلے سال میں ہی اس کی ترجیحات کھل کر سامنے آگئی تھیں۔اگر پہلے سال ہی ایسے حکمرانوں سے نجات حاصل کرلی جاتی تو آج ملک یقینا اندھیروں میں نہ ڈوبا ہوتا۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے ایک ماہ میں ہی عوام کو دن میں تارے دکھا دئیے ہیں ۔اسکے رہنما بھی بجا کہتے ہیں کہ ڈلیور نہ کرسکے تو الیکشن میں عوام مسترد کردینگے جو ایک ماہ کم پانچ سال بعد ہونے ہیں۔اگر ن لیگ کی کارکردگی سابقون جیسی رہی تو لوگ عمران کے سرپر ہما بٹھا دیں گے،بالفرض پانچ سال وہ بھی پیشروﺅں کی طرح نکلتے ہیں تو قوم کے تو بیس سال ضائع ہوگئے۔اسکے بعدنئے سرے سے پھر پرانا سائیکل شروع ہوجائیگا، ق لیگ ،پی پی پی ،ن لیگ ، پی ٹی آئی ۔عوام سیاست دانوں کی ہیرا پھیری کی گھمن گھیری کے گرداب میں چکراتے رہیں گے ۔ کوئی ایسا سسٹم ہو کہ جو حکمرانوں کو ڈی ٹریک نہ ہونے دے۔نواز لیگ اداروں کی بحالی اور بحرانوں پر قابو پانے کیلئے پر عزم نظر آتی ہے لیکن اب تک اچھل کود اور عوامی مسائل میں اضافے کے سوا کوئی کارکرگی دکھائی نہیں دی ۔مہنگائی کا ایک طوفان اٹھا دیاگیا ہے۔ امید ہے کہ یہ جلد یا بدیر بحرانوں پر قابو پالے گی ۔پی پی پی کے ڈبوئے ہوئے اداروں میں سے کچھ بیچ دیگی ،باقی اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو کر کماﺅ پتر بن جائینگے۔ہمارا عوامی شعور کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ عوام پی پی پی پر اعتماد کرتے ہیں تو کوئی ان کا ہاتھ نہیں روک سکتا۔زرداری صاحب صدر ، گیلانی ، راجہ وزیر اعظم ، توقیر صادق چیئر مین اوگرا۔۔۔وغیرہ وغیرہ ہونگے تو؟ ہمارے سسٹم میں کسی پر بھی ایک بار دوبار بلکہ کئی بار اور با بار لوٹ مار ا پر کوئی پابندی نہیں،اگر کوئی پکڑا گیا تو معمولی سزا اور پھرپوتر۔ پارٹیوں سے کرپٹ لوگوں کو تو نکالنے کا کام کوئی پارٹی اپنے طور پر کرتی ہے اور نہ کریگی بلکہ کسی کی کامیابی کے امکانات کے پیش نظر اسے دوسری پارٹی قتل جیسے جرم اور اربوں کی کرپشن سے بھی صرف نظر کرتے ہوئے شمولیت کی دعوت ، اسکی مرضی کا ٹکٹ اور حلقہ عطا کردیتی ہے ن لیگ نے انتخابات میں ڈیڑھ سو ایسے مچھندر بھرتی کئے جن میں سے سو جیت بھی گئے، یہ ہماری سیاسی قیادتوں کی جمہوریت سے کمٹمنٹ اور عوامی شعور پر سوالیہ نشان ہے ۔مغربی جمہوریت ہم مسلمانوں کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی اس کی کارفرمائی کیلئے بڑے عزم و ارادے کی ضرورت ہے۔مغرب میں جمہوریت کا پہیہ گھوم رہا ہے اور گھومتا چلا جارہا ہے۔ہم مسلمانوں کو گھمانا پڑتا ہے۔جہاں کوتاہی کی ‘یہ رک جاتا ہے یہ پہیہ تبھی گھومتا رہ سکتا ہے کہ اسکے فلائی ویل کے کتے فیل نہ ہونے دئیے جائیںاور پیڈل بھی چلتا رہے۔ جس نے ایک دفعہ کرپشن کی اس پر سیاست کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کر دیئے جائیں۔ سابق وزیر اعظم گیلانی کہتے ہیں ”آئین کے تحت منتخب وزیراعظم کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، مانگوں گا نہیں ،کسی میں جرا¿ت ہے تو گرفتار کر لے، کسی عدالت یا ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہوں گا۔ ایک منتخب وزیراعظم کو برطرف کرنے پر عدلیہ بھی آرٹیکل 6 کی زد میں آتی ہے“۔آفرین ہے ایسی دیدہ دلیری پر۔مغربی جمہوریت ہمارے مفاد میں تو ہے لیکن ہمارے مزاج کے مطابق نہیں اس کو گدلے لوگوں سے پاک نہ رکھا گیا تو یقین مانئے بہت بُرا ہو سکتا ہے اور شائد ہوکر ہی رہے ۔ضروری نہیں بغاوتیں اور انقلاب ہمیشہ پر امن ہی رہیں۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سر پھرے انقلابی وہ سر سلامت نہ رہنے دیں جس نے ایک بار بھی الیکشن لڑا ہو۔بہتر ہے کہ بااصول سیاستدان جل کو گدلا کرنے والی مچھلیوں کو نکال باہر کریں۔ 


مصر ،مرسی اور پاکستان

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
04 جولائی 2013 0
کشمیر میں امن کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ بھی ناپیدہے ۔ ان میں اے سی ، بجلی کے میٹر اور موم بتی جیسی چیزیں بھی ہیں۔ وہاں کے سرد اور معتدل موسم میں اے سی کی ضروت نہیں ہوتی۔ہر گھر دو سو 30 روپے ماہانہ فکس میں بجلی استعمال کرتا ہے۔کچن اور گیزر بھی اسی میں چلتے ہیں۔دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ضرور ہوتی ہے۔اسکے باوجود وہاں موم بتی کا وجود نہیں ہے ۔ ضرورت پڑنے پر دیہات میں کشمیری” ثار“ کی ٹہنی توڑ کر جلا لیتے ہیں۔ دو اڑھائی فٹ شاخ رات بھر یہ شمع کی طرح خوشبو کے ساتھ جلتی رہتی ہے۔ ایسے درخت شاید دنیا میں کہیں نہیں۔اسی طرح پوری دنیا میں خوبصورتی اور قدرتی حسن کے حوالے سے کشمیر کی ایک امتیازی حیثیت ہے۔کشمیر کے دونوں حصے دلکشی ،سحر انگیزی اورحسن وجمال میں یکتا ہیں۔یہ نظارے کشمیر سے دور دور تک پاکستان میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔پاکستان میں سیاحوں کی دلچسپی کے مقامات کو تھوڑا سا تراش لیا جائے اور ماحول کو سیاحوں کے مزاج کے مطابق بنا دیا جائے تو پاکستان کی معیشت کو یہی ایک انڈسٹری اوجِ ثریا تک پہنچا سکتی ہے۔ فرانس میں سالانہ دس کروڑ، امریکہ میں نوکروڑ سیاح تفریح کیلئے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں پُرامن دور میں سیاحوں کی تعداددس لاکھ سالانہ تک پہنچی ،اس میں بھی ہمارا کوئی کمال نہیں یہ لوگ پاکستان کے تاریخی مقامات اور دلفریب وادیوں ، برف پوش و سر سبزو شاداب پربتوں کے بارے میں دوسروں سے سن کے آئے ۔دہشتگردی کے خوف سے اب تعداد دس لاکھ سے کم ہو کر ہزاروں میں رہ گئی ہے۔گزشتہ دنوں ابصار عبدالعلی نے حمید نظامی پریس انسٹیٹیوٹ میں سیاحت کے حوالے سے سیمینار منعقد کرایا جس میں مہمان خاص سلیم بخاری ،اوریا مقبول جان تھے ۔صدارت وزیر سیاحت و آثار قدیمہ رانا مشہود خان نے کی، تنویر جبار جنرل منیجر ٹور ز م پنجاب اور صحافی حسین دیگر مقررتھے۔سلیم بخاری صاحب نے معلومات کی برسات کردی۔اوریا صاحب نے سیاحت سے قبل تعلیم اور اردوکے فروغ پر زور دیا ۔ رانا مشہود اور تنویر جبار نے سیاحت کی ترقی کیلئے حکومتی کاوشوں کو اس طرح پیش کیا جس سے لگا کہ پاکستان دنیا کا نمبر ایک سیاحتی ملک بن چکا ہے۔خدا کرے ایسا ہی ہو ۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جسے قدرت نے بے شمار رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا اور سیاحت کی مختلف النوع سیاحتی دلچسپیوں سے معمور کیا ہے۔ سمندری ساحلوں، پانچ دریاﺅں، پہاڑی سلسلوں، جھیلوں، جنگلوں اور صحراﺅں سے بھرپور یہ ملک قدرت کے حسن کا جیتا جاگتا شہکار ہے۔جہاں قدرت کے چاروں موسم سرما، گرمی، بہار اور خزاں اپنی مکمل رعنائیوں کے ساتھ ملیں گے۔جب پنجاب میں لو چلتی اور حبس سے جان پہ بنی ہوتی ہے تو مری اور اوپر کے علاقے خوشگوار موسم سے لبریز ہوتے ہیں ۔زیادہ ٹھنڈ پسند کرنیوالے کنکورڈیا چلے جائیںجو برف پوش چوٹیوں کا سنگم ہے ۔ سیاحتی، تاریخی مقامات اورآثار قدیمہ کسی بھی ملک سے بڑھ کر پاکستان میں ہیں۔پھول برساتی اور شبنم میں نہاتی وادیوں میں سوات، ناران ، کاغان‘ سکردو، چترال، گلگت، ہنزہ ،زیارت ،کوئٹہ، مری اور کلر کہاراہل ذوق کو دعوتِ نظارہ دیتی ہیں۔کنکورڈیا جیسا علاقہ دنیا میں کہیں نہیں۔یہ گلگت بلتستان میں تین پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش کا سنگم ہے ایک جاپانی سیاہ نے اپنی کتا ب: Pilgrimage to conkordia میں لکھا ” یہ مقام پوجا (حج)کے قابل ہے“۔ ہم پربتوں کے اس سنگم کی اہمیت سے نا بلد ہیں اس لئے یہ دنیا کی توجہ حاصل نہ کر سکا۔دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 8 پاکستان میں ہیں۔ دنیا میں دو قدیم ترین تہذیبو ں کے آثار دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔ گندھارا اور انڈس ویلی کا پاکستان میں ہونا اسکی دنیا میں انفرادیت کا مظہر ہے۔26 جھیلیں 8ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر ہیں تو وہ پاکستان میں ہیں۔ قوسِ قزح کے رنگ بکھیرتی جھیل سیف الملوک میں پریوں کا مسکن تسلیم کیا جاتا ہے۔نیاگرافال تو امریکہ ،کینیڈا میں ہے پاکستان میں لگتا ہے اس نے بچے جنم دیئے ہوئے ہیں۔شمالی علاقوں میں قدم قدم پر آبشاریں، جھرنے اور چشمے جادو نگری کا احساس دلاتے ہیں۔مکران کوسٹل ہائی وے اپنی مثال آپ ہے۔ ساڑھے چھ سو کلو میٹرطویل اور دلکش ساحل دنیا میں اور کہاںہوگا۔یہ دو رو یہ شاہراہ کراچی سے شروع ہو کر اورماڑہ اور پسنی سے ہوتی ہوئی گوادر پہنچتی ہے۔ اسکے ایک جانب بلوچستان کے صحرائی و پہاڑی علاقے ہیں اور دوسری طرف بحیرہ عرب کا نیلگوں پانی ٹھاٹھیں مارتا ہے۔کراچی سے گوادر تک ساحل سمندراور اسکے افق پر ہائی وے شفق کا عکس نظر آتی ہے۔صنوبر کا درخت چار سال میں ڈیڑھ انچ بڑھتا ہے اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، یہ زیارت میں ہزار وں کی تعداد میں پایا جاتا ہے۔ چھ سو فٹ کی اونچائی والے صنوبر عجوبے کم نہیں۔ پاکستان قدیم ترین تہذیبوں کا منبع ہے جبکہ کیلاش قوم کی حیثیت میں سکندر اعظم کے دور کی یاد گاریں اپنے لباس اور حسن کے شہکار ہیں۔ وادی بمرید اور رمبور وادیوں میں جانیوالے لوگ قدرتی نظاروں اور مقامی افراد کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں۔راکا پوشی کی چوٹی ہمیشہ بلا امتیاز کسی بھی موسم کے بادلوں سے ڈھکی رہتی ہے۔چترال سے بارہ کلومیٹر کی دوری پر گرم چشمہ کے نام سے ایک جگہ جس کا پانی انتہائی سرد موسم میں گرم ہوتا ہے۔ اس میں ایک دفعہ نہانے والا جلدی بیماریوںسے نجات پالیتا اور اسکی ہڈیاں مضبوط ہو جاتی ہیں۔فیری میڈو کا ذکر نہ کیا جائے زیادتی ہو گی۔ سیاح جب اوپر نظر اٹھاتے ہیں تو درختوں کے جھرمٹ میں آسمان نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں صوفیا، اور اولیا کے مزارات مرجع خلائق ہیں۔ہر مذہب کی یادگاروں کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ کراچی سے تخت بھائی میں بدھا کے مجسمے تک موجود ہے۔ پاکستان میں مسلمانوں کے مساجد، مزارات، ہندوﺅں کے مندر، سکھوں کے گوردوارے اور بدھوں کے (وہار) سٹوپاز اور قدیم ترین چرچ ہیں جو اپنے پیرو کاروں کیلئے ہمیشہ سے توجہ اور دلچسپی کا مرکزرہے ہیں۔دبئی اپنے ریتلے صحراﺅں کو سفاری سپاٹ بنا کر سونا پیدا کررہا ہے ۔ پاکستان ہر طرح کی سفاری سے مالا مال ہے۔ تھرپارکر اور چولستان خوبصورت صحرا ہے جہاں دنیا کے خوبصورت اور نایاب جانور بھی پائے جاتے ہیں یہ علاقہ ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے۔کراچی سے 450 کلو میٹر کی مسافت پر خوبصورت مقام گورکھ ہل اسٹیشن ہے۔ سطح سمندر سے 5688 فٹ بلنداس علاقے کا درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ 17 اور سردیوں میں کم ازکم منفی 5 سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔سیاحت کے فروغ میں ہماری دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے ایئر پورٹ پرہر سیاح سے تین سو ڈالر فیس وصول کی جاتی ہے جبکہ یہ بھارت میں 90ڈالر ہے۔ ٹورازم ایکٹ میں ”یہ کرو ‘ وہ نہ کرو “کے حوالے سے جو اقدامات تجویز کئے گئے ہیں انکے پیش نظر تو شاید ہی کوئی سیاح پاکستان کا رُخ کریگا ۔پاکستان میںایک ہاتھ سے فیس وصول کی جاتی ہے تو دوسرے سے سیاحوں کو کوڈ آف ڈریس تھما دیا جاتا ہے”ٹائٹ لباس نہیں پہننا یہ اشتعال کا سبب بنتاہے ڈھیلا لباس بھی نہیں پہننا اس سے جسمانی اعضا بے قابو ہوجاتے ہیں“۔سیاحت کیلئے علاقے کی خوبصورتی اور موسم اہمیت کے حامل ہوتے ہیں،وہاں تک پہنچنے کی سہولتیں بھی ضروری ہیںلیکن سب سے بڑھ کر امن کا ہونا لازم ہے۔اس طرف تھوڑی سی توجہ سے پاکستان ٹورزم میں دنیا کا سب سے بڑا ملک بن سکتا ہے ۔




آزمائش

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
23 جون 2013 0
 ”پیپلز پارٹی کے اسلام آباد سیکرٹریٹ میں بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کی تقریب میدان جنگ بن گئی۔ جونہی یوسف رضا گیلانی، قمر الزماں کائرہ، لطیف کھوسہ اور دیگر رہنما پیپلز سیکرٹریٹ پہنچے تو جیالوں کا جتھہ انہیں دیکھ کر مشتعل ہو گیا ،شدید نعرے بازی کرتے ہوئے انہیں پارٹی کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا۔ بپھرے ہوئے جیالوں کا کہنا تھا کہ کرپشن یوسف رضا گیلانی کے گھر سے شرع ہوئی،راجہ رینٹل کہا ں ہے،وہ کیوں نہیں آیا، شہید بی بی کی پارٹی کو تباہ کرنے والا یہی گروپ ہے۔“
 حقیقت یہی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے جانشینوں نے پیپلز پارٹی کو برباد کر کے رکھ دیا۔ طویل عرصے بعد بھی اس کا سنبھل جانا معجزہ ہوگا۔اس پارٹی کو کوئی بھی اس قدر نقصان نہیں پہنچا سکا جس قدر اسکی قیادت نے اقتدار میں آ کر اسے پہنچایا۔اگر کسی نے یہ منصوبہ بندی کے تحت کیا تو اسکی پلاننگ فول پروف تھی۔
کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کرکے مسلم لیگ (ن) کو جتایا گیا۔ اگر ان حلقوں سے اتفاق کرلیا جائے تو یہ (ن) لیگ کیخلاف اسی قسم کی سازش نظر آتی ہے جو پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لا کر اسے پانچ سال تک ملک و قوم کے سیاہ و سفید کا مالک بنا کر کی گئی تھی۔
پیپلزپارٹی کے عوامی نفرت کا نشانہ بننے کی سب سے بڑی وجہ اس کی ہمالہ جیسی کرپشن تھی جس نے ہر ادارہ تباہ کیا اور توانائی بحران نے معیشت ڈبودی۔ مسلم لیگ کو ملنے والا اقتدار واقعی پھولوں کی سیج نہیں۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی حکومتی پارٹی اقتدار کو پھولوں کی سیج ہی سمجھتی ہے۔اس وقت مسلم لیگ ن کی پوری توجہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے پر ہے جس پر بتدریج قابو پایا جارہا ہے ۔ یقینا عوام اور خود حکمرانوں کے اندازوں اور توقعات سے کہیں پہلے بجلی کہ قلت دور ہو جائے گی ۔صرف ایک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اگلے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ق لیگ کے دور میں مثالی ترقیاتی کام ہوئے تھے۔ 2008ءکے انتخاباب میں اسکی شکست کی بڑی وجہ آٹے کا بحران بنا ۔ ملکی ضرورت کے باوجودلاکھوں ٹن گندم بر آمد کردی گئی ۔ملک میںمصنوعی قحط کی سی فضا پیدا ہوئی تو بر آمد کی گئی گندم دو گنا ریٹ پر در آمد کر لی لیکن اس دوران” قحط سالی“ عوام کے دلوں میں اس کے ذمہ داروں کیخلاف نفرت کا بیج بو چکی تھی جس کا خمیازہ اس نے 2008ءکے انتخابات میں بھگت لیا۔ پیپلز پارٹی کی پوری توجہ خوراک کا بحران نہ پیدا ہونے پر رہی اور اس میں وہ کامیاب بھی رہی لیکن اسے ایک نئے ”بجلی کے بحران“ نے چِت کرڈالا۔مسلم لیگ ن بجلی کے بحران پر تو قابو پا لے گی مگر اسے آزمائش در آزمائش در پیش رہے گی ۔
 لگتا ہے کہ لیگی قیادت نے ق لیگ اور پی پی پی کے انجام سے کوئی سبق سیکھا نہ تاریخ سے۔ اس میں خود انکے حکمرانی کے دو ادھورے ادوار بھی شامل ہیں۔ محض دو اڑھائی ہفتے کے اقتدار سے قیادت کی دیوار کے پار نہ دیکھنے کی اہلیت(وژن یعنی بصارت) ظاہر ہو گئی ہے۔ خواجہ آصف بھارت سے دو ہزار میگاواٹ بجلی کے معاہدے کر رہے ہیں۔ بھارت کے حوالے سے پاکستانی کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوئے ہیں وہ موم بتی کو بھارت قمقموں پر ترجیح دیتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے سی این جی مالکان کو بلاامتیاز چور قرار دیا، جواب میں ایسا ہی سنا تو اب سی این جی سٹیشن بند کرنے پر تل گئے ہیں۔ اس کا نقصان صارفین کو ہو گا اور لامحالہ نتیجہ خواجہ آصف کو نہیں انکی پارٹی کو بھگتنا پڑیگا۔ بجٹ میں ملازمین کو نظرانداز کر دیا گیا۔ احتجاج پر دس فیصد تنخواہ بڑھا دی گئی۔ کیا ملازمین کے احتجاج کا ادراک نہیں تھا؟ بجٹ کی منظوری سے قبل ہی جی ایس ٹی کی وصولی شروع کر دی۔ سپریم کورٹ کے نوٹس لینے اور سخت ریمارکس کے بعد بھی عقل نہ آئی تاآنکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وصولی کو کالعدم قرار دے دیا۔ وزیر خزانہ پیشروﺅں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فرماتے ہیں‘ جی ایس ٹی کا نفاذ قانونی تھا۔ اسحاق ڈار کی اس اچھل کود کا کفارہ کس کو ادا کرنے پڑیگا؟
بینظیر بھٹو کی سالگرہ پر اودھم مچانے والے جیالے پانچ سال اپنی حکومت کا دفاع کرتے رہے۔ مراعات کیلئے ہاتھ پاﺅں مارتے رہے۔ اب بھی ان کا ہاتھ غلط گریبانوں پر ہے۔ وہ پارٹی کو ڈبونے کا ذمہ دار گیلانی، راجہ اور کائرہ جیسے لوگوں کو قرار دے رہے ہیں۔ جو پورا سچ نہیں ہے۔ راجہ کو وزیراعظم اس وقت نامزد کیا گیا جب وہ راجہ رینٹل کی شہرت پا چکے تھے۔پارٹی کی تباہی کی حقیقی ذمہ داری گیلانی اور راجہ کو وزیراعظم بنانے والے پر عائد ہوتی ہے۔ جیالے اسکی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اس لئے کہ وہ اب بھی نوازنے کی پوزیشن میں ہے؟۔
متوالوں نے جیالوں کے انجام سے سبق حاصل نہ کیا تو کل یہ بھی تقریبات میں اسی طرح اودھم مچائیں گے جس طرح جیالے بینظیر کی سالگرہ پر مچا رہے تھے۔ متوالے بھی جیالوں کی طرح اپنی قیادت کی اچھی بری ہر پالیسی کاخوشامد سے لبریز جذبات کے تحت دفاع کر رہے ہیں۔اب مقابلہ سخت ہے ۔عمران خان خطرے کا الارم ہیں۔عوام ان باغوں کی سیر کے خواب دیکھ رہے ہیںجو پی ٹی آئی نے انہیں دکھائے ہیں۔منصوبہ ساز بھی ایک ایک ایک غلطی ، بد عملی اور بدنظمی کا حساب کتاب لگا کر اس سے عوام کو آگاہ کر رہے ہیں ، الیکشن کے موقع پر یہ سلسلہ عروج پر ہو گا۔متوالے ابھی سے جاگیں، کاسہ لیسی ، حاشیہ بردار ی اورچاپلوسی کے حصار سے نکلیں۔اُ س وقت قیادت کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہو گا ۔ قیادت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا یقیناً متوالوں کی بھی آزمائش ہوگی ۔


”دلدل“

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
20 جون 2013 0
جہاز سے اترتے ہی برطانوی قانون کی عملداری ختم‘ پاکستان کی شروع ہو گئی۔اے آرنوشاد جو برطانیہ جانے سے قبل اللہ رکھاتھا‘ اپنے 11 سالہ بیٹے کے ساتھ بغیر کسی پروگرام کے پاکستان آیا۔ تھری پیس میں ملبوس اللہ رکھا نے ائرپورٹ پر اپنا سامان بعد میں سنبھالا پہلے اپنے بیٹے کو ٹائی سے پکڑ کر جھنجوڑا پھر ایک تھپڑ سیدھے دوسرا الٹے ہاتھ سے مارا۔اسی ایکشن میں جو تاا تار کر ٹھکائی شروع کر دی۔ وہاں موجود لوگوں نے رکھے کا ہاتھ تو روک دیا ،مگر اسکی زبان بدستور چل رہی تھی ” اب بلا¶ اپنے باپ پولیس والوں کو۔۔۔“ لوگوں نے پاکستان میں داخل ہوتے ہی پاکستانیت کی لہر اٹھنے اوربہار آنے کی وجہ پوچھی تو رکھا پھنکارا‘” مانچسٹر میں اسے ڈانٹا تو اس نے پولیس کو تشدد کی رپورٹ کر دی‘ تین ماہ کی جیل کے بعد پہلی فلائٹ میں اسے سبق سکھانے کے لئے پاکستان لایا ہوں....
 بیرسٹر نعیم بٹ‘ رضا الدین صدیقی کی میزبانی کی مجلس میں بتا رہے تھے کہ پاکستان سے گئے ایک فیملی کے مہمان ان کے نو سال کے بچے کے ساتھ گھومنے گئے۔ راستے میں کسی بات پر مہمان نے بچے کو ہلکا سا تھپڑ ماردیا۔ کسی خاتون نے اس منظر کو دیکھا اور پولیس کو گاڑی کا نمبر نوٹ کرا دیا۔ پولیس نے گھر ٹریس کیا۔ تھوڑی سے تحقیق سے پتہ چل گیا کہ گاڑی میں مہمان اور اس کا بھانجا تھے۔ پولیس نے اسی وقت مہمان کو ڈی پورٹ کرنے کی کارروائی شروع کر دی۔ گھر والے پریشان تھے۔ بچے نے پولیس سے درخواست کی کہ اس کے ماموں کو ڈی پورٹ نہ کریں۔ انہوں نے ایسا کوئی تشدد نہیں کیا ایسی ڈانٹ ڈپٹ تو امی اور ابو بھی کر لیتے ہیں۔ اس پر پولیس نے حیران ہو کر بچے سے پوچھا کیا تمہارے ابو اور امی بھی تم پر تشدد کرتے ہیں؟ سوال کا برطانوی پولیس کو مزید جواب درکار نہیں تھا۔ پولیس نے اسی وقت قرار دے دیا کہ بچے ایسے والدین کے پاس غیر محفوظ ہیں۔ اسی وقت تینوں بچوں کو پولیس سوشل کیئر ڈیپارٹمنٹ لے گئی۔ تین میں سب سے چھوٹے کی عمر صرف دس ماہ تھی۔ اس پر ماں کی جو حالت تھی وہ ناقابل بیان ہے۔وہ کہہ رہی تھی کہ میرے بچے مجھے دیدو،میں شہریت اور سب کچھ چھوڑ کر پاکستان چلی جاﺅں گی ۔ تین دن بعداس خاندان ، خصوصی طور پرخاتون نے عذاب میں گزارے ۔بڑی مشکل سے چوتھے روز بچے واپس ملے جنہیں ان کی ماں پاکستان لے آئی۔کیا اس لئے کہ کھل کر پٹائی پر کوئی روک ٹوک نہیں ؟
 مغرب میں تشدد، عدم تشدد اور انسانیت کے حوالے سے جو قوانین ہیں انکے حکمرانوںاور عوام کا عمومی رویہ بھی اس کا عکاس ہے۔22مئی 2013 کو لندن میں دو شدت پسندوں نے ایک فوجی کو سرِعام خنجروں کے وار کرکے قتل کردیا۔ اس روز وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون فرانس کے دورے پر تھے انہوں نے فوری طورپر واپسی کا فیصلہ کیا اور کوبرا میٹنگ طلب کرلی۔ کوبرا میٹنگ ملکی سلامتی کو درپیش انتہائی خطرات کی صورت میں طلب کی جاتی ہے۔کیمرون نے سیکرٹری داخلہ تھریسا مے کو پہلے اجلاس کی صدارت کرنے کی ہدایت کی دوسرے کی صدارت لندن پہنچ کر خود کی۔ انگریز فوجی پر حملہ نائیجرین نژاد نو مسلموں نے کیا تھا جس پر مسلمانوں کیخلاف ردّعمل فطری امر تھا۔ مسلمانوں میں خوف و ہراس پایاجاتا تھا۔اس نازک مرحلے پربرطانوی سیاستدانوںاور میڈیا کا رویہ انتہائی محتاط رہا۔ وزیراعظم کیمرون نے اسے انفرادی جرم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسکا اسلامی تعلیمات اور مسلم آبادی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
 ہم جن ملکوں اور معاشروں میں رائج جمہوریت کی نقل کرتے ہیں وہاں انسانوں اورانسانیت کی قدر کی جاتی ہے۔ عام شہری اور بچوں تو کیاجانور کے حقوق کا تعین کرکے ان کی حفاظت کے قانون بنائے جاتے اور ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ہم متشدد معاشرہ بن چکے ہیں۔ بچوں پر تشدد کیلئے اپنا وطن آئیڈل ہے۔ اساتذہ کو مارکٹائی سے باز رکھنے کیلئے قانون سازی کرنا پڑتی ہے ۔بچے کے رونے پر اسے دیوار اور فرش پر پٹخ کر ابدی نیند سلا دیاجاتا ہے۔ایک پیاز اکھاڑنے پر چار سالہ بچی پر کتے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔
 ہمارے ہاںجمہورت موجود ہے لیکن ہمارے رویئے آمرانہ ہیں۔قانون تو ہیں لیکن ان کا اطلاق شکل دیکھ کر ہوتا ہے۔مذہب، اخلاقیات ، تعلیم سے دوری،برتری کے زعم اور اختیارات سے تجاوز کے باعث معاشرے میں تشدداور ناانصافی کا عنصر بڑھ گیا ہے۔کمزور کو دبانے کو جرات،دلیری اور طاقتور کے سامنے سر جھکانے کو مصلحت اور ڈپلومیسی کا نام دیا جاتا ہے۔ پہلے قتل،ڈکیتی ، چوری اور زیادتی و آبروریزی کی پہلی واردات پر قانون حرکت میں آجاتا تومعاشرہ بہت سی برائیوں سے پاک ہوتا۔ دہشتگردی کے پہلے واقعہ پرڈیوڈ کیمرون اور برطانوی حکومت جیسا رد عمل ہوتا تو ہم ہزاروں لاشوں اور لاکھوں زخمیوں کو اٹھانے سے محفوظ رہتے۔ہمارے گھر،گلیاں، بازار حتیٰ کہ فوجی تنصیبات ، بیرکیں اور قلعہ نما جی ایچ کیو جیسی عمارتیں میدانِ جنگ نہ بنتیں۔پہلے ڈرون حملے پر سخت، اصولی اور قومی و ملکی مفادات کے کےمطابق موقف اپنایا اور رد عمل ظاہر کیا جاتا تودوسر ے اور پھر سیکڑوں حملوں کی نوبت نہ آتی۔مشرف جو کچھ چھوڑ گئے وہ پیپلز پارٹی کی حکومت بھگتنا پڑا اور آج میاں نواز شرف کی حکومت کو بھگت رہی ہے۔ایران نے پہلا ڈرون نہ گرایا ہوتا تو آج اس پر بھی ڈرونز کی برسات ہو رہی ہوتی۔ لندن میں دہشتگردی کی بڑی واردات سات جولائی2007ءکو ہوئی جب انڈر گراﺅنڈ ٹرین اور بس پر خودکش حملوں میں 52 افراد مارے گئے تھے ۔ اسکے بعد حکومت اور برطانوی عوام متحد نہ ہوتے تو برطانیہ ہماری طرح دہشتگردی کی لپیٹ میں ہوتا۔ ہم پچاس ہزار جانیں گنوا کر بھی ہوش میں نہیں آئے۔حکمران امریکی جنگ کو اپنی جنگ کہتے توہیں لیکن پوری قوم کو اس پر قائل نہیں کرسکے۔ پاکستان میں امریکہ کے حامیوں کی کمی نہیں وہیںشدت پسندوں کے موقف کو سراہنے والے بھی موجود ہیں۔دونوں کے نظریات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ان سب کے متحد ہوئے بغیر دہشتگردی کی دلدل سے نکلنانا ممکن نظر آتا ہے ۔ان کو متحد کرنا اب آگ اور پانی کے ملاپ سے کم نہیں رہا۔کوئی بھی اپنی سوچ اور موقف بدلنے کو تیار نہیں۔میاں نوا ز شریف کی حکومت اگر قوم کو متحد کرنے میں کامیاب ہوجاتی تو پاکستان دہشتگردی کے گھن چکر، ڈرون حملوںکے بھنور اور بدامنی و لاقانونیت کی دلدل سے نکل سکتا ہے۔


غلاف کعبہ برائے فروخت

18 جون 2013 0
میرے سامنے اتوار 16 جون 2013ءکو راولپنڈی سے شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار کا صفحہ 4 کھلا ہے۔ اس پر چھوٹے سے اشتہار کی موٹے الفاظ میں ہیڈ لائن ”غلاف کعبہ“ توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتی ہے۔ اشتہار کی پوری عبارت یوں ہے۔ غلافِ کعبہ کے دو پیس تقریباً 4 کلو سونے کی تار سے بنے، ”ضرورتاً برائے فروخت“ ہدیہ 4 کروڑ۔۔۔ ان مختصر الفاظ پر مشتمل اشتہار کے آخر میں jghilaf@gmail.com ای میل ایڈریس دیا گیا ہے۔ یہ اشتہار لاہور ایڈیشن کے صفحہ 17 پر شائع ہوا ہے۔ میں نے اشتہار میں دئیے گئے ایڈریس پر مزید تفصیلات کے لئے میل کی تو مختصر سا جواب دیا گیا ”یہ کعبہ شریف کے اوپری، دائیں کونے کے دو حصے ہیں“ اس میل کے جواب میں، میں نے درخواست کی کہ آپ کے پاس یہ متبرک ٹکڑے کیسے آئے اور ان کو فروخت کرنے کی کیا مجبوری ہے؟ اس کا جواب کالم لکھنے تک موصول نہیں ہوا اور ان صاحب کیلئے جواب دینا کوئی ضروری اور مجبوری بھی نہیں ہے۔ ہر مسلمان کی آنکھوں کی ٹھنڈک خانہ کعبہ کے غلاف کی تاریخ اور اس کی تیاری پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ ”اخبار مکہ“ کے مصنف کے مطابق ۔۔۔ کعبة اللہ پر غلاف چڑھانے کی رسم بہت پرانی ہے خانہ کعبہ پر سب سے پہلے غلاف حضرت اسماعیل نے چڑھایا تھا۔ ظہو ر اسلام سے قبل بھی حضور اکرمﷺ کا خاندان مکہ مکرمہ میں بہت عزت واحترام سے دیکھا جاتا تھا‘ آپﷺکے جدامجد بھی تمام قبائل میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے‘ انہوں نے بڑی سمجھداری اور فراست سے کام لیتے ہوئے غلاف کعبہ کی تیاری کےلئے خصوصی بیت المال قائم کیا تاکہ تمام قبائل اپنی حیثیت کے مطابق غلاف کعبہ کی تیاری میں حصہ لے سکیں۔ فتح مکہ کی خوشی پر حضور اکرمﷺ نے یمن کا تیار کیا ہوا‘ سیاہ رنگ کا غلاف اسلامی تاریخ میں پہلی بار چڑھانے کا حکم دیا۔ آپﷺ کے عہد میں دس محرم کو نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا‘ بعد میں یہ غلاف عیدالفطر کو اور دوسرا دس محرم کو چڑھایا جانے لگا۔ بعدازاں حج کے موقع پر غلاف کعبہ چڑھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ 9اور 10ہجری میں بھی آپﷺ نے حجتہ الوداع فرمایا تو غلاف چڑھایا گیا۔ اس زمانے سے آج تک ملت اسلامیہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ غلاف خوبصورت اور قیمتی کپڑے سے بنا کر اس پر چڑھاتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے دور میں مصری کپڑے کا قباطی غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ سیدنا عمر فاروق پہلے پرانا غلاف اتار کر زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے لیکن بعد میں اسکے ٹکڑے حجاج اور غربا میں تقسیم کر دیئے جاتے۔ آج کل یہ ٹکڑے اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور اہم شخصیات کو تحفہ میں دیئے جاتے ہیں۔حضرت عثمان غنی اسلام کی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے پرانے غلاف پر غلاف چڑھایا اور سال میں دو مرتبہ کعبہ پر غلاف چڑھانے کی رسم ڈالی۔ بنو عباس نے اپنے 500 سالہ دور حکومت میں ہر سال بغداد سے غلاف بنوا کر مکہ مکرمہ روانہ کئے۔ عباسیوں نے اپنے دور حکومت میں غلاف کعبہ کی بنوائی میں خصوصی دلچسپی لی اور اسکو انتہائی خوبصورت بنایا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے سال میں 2 مرتبہ اور مامون الرشید نے سال میں تین مرتبہ غلاف کعبہ کو تبدیل کرنے کا اہتما م کیا۔ مامون الرشید نے سفید رنگ کا غلاف چڑھایا تھا‘ خلیفہ الناصر عباس نے پہلے سبز رنگ کا غلاف بنوایا لیکن پھر اس نے سیاہ ریشم سے تیار کروایا‘ اسکے دور سے آج تک غلاف کعبہ کا رنگ سیاہ ہی چلا آرہا ہے البتہ اوپر زری کا کام ہوتا ہے۔140ھ سے غلاف پر لکھائی شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے ۔ 761 ہجری میں والی مصر سلطان حسن نے پہلی مرتبہ کعبہ کے بارے میں آیات قرآنی کو زری سے کاڑھنے کا حکم دیا۔ 810 ہجری میں غلاف کعبہ بڑے خوبصورت انداز میں جاذب نظر بنایا جانے لگا‘ جیسا کہ آج بھی نظر آتا ہے۔ محمود غزنوی نے ایک مرتبہ زرد رنگ کا غلاف بھیجا۔ سلمان دوم کے عہد حکومت تک غلاف مصر سے جاتا تھا‘ جب اس رسم میں جاہلانہ باتیں شامل کرلی گئیں تو سعودیہ عرب سے مصریوں کے اختلافات بڑھ گئے اور مصریوں کا تیار کردہ غلاف لینے سے انکار کر دیا گیا۔ شریف حسین والی مکہ کے تعلقات مصریوں سے 1923ء میں خراب ہوئے چنانچہ مصری حکومت نے غلاف جدہ سے واپس منگوا لئے۔1927ءمیں شاہ عبد العزیز السعود نے وزیر مال عبداللہ سلیمان المدن اور اپنے فرزند شہزادہ فیصل کو حکم دیا کہ وہ غلاف کعبہ کی تیاری کےلئے جلدازجلد ایک کارخانہ قائم کریں اور 1346 ہجری کےلئے غلاف کی تیاری شروع کر دیں چنانچہ انہوں نے فوری طور پر ایک کارخانہ قائم کرکے ہندوستانی کاریگروں کی نگرانی میں غلاف کی تیاری شروع کر دی اور یوں سعودیہ کے کارخانے میں تیار ہونیوالا یہ پہلا غلاف کعبہ تھا۔ مکہ میں قائم ہونیوالی اس فیکٹری کا نام ”دارالکسوہ“ ہے۔1962ء میں غلاف کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں بھی آئی۔ (کہا جاتا ہے کہ فیصل آباد کے صنعتکاروں کی طرف سے بنائے گئے غلاف کا رنگ اتر گیا تھا) غلاف میں 150کلو سونے اور چاندی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں، اس میں خانہ کعبہ کے غلاف کے ٹکڑے کروڑوں میں فروخت کرنے والا لوگوں کی لعن طعن سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کا ان صاحب کو ادراک ہے تبھی تو انہوں اشتہار میں اپنا فون نمبر اور ایڈریس نہیں دیا۔ انکی نیت کے بارے میں مکمل تفصیلات کے سامنے آنے تک کوئی حتمی رائے قائم کرنا مناسب نہیں۔ یہ صاحب تو غلافِ کعبہ کے دو ٹکڑے ہی فروخت کر رہے ہیں‘ بلاشبہ دینِ حنیف کی حفاظت کیلئے جہاں کفن بردوشوں کی کمی نہیں‘ وہیں وطن فروشوں، ملت فروشوں اور مزیدبراں قلم فروشوں کی بھی بہتات نظر آتی ہے۔ آباءتو بت شکن تھے‘ ملت ِ اسلامیہ نے اپنے اندر کعبہ شکن بھی دیکھے۔ عبداللہ بن زبیر نے خدا کے گھر میں پناہ لی تو حجاج بن یوسف نے خانہ کعبہ پر سنگ باری کرادی۔ حج کے ایام میں غلاف کعبہ کو آدھا اوپر اٹھا دیا جاتا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ بعض سادہ لوح لوگ غلاف سے لپٹ کر دھاگہ کاٹ کر تبرک کے طور پرمحفوظ کر لیتے تھے بعض بخشش کےلئے میت کی آنکھوں میں ڈالتے تھے۔ ایک طرف غلاف کعبہ سے عقیدت کی یہ انتہا ہے تو دوسری طرف آج ملت اسلامیہ کے ایک فرزند نے اسکے غلاف کی قیمت لگا دی ہے۔

No comments:

Post a Comment