صدارتی ”معرکی“
واپڈا کا لائن
سپرنٹنڈنٹ ریٹائر ہوا تو اس نے اپنی جگہ بیٹے کو لائن مین بھرتی کرا دیا۔
کرنل صاحب ریٹائر ہو کرنئے تعمیر شدہ بنگلے میں منتقل ہوئے تو دوسرے روز
خدا بخش دھوبی اپنے میٹرک پاس بیٹے کو لےکر حاضر ہوا اور عرض کی کہ اسے
اپنی جگہ بھرتی کرا دیں‘ رحمے جِھیر نے اپنے بیٹے کو ایف اے کرایا، سرکاری
نوکری تو نہ ملی البتہ چودھری نے شہر میںایک پراپرٹی ڈیلر کے پاس چوکیدار
چپڑاسی کم خانساماں رکھوا دیا۔ جھورا پڑھا لکھا تھا جلد پراپرٹی کے معاملات
سے آگاہ ہو کر ڈیلر کا دست راست بن گیا۔ اچھی خاصی ماہانہ آمدن ہونے لگی
تو گھر میں جدید اشیا کی آمد شروع ہو گئی۔ فریج گھر میں آئی تو دادے نے
پوچھا اس کا فائدہ؟ جواب دیا جو چیز بھی رکھو خراب نہیں ہوتی۔ بابے نے رات
کو حقہ تازہ کیا دو چار کش لئے اور سلگتی ہوئی چلم فریج میں رکھ دی۔۔۔ پوتا
تھرموس گھر لے گیا۔ بزرگ نے افادیت پوچھی تو بتایا اس میں ٹھنڈی چیز ڈالو
تو ٹھنڈی، گرم ڈالو تو گرم رہتی ہے۔ اگلے دن بڑا بھائی فیکٹری جانے لگا تو
پونے میں روٹی باندھی تھرموس میں دو گلاس گھڑے سے پانی کے اور ایک چائے کا
کپ ڈال کر ساتھ لے گیا۔ ہمارا دوست اخباری لائن میں آنے کے بعد پہلی بار
گھر گیا تو دادی نے پوچھا، کی نوکری ملی؟ بتایا اخبار کی، کم کی اے۔ بتایا
خبریں اور سرخیاں بناتا بھی ہوں لگاتا بھی ہوں۔ وہ دوسری سرخی سمجھ بیٹھی
اور جھٹ سے بولی پھٹے منہ، کھسرا!۔ ساتھ پھوپھی بیٹھی تھی اس نے پوچھا رات
کہاں رہتے ہو۔ بتایا رات کو ڈیوٹی ہوتی ہے صبح تین بجے تک۔ اس نے کہا چوروں
والی نوکری ہے۔ ہمارے ملک کی کم و بیش ستر فیصد آبادی ایسے ہی سادہ لوح
لوگوں پر مشتمل ہے جو سیاست اور جمہوریت کی الف بے سے بھی واقف نہیں۔ ہمارے
شاطر سیاستدان ان کی سادگی سے فائدہ اُٹھا کر ان کی ہمدردیاں اور ووٹ سمیٹ
لیتے ہیں جو سیاستدانوں کی چالوں کو سمجھتے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک
کے برابر ہے ان میں بھی کئی مصلحتوں اور کئی اپنے مفادات کے اسیر ہو کر
سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنا کر دکھانے کے فن میں یدِ طولیٰ رکھتے
ہیں۔ یوں قوم کے سیاہ و سفید کے مالکوں کا اصل چہرہ سادہ لوح اکثریتی آبادی
کے سامنے کبھی نہیں آتا۔ کوئی جتنا بھی سادہ ہو اسے بجلی کی بندش کے عذاب
کا توبہر حال سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ بجلی زرداری نے بیچ
دی تو وہ پیپلز پارٹی نفرت کا گولہ بن جاتا ہے۔ اب وہ اچانک بجلی کے عذاب
کے ساتھ مہنگائی کے تھپیڑے کھا رہا تو وہ اس کا ذمہ دار نواز لیگ کو سمجھتا
ہے جب موقع ملے گا تو اس سے نفرت کا اظہار کر دیگا۔ اس سے زیادہ کی اس کے
پاس سیاست کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں اور شاید ضرورت بھی نہیںہے۔ زرداری
صاحب کا یہ قول تاریخی حیثیت اختیار کر گیا کہ معاہدے اور وعدے قرآن و حدیث
نہیں ہوتے دیگر سیاستدانوں کے کردار سے ایسے ہی رویوں کا اظہار ہوتا ہے۔
اب تک پاکستان میں کتنے اتحاد بن چکے ہیں۔ ان اتحادوں میں پارٹیاں بدلتی
ہیں نہ چہرے البتہ تعداد ذرا مختلف ہوتی ہے۔ یہ پارٹیاں کبھی حکومتی اتحاد
میں گھستی ہیں تو کبھی حکومت کو الٹا کر اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرتی
ہیں۔آج صدارتی ریس جاری ہے۔ نواز لیگ ممنون حسین کو سامنے لائی، تحریک
انصاف نے وجیہہ الدین کو پیش کیا اور پی پی پی نے رضا ربانی کو آگے بڑھا کر
پیچھے ہٹا لیا۔ الیکشن کمشن نے 6 اگست کو الیکشن کرانے کا اعلان کیا۔ نواز
لیگ کواس شیڈول پر یاد آیا اس روز تو ستائیسویں اٹھائیسویںہو گی۔ میاں
نوازشریف نے عمرے پر جانا ہے۔ ن لیگ نے سپریم کورٹ میں 30 جولائی کو الیکشن
کرانے کی درخواست دائر کر دی۔ مسلم لیگ ن نے جو مانگا سپریم کورٹ نے عطا
کر دیا ۔۔۔ عمرہ پورا سال ہوتا ہے۔ ن لیگ کی عبادت گزار قیادت اپنا شیڈول
صدارتی الیکشن کے تناظر میں طے کر سکتی تھی۔ سیاستدانوں کی شب بیداری کی
فطرت اور اعتکاف کی عادت سے دنیا واقف ہے۔۔۔ شریف برادران جاتی عمرہ میں
شہر اعتکاف بسا دیں تو وضو کے طریقے سے بھی نابلد ایم این اے اور ایم پی اے
جوق در جوق سر پر بستر اُٹھائے اور گلے میں لوٹا لٹکائے امڈ آئیں گے۔ پی
پی پی نے انتخاب کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کیا کہ سپریم کورٹ نے اس کی رائے
نہیں لی۔ مزید براں اسے مہم چلانے اور پارلیمنٹیرین سے رابطوں کا وقت محدود
ہو گیا۔ پارلیمنٹ میں کم و بیش بیس پارٹیاں اور لاتعداد آزاد امیدوار ہیں
وہ کس کس کو پوچھتی؟ رابطوں کےلئے وقت 6 اگست تک سب کےلئے لامحدود وقت تھا۔
یہ 30 جولائی تک محدود ہوا ہے تو بھی سب کےلئے۔ پی پی پی کےلئے ہار تو
نوشتہ دیوار تھی۔ بائیکاٹ سے بہتر تھا کہ پی پی پی ن لیگ کے امیدوار کو
سپورٹ کر کے سیاست میں مفاہمت کا ایک مزید باب رقم کر دیتی جس سے ن لیگ
مراعات کے حصول کے عادیوں کی بلیک میلنگ سے بھی محفوظ رہتی۔ تحریک انصاف کو
بھی پی پی پی جیسے ہی تحفظات تھے۔ الیکشن کا بائیکاٹ غیر جمہوری رویہ تو
نہیں لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں پسندیدہ بھی نہیں ہے۔ عمران خان نے
بائیکاٹ نہ کر کے بہتر جمہوری رویے کا اظہار کیا۔ صدارتی مہم سے پارٹیوں
کی قیادت کی سیاسی بلوغت اور وژن کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ ق لیگ اور اے این
پی نے اصولی طور پر پی پی پی کے ساتھ جانے کا اعلان کیا۔ پی پی پی کی طرف
سے بائیکاٹ کو سیاسی بالغ نظری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے اداروں کے
درمیان چپقلش بڑھ سکتی ہے ۔ رضا ربانی کا یہ کہنا معنی خیز ہے کہ 3 قوتوں
کا گٹھ جوڑ ون یونٹ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ایم کیو ایم نے حسب سابق فیصلہ
اپنے بہترین سیاسی مفادات کے حصول کےلئے کیا۔ ان کا گورنر موجود رہے گا،
مرکز میں حکومت میں شمولیت کی راہ ہموار ہو گی اور برطانیہ میں ہاتھ سے
نکلتے معاملات بھی سنبھل سکتے ہیں۔ نوازشریف کو گلا ہے کہ انہوں نے زرداری
حکومت کا پانچ سال ساتھ دیا۔ فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے برداشت کئے اب وہ
الیکشن کا بائیکاٹ کر رہی ہے۔۔۔ باری کے کھیل کا انکشاف زرداری صاحب نے کیا
تھا۔ انہوں نے باری میاں صاحب کو دیدی اب پانچ سال آپ اپنی حکمت اور
مفاہمت سے پورے کریں۔ پی پی پی سے توقع نہ رکھیں کہ وہ آئینی مدت کا دریا
عبور کرا دے گی۔ اب چوسنی سیاست نہیں چل سکتی ۔کچھ حلقے میاں صاحب کو سیاسی
طور پر بالغ سمجھتے ہیں وہ خود کو ایسا ثابت کریں۔ الیکشن کی تاریخ
بدلوانے کےلئے سپریم کورٹ جانے سے قبل پی پی اور تحریک انصاف سے مشورہ کرنے
میں کیا حرج تھا؟۔ اور پھر ایم کیو ایم کے در پر حاضری اپنے ہی اصولوں،
وعدوں اور معاہدوں کی دھول اڑاتی نظر آتی ہے۔ سیاسی بصارت ملاحظہ فرمایئے
کہ فنکشنل لیگ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ایم کیو ایم سمیت کسی بھی
پارٹی سے رابطوں میں کوئی حرج نہیں۔ رابطے سیاست اور جمہوریت کا حصہ ہیں۔
میاں نوازشریف، ایم کیو ایم کے پاس وفد بھیجنے سے قبل 7 اور 8 جولائی
2007ءکی 34 جماعتوں کی لندن میں اے پی سی کا اعلامیہ بھول گئے یا اسے
زرداری صاحب کی طرح سمجھ لیا کہ معاہدے اور وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔
مختصر ملاحظہ فرمائیے وہ اعلامیہ جو میاںصاحب نے پڑھا اور اس پر ہمارے
اکابرین سیاست نے دستخط کئے۔ اس اے پی سی میں محترمہ بینظیر بھٹو نے شرکت
نہیں کی تھی کیونکہ ان کے 28 جولائی کو دبئی میں مشرف سے ملاقات کے معاملات
طے ہو رہے تھے۔”۔۔کراچی میں بارہ مئی کے قتل عام کے ذمہ دار جنرل مشرف‘
گورنر سندھ (عشرت العباد) وزیراعلیٰ سندھ‘ صوبائی وزراءاور ایم کیو ایم
ہیں‘ اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں مشترکہ درخواست کی جائیگی۔ پاکستان میں
دہشت گردی کے واقعات میں الطاف حسین کے مبینہ کردار کے حوالے سے ضروری
قانونی کارروائی شروع کرنے کیلئے برطانوی حکومت کو مشترکہ یادداشت بھجوائی
جائیگی جبکہ کوئی بھی جماعت مستقبل میں ایم کیو ایم کے ساتھ انتخابی اتحاد
نہیں کریگی اور اسے حکومت میں شامل نہیں کیا جائیگا“۔ اعلامیہ میاں
نوازشریف نے خود پڑھا جس پر آمین کہنے والوں میںعمران خان، مولانا فضل
الرحمان‘ قاضی حسین احمد‘ اسفند یار ولی، علامہ ساجد نقوی، میاں شہباز
شریف، اسحٰق ڈار، چودھری نثار، احسن اقبال‘ حاصل بزنجو‘ مخدوم امین فہیم‘
شیری رحمان‘ محمود خان اچکزئی‘ پروفیسر ساجد میر اور دیگر بہت سے رہنما
شامل تھے۔ یہ اے پی سی اس موقع پر ہوئی جب لال مسجد اپریشن شروع ہو چکا تھا
اور دنیا کے کونے کونے میں معصوم محصورین لال مسجد کی چیخیں گونج رہی
تھیں۔
1994ءمیں سوڈان میں بدترین قحط پڑا تو جنوبی افریقہ
کا پاپا رازی فوٹو گرافر، امدادی ٹیم کے ساتھ وہاں گیا۔ اس نے یہ شاہکار
تصور بنائی جس میں گِدھ بھوک سے نڈھال تین چار سال کی بچی کے مرنے کا
انتظار کر رہا ہے کیونکہ گِدھ کی فطرت میں زندہ انسانوں کا گوشت کھانا شامل
نہیں۔ اس شاہکار تصویر پر کیون کارٹر کو پُلٹرز انعام دیا گیا۔ کیون کارٹر
کی شاہکار تصویر نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا ساتھ ہی اس پر لعن طعن بھی
شروع ہو گی کہ اس نے تصویر کے بعد بچی کو مرنے اور گِدھ کی خوراک بننے
کیلئے کیوں چھوڑ دیا!ایسی تنقید کیون کے ضمیر پر کوڑے برسانے اور اپنی خود
غرضی ستانے لگی کہ انعام ملنے کے 3 ماہ بعد خودکشی کر لی۔ اسکی ڈائری سے یہ
تحریر ملی ”میرے خدا میں وعدہ کرتا ہوں کبھی خوراک ضائع نہیں کروں گا خواہ
کتنی ہی بدذائقہ کیوں نہ ہو اور میں کتنا ہی سیر کیوں نہ ہو جاﺅں۔“
اوپر
دیا گیا اقتباس ایک بار پھر نقل کرنے کی ضرورت ملک میں بڑوں کی شان و
شوکت، آسمان کو چھوتے ہوئے دولت کے انبار اور دوسری طرف سسکتی، بلکتی اور
ایک ایک نوالے کو ترستی انسانیت دیکھ کر پیش آئی۔ کراچی میں رمضان کے آغاز
میں صدقہ و زکوٰة پر جھپٹتی درجنوں خواتین میں سے 4 بھگدڑ میں کچل کر ماری
گئیں۔ 2009ءمیں 19 ایسے واقعہ میں لقمہ اجل بنی تھیں۔ لاہور میں بھی دو تین
سال قبل ہلال احمر کی خیرات پر بھوکے ٹوٹ پڑے اور کئی جان سے گئے۔ ”بھوکوں
کو زکوٰة، خیرات اور صدقات وصول کرنے کی بھی تمیز نہیں“ یہ عام سا جملہ
کہہ دینا بڑا آسان ہے۔ بھوک دنیا کی ظالم ترین چیز ہے۔ اس جبر سے تنگ انسان
اپنی انا کو فنا اور عزت و غیرت کو نیلام کرنے پر بھی مائل ہو جاتا ہے، جو
بھوکے ایسا نہیں کرتے وہ اپنے سمیت پورے خاندان کی جان لے لیتے ہیں۔
پاکستان میں آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے( خط
غربت سے مراد آمدن کی وہ حد ہے کہ جس سے نیچے کوئی فرد ، زندگی کے لیے
درکار بنیادی ضروریات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ
خرید نہیں سکتا۔ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی 60
فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جن کی یومیہ آمدنی 2 ڈالر
کے برابر ہے جبکہ 21 فیصد انتہائی غریب ہے انکی یومیہ اجرت سوا ڈالر سے بھی
کم ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق پاکستان میں 5 سال سے کم عمر 21 فیصد بچے غذائی
قلت کا شکار ہیں) بھوکے سونے والوں کی تعداد تو شاید بہت زیادہ نہ ہو
البتہ ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جو پیٹ بھر کر کھانے سے قاصر ہیں۔۔۔ صرف
روٹی ہی ان کی ضرورت نہیں، ان کو لباس، تعلیم اور صحت کی سہولتیں بھی درکار
ہیں۔
اتنی بڑی آبادی کو خطِ غربت سے نیچے پھینکنے کا ذمہ دار کون
ہے؟ 60 فیصد آبادی کی محرومیوں کا کوئی تو ذمہ دار ہے۔ کسی حد تک یہ لوگ
خود بھی ہو سکتے ہیں لیکن بلاشبہ سب سے زیادہ وہی لوگ ہیں جو شان و شوکت سے
زندگی گزارتے ہیں جن کا پُرشکوہ محلات میں بسیرا ہے، دھن دولت بے کنار ہے۔
محنت اور خون پسینے کی کمائی سے سیم و زر کے ہمالہ کھڑے کرنے صاحبانِ
جائیداد معزز و محترم ہیں جن کے محلات کی بنیاد میں عوام بلکہ غریب کی رگوں
سے نُچڑا ہوا خون کا ایک بھی قطرہ موجود ہے وہ بھی گِدھ ہے۔
آگے چلنے سے قبل محترمہ بانو قدسیہ کے ناول ”راجہ گِدھ“ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔
"باوجود
یہ کہ رزق حرام ہی سے راجہ گدھ میں دیوانگی کے آثار پیدا ہوئے ہیں لیکن
مسئلہ دراصل سرشت کا ہے۔۔۔۔ اگر راجہ گدھ کی سرشت میں حرام کھانا لکھا ہے
تو پھر اس کیلئے حرام گناہ نہیں عین ثواب ہے۔۔۔ لیکن اگر اس نے اپنی عقل سے
رزق حرام کھانا سیکھا ہے تو پھر یہ ضروری اس کے لہو پر اثر انداز ہوگا اور
دیوانگی پیدا کرے گا۔۔۔ طے یہ کرنا ہے کہ کیا رزق حرام گدھ کی سرشت کا حصہ
ہے کہ اس کی اپنی تجویز کا ردعمل "۔۔۔
گِدھ کی فطرت میں زندہ
انسانوں کا گوشت کھانا شامل نہیں۔ ہمیں جن سے پالا پڑا ہے وہ زندہ انسانوں
کا گوشت کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے آج ہمیں ہر طرف گِدھ ہی گِدھ نظر آتے
ہیں۔ راجہ، گیلانی، زرداری، نواز، شہباز، مولانا، مخدوم، بلور اور۔۔ اور
بہت سے وغیرہ وغیرہ --- اگر انکی جائیدادوں میں کرپشن، کمیشن اور دو نمبر
آمدن کی آمیزش نہیں تو یہ محترم و مکرم ہیں دوسری صورت میں گِدھ۔ کہا جا
رہا ہے کہ صدارتی الیکشن کا شیڈول تبدیل کرلیا جائے کیونکہ 6 اگست کو کئی
ارکان عمرہ اور اعتکاف میں مصروف ہونگے۔ دیکھا جائے کہ ان میں سے کتنے گدھ
نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو پورے پنجاب سے گورنر کیلئے ایک بھی امیدوار میسر
نہیںآیا کہ لندن سے دہری شہریت چھڑوا کر ایک شخص درآمد کرنا پڑا۔ خدا کرے
کہ وہ گدھ صفت نہ ہو۔ (
گِدھ .... (آخری قسط)
ای او بی آئی کے
سابق چیئرمین ظفر گوندل پر 40 ارب کی بے بطگیوںکا الزام ہے سپریم کورٹ نے
انکی جائیداد کی ضبطی کا حکم دیدیا گیا۔ راجہ پرویز اشرف نے اپنی وزارتِ
عظمیٰ کے آخری روز 15 ارب روپے قومی خزانے سے نکلوا لئے، ان پر مزید اربوں
کی کرپشن کے الزامات ہیں، گیلانی کے دور سے ہر ادارہ کرپشن میں ڈوبا ہوا
نظر آیا انکے خاندان کے تمام افراد لوٹ مار میں مصروف رہے‘ اب وہ فرما رہے
ہیں کہ ان کو استثنیٰ حاصل ہے لہٰذا وہ کسی کورٹ اور تفتیشی ادارے کو
جوابدہ نہیں ،جس نے جو کرنا ہے کر لے۔ ایسی سینہ زوری سیاسی شہید کا درجہ
پانے کی بے پاپاں خواہش دکھائی دیتی ہے۔ زرداری صاحب پاکستان کے دوسرے امیر
ترین آدمی کے درجے پر فائز ہیں ان کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا جاتا رہا۔ انہوں
نے موبائل پر ٹیکس لگایا تو کسی نے اسے زرداری ٹیکس اور کسی نے جگا ٹیکس
قرار دیا۔ اب شریف حکومت نے اس میں دگنا اضافہ کر دیا‘ اسے ڈھگا ٹیکس قرار
دینا چاہئے۔ یہ آپ کی صوابدید پر ہے کہ ٹیکس لگانے والا ڈھگا ہے یا خاموشی
سے برداشت کرنے والا طبقہ ڈھگا ہے۔
زرداری کے زمانے میں انکے حریفوں
بلکہ شریفوں نے بڑے نعرے لگائے اور دعوے کئے کہ حکومت میں آ کر قومی خزانے
سے لوٹی گئی پائی پائی کا حساب لیں گے اقتدار میں آنے کے بعد مکمل خاموشی
ہے۔ ایسے لوگ جو کہ کرپشن اور 60 فیصد عوام کو خطِ غربت سے نیچے زندگی
گزرانے پر مجبور کرنے والوں کے گریبان پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔اتنی بڑی کرپشن
سے چشم پوشی کرنے والوں کے کردا ر کو کیا کہاجائے؟ کوئی کہیں بھی بیٹھا ہے
صحافت کے چبوترے پر، مذہب کے منبر پر، سیاست کے آسمان پر قضاة کے منصب پریا
بیورو کریسی کے آشیاں پر اگر اسکی کمائی میں ایک پیسہ بھی ناجائز ذرائع سے
جمع ہو رہا ہے‘ وہ گِدھ ہی نہیں راج گدھ ہے ۔گِدھ اس حوالے سے ماحول دوست
ہے کہ مردہ جانور کے تعفن زدہ ہونے سے قبل اس کو کھا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ
پاکستان میں گِدھ نسل ختم ہورہی ہے جس پر اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے نے
پاکستان میں گدھ کی تیزی سے ختم ہونے والی نسل کو بچانے کے لیے اقدامات
شروع کیے ہیں۔ اسکے تحفظ کے لیے سندھ کے صحرائی علاقے ننگرپارکر میں ایک
گدھ ریسٹورنٹ قائم کیا جا رہا ہے جہاں تنظیم کے مطابق سال بھر گدھوں کو
آلودگی سے پاک گوشت فراہم کیا جائے گا تاکہ ان کی شرح اموات کم
ہوسکے۔۔۔اقوام متحدہ کے ایسے اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں، گِدھ کی نسل
نایاب نہیں ہورہی بلکہ گِدھ انسانی روپ میںنمودار ہوکر پہلے سے بھی بہتر
”کارکردگی“ دکھاتے ہوئے زندہ انسانوں کو بھی نوچ رہے ہیں۔
حکمرانو ں اور
سیاستدانوں کے عوام کُش اقدامات کو نظر انداز کر کے ان کی تعریفوں کے پل
باندھنے والے بھی ایک قسم کے گِدھ ہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حکومت بنتی اور
اپنی مدت پوری کر لیتی ہے۔ آزاد کشمیر میں حکومت کی بقا ءکا دارومدار
پاکستان میںآنے اور جانیوالی حکومت پر ہوتا ہے۔ آج پھر مقبوضہ کشمیر میں
گدھ حکومت کا تختہ الٹنے کےلئے سرگرم ہیں۔وہاں عموماً گدھ ہی اقتدار میں رہ
کے وسائل پر ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں ۔اُ وڑی کے پار سری نگر تک مضبوط اور
بہترین سڑک دہائیوں پہلے بنی اپنی ابتدائی شکل میں موجود ہے جبکہ اُڑی کے
آر مظفر آباد تک تباہ حال سڑک اس کے وزارت کشمیر کے ماتحت حکمرانوں کی لوٹ
مار کی داستان بنی رہتی ہے۔
روزانہ 14 ارب روپے کی سرکاری سطح پر کرپشن
ہوتی ہے۔ سیاستدان، بیورو کریٹ بڑے افسر چھوٹے اہلکاروں کی طرف سے نوچی
ہوئی جائیدادوںاور بنک اکاﺅنٹس کی مالیت بلاشبہ کھربوں کھربوں اور کھربوں
میں ہے یہ قومی خزانے میں آ جائے تو یقیناً ملکی ترقی و خوشحالی کے در کھل
سکتے ہیں۔ یہ رقم غریبوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں اس سے توانائی کا
بحران ختم ہو سکتا ہے۔ ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ صنعتوں اور
کاروبار کا پہیہ رواں ہو سکتا ہے۔ حکومت پسماندہ علاقوں کی پسماندگی دور کر
سکتی ہے۔ اس سب کیلئے گِدھوں سے نجات ضروری ہے اور حقیقت ہے کہ گدھ گِدھوں
کا احتساب کر سکتے ہیں نہ ان سے نجات دلا سکتے ہیں۔
آخر میںاحمد ندیم قاسمی صاحب کے اشعار کی صورت میں دعا ہے :
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ ا±گے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
تعلیم اور صحت
”خوش قسمت“ ہیں وہ صحافی جن کا تذکرہ ان کی عدم موجودگی میں بھی ہوتا رہا۔ جہاں عطاءالحق قاسمی کے اس کالم کا ذکر ہوا جس میں انہوں نے نام لئے بغیر اجمل نیازی اور توفیق بٹ کے کالموں میں اپنے ”ذکر خیر“ کی خبر لی تھی۔ میں قاسمی صاحب کے مذکورہ کالم کی تلاش میں ان کا ”صاحب اور اس کا ڈرائیور“ کے عنوان سے پورا کالم پڑھ بیٹھا جو ایک افسانہ تھا۔ اس پر ماتھا ٹھنکا کہ قاسمی صاحب کا ترکش عمران خان کی ملامت کے تیروں اور زنبیل نوازشریف کی صاحب‘ سلامت اور لوڈشیڈنگ کی حمایت میں دلائل سے خالی ہو چکی ہے کہ نوبت افسانہ طرازی پر آ گئی۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ نظامی صاحب کا نام لئے بغیر ان کے خلاف زہر اُگلا گیا ہے۔ کالم پڑھنے پر یہ تاثر یکسر غلط ثابت ہوا۔ مجیب الرحمن شامی صاحب کا بھی قاسمی صاحب کے کالم میں بھلاذکر ہے۔ یار لوگوں نے ان کا تذکرہ قومے ہٹا کر کے محرم سے مجرم بنا دیا۔ شامی صاحب کی اس تقریب میں شمولیت کا تذکرہ بڑے دلچسپ پیرائے میں عینی شاہدین نے سنایا جس میں جنوبی پنجاب کی وہ خاتون بھی موجود تھی جس کو نواز لیگ کی قیادت نے ماورائے عقل فیصلہ کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی رکن بنا دیا ۔یہ مزدور خاتون تعلیم سے کوری ہیں۔ تقریب کے بعدچائے پینے کے دوران انہوں نے ساتھ بیٹھی خاتون سے شامی صاحب کی طرف اشارہ کر کے پوچھا یہ کون ہیں؟ دوسری خاتون نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ” ہائے تم ان کو نہیں جانتی ہو، یہ بڑے مشہور صحافی خبریں اخبار کے مالک ضیاءشاہد ہیں“۔
عطاءالرحمن صاحب نے اپنے اخبار کی اے بی سی کی راہ میں رکاوٹوں کی روداد سنانا شروع کی تو ہم نوا گروپ نے توا لگانے کی کوشش کی۔ عطا صاحب نے بڑے تدبر، ذہانت سے دانش سے یہ توا ان کی طرف لوٹا دیا۔ اس گپ شپ میںہم لوگ اپنی آمد کا مقصد فراموش کئے ہوئے تھے کہ میزبان نے کہا اگر اجازت ہو تو تقریب کا باقاعدہ آغاز کریں۔ اس پر غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے نمائندے وقاص جعفری نے غزالی ایجوکیشن سسٹم کے حوالے سے مختصر سی بریفنگ دی۔ پاکستان میں 70 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں ان میں سے زیادہ کا تعلق دیہات سے ہے۔ غزالی ٹرسٹ دیہات میں تعلیم نام کی چیز سے نابلد بچوں کی تعلیم پر توجہ دے رہا ہے۔ پنجاب، خیبر پی کے اور بلوچستان کے 35 اضلاع میں 325 سکولوں میں 50 ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ کوئی بھی قوم تعلیم کے بغیر ترقی کر سکتی ہے نہ صحت مند معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے۔ نپولین بوناپاٹ نے کہا تھا ”تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا“۔ غزالی ٹرسٹ بہترین قوم کی تشکیل کیلئے اپنے وسائل کے مطابق کوشش کر رہا ہے۔ شہری آبادیوں سے دور بہت دور غزالی ٹرسٹ کے 325 سکول مخیر حضرات کے صدقات، زکوٰة اور عطیات پر چل رہے ہیں۔ والدین اپنی مرضی سے جو بھی فیس مقرر کر لیں یہ ان کو آپشن ہے۔ بہت سے بچے بغیر فیس کے پڑھتے ہیں۔جن کا دنیا میں کوئی نہیں ان کا بھی یہ ٹرسٹ سہارا بنتا ہے۔ معذور بچے بھی غزالی ایجوکیشن سسٹم کی نظروں سے اوجھل نہیں رہے۔ 50 ہزار طلبہ و طالبات اور 2400 اساتذہ کے ساتھ غزالی ٹرسٹ تعلیم کے میدان میں اپنی پوری صلاحیتیں بروئے کار لا رہا ہے۔ اس کا یہ سلسلہ زکوٰة صدقات اور عطیات پر چل رہا ہے۔ اس کے اکثر اساتذہ اور طلبہ و طالبات بھی ڈونر ہیں۔ دو سال قبل انہوں نے 34 لاکھ اگلے سال 42 اور رواں سال 48 لاکھ روپے ٹرسٹ کے حوالے کئے لیکن سالانہ اخراجات کروڑوں میں ہیں۔ ہماری جیب سے کسی کی بھلائی کیلئے استعمال ہونے والا ایک روپیہ بھی رائیگاں نہیں جاتا۔
گذشتہ دنوں شوکت خانم میموریل ہسپتال میں فنڈ ریزنگ تقریب ہوئی۔ عمران خان تو بیرون ملک تھے۔ ہسپتال کے سی ای او فیصل سلطان نے انکی نمائندگی کی کراچی سے بہروز سبزواری اس میں خصوصی شرکت کیلئے آئے۔ ٹارگٹ پانچ کروڑ تھا۔ ڈونرز نے 6 کروڑ کے جمع کرا دئیے۔ پشاور میں بھی کینسر ہسپتال کی تعمیر شروع ہو چکی ہے جو دو سال میں مکمل ہو جائیگا۔ کراچی میں تعمیر کی بھی کوششیں ہو رہی ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال میں 75 فیصد مریضوں کا علاج عطیات سے جبکہ 25 فیصد مریض خود ادائیگی کرتے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کو سالانہ 5 ارب روپے کی ضرورت ہوتی ہے ان میں سے نصف زکوٰة صدقات اور عطیات سے اکٹھے ہوتے ہیں۔
تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جب ریاست ایسا کرنے سے قاصر ہو تو دردِ دل رکھنے والے لوگ آگے آ کر حکومت کے دست و بازو اور غرباءکا سہارا بن جاتے ہیں ۔ملک میں بہت سے فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں جو عطیات پر چلتے ہیں۔ زکوٰة صدقات اور عطیات دیتے ہوئے تھوڑی سی جانچ پرکھ کر لیں کہ آپ کے دئیے ہوئے پیسے کا مصرف انسانیت کی خدمت کیلئے ہی ہو رہا ہے۔ غزالی ٹرسٹ سے رابطے کیلئے نمبر ہے 04235222702-05 ای میل info@get.org.pk
No comments:
Post a Comment