About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, August 22, 2013

جہادیوں کو مصر کا راستہ دکھایا جارہا ہے؟

جہادیوں کو مصر کا راستہ دکھایا جارہا ہے؟

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
23 اگست 2013 0
مصر کے حالات بدترین صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ مرسی سے ملاقات ہوتی تو جنرل السیسی کی احترام سے نظریں جھک اور قدموں سے لپٹ لپٹ جاتی تھیں، پھر کسی نے اکسایا یا عقل بوٹوں میں چلی گئی تو ہمارے جرنیلوں ضیاء اور مشرف کی طرح اپنے محسن کا تختہ الٹ دیا۔ اب حالات ہیں کہ سنبھلتے نظر نہیں آتے۔ دو بڑے آپریشنز میں مظاہرین کو ٹینکوں، بلڈوزروں، گنوں اور بندوقوں سے کچل اور اُڑا کر رکھ دیا گیا۔ تشدد اور گرفتاریوں کا سلسلہ تھمنے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ حسنی مبارک تحریر سکوائر پر کئی ماہ کے دھرنوں اور مظاہروں کے بعد اقتدار سے گئے۔ جنرل السیسی نے تحریر سکوائر میں ہی مرسی کے مخالفین کے 5روزہ مظاہروں اور دھرنوں کو قوم کی آواز سمجھ کر جمہوریت پر شب خون مار دیا۔ اب وہیں اس سے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں تو مظاہرین کو خون میں نہلا یا جارہا ہے …عوام میں مرسی کی حمایت اور مخالفت موجود ہے۔ ایک سال قبل مرسی کی اخوان المسلمون کو مصریوں کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، اب کیا صورتحال ہے؟ انتخابات یا ریفرنڈم کے بغیر اس کا فیصلہ ممکن نہیں ہے۔ آج مصری متحد ہونے کے بجائے بٹے ہوئے اور معاملات خانہ جنگی کی طرف گامزن ہیں اور شاید بات خانہ جنگی سے بھی آگے چلی جائے۔ بہت آگے!!
مصر کے حالات پر عالمی برادری بھی مصریوں کی طرح تقسیم ہے۔ مظاہرین پر غضب ڈھانے پر فوجی حکومت کی اکثر ممالک نے مذمت کی تاہم حمایت کرنیوالے ممالک بہت کم سہی لیکن وہ بااثر اور طاقتور ہیں۔ ہمارے ہاں عمومی سوچ موجود ہے کہ السیسی کسی بغاوت کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ امریکہ نے مصری فوجی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ مرسی کے حامیوں کے مظاہروں میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ اس مشورے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ بدھ اور جمعہ کی قتل و غارت اور اپنے مشورے کو پذیرائی نہ ملنے پر امریکہ ناراض ہے۔ اوباما نے مصر کی فوجی امداد روکنے کی بات کی ہے۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں، باقی دنیا بھی اس معاملے میں امریکہ کا ساتھ دیگی جو اصولی بھی نظر آتا ہے۔ اگر پوری دنیا اس معاملے میں متحد ہو کر دبائو ڈالے تو السیسی کے پاس مرسی حکومت کی بحالی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا جس کا مطالبہ منور حسن کی سربراہی میں جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ مسلم دنیا کی تنظیموں کی طرف سے اور عوامی سطح پر کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کی سربراہی میں کچھ ممالک مصری فوجی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔ شاہ عبداللہ السیسی کی حمایت کا واضح اعلان کر چکے ہیں۔ وزیر داخلہ سعود الفیصل نے یہاں تک کہہ دیا کہ مغربی ممالک نے مصر کی امداد روکی تو تمام عرب اور اسلامی ممالک مصر کی بھرپور مدد کریں گے۔ اقوام متحدہ امریکہ کے اتنی زیر اثر ہے کہ ضمیر جعفری نے کہا تھا…؎
یو ایس اے میں یو امریکہ کا، باقی نو ہی نو ہے
اسی طرح او آئی سی بھی سعودی عرب کے زیر اثر ہے۔ او آئی سی کا ہیڈ کوارٹر سعودی عرب اورعرب لیگ کا مصر میں ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات مثالی رہے ہیں۔ پاکستان کی دونوں سے دوستی ہے بلکہ امریکہ سے ذرا غلامی کا ناطہ اور سعودیہ سے انتہائی احترام کا رشتہ ہے۔ امریکہ اور سعودیہ کی راہیں جدا ہوئیں تو پاکستان آزمائش میں پڑ جائے گا جس نے مصری حکومت کی مرسی مخالف اقدام پر مذمت کی تھی۔ سعودی عرب اور امریکہ کے اختلافات بڑھے تو عالمی سطح پر نئی صف بندی ہوتی نظر آئے گی جو عالمی امن کو تو متاثر کرے گی ہی ، مصر کے لئے تو حالات تباہ کن ہوں گے۔ دہشت گردی سے شدید متاثر ہونے اور بدامنی کی آگ میں جھلسے رہنے کے باوجود پاکستان کی عالمی برادری میں ایک حیثیت اور اہمیت ہے۔ خصوصی طور پر امریکہ اور سعودی عرب پاکستان کی بات یا مشورے کو نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں۔مصر کے حوالے سے موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں پاکستان کو اپنے کردار کا تعین کرنا ہو گا۔عالمی برادری ایک پیج پر نہ آئی تو مصر اندرونی اور عالمی امن کے لئے آگ کا گولہ ثابت ہو گا۔
 دین کے نام پر ہر مسلمان جان نچھاور کرنے کو سعادت سمجھتا ہے۔ سادہ لوح مسلمانوں کو موٹیویٹ کرکے غلط ہاتھ اپنے مقاصد کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اخوان اور اس کی حامی دنیا کی اسلامی تنظیموں میںمصر میں سیاسی اختلافات کو اسلام اور کفر کی جنگ بنا دیا تو حالات کی سنگینی کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے ۔یہ نہ ہو کہ القاعدہ اپنا رخ مصر کی طرف کر لے۔ جہاں جنرل شاہد عزیز کی کتاب’’ یہ خاموشی کہاں تک ‘‘کا حوالہ دینا برمحل ہو گا کہ دین کے نام پر مسلمان کس عزم سے لڑتے ہیں۔ ایک بار پھر دہرا دیں کہ ضرورت موٹیویشن کی ہے۔ موٹیویٹ کرنے والوں کی نیت کیا ہے اور ان کی پشت پر کون ہے یہ وہ خود جانتے ہیں یا اللہ سبحانہ تعالی کی ذات اقدس کو علم ہے؛’’26 جنوری2002 کو ہماری ایک پلٹن کے تقریباً پچاس لوگ، ان کے ساتھ ایک SSG کی ٹیم، بمعہ چار امریکنوں کے، مگرمچھوں کی تلاش میں ایک گھر پر پہنچے۔ جب گھر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک شخص نکلا۔ اس سے پوچھا کہ گھر میںکون کون ہے؟ تو اس نے کہا عورتیں اوربچے ہیں۔ کہا ہم تلاشی لیناچاہتے ہیں۔ جواب دیا، ’’ ٹھہریں عورتوں کو پردہ کرنے کا کہہ دوں‘‘۔ یہ کہہ کروہ اندرچلا گیا۔ پھر واپس نہ آیا۔ کافی دیر دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد باہر نکلا اور کہا کہ اندرچلے جائیں۔ کچھ لوگ اندرداخل ہوئے۔ جب آنگن میں پہنچے تو وہاں موجود لوگوں نے فائرکھول دیا۔ کچھ تو وہیں گر گئے اور کچھ جو دروازے کے قریب تھے، باہر بھاگ گئے اس تمام کارروائی کی ایک افسر نے کیمرے سے ویڈیو بنالی جو بعد میں سب نے دیکھی۔ پھر سپاہیوں نے گھر کو گھیرا ڈال لیا۔ رات دس بجے تک دونوں جانب سے فائر ہوتا رہا پھر خاموشی ہوگئی۔ فائر بند ہونے کے کچھ دیر بعد یہ غیر ملکی جنگجو گھر سے نکلے اور سپاہیوںکا گھیرا توڑتے ہوئے کامیابی سے فرار ہوگئے۔ ایک سپاہی کی رائفل بھی ہاتھ سے چھین کر لے گئے کوئی ہاتھ نہ آیا۔۔۔SSG کا پہلا آپریشن بھی اسی نوعیت کا رہا کچھ غیر ملکی مجاہدین کو گھیرے میں لے لیا پھر انہیں میگا فون کے ذریعے بہت سمجھایا کہ ہتھیار ڈال دیں انہیں کچھ نہیں کہاجائے گا مگروہ صرف گولیوں سے جواب دیتے۔ آخر دم تک مجاہدین لڑتے رہے اور سب نے جان دیدی۔ ایک نے بھی ہتھیار نہ پھینکا۔ آخری زخمی لمبی گھاس میں چھپ گیا۔ SSG کے گھیرے میں پھنسا، گاہے بگاہے رات تک فائر کرتا رہا۔ صبح اس کی لاش ملی۔ تنخواہ لینے والا سپاہی شہادت کے متلاشی کا سامنا کرتے گھبراتا۔ آمنے سامنے مقابلے میں مجاہدین کا ہاتھ ہمیشہ بھاری رہتا۔‘‘
مصر کوجہادیوں اور القاعدہ کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے عالمی برادری متحد نہ ہوئی تو کئی ملک شام اور مصر بن جائیں گے جہاں آج کسی کو نہیں معلوم کہ امن کس چڑیا کا نام ہے۔ 

No comments:

Post a Comment