About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, August 14, 2013

خوشحالی.بھارتی انتخابات‘ پاکستان سے نفرت کی قیمت پر

بھارتی انتخابات‘ پاکستان سے نفرت کی قیمت پر!

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
13 اگست 2013 1
بھارت کی 15ویں لوک سبھا اپنی مدت اگلے سال مئی میں پوری کر رہی ہے۔ 16ویں لوک سبھا(قومی اسمبلی) کے الیکشن کرانے کیلئے ہماری طرح کوئی نگران حکومت نہیں بنے گی۔ مرکز میں یہی کانگریس کی حکومت رہے گی اور صوبوں میںجو بھی پارٹی اقتدار میں ہے‘ انتخابات کرائے گی۔ یہ انتخابات موجودہ پارلیمان کی آئینی مدت کے دوران مکمل ہو جائینگے۔ مرحلہ وار انتخابات کا آغاز اپریل میں ہو جاتا ہے۔ اس سے بہت عرصہ قبل سیاستدان انتخابی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں جو بتدریج عروج پکڑتی چلی جاتی ہیں۔
پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں بھارت کے ساتھ تعلقات کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ بھارت میںپاکستان کیساتھ تعلقات کسی بھی پارٹی کی ہار جیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں 90ء کی دہائی میں چار الیکشن انٹی بھٹو اور پرو بھٹو کی بنیاد پر لڑے گئے۔ بے نظیر بھٹو تو ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جاں نشیں اور وارث تھیں ہی، نواز شریف نے خود کو سب سے بڑا بھٹو مخالف ثابت کرکے دو مرتبہ میدان مارا۔میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے حالات سے مجبور ہو کر میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور سیاسی بھائی بہن بنے تو لوگوں کے ذہن سے بھٹو کی محبت کا سحر اور دلوں سے نفرت کا زہر نکل گیا۔ 2002ء اور 2008ء کے بعد 2013ء میں بھی انٹی بھٹو اور پرو بھٹو عنصر کہیں نظر نہیں آیا ۔اب پارٹیوں کی کامیابی کا انحصار کارکردگی اور سبز باغ دکھا کر عوام کو بیوقوف بنانے پر ہے۔ بھارت میں انتخابات انٹی پاکستان اورصرف انٹی پاکستان کی بنیاد پر ہوتے چلے آرہے۔ جو پارٹی بھی خود کو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ثابت کردیتی ہے وہ آسانی سے انتخابی معرکہ مار لیتی ہے۔
بھارت کے 2009ء کے انتخابات سے قبل 26 نومبر 2008ء کو ممبئی حملوں کی صورت میں بربریت اور سفاکیت کا کھیل کھیلا گیا۔ حملے کئی روز جاری رہے۔ پہلا فائر ہوتے ہی بھارتی سیاستدان اور میڈیا پاکستان کیخلاف پھٹ پڑے، کوئی تحقیق نہ تفتیش۔ الزامات لگا نیوالوںکے منہ سے کف اڑ رہی ۔ کانگریس اور بی جے پی نے اسے انتخابی ایشو بنا لیا۔ پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات ڈرامہ بند کردیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو نام نہادجامع مذاکرات کا دورہ ادھورا چھوڑ کرپاکستان لوٹنا پڑا۔ اس موقع پر وزیراعظم گیلانی ذرا زیادہ ہی جذباتی ہوگئے ، ڈی جی، آئی ایس آئی کو دہلی بھجوانے یا بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔ بھارت آئی ایس آئی پر ہی اس بربریت کا الزام لگا رہا تھا۔ بالآخر اس ڈرامے کا پردہ گذشتہ دنوں سابق بھارتی نائب سیکرٹری آر وی ایس مانی نے یہ انکشاف کر کے چاک کردیا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملے خود بھارت کی حکومت نے خود کرائے اور اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔ سابق نائب سیکرٹری آر وی ایس مانی نے عشرت جہاں جعلی مقابلہ کیس میں عدالت میں جمع کرائے گئے‘ بیان میں کہا کہ سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کی تحقیقاتی ٹیم میں شامل ستیش ورما نے انہیں بتایا کہ نئی دہلی میں پارلیمنٹ اور ممبئی کے دہشت گرد حملے طے شدہ تھے ۔
 ایک مرتبہ پھر بھارت میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ بھارتی سیاستدانوں کو انتخابی مہم اور اپنی کامیابی کیلئے ایک اور ڈرامے کی ضرورت تھی جو اس نے 6 اگست کو لائن آف کنٹرول کے 6 میل اندر پونچھ سیکٹر میں رچا لیا۔ پاک فوج پر الزام لگایا کہ اس نے 5 بھارتی فوجیوں کو گھات لگا کر قتل کر دیا۔ اس پر بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کے منہ سے پاکستان پر الزامات لگاتے جھاگ بہہ رہی تھی۔ بھارتی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع نے ایک بار تو اس واقعہ میں پاک فوج ملوث ہونے کی تردید کی پھر میڈیا اور سیاستدانوں کی غضبناکی دیکھ کر تردید کی تردید کر دی۔ اسکے ساتھ ہی بھارت میں پاکستان کیخلاف نفرت اور غنڈہ گردی کی ایک لہر اٹھ کھڑی ہوئی۔ شدت پسندوں نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر دھاوا بو ل دیا۔ امرتسر کے قریب عید سے قبل پاکستان آنیوالی دوستی بس کو روک کر پاکستان کیخلاف زہر اگلا گیا اور سب سے بڑھ کر بھارتی فوج نے سیالکوٹ اور کنٹرول لائن کے متعدد سیکٹرز پر فائرنگ اور گولہ باری کی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔
 بھارت میں انتخابات اپریل میں ہونا ہیں۔ یہ سب کچھ اس میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کیلئے ہو رہا ہے۔ کانگریس‘ بی جے پی اور وہ پارٹیاں جو تین میں ہیں نہ تیرہ میں پاکستان کیخلاف انکی زبانیں انگارے برسا رہی ہیں۔۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی نفرت کا الاؤ نظر آیا۔ انتخابات کی تکمیل تک پاکستان کیخلاف زہر ناکی اور ڈرامہ بازی میں تیزی آتی چلی جائیگی۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباسی جیلانی کہتے ہیں کہ بعض قوتیں پاکستان بھارت وزرائے اعظم ملاقات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ جیلانی صاحب قوم بتا دیں کہ وہ کونسی قوتیں ہیں؟ اگلے ماہ نیو یارک میں دنیا کے تمام سربراہان اکٹھے ہونگے۔ وہاں ہر کوئی دوسرے سے ہاتھ ملائے گا۔ نواز شریف اور منموہن بھی ہاتھ ملا لیتے اور ایک دوسرے کی خیریت پوچھ لیتے ہیں تو اس سے پاکستان میں توکوئی قیامت نہیں ٹوٹے گی البتہ بھارت میں کانگریس اور بی جے پی طوفان اُٹھا دیں گی جس کا متحمل منموہن کا منحنی سا بدن نہیں ہو سکتا اس لئے اس ملاقات کے انجام کے پیش نظر کوئی اہتمام نظر نہیں آتا۔
پاکستان کی طرف سے جامع مذاکرات کی خواہش کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان بھارت مذاکرات منافقت اور جامع مذاکرات مہا منافقت ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی اور ٹریک ٹو سفارتکاری منافقت کے بچونگڑے اور ان سے سیرو سیاحت کرنے اور ذاتی مفادات اٹھانے والے شتونگڑے ہیں۔ جب بھارت مقبوضہ کشمیر کو متنازع ہی قرار نہیں دیتا۔ اسے اپنا اٹوٹ سمجھتا اور آئین میں ترمیم کرکے اسے اپنی ریاست ڈیکلر کر لیا تو پھر اسکی طرف سے پاکستانی حکمرانوں کو مذاکرات کی چوسنی دینے کی تو سمجھ آتی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی مذاکرات کیلئے بے قراری کیوں؟ اعتماد سازی کیلئے ضروری ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو متنازع تسلیم کرے اور اٹوٹ انگ کی رٹ چھوڑے۔ کیا ہمارے حکمران بھارت کو آمادہ کر سکتے ہیں کہ وہ کشمیر کو بھارتی ریاست قرار دینے کا سٹیٹس واپس لے لے؟
بھارتی سیاستدانوں نے پاکستان سے دشمنی کو اپنی انتخابی کامیابی کی ضمانت سمجھ رکھا ہے اور اس دشمنی کی بنیاد مسئلہ کشمیر ہے جو بھارت قیامت تک کم از کم مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا۔

        خوشحالی

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
01 اگست 2013 0



امریکی صنعتکار نے پاکستانی دوستوں کی توجہ سی سی ٹی وی سکرین کی طرف مبذول کرائی، فرم کے گیٹ پر جدید ماڈل کی بڑی گاڑی کی سپیڈ دھیمی ہوئی۔ گیٹ کھلا اور ساتھ ہی پارکنگ میں لشکارے مارتی گاڑی پارک ہو گئی۔ پاکستانی کلچر سے کافی حد تک شناسا امریکی میزبان نے پوچھا ” آپ کے خیال میں یہ گاڑی کس کی ہو سکتی ہے“؟ ۔۔۔ ”کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کی یا اس کے خاندان کے کسی فرد کی۔ اگر اس پر کمپنی کا سٹکر نمایاں نہ ہوتا تو ہم کہتے آپ کی طرح کے کسی بڑی کمپنی کے مالک کی“ گاڑی کی قدر و قیمت سے واقف مہمانوں نے اپنا اندازہ لگایا۔ ”یہ گاڑی میری کمپنی کے کلاس فور ملازم عمانویل کی ہے، وہ سب سے نچلے درجے کا ملازم ہے ، اس کی گاڑی میرے سمیت کمپنی میں کام کرنے والے کسی بھی شخص کی گاڑی سے مہنگی ہے“،میزبان نے مہمانوں کوورطہ¿ حیرت میں ڈال دیا ۔ مہمانوں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے پوچھا ” کیا اس نے گاڑی ابھی خریدی ہے اور آپ اسے کب نوکری سے نکال رہے ہیں“؟ ” اچھی گاڑی رکھنا اس کا شوق ہے۔ نوکری سے اسے کیوں نکالوں۔ جس کام کے لئے اسے رکھا گیا ہے وہ دلجمعی اور دیانتداری سے کرتا ہے“ فیکٹری مالک نے جواب دیا۔” یہ گاڑی کیسے افورڈ کر سکتا ہے“؟ پاکستان سے نئے نئے جانے والوں کا اپنے کلچر کے پیش نظر سوال بجا تھا ۔” اس کی تنخواہ اتنی ہے کہ گاڑی آسانی سے افورڈ کر سکتا ہے“میزبان نے جواب دیا ۔ ان پاکستانیوں کو اکثر پاکستانیوں کی طرح شاید پی آئی اے کے ملازمین کی مراعات کا اندازہ نہیں تھا۔ خاکروب کی تنخواہ ستر اسی ہزار سے کم نہیں۔ اوپر کے درجے والے لاکھوں میں لیتے ہیں۔ یونین میں ہوں تو کام بھی نہیں کرنا پڑتا ۔کام کنٹریکٹ پر رکھے ملازم کرتے ہیں۔ 24 جہاز اڑانے کے لئے ہزاروں ملازمین ہیں ہر ایک کو سال میں بچوں کی سیرو سیاحت کی کسی بھی ملک میں ایک سے زیادہ مرتبہ سہولت بھی ہے اس کے علاوہ مزید کئی سہولیات بھی ہیں ۔ خدا کرے ایسی مراعات پاکستان کے ہر سرکاری اور نجی ادارے کے ملازم کو بھی نصیب ہو جائیں جو ناممکن نہیں لیکن حال پی آئی اے جیسا نہ ہو ۔ ہمارے ہاں درمیانے اور نچلے درجے کے سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین کی عمومی حالت قابل رحم ہے ۔ درمیانہ طبقہ سفید پوشی کا بھرم رکھنے سے محروم ہو رہا ہے۔ نچلے درجے کے ملازمین کا کوئی بھرم ہے ہی نہیں جو قائم رہ سکے۔ البتہ چند ایک ایسے تیسے خودداری برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔حالات نے نچلے درجے کے اکثر ملازمین کوبھکاری سا بنا دیا ہے۔ جو بھیک نہیں مانگتے وہ آمدن میں اضافے کے لئے جائز ناجائز کرنے پر مجبور ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک بڑے سرکاری ہسپتال سے ”واہ“ پڑا۔” انتظامات“ دیکھ کر واہ واہ کر اٹھا۔ گیٹ پر سکیورٹی اداروں کی طرح انٹرنس پر بیرئیر لگے تھے کہ ٹینک کا گزرنا بھی ناممکن تھا۔ موجودہ حالات میں ایسی سیکورٹی مجبوری اور ضرورت ہے۔ بیریئر کو کراس کیا اور واپسی ہوئی تو پتا چلا ان کا سکیورٹی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ گاڑی والوں کو ٹوکن دینے اور واپسی پر 20 روپے وصولی کے لئے لگائے گئے ہیں۔ موٹر سائیکل کی پارکنگ فیس 10 روپے ہے۔ شہباز شریف کے گذشتہ دور کے اختتام تک پارکوں اور ہسپتالوں کی پارکنگ فیس ختم کردی گئی نگران سیٹھی ہسپتالوں میں پارکنگ فیس بحال فرما گئے۔اب شہباز شریف شاید یہ رقم انرجی بحران کے خاتمے پر صرف کریں گے ۔ہسپتال کی سکیورٹی کا یہ حال ہے کہ اسلحہ و گولہ بارود گاڑی میں تو کیا، کوئی گٹھڑی یا ٹوکری میں رکھ کر لے جائے تو بھی کسی کو اعتراض نہیں۔ ہسپتال کے اندر ایک اژدھام تھا۔ لگتا تھا آدھی قوم بیمار اور آدھی تیمار دار ہے۔ عملے کا موڈ خوشگوار کم ناگوار زیادہ تھا۔ شعبہ گائنی کے عملے کا کردار دور سے اور مریضوں کی ہوہا کار قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ معصوم فرشتوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ کسی کی جھولی میں خدا کی نعمت اور کسی کے دامن میں رحمت اتر رہی تھی۔ عملہ اس رحمت و نعمت کی ترسیل کاایک ذریعہ تھا۔ مریض اور لواحقین ان کے عمومی طرز عمل سے شاکی تھے ۔رش زیادہ تھا جس پر ڈاکٹر‘ نرسیں اور سٹاف کے دیگر لوگ جھنجھلا رہے تھے۔ مریضوں اور لواحقین کی طرف سے عملے سے تعاون کا بھی فقدان تھا۔ اب بچے بدلنے ، غائب اور اغوا ہونے کا نظام تو بہتر ہے لیکن عملہ کئی ”امراض“ میں مبتلا ہے۔بچے کی پیدائش پر لواحقین کو مبارکبادیں دے کران کی جیب پر نظر اور کوئی انکار کرے تو ہاتھ گریباں کی طرف آتا محسوس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اور نرسیں ایسے معاملات سے لاتعلق چھوٹا عملہ بہت آگے ہے ۔جناح کی طرح دیگر ہسپتالوں میں بھی کم وبیش ایسے ہی گل کھلتے ہیں۔پولیس کی کارکردگی اورکارناموں پر دو رائے نہیں ہیں۔ کورٹ کچہری میںجج کی موجودگی میں عملہ سائلوں سے وصولیاں کرتا ہے۔پٹواری تو زرداری پر بھی بھاری دکھائی دیتا ہے ۔ایف آئی اے، امیگریشن، کسٹم ،انکم ٹیکس،ریلوے، واپڈا، پاسپورٹ،تعلیم نیز کسی بھی سرکاری محکمے میں” گرجیں“ صارفین اور سائلین کا گوشت نوچنے سے گریز اور دریغ نہیں کرتیں۔نجی اداروں میں پبلک ڈیلنگ پر مامور ملازم بھی دہاڑی لگانے سے نہیں کتراتے ۔کچھ عرصہ نٹنگ کے کاروبار سے وابستگی کے دوران مشاہدے میں آیا کہ عموماً بڑی فیکٹریوں کے منیجراور سٹاف کے لوگ نٹنگ کر نیوالوں سے انڈر ہینڈ کمشن بٹورتے ہیں ۔نجی اور سرکاری اداروں میں تنخواہیں معقول ہوں تو جہاں ملازمین کے معاشی مسائل حل ہو جائیں وہیں کا فی حد تک رشوت کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے ۔ملک میں وسائل کی کمی ہے نہ قومی خزانہ خالی ہے۔ججوں فوج اور ڈاکٹروں کی تنخواہیں بڑھ سکتی ہیں تو دیگر اداروں کی کیوں نہیں؟ پی آئی اے کی طرح دیگر اداروں کے ملازمین کی مراعات کیوں نہیں ہو سکتیں؟۔پی آئی اے ، سٹیل مل اور ریلوے جیسے ادارے بڑی تنخواہوں کی وجہ سے نہیں چند بڑوں کی اربوں کھربوں کی لوٹ مار سے ڈوبتے ہیں۔کرپشن کنٹرول کر کے سرکاری اور نجی ادارے ترقی کی معراج پر پہنچ سکتے ہیں جوملازمین کو اچھا پیکج دینے کی پوزیشن میں ہونگے ۔ پھر ممکن ہے کہ سائلین اور صارفین کی جیبوں پر نظر رکھنے والوں کے پا س حق حلال کی کمائی سے عمانویل کی طرح گاڑی ہو۔


No comments:

Post a Comment