بھارتی انتخابات‘ پاکستان سے نفرت کی قیمت پر!
بھارت کی 15ویں
لوک سبھا اپنی مدت اگلے سال مئی میں پوری کر رہی ہے۔ 16ویں لوک سبھا(قومی
اسمبلی) کے الیکشن کرانے کیلئے ہماری طرح کوئی نگران حکومت نہیں بنے گی۔
مرکز میں یہی کانگریس کی حکومت رہے گی اور صوبوں میںجو بھی پارٹی اقتدار
میں ہے‘ انتخابات کرائے گی۔ یہ انتخابات موجودہ پارلیمان کی آئینی مدت کے
دوران مکمل ہو جائینگے۔ مرحلہ وار انتخابات کا آغاز اپریل میں ہو جاتا ہے۔
اس سے بہت عرصہ قبل سیاستدان انتخابی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں جو بتدریج
عروج پکڑتی چلی جاتی ہیں۔
پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں بھارت کے
ساتھ تعلقات کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ بھارت میںپاکستان کیساتھ تعلقات کسی
بھی پارٹی کی ہار جیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں 90ء کی دہائی
میں چار الیکشن انٹی بھٹو اور پرو بھٹو کی بنیاد پر لڑے گئے۔ بے نظیر بھٹو
تو ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جاں نشیں اور وارث تھیں ہی، نواز شریف نے
خود کو سب سے بڑا بھٹو مخالف ثابت کرکے دو مرتبہ میدان مارا۔میاں نواز شریف
اور بے نظیر بھٹو نے حالات سے مجبور ہو کر میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور
سیاسی بھائی بہن بنے تو لوگوں کے ذہن سے بھٹو کی محبت کا سحر اور دلوں سے
نفرت کا زہر نکل گیا۔ 2002ء اور 2008ء کے بعد 2013ء میں بھی انٹی بھٹو اور
پرو بھٹو عنصر کہیں نظر نہیں آیا ۔اب پارٹیوں کی کامیابی کا انحصار
کارکردگی اور سبز باغ دکھا کر عوام کو بیوقوف بنانے پر ہے۔ بھارت میں
انتخابات انٹی پاکستان اورصرف انٹی پاکستان کی بنیاد پر ہوتے چلے آرہے۔ جو
پارٹی بھی خود کو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ثابت کردیتی ہے وہ آسانی سے
انتخابی معرکہ مار لیتی ہے۔
بھارت کے 2009ء کے انتخابات سے قبل 26
نومبر 2008ء کو ممبئی حملوں کی صورت میں بربریت اور سفاکیت کا کھیل کھیلا
گیا۔ حملے کئی روز جاری رہے۔ پہلا فائر ہوتے ہی بھارتی سیاستدان اور میڈیا
پاکستان کیخلاف پھٹ پڑے، کوئی تحقیق نہ تفتیش۔ الزامات لگا نیوالوںکے منہ
سے کف اڑ رہی ۔ کانگریس اور بی جے پی نے اسے انتخابی ایشو بنا لیا۔ پاکستان
کے ساتھ جاری مذاکرات ڈرامہ بند کردیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو
نام نہادجامع مذاکرات کا دورہ ادھورا چھوڑ کرپاکستان لوٹنا پڑا۔ اس موقع پر
وزیراعظم گیلانی ذرا زیادہ ہی جذباتی ہوگئے ، ڈی جی، آئی ایس آئی کو دہلی
بھجوانے یا بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔ بھارت آئی ایس آئی پر ہی
اس بربریت کا الزام لگا رہا تھا۔ بالآخر اس ڈرامے کا پردہ گذشتہ دنوں سابق
بھارتی نائب سیکرٹری آر وی ایس مانی نے یہ انکشاف کر کے چاک کردیا ہے کہ
بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملے خود بھارت کی حکومت نے خود کرائے اور اس کا
الزام پاکستان پر لگا دیا۔ سابق نائب سیکرٹری آر وی ایس مانی نے عشرت
جہاں جعلی مقابلہ کیس میں عدالت میں جمع کرائے گئے‘ بیان میں کہا کہ سی بی
آئی اور ایس آئی ٹی کی تحقیقاتی ٹیم میں شامل ستیش ورما نے انہیں بتایا
کہ نئی دہلی میں پارلیمنٹ اور ممبئی کے دہشت گرد حملے طے شدہ تھے ۔
ایک
مرتبہ پھر بھارت میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ بھارتی سیاستدانوں کو
انتخابی مہم اور اپنی کامیابی کیلئے ایک اور ڈرامے کی ضرورت تھی جو اس نے 6
اگست کو لائن آف کنٹرول کے 6 میل اندر پونچھ سیکٹر میں رچا لیا۔ پاک فوج
پر الزام لگایا کہ اس نے 5 بھارتی فوجیوں کو گھات لگا کر قتل کر دیا۔ اس پر
بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کے منہ سے پاکستان پر الزامات لگاتے جھاگ بہہ
رہی تھی۔ بھارتی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع نے ایک بار تو اس واقعہ میں پاک
فوج ملوث ہونے کی تردید کی پھر میڈیا اور سیاستدانوں کی غضبناکی دیکھ کر
تردید کی تردید کر دی۔ اسکے ساتھ ہی بھارت میں پاکستان کیخلاف نفرت اور
غنڈہ گردی کی ایک لہر اٹھ کھڑی ہوئی۔ شدت پسندوں نے دہلی میں پاکستانی ہائی
کمیشن پر دھاوا بو ل دیا۔ امرتسر کے قریب عید سے قبل پاکستان آنیوالی
دوستی بس کو روک کر پاکستان کیخلاف زہر اگلا گیا اور سب سے بڑھ کر بھارتی
فوج نے سیالکوٹ اور کنٹرول لائن کے متعدد سیکٹرز پر فائرنگ اور گولہ باری
کی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔
بھارت میں
انتخابات اپریل میں ہونا ہیں۔ یہ سب کچھ اس میں اپنی جیت کو یقینی بنانے
کیلئے ہو رہا ہے۔ کانگریس‘ بی جے پی اور وہ پارٹیاں جو تین میں ہیں نہ تیرہ
میں پاکستان کیخلاف انکی زبانیں انگارے برسا رہی ہیں۔۔ لوک سبھا اور راجیہ
سبھا میں بھی نفرت کا الاؤ نظر آیا۔ انتخابات کی تکمیل تک پاکستان کیخلاف
زہر ناکی اور ڈرامہ بازی میں تیزی آتی چلی جائیگی۔
پاکستان کے سیکرٹری
خارجہ جلیل عباسی جیلانی کہتے ہیں کہ بعض قوتیں پاکستان بھارت وزرائے اعظم
ملاقات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ جیلانی صاحب قوم بتا دیں کہ وہ کونسی
قوتیں ہیں؟ اگلے ماہ نیو یارک میں دنیا کے تمام سربراہان اکٹھے ہونگے۔ وہاں
ہر کوئی دوسرے سے ہاتھ ملائے گا۔ نواز شریف اور منموہن بھی ہاتھ ملا لیتے
اور ایک دوسرے کی خیریت پوچھ لیتے ہیں تو اس سے پاکستان میں توکوئی قیامت
نہیں ٹوٹے گی البتہ بھارت میں کانگریس اور بی جے پی طوفان اُٹھا دیں گی جس
کا متحمل منموہن کا منحنی سا بدن نہیں ہو سکتا اس لئے اس ملاقات کے انجام
کے پیش نظر کوئی اہتمام نظر نہیں آتا۔
پاکستان کی طرف سے جامع مذاکرات
کی خواہش کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان بھارت مذاکرات منافقت اور جامع
مذاکرات مہا منافقت ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی اور ٹریک ٹو
سفارتکاری منافقت کے بچونگڑے اور ان سے سیرو سیاحت کرنے اور ذاتی مفادات
اٹھانے والے شتونگڑے ہیں۔ جب بھارت مقبوضہ کشمیر کو متنازع ہی قرار نہیں
دیتا۔ اسے اپنا اٹوٹ سمجھتا اور آئین میں ترمیم کرکے اسے اپنی ریاست ڈیکلر
کر لیا تو پھر اسکی طرف سے پاکستانی حکمرانوں کو مذاکرات کی چوسنی دینے کی
تو سمجھ آتی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی مذاکرات کیلئے بے قراری کیوں؟
اعتماد سازی کیلئے ضروری ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو متنازع تسلیم کرے اور
اٹوٹ انگ کی رٹ چھوڑے۔ کیا ہمارے حکمران بھارت کو آمادہ کر سکتے ہیں کہ
وہ کشمیر کو بھارتی ریاست قرار دینے کا سٹیٹس واپس لے لے؟
بھارتی
سیاستدانوں نے پاکستان سے دشمنی کو اپنی انتخابی کامیابی کی ضمانت سمجھ
رکھا ہے اور اس دشمنی کی بنیاد مسئلہ کشمیر ہے جو بھارت قیامت تک کم از کم
مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا۔
پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں بھارت کے ساتھ تعلقات کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ بھارت میںپاکستان کیساتھ تعلقات کسی بھی پارٹی کی ہار جیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں 90ء کی دہائی میں چار الیکشن انٹی بھٹو اور پرو بھٹو کی بنیاد پر لڑے گئے۔ بے نظیر بھٹو تو ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جاں نشیں اور وارث تھیں ہی، نواز شریف نے خود کو سب سے بڑا بھٹو مخالف ثابت کرکے دو مرتبہ میدان مارا۔میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے حالات سے مجبور ہو کر میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور سیاسی بھائی بہن بنے تو لوگوں کے ذہن سے بھٹو کی محبت کا سحر اور دلوں سے نفرت کا زہر نکل گیا۔ 2002ء اور 2008ء کے بعد 2013ء میں بھی انٹی بھٹو اور پرو بھٹو عنصر کہیں نظر نہیں آیا ۔اب پارٹیوں کی کامیابی کا انحصار کارکردگی اور سبز باغ دکھا کر عوام کو بیوقوف بنانے پر ہے۔ بھارت میں انتخابات انٹی پاکستان اورصرف انٹی پاکستان کی بنیاد پر ہوتے چلے آرہے۔ جو پارٹی بھی خود کو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ثابت کردیتی ہے وہ آسانی سے انتخابی معرکہ مار لیتی ہے۔
بھارت کے 2009ء کے انتخابات سے قبل 26 نومبر 2008ء کو ممبئی حملوں کی صورت میں بربریت اور سفاکیت کا کھیل کھیلا گیا۔ حملے کئی روز جاری رہے۔ پہلا فائر ہوتے ہی بھارتی سیاستدان اور میڈیا پاکستان کیخلاف پھٹ پڑے، کوئی تحقیق نہ تفتیش۔ الزامات لگا نیوالوںکے منہ سے کف اڑ رہی ۔ کانگریس اور بی جے پی نے اسے انتخابی ایشو بنا لیا۔ پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات ڈرامہ بند کردیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو نام نہادجامع مذاکرات کا دورہ ادھورا چھوڑ کرپاکستان لوٹنا پڑا۔ اس موقع پر وزیراعظم گیلانی ذرا زیادہ ہی جذباتی ہوگئے ، ڈی جی، آئی ایس آئی کو دہلی بھجوانے یا بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔ بھارت آئی ایس آئی پر ہی اس بربریت کا الزام لگا رہا تھا۔ بالآخر اس ڈرامے کا پردہ گذشتہ دنوں سابق بھارتی نائب سیکرٹری آر وی ایس مانی نے یہ انکشاف کر کے چاک کردیا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملے خود بھارت کی حکومت نے خود کرائے اور اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔ سابق نائب سیکرٹری آر وی ایس مانی نے عشرت جہاں جعلی مقابلہ کیس میں عدالت میں جمع کرائے گئے‘ بیان میں کہا کہ سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کی تحقیقاتی ٹیم میں شامل ستیش ورما نے انہیں بتایا کہ نئی دہلی میں پارلیمنٹ اور ممبئی کے دہشت گرد حملے طے شدہ تھے ۔
ایک مرتبہ پھر بھارت میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ بھارتی سیاستدانوں کو انتخابی مہم اور اپنی کامیابی کیلئے ایک اور ڈرامے کی ضرورت تھی جو اس نے 6 اگست کو لائن آف کنٹرول کے 6 میل اندر پونچھ سیکٹر میں رچا لیا۔ پاک فوج پر الزام لگایا کہ اس نے 5 بھارتی فوجیوں کو گھات لگا کر قتل کر دیا۔ اس پر بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کے منہ سے پاکستان پر الزامات لگاتے جھاگ بہہ رہی تھی۔ بھارتی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع نے ایک بار تو اس واقعہ میں پاک فوج ملوث ہونے کی تردید کی پھر میڈیا اور سیاستدانوں کی غضبناکی دیکھ کر تردید کی تردید کر دی۔ اسکے ساتھ ہی بھارت میں پاکستان کیخلاف نفرت اور غنڈہ گردی کی ایک لہر اٹھ کھڑی ہوئی۔ شدت پسندوں نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر دھاوا بو ل دیا۔ امرتسر کے قریب عید سے قبل پاکستان آنیوالی دوستی بس کو روک کر پاکستان کیخلاف زہر اگلا گیا اور سب سے بڑھ کر بھارتی فوج نے سیالکوٹ اور کنٹرول لائن کے متعدد سیکٹرز پر فائرنگ اور گولہ باری کی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔
بھارت میں انتخابات اپریل میں ہونا ہیں۔ یہ سب کچھ اس میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کیلئے ہو رہا ہے۔ کانگریس‘ بی جے پی اور وہ پارٹیاں جو تین میں ہیں نہ تیرہ میں پاکستان کیخلاف انکی زبانیں انگارے برسا رہی ہیں۔۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی نفرت کا الاؤ نظر آیا۔ انتخابات کی تکمیل تک پاکستان کیخلاف زہر ناکی اور ڈرامہ بازی میں تیزی آتی چلی جائیگی۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباسی جیلانی کہتے ہیں کہ بعض قوتیں پاکستان بھارت وزرائے اعظم ملاقات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ جیلانی صاحب قوم بتا دیں کہ وہ کونسی قوتیں ہیں؟ اگلے ماہ نیو یارک میں دنیا کے تمام سربراہان اکٹھے ہونگے۔ وہاں ہر کوئی دوسرے سے ہاتھ ملائے گا۔ نواز شریف اور منموہن بھی ہاتھ ملا لیتے اور ایک دوسرے کی خیریت پوچھ لیتے ہیں تو اس سے پاکستان میں توکوئی قیامت نہیں ٹوٹے گی البتہ بھارت میں کانگریس اور بی جے پی طوفان اُٹھا دیں گی جس کا متحمل منموہن کا منحنی سا بدن نہیں ہو سکتا اس لئے اس ملاقات کے انجام کے پیش نظر کوئی اہتمام نظر نہیں آتا۔
پاکستان کی طرف سے جامع مذاکرات کی خواہش کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان بھارت مذاکرات منافقت اور جامع مذاکرات مہا منافقت ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی اور ٹریک ٹو سفارتکاری منافقت کے بچونگڑے اور ان سے سیرو سیاحت کرنے اور ذاتی مفادات اٹھانے والے شتونگڑے ہیں۔ جب بھارت مقبوضہ کشمیر کو متنازع ہی قرار نہیں دیتا۔ اسے اپنا اٹوٹ سمجھتا اور آئین میں ترمیم کرکے اسے اپنی ریاست ڈیکلر کر لیا تو پھر اسکی طرف سے پاکستانی حکمرانوں کو مذاکرات کی چوسنی دینے کی تو سمجھ آتی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی مذاکرات کیلئے بے قراری کیوں؟ اعتماد سازی کیلئے ضروری ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو متنازع تسلیم کرے اور اٹوٹ انگ کی رٹ چھوڑے۔ کیا ہمارے حکمران بھارت کو آمادہ کر سکتے ہیں کہ وہ کشمیر کو بھارتی ریاست قرار دینے کا سٹیٹس واپس لے لے؟
بھارتی سیاستدانوں نے پاکستان سے دشمنی کو اپنی انتخابی کامیابی کی ضمانت سمجھ رکھا ہے اور اس دشمنی کی بنیاد مسئلہ کشمیر ہے جو بھارت قیامت تک کم از کم مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا۔
No comments:
Post a Comment