About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, May 26, 2013

بچت۔۔۔حلف اور شیروانی

بچت۔۔۔حلف اور شیروانی

خواجہ ناظم الدین اور محمد خان جونیجو کے ادوار وزارت عظمیٰ کے درمیان 33 سال کا فاصلہہے۔ اس دوران بہت کچھ بدلا۔ پاکستان کا جغرافیہ بدلا۔پاکستان کے حالات بدلے، دارالحکومت بدلا وزیراعظم ہاﺅس کے چلن بدلے اور ہر نئے حکمران کے آنے سے اقتدار کے ایوانوں کا کلچر بھی بدلتا رہا۔ توحید کا نعرہ اور تکبیر کی صدائیں بلند ضرور ہوئیں تاہم طاقت کے ایوان زیادہ عرصہ مے خانے بنے رہے۔ خواجہ ناظم الدین اور محمد خان جونیجو کے ادوار میںسادگی قدر مشترک تھی۔ خواجہ ناظم الدین دوپہر کا کھانا اپنے گھر سے ٹفن میں دفتر لے جایا کرتے تھے۔ محمد خان جونیجو کے 1986ءمیں وزیراعظم بنے تو انہوں نے وزیر اعظم ہاﺅس میں پرتکلف کھانوں پر پابندی لگا دی۔ جونیجو صاحب نے دال روٹی کا رواج ڈالا۔ عبدالقادر حسن کو وزیراعظم کی تقریر لکھنے کیلئے جب کبھی پرائم منسٹر ہاﺅس جاناہوتا توملازمین کے چہر ے کھل اٹھتے کہ آج پر وزیر اعظم ہاﺅس میں گوشت پکے گا۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اب بھی گھر سے ٹفن میں کھانا اپنے ساتھ دفتر لے جاتے ہیں۔
 وزیراعظم ہاﺅس میں اندھا دھند اخراجات کی بدعت محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف میں سے ایک نے ڈالی دوسرے نے اس میں شدت پیدا کی۔ انکے بعد آنے والے وزرائے اعظم جمالی، شوکت عزیز اور گیلانی و راجہ نے اپنے ایمان کا حصہ بنا کر اسے برقرار رکھا۔ آسائشوں اور پکوانوںکے حوالے سے وزیراعظم ہاﺅس فائیو سٹار ہوٹل کا روپ دھار چکا۔ آج وزیر اعظم ہاﺅس کے روزانہ اخراجات 20لاکھ روپے ہیں۔ایوانِ صدر کے دولاکھ کم۔یوں تو بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے اپنے اپنے ادوار میں سادگی مہم کا بڑے جوش سے آغاز کیا لیکن یہ ڈر امہ کہ ایک آدھ قسط سے زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ محمد خان جونیجو نے بڑی گاڑیوں کا استعما ل بشمول جنرل ضیاءالحق سب کیلئے ممنوع قرار دیا۔ 
میاں محمد نواز شریف کو جن حالات میں اقتدار مل رہا ہے وہ مثالی اور قابل رشک نہیں ہیں۔ جانے والوں نے گتھی ایسی الجھائی ہے کہ سلجھانے کیلئے الجھانے والوں سے زیادہ دانش اور محنت کی متقاضی ہے۔ 
 غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
 اہل دانش نے بہت سوچ سے الجھائی ہے
میاں نواز شریف کو مسائل زدہ پاکستان ضرور ملا ہے تاہم اس طرح کا اجڑا ہوا نہیں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو ملا تھا۔ پاکستان کو اجاڑنے میں جتنا بھٹو صاحب کا نام آتا ہے اتنا ہی میاں صاحب کا گزشتہ 5 سال میں اسے مسائل زدہ کرنے میں بھی آتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مرکز میں حکومت میں شامل ہونا، پنجاب میں ساڑھے تین سال پیپلز پارٹی کو اپنے ساتھ رکھنا، فرینڈلی اپوزیشن کا مبینہ کردار، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ پر ایسی بیان بازی جیسی سابق حکومت ڈرون حملوں پر کرتی رہی۔ خواجہ آصف تقرریوں اور تبادلوں کے خلاف سپریم کورٹ گئے۔ نگرانوں نے بجلی مہنگی کی۔ جی ایس ٹی میں اضافہ کیا۔ نگران وزیر پانی و بجلی محمد مصدق کی لوڈشیڈنگ کم کرنے کی اچھل کود 21 مئی کو رائے ونڈ یاترا کے بعد ختم ہو گئی۔وہ 24 مئی کو شہباز شریف سے بھی ملے ۔ایسی ملاقاتیں شکوک پیدا کرتی ہیں کہ لود شیڈنگ کا عذاب کسی اشارے پر مسلط کیا جارہا ہے ۔
 نگران حکمران اور بیوروکریٹس متوقع حکمرانوں کے ساتھ اپنی لائن سیدھی کرنےکیلئے کوشاں ہیں۔ کوئی سرآئینہ اپنی وفاداری کا اظہار کر رہا ہے توپسِ آئینہ۔ یہ رویے ہمارے سیاسی کلچر کااٹوٹ حصہ بن چکے ہیں۔ یہ وبا ہر طبقے اور حلقے میں پھیل چکی ہے۔ جن کے قلم کی نوک پہلے ہی قصیدے اگلتی تھی جیت کے نتائج کے بعد انکے انگ انگ میں بجلیاں کوند رہی ہیں۔ قوال اور رقاصہ نوٹ نچھاور ہونے پر جس طرح بے خودہوتے ہیں۔ یہی حال وفا کے پتلے قلمکاروں کا ہے جو دام کھرے کرتے رہے اب ہل من مزید کی بے پایاں تمناﺅں کے محلات تعمیر کئے ہوئے ہیں ۔ان کیلئے ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی منزل کا رخ متعین کرنےوالا روائتی طبقہ خطرہ بن رہا ہے۔یہ لوگ کل تک شریف زادوں کی شخصیت ،پالیسیوںاور منشورپر تنقید کرتے نظر آتے تھے ‘انکی مقبولیت کو اوجِ ثریا پر دیکھ کرہاتھوں میں پکڑی کنکریوں پر عظیم لیڈر،مدبر سیاستدان ،لاجواب قیادت اورقائدثانی کا ورد جاری ہوگیا۔ یہ فنکارخود کو غلامی کا خوگر اورحکمرانوں کو سلطانی کا پیکر ثابت کرنے کےلئے قلم کے جوہر نثر ونظم اور قصیدہ وہجو کی صورت میں دکھا رہے ہیں۔ گو میاں صاحب کو مسائل کے بھنور میں پھنسا پاکستان ملا ہے لیکن آج بھی وسائل مسائل سے کہیں زیادہ ہیں۔ آپ کے پاس متفقہ اور ترامیم سے ری فائن شدہ آئین اور تمام ادارے موجود ہیں۔ خلوص اور نیک نیتی شامل حال رہی تو میاں صاحب یقینا ملک کو بحرانوں کی دلدل سے نکال لیں گے۔ ویسے ان کو اپنی مدت پوری کرنے کی عادت نہیں یا عرصہ پورا کرنا قسمت میں نہیں تھا۔ بطور وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم وہ کوئی بھی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔ نہ جانے دو سال بعد وہ حکمرانی کی یکسانیت کا شکار ہوجاتے ہیںیا حریفوں کو وار کرنے کا موقع مل جاتا ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ ان کوآئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملتا تو آخری دو، دو سال میں ایسے ہی کام کرتے جیسے شہباز شریف نے کرکے ن لیگ کی کامیابی کی راہ ہموار کی ہے۔اب یہ اہتمام خالصتاً انکی صوابدید پرہے۔ اب میاں صاحب اپنے پہلے دو سال کو آخری سمجھ کر جانفشانی سے کام کریں تو اگلے تین سال انکی مزید پانچ سال کی کامیابی کی راہ ہموار کر لیں گے۔سادگی کو شعار بنایا تو کامیابیوں کے در کھلتے چلے جائینگے۔ 
وزیراعظم ہاﺅس میں سادگی تو ایک علامت ہے۔ یہ ہر شعبہ زندگی میں نظر آئے تو سادگی کہلائے گی۔ قوم بے جااندرونی اور بیرونی دوروں سے اجتناب کی امید رکھتی ہے جن پر سالانہ چھ ارب روپے لٹائے جاتے ہیں۔ لازم نہیں کہ وہ ویک اینڈ جاتی عمرہ تشریف لے جائیں۔عمرہ پر جی حضوریوں کی فوج کی کیا ضرورت ،کمرشل فلائٹ میں سرور پیلس کے ہم نشیں خاندان کے افراد کو ساتھ لے جاکر پروردگار کا شکر ادا کریں۔
 مسلم لیگ ن کے تمام امیدواروں نے کھل کر انتخابی مہم چلائی۔ ان میں سے وزیر بننے والے اپنی ٹرانسپورٹ استعمال کریں تو قوم پر احسان ہوگا۔ بلٹ پروف گاڑی کلچربھی قومی دولت کا ضیاع ہے۔ کوئی بحران لاینحل نہیں۔ ٹیکس چوری، قرضہ خوری کے راستے بند کر دئیے جائیں تو 5سو ارب روپے کے گردشی قرضے برسات میںگرد کی طرح معدوم ہو جائیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہر وزیر خواجہ ناظم الدین اور احمدی نژاد کی طرح اپنا اور اپنے ساتھیوں کا کھانا گھرسے لے کر آئے۔
 میاں نواز شریف نے فرمایا تھا کہ وہ عوام میں سے ہیں عوام میں ہی رہیں گے۔ عوام لوڈشیڈنگ کے عذاب اور گرمی کے عتاب سے نڈھال ہیں۔ ایسے حالات اور موسم میں انہوں نے حلف برداری کی تقریب کیلئے شیروانی سلوائی ہے ۔قمیض بردوش بنیان پوش لوگ میاں نواز شریف کو شیروانی میں دیکھ کر جھرجھری ضرور لیں گے حالانکہ میاں صاحب کو شاید شیروانی میں بھی ٹھنڈ لگ رہی ہوگی۔وہ لوگ جو میاں صاحب کے کان اور آنکھیں ہیں، انہیں گرمی کی حدت اور شدت یاد دلائیں۔ میاں صاحب حلف کے روز اگر عوامی لباس شلوار قمیض اور واسکٹ کے ساتھ زیب تن فرما لیںتو عوام کو اچھا لگے گا اور انہیں احساس ہوگا کہ میاں صاحب ان جیسےہیں۔شیروانی سردیوں میں قوم سے خطاب یا تقریبات میں پہنی جا سکتی ہے۔

Tuesday, May 21, 2013

مسلم لیگ ہاؤس کی ملکیت



مسلم لیگ ہاؤس کی ملکیت - فضل حسین اعوان

اخبار کے صفحہ اول پر نمایاں تصویر پر نظر پڑی تو لگا کہ طالبان نے دلی کے لال قلعہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ تصور میں سیاہ اورگھنی داڑھی والا نوجوان قلعے کی چھت پر دونوں ہاتھوں میں بندوق تھامے فاتحانہ انداز میں الرٹ کھڑا ہے۔ کیپشن اور خبر پڑھی تو پتہ چلا کہ ہم خیال گروپ کی طرف سے رات کو لاہور میں مسلم لیگ ہا¶س پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ مشرف کے نوازشریف حکومت پر قبضے جیسا ہی مسلم لیگ ہا¶س یہ شب خون تھا۔ اس قبضے کے موقع پر ہم خیال گروپ جتھہ بندی کے عالم میں تھا جس نے بعد میں مسلم لیگ قائداعظم کا نام اختیار کیا۔ مسلم لیگ ہا¶س مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی سال ڈیڑھ سال نواز لیگ کی دسترس میں رہا۔ میرا اس عمارت میں دو مرتبہ جانا ہوا۔ ایک بار خواجہ سعد رفیق کے انٹرویو کیلئے، قبضہ سے چند ماہ قبل اور دوسری بار پرویز الٰہی کے ہم خیال گروپ کا صوبائی صدر منتخب ہونے کے موقع پر۔ہم خیال گروپ کی تشکیل کی پلاننگ زیادہ تر ہمایوں اختر کے گھر ہوئی۔ اس وقت اس گروپ کے سرخیل میاں اظہر تھے۔ ان کو ہم خیال گروپ کا صدر چنا گیا لیکن قبل ازیں چودھری پرویز الٰہی کا بطور صوبائی صدر انتخاب کر لیا گیا تھا۔ اس منطق کی وضاحت اندر کے لوگ ہی کر سکتے ہیں کہ مرکزی صدر سے قبل ایک صوبے کے صدر کے انتخاب کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
 مسلم لیگ ہا¶س پر قبضے کی خبرمیں بتایا گیا تھا کہ بے جگری اور دلیری سے یہ اقدام میاں اظہر اور چودھری برادران کے جانثاروں نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے کیا تھا۔ چھت پر میاں اظہر اور احاطے میں چودھریوں کے مجاہد سربکف تھے۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے پاکستان میں موجود رہنما اور کارکن مارشل لاءکے خوف سے کانپتے تھے۔ گھروں سے ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے نکلتے۔ ایک ہی دھاڑ اور بوٹ کی آواز پر ن لیگ سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے۔ میاں نواز شریف کا فرمان لیگیوں کی جرا¿ت اور جلال کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہے”آپ کہتے تھے قدم بڑھا¶ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں ،میں نے قدم بڑھایا تو پیچھے کوئی بھی نہیں تھا“ اُس وقت کے ہم خیال گروپ نے مجاہدوں اور گول بارود کا خوہ مخواہ اہتمام کیا۔ یہی کام اس وقت بوڑھی بیوہ کے ہاتھ میں جھاڑو تھما کر بھی کیا جا سکتا تھا۔ جھاڑو بردار خاتون کا قبضہ بھی اتنا ہی موثر اور مضبوط ہوتا جتنا درجنوں مسلح غنڈوں نے کیا تھا۔ ایسی ہی یلغار اسلام آباد پنڈی کے مسلم لیگ ہا¶س پر بھی کی گئی۔ دو روز قبل خواجہ سعد رفیق نے پی ٹی آئی کے دھرنوں کو شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ” ہم اس سے بڑے دھرنے دے سکتے ہیں“۔ بعض لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سیاست میں جوڑ توڑ کے بڑے ماہر ہیں ۔جو ڑ توڑطاقت کے بل بوتے پر ہوتا ہے۔ طاقت کی موج اقتدار کے دریا کے بل بوتے پر ہی لہراتی ہے اور بیرون دریا کچھ بھی موج مر مُک جاتی ہے۔ خواجہ صاحب بھی دھرنے اور مظاہرے اقتدار میں رہ کر ہی دے سکتے ہیں اقتدار کے بغیر حالت وہی جوہوتی ہے جو 12 اکتوبر99ءکے بعد تھی۔ 
2002ءکے انتخابات میں مسلم لیگ قائداعظم نے گرتے پڑتے حکومت بنا لی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتی گئی۔ حتیٰ کہ ملت پارٹی اور پیپلز پارٹی کے وفاداروں کا پیٹریاٹ گروپ بھی اس لیگ کا حصہ بن گیا۔ اس دوران مسروقہ مسلم لیگ ہا¶سز کی روشنیاں جلتی اور رونقیں بحال رہیں۔ 2008ءکے انتخابات میں مسلم لیگ (ق)کا زوال اور مسلم لیگ (ن) کا عروج شروع ہوا۔ ق لیگ کی بلوچستان اسمبلی میں واضح برتری تھی۔ ق لیگ میں جس طرح لوگ گھیر گھار کر لائے گئے تھے وہ اسی طرح بکھر کر اچھے کی تلاش میں نئے ٹھکانوں کی طرف چلے گئے۔ بلوچستان میں ق لیگ حکومت سازی سے قبل ہی بکھر گئی۔ سر سے چونکہ بوٹوں کا سایہ ہٹ چکا تھا اس لئے پنجاب میں ق لیگ کے پچاس کے قریب ارکان نے مسلم لیگ (ن) کے ثمر بار شجر کی ٹہنی پر آشیانہ بنا لیا۔ مسلم لیگ (ن)‘ (ق) لیگ کے پرندوں کے پروں سے پانچ سال اڑان بھرتی رہی۔البتہ طاقت کے باوجودبھی نواز لیگ نے مسلم لیگ ہا¶س کا قبضہ چھڑانے کی کوشش نہیں کی حالانکہ یہ کام بڑ ی آسانی سے ہو سکتا تھا۔پرویز الٰہی نے مسلم لیگ ہاوئسز کی شاہانہ طرز پر تعمیر وزیبائش کروا کے انہیں پُر شکوہ بنا دیا لیکن 2013ءکے الیکشن سے قبل مسلم لیگ ہا¶س ویرانیوں کے منظر پیش کرتے رہے۔ انتخابی مہم کے دوران بھی انکی روشنیاں گل اور رونقیں ماند رہیں۔ ق لیگ قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ پورے ملک سے قومی اسمبلی میں صرف دو تین سیٹیں برقرار رکھ پائی۔ اسکے پاس شاید مسلم لیگ ہا¶س میں بیٹھنے کیلئے عہدیدار ہی دستیاب نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ہا¶س یقیناً مسلم لیگ ہی کی ملکیت ہے۔ کس مسلم لیگ کی؟ یہاںتو درجنوں مسلم لیگیں ہیں۔ مسلم لیگی متحد تو نہیں ہو سکتے۔ ایک اصول تو طے کر لیں کہ مسلم لیگ ہا¶س کو کون استعمال کرے؟ اصولی طور پر اسکے پاس اسکی چابی ہونی چاہئے جو واضح اکثریت میں ہو۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت یا کل حاصل کردہ ووٹوں کو معیار بنا لیں۔ آج اس معیار پر نواز لیگ پورا اترتی ہے۔ کل یہی پوزیشن شجاعت لیگ بھی حاصل کر سکتی ہے ۔ اخلاق اور اصول کا تقاضا ہے کہ مسلم لیگ ہا¶س کا وقار اور رونقیں بحال کرنے کیلئے یہ اکثریت حاصل کروالی مسلم لیگ کے پاس ہو۔



 Nawaiwaqt  |   Published : 21-May-2013

Saturday, May 18, 2013

میرٹ‘ ہتھکڑی اور آنسو



میرٹ‘ ہتھکڑی اور آنسو



”جہاز میں بٹھا کر افسر نے جوان کوحکم دیا کہ وہ مجھے ہتھ کڑی لگائے تو میں نے دونوں ہاتھ آگے کردئیے ۔جوان ہتھ کڑی لگانے کے لئے جھکاتو میرے ہاتھ کی پشت پر پانی کا ایک قطرہ گرا۔اس کے ساتھ ہی وہ جوان سیدھا کھڑا ہوگیا۔اس کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں۔ میرے ہاتھ پر گرنے والا قطرہ اس کا ایک آنسو تھا۔جوان ہتھکڑی لگانے میں تذبذب کا شکار تھا ۔ میںنے اسے سختی سے اپنا فرض ادا کرنے کو کہالیکن وہ ہتھ کڑی اپنے ساتھی کے حوالے کر کے پیچھے ہٹ گیا۔اس کے بعد ہتھکڑی لگے میرے ہاتھ جہاز کی سیٹ کے ساتھ باندھ دیئے گئے اور جہازنے منزل کی طرف اُڑان بھر لی ۔منزل کراچی تھی۔ مجھے اٹک جیل سے بکتر بند گاڑی میںکامرہ فوجی اڈے پر لا کے فوکر میں بٹھایا گیا جو پانچ گھنٹے میں کراچی پہنچا ۔اس دوران واش روم جانے کی بھی اجازت نہ دی گئی“میاں نواز شریف بڑی معصومیت اور دکھ بھرے لہجے میں اپنی داستان ِ غم و ا لم بیان کرتے ہیں کہ سننے والے کادل پسیج اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
میاں محمد نواز شریف نوّے میں اقتدار میں لائے گئے اور 1997ءمیں زبردست عوامی حمایت سے اقتدار میں آئے۔ان کے دونوں ادوار تدبر سے زیادہ تکبر اور تحمل سے زیادہ انتقام و جذبات سے معمور تھے ۔مقابل محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں۔دونوں اپنے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کو بدترین انتقام کا نشانہ بناتے رہے۔بجا طور پر یہ نفرتوں کے دس گیارہ سال تھے۔بے نظیر بھٹو کی سیاست اور شہرت کو ان کے شوہر نامدار کی کرپشن نے عوجِ ثریا سے زمیں پر دے مارا۔محترمہ، محترم کے ارادوں اور وارداتوں سے بے خبر نہیں تھیں۔جوڑے پر کرپشن کے الزامات لگا کر ان کے اپنے صدر فاروق خان لغاری نے حکومت ختم کردی۔3فروری 97 ءکے انتخابات میں میاں نواز شریف بھاری اکثریت سے جیتے۔ایسی اکثریت کسی کو بھی کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ میاں صاحب بھٹو صاحب سے بھی زیادہ مقبول ثابت ہوئے تاہم وہ جلد ہی اپنی مقبولیت کے بوجھ تلے دب گئے۔حریف کوئی دیانت دار تو نہیںتھے مگر ان کے خلاف کارروا ئی جس دیانت کی متقاضی تھی وہ بھی مفقود تھی۔سیاسی حریفوں کے ساتھ محاذ آرائی تو تھی ہی فوج اور عدلیہ کے سامنے بھی خم ٹھونک کر حکومت کھڑی ہوگئی۔سپریم کورٹ پر باقائدہ حملہ کیا گیا۔جرنیلوں کے ساتھ رویہ تضحیک آمیز تھا۔جنرل جہانگیر کرامت کی معمولی بیان پر چھٹی کرادی گئی۔نئی تعیناتی میرٹ سے ہٹ کر کی گئی۔مشرف کاپیشہ ورانہ کارکردگی کے باعث تو کورٹ مارشل ہوجانا چاہیے تھا ۔نواز شریف نے انہیں آرمی چیف لگا دیا۔یہی حال دوسری تعیناتیوں کا تھا۔بے نظیر کو سزا سنانے کے لئے ججوں کومشوروں کی ٹیپ سامنے آئی۔جس پر جسٹس ملک قیوم اور راشد عزیز کو استعفیٰ دینا پڑا۔اس دور کا سرکاری افسروں کو ہتھکڑیاں لگانے کو واقعہ بڑا مشہور ہوا۔
فیصل آباد میں میاں برادران کے عزیزوں کی چودھراہٹ ہے جو سیاست میں بھی ایک مقام رکھتے ہیں۔ فیصل آباد جیسے شہر میں ایک نہیں کئی چودھری ہیں۔ ہر ایک کو دوسرے کی چودھراہٹ چبھتی ہے۔ ایسے شہر کی بیوروکریسی کو تو گویا تنی ہوئی رسی پر چلنا پڑتا ہے۔ شریف زادوں کے عزیزوں کی افسران سے شکایات کیوں نہ ہوتیں۔ وزیراعظم کے رشتہ داروں کی جو نہ سنے وہ افسر بھی رہے، کہاں لکھا ہے۔
 بڑے چوہدری کا فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کچھ افسروں کے ساتھ تنازعہ تھا۔انہوںنے افسروں کی وزیراعظم سے شکایت کر دی۔ میاں نواز شریف مارچ 1997ءکو فیصل آباد گئے۔ ایف ڈی اے کے افسروں کو کھلی کچہری میں بلوا لیا۔ اشفاق بھٹی ‘ عبدالحلیم اور طاہر رضا بخاری کو ان کو سنے بغیر ہتھکڑی لگانے کا حکم دے دیا۔یہ لوگ پانچ ماہ جیل میں رہے ۔
اپنی کارکردگی کے باعث دوتہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے والی مسلم لیگ کی مقبولیت محض اڑھائی سال میں بے نظیر کی حکومت کی طرح عوجِ ثریا سے زمین کی پستی پر آگئی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مشرف نے جمہوری حکومت پر شب خون مارا تو پورے پاکستان میں نواز لیگ کی صفوں میں مکمل سکوت تھا ۔ کسی کی آنکھ سے آنسو تو کیا ٹپکتا کوئی احتجاج اور مظاہرہ بھی نہیں ہوا۔2002ءکے انتخابات میں مسلم لیگ ن ،ق لیگ کے پیرہن میں ملبوس پائی گئی اور یہی اکثریتی پارٹی ٹھہری۔2013ءکے انتخابات گو رفتہ رفتہ دھاندلی کا شاہکار ثابت ہورہے ہیں لیکن ان میں جھرلو نہیں چلا۔عوام نے مسلم ن کو مینڈیٹ دیا ۔یہ مقابلہ کرپشن اور کارکردگی کے درمیان تھا۔مرکز والوں کی واضح ،میگا اور اعلیٰ سطح کی کرپشن پر ن لیگ کی پنجاب میں معمولی کارکردگی بھاری پڑگئی۔
مسلم لیگ اب اقتدار کی دہلیز پر ہے۔اسے کسی پارٹی کی حمایت کی ضرورت ہے نہ وہ اقتدار میں آنے کے کسی کی احسان مند ہے سوائے ان لوگوں نے جنہوں نے ووٹ دیئے۔اقتدار کا سرچشمہ یقیناً عوام ہی ہیں اور یہ سرچشمہ ووٹ دینے کے بعد بے سرو چشم ہو جاتا ہے پھر موقع ملنے پر دھتکارنے والوں سے انتقام بھی لیتا ہے۔ زرداری صاحب اپنی اہلیہ مرحومہ کے قول کا درست حوالہ دیتے ہیں کہ ”جمہوریت بہترین انتقام ہے۔“ مئی 2013 کے انتخابات میں عوام نے ثابت کر دیا کہ جمہوریت واقعی بہترین انتقام ہے جس کا نشانہ پیپلزپارٹی بنی۔ میاں نوازشریف نے بہت گرم و سرد دیکھ لیا۔ جرنیلوں کے انتقام کا نشانہ بنے، جیل گئے، جلاوطنی بھگتی اور جان دا ¶ پر لگی نظر آئی۔ شاید اس سب سے سبق سیکھ لیا ہو۔ البتہ ان کے قریبی لوگ کہتے ہیں کہ لیگی قائدین کی گردن میں پہلے سریا تھا اب گاڈر آ گیا ہے۔ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں انہیں اپنے مسائل کے حل سے سروکار ہے وہ میرٹ کی کارفرمائی کے متمنی ہیں۔باری کا دور گزر گیا۔ 11 مئی کو ہر گھر سے بھٹو نکلا۔ بلے اور شیر پر ٹھپہ لگایا اور بھٹو کو دل سے بھی نکال کر گھر واپس آ گیا۔ اس عمل اور مکافاتِ عمل کا پی ٹی آئی کی اُٹھان کے بعد کوئی بھی شکار ہو سکتا ہے۔
نواز لیگ کی قیادت کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ ہر اقدام سے پہلے کئی بار سوچنا ہوگا۔ من موہن سنگھ کو دعوت بلا سوچے سمجھے دے دی گئی۔ بھارت کے حوالے سے مسلم لیگی ورکر اور ووٹر میاں صاحب کی سوچ سے متفق نہیں ۔ اس حوالے سے ”سیفما“ سے نہ پوچھیں اپنے ایم این ایز، ایم پی ایز کی رائے لیں۔ کاروباری ذہن سے نہیں نظریاتی ذہن سے سوچیں۔ میرٹ کو اصول بنائے رکھا تو عوام انعام دیں گے، انتقام نہیں لیں گے۔ مشاورت کامیابیوں کا زینہ ہے جو پسندیدہ عمل نہیں رہا۔ چودھری نثار کے سوا بھی پارٹی میں زرخیز دماغ موجود ہیں۔ میرٹ سے ہٹ کر تعیناتی بھٹو کو پھانسی کے پھندے اور میاں صاحب کو موت کی دہلیز پر لے گئی۔ میرٹ کا خون کر کے چپڑاسی سے چیف سیکرٹری تک جس کا بھی حق مارا جاتا ہے اس کی آنکھ سے آنسو ہی نہیں گرتا بلکہ دل کٹتا، خون ٹپکتا اور آہ نکلتی ہے جو عرش تک جاتی ہے ۔ پھر مکافاتِ عمل، جاہ سے جیل اور جلاوطنی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ آرمی چیف، چیف جسٹس اور جوائنٹ چیفس کے سربراہ کی تقرری اسی سال میاں صاحب نے کرنی ہے ۔ کابینہ تشکیل دینی اور کئی اداروں کے سربراہوں کا تقرری ہونا ہے۔ میرٹ پروفیشنل ازم اور دیانت معیارر ہے تو کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔ سفیروں کو بدلنے کی ضرورت نہیں جو سرکشی نہیں کرتا وہ سفیر رہے۔ اگر سفیر بدلنے ہی ہیں تو متعلقہ اداروں اور شعبوں سے لیں۔ اگر ان سروسز میں موجود سارے لوگ مر جائیں تو بھی میرٹ کا تقاضا ہے کہ”میراثی کا پُتر“ اس عہدے پر نہ آئے۔ ضروری نہیں کہ وہی و زیر بنانے ہیں جو مالش کرتے اور جوتیاں اٹھاتے ہیں۔ منتخب ہونے والوں میں اہل ترین لوگوں کو تلاش کریں۔


Friday, May 17, 2013

انقلاب کی بنیاد



انقلاب کی بنیاد


انتخابات کے دوسرے روز دھاندلی کے شور کا بگولہ اُٹھا جودن بدن طوفان بنتا جا رہا ہے۔ چند روز گَرد اُڑنے کے بعدغبار چھٹ جائیگا۔ دھاندلی کا الزام ہر پارٹی لگا رہی ہے، جُھرلو کی صدا کسی طرف سے نہیں اُٹھی۔ عالمی ادارے اور مبصرین اپنے مشاہدوں کے مطابق شفافیت اور غیر شفافیت کی رپورٹیں دے رہے ہیں۔ ہم بلا وجہ ان کا حوالہ دیتے ہیں‘یہ رپورٹیں پاکستانیوں کیلئے نہیں غیر ملکیوں کیلئے ہیں، ہم تو الیکشن کا حصہ ہیں۔ ہم پاکستانیوں سے زیادہ کسی کو کیا معلوم کہ کہاں کیا ہُوا ہے۔ ہم اپنے سیاسی کلچر کو خوب جانتے ہیں۔ ہر پارٹی دھاندلی کا اپنی طرز کا الزام لگاتی اور اُسی کے مطابق حل چاہتی ہے۔
 1993ءکی طرح پورا انتخابی عمل فوج کی براہ راست نگرانی میں ہوتا تو کہیں سے کوئی شکایت نہ ملتی اور یقیناً معمولی رد و بدل کے ساتھ نتائج وہی ہوتے جو سامنے آ چکے ہیں۔ الیکشن کمشن نے 14 ٹربیونل تشکیل دے دئیے ہیں۔ وہ متاثرین کی تشفی نہ کر سکے تو سپریم کورٹ یقیناً تسلی کرا دے گی۔ ہر پارٹی کی ثبوت کے تناظر میں شکایت دور ہو گئی تو بھی کسی پارٹی کے مینڈیٹ میں غیر معمولی تبدیلی نہیں آنے کی امید تو نہیں تاہم شکایت کنندہ مطمئن ضرور ہو جائیگا۔ جس قسم کے دھاندلی کے الزامات سامنے آئے ان کو بے ضابطگی کہا جائے تو بہتر ہے۔ مجموعی طور پر بے ضابطگیوں میں کسی ایک پارٹی کو ملوث قرار نہیں دیا گیا۔ ایسے الزامات کے باوجود بھی سیاسی پارٹیوں میں برداشت، تحمل اور رواداری کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی شکست تسلیم کی اور زرداری صاحب نے سب سے بڑی پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کو مبارکباد دی۔ نواز شریف عیادت کیلئے عمران خان سے ملے، دونوں نے ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم اور مبارکبادوں کا تبادلہ کیا۔ اس ملاقات سے نفرتوں کا سفر محبتوں میں بدلتا دکھائی دیتاہے۔ سیاسی اور نظریاتی اختلاف کا مطلب نفرت، عداوت، عناد اور دشمنی ہرگز نہیں۔ مولانا فضل الرحمن رواداری کے سب سے بڑے معلم ،مبلغ اور مدرس ہیں لیکن حضرت صاحب کو پی ٹی آئی کی کامیابی ہضم نہیں ہو رہی، فرماتے ہیں تحریک انصاف کا مینڈیٹ قبول نہیں۔ کیوں قبول نہیں؟ اسکی وضاحت نہیں فرمائی۔ حضرت بڑے ہو گئے ہیں ،اپوزیشن میں بھی بیٹھنے کی عادت ڈالیں۔ خیبر پی کے اور مرکز میں نہیں تو بلوچستان میں کچھ حصہ مل سکتا ہے۔ ملک میں انقلاب کی بنیاد پڑ چکی ہے جو انکے صوبے سے ہی اُٹھتا دکھائی دیتا ہے اسکے حریف بننے کے بجائے نقیب بننے کی کوشش کریں۔ 
خیبر پی کے میں ن لیگ کی تائید سے عمران خان کی پی ٹی آئی دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو ملا کر حکومت بنا رہی ہے ۔ اگر یہ حکومت بن گئی تو پورے ملک کو پشاور سے انقلاب، تبدیلی اور نئے پاکستان کی نوید مل سکتی ہے۔ یوتھ مایوس نہ ہو نواز شریف پاکستان بدلیں گے تو عمران خان نیا پاکستان بنانے میں کامیاب ہو جائینگے۔ عمران خان مرکز میں آتے تو ان کیلئے اپنے ایجنڈے کی تکمیل ناممکن نہیں تو مشکل ضروری ہوتی۔ خیبر پی کے ایک چھوٹا صوبہ ہے۔ اسکے حالات کو سنوارنااور دہشتگردی کی آگ کو بجھانا مشکل نہیں ۔ عمران خان بڑے ”ہاﺅسز “کو ختم کرنے کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ خیبر پی کے کو وہ ٹیسٹ کیس بنائیں۔ 
گورنر ہاﺅس اور وزیر اعلیٰ ہاﺅس کو 10 ڈاﺅننگ سٹریٹ کے سے رقبے تک محدود کر دیں۔ گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاﺅس کیلئے زیادہ سے زیادہ ایک کنال کا گھر کافی رہے گا۔ایسے گھر میں رہیں گے تو 6فٹ کے گھر میں رہنے میں آسانی بھی رہے گی ۔ آئی جی، ایس ایس پی، ایس پی جیسے عہدیدار تھانوں میں بیٹھیں ۔ وزیر اعلیٰ ،گورنر ہزار سی سی کی گاڑی استعمال کر ینگے تو کوئی بُلٹ پروف گاڑی کی ڈیمانڈ نہیں کریگا۔ تھانہ اور پٹواری کلچربدلنا انکے ایجنڈے کا حصہ ہے ۔ وہ ایسا ایک چھوٹے صوبے میں آسانی سے کر سکتے ہیں۔ جب ایک صوبے میں ایسی انقلابی تبدیلی آئیگی تو قومی و عالمی میڈیا اسکی تحسین اور تشہیر کئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ پھر ایسے اقدامات کی تقلید دوسرے صوبوں کی مجبوری ہو گی۔ اگر مرکزاور صوبے ایسے اقدامات کو فالو نہیں کرتے تو وہ اسی صف میں کھڑے ہونگے جس میں آج پی پی پی ، اے این پی اور کیو لیگ کھڑی ہے ۔ عمران خان صوبے میں ترقی و خوشحالی کی یقیناً لہر دوڑا سکتے ہیں جس کی روشنی پورے ملک کو بقعہ نور بنا دیگی ۔ امن و امان کے قیام کیلئے نواز شریف اور عمران خان کی سوچ یکساں ہے عسکریت پسند انکی بات بھی سُنتے ہیں۔
 کالا باغ ڈیم پر دونوں متفق ہیںاسکے آغاز اور تکمیل سے تاریکیوں سے سائے ہمیشہ کیلئے چھٹ جائینگے ۔ امریکہ میں موجود کچھ پاکستانیوں نے خیبر پی کے میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس صوبے کے پہاڑوں میں قدرت کے قیمتی خزانے پنہاں ہیں۔ وسائل کی کمی نہیں۔ ان کو قومی مفاد کیلئے استعمال کیا جائیگا تو یقیناً خیبر پی کے میں خوشحالی و ترقی چلنے والی بادِ صبا کی ٹھنڈک اور مہک وطن کے گوشے گوشے میں محسوس ہو گی ۔ اہلیت ،خلوص اور نیک نیتی صوبے سوئٹزر لینڈ بنا سکتی ہے۔ خیبر پی کے کو سیاحو ں کیلئے پُر کشش بنا کر پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے ۔ عمران خان ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کیا کوئی کہے گا کہ پی ٹی آئی ہاری ہے؟ پی ٹی آئی کی خیبر پی کے میں حکومت بننا پورے ملک کیلئے انقلاب کی بنیاد اور نوید نہیں تو کیا ہے۔ 

Tuesday, May 14, 2013

شہباز وزیرِ داخلہ


شہباز وزیرِ داخلہ

14 مئی 2013 0

محمدشاہ تغلق کو بیوقوف بادشاہ کہا جاتا ہے۔اس نے دِلّی کی بجائے دولت آباد(دکن)کوپایہ تخت بنانے کا ارادہ کرلیا تو دلّی والوں کو حکم ہوا کہ جلد از جلد دلّی خالی کرکے دولت آباد میںجابسیں۔ تین دن کے اندر اندر دلّی کو خالی نہ کرنے والوں کے قتل کا حکم جاری ہوا۔ ایک نابینا معذوری کے باعث دلی سے نہ نکل سکا۔ اس کیلئے حکم دیا کہ اسکی ایک ٹانگ میں رسّی باندھ کر اسے دولت آباد گھسیٹ کر لے آیا جائے۔ راستے میں نابینا کے جسم کے پرخچے اُڑگئے اور رسّی کے ساتھ بندھا صرف ایک پاﺅں ہی دولت آباد پہنچ سکا۔ کچھ عرصہ کے بعد سلطان کو احساس ہوا کہ دلّی کو ویران کرکے اس نے حماقت کی اور پھر دلّی کو دوبارہ آباد کرنے کیلئے رعایا کو واپسی کا حکم دیا۔اس سب کے ساتھ وہ ایک انصاف پرور حکمران تھا۔ایک مرتبہ سرِ راہ ایک لڑکا بے دھیانی میں بادشاہ سے ٹکرا گیا۔ اس حرکت پر غصہ میں لڑکے کو چھڑی سے پیٹ ڈالا۔لڑکا روتا ہوا عدالت پہنچا۔ قاضی "القضاة" نے بادشاہ کو عدالت میں بلوایا۔ تغلق نے جرم تسلیم کر لیا۔قاضی نے بادشاہ کو ایک دن کی مہلت دی کہ کل تک اس لڑکے کو راضی کرلو "ورنہ قصاص کےلئے تیار ہو جاو¿" لڑکا کسی طرح رضامند نہ ہواتودوسرے دن قاضی کے حکم پر لڑکے نے بادشاہ کے جسم پر اکیس بید مارے۔سلطان غیاث الدین 1366ءمیںبنگال کا حاکم بنا۔ایک دن تیز اندازی کی مشق ہورہی تھی۔ ناگاہ ایک تیر غریب عورت کے بچے کو لگا اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔عورت قاضی شہرقاضی سراج الدین کی عدالت میں پیش ہو گئی۔ قاضی نے بپتا سنی ۔کچھ دیر کسی سوچ میں پڑ گئے اور پھر ایک درہ مسند قضا کے نیچے چھپا کررکھ دیا۔سلطان وقت کو طلب کر لیا گیا۔طلبی پرسلطان فوراً اٹھا ایک چھوٹی سی تلوار بغل میں چھپا کر عدالت کی طرف چل پڑا۔ قاضی سراج الدین کے سامنے پیش ہوا، قاضی صاحب نے تعظیم توکجا سلطان کی طرف التفات تک نہ کیا۔ سلطان غیاث الدین پر قتل کا جرم ثابت ہوگیا ۔از روئے قانون شر یعت سلطان کو قصاص میں قتل کرنے کی سزا سناد ی گئی۔ البتہ خاتون کو معافی کا اختیار دیا گیا۔ قاضی صاحب فیصلہ سنانے کے بعد اس انتظار میں تھے کہ اگر فریقین کے بیچ شریعت میں دی گئی رعایت کے پیش نظر کوئی سمجھوتہ ہوتا ہے تو ٹھیک‘ نہیں تو سورج ڈوبنے سے پہلے سلطان کو جلاد کے حوالے کردیا جائے۔
سلطان کی لاچاری اور کسمپرسی کو دیکھ کر یکایک خاتون کا دل بھرآیا اور اس نے خون بہا کے عوض سلطان کو معاف کردیا۔مقدمے سے فراغت کے بعد قاضی سراج الدین نے خندہ پیشانی سے سلطان کی تعظیم کی۔ سلطان نے بغل میں چھپائی ہوئی تلوار نکالی اور بولا ''قاضی صاحب میں شریعت کی پابندی کی خاطر آپ کے پاس حاضر ہوا۔ اگر آپ قانونِ شریعت کی سرمو خلاف ورزی کرتے تو اس تلوار سے آپ کی گردن اڑا دیتا۔''۔ قاضی شہر قاضی سراج الدین نے مسند کے نیچے چھپایا ہوا دُرہ نکالا اور فرمایا'' اے سلطان! اگر آ ج آپ شریعت کی حد سے ذرا بھی تجاوز کرتے تو اس دُرے سے آپ کی کھال اُتار دیتا…حجاج بن یوسف کی سفاکیت اپنی جگہ لیکن اسکی انتظامی صلاحیتوں کا اعتراف ایک زمانہ کرتا ہے ۔اس اپنی گورنری کے دوران تمام بغاوتوں کو کچل کر کھ دیا اور اس کی موت کے طویل عرصہ بعد بھی با غیوں اور بغاوتوں نے سر نہ اُٹھایا۔
عوام کی بھاری اکثریت نے 11 مئی 2013ءکے الیکشن میں میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ کو تخت و تاج کا حقدار و سزاوار ٹھہرایا۔ انکے سامنے گذشتہ حکومت کے چھوڑے ہوئے بحرانوں‘ مشکلات اور مصائب کی بھرمار ہے۔ نیت صاف ،ارادے پختہ اور کچھ کر گزرنے کا عزم ہو تو مسائل کی حیثیت غبارراہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت وزارتیں اور عہدے بیچنے اور نواز لیگی قیادت نوازشات و عنایات کی برسات کی شہرت رکھتی ہے۔ میرٹ کی شہ رگ پر دونوں طرح سے انگوٹھا آجاتا ہے۔ یقیناً فطرت تو نہیں بدل سکتی تاہم بہت کچھ گرم سرد دیکھنے‘ جیل اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد لیگی قائدین کی سوچ اور عادتوں میں مثبت تبدیلی ضرور آئی ہو گی۔ تعلیم بڑھنے‘ سٹیٹس بدلنے اور عمر ڈھلنے کے ساتھ انسان کے اندر تبدیلی کا آنا فطری امر ہے۔ 
میاں نواز شریف کو سب سے پہلے مبارک باد الطاف حسین نے دی لیکن مبارک باد کے دودھ میں لیموں نچوڑ دیا۔ ن لیگ کو پنجابیوں کی پارٹی قرار دیا۔ سندھ کے بڑے شہروں تک کامیابی حاصل کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ تو قومی پارٹی ہے اور چاروں صوبوں میں نمائندگی رکھنے والی صرف پنجابیوں کی پارٹی! متحدہ نے اپنی مقبولیت برقرار رکھی‘ اس پر اسے مبارک، لیکن الطاف بھائی نواز لیگ کو صرف پنجابیوں کی پارٹی قرار دے کر زیادتی کر گئے۔ عمران خان نے خندہ پیشانی سے شکست تسلیم کی لیکن ساتھ ہی دھاندلی کے غوغا نے ان کو روایتی سیاستدان ثابت کر رہا ہے۔ لاہور سے پی ٹی آئی صرف ایک سیٹ جیت سکی یہ وہی حلقہ ہے جس میں خان صاحب لفٹر سے گر ے۔ عمران خان جس حلقے میں گرے‘ وہاں کے لوگوں نے پی ٹی آئی کو اٹھا لیا جبکہ باقی شہر سے ”گرا“دیا۔ انتخابات میں در اصل پی ٹی آئی کو شکست نہیں ہوئی، اس کی کامیابی کا سفر شروع ہوا ہے۔ اسے جو ووٹ ملا اس میں زیادہ تر سیلف موٹیویٹڈ تھا۔ اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی ووٹر کو موٹیویٹ کرے تو بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
نواز لیگ کی کامیابی میں اسکی کارکردگی قائدین کی انتھک مہم‘ کارکنوں کی دن رات کی محنت اور قلماروں کی بوقلمیوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ میاں صاحب سپورٹروں‘کارکنوں اور قلمکاروں کو انعام ضرور دیں جس کے وہ بجا طور پر حقدار ہیں۔ ان کو جائیدادیں دیں، کوٹھیاں کاریں دے دیں۔ مشیر سفیر بنا کر سرکاری عہدے بانٹ کر میرٹ کا جنازہ نہ نکالیں۔ عوام نے ن لیگ پر اعتماد قائدین کی شکلیں دیکھ کر نہیں کیا‘ بلکہ انکی پچھلے پانچ سال کی کارکردگی پیش نظر تھی۔ ن لیگ کے پاس ہر شعبہ کے ماہرین موجود ہیں ان کو میرٹ پر آگے لایا گیا تو یقیناً مسلم لیگ پاکستان بدلنے میں کامیاب ہو جائیگی جس کا انتخابات کے دوران وعدے کیے گئے ۔ 
آج ملک و قوم کو درپیش مشکلات کی بھر مار ہے۔ ان مسائل کی جڑ کرپشن اور دہشت گردی ہے۔ کرپشن جس کا بہترین حل صرف اور صرف انصاف کی فراہمی اور فراوانی ہے۔ عدالتیں اسی طرح آزاد اور بااختیار ہوں جس طرح محمد شاہ تغلق کے دور میں تھیںتو کرپشن کا جڑوں سے خاتمہ ہو سکتا ہے۔اس کیلئے ن لیگ کو عدالتوں پر یلغار کا کلچر بدلنا ہوگا۔ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے حجاج بن یوسف جیسے سخت گیر وزیر داخلہ کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ ن میں ایسی بظاہر ایک ہی شخصیت نظر آتی ہے وہ میاں شہباز شریف ہیں۔ ان میں سرکشوں کو زبان سے سمجھانے اور ڈنڈے سے منانے کرراہ راست پر لانے کی حجاج صلاحیت اور قابلیت موجود ہے ۔ وہ ان علاقوں کی بہترین سرجری کر سکتے ہیں جو دہشت گردی کے ناسوربن چکے ہیں۔ کراچی میں چند ہفتوں میں امن قائم اور بلوچستان میں معاملات درست ہو سکتے ہیں۔ کراچی کی بھیانک تصویر بنتی نظر آرہی ہے ۔کراچی کی روشنیاں شہباز جیسا منتظم ہی لوٹا سکتا اور اسے پاکستان سے الگ ہونے سے بچا سکتا ہے ۔ انکے وزیر داخلہ بننے سے پنجاب لاوارث نہیں ہو گا۔ پالیسی تو قیادت ہی کی چلے گی۔ آپ کسی کو بھی وزیراعلیٰ بنا دیں ۔خواہ رانا جمیل حسن گُڈ خان کو بنا دیں جو واحد امیدوار تھے جن کو سپریم کورٹ نے صرف 5 روز قبل الیکشن لڑنے کی اجازت دی اور وہ کامیاب ٹھہرے۔


Sunday, May 12, 2013

ڈریس کوڈ....سرکاری ملازمین کی زندگی میں ”انقلاب“




نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو کے نافذ کردہ ڈریس کوڈ سے سرکاری ملا زمین کی زندگی میں ایک انقلاب آچکاہے‘ ان کیلئے پاکستان بدل گیا اور نیا پاکستان بن گیا ہے۔انتخابات سے دو روز قبل ہی ان کیلئے وہ تبدیلی آگئی جس کے خواب میاں نواز شریف اور عمران خان پوری قوم کو دکھا رہے تھے ۔ ویسے بھی پاکستان میں 11مئی کو پہلا ووٹ کا سٹ ہونے کے ساتھ ہی تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ جس کے آثار انتخابی شیڈول کے جاری ہونے اور پانچ سالہ اقتدار کے ایک ایک لمحے کو کشید کرنے والوں کے گھروں کو چلے جانے سے نظر آرہے تھے ۔ گذشتہ روز پہلی تبدیلی تو دیکھنے میں آئی کہ نگران حکومت نے لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ اس نے پورا کر دکھایا۔ بجلی تالاب میں پانی کی طرح ذخیرہ نہیں کی جاتی، وہ ایک طرف پیدا ہوتی اور دوسری طرف استعمال کی جاتی ہے۔ پورے ملک میں اگر مسلسل 24گھنٹے لوڈشیڈنگ نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے ذرائع موجود نہیں۔ کمی صرف نیتوں میں کھوٹ تھا اور کھسوٹ کا شاخسانہ تھا۔ قومی تہواروں پر موبائل فون بند رکھنے کی روایت آئینی مدت پوری کرنیوالی حکومت نے شروع کی ۔ 13مئی کے انتخابات یقیناً پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ایونٹ تھا اس روز موبائل فون سروس بحال رکھی گئی۔ یہ تبدیلی کی نشانیاں ہیں۔عوام نے اپنی تبدیلی کی خواہش کو انتخابات میں بھرپور شرکت کر کے عملی جامہ پہنا دیا۔ کل کو جو بھی حکومت آئے۔ جس کی کارکردگی جیسی بھی گذشتہ پانچ سال کی طرح بھیانک، ہولناک اور اندوہناک نہیں ہو سکتی۔ قوم نے اسی امید اور اپنی طرف سے تبدیلی کی سپرٹ کے ساتھ پولنگ سٹیشنوں کا رخ کیا تھا۔ گو عمران خان کو وہ کامیابی نہیں مل سکی جس کی وہ امید کر رہے تھے ۔انہوں نے البتہ سٹیٹس کو توڑا اور نوجوانوں کو متحرک ضرور کر دیا۔ بشریٰ رحمٰن صاحبہ کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا امریکہ سے ووٹ ڈالنے پاکستان آیا۔ ایک واقف کار کا بیٹا لندن سے تبدیلی کی خواہش کے ساتھ پاکستان آیا۔ ایک بھی ووٹ سے فرق پڑتا ہے ،ایک ایک کر کے ہی سو، ہزار اور لاکھ و کروڑ بنتے ہیں۔ امریکہ سے آنے اور جانے میں پانچ چھ لاکھ تو لگتے ہی ہوں گے۔ اس سے ووٹ کی قدر اور قیمت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اللہ ان انتخابات کو ملک و قوم کیلئے خیر و برکت کا باعث بنائے۔ جس کے باعث ملک میں تبدیلی اور عوامی زندگی میں انقلاب آنا ہے۔ ایسا انقلاب کھوسو صاحب نے ڈریس کوڈ نافذ کر کے سرکاری ملازمین کی زندگی میں برپا کر دیا ہے۔
ہمارے اساتذہ، خصوصی طور پر ہائی سکول کے استاد خالد لطیف خالد صاحب نصاب پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں آداب زندگی بھی سکھایا کرتے تھے۔انہوں نے چائے میں کیک اور بسکٹ ڈبو کر تناول فرمانے کو آداب کے برعکس بتایا تھا۔ بعد میں اسکی مزید تائید و تصدیق ہوتی چلی گئی۔البتہ جنرل ضیا ءالحق ایسا کرتے تھے شاید وہ آداب سے ناواقف تھے یا اسے بھی آئین کا حصہ سمجھ لیا۔ لکھنوی خاندان نے رشتے سے اس لئے انکار کردیا کہ لڑکے کونسبت کے بعد چائے میں بسکٹ بھگوتے دیکھ لیا گیا تھا۔ ہمیں اساتذہ نے یہ بھی بتایا کہ تسمے والے بوٹ ہی جوتوں میں شمار ہوتے ہیں ، بند جوتا بغیر تسمے کے چپل میں شمار ہوتا ہے۔ چپل اور بند جوتے کے ساتھ جرابیں پہننا اتنا ہی غیر مہذب ہے جتنا تسمے والے بوٹ بغیر جرابوں کے پہننا۔ پشاوری چپل خان صاحبان کے کلچر کا حصہ ہے۔ کلچر پر تنقید بذات خود جہالت ہے۔ وہ اگر سردی سے بچنے کیلئے چپل کے ساتھ جرابیں پہنتے ہیں تو حرج نہیں البتہ کوئی دوسرا ایسا کرے تو مہذب اور غیر مہذب والا کلیہ اس پر فٹ ہو گا۔ مولانا کوثر نیازی کے بقول وہ ایک سفارتخانے کی تقریب میں پشاوری چپل پہن کر چلے گئے تو بھٹو صاحب نے آداب محفل بتا دیئے اس کے بعد وہ بوٹ استعمال کرتے رہے تاآنکہ بوٹوں والے آگئے۔
 ایک پیرا ملٹری فورس کی یونیفارم کا حصہ پشاوری چپل ہے ۔شلوار قمیض کے ساتھ یہ چل جاتی ہے۔ ان کیلئے چیل کو یونیفارم کا حصہ شاید ہتھیار کے طور پر بنایا گیا۔ گھمسان کی جنگ میں اسلحہ ختم ہونے پر بوٹ کی نسبت چپل اتارنا آسان ہے۔ پتلون کے ساتھ ہمیشہ تسمے والے بوٹ پہننے کی تاکید کی گئی۔ 50 روز کے حکمران کھوسو صاحب کے کو کوئی خواب نظر آیا یا کسی نے کان میں کچھ پھونکا کہ ڈریس کوڈ نافذ فرما دیا جس میں کہا گیا ہے۔” سرکاری دفاتر میں صرف سفید یا لائٹ کلر کی شرٹس پہننے کی اجازت ہو گی، شلوار قمےض کے ساتھ واسکٹ پہننا لازمی ہو گا۔ خواتین سینڈل پہن کر دفتر آئیں گی جبکہ مردوں کے لئے بغیر تسموں کے جوتے پہننا لازمی ہوں گے“۔
خاکروب سے چیف سیکرٹری تک سرکاری ملازم اب اس ”کوڈ آف کنڈکٹ“کے پابند ہیں۔اب ان کیلئے تسمے والے بوٹ پہننا شجر ممنوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاکروب، چپڑاسی چوکیدار اور اوپر تک سفید شرٹ پہنیں گے۔ اسکے ساتھ پتلون لازمی قرار نہیں دی گئی۔ جس کا جی چاہے شلوار پہنے یا دھوتی باندھے اوپر شرٹ ہونی چاہئے وہ بھی سب کیلئے ایک رنگ کی۔ کسر اب رہ گئی کہ کام شروع کرنے سے قبل دعا ۔ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، بھی پڑھی جایا کرے۔ ہیلمٹ کا سٹاک نہ نکلا تو یار لوگوں نے اس کو لازمی کرا لیا۔ اب نہ جانے کس کی سفید شرٹوں کا سٹاک گل سڑ رہا تھا۔ سرکاری ملازم ڈریس کوڈ کے نفاذ پر شکرانے کے نفل ادا کر رہے ہیں کہ ان کو ڈیوٹی آور کے دوران ایک ہی قسم کے کھانے کا پابند نہیں کر دیا گیا۔ مٹی کے برتنوں کے سوا دیگر برتنوں کا استعمال ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔ نگران وزیر اعظم حضور! اپنے پیشے کی طرح تمام سرکاری ملازمین کے دو نہیں تو کم از کم ایک ہی درجہ بڑھا دیتے تو ڈریس کوڈ کے نفاذ پر ملازمین کے منہ سے نکلنے والی آہ یقیناً واہ میں بدل جاتی لیکن اب وہ کراہ رہے ہیں۔ تسمے والے بوٹوں میں ماڈی فیکیشن کوئی مشکل کام نہیں تسمے نکال کر الفی لگا دیں یا سوئی سے سی دیں۔ اس پر کھوسو خوش ہو گا۔ نظام سقہ بھی اس ایجاد پر قہقہہ بار ہو گا۔ خواتین شکر کریں ان کو صرف سینڈل پہننے پر پابند کیا ہے۔ ”شٹل کاک ’‘ٹوپی برقعہ کا آرڈر لگا دیتے تو ان کو کون پوچھنے والا تھا۔ سرکاری ملازموں کیلئے اے سی بھی حرام کر دیا گیا ہے۔ پہلے کام بھی ہوتا تھا اور ٹھنڈی فضا میں آرام بھی۔ اب آرام ہو گا نہ کام۔ شلوار قمیض کے ساتھ واسکٹ پہننے کا حکم ہے۔ ایسی گرمی میں تو کچھا اور بنیان کام دیتے ہیں۔ قبلہ! لوگوں نے اب گھر بجلی اور کچن گیس کی سہولت کے مطابق بنائے ہیں دونوں نہیں ہوتیں تو گھر عذاب اور کچن جہنم بن جاتا ہے۔ سرکاری عمارتیںبھی جدید سہولتوں کے پیش نظر بنائی گئی ہیں۔ اے سی بند کرنا ہے تو ان دفاتر کو گراﺅ نئے بناﺅ جن کے چاروں طرف کھڑکیاں ہوں اوران پر بوریاں بھگو کر لٹکا کے حرارت اور حبس سے بچا جا سکے۔ سرکاری ملازمین کو تبدیلی مبارک ہو۔ کھوسو صاحب تین چار سال وزیراعظم رہ جاتے تومحمد شاہ تغلق بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کر لیتا۔




Thursday, May 9, 2013

اٹھو، ہر ووٹر کو جگادو


کالم نگار  |  فضل حسین اعوان


 نکولس سرکوزی اپنی اوباشیوں اورعیاشیوں کے باعث خاص شہرت رکھتے تھے۔ان کے مسلمانوں سے نفرت اور تعصب کے جذبات کبھی پوشید نہیں رہے۔مسلم خواتین کے حجاب اوڑھنے اورمسلمانوں پر حلال گوشت کی پابندی جیسے قوانین کا تخلیق کار بھی 2007ءسے 2012ءتک فرانس کا صدر رہنے والا سرکوزی ہی تھا مسلمانوں کی شہریت کے حوالے سے بھی سرکوزی نے کڑی شرائط عائد کیں۔2012ءکے انتخابات جیتنے کیلئے سرکوزی پُرامید تھا۔اپنی طرف سے اس نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کرکے فرانسیسوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اپنی مقبولیت میں اضافے کیلئے قذافی کو اقتدار سے ہٹانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ فرانس کے جنگی طیاروں سے قذافی کی حامی فوج پربمباری کرکے اسے شکست سے دوچار کیا۔ لیکن جیت اس کا مقدر نہ بن سکی ۔اس کی شکست میں سب سے بڑا عنصر مسلمانوں کا اتحاد اور ان کا منظم ووٹ تھا۔سرکوزی اگر اپنے معاشقوں کے حوالے سے بدنام ہیں تو ان کا مد مقابل بھی نیک نام نہیں۔ 2007ءمیں جب فرانکوئس ہالینڈ کی گرل فرینڈ سیگولین رائل، سرکوزی کے مقابلے میں صدارتی انتخاب ہار گئی تو فرانکوئس نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی، بعد میں فرانکوئس کا نام فرانسیسی میگزین ”پیرس میچ“کی صحافی ویلری کے ساتھ لیا جانے لگا اور دونوں اب تک بغیر شادی کئے ایک ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔فرانس میں مسلمانوں کی تعدا د پچاس لاکھ ہے ۔وہ خاموشی سے سرکوزی کے ستم کا نشانہ بنتے رہے لیکن صدارتی الیکشن سر پر آئے تو با اثر مسلم کمیونٹی نے بے مثال انتخابی مہم چلائی۔ یہ مہم سرکوزی کی مخالفت میں تھی نہ ان کے مدِّمقابل فرانکوئس ہالینڈ کی حمایت میں۔ مسلم لیڈر شپ کا زور صرف اس بات پر رہا کہ مسلمان ووٹ ضرور کاسٹ کریں،کسی بھی کاسٹ پراور ایسا ہی ہوا۔نتائج سامنے آئے تو سرکوزی صاحب ہار چکے تھے ۔
ہم اپنی سیاسی جماعتوں کے منشور پر نظر ڈالیںتوان سے پاکستان کو عظیم ترین مملکت بنانے اور عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے عزائم چھلک چھلک جاتے ہیں۔تپتے صحراﺅں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتیں،کیکروں سے سیب اور انگور کے گچھے لٹکے اور ہر طرف موٹر وے کے جال بچھے دکھائی دیتے ہیں۔ منشورات ایک جیسے، شخصیات الگ الگ ہیں۔ انسانی فطرت کبھی نہیں بدل سکتی ، سیاسی قائدیں کی بھی نہیں۔ الیکشن میں یقینا قائدین کی شخصیت اور ان کی فطرت ووٹر کے پیش نظر ہوگی ۔
 ہر پارٹی کی توقعات نوجوانوں سے وابستہ ہیں ۔ پی ٹی آئی کا زیادہ تر انحصار یوتھ پر ہے۔ ن لیگ طلباءکو لیپ ٹاپ اور سولر یونٹس دے ان کی حمایت کی دعویدار ہے ۔ پیپلز پارٹی کو امید ہے کہ اس کی باگ نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اس لئے یہی پارٹی نوجوانوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ بلاشبہ ان انتخابات میں نوجوانوں، خصوصی طورپر ڈیڑھ کروڑ نئے ووٹرز کا کردار اہم ہوگا۔ یوتھ پانسہ پلٹ سکتی ہے اگر اس نے 11مئی کو یوتھ والے کام نہ کئے تو.... آج کا نوجوان اپنی تعلیم کی طرف توجہ ضرور دیتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اسے موبائل،انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا بھی نشہ ہے۔ رات بھر ان سے کھیلنا مشغلہ اور اگلے روز چھٹی کی صورت میں دن بھر سوئے رہنا عادت ہے۔ یوتھ آج اپنے وقت اور خرچے پر اپنی پسند کی پارٹی کی کمپین کر رہی ہے۔ 11مئی کا دن حسبِ سابق سو کر گزار دیا تو سب محنت رائیگاں جائے گی۔
 2002 کے انتخابات کے درس کو امیدواروں نے یاد نہ رکھا تو ان کی محنت اکارت اور عوامی مینڈیٹ خاک میں مل سکتا ہے۔ امیدوار یقینا کئی ہفتوں کی مہم کے باعث تھکاوٹ سے چور ہوں گے۔ آدھی رات سے قبل نتائج سامنے آچکے ہوں گے ۔ جیتنے کی خوشی میں دھمال ڈال کر تھکاوٹ دور کرنے کے لئے سوجانابختوں کو بھی سلا سکتاہے۔ 2002ءکے انتخابات میں آدھی رات کے بعد نتائج میں ردّوبدل ہوا،رات جیتنے والے کئی صبح تک ہروا دئیے گئے تھے۔ الیکشن کے دن امیدوار چوکس،قائدین ہشیار اور خبردار رہیں۔ جیت اور ہار گیم کا حصہ ہے۔ دھونس اور دھاندلی کے تمام راستے بند کر دیں پھر بھی ہار جائیں تو اسے مقدر کا لکھا اور عوام فیصلہ سمجھ کر قبول فرمائیں۔ شدت جذبات میں دھاندلی کا واویلا کرنے اور بندوق نکالنے کے بجائے حریف کومبارکب دینے کا حوصلہ پیدا کریں۔
آج آخری روزانتخابی مہم پور ے جوبن پر ہوگی۔عمران خان کے سٹیج سے گرنے کے باعث 8مئی کو سیاسی سرگرمیاں معطل رہیں ۔مسلم لیگ ن سمیت تمام پارٹیوں نے عمران خان کے ساتھ یکجہتی و یگانگت کے لئے اپنے جلسے منسوخ کر دئیے ۔آج امیدواروں اور ان کے حامیوں پر ایک دن کی کسر نکالنے کاجنون طاری ہوگا۔ امیدوار اور ان کے سپورٹر حلقے میں ڈیروں پر حاضری دیکر ووٹ پکے کریں گے۔ اگلے پانچ سال پھر ڈیرے دار حاضریاں دیں گے۔ کوئی اور تبدیلی آئے نہ آئے ووٹ کی بھیک مانگنے والے ایک ہی رات میں موالی اور ووٹر سوالی بن جائیں گے۔ مہم کے دوران امیدواروںنے سپورٹر کو جو پھوک دی تھی وہ اگلے روز امیدوار کے روئیے کے باعث نکل چکی ہوگی۔ گویا دوسرے اورتیسرے درجے کے سپورٹر ابن سباح کی جنت سے باہر ہونگے اور حشیش کا نشہ اتر چکا ہوگا۔
امیدواروں اور پارٹیوں کے سپورٹربرداشت اور تحمل کا دامن کسی طورپرنہ چھوڑیں۔ معمولی بات پر کچھ لوگوں کا پارا چڑھ جاتا اور دم کو آگ لگ جاتی ہے۔ بات گالم گلوچ سے ہاتھا پائی اور خون خرابے تک بھی پہنچ کر دائمی دشمنی کا روپ دھارلیتی ہے ۔جن کی خاطر لڑے ، خون بہایا اور دشمنی پالی ، وہ الیکشن کے بعد باہم گلے ملتے اور ایک دوسرے کی حمایت سے وزارتیں انجوائے کر رہے ہوتے ہیں۔
 دہشت گردی کی فضا میں ہونے والے انتخابات کی بڑی اہمیت ہے، اس دہشت گردی کا خاتمہ بھی ووٹ کی پرچی سے ہونا ہے۔ ملک کی بقا سلامتی و سالمیت، خود مختاری اور وقار بھی پرچی ہی سے منحصر ہے۔ مسائل، مشکلات اور بحرانوں کی دلدل سے بھی پرچی ہی نکال سکتی ہے۔
انتخابی نتائج کے حوالے سے کوئی بھی پیش گوئی کرنا ممکن نہیںتاہم پیپلز پارٹی ، ن لیگ ،پی ٹی آئی ق لیگ ، اے این پی ،متحدہ اور جے یو آئی سمیت ہر پارٹی کو اپنی کامیابی کا یقین ہے ۔عمران خاں کے حادثے کے بعد سیاسی جماعتوں میں کشیدگی عروج سے زوال پزیر ہوگئی ۔ آج سب پارٹیاں دشنام اور الزام کے بجائے اپنا پروگرام قوم کے سامنے رکھ رہی ہیں۔جب ہر پارٹی اپنی فتح کا خواب دیکھ رہی ہے تو اس خواب کو تعبیر دلانے اور فتح کو مزید زور دار بنانے کے لئے ووٹر کو گھر سے نکلنے پر مائل اور قائل کریں۔ہر ووٹر کو جگائیںجس طرح فرانس کی مسلم لیڈر شپ نے مسلمان ووٹر کوپولنگ سٹیشن پر لا کر بغیر کنونسنگ کے اپنا مقصد حاصل کر لیا تھا۔اسی طرح اپنی فتح و نصرت کے خواب دیکھنے والی پارٹیاں بھی اپنا مقصد حاصل کر سکتی ہیں۔

Wednesday, May 8, 2013

تیسری آنکھ


تیسری آنکھ

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
07 مئی 20130
Print  
تیسری آنکھ
امام غزالی کہتے ہیں کہ آنکھ دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتی۔ دنیا نے بڑی ترقی کر لی‘ رات کو اندھیرے میں دیکھنے والی عینک بھی ایجاد ہو گئی گھر بیٹھے پوری دنیا کو آلات کے ذریعے تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن دیوار کے پار انسانی آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے۔ ایسی آنکھ تراشنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہم یہ تو چاہیں گے کہ ہمارے پاس دیوار کے پار دیکھنے کی قوت تو ہو لیکن پڑوسی کے پاس نہ ہو۔ پڑوسی کی بھی یہی خواہش ہو گی۔ خالق کائنات نے البتہ کچھ لوگوں کو یہ قوت ضرور عطا کردی کہ دیوار کے پار تو کیا‘کائنات کی وسعتوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ گویا پوری کائنات ان کی ہتھیلی پر ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے بازو اکڑا کر، سوالی کی طرح ہاتھ پھیلا کر دعویٰ کیا کرتے تھے کہ پوری کائنات ان کی ہتھیلی پر ہے لیکن دن میں کئی بار دوسروں سے پوچھتے میں نے قلم یہاں رکھا تھا، لائٹر کدھر گیا؟ موبائل نہیں مل رہا۔ تسبیح گم ہو گئی۔
زندگی کے تجربات‘ قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی حسیات‘ بصیرت‘ بصارت ادراک و انہماک اور مطالعہ و مشاہدہ کی بنا پر کچھ لوگ مستقبل بینی پر اتھارٹی بن جاتے ہیں۔ ان کی اس صلاحیت کو تیسری آنکھ کا نام دیا جاتا ہے۔ ویسے ہر آدمی کے پاس بھی تیسری آنکھ ہے جس سے وہ مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔
آج انتخابی مہم عروج پر ہے۔ اس دوران جو ہوتا رہا ہے اور جو ہونا چاہئے وہی ہو رہا ہے۔ انتخابی مہم تو انہی آنکھوں سے ملاحظہ کی جا رہی ہے۔ انتخابی نتائج کو لوگ اپنی اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ۔ کسی پر بھی تیسری آنکھ کے استعمال کی پابندی نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی تیسری آنکھ انتخابات کے بعد دھاندلی دھاندلی کے شور کی کوکھ سے جنم لینے والا خون خرابہ دیکھ رہی ہے۔ کئی کی تیسری آنکھ کو الیکشن ہوتے ہی دکھائی نہیں دے رہے۔
 کامیابی کے لئے ہر امیدوار‘ اس کے سپورٹر اور پارٹی قائدین نے دن رات ایک کردیا ہے۔ چند ایک ناخوشگوار واقعات کے علاوہ انتخابی مہم عروج پر ہے۔ ہر سو گہما گہمی اور ہنگامہ خیزی ہے۔ نواز لیگ‘ پی پی پی اور پی ٹی آئی اپنی اپنی جگہ صفایا کرنے کی دعویدار ہیں۔ ان کے سپورٹر زکی تیسری آنکھ اپنی اپنی پارٹی کی طرف سے کیا گیا صفایا اور دوسری پارٹیوں کی صفائی دیکھ رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی سے زیادہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی کو اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھ رہی تھی۔ اس کی تیسری آنکھ اسے دو تہائی اکثریت سے ہمکنار ہوتا دکھا رہی تھی کہ اس دوران عمران خان نے دونوں کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھ دی۔ عمران خان کبھی سٹیک ہولڈر نہیں رہے۔ ان کی کارکردگی تو زیر بحث نہیں آسکتی اس لئے حریف جو عمومی طور پر شریف ہیں ان کے کردار کی بات کرتے ہیں لیکن موجودہ انتخابی مہم کا خاصااورطرہ ¿امتیاز یہ رہا کہ کوئی بھی پارٹی کسی کی کردار کشی نہیں کر رہی۔ کردار کشی کا مطلب سمجھنا ہے تو 1988ءسے 1997ءکی انتخابی مہمات کا جائزہ لیں اور کچھ نظر 2002ءکے انتخابات پر بھی ڈال لیں۔ 2002ءکے انتخابات میں عمران خان کے خلاف بے ہودگی زوروں پر تھی۔ اس سے قبل کے انتخابات میں بھٹو خاندان پر غلاظت اور جوابی غلاظت ایک ناقابل بیان داستان ہے۔ ایسی ایسی تصاویر جاری کی جاتیں کہ مہذب اخبارات چھاپنے پر تیار نہ ہوتے۔ اپنا قبلہ بدل کر پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے میمو سکینڈل فیم حسین حقانی اس ” شاندار“ کلچر کے تخلیق کار تھے۔آج کے سب بڑے مظلوم سیاسی مسکین شیخ رشید کی اسمبلی کے اندر اور باہر ذو معنی فقرہ بازی اوباشوں کی دلربائی سے اور اکثریت کی دل آزاری کا باعث بنتی تھی،اب شائد وہ اور جن کو خوش کیا کرتے تھے سدھر گئے ہونگے۔ پیپلز پارٹی نے شاید اب حقانی صاحب کی خدمات سے استفادہ نہیں کیا‘ اس لئے پیپلز پارٹی کی مہم تہذیب اور اخلاقیات کے دائرے میں ہے۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی بھی حدود سے باہر نہیں نکلیں البتہ مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کو ووٹ دینے کو حرام قرار دینے کے فتوے کو مشتہر ضرور کیا ہے۔ دیکھئے اس سے ایکسپوز کون ہوتا ہے۔ عمران خان یا مسرت خان؟ نوائے وقت کے قاری صفدر اقبال اسلم گوندل انتخابی مہم سے بڑے پریشان نظر آتے ہیں‘ جو دراصل بہت سے پاکستانیوں کی پریشانی ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے مد مقابل انسانی سمگلروں، وسائل لوٹنے ہی ہیں۔کتنا اچھا ہو کہ ایسے لوگ منتخب ہوں جو جائیداد وںمیں اضافہ نہ کریں۔ کیا کیا جائے اگر ووٹر کی تیسری آنکھ کا تارا یہی لوگ ہوں۔
انتخابی مہم کے دوران ہلکی پھلکی موسیقی چل رہی ہے۔ عمران خان شریف زادوں پر برس رہے ہیں جواب میں اینٹ کا جواب پتھر سے ملتا ہے۔ پی پی اور ق لیگ کا نشانہ بھی ن لیگ ہے۔ دونوں بھائیوں کو ان کو بھی جواب دینا ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کو پی ٹی آئی اور ن لیگ کے جلسوں نے گرمایا تو پیپلز پارٹی اشتہاری مہم میں سب سے آگے ہے۔ ن لیگ اس مہم سے زچ اور فائدہ تحریک انصاف کو پہنچ رہا ہے۔رحمٰن ملک کے اس مہم میں کودنے سے معاملات کے کردار کشی کی طرف جانے کا خدشہ ہے۔ عمومی اور عوامی رائے مسلم لیگ ن کی حکومت بنتی دیکھ رہی ہے وہ سادہ اکثریت سے ہو یا مخلوط ،کچھ جج، جرنیل، جرنلسٹ اور جنٹلمین اپنی تیسری آنکھ سے ن لیگ کی حکومت بنتی دیکھ کر اپنے کردار ،اعمال، قلم اور فیصلوں سے اپنی لائن سیدھی کررہے ہیں۔
کچھ لوگوں کو انتخابی مہم میں غیرشائستگی نظر آرہی ہے۔اگر اجتماعی طور پر ایسا کہا جائے تو اس کا کچھ نہ کچھ جواز بنتا ہے لیکن ہر پارٹی کے دانشورکو تیسری آنکھ سے اپنی پسند کی پارٹی کی قیادت پارسا اور دوسرے غیر مہذب نظر آتے ہیں۔ پارٹی قائدین حسب توفیق اپنے حریفوں پر برس رہے ہیں ۔ ان کی جملہ بازی”شیر کو بلے سے پھینٹا لگائیں گے۔۔۔ عمران کہتے ہیں اوپر اللہ نیچے بلا،عمران تو سن لے 11مئی کے بعد تو کلا ای کلا ہوگا۔۔۔مداری اناڑی شکاری کچھ نہیں کریں گے“ کو لوگ انجوئے کرتے ہیں۔دانشوروں کی تیسری آنکھ کا کیا جائے جس کے باعث معاشرے میں نفرت پھیل رہی ہے ۔ ملک میں بھائی چارے وہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے ،تعصب سے بالا تر ہونے اور غیرجانبداری کا دامن تھامے رکھنے کے لئے بہتر ہے کہ یہ دانشوران کرام کسی سرجن سے اپنی تیسری آنکھ کا علاج کرالیں۔

تیسری آنکھ


تیسری آنکھ

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
07 مئی 20130
Print  
تیسری آنکھ
امام غزالی کہتے ہیں کہ آنکھ دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتی۔ دنیا نے بڑی ترقی کر لی‘ رات کو اندھیرے میں دیکھنے والی عینک بھی ایجاد ہو گئی گھر بیٹھے پوری دنیا کو آلات کے ذریعے تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن دیوار کے پار انسانی آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے۔ ایسی آنکھ تراشنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہم یہ تو چاہیں گے کہ ہمارے پاس دیوار کے پار دیکھنے کی قوت تو ہو لیکن پڑوسی کے پاس نہ ہو۔ پڑوسی کی بھی یہی خواہش ہو گی۔ خالق کائنات نے البتہ کچھ لوگوں کو یہ قوت ضرور عطا کردی کہ دیوار کے پار تو کیا‘کائنات کی وسعتوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ گویا پوری کائنات ان کی ہتھیلی پر ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے بازو اکڑا کر، سوالی کی طرح ہاتھ پھیلا کر دعویٰ کیا کرتے تھے کہ پوری کائنات ان کی ہتھیلی پر ہے لیکن دن میں کئی بار دوسروں سے پوچھتے میں نے قلم یہاں رکھا تھا، لائٹر کدھر گیا؟ موبائل نہیں مل رہا۔ تسبیح گم ہو گئی۔
زندگی کے تجربات‘ قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی حسیات‘ بصیرت‘ بصارت ادراک و انہماک اور مطالعہ و مشاہدہ کی بنا پر کچھ لوگ مستقبل بینی پر اتھارٹی بن جاتے ہیں۔ ان کی اس صلاحیت کو تیسری آنکھ کا نام دیا جاتا ہے۔ ویسے ہر آدمی کے پاس بھی تیسری آنکھ ہے جس سے وہ مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔
آج انتخابی مہم عروج پر ہے۔ اس دوران جو ہوتا رہا ہے اور جو ہونا چاہئے وہی ہو رہا ہے۔ انتخابی مہم تو انہی آنکھوں سے ملاحظہ کی جا رہی ہے۔ انتخابی نتائج کو لوگ اپنی اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ۔ کسی پر بھی تیسری آنکھ کے استعمال کی پابندی نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی تیسری آنکھ انتخابات کے بعد دھاندلی دھاندلی کے شور کی کوکھ سے جنم لینے والا خون خرابہ دیکھ رہی ہے۔ کئی کی تیسری آنکھ کو الیکشن ہوتے ہی دکھائی نہیں دے رہے۔
 کامیابی کے لئے ہر امیدوار‘ اس کے سپورٹر اور پارٹی قائدین نے دن رات ایک کردیا ہے۔ چند ایک ناخوشگوار واقعات کے علاوہ انتخابی مہم عروج پر ہے۔ ہر سو گہما گہمی اور ہنگامہ خیزی ہے۔ نواز لیگ‘ پی پی پی اور پی ٹی آئی اپنی اپنی جگہ صفایا کرنے کی دعویدار ہیں۔ ان کے سپورٹر زکی تیسری آنکھ اپنی اپنی پارٹی کی طرف سے کیا گیا صفایا اور دوسری پارٹیوں کی صفائی دیکھ رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی سے زیادہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی کو اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھ رہی تھی۔ اس کی تیسری آنکھ اسے دو تہائی اکثریت سے ہمکنار ہوتا دکھا رہی تھی کہ اس دوران عمران خان نے دونوں کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھ دی۔ عمران خان کبھی سٹیک ہولڈر نہیں رہے۔ ان کی کارکردگی تو زیر بحث نہیں آسکتی اس لئے حریف جو عمومی طور پر شریف ہیں ان کے کردار کی بات کرتے ہیں لیکن موجودہ انتخابی مہم کا خاصااورطرہ ¿امتیاز یہ رہا کہ کوئی بھی پارٹی کسی کی کردار کشی نہیں کر رہی۔ کردار کشی کا مطلب سمجھنا ہے تو 1988ءسے 1997ءکی انتخابی مہمات کا جائزہ لیں اور کچھ نظر 2002ءکے انتخابات پر بھی ڈال لیں۔ 2002ءکے انتخابات میں عمران خان کے خلاف بے ہودگی زوروں پر تھی۔ اس سے قبل کے انتخابات میں بھٹو خاندان پر غلاظت اور جوابی غلاظت ایک ناقابل بیان داستان ہے۔ ایسی ایسی تصاویر جاری کی جاتیں کہ مہذب اخبارات چھاپنے پر تیار نہ ہوتے۔ اپنا قبلہ بدل کر پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے میمو سکینڈل فیم حسین حقانی اس ” شاندار“ کلچر کے تخلیق کار تھے۔آج کے سب بڑے مظلوم سیاسی مسکین شیخ رشید کی اسمبلی کے اندر اور باہر ذو معنی فقرہ بازی اوباشوں کی دلربائی سے اور اکثریت کی دل آزاری کا باعث بنتی تھی،اب شائد وہ اور جن کو خوش کیا کرتے تھے سدھر گئے ہونگے۔ پیپلز پارٹی نے شاید اب حقانی صاحب کی خدمات سے استفادہ نہیں کیا‘ اس لئے پیپلز پارٹی کی مہم تہذیب اور اخلاقیات کے دائرے میں ہے۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی بھی حدود سے باہر نہیں نکلیں البتہ مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کو ووٹ دینے کو حرام قرار دینے کے فتوے کو مشتہر ضرور کیا ہے۔ دیکھئے اس سے ایکسپوز کون ہوتا ہے۔ عمران خان یا مسرت خان؟ نوائے وقت کے قاری صفدر اقبال اسلم گوندل انتخابی مہم سے بڑے پریشان نظر آتے ہیں‘ جو دراصل بہت سے پاکستانیوں کی پریشانی ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے مد مقابل انسانی سمگلروں، وسائل لوٹنے ہی ہیں۔کتنا اچھا ہو کہ ایسے لوگ منتخب ہوں جو جائیداد وںمیں اضافہ نہ کریں۔ کیا کیا جائے اگر ووٹر کی تیسری آنکھ کا تارا یہی لوگ ہوں۔
انتخابی مہم کے دوران ہلکی پھلکی موسیقی چل رہی ہے۔ عمران خان شریف زادوں پر برس رہے ہیں جواب میں اینٹ کا جواب پتھر سے ملتا ہے۔ پی پی اور ق لیگ کا نشانہ بھی ن لیگ ہے۔ دونوں بھائیوں کو ان کو بھی جواب دینا ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کو پی ٹی آئی اور ن لیگ کے جلسوں نے گرمایا تو پیپلز پارٹی اشتہاری مہم میں سب سے آگے ہے۔ ن لیگ اس مہم سے زچ اور فائدہ تحریک انصاف کو پہنچ رہا ہے۔رحمٰن ملک کے اس مہم میں کودنے سے معاملات کے کردار کشی کی طرف جانے کا خدشہ ہے۔ عمومی اور عوامی رائے مسلم لیگ ن کی حکومت بنتی دیکھ رہی ہے وہ سادہ اکثریت سے ہو یا مخلوط ،کچھ جج، جرنیل، جرنلسٹ اور جنٹلمین اپنی تیسری آنکھ سے ن لیگ کی حکومت بنتی دیکھ کر اپنے کردار ،اعمال، قلم اور فیصلوں سے اپنی لائن سیدھی کررہے ہیں۔
کچھ لوگوں کو انتخابی مہم میں غیرشائستگی نظر آرہی ہے۔اگر اجتماعی طور پر ایسا کہا جائے تو اس کا کچھ نہ کچھ جواز بنتا ہے لیکن ہر پارٹی کے دانشورکو تیسری آنکھ سے اپنی پسند کی پارٹی کی قیادت پارسا اور دوسرے غیر مہذب نظر آتے ہیں۔ پارٹی قائدین حسب توفیق اپنے حریفوں پر برس رہے ہیں ۔ ان کی جملہ بازی”شیر کو بلے سے پھینٹا لگائیں گے۔۔۔ عمران کہتے ہیں اوپر اللہ نیچے بلا،عمران تو سن لے 11مئی کے بعد تو کلا ای کلا ہوگا۔۔۔مداری اناڑی شکاری کچھ نہیں کریں گے“ کو لوگ انجوئے کرتے ہیں۔دانشوروں کی تیسری آنکھ کا کیا جائے جس کے باعث معاشرے میں نفرت پھیل رہی ہے ۔ ملک میں بھائی چارے وہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے ،تعصب سے بالا تر ہونے اور غیرجانبداری کا دامن تھامے رکھنے کے لئے بہتر ہے کہ یہ دانشوران کرام کسی سرجن سے اپنی تیسری آنکھ کا علاج کرالیں۔

Sunday, May 5, 2013

”ہم تمہارے ساتھ ہیں“



کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
”ایک اور شہادت سر پر آپہنچی ہے “ سیاست پر گفتگو کرتے ہوئے اچانک یہ کہہ کرمہمان نے میرے پاﺅں تلے سے جیسے زمین کھینچ لی۔ ” خدا نہ کرے ایسا کچھ ہو“ میں نے حیرانگی سے انکی طرف اپنی پوری توجہ مبذول کرتے ہوئے کہا.... ”اسے انہونی کہیں یا ہونی، اب ایسا ہوتا نظر آرہا ہے۔ 5 سے دس مئی کے درمیان پاکستان کی سیاست میں ایک قیامت ٹوٹنے والی ہے۔ میں نے اپنی تمام مصروفیات ان پانچ دن کیلئے ترک کردی ہے۔ مائنس ون فارمولے پر عمل ہونے جارہا ہے۔ یہ وہی فارمولا ہے جو 1998 میں تخلیق ہوا جس پر 2007ءمیں آدھا عمل ہوا، اسکی تکمیل اب ہوگی “میرے دوست جن سے تعلق گہرا تو نہیں دیرینہ اور بے لوث ضرور ہے بغیر فل سٹاپ کے بولے جارہے تھے جیسے ان کو سب کچھ ایک ہی سانس میں کہہ ڈالنے کی جلدی ہو اور میں حیرانی اور پریشانی کے سمندر میں ڈوبتا چلا جارہا تھا۔ میں جس مائنس ون فارمولے کو جانتا ہوں وہ ججوں کی نظر بندی کے دوران سامنے آیا تھا جس کے مطابق صدر مشرف اور انکے رفقاءجسٹس افتخار محمد چودھری کو مائنس کرکے باقی ججوں کی بحالی پر رضا مند تھے۔ یہ رفقا تو محض شو، شا ءہی تھے۔ بغیر مشورے کے فیصلے مشرف صاحب ہی صادر کیا کرتے تھے ‘جو اب نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں،انہیں جیل حکام بھی قبول کرنے پر تیار نہیں کہ قیدی ان کا سربجیت عرف سرفراز والا حال نہ کردیں،سربجیت نے اسلام قبول کر کے اپنا نام سرفراز رکھ لیا تھا،جناح ہسپتال میں علاج کیلئے اسے سرفراز کے نام سے ہی داخل کیاگیااور اسکی موت کے بعد اسی نام سے میت واپس کی گئی۔ اس کا مسلمان ہونااہل اسلام کیلئے باعثِ طمانیت سہی لیکن اس سے بھیانک جرائم معاف نہیں ہوسکتے،اب جزا و سزا کا معاملہ خدائی عدالت میں ہے جبکہ مشرف کے کیسز کو دنیاوی عدالتیں دیکھ رہی ہیں،وہ جس طرح دیکھ رہی ہیں پوری دنیا ان کو دیکھ رہی ہے۔ ہائی کورٹ نے انکے الیکشن لڑنے پر تاحیات پابندی لگا دی۔مشرف مجرم ثابت ہو جاتے تو اسکے پانچ سال بعد آئین کے مطابق الیکشن لڑ سکتے تھے ۔تا حیات پابندی عدالتی تاریخ میں نئی مثال ہے۔ دیکھئے یہ فیصلہ مقدمات میں ایک مثال بنتا یا بھٹو کیس کی طرح ”ضرب المثل“۔ اب مشرف صاحب نے اپنی نااہلی اور قید کے باعث اپنی پارٹی آ ل پاکستان مسلم لیگ کو اس انتخابی عمل سے باہر کرلیاہے جس کے ایک بھی نشست جیتنے کا امکان نہیں تھا۔انکی پارٹی کا الزام ہے کہ مشرف کو نااہل قرار دیدیا گیا اور انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔مشرف کے با ئیکاٹ کے عوامل کو بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔ ہتھیلی پر سرسوں جمتی، بغیر آگ کے دھواں، پتھر کو پگھلتے ،برف پر پڑے پانی کو ابلتے،صحرا میںسمندر کی لہریں اور نصف شب کو دوپہریں دیکھنے کے جو خواہش مند ہوں وہ مشرف کو ملنے والا انصاف دیکھ لیں۔قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ کیس لٹکائے جائیں نہ کسی کو لٹکانے کی تیزی دکھائی جائے۔
 میرے مہمان ایم ہاشمی کے بقول وہ شہادت کی بات انفارمیشن کی بنیاد پر نہیں اپنے سیاسی وژن اور بصیرت کے بل بوتے پر کررہے تھے۔ اس میں شاید مبالغہ ہو۔ انہوں نے اور بھی بہت کچھ کہاجو ان خدشات کی تائید تھی جو عوامی حلقوں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی طرف سے انتخابات کے خونیں ہونے کے حوالے سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ” اقتدار کی خاطر کوئی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے، اب تو ہمارے ہاں اورنگ زیب عالمگیر جیسے کردار بھی جنم لے چکے۔ اورنگ زیب عالم گیر نہایت متقی عبادت گزار اور پرہیز گار تھا لیکن بادشاہی کیلئے اپنے بھائیوں کا سر لے لیا اور والد محترم کو قید کردیا“۔البتہ ہاشمی صاحب نے میرے ساتھ اتفاق کیا کہ جسٹس افتخار چودھری کے چیف جسٹس ہوتے ہوئے انتخابات کا ایک دن کیلئے التوا بھی ممکن نہیں، خواہ آسمان ٹوٹے یا زمین پھٹے۔
 (If Iftikhar is here election is there)
 خدا کرے کہ ہمیں محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل جیسے کسی سانحہ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ہر پاکستانی کا خون مقدس اور محترم ہے ،آج سیاست میں خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں۔نگران حکومت کو خون کی ہولی روکنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔یہ سلسلہ جاری رہا تو انتخابات کی شفافیت سوالیہ نشان بن کر ایک اور قیامت ڈھا دے گی۔
 ہم جمہوریت کی کچی پکی راہگزر پر بہت سی شہادتیں دے چکے ہیں۔ اسکے باوجود ہماری سیاست اور سیاسی قیادت ابھی تک نابالغ ہے۔کیا ہم جمہوریت کے حوالے سے بھی قائل ہو گئے ہیںکہ ....ع
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے صحر پیدا
 اگرہمار ے ہاں سیاسی اور جمہوری روایات مضبوط ہوتیں تو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اس بیان پر خوشی سے دھمالیں نہ ڈالی جارہی ہوتیںجس میں جنرل صاحب نے فرمایا کہ الیکشن 11مئی کو ضرور ہوں گے۔ اس بیان کے بعد سیاسی اکابرین،اینکر کالم نگاراور تجزیہ کار کہہ رہے کہ جنرل کیانی کے بیان کے بعد انتخابات کے التوا کے حوالے سے تمام شکوک و شہبات دور ہوگئے ہیں۔ جمہوری روایات پختہ ہوتیں تو آرمی چیف کے ایسا بیان دینے کی نوبت آتی‘ نہ اس بیان پر قوم سردُھن رہی ہوتی۔ کیانی صاحب کے اس بیان ”جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی کا اعصاب شکن کھیل جزا و سزا نہیں صرف عوام کی آگہی اور بھرپور شمولیت ہی سے ختم ہو سکتا ہے“پر کسی کی نظر نہیں ہمارے سیاستدانوں کا بلوغت کی دہلیز پر ہنوز کوہِ گراں بن کر قدم نہ رکھنے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جرنیلوں کی مہم جوئی کی ہی اطلاع پاتے ہی دن کے اُجالے میںیہ اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے گلے میںبندھی رسی کا دوسرا سرا طالع آزما کو تھما نے کیلئے بے قرار ہوتے ہیں۔ بعض تو جرنیلوں کو قوم کی کشتی بھنور سے نکالنے کیلئے خود قائل کرتے ہیں۔ یہ لوگ پاﺅ گوشت خیرات پانے لئے جمہوریت کا بکرا ہی ذبح کروادیتے ہیں۔ اب بھی تلاشی لی جائے تو 90فیصد کاروں کے نیفوں میں اڑسے اور جیبوں چُھپے جرنیل کے نام کی جگہ خالی چھوڑ کر ”۔۔۔ہم تمہارے ساتھ ہیں “ کے بینر اور بیان برآمد ہونگے۔ تبدیلی یا انقلاب اگر آسکتا ہے تو ہمارے سیاستدانوں کے میچور ہونے سے ہی آئیگا اور اس کے ساتھ ہی مارشل لاءہمیشہ کیلئے دفن اور طالع آزما خاموش ہوجائیںگے۔
ہمارے رہنما اپنی انتخابی مہم بڑی بے جگری اور دلیری سے چلا رہے ہیں۔ بغیر فول پروف سکیورٹی کے جلسے کرنا خطرات سے خالی نہیں۔ حکومت تو اپنے پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار کی حفاظت نہ کرسکی جن کے سپرد بینظیر بھٹو اور شدت پسندوں کے حساس ترین کیس تھے۔ قائدین خود کو دہشت گردوں، اپنے اور پرائیوں کیلئے آسان نشانہ نہ بنیں۔ بہترہے کہ مہم کو میڈیا تک محدود کردیں۔ ہمارے قائدین جیسے بھی ہیں ہمارے اپنے ہیں۔ گو انکے پیٹوں میں قومی و ملکی اثاثے سما گئے ہیں لیکن بالآخریہ ہمارااثاثہ ہیں۔ان کا امتحان الیکشن کے بعد شروع ہوگا اسکی تیاری بھی کریں۔ملکی حالات بہت سے خطرات اور خدشات کی طرف اشارہ کرتے ہیںچند ماہ قبل تک لوگ فوج کو دبے دبے الفاظ میں پکارنے لگے تھے‘ اب انکی امیدیں سیاست دانوں سے وابستہ اور برملا کہہ رہے ہیں ”ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔ سیاستدانوں کی کارکردگی سے ایک بار مایوس ہوئے تو فوج کو سر پر بانہہ رکھ کر نجات کیلئے صدائیںدینگے یہ نجات کی نہیںمزید آفات کی ”شُبھ“ گھڑی ہوگی۔


Thursday, May 2, 2013

اسامہ کی دوسری برسی........ حقائق ہنو ز پوشیدہ


 اسامہ کی دوسری برسی........ حقائق ہنو ز پوشیدہ

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
03 مئی 2013 0
 اسامہ بن لادن کی زندگی کا سورج سعودی عرب میں طلوع ہو کر،افغانستان میں نصف النہار پر رہا اور بالآخر 2مئی 2011 ءکو پاکستان میں غروب ہوگیا۔ سعودی شیخ راہِ راست پر تھے یا گمراہ،اس پر دورائے ہوسکتی ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک چوتھائی صدی تک وہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ عالمی سطح پر اسامہ کی شخصیت کی طرح ان کی موت بھی متنازعہ ہے بلکہ بہت سے لوگ تو یہ ماننے کو بھی تیار نہیں کہ اسامہ 2مئی کے اپریشن میں مارے گئے تھے۔ امریکہ بھی اس اپریشن میںاسامہ کی شہادت یا ہلاکت کے واضح ثبوت دنیا کے سامنے نہ لاسکا۔ اپریشن کے فوری بعد میڈیا کو جو تصویر جاری کی گئی وہ کئی سال پرانی اور مغربی میڈیا میں شائع ہوچکی تھی پھر جس طرح نعش کو ٹھکانے لگانے کیلئے سمندر بُرد کیا گیا، اگر ایسا کیا گیا ،تو یہ بھی ایک شرمناک اقدام تھا جس کی کوئی مذہب اور مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔ امریکی تو خود کودنیا کی اعلیٰ مخلوق اور مہذب ترین قوم سمجھتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا وہ ان کی حمایت میں تھا یا مخالفت میں، اس پر یقین کرنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔ چند روز قبل سپریم کورٹ میں وزارت اطلاعات نے یہ انکشاف کیا کہ وہ کئی لکھاریوں سے طالبان کیخلاف بھاری ادائیگیاں کرکے آرٹیکل لکھواتے رہے ہیں۔ اب جو لوگ ایسے کالموں سے متاثر ہوئے، انکی طالبان القاعدہ یا اسامہ کے بارے میں سوچ کو کیا نام دیاجائے، گمراہ کن یا بھوت سوچ؟
 اسامہ بن لادن کسی اور کے ہیرو تھے یا نہیں ،امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اس وقت ہیرو ضرور تھے جب وہ امریکی گن پکڑ کر ان کے حریف سوویت یونین کے مقابل کھڑے تھے۔ وہ جس جذبے کے تحت روس کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔ حالات کے پلٹا کھانے پر اسی جذبے کے تحت انہوں نے امریکہ کی دی گئی گن امریکہ پر ہی تان لی۔ ان کی سوچ میںجس لمحے تبدیلی آئی اسی لمحے امریکہ کی نظر میں مجاہد سے دہشت گرد ہوگئے۔ پاکستانی حکمران چونکہ امریکہ کی آنکھوں سے دیکھتے اور اسی کے کانوں سے سنتے ہیں بشرطیکہ کڑکتے ہوئے سبز ڈالروں کی خوشبو کی لپٹیں آتی رہیں اسی لئے اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ پاکستان کی طرف سے وہی سلوک ہوا جو امریکہ چاہتا تھا۔ سبز ڈالر تو ہمارے حکمرانوں کیلئے قومی سلامتی، سالمیت اور وقار پر بھی بھاری پڑ جاتے ہیں۔ ڈرون حملے اور 2مئی کو ایبٹ آباد اپریشن پر خاموشی اسی کا شاخسانہ ہے۔ نائن الیون کے بعد پاک سرزمین کو امریکی جنگ میں مکمل طورپر جھونک دیا گیالیکن امریکہ نے ایبٹ آباد اپریشن پرپاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا۔ قوم کو کم از کم یہی بتایا گیا ہے ۔ البتہ اپریشن کی رات ایوانِ صدر سے لکھے گئے مضمون اور اُس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے اپریشن پر امریکہ کو مبارکباد اور خوشی کا اظہار کسی اور ہی داستان کا مظہر ہے ۔ پھر جسٹس(ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں جو کمشن بنایا گیا تھا اس کی رپورٹ بھی حمود الرحمان رپورٹ کا روپ دھار کر معمہ بن گئی ہے ۔
اسامہ کی سرگرمیوں کے باعث پوری نہیں تو آدھی دنیا ضرور ہل کر رہ گئی تھی۔ اس کے پیچھے بظاہر تو نائن الیون کا سانحہ ہے لیکن دراصل دنیا میں جہانبانی کی امریکی سوچ ہی کارفرما ہے جو اسامہ جیسے کردار تخلیق کرتی ہے۔ ویسے بھی نائن الیون کو خود امریکی میڈیا اور کئی کانگریس مین اسرائیل کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔
اسامہ بن لادن بلاشبہ ہمیشہ متنازعہ رہیں گے۔ ایبٹ آباد اپریشن کے حقائق تو سامنے آنے چاہئیں۔ البتہ اس میں اگر ایسا کچھ ہے جس سے قومی سلامتی متاثر ہوسکتی ہے، پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے تو اس کی ایک مدت مقرر کردی جائے کہ پندرہ سال ،بیس سال یا پچاس سال بعد منظر عام پر لائی جائے گی۔ یہاں ماتا ہری کا تذکرہ بر محل نظر آتا ہے ۔ اس کا اصل نام مارگریتھا جیرٹ روئی ڈازیلے تھا۔ولندیزی انڈونیشی مخلوط النسل رقاصہ بنیادی طور پر جرمنی کی جاسوسہ تھی لیکن نہایت چالاکی سے فرانس اور جرمنی کی جاسوسی دونوں دشمن ممالک کے لیے کرنے لگی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس نے فرانسیسی اور اتحادیوں کے اہم جنگی راز جرمنوں تک پہنچائے۔ فرانسیسیوں کو اس کی اصلیت معلوم ہوئی تو اسے انجام تک پہنچا دیا۔ماتا ہری جب لبادہ کھول دیتی تو اس سے فرانسیسی افواج کو یہ اشارہ ملتا کہ جرمن فوج فرانس پر ٹینکوں سے حملہ کرنے والی ہے اور اگر وہ جسم کے کسی اور کپڑے کو اتار کر ہوا میں بلند کر دیتی اور اس سے یہ اشارہ ملتا کہ جرمن فوجیں ہوائی حملہ کرنے والی ہیں۔ اس کا ٹرائل ہوا، سزا سنائی گئی اور اپنے دور کی ہوشربا حسینہ اور دلربا رقاصہ کو پھانسی لگادی گئی،ٹرائل میں جو کچھ ہوا‘ وہ دنیا کے سامنے نہیں لایا گیا۔ اُس رپورٹ کے افشاءکیلئے 100سال کا عرصہ مقرر کیا گیا جو چند سال بعد2017 میں پورا ہونیوالا ہے۔
 ہمارے حکمران بھی ایبٹ آباد اپریشن کی تحقیقات اوپن کرنے کے سوسال ہی مقرر کر دیں تاکہ لوگ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے انتظار کے عذاب سے نکل آئیں۔