About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, May 2, 2013

کون ۔۔۔جیتے گا؟


کون ۔۔۔جیتے گا؟

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
30.4.13 
ہمارے ہاں جماعت اسلامی ،جے یو آئی ، جے یو پی اور دیگر مذہبی جماعتو ں کو رائیٹسٹ اور پیپلزپارٹی ،ایم کیو ایم،اے این پی و قومیت پرست جماعتوں کو لیفٹسٹ یعنی بالترتیب دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں کہا جاتا ہے۔مسلم لیگی دھڑوں کو ان کے عمومی مذہبی رجحان کے باعث دائیں بازو میں شمار کیاجاتا ہے۔تحریک انصاف کے رجحانات کو دیکھ کر یہ لیفٹسٹ بھی ہے اور رائیٹسٹ بھی۔ دوسرے لفظوںمیں یہ لیفٹسٹ ہے نہ رائیٹسٹ، ہومیوپیتھک سی ہے لیکن آج کے انتخابات میں اس کا کردار اہم ہوا، پھر اہم تر اوراب اہم ترین ہو رہا ہے ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرح پی ٹی آئی بھی اقتدار میں آنے کی دعویدار ہے۔ نواز لیگ اور پی پی اپنی کارکردگی، دعووں اور وعدوں کے بل بوتے پر انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی زنبیل میں ماضی کی کارکردگی کی جادوگری تو موجود نہیں البتہ دعووں اور وعدوں سے تو اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ آج دنیا کی نظریں انہی تین پارٹیوں پر لگی ہیں۔ تینوں نے انتخابی میدان میں اپنے اپنے گھوڑے اتارے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی جلسے جلوسوں کے تکلف میں نہیں پڑی۔ اس نے خود زحمت کی نہ کارکنوں کو تکلیف دی۔ میڈیا میں زوردار انتخابی مہم کا اہتمام و انتظام کر دیا۔ پیپلزپارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے مضبوط دلائل ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت سمجھتی ہے کہ اس کا جیالا اس سے کبھی مایوس نہیں ہوا، اس کو پارٹی کارکردگی کی پروا نہیں، جیالوں کا ووٹ تو پکا ہے۔ گویا جیالے باشعور نہ ہوئے دولے شاہ کے چوہے ہو گئے کہ کارکردگی جانچے بغیر بھٹوز کے نام لینے والوں پر بھی مہربان ہی رہیں گے۔ بہرحال اس میں شک نہیں کہ 70 ہزار خاندان جن کو ایک ہزار روپیہ ماہوار بینظیر سپورٹ سکیم سے ملتا ہے وہ انتخابات میں پیپلز پارٹی سے اپنی ممنونیت کا اظہار کر سکتے ہیں۔ پسماندہ طبقات کے لئے یہ بھی اطمینان بخش رقم ہے جو دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں دگنی کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ 85 فیصد آبادی بالواسطہ اور بلاواسطہ کاشت کاری سے منسلک ہے۔ گندم کی قیمت 425 سے 12 سو روپے من کرکے اس آبادی کو کسی نہ کسی طور پر فائدہ پہنچایا گیا۔ گندم کی قیمت میں اس قدر اضافہ کبھی نہیں ہوا۔ بجلی کا اپنا پیدا کردہ بحران پیپلز پارٹی نے اشتہاری مہم کے ذریعے ن لیگ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ ہر ووٹر پی پی پی کی پھرتیوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ آصف علی زرداری خود کو سیاست سے الگ رکھنے میں اس لئے مجبور ہوئے کہ ان کو اپنی پارٹی کی طاقت کا سہارا نہیں رہا تھا۔ جب تک ان کی پارٹی حکومت میں تھی تو انہوں نے ”کون سی اور کہاں کی عدلیہ“ والا رویہ اختیارکئے رکھا۔ اب نہ جانے اپنی پارٹی کو جتانے کی کیاحکمت عملی طے کئے بیٹھے ہیں۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ چیف الیکشن کمشنر سمیت پورا الیکشن کمشن، نگران وزیراعظم، چاروں وزرائے اعلیٰ اور گورنرز ان کے تراشیدہ ہیں۔ بکھرتی اورسکڑتی ق لیگ کا ساتھ بھی پیپلز پارٹی کیلئے سودمند ہے۔ سنا ہے ان کی آزاد امیدواروں پر بھی نظر ہے۔ مسلم لیگ ن کے کامیابی کے دعوﺅں میں بڑی جان ہے۔ اس کو سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی غلطیوں کرپشن اور طرح طرح کے جنم دیئے گئے بحرانوں سے ہوا، یہ مسلم لیگ ن کی خوش قسمتی رہی۔ ساتھ ہی بدقسمتی رہی کہ پانچ سال میں زیادہ عرصہ پی پی پی کا اتحادی بنے رہے، اس کی عوام کش پالیسیوں پر شدید ردعمل ظاہر نہ کرکے عمران خان کےلئے پذیرائی کے در وا کردیئے جس سے ن لیگ کے دو تہائی اکثریت کے خواب چکنا چورہو گئے۔ بہرحال سستی روٹی، آشیانہ، دانش سکول سکیمیں، لیب ٹاپس، سولر یونٹس کی تقسیم، میٹرو بس کا اجرا، ان کی ڈینگی اور جعلی ادویات سے اموات کے اندوہناک سانحات کو چھپانے اور انتخابات میں سادہ اکثریت سے کامیابی کی راہ ہموار کر سکتی ہیں البتہ دوسرے درجے کی قیادت کا کہنا ہے کہ پہلے قائدین کی گردن میں سریا تھااب گاڈر آ گیا ہے لیکن اس سے ووٹر کا کوئی لینا دینا نہیں۔ وہ کارکردگی دیکھتا ہے جو مقابلتاً اور نسبتاً بہت بلکہ بہت ہی بہتر رہی۔ ن لیگ کو رائٹسٹ پارٹی سمجھا جاتا ہے اور معصوم لوگ اس پارٹی سے نفاذ اسلام کی توقع رکھتے ہیں اس پر غور کئے بغیر کہ ”سیکولر“ ذوالفقار علی بھٹو نے جنوری 1977ءکو جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا۔ اس پر عمل یکم جولائی کے بعد پہلے جمعہ کو ہوا۔ جمعہ کی چھٹی کا خاتمہ میاں نواز شریف نے 23 فروری 1997ءکو اپنے دوسرے دور اقتدار میں کیا ۔ عمران خان کی سیاست کی حیثیت راکھ میں چھپی چنگاری سے زیادہ نہیں تھی جسے پیپلز پارٹی کی حکومت کی عوام کُش پالیسیوں اور ان پالیسیوںکو، ن لیگ کی طرف سے نظرانداز کرنے پر شعلہ بنا دیا اور اب اسے الاﺅ بنانے میں مسلم لیگ ن ذمہ دار اور سزاوار ہے۔ کل کیا ہوگا، وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ عمران خان خود کو شریف زادوں کے مقابل لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس میں بھی ن لیگ کی قیادت کا ہاتھ ہے۔ ایسا ہی پیپلز پارٹی نے کرکے میاں صاحب کو 88ءکے بعد بہت بڑالیڈر بنا دیا تھا۔ آج پی ٹی آئی اور ن لیگ کے جلسوں میں ایک دوسرے کے ہی لَتے لئے جا رہے ہیں۔ ایسا کرنا تحریک انصاف کی ضرورت اور ن لیگ کی حماقت ہے۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے جلسوں میں پی پی پی کے لئے کبھی کبھار ہلکی پھلکی موسیقی سنائی دیتی ہے۔ 2008ءکے انتخابات میں ن لیگ انتخابات لڑنے نہ لڑنے کے مخمصے میں رہی۔ پھر انتخابات میں پی پی پی کیساتھ بھائی چارہ نمایاں تھا۔ جنرل مشرف کی پروردہ ق لیگ ایک بار عروج پر نظر آئی۔ ایسے میں میاں شہباز شریف ڈارک ہارس ثابت ہوئے۔ ق لیگ کو ہی نقب لگا کر وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اب عمران خان بھی ڈارک ہارس کی پوزیشن میں آتے دکھائی دیتے ۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے مابین کیل کانٹے کا مقابلہ ہے۔ تینوں کے پاس اپنی اپنی کامیابی کے مضبوط دلائل اور دعوے ہیں۔ کوئی بھی پارٹی جیت سکتی ہے۔ آج انتخابی مہم کو غیر شائستہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر 88ءسے 99ءتک کی سیاست اور انتخابی مہموں کا جائزہ لیںتو جب character assesination کی جاتی ،خواتین کی برہنہ تصاویر جہازوں سے گرائی جاتیں۔ ایک سے ایک نیا سکینڈل سامنے لایا جاتا تھا۔ آج کی انتخابی مہم میں لیڈروں کی زبان ذرا تلخ ہو جاتی ہے لیکن اخلاقیات کی حدود کسی نے عبور نہیں کیں۔ امریکی انتخابات میں بش سینئر اتنا سٹپٹائے کہ کلنٹن کے بارے میں کہا ، اس سے زیادہ خارجہ پالیسی تو میرا کتا جانتا ہے۔ ہمارے لیڈر اس حد تک نہیں گئے۔ انتخابی مہم کے بعد امید ہے کہ ہلکی پھلکی فقرہ بازی بھی نہیں ہو گی۔

No comments:

Post a Comment