About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, May 2, 2013

اسامہ کی دوسری برسی........ حقائق ہنو ز پوشیدہ


 اسامہ کی دوسری برسی........ حقائق ہنو ز پوشیدہ

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
03 مئی 2013 0
 اسامہ بن لادن کی زندگی کا سورج سعودی عرب میں طلوع ہو کر،افغانستان میں نصف النہار پر رہا اور بالآخر 2مئی 2011 ءکو پاکستان میں غروب ہوگیا۔ سعودی شیخ راہِ راست پر تھے یا گمراہ،اس پر دورائے ہوسکتی ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک چوتھائی صدی تک وہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ عالمی سطح پر اسامہ کی شخصیت کی طرح ان کی موت بھی متنازعہ ہے بلکہ بہت سے لوگ تو یہ ماننے کو بھی تیار نہیں کہ اسامہ 2مئی کے اپریشن میں مارے گئے تھے۔ امریکہ بھی اس اپریشن میںاسامہ کی شہادت یا ہلاکت کے واضح ثبوت دنیا کے سامنے نہ لاسکا۔ اپریشن کے فوری بعد میڈیا کو جو تصویر جاری کی گئی وہ کئی سال پرانی اور مغربی میڈیا میں شائع ہوچکی تھی پھر جس طرح نعش کو ٹھکانے لگانے کیلئے سمندر بُرد کیا گیا، اگر ایسا کیا گیا ،تو یہ بھی ایک شرمناک اقدام تھا جس کی کوئی مذہب اور مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔ امریکی تو خود کودنیا کی اعلیٰ مخلوق اور مہذب ترین قوم سمجھتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا وہ ان کی حمایت میں تھا یا مخالفت میں، اس پر یقین کرنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔ چند روز قبل سپریم کورٹ میں وزارت اطلاعات نے یہ انکشاف کیا کہ وہ کئی لکھاریوں سے طالبان کیخلاف بھاری ادائیگیاں کرکے آرٹیکل لکھواتے رہے ہیں۔ اب جو لوگ ایسے کالموں سے متاثر ہوئے، انکی طالبان القاعدہ یا اسامہ کے بارے میں سوچ کو کیا نام دیاجائے، گمراہ کن یا بھوت سوچ؟
 اسامہ بن لادن کسی اور کے ہیرو تھے یا نہیں ،امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اس وقت ہیرو ضرور تھے جب وہ امریکی گن پکڑ کر ان کے حریف سوویت یونین کے مقابل کھڑے تھے۔ وہ جس جذبے کے تحت روس کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔ حالات کے پلٹا کھانے پر اسی جذبے کے تحت انہوں نے امریکہ کی دی گئی گن امریکہ پر ہی تان لی۔ ان کی سوچ میںجس لمحے تبدیلی آئی اسی لمحے امریکہ کی نظر میں مجاہد سے دہشت گرد ہوگئے۔ پاکستانی حکمران چونکہ امریکہ کی آنکھوں سے دیکھتے اور اسی کے کانوں سے سنتے ہیں بشرطیکہ کڑکتے ہوئے سبز ڈالروں کی خوشبو کی لپٹیں آتی رہیں اسی لئے اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ پاکستان کی طرف سے وہی سلوک ہوا جو امریکہ چاہتا تھا۔ سبز ڈالر تو ہمارے حکمرانوں کیلئے قومی سلامتی، سالمیت اور وقار پر بھی بھاری پڑ جاتے ہیں۔ ڈرون حملے اور 2مئی کو ایبٹ آباد اپریشن پر خاموشی اسی کا شاخسانہ ہے۔ نائن الیون کے بعد پاک سرزمین کو امریکی جنگ میں مکمل طورپر جھونک دیا گیالیکن امریکہ نے ایبٹ آباد اپریشن پرپاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا۔ قوم کو کم از کم یہی بتایا گیا ہے ۔ البتہ اپریشن کی رات ایوانِ صدر سے لکھے گئے مضمون اور اُس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے اپریشن پر امریکہ کو مبارکباد اور خوشی کا اظہار کسی اور ہی داستان کا مظہر ہے ۔ پھر جسٹس(ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں جو کمشن بنایا گیا تھا اس کی رپورٹ بھی حمود الرحمان رپورٹ کا روپ دھار کر معمہ بن گئی ہے ۔
اسامہ کی سرگرمیوں کے باعث پوری نہیں تو آدھی دنیا ضرور ہل کر رہ گئی تھی۔ اس کے پیچھے بظاہر تو نائن الیون کا سانحہ ہے لیکن دراصل دنیا میں جہانبانی کی امریکی سوچ ہی کارفرما ہے جو اسامہ جیسے کردار تخلیق کرتی ہے۔ ویسے بھی نائن الیون کو خود امریکی میڈیا اور کئی کانگریس مین اسرائیل کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔
اسامہ بن لادن بلاشبہ ہمیشہ متنازعہ رہیں گے۔ ایبٹ آباد اپریشن کے حقائق تو سامنے آنے چاہئیں۔ البتہ اس میں اگر ایسا کچھ ہے جس سے قومی سلامتی متاثر ہوسکتی ہے، پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے تو اس کی ایک مدت مقرر کردی جائے کہ پندرہ سال ،بیس سال یا پچاس سال بعد منظر عام پر لائی جائے گی۔ یہاں ماتا ہری کا تذکرہ بر محل نظر آتا ہے ۔ اس کا اصل نام مارگریتھا جیرٹ روئی ڈازیلے تھا۔ولندیزی انڈونیشی مخلوط النسل رقاصہ بنیادی طور پر جرمنی کی جاسوسہ تھی لیکن نہایت چالاکی سے فرانس اور جرمنی کی جاسوسی دونوں دشمن ممالک کے لیے کرنے لگی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس نے فرانسیسی اور اتحادیوں کے اہم جنگی راز جرمنوں تک پہنچائے۔ فرانسیسیوں کو اس کی اصلیت معلوم ہوئی تو اسے انجام تک پہنچا دیا۔ماتا ہری جب لبادہ کھول دیتی تو اس سے فرانسیسی افواج کو یہ اشارہ ملتا کہ جرمن فوج فرانس پر ٹینکوں سے حملہ کرنے والی ہے اور اگر وہ جسم کے کسی اور کپڑے کو اتار کر ہوا میں بلند کر دیتی اور اس سے یہ اشارہ ملتا کہ جرمن فوجیں ہوائی حملہ کرنے والی ہیں۔ اس کا ٹرائل ہوا، سزا سنائی گئی اور اپنے دور کی ہوشربا حسینہ اور دلربا رقاصہ کو پھانسی لگادی گئی،ٹرائل میں جو کچھ ہوا‘ وہ دنیا کے سامنے نہیں لایا گیا۔ اُس رپورٹ کے افشاءکیلئے 100سال کا عرصہ مقرر کیا گیا جو چند سال بعد2017 میں پورا ہونیوالا ہے۔
 ہمارے حکمران بھی ایبٹ آباد اپریشن کی تحقیقات اوپن کرنے کے سوسال ہی مقرر کر دیں تاکہ لوگ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے انتظار کے عذاب سے نکل آئیں۔

No comments:

Post a Comment