شہباز وزیرِ داخلہ
محمدشاہ تغلق کو
بیوقوف بادشاہ کہا جاتا ہے۔اس نے دِلّی کی بجائے دولت آباد(دکن)کوپایہ تخت
بنانے کا ارادہ کرلیا تو دلّی والوں کو حکم ہوا کہ جلد از جلد دلّی خالی
کرکے دولت آباد میںجابسیں۔ تین دن کے اندر اندر دلّی کو خالی نہ کرنے والوں
کے قتل کا حکم جاری ہوا۔ ایک نابینا معذوری کے باعث دلی سے نہ نکل سکا۔ اس
کیلئے حکم دیا کہ اسکی ایک ٹانگ میں رسّی باندھ کر اسے دولت آباد گھسیٹ کر
لے آیا جائے۔ راستے میں نابینا کے جسم کے پرخچے اُڑگئے اور رسّی کے ساتھ
بندھا صرف ایک پاﺅں ہی دولت آباد پہنچ سکا۔ کچھ عرصہ کے بعد سلطان کو احساس
ہوا کہ دلّی کو ویران کرکے اس نے حماقت کی اور پھر دلّی کو دوبارہ آباد
کرنے کیلئے رعایا کو واپسی کا حکم دیا۔اس سب کے ساتھ وہ ایک انصاف پرور
حکمران تھا۔ایک مرتبہ سرِ راہ ایک لڑکا بے دھیانی میں بادشاہ سے ٹکرا گیا۔
اس حرکت پر غصہ میں لڑکے کو چھڑی سے پیٹ ڈالا۔لڑکا روتا ہوا عدالت پہنچا۔
قاضی "القضاة" نے بادشاہ کو عدالت میں بلوایا۔ تغلق نے جرم تسلیم کر
لیا۔قاضی نے بادشاہ کو ایک دن کی مہلت دی کہ کل تک اس لڑکے کو راضی کرلو
"ورنہ قصاص کےلئے تیار ہو جاو¿" لڑکا کسی طرح رضامند نہ ہواتودوسرے دن قاضی
کے حکم پر لڑکے نے بادشاہ کے جسم پر اکیس بید مارے۔سلطان غیاث الدین
1366ءمیںبنگال کا حاکم بنا۔ایک دن تیز اندازی کی مشق ہورہی تھی۔ ناگاہ ایک
تیر غریب عورت کے بچے کو لگا اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔عورت قاضی
شہرقاضی سراج الدین کی عدالت میں پیش ہو گئی۔ قاضی نے بپتا سنی ۔کچھ دیر
کسی سوچ میں پڑ گئے اور پھر ایک درہ مسند قضا کے نیچے چھپا کررکھ دیا۔سلطان
وقت کو طلب کر لیا گیا۔طلبی پرسلطان فوراً اٹھا ایک چھوٹی سی تلوار بغل
میں چھپا کر عدالت کی طرف چل پڑا۔ قاضی سراج الدین کے سامنے پیش ہوا، قاضی
صاحب نے تعظیم توکجا سلطان کی طرف التفات تک نہ کیا۔ سلطان غیاث الدین پر
قتل کا جرم ثابت ہوگیا ۔از روئے قانون شر یعت سلطان کو قصاص میں قتل کرنے
کی سزا سناد ی گئی۔ البتہ خاتون کو معافی کا اختیار دیا گیا۔ قاضی صاحب
فیصلہ سنانے کے بعد اس انتظار میں تھے کہ اگر فریقین کے بیچ شریعت میں دی
گئی رعایت کے پیش نظر کوئی سمجھوتہ ہوتا ہے تو ٹھیک‘ نہیں تو سورج ڈوبنے سے
پہلے سلطان کو جلاد کے حوالے کردیا جائے۔
سلطان کی لاچاری اور کسمپرسی
کو دیکھ کر یکایک خاتون کا دل بھرآیا اور اس نے خون بہا کے عوض سلطان کو
معاف کردیا۔مقدمے سے فراغت کے بعد قاضی سراج الدین نے خندہ پیشانی سے سلطان
کی تعظیم کی۔ سلطان نے بغل میں چھپائی ہوئی تلوار نکالی اور بولا ''قاضی
صاحب میں شریعت کی پابندی کی خاطر آپ کے پاس حاضر ہوا۔ اگر آپ قانونِ شریعت
کی سرمو خلاف ورزی کرتے تو اس تلوار سے آپ کی گردن اڑا دیتا۔''۔ قاضی شہر
قاضی سراج الدین نے مسند کے نیچے چھپایا ہوا دُرہ نکالا اور فرمایا'' اے
سلطان! اگر آ ج آپ شریعت کی حد سے ذرا بھی تجاوز کرتے تو اس دُرے سے آپ کی
کھال اُتار دیتا…حجاج بن یوسف کی سفاکیت اپنی جگہ لیکن اسکی انتظامی
صلاحیتوں کا اعتراف ایک زمانہ کرتا ہے ۔اس اپنی گورنری کے دوران تمام
بغاوتوں کو کچل کر کھ دیا اور اس کی موت کے طویل عرصہ بعد بھی با غیوں اور
بغاوتوں نے سر نہ اُٹھایا۔
عوام کی بھاری اکثریت نے 11 مئی 2013ءکے
الیکشن میں میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ کو تخت و تاج کا حقدار و
سزاوار ٹھہرایا۔ انکے سامنے گذشتہ حکومت کے چھوڑے ہوئے بحرانوں‘ مشکلات اور
مصائب کی بھرمار ہے۔ نیت صاف ،ارادے پختہ اور کچھ کر گزرنے کا عزم ہو تو
مسائل کی حیثیت غبارراہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت وزارتیں
اور عہدے بیچنے اور نواز لیگی قیادت نوازشات و عنایات کی برسات کی شہرت
رکھتی ہے۔ میرٹ کی شہ رگ پر دونوں طرح سے انگوٹھا آجاتا ہے۔ یقیناً فطرت تو
نہیں بدل سکتی تاہم بہت کچھ گرم سرد دیکھنے‘ جیل اور جلاوطنی کی صعوبتیں
برداشت کرنے کے بعد لیگی قائدین کی سوچ اور عادتوں میں مثبت تبدیلی ضرور
آئی ہو گی۔ تعلیم بڑھنے‘ سٹیٹس بدلنے اور عمر ڈھلنے کے ساتھ انسان کے اندر
تبدیلی کا آنا فطری امر ہے۔
میاں نواز شریف کو سب سے پہلے مبارک باد
الطاف حسین نے دی لیکن مبارک باد کے دودھ میں لیموں نچوڑ دیا۔ ن لیگ کو
پنجابیوں کی پارٹی قرار دیا۔ سندھ کے بڑے شہروں تک کامیابی حاصل کرنے والی
متحدہ قومی موومنٹ تو قومی پارٹی ہے اور چاروں صوبوں میں نمائندگی رکھنے
والی صرف پنجابیوں کی پارٹی! متحدہ نے اپنی مقبولیت برقرار رکھی‘ اس پر اسے
مبارک، لیکن الطاف بھائی نواز لیگ کو صرف پنجابیوں کی پارٹی قرار دے کر
زیادتی کر گئے۔ عمران خان نے خندہ پیشانی سے شکست تسلیم کی لیکن ساتھ ہی
دھاندلی کے غوغا نے ان کو روایتی سیاستدان ثابت کر رہا ہے۔ لاہور سے پی ٹی
آئی صرف ایک سیٹ جیت سکی یہ وہی حلقہ ہے جس میں خان صاحب لفٹر سے گر ے۔
عمران خان جس حلقے میں گرے‘ وہاں کے لوگوں نے پی ٹی آئی کو اٹھا لیا جبکہ
باقی شہر سے ”گرا“دیا۔ انتخابات میں در اصل پی ٹی آئی کو شکست نہیں ہوئی،
اس کی کامیابی کا سفر شروع ہوا ہے۔ اسے جو ووٹ ملا اس میں زیادہ تر سیلف
موٹیویٹڈ تھا۔ اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی ووٹر کو موٹیویٹ کرے تو بہتر
نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
نواز لیگ کی کامیابی میں اسکی کارکردگی قائدین
کی انتھک مہم‘ کارکنوں کی دن رات کی محنت اور قلماروں کی بوقلمیوں کا بڑا
عمل دخل ہے۔ میاں صاحب سپورٹروں‘کارکنوں اور قلمکاروں کو انعام ضرور دیں جس
کے وہ بجا طور پر حقدار ہیں۔ ان کو جائیدادیں دیں، کوٹھیاں کاریں دے دیں۔
مشیر سفیر بنا کر سرکاری عہدے بانٹ کر میرٹ کا جنازہ نہ نکالیں۔ عوام نے ن
لیگ پر اعتماد قائدین کی شکلیں دیکھ کر نہیں کیا‘ بلکہ انکی پچھلے پانچ سال
کی کارکردگی پیش نظر تھی۔ ن لیگ کے پاس ہر شعبہ کے ماہرین موجود ہیں ان کو
میرٹ پر آگے لایا گیا تو یقیناً مسلم لیگ پاکستان بدلنے میں کامیاب ہو
جائیگی جس کا انتخابات کے دوران وعدے کیے گئے ۔
آج ملک و قوم کو درپیش
مشکلات کی بھر مار ہے۔ ان مسائل کی جڑ کرپشن اور دہشت گردی ہے۔ کرپشن جس کا
بہترین حل صرف اور صرف انصاف کی فراہمی اور فراوانی ہے۔ عدالتیں اسی طرح
آزاد اور بااختیار ہوں جس طرح محمد شاہ تغلق کے دور میں تھیںتو کرپشن کا
جڑوں سے خاتمہ ہو سکتا ہے۔اس کیلئے ن لیگ کو عدالتوں پر یلغار کا کلچر
بدلنا ہوگا۔ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے حجاج بن یوسف جیسے سخت گیر وزیر
داخلہ کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ ن میں ایسی بظاہر ایک ہی شخصیت نظر آتی ہے وہ
میاں شہباز شریف ہیں۔ ان میں سرکشوں کو زبان سے سمجھانے اور ڈنڈے سے منانے
کرراہ راست پر لانے کی حجاج صلاحیت اور قابلیت موجود ہے ۔ وہ ان علاقوں کی
بہترین سرجری کر سکتے ہیں جو دہشت گردی کے ناسوربن چکے ہیں۔ کراچی میں چند
ہفتوں میں امن قائم اور بلوچستان میں معاملات درست ہو سکتے ہیں۔ کراچی کی
بھیانک تصویر بنتی نظر آرہی ہے ۔کراچی کی روشنیاں شہباز جیسا منتظم ہی لوٹا
سکتا اور اسے پاکستان سے الگ ہونے سے بچا سکتا ہے ۔ انکے وزیر داخلہ بننے
سے پنجاب لاوارث نہیں ہو گا۔ پالیسی تو قیادت ہی کی چلے گی۔ آپ کسی کو بھی
وزیراعلیٰ بنا دیں ۔خواہ رانا جمیل حسن گُڈ خان کو بنا دیں جو واحد امیدوار
تھے جن کو سپریم کورٹ نے صرف 5 روز قبل الیکشن لڑنے کی اجازت دی اور وہ
کامیاب ٹھہرے۔
No comments:
Post a Comment