About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, May 21, 2013

مسلم لیگ ہاؤس کی ملکیت



مسلم لیگ ہاؤس کی ملکیت - فضل حسین اعوان

اخبار کے صفحہ اول پر نمایاں تصویر پر نظر پڑی تو لگا کہ طالبان نے دلی کے لال قلعہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ تصور میں سیاہ اورگھنی داڑھی والا نوجوان قلعے کی چھت پر دونوں ہاتھوں میں بندوق تھامے فاتحانہ انداز میں الرٹ کھڑا ہے۔ کیپشن اور خبر پڑھی تو پتہ چلا کہ ہم خیال گروپ کی طرف سے رات کو لاہور میں مسلم لیگ ہا¶س پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ مشرف کے نوازشریف حکومت پر قبضے جیسا ہی مسلم لیگ ہا¶س یہ شب خون تھا۔ اس قبضے کے موقع پر ہم خیال گروپ جتھہ بندی کے عالم میں تھا جس نے بعد میں مسلم لیگ قائداعظم کا نام اختیار کیا۔ مسلم لیگ ہا¶س مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی سال ڈیڑھ سال نواز لیگ کی دسترس میں رہا۔ میرا اس عمارت میں دو مرتبہ جانا ہوا۔ ایک بار خواجہ سعد رفیق کے انٹرویو کیلئے، قبضہ سے چند ماہ قبل اور دوسری بار پرویز الٰہی کے ہم خیال گروپ کا صوبائی صدر منتخب ہونے کے موقع پر۔ہم خیال گروپ کی تشکیل کی پلاننگ زیادہ تر ہمایوں اختر کے گھر ہوئی۔ اس وقت اس گروپ کے سرخیل میاں اظہر تھے۔ ان کو ہم خیال گروپ کا صدر چنا گیا لیکن قبل ازیں چودھری پرویز الٰہی کا بطور صوبائی صدر انتخاب کر لیا گیا تھا۔ اس منطق کی وضاحت اندر کے لوگ ہی کر سکتے ہیں کہ مرکزی صدر سے قبل ایک صوبے کے صدر کے انتخاب کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
 مسلم لیگ ہا¶س پر قبضے کی خبرمیں بتایا گیا تھا کہ بے جگری اور دلیری سے یہ اقدام میاں اظہر اور چودھری برادران کے جانثاروں نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے کیا تھا۔ چھت پر میاں اظہر اور احاطے میں چودھریوں کے مجاہد سربکف تھے۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے پاکستان میں موجود رہنما اور کارکن مارشل لاءکے خوف سے کانپتے تھے۔ گھروں سے ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے نکلتے۔ ایک ہی دھاڑ اور بوٹ کی آواز پر ن لیگ سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے۔ میاں نواز شریف کا فرمان لیگیوں کی جرا¿ت اور جلال کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہے”آپ کہتے تھے قدم بڑھا¶ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں ،میں نے قدم بڑھایا تو پیچھے کوئی بھی نہیں تھا“ اُس وقت کے ہم خیال گروپ نے مجاہدوں اور گول بارود کا خوہ مخواہ اہتمام کیا۔ یہی کام اس وقت بوڑھی بیوہ کے ہاتھ میں جھاڑو تھما کر بھی کیا جا سکتا تھا۔ جھاڑو بردار خاتون کا قبضہ بھی اتنا ہی موثر اور مضبوط ہوتا جتنا درجنوں مسلح غنڈوں نے کیا تھا۔ ایسی ہی یلغار اسلام آباد پنڈی کے مسلم لیگ ہا¶س پر بھی کی گئی۔ دو روز قبل خواجہ سعد رفیق نے پی ٹی آئی کے دھرنوں کو شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ” ہم اس سے بڑے دھرنے دے سکتے ہیں“۔ بعض لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سیاست میں جوڑ توڑ کے بڑے ماہر ہیں ۔جو ڑ توڑطاقت کے بل بوتے پر ہوتا ہے۔ طاقت کی موج اقتدار کے دریا کے بل بوتے پر ہی لہراتی ہے اور بیرون دریا کچھ بھی موج مر مُک جاتی ہے۔ خواجہ صاحب بھی دھرنے اور مظاہرے اقتدار میں رہ کر ہی دے سکتے ہیں اقتدار کے بغیر حالت وہی جوہوتی ہے جو 12 اکتوبر99ءکے بعد تھی۔ 
2002ءکے انتخابات میں مسلم لیگ قائداعظم نے گرتے پڑتے حکومت بنا لی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتی گئی۔ حتیٰ کہ ملت پارٹی اور پیپلز پارٹی کے وفاداروں کا پیٹریاٹ گروپ بھی اس لیگ کا حصہ بن گیا۔ اس دوران مسروقہ مسلم لیگ ہا¶سز کی روشنیاں جلتی اور رونقیں بحال رہیں۔ 2008ءکے انتخابات میں مسلم لیگ (ق)کا زوال اور مسلم لیگ (ن) کا عروج شروع ہوا۔ ق لیگ کی بلوچستان اسمبلی میں واضح برتری تھی۔ ق لیگ میں جس طرح لوگ گھیر گھار کر لائے گئے تھے وہ اسی طرح بکھر کر اچھے کی تلاش میں نئے ٹھکانوں کی طرف چلے گئے۔ بلوچستان میں ق لیگ حکومت سازی سے قبل ہی بکھر گئی۔ سر سے چونکہ بوٹوں کا سایہ ہٹ چکا تھا اس لئے پنجاب میں ق لیگ کے پچاس کے قریب ارکان نے مسلم لیگ (ن) کے ثمر بار شجر کی ٹہنی پر آشیانہ بنا لیا۔ مسلم لیگ (ن)‘ (ق) لیگ کے پرندوں کے پروں سے پانچ سال اڑان بھرتی رہی۔البتہ طاقت کے باوجودبھی نواز لیگ نے مسلم لیگ ہا¶س کا قبضہ چھڑانے کی کوشش نہیں کی حالانکہ یہ کام بڑ ی آسانی سے ہو سکتا تھا۔پرویز الٰہی نے مسلم لیگ ہاوئسز کی شاہانہ طرز پر تعمیر وزیبائش کروا کے انہیں پُر شکوہ بنا دیا لیکن 2013ءکے الیکشن سے قبل مسلم لیگ ہا¶س ویرانیوں کے منظر پیش کرتے رہے۔ انتخابی مہم کے دوران بھی انکی روشنیاں گل اور رونقیں ماند رہیں۔ ق لیگ قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ پورے ملک سے قومی اسمبلی میں صرف دو تین سیٹیں برقرار رکھ پائی۔ اسکے پاس شاید مسلم لیگ ہا¶س میں بیٹھنے کیلئے عہدیدار ہی دستیاب نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ہا¶س یقیناً مسلم لیگ ہی کی ملکیت ہے۔ کس مسلم لیگ کی؟ یہاںتو درجنوں مسلم لیگیں ہیں۔ مسلم لیگی متحد تو نہیں ہو سکتے۔ ایک اصول تو طے کر لیں کہ مسلم لیگ ہا¶س کو کون استعمال کرے؟ اصولی طور پر اسکے پاس اسکی چابی ہونی چاہئے جو واضح اکثریت میں ہو۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت یا کل حاصل کردہ ووٹوں کو معیار بنا لیں۔ آج اس معیار پر نواز لیگ پورا اترتی ہے۔ کل یہی پوزیشن شجاعت لیگ بھی حاصل کر سکتی ہے ۔ اخلاق اور اصول کا تقاضا ہے کہ مسلم لیگ ہا¶س کا وقار اور رونقیں بحال کرنے کیلئے یہ اکثریت حاصل کروالی مسلم لیگ کے پاس ہو۔



 Nawaiwaqt  |   Published : 21-May-2013

No comments:

Post a Comment