About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, June 5, 2013

پرانا صدر ، نیا صدر

پرانا صدر ، نیا صدر

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
06 جون 2013
پرانا صدر ، نیا صدر
کل کے بادشاہ پر ویز مشرف آج جیل میں اور انکے قیدی نواز شریف تخت نشیں ہیں۔ یہ مکافاتِ عمل ہے یا تاریخ خود کو دُہرا رہی ہے،البتہ یہ اہل سیاست اور ریاست کیلئے مقامِ عبرت ضرورہے۔ بعینہ صدر آصف علی زرداری آج اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں 2008ءکے انتخابات کے بعد صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بے چارگی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ اُن انتخابات کے ساتھ ہی مسلم لیگ ق کے سینیٹرزاور ارکانِ اسمبلی آندھی میں ہاتھ سے چھوٹے ہوئے کرنسی نوٹوں کی طرح ایسے بکھرے کہ قیادت سمیٹنے کی کوشش میں دیوانہ ہو رہی تھی۔ زرداری صاحب نے مشرف کی تنہائی کو بھانپتے ہوئے جنرل (ر) اسد درانی کے ذریعے انکو جون میں صدارت سے الگ ہونے کا پیغام دیا۔ انکار پر مواخذہ کی دھمکی دی اور کارروائی شروع کردی۔مشرف کی زخم خوردہ ن لیگ اس موقع پر مدعی سے زیادہ چست نظر آئی۔ مشرف مواخذے کی دھمکی پر بڑا تلملائے لیکن نواز زرداری اتحاد کے سامنے سرنڈر کرتے ہی بنی ۔ آج آ صف علی زرداری کی پوزیشن مشرف کے اگست 2008ءکے مقابلے میں کہیں نازک ہے۔جہاں میں اپنے جیسے قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کی صدر کو عہدے سے ہٹانے کے عمل کو مواخذہ Impeachment اور وزیراعظم کیخلاف اسی عمل کو عدم اعتمادNo Confidence کہتے ہیں۔   18 اگست2008ءکو مشرف کے استعفے کے بعد آصف زرداری کا 6 ستمبر کو انتخاب ہو ا مقابلے میں ن لیگ کے سعیدالزمان صدیقی اور ق لیگ کے مشاہد حسین سید تھے۔ ق لیگ کے امید وار کو 44 ووٹ ملے حالانکہ ان کی صرف قومی اسمبلی میں 54اور سینٹ میں38 نشستیں تھیں۔ زرداری صاحب کو 702 الیکٹوریل ووٹوں میں سے481 ملے۔ صدر کیلئے حلقہ انتخاب ایوان بالاوزیریں اور چاروں صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ ارکان سینٹ قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے ممبران کا ایک ایک ووٹ جبکہ دیگر اسمبلیوں کے بلوستان اسمبلی کے برابر 65,65ووٹ ہیں۔ صدر کو اس میں سادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے ۔زرداری صاحب نے481 ووٹ حاصل کئے تھے۔لیکن اب انکی مشرف کی طرح ہی لُٹیا ڈوب چکی ہے۔ انکی مدت صدارت اسی سال چھ ستمبر کو ختم ہورہی ہے۔ ن لیگ جب چاہے ان کا مواخذہ کر سکتی ہے۔ اب زرداری کی صدارت مکمل طور پر ن لیگ کے رحم وکرم پرہے۔انتخاب کیلئے تو چاروں صوبائی اسمبلیاں صدر کے انتخابی کالج میں شامل ہیں‘ مواخذہ کیلئے ان کو تکلیف نہیں دی جاتی۔ مواخذہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں دو تہائی اکثریت سے کیا جاتا ہے جس کیلئے ایوان مکمل ہوں(قومی اسمبلی342جمع سینٹ 104 کل 446میں سے)298ووٹ درکا رہیں۔ سپیکراور ڈپٹی کیلئے ن لیگ کے امیدواروں ایاز صادق اورمرتضیٰ جاوید کو258 ، 258 ووٹ ملے۔15 ارکان نے اگلے دن حلف اُٹھایا اور ابھی کئی10 نشستوں پر انتخاب ہونا باقی ہے۔میاں نواز شریف کو244 ارکان کے اعتماد کا ووٹ ملا۔جاوید ہاشمی کو 31ووٹ ملے۔ سینٹ میں پیپلز پارٹی کو 41 نشستوں کے ساتھ اکثریت حاصل ہے جو ق لیگ کیطرح اقلیت میں تیزی سے بدل رہی ہے۔ سینٹ میں ن لیگ کی 14اور اس ساتھ چلنے والی پارٹیوں جے یو آئی ف ،فاٹا ،اے این پی اور آزاد ملا کر تعداد 45بن جاتی ہے۔مواخذے کی صورت میں پی ٹی آئی ن لیگ کا ساتھ دیگی یوں سکور مطلوبہ تعداد سے بڑھ جاتاہے ۔ سینٹ میں قائد ایوان فاروق ایچ نائک اور گورنربلوچستان ذوالفقار مگسی نے اصولی فیصلہ کرتے ہوئے اپنے عہدے چھوڑ دیئے۔ زرداری صاحب جب تک ممکن ہے استثنیٰ کی چھتری کا سایہ سر پر رکھنا چاہتے ہیں، ان سے مستعفی ہونے کی امید نہیں، اس کا وہ پُرزور طریقے سے اظہار بھی کرچکے ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف رواداری میں ان کو صدراتی مدت پوری کرنے دینگے۔ اگر زرداری صاحب کو ن لیگ نے مواخذے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود مدت پوری کرنے دی تو یہ رواداری نہیں‘قومی جرم کے مترادف ہوگا۔ میاں نواز شرف، انکی جماعت خصوصی طور پرچھوٹا شیر، آصف زرداری پر بدترین کرپشن کے الزام لگاتے ہوئے انکے پیٹ سے قومی خزانے کی لوٹی ہوئی پائی پائی نکلوانے کے دعوے کرتے اور نعرے لگاتے رہے ہیں۔ ان کو لاہور کے بھاٹی گیٹ میں گھسیٹنے کی بات بھی کی گئی تھی ۔کسی کو کہیں بھی گھسیٹنا غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے البتہ مواخذہ آئین اور قانون کے عین مطابق ہے۔کسی کی ہمالہ جیسی کرپشن سے صرفِ نظر کرنا کیاکرپشن کے فروغ سے کم ہے؟مواخذہ ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں جلد یا بدیر نواز لیگ اپنا صدر لائے گی ،اس کیلئے ابھی سے لابنگ شروع ہے۔ ن لیگ سے تعلق رکھنے والے آدھے سے زیادہ ارکان اسمبلی اپنے اباجی کو اس عہدے کیلئے موزوں سمجھتے ہیں۔ جلسوں اور تقریبات میں 80 سے 95سال کے اکابرین بھی شریف زادوں کے گرد گھومتے ہوئے تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ صدر بننے کا ان سے زیادہ کوئی اوراہل و حقدار نہیں۔میاں نواز شریف شیر ہیں، شیر ہیں! نوازشات کے وقت بے وفاﺅں کیلئے انکے اندر جمل کی خصوصی حس اکمل ہوجاتی ہے۔ بعض کو سرتاج عزیز کے آنگن میں صدارت کا چاند اترتا دکھائی دیتا ہے ۔انہوں کتاب"Between Dreams and Realities" لکھ کر اپنا آنگن بے نور کرلیا۔ سابق صدر کے دوبارہ اس عہدے پر تعیناتی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ نواز شریف کووزیر اعظم ہاﺅس سے ذلت و رسوائی سے نکالے جانے کے اگلے لمحے انکے صدر ایوان صدر چھوڑ دیتے تو وہ یقینا نواز شریف کے ایک بار پھر صدر ہوتے۔ زرداری کے مقابلے میں ن لیگ کے امید وار سعیدالزمان صدیقی نے153ووٹ حاصل کئے تھے۔ ان کو مخدوم امین فہیم کی طرح ہرانے کیلئے ہی نہیں رکھا ہوا۔ ان کا تعلق ویسے بھی سندھ سے ہے۔ وہ ججوں کی سائیکی سمجھتے اور ان میں اثرو رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ میاں نوا ز شریف کی نفسیات کو سمجھنے کے دعویدار تجزیہ نگار سعیدالزمان صدیقی کو ہی صدارت کا مضبوط امیدوار قرار دیتے ہیں۔ 

Monday, June 3, 2013

چالیس لاکھ مسلمانوں کو شہید کرنیکی بھارت برما سازش

چالیس لاکھ مسلمانوں کو شہید کرنیکی بھارت برما سازش

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
02 جون 2013 0


اس خبر نے سر سے پاﺅں تک ہلا کے رکھ دیا۔ ”میانمار میں 40لاکھ مسلمانوں کو شہید کرنے کا بھارتی منصوبہ بے نقاب ہو گیا۔ 300مساجد شہید ،1200 بستیاں نذر آتش کی جا چکی ہیں،ایک لاکھ مسلمانوں کوانسانیت کو شرما دینے والے طریقوں سے قتل کر دیا گیا “۔روح تک میں کپکپی طاری کردینے والی خبر کے ساتھ ہی مسلمانوں پر بُودھوں کے بہیمانہ مظالم کی دو درجن کے قریب تصاویر بھی موجودہیں۔انکے نیچے دئیے گئے کیپشن پڑھنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیںاور بدن میں ایک سنسنی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔” خواتین کے پیٹ چاک کرکے نکالے گئے بچوں کو جلایا جا رہا ہے ۔۔۔ فٹ پاتھ پر زیادتی کے بعد قتل ہونیوالی لڑکی۔۔۔ کمسن بچوں کو پھانسی کے پھندے۔۔۔ کمسن بچہ قتل ہونے والی والدہ کے سرہانے رو رہا ہے۔۔۔ زندہ جلانے سے قبل ہاتھ پاﺅں باندھے جا رہے ہیں۔۔۔ فو جی اہلکار مسلمانوں کو قتل کرکے لاشیں سمندر میں پھینکنے کیلئے ٹرک میں ڈال رہے ہیں ۔“
انٹر نیٹ پر یہ تصاویر اپنی روداد زیادہ وضاحت سے بیان کرتی ہیں۔ ایک تصویر میں کم از کم ایک سو لاشوں کو جلانے کیلئے سلاخوں کے اوپر رکھا ہوا ہے ۔زخموں سے چور خون آلود برہنہ انسان اوندھے منہ پھینکے ہوئے ہیں۔ دو قطاروں کے درمیان پانچ فٹ کا فاصلہ ہے ۔ درمیان اور اطراف میں سو کے قریب انتہا پسند بودھ میرون کلر کے روایتی لباس میںمنہ اور ناک پر ماسک چڑھائے نعشوں کو جلانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ بُودھ مت میں شائد لاشوں کو جلایا جاتا ہے لیکن اس طریقے سے نہیں جو جہاں اختیار کیا گیا ہے ۔یہ جلانے والوں کی طرف سے مسلمانوں سے شدید نفرت اور تضحیک کا اظہار ہے۔
اب جو شواہد سامنے آئے ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ برما(میانمار) میں مسلمانوں کے قتل عام کے پیچھے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی شکل دینے کیلئے بھارت کی سازش کار فرماہے۔ ” بھارت میانمار میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اس مقصد کیلئے جون 2012ءمیں وزیراعظم منموہن سنگھ نے میانمار کا دورہ کیا ۔انکے ساتھ تاجروں کا ایک وفد بھی گیا۔ میانمار کے صوبہ ارکان کی آبادی 40 لاکھ ہے۔ یہ علاقہ بر لبِ سمندر ہے۔کہا جاتا ہے کہ عالمی تجارت کیلئے جو اہمیت گوادر پورٹ کی پاکستان کیلئے ہے وہی بھارت کیلئے صوبہ ارکان کی ہوسکتی ہے۔
 منموہن کے دورے کے ایک ہفتے بعد فسادات میں 20 ہزار مسلمانوں کو 10 بُودھ پیشواﺅں کے قتل کا الزام لگا کر تہہ تیغ کردیا گیا۔یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔کئی خواتین عزت کی خاطر دریا میں ڈوب کر اپنی جان گنوا چکی ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ایما پر انتہا پسند ہندو¶ں‘ انتہا پسند مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے گھنا¶ نے منصوبہ پر تیزی سے عمل پیرا‘ بھارتی خفیہ ایجنسیاں‘ بودھ مت کے پیرو کاروں کو ہتھیار فراہم کر رہی ہیں ۔دو برس کے دوران ایک لاکھ مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔منصوبے کے مطابق یہ پروگرام 40 لاکھ کلمہ گو مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے تک جاری رہے گا۔
صوبہ ارکان اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک دریا حائل ہے ۔یہ برمی مسلمان ا پنے ایمان اور جان کی حفاظت کیلئے دریا عبور کرکے بنگلہ دیش میں اس زعم میں داخل ہوئے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں لیکن بنگلہ دیشی حکمران تو اقتدار کے بدلے اپنی وفاداری 1971ءمیں بھارت کے چرنوں میں رکھ چکے ہیں۔ مجیب کی بیٹی نے بنگلہ دیش میں داخل ہونیوالے نہتے ، بے بس وبے کس مسلمانوں پر گولہ اور بارود برسانے کا حکم دیا اور وہ اس محاورے
 Between deep sea and devil کی حقیقی تصویر بن گئے۔ ان میں سے کچھ فائرنگ سے مارے گئے کچھ ڈوب گئے اور باقی ساحل پر اترتے ہوئے بے رحم اسلحہ بردار بُودھوں کے ہتھے چڑھ گئے۔
پہلی جنگِ عظیم پولینڈ کے ایک نوجوان کے قتل پر شروع ہوئی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اس میں تین کروڑ انسان ہلاک ہوئے۔اہل اسلام کا خون کتنا سستا ہے کہ فلسطین ، کشمیر ، افغانستان اور عراق میں لاکھوں مسلمان خاک اور خون میں مل گئے۔اس پر اسلامی دنیا میں کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔ برمی ریاست کو پاکستان اور ملت اسلامیہ کے ایک بڑے دشمن کی براہِ راست پشت پناہی حاصل ہے اس لئے بعید نہیں کہ برما اور بھارت مل کے چالیس لاکھ مسلمانوں کی کٹی اور جلی لاشوں پر بندر گاہ تعمیر کر لیں۔
چالیس لاکھ مسلمانوں کیلئے موت کا پیغام عالمی برادری کیلئے شرم اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور او آئی سی کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔
 ارکان کے مسلمانوں کیلئے ایسی سیاہ رات طاری ہوئی کہ جس کی سحر نظر نہیں آتی ۔یہ اماوس کی رات سے بھی زیادہ تاریک منحوس اور سیاہ بختی پر محیط ہے۔ اماوس کی رات کو گھپ اندھیروں میںستاروں کی چمک تو باقی رہتی ہے،ان مسلمانوںکیلئے امید کی کرن موجود ہے نہ زندگی رمق۔ 1948ءمیںارکان کے مسلمانوں نے خوراک کی قلت کے موقع پر پاکستانیوں کیلئے پانچ ہزار ٹن چاول کا تحفہ بھجوایا تھا۔آج پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت اور میانمار کے مسلمان موت کے بگولوں کی لپیٹ میں ہیں۔گزشتہ حکمرانوں کو تو اپنے لوگوں کی بھی پروا نہیں تھی۔جو اب آئے ہیں وہ پاکستان کے ازلی دشمن کےلئے وارفتگی کی کیفیت سے سرشار ہیں۔میانمار میں بھارت جو کچھ کر رہاہے اس کو ہی مد نظر رکھتے ہوئے بھارت کےلئے اپنی جانثارانہ اور فدویانہ پالیسیوں پر نظرِ ثانی فرمائیں۔ ارکان کے مسلمانوں کی جان کے تحفظ کیلئے او آئی سی کو متحرک کریں اقوام متحدہ جیسے عالمی فورمز پر آواز اُٹھائیں۔ اہل اسلام کیا برما میں آخری مسلمان کی لاش گرنے ،جلنے اور آخری بیٹی کی بے آبروئی کے منتظر ہیں؟ 

بوڑھی سوچ

 بوڑھی سوچ

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
30 مئی 2013 0


بڑھاپا بیماری نہیں، زندگی کا ایک تسلسل ہے۔ بڑھاپے کے باوجود جذبات اور خواہشات بوڑھی نہیں ہوتیں جبکہ سوچ میں نکھار آتا اور یہ توانا تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کی سوچ بوڑھی ضرور ہو جاتی ہے جس میں عمر کا عمل دخل نہیں ہے۔ یہ بیماری جو کسی بھی عمر میں لاحق ہو سکتی ہے۔آ ج ہمارے ہاں بوڑھی سوچ کے حامل حضرات ہر شعبہ زندگی میں پائے جاتے ہیں۔ جن کا تعلیم تربیت ،زندگی کے تجربے اور زمانے کے نشیب و فراز نے کچھ نہیں بگاڑا۔ بوڑھی سوچ اور نااہلیت میں تھوڑا سا فرق ہے۔ ہمارے ہاں سیاست اور ریاست میں کئی ہزار خان آئے اور کروڑ خان بن کر چلے گئے۔ ماورائے آئین وقانون کوئی بھی کام ، اقدام اور غیر حقیقی بیان بیمار سوچ جبکہ ملکی امور چلانے میں ناکامی نااہلیت کا شاخسانہ ہے۔ ہمارے ہاں آج کے نگران حکمران بوڑھی سوچ اور نااہلیت کا ”حسین امتزاج “ثابت ہوئے۔ نگرانِ اعلیٰ نے اپنے فرزند ارجمند کو یک لخت دو ترقیاں دےدیں اور بجلی کا بحران دوچند کر دیا۔ سابقون کی پھیلائی ہوئی تاریکیوں میں مزید اضافہ کردیا۔ ادھر ادھر سے لوگوں کو اکٹھا کر کے نگران سیٹ اپ بنایا گیا۔ ان کی کارکردگی نے ثابت کر دیا کہ ریاست صرف سیاست کے ذریعے چلائی جا سکتی ہے اور یہ کام سیاستدانوں کا ہے۔پنجاب کے نگران معظم نے لوڈ شیڈنگ پر دو چھٹیوں کا وار کیا جو حماقت ثابت ہوا۔ 
جج، صحافی، بزنس مین اور ڈاکٹر اپنے اپنے شعبوں کو اوجِ ثریا پر تو لے جا سکتے ہیں لیکن ایک فوجی کی طرح کبھی اچھے سیاستدان نہیں بن سکتے۔ دو اڑھائی ماہ کے نگران حکومت کے تجربے نے اس پر مہر توثیق ثبت کر دی ہے۔ نگران سیٹ اپ چتر نہیںپوتر سیاستدانوں پر مشتمل ہو تو شکایات نہ ہوں۔ ایسے سیاستدان یقیناً نایاب نہیں ہیں۔ 
گزشتہ حکمرانوں کی بیمار سوچ نے ادارے تباہ کر دئیے جن کو عدلیہ نے سدھارنے کی بڑی کوشش کی لیکن یہ بیمار سوچ عدلیہ کے سامنے کمان کس کے اور تلوار سونت کر کھڑی ہو گئی۔ اسے بھی کریڈجانیے نواز لیگ نے اپنے دور میں عدلیہ پر تلوار اور تیر چلا دئیے تھے۔ ایڈمرل فصیح بخاری کی تقرری بھی ان کے پیشرو سید دیدار شاہ کی طرح کالعدم قرار دی گئی ہے۔ ایسی ایک نہیں درجنوں تقرریاں کی گئیں جو نااہلیت نہیں بیمار سوچ کا نتیجہ تھیں۔ اُس حکومت میں ایک سے بڑھ کر ایک بوڑھی سوچ والا موجود تھا۔ کیا صدر، وزیراعظم در وزیراعظم، وزرائ، مشیر، ارکان اسمبلی اور سنیٹر، چند ایک کے سوا سب ایک ہی کشتی کے سوار تھے جو کرپشن کے قلزم میں لہراتی اور ہن برساتی رہی۔ اب کہہ رہے ہیں کہ انتخابات قومی اور عالمی سازش کا شکار ہوئے۔ ریٹرننگ افسر مجھے مل جائیں تو صدارتی الیکشن جیت سکتا ہوں۔ ایسے بیانات کس سوچ کی نشاندہی کرتے ہیں؟ البتہ پارٹی کی دوسرے اور تیسرے درجے کی لیڈر شپ نے درست کہاکی کہ ان کو گیلانی اور پرویز اشرف کی پالیسیوں اور کرپشن نے مروایا۔ ان دو وزرائے اعظم نے ریکارڈ توڑ لوٹ مار کی۔ گیلانی خاندان نے کچھ زیادہ ہی۔۔۔ ووٹر نے اس کا جمہوریت کے ذریعے انتقام لے لیا۔ 
انتخابات میں حصہ لینے والی ہر پارٹی دھاندلی دھاندلی کی گردان کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کو سندھ میں، پی پی پی اور پی ٹی آئی کو پنجاب، مولانا فضل الرحمن کو خیبر پی کے میں دھاندلی نظر آتی ہے۔ جہاں سے خودجیتے وہاں انتخابات کو شفاف قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کو بیمار سوچ کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ شہباز شریف نے ایک بار نہیں کئی بار فرمایا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ 6 ماہ، دو سال، تین سال میں ختم نہ کر سکا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ برادر اکبر انتخابات میں بھرپور کامیابی کے بعد فرماتے ہیں شہباز شریف جذباتی ہیں انکی بات کو سنجیدہ نہ لیں۔ کیا یہ توانا سوچ ہے؟ کل تک فرماتے تھے پاکستان بدلیں گے۔ اب فرمایا حالات کٹھن ہیں امید ہے تبدیلی آئیگی۔ جب امید کو یقین میں بدلنے کا موقع آیا تو میاں صاحب کی سوچ تبدیل ہونے لگی۔ یقین کوامید کی طرف لے جانیوالی سوچ کو کیا کہیں۔ بوڑھی یا توانا سوچ؟یومِ تکبیر کی تقریب میں مجید نظامی صاحب نے میاں نواز شریف کو ”مسٹر دھماکہ“ کا خطاب دیا۔ زرداری صاحب کو نظامی صاحب نے مردِ حُر کا خطاب دیا تھا۔ انہوں نے مردِ زر بن کر دکھا دیا۔ دیکھئے، میاں نواز شریف مسٹر دھماکہ بن کر دھماکے پر دھماکہ کرتے ہیں یا ”مسائل وراثت میں ملے“ کی تکرار کرتے کرتے پانچ سال گزار کر مسٹر پٹاخہ بن کر دکھاتے ہیں۔
ہمارے 90 فیصد سے زیادہ مسائل حکمرانوں کی بیمار ،بوڑھی اور ناتواں سوچ کے پیدا کردہ ہیں۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، ماورائے آئین اقدامات سب بیمار سوچ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہربیماری کی طر ح بوڑھی اور بیمار سوچ کا علاج بھی ہے۔ یہ بیماری کسی بھی عمر میںلگے دیانت اور صداقت کا عہد کرنے اور نبھانے سے اس روگ سے مکمل نجات ممکن ہے۔