About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, June 3, 2013

بوڑھی سوچ

 بوڑھی سوچ

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان....شفق
30 مئی 2013 0


بڑھاپا بیماری نہیں، زندگی کا ایک تسلسل ہے۔ بڑھاپے کے باوجود جذبات اور خواہشات بوڑھی نہیں ہوتیں جبکہ سوچ میں نکھار آتا اور یہ توانا تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کی سوچ بوڑھی ضرور ہو جاتی ہے جس میں عمر کا عمل دخل نہیں ہے۔ یہ بیماری جو کسی بھی عمر میں لاحق ہو سکتی ہے۔آ ج ہمارے ہاں بوڑھی سوچ کے حامل حضرات ہر شعبہ زندگی میں پائے جاتے ہیں۔ جن کا تعلیم تربیت ،زندگی کے تجربے اور زمانے کے نشیب و فراز نے کچھ نہیں بگاڑا۔ بوڑھی سوچ اور نااہلیت میں تھوڑا سا فرق ہے۔ ہمارے ہاں سیاست اور ریاست میں کئی ہزار خان آئے اور کروڑ خان بن کر چلے گئے۔ ماورائے آئین وقانون کوئی بھی کام ، اقدام اور غیر حقیقی بیان بیمار سوچ جبکہ ملکی امور چلانے میں ناکامی نااہلیت کا شاخسانہ ہے۔ ہمارے ہاں آج کے نگران حکمران بوڑھی سوچ اور نااہلیت کا ”حسین امتزاج “ثابت ہوئے۔ نگرانِ اعلیٰ نے اپنے فرزند ارجمند کو یک لخت دو ترقیاں دےدیں اور بجلی کا بحران دوچند کر دیا۔ سابقون کی پھیلائی ہوئی تاریکیوں میں مزید اضافہ کردیا۔ ادھر ادھر سے لوگوں کو اکٹھا کر کے نگران سیٹ اپ بنایا گیا۔ ان کی کارکردگی نے ثابت کر دیا کہ ریاست صرف سیاست کے ذریعے چلائی جا سکتی ہے اور یہ کام سیاستدانوں کا ہے۔پنجاب کے نگران معظم نے لوڈ شیڈنگ پر دو چھٹیوں کا وار کیا جو حماقت ثابت ہوا۔ 
جج، صحافی، بزنس مین اور ڈاکٹر اپنے اپنے شعبوں کو اوجِ ثریا پر تو لے جا سکتے ہیں لیکن ایک فوجی کی طرح کبھی اچھے سیاستدان نہیں بن سکتے۔ دو اڑھائی ماہ کے نگران حکومت کے تجربے نے اس پر مہر توثیق ثبت کر دی ہے۔ نگران سیٹ اپ چتر نہیںپوتر سیاستدانوں پر مشتمل ہو تو شکایات نہ ہوں۔ ایسے سیاستدان یقیناً نایاب نہیں ہیں۔ 
گزشتہ حکمرانوں کی بیمار سوچ نے ادارے تباہ کر دئیے جن کو عدلیہ نے سدھارنے کی بڑی کوشش کی لیکن یہ بیمار سوچ عدلیہ کے سامنے کمان کس کے اور تلوار سونت کر کھڑی ہو گئی۔ اسے بھی کریڈجانیے نواز لیگ نے اپنے دور میں عدلیہ پر تلوار اور تیر چلا دئیے تھے۔ ایڈمرل فصیح بخاری کی تقرری بھی ان کے پیشرو سید دیدار شاہ کی طرح کالعدم قرار دی گئی ہے۔ ایسی ایک نہیں درجنوں تقرریاں کی گئیں جو نااہلیت نہیں بیمار سوچ کا نتیجہ تھیں۔ اُس حکومت میں ایک سے بڑھ کر ایک بوڑھی سوچ والا موجود تھا۔ کیا صدر، وزیراعظم در وزیراعظم، وزرائ، مشیر، ارکان اسمبلی اور سنیٹر، چند ایک کے سوا سب ایک ہی کشتی کے سوار تھے جو کرپشن کے قلزم میں لہراتی اور ہن برساتی رہی۔ اب کہہ رہے ہیں کہ انتخابات قومی اور عالمی سازش کا شکار ہوئے۔ ریٹرننگ افسر مجھے مل جائیں تو صدارتی الیکشن جیت سکتا ہوں۔ ایسے بیانات کس سوچ کی نشاندہی کرتے ہیں؟ البتہ پارٹی کی دوسرے اور تیسرے درجے کی لیڈر شپ نے درست کہاکی کہ ان کو گیلانی اور پرویز اشرف کی پالیسیوں اور کرپشن نے مروایا۔ ان دو وزرائے اعظم نے ریکارڈ توڑ لوٹ مار کی۔ گیلانی خاندان نے کچھ زیادہ ہی۔۔۔ ووٹر نے اس کا جمہوریت کے ذریعے انتقام لے لیا۔ 
انتخابات میں حصہ لینے والی ہر پارٹی دھاندلی دھاندلی کی گردان کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کو سندھ میں، پی پی پی اور پی ٹی آئی کو پنجاب، مولانا فضل الرحمن کو خیبر پی کے میں دھاندلی نظر آتی ہے۔ جہاں سے خودجیتے وہاں انتخابات کو شفاف قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کو بیمار سوچ کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ شہباز شریف نے ایک بار نہیں کئی بار فرمایا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ 6 ماہ، دو سال، تین سال میں ختم نہ کر سکا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ برادر اکبر انتخابات میں بھرپور کامیابی کے بعد فرماتے ہیں شہباز شریف جذباتی ہیں انکی بات کو سنجیدہ نہ لیں۔ کیا یہ توانا سوچ ہے؟ کل تک فرماتے تھے پاکستان بدلیں گے۔ اب فرمایا حالات کٹھن ہیں امید ہے تبدیلی آئیگی۔ جب امید کو یقین میں بدلنے کا موقع آیا تو میاں صاحب کی سوچ تبدیل ہونے لگی۔ یقین کوامید کی طرف لے جانیوالی سوچ کو کیا کہیں۔ بوڑھی یا توانا سوچ؟یومِ تکبیر کی تقریب میں مجید نظامی صاحب نے میاں نواز شریف کو ”مسٹر دھماکہ“ کا خطاب دیا۔ زرداری صاحب کو نظامی صاحب نے مردِ حُر کا خطاب دیا تھا۔ انہوں نے مردِ زر بن کر دکھا دیا۔ دیکھئے، میاں نواز شریف مسٹر دھماکہ بن کر دھماکے پر دھماکہ کرتے ہیں یا ”مسائل وراثت میں ملے“ کی تکرار کرتے کرتے پانچ سال گزار کر مسٹر پٹاخہ بن کر دکھاتے ہیں۔
ہمارے 90 فیصد سے زیادہ مسائل حکمرانوں کی بیمار ،بوڑھی اور ناتواں سوچ کے پیدا کردہ ہیں۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، ماورائے آئین اقدامات سب بیمار سوچ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہربیماری کی طر ح بوڑھی اور بیمار سوچ کا علاج بھی ہے۔ یہ بیماری کسی بھی عمر میںلگے دیانت اور صداقت کا عہد کرنے اور نبھانے سے اس روگ سے مکمل نجات ممکن ہے۔



No comments:

Post a Comment