About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, March 31, 2011

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر

31-3-11
فضل حسین اعوان 
ہزار پردہ پوشی سے قتل چھُپ سکتا ہے نہ لاکھ کوشش سے قاتل سزا سے بچ سکتا ہے…؎
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر ....... لہو پکارے گا آستیں کا
اعترافِ جرم سے وہ سزا اس سے بھُلی جو مجرم کو ہر لمحہ بے قرار اور اندرکی موت سے ہمکنار رکھتی ہے۔انسان کو تو ایک قتل بھی جینے نہیں دیتا۔جو سانحہ لال مسجد کے سینکڑوں محصورین اور امریکی جنگ میں ہزاروں پاکستانیوں کے خون کا ذمہ دار ہو اس کے کرب و الم اور احساسِ جرم کی کیا کیفیت ہوگی۔ وہ ہر لحظہ کتنی بار موت و حیات کے زیروبم سے دوچار ہوتا ہوگا۔ سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ لال مسجد میں جو کچھ ہوا، بچے اور بچیاں اپریشن کے دوران بے دردی اور سفاکی سے قتل کردی گئیں۔ مشرف اس پر کہتے ہیں ان کا ضمیر مطمئن ہے۔ رٹ آف گورنمنٹ کیلئے بندوقیں چلانا اور بارود برسانا پڑا۔اس کاروائی میں انسانیت قتل تو ہوئی ایک بار نہیں بار بار ہوئی۔جتنی جانیں گئیں اُتنی بار ہوئی۔آگے چلنے سے پہلے ایک واقعہ پر نظر ڈالئے۔
صبح شفق رنگ تھی، شہر کے بے رونق بازار میں راہگیر کو پیٹ میں چُھرا گھونپ کر قتل کردیا گیا اس واقعہ کے عینی شاہد سیر کرتے ایک جج صاحب بھی تھے۔قاتل بھاگ گیا۔ شور بلند ہوا۔تھوڑی دیر بعد لوگوں نے سائیکل سوار کو پکڑ لیا ہاتھ میں خنجر کپڑوں پر خون کے چھینٹے۔شاید خنجرکی نوک سے بھی لہو کا ایک آدھ قطرہ ٹپک رہا ہو۔ یہی ملزم اور مجرم ٹھہرا۔اتفاق سے کیس قتل کے عینی شاہد جج کی عدالت میں لگا۔ اُدھیڑ عمر شخص نے اعتراف جرم کرلیا۔گواہوں کی ضرورت نہ شہادتوں کی۔ جج صاحب اس اعتراف پر ششدر۔ یہ وہ تو نہیں جس نے قتل کیا تھا۔بہر حال قانون کے سامنے بس سزائے موت سنادی لیکن دل میں خلش چبھن اور کھٹک موجود رہی۔ ایک دن ملاقات کیلئے چلے گئے۔قیدی سے ماجر ا پوچھا۔ سوئے دار سفر ہوتو سچ ہی بیان ہوتا ہے۔بتایا ’’ یہ قتل میں نے نہیں کیا۔چند سال قبل کسی اور کو قتل کیا تھا۔اس دن کے بعد دن میں بار بار جیتا اور مرتا تھا۔ دن کو سکون نہ رات کو آرام زندگی عذاب بن گئی تھی۔قصاب ہوں اس دن بکرا ذبح کرکے آرہا تھا لوگوں نے چُھرے سمیت پکڑ کر قانون کے حوالے کردیا۔میں نے ناکردہ قتل کا اعتراف کرکے کردہ قتل کی سزا سن لی۔اب ضمیر مطمئن ہے ہر لمحہ مرنے کے عذاب سے بچ گیا ہوں‘‘۔
بینظیر بھٹو کا قتل کیس پرویز مشرف کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔خصوصی عدالت کی طرف سے انٹر پول کے ذریعے گرفتاری کے احکامات جاری ہوچکے ہیں۔ محترمہ کے کیس کے مدعی سُست اِدھر اُدھر والے چُست۔مشرف کو زرداری حکومت اپنی بی بی کے قتل کیس میں تو کیا کسی بھی کیس میں حتیٰ کہ آئین توڑنے کے الزام میں بھی واپس نہیں لا سکتی ہے۔ مشرف کا مسکن برطانیہ اور ابو ظہبی میں۔دونوں ممالک کے ساتھ پاکستان کا مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ ہی نہیں ہے۔ عمران خان نے اپناپورا زور اور کافی پیسہ الطاف حسین کو لندن سے نکلوانے پر لگا دیا لیکن ناکام رہے۔ اب دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ہے جو زور لگایا وہ تو واپس نہیں آسکتا،پیسہ شاید۔
مشرف کا بینظیر بھٹو کے قتل میں ہاتھ ہے یا نہیں، شاید نہ ہوں لیکن ان کی گردن کے گرداسی کیس کے حوالے سے پھندا کس کس ہورہا ہے۔ بظاہر سزا محترمہ کے ناکردہ قتل کیس میں ہوگی دراصل لال مسجد کی معصوم بچیوں کے کردہ قتل کے جرم کی ہوگی۔کیونکہ قتل چھپ سکتا نہ قاتل سزا سے بچ سکتا ہے۔مشرف ملک سے باہر محفوظ و مامون ہیں۔لیکن کب تک۔ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں لیکن انسان بھی ہیں۔روشن ہی سہی ضمیر تو رکھتے ہیں۔ ضمیر ہے تو خلش بھی ہوگی۔معصوم بچیوں کی دلدوز چیخیں کب چین سے بیٹھنے اور سونے دیتی ہوں گی۔ ہوسکتا ہے کسی دن محترمہ کے ناکردہ قتل کا اعتراف کرکے جامعہ حفصہ کی بچیوں کے کردہ قتل کی سزا کیلئے خود کو پیش کردیں۔

معرکہ

مارچ ،30. 2011
فضل حسین اعوان 
کرکٹ فضول اور وقت برباد کرنیوالا کھیل ہے لیکن ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کے کامیابی کی طرف بڑھتے قدموں نے قوم کے اندر ایک جوش اور ولولہ پیدا کر دیا۔ بالآخر سیمی فائنل میں مقابلہ روایتی حریف سے طے پایا تو جوش و ولولہ باقاعدہ جنون میں بدل گیا۔ آج ہر طرف پاکستانیت نظر آرہی ہے۔ عوام میں یکجہتی اور ہم آہنگی کی فضا استوار ہو چکی ہے۔ قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، شہر شہر، گاﺅں گاﺅں ہر طرف پاکستان کی کامیابی کی دعائیں، خواہش اور نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ صوبائیت، علاقائیت، لسانیت اور نفرتیں دم توڑ چکی ہیں۔ کرکٹ نے عوام کو ایک لڑی میں پرو کر قوم بنا دیا۔ لڑی میں پروئی قوم ہیرے جواہرات کی طرح جگمگ جگمگ کرتے جھلملا رہی ہے۔ آج سیمی فائنل، فائنل سے بھی بڑھ کر ہے۔ کرکٹ ٹیم نے پرائی جنگ میں زخموں سے چور چور عوام کا دامن خوشیوں سے بھر دیا۔ وقتی طور پر جنگ کے زخم اور اپنوں کے ستم سے آسودگی محسوس کر رہے ہیں۔ چند روز میں کرکٹ بخار اترے گا۔ خدا کرے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی یونہی برقرار رہے۔
گو موہالی میں آج پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ میچ ہو رہا ہے، معرکہ حق و باطل نہیں، لیکن روایتی حریف مدمقابل ہوں تو معاملہ معرکہ حق و باطل سے کم نہیں ہوتا۔ میچ جاری ہو تو باہر بیٹھے شائقین ماہرین کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ہر گیند اور شارٹ پر تبصرہ، گویا گراﺅنڈ کے اندر برسرِپیکار کھلاڑیوں سے بڑے ٹی وی سکرینوں سے چپکے ہوئے ہم ناظرین ہی کھلاڑی ہیں۔ یہ گیند ایسے کرائے، شاٹ یوں کھیلے، فلاں فیلڈر کو کہاں کھڑا کیا جائے، ماہرانہ رائے یوں دی جاتی ہے جیسے کھلاڑی انکے تبصروں پر ہمہ تن گوش ہیں۔ اینکرز کا بس چلے تو بال اور بیٹ خود تھام لیں، بہرحال یہ بھی کھیل اور کھیل دیکھنے کا جزوِ لازم ہے۔
آج ایک ٹیم میدان سے سرخرو ہو کر نکلے گی۔ وہ ہماری ٹیم کیوں نہ ہو، خدا چڑیا سے باز اور چیونٹی سے ہاتھی مروا سکتا ہے۔ محمد آصف اور محمد عامر قصور وار بھی تھے تو بھی انکے فیصلے میں تاخیر کی گئی کہ اپیل میں جانے تک ورلڈکپ گزر جائے۔ یہ دونوں کھلاڑی ٹیم کا حصہ ہوتے تو یقیناً پاکستان کی بولنگ کسی بھی ٹیم سے مضبوط ہوتی۔ قوم کی دعاﺅں سے پاکستان دشمنوں کی پلاننگ ناکام ہوئی۔ پاکستانی ٹیم کی کمزور بولنگ کمزوریوں کو طاقت میں بدلتے بدلتے آج مضبوط ہو گئی ہے۔ بیٹنگ میں ہو سکتا ہے قدرت نے ورلڈکپ میں آفریدی کے رنز آج کے دن کیلئے بچا کر رکھے ہوں۔ 
بھارتی میڈیا نے کھیل کو کھیل نہیں رہنے دیا، جنگ بنا دیا ہے۔ ہندو بنئے کی طرح پاکستان دشمنی میں یہ بھی باﺅلا ہوچکا ہے۔ پاکستانی کھلاڑیوں پر الزامات در الزامات، مورال ڈاﺅن کرنے کی سازش، انتہا پسندوں نے تو وہ طوطا بھی مار ڈالا جس نے تین مرتبہ پاکستان کی کامیابی کی فال نکالی۔ سابق انکم ٹیکس کمشنر نے پاکستان کے جیتنے کی قسم کھائی ہے۔ اسکا گلا انتہاپسند شاید میچ کے بعد دبائیں گے۔
آج بھی 50 اوورز کا میچ ہوگا۔ پچ کی لمبائی، چوڑائی اور گراﺅنڈ کا سائز بھی پہلے جیسا، مدمقابل بھی وہی، یہ بازو ہم نے آزمائے ہوئے ہیں۔ پھر عجب کیا؟ سیمی فائنل کا دباﺅ؟ ٹیم اس دباﺅ کو جوش میں بدلے، جذبے اور عزم میں بدلے، دباﺅ لیں گے تو دباﺅ ہوگا۔ مقابل کو شیر سمجھیں گے تو خوف آئے گا، بلی سمجھ کر جھپٹیں گے تو چھا جائیں گے۔ قوم بھی دل تھام کر میچ دیکھے۔ میچ کا انحصار ٹاس پر نہیں کارکردگی پر ہے۔ ٹیم اپنی کارکردگی سے بے لگام بھارتی میڈیا کا منہ بند کرے۔ یٰسین وٹو نے نہ صرف آج کے میچ میں کامیابی بلکہ فائنل میں بھی پاکستانی ٹیم کی کامرانی کی پیش گوئی کی ہے۔ خدا انکی زبان مبارک کرے اور قوم کی دعاﺅں کو قبول فرمائے۔
٭٭٭

Tuesday, March 29, 2011

منموہن کی دعوتِ تماشا

 منگل ، 29 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان 
منموہن سنگھ نے کشمیریوں کے خون کے قلزم میں کھڑے ہو کر پاکستانی قیادت کو موہالی میں کرکٹ میچ دیکھنے کی دعوت دی۔ اس پر صدر اور وزیراعظم نے سر جوڑے۔ سوچا ہو گا کہ پڑوسی ملک کے وزیراعظم کو میچ دیکھنے کی دعوت کیوں دینا پڑی۔ اتنا اہم میچ اس میں تو پاکستانی قیادت کو خود ہی چلے جانا چاہئے۔ ان کے ذہن میں پاکستان بھارت کی جنگوں کی تصویر لہرائی ہو گی۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی داستانیں تازہ ہوئی ہوں گی۔ پاکستان بھارت تعلقات میں کشیدگی زیر بحث آئی ہو گی تو سمجھ گئے ہوں گے کہ منموہن کی دعوت عمومی نہیں خصوصی ہے۔ صدر اور وزیراعظم دونوں دانائی، شعور، عقل، فہم اور دانش میں اپنی مثال ہیں۔ منجھے ہوئے سیاستدان بھی۔ سیاسی معاملات کی طرح غیر ملکی دوروں پر بھی عقابی نظر رکھتے ہیں۔ 
بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے۔ (بہت سفر کرنے سے تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ تجربے سے آدمی ہوشیار ہوتا ہے)۔ زیادہ دورے اسی لئے کرتے ہیں۔ ادراک اور فراست کی عمدہ مثال ممبئی دھماکوں میں بھارت نے آئی ایس آئی کے ڈی جی کو طلب کیا تو منموہن کے دورے کی دعوت پر سر جوڑنے والے اُس وقت بھی ہم مشورہ ہوئے۔ اور ڈی جی کو بھارت بھجوانے کا فیصلہ مرحمت فرما دیا تھا۔ بھارت جانے کی خواہش تو شاید پہلے ہی مچل رہی تھی۔ فیصلہ کرنا تھا، دونوں جائیں یا ایک۔ ایک جائے تو کون۔ شاید ٹاس کی ہو یا صدر نے کہا ہو تم ابھی وسط ایشیائی ریاستوں کے دورے سے لوٹے ہو۔ رواں ہو، موشن میں ہو، جاﺅ منموہن سے بھی لوریاں لے آﺅ....
قائداعظم ثانی ہونے کا زعم ہے۔ کبھی کہتے ہیں قائداعظم انڈر گریجوایٹ تھے کبھی کہتے ہیں وہ بھی گورنر جنرل اور مسلم لیگ کے بیک وقت صدر تھے۔ گویا باقی کام بھی قائداعظم جیسے ہیں اور دو عہدے بھی قائداعظم کی پیروی میں پاس رکھے ہوئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے ایک گریجوایٹ ایم پی اے شیخ علاﺅالدین نے کہا کہ ”ہم لوٹے نہیں ہیں، قائداعظم نے بھی پارٹی بدلی تھی۔ اپنے گھٹیا مکروہ اور بدبودار سیاسی عمل کو درست ثابت کرنے کے لئے قائداعظم کا نام لینا کردار کی پستی کا آخری درجہ ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قائداعظم لنکنز ان کے گریجوایٹ تھے۔ انہوں نے گورنر جنرل بننے کے بعد مسلم لیگ کی صدارت چھوڑ دی تھی۔ قائداعظم کئی سال تک کانگریس اور مسلم لیگ کے رکن رہے بالآخر بغیر کسی عہدے کی خواہش اور دولت کے لالچ کے کانگریس کو خیرآباد کہہ دیا۔ 
قائداعظم قیامِ پاکستان کے بعد کبھی بھارت نہیں گئے۔ ڈھاکہ جانا تھا۔ بتایا گیا کسی انڈین ایئرپورٹ سے تیل لینا پڑے گا۔ قائد نے کہا ہرگز نہیں۔ ڈکوٹا میں ہی بڑا ٹینک لگا دو۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ قائداعظم مسئلہ کشمیر کا حل بزور بھی چاہتے تھے لیکن قائم مقام انگریز آرمی چیف جنرل گریسی آڑے آئے۔ آج فوج مضبوط، ایٹمی قوت کی بھی حامل، لیکن لڑانے والا قائد جیسا لیڈر نہیں ہے۔ معاملات مذاکرات کی ٹیبل پر حل کرنے کے چکر میں آ رہے ہیں اور چکر چلا رہے ہیں۔ منموہن نے کشمیریوں کی تڑپتی لاشوں پر کھڑے ہوئے میچ دیکھنے کی دعوت دے دی۔ قائداعظم کی کرسی پر بیٹھنے والوں کو لاکھوں لاشوں اور ہزاروں کشمیری دوشیزاﺅں کے سروں سے اچکی ہوئی چادروں پر سے گزر کر تو بھارت نہیں جانا چاہئے۔ جرنیل ٹینک پر بیٹھ کر دشمن ملک تو جائے کرکٹ دیکھنے کیوں۔ ضیاءالحق اور مشرف نے کرکٹ ڈپلومیسی کے نام پر بھارت یاترا کی۔ یہ دو جرنیلوں کی بزدلی تھی۔ جمہوری حکمران لاکھوں کشمیریوں کے خون سے بے وفائی ہزاروں عزت مآب خواتین کی تار تار آبروﺅں کو نظرانداز کر کے دشمن سے گلے ملیں تو اسے کیا کہا جائے؟ کشمیری اول و آخر پاکستانی ہیں وہ خودمختاری کےلئے نہیں پاکستان سے الحاق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ منموہن پوری دنیا کو تماشا دکھائیں گے کہ ہم ایک ہیں۔ غیرت کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم بھارت جانے کا فیصلہ واپس لے لیں۔


Saturday, March 26, 2011

نو موہالی نو

26مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان
پاکستان کیسے ٹوٹا؟ یہ اندوہناک سانحہ نقش ہے دل پہ ذرا ذرا۔ کیوں ٹوٹا؟ بطور قوم ہم ہنوز اس نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا لیکن کچھ رشتے اٹوٹ ہوتے ہیں جو ٹوٹ کر بھی نہیں ٹوٹتے۔ ڈھاکہ میں پاکستان کے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کا مزار فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ شام کو مزار کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ پاکستانی صحافی عزیز مظہر سہروردی مرحوم کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے پہنچے تو دروازے بند ہو چکے تھے۔ دربان نے کھولنے سے انکار کیا۔ مزار کے منتظم اعلیٰ سے بات کرانے کو کہا۔ حاضری کا والہانہ پن دیکھ کر ناظم نے جذباتی ہو کر انہیں گلے لگایا اور کہا ’’آپ کا شکریہ کہ ہمارے لیڈروں سے اس قدر عقیدت رکھتے ہیں‘‘ جواب میں مہمان نے کہا ’’آپ کا شکریہ کہ آپ ہمارے لیڈروں کو اتنا احترام دیتے ہیں‘‘۔ حالات نے ثابت کیا دو دلوں میں، دو حصوں میں پیدا کی جانے والی نفرتیں، کدورتیں اور دوریاں سازشوں کا حصہ تھیں۔ کرکٹ ورلڈکپ کے آغاز پر بنگالیوں نے بنگلہ بُندو سٹیڈیم میں داخلے پر اپنے کپتان کی طرح پاکستانی کپتان کا والہانہ انداز میں استقبال کیا۔ 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے روز پاکستان کا ویسٹ انڈیز کے ساتھ کوارٹر فائنل تھا۔ اس موقع پر بنگالی پاکستانی ہلالی پرچم لہراتے رہے۔ نعرے لگاتے رہے یوں لگتا تھا پاکستانی کرکٹ ٹیم پاکستان میں ہی کھیل رہی ہے۔ عجیب اتفاق، 23 مارچ کو پاکستانی ٹیم میرپور کے فضلِ حق سٹیڈیم میں پاکستان کا نام روشن کر رہی تھی۔ وہی فضل حق جن کو قرارداد پاکستان پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اِدھر اور اُدھر کے کچھ بدبختوں نے اپنے مفادات کے لئے پاکستان توڑ دیا دنیا نے دیکھ لیا دل بدستور جڑے ہوئے ہیں۔ 
پاکستان منزل پہ منزل مارتا ہوا سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔ مدِمقابل بھارت ہے۔ مقابلہ بھارتی پنجاب کے شہر موہالی میں شیڈول کے مطابق طے ہے۔ بلاشبہ دونوں ٹیمیں جیت کے لئے جان لڑا دیں گی۔ پاکستان اور بھارت کی دشمنی ڈھکی چھپی نہیں۔ اس لئے سیمی فائنل کی اہمیت فائنل سے بھی بڑھ کر ہے۔ 30 مارچ کو دونوں ٹیمیں میدانِ جنگ میں نہیں کھیل کے میدان میں اتریں گی لیکن ہو گا میدانِ جنگ ہی! پاکستان سے نفرت لالہ جی کی گھٹی میں بھری ہے۔ وہ کھیل کے میدان کو بھی میدان جنگ سمجھتا ہے۔ شیوسینا نے اعلان کر رکھا ہے کہ پاکستان کو بھارت آ کر کھیلنے کے لئے بال ٹھاکرے سے اجازت لینا ہو گی۔ موہالی میں کھیلنا پاکستانی کھلاڑیوں کے لئے بڑی آزمائش ہے۔ اندر سے ہر بھارتی ہندو بال ٹھاکرے اور ہر ادارہ شیوسینا ہے۔ بھارت نے پاکستانی ٹیم کو مکمل سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن یہ وہی سازشی بھارت ہے جس نے پاکستان میں ورلڈکپ کا انعقاد رکوانے کے لئے لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ کرایا۔ بڑے میچوں کا کھلاڑیوں پر دبائو ہوتا ہے۔ سیمی فائنل اور بھارت کے ساتھ پھر بھارت میں اندازہ کیجئے پاکستانی کھلاڑیوں پر کتنا پریشر ہو گا۔ کھیل شروع ہونے تک کھلاڑیوں کیلئے ذہنی طمانیت انتہائی ضروری اور اہم ہے۔ بال ٹھاکرے ذہنیت کے حامل بھارتی ادارے کسی بھی موقع پر کسی کھلاڑی پر کوئی بھی الزام لگا کر چند منٹ بھی اسے حراست میں لیں گے تو پاکستانی ٹیم ذہنی طور پر منتشر اور ڈگمگا جائے گی۔ ایسی کارروائی بھارتی اداروں سے بعید نہیں۔ پھر متعصب، شدت اور شرپسند تماشائی سٹیڈیم میں ہو ہا کریں گے تضحیک آمیز نعرے لگائیں گے جو کچھ سٹیڈیم کے اندر لے جانے کی اجازت ہے وہ پاکستانی کھلاڑیوں پر پھینکیں گے۔ 
پاکستان کی فتح مہذب دکھائی دینے والے ہندوئوں تک کے لئے بھی ناقابل برداشت ہو گی وہ سٹیڈیم میں کیا کیا کہرام برپا نہیں کر دیں گے۔ محض بھارت کی طرف سے سکیورٹی کی یقین دہانی کسی پاکستانی کھلاڑی کو خدانخواستہ پہنچنے والے نقصان سے نہیں بچا سکتی ہے۔ پاکستان کے بھارت کے ساتھ سیمی فائنل میں ابھی چند دن باقی ہیں حکومت پاکستان آئی سی سی کو حالات سے آگاہ کرتے اس پر زور دے کہ یہ میچ موہالی کے بجائے سری لنکا یا بنگلہ دیش منتقل کر دیا جائے۔ یہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ اگر انتظامات میں مشکلات ہیں تو بے اعتبارے ہندو شائقین کو سٹیڈیم کے باہر رکھا جائے۔ سٹیڈیم میں صرف سکیورٹی والے ہی ہوں۔ لیکن یہ بھی تو اندر سے بال ٹھاکرے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں کی فول پروف سکیورٹی کے لئے پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک اور ان کے بھارتی ہم منصب چدم برم کو ہر لحظہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہونا چاہئے ہوٹل میں بھی اور سٹیڈیم میں بھی۔

Thursday, March 24, 2011

گستاخ کے خون کی قیمت

جمعرات ، 24 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان 
ایک طرف مغرب کروسیڈ کی خفیہ حکمت عملی اپنائے ہوئے،دوسری طرف تہذیبوں کے درمیان تصادم کے راستے پر کھل کر گامزن ہے۔ اسامہ کی تلاش کے نام پر افغانستان پر یلغار کرکے اس کے پہاڑوں تک کو بارود و آہن سے اڑا کے رکھ دیا۔ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگا کر اس اسلامی ملک کو الٹا دیا۔اب لیبیا ان دی لائن آف فائر ہے۔ قذافی کی دنوں میںگیم ختم ہونے والی ہے۔ امریکہ کی نظر میں جو بحرین میں جائز ہے وہ لیبیا میں نہ صرف ناجائز بلکہ ناقابل برداشت بھی۔ اس لئے امریکہ اور اس کے گماشتے فرانس اور برطانیہ ایک اسلامی ملک کو تہہ تیغ کرنے پر کمربستہ ہیں۔کرنل قذافی آج کہیں چھپ کر ملک سے فرار یا خود کشی کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے امریکہ کے سامنے ایٹمی پروگرام کے سرنڈر پر ضرور غور کر رہے ہوں گے کہ کاش ان کے پاس ایٹمی قوت ہوتی اور ایران کی طرح اس کی توپوں کا رُخ اسرائیل کی طرف ہوتا تو آج سامراجیت اور استعماریت اپنے زخم چاٹ رہی ہوتی۔ لیکن ....
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
قذافی کی حکومت آج راکھ اور خاک ہوئی کہ کل، اس کے بعد کس اسلامی ملک کی باری اور پھر اس کے بعد کس کی؟ ہر شاہ خود کو مغرب کی یلغار سے محفوظ سمجھتا ہے پتہ اس وقت چلتا ہے جب امریکہ کی لونڈی یو این خاموشی سے حملوں کی اجازت دے دیتی ہے۔ قذافی پر حملوں کی منظوری میں تو اس کے بھائی عربوں نے بھی امریکہ کے کندھے سے کندھا ملایا۔ او آئی سی اور عرب لیگ یونہی مسلمانوں کی تڑپتی لاشوں پر خاموش تماشائی بنی رہیں تو مسلمانوں پر اجتماغی غلامی کے سائے تاریکیوں کا روپ دھار کر انہیں ذلت کی پستی میں دھکیل دیں گے۔ امریکہ کی قیادت میں مغرب جو کچھ اسلامی ممالک کے ساتھ کر رہا ہے، کہیں دوست بن کر اور کہیں دشمن بن کر، کہیں بم برسا کر اور کہیں ڈالر لہرا کر، مقصد مسلمانوں کی بربادی مقصود ہے طریقہ کوئی بھی ہو، یہ وہی کروسیڈ ہے جس کا نام لے کر بش افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی جاری کردہ صلیبی جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کانام محض مسلمان ممالک کی تباہی میں اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو ساتھ ملائے رکھنے کے لئے دے رہے ہیں۔ اسلامی ممالک کے سربراہان صلیبیوں اور صہیونیوں کے عزائم سے آگاہ ہیں لیکن ان کی غیرت، حمیت کو دولت کے لالچ اور نشے نے سُلا رکھا ہے۔ ان کے کانوں تک ان کے اپنے لوگوں کی چیخ و پکار بھی نہیں پہنچ رہی۔ ہاتھ گریباں تک پہنچے تو شاید ہوش میں آ جائیں۔
اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ آج دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ تہذیبوں کے درمیان ہم آہنگی اور مذاہب کے مابین یکجہتی کی آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے لیکن مغرب کے انتہا پسندانہ اقدامات سے مسلمانوں کو ان کے مذہبی جذبات کا خون کرکے مشتعل کیا جا رہا ہے۔ ملعون ٹیری جونز کی نگرانی میں چند پاگل پادریوں نے نعوذ باللہ قرآن پاک کو نذر آتش کیا۔ اپنے مکروہ اور شیطانی فعل سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے تن بدن میں بھی آگ لگا دی۔ مسلمان قرآن کی زمین پر گری ایک آیت دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے پورے قرآن کو نذر آتش کرنے پر جذبات کیا ہوں گے۔ اس سے قبل حضور کی شان میں گستاخیاں کی جاتی رہی ہیں۔ الٹا گستاخیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی بجائے حکومتوں کی سطح پر مسلمان خواتین کے نقاب اور سکارف اوڑھنے پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے شعائر اسلام کی توہین ہر گز نہیں۔قرآن کی بے حرمتی اور رسول خدا کی شان میں گستاخی کرنے والوں پر توہین رسالت قانون لاگو ہوتا ہے جس کی سزا موت سے کم کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ جرم اسلامی ریاست میں ہو یا غیر اسلامی ریاست میں۔ کمزور ملک میں ہو یا سپر پاور میں۔ علمائے کرام سزا پر عمل درآمد کا طریقہ تجویز کریں تدبیر بھی۔
امام شہاب الدین محمد بن احمد ابی نے الفتح الشیبی میں ایک واقعہ تحریر فرمایا ہے، ”بحرین میں بچے ہاکیوں سے کھیل رہے تھے۔ ان کی گیند قریب بیٹھے پادری کے سینے میں جا لگی۔ بچے اس سے گیند لینے گئے تو اس نے انکار کر دیا۔ بچوں نے منت کی اس کا بھی اثر نہ ہوا تو ایک بچے نے عرض کیا جناب آپ کو نبی کریم کا واسطہ ہمیں گیند واپس کر دو اس پر پادری کی خباثت عود کر آئی اس نے شان رسالت میں گستاخی کی جو مسلمان بچوں کی غیرت کو گوارا نہ ہوئی تو ملعون کو وہیں ہاکیوںکے وار کرکے مار ڈالا۔ مقدمہ فاروق اعظم کی عدالت میں پیش ہوا تو آپ نے فرمایا: الا عز الاسلام۔آج اسلام معزز ہو گیا۔ اس کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے بچوں کے ناموس رسالت کی خاطر گستاخ کے قتل کو درست قرار دیا اور آخر میں فرمایا سنو! جو رسول اللہ کی شان میں گستاخی کرے ہمارے ہاں اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں“ عالمی امن کیلئے بہتر ہے اہل مغرب آزادی اظہار کے نام پر انسانیت سوز اقدامات سے باز رہیں اورمسلمانوں کو ناموس رسالت اور شعائر اسلام کی توہین کا بدلہ لینے پر مجبور نہ کریں۔

Wednesday, March 23, 2011

قائد اور پاکستان لازم و ملزوم

 مارچ 23، 2011
قائد اور پاکستان لازم و ملزوم
فضل حسین اعوان 
عزم راسخ، یقین محکم، ارادے پختہ ہوں تو جہدِ پیہم سے صحرا کو سبزہ زار اور دشت کو لالہ زار بنایا جاسکتا ہے۔ بے آب و گیا دھرتی سونا اگل سکتی ہے۔ چٹانوں سے چشمے پھوٹ سکتے ہیں۔ بن بادل برسات ہوسکتی ہے۔ کٹھن منزلیں آسان اور غلامی کی زنجیریں تک ٹوٹ جاتی ہیں۔ 23 مارچ 1940ءکو قائداعظمؒ کی قیادت میں انگریز کی غلامی سے خلاصی پانے اور ہندو کی غلامی میں نہ جانے کا عہد کرتے ہوئے مسلمانوں کیلئے آزاد ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی۔ یہ گویا مسلمانانِ ہند کیلئے ریاست مدینہ کے بعد دوسری نظریاتی مملکت کا بیج بو دیا گیا۔ جو بیج بویا گیا اس سے معطر اور مطہر گلستان اور چمنستان ہی ظہور پذیر ہونا تھا اور ہو کر رہا۔ اسلامیانِ ہند کیلئے پاکستان نعمت خداوندی ہے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کی ایک پلاننگ یہاں زمین پر دوسری وہاں آسمان پر ہوئی۔ اس خطے کے مسلمانوں کے مقدر میں آزادی 14 اگست 1947ءکو لکھی گئی۔ دن جمعة المبارک، الوداع، رات شب قدر، ماہ رمضان المبارک، کوئی کس کس کو اتفاق قرار دیگا....! آزادی کا سہرا اگر ایک شخصیت کے سر باندھا جائے تو وہ ذات ہے حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی.... جن کے بارے میں مسز وجے لکشمی پنڈت نے کہا تھا کہ اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی اور سو ابوالکلام ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف ایک لیڈر محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہو سکتا۔ 
قائداعظمؒ اور پاکستان یہاں بھی لازم و ملزوم تھے تو وہاں بھی۔ ہر سال 14 اگست، ہماری آزادی کا دن، 11 ستمبر حضرت قائداعظمؒ کی وفات اور 25 دسمبر قائداعظمؒ کی پیدائش کا دن ایک ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ 1947ءسے شروع ہے اور قیامت تک یونہی چلے گا، پچھلے کیلنڈر دیکھیں یا اگلے۔ ان میں ایک ہی دن نظر آئیگا۔ رواں سال 14 اگست، 11 ستمبر اور 25 دسمبر کو اتوار کا دن آرہا ہے۔ 2010ءکو ہفتہ، 2009ءکو جمعہ اور 2008ءکو جمعرات کا دن تھا۔ 2012ءکو منگل اور 2013ءکو بدھ ہوگا۔ سال لیپ کا ہو تو بھی ان تاریخوں کے دنوں پر کوئی اثر اور فرق نہیں پڑتا۔
انسان کی خدا نے تقدیر لکھ دی ہے نگاہِ مردِ مومن سے تقدیر بدل سکتی ہے۔ انسان کو خدا نے خودمختار بھی بنایا ہے۔ وہ اپنی تقدیر کا بھی کسی حد تک مختار ہے۔ پستی سے بلندی اور بلندی سے پستی کسی حد تک اس کے اختیار میں بھی ہے۔ خدا کے ہاں پاکستان ہمیشہ رہنے کیلئے بنا ہے لیکن جب اسکی تقدیر ذاتی مفادات کے اسیروں، نیت کے فقیروں اور بے ضمیروں کے ہاتھ آئی تو آدھا پاکستان مشرق میں غروب ہوگیا۔ آج بھی زمامِ اقتدار قائد جیسے لوگوں کے ہاتھ میں نہیں۔ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو قائداعظمؒ جیسا بننا ہی نہیں چاہتے۔ یہ ناقابل اصلاح ہیں، ان کی سوچ سیاہ کردار و عمل سیاہ، ان کا انگوٹھا قوم کی گردن پر، سر مغربی آقاﺅں کے پاﺅں میں، غیرت، حمیت، وقار سب گروی رکھ کر قائداعظمؒ کے پاکستان کو استعماری قوتوں کا باجگزار بنا دیا۔ قوم جاگ جائے جن لوگوں کو تقدیر کا مالک بنایا ہے وہ آپ کا اور ملک کا سودا نہ کر ڈالیں۔ جو آج اقتدار میں ہیں انکی سیاست، اہلیت اور صلاحیت انکے قد سے زیادہ نہیں ہے۔ جو انکی جگہ لینے کے منتظر ہیں، اُن اور اِن کے ایجنڈے میں بھی کوئی نمایاں فرق نہیں۔ اب بات شاید دعاﺅں سے آگے بڑھ کر عمل کی متقاضی ہے۔
٭٭٭

Tuesday, March 22, 2011

اودھم سنگھ

منگل ، 22 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان
ریمنڈ کی رہائی کے بعد پاکستان میں منافقت جھوٹ، الزام بہتان اور دشنام کی خارزار فصل اُگ آئی۔ کوئلوں کی دلالی میں منہ تو کالا ہونا تھا۔ کس کس کا ہوا یہ کوئی راز نہیں رہا۔ لیکن اب سیاسی مفادات کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ وزیراعظم گیلانی کہتے ہیں فیصلے پر پنجاب حکومت نے عملدرآمد کرایا۔ رانا ثناءاللہ کا جواب آں غزل ہے کہ ریمنڈ کی واپسی کا بندوبست، ورثا سے مک مکا وفاقی حکومت اور اس کے اداروں نے کیا۔ پرویز رشید انگریزی اخبارات کے تراشے لہرا لہرا کر ثابت کر رہے ہیں کہ معاملات فوج اور آئی ایس آئی نے طے کرائے۔ الطاف بھائی پنجاب اور فضل الرحمن مرکزی حکومت پر الزام لگاتے ہیں۔ رہائی کیسے عمل میں آئی؟ اس حوالے سے ابھی بہت کچھ پردہ اخفا میں ہے اس کے باوجود بھی بہت کچھ منظر پر آ چکا ہے۔ کہیں بات ایکس ٹنشنز کی ہے کہیں سیاسی مفادات کی۔ عدلیہ کا وقار طویل جدوجہد سے بحال ہوا تھا جو اب گہنا گیا ہے۔ مقدمہ خصوصی عدالت میں نہیں۔ عام عدالت میں تھا جہاں لوگ نسل در نسل انصاف کےلئے بھٹکتے ہیں۔ ریمنڈ کے معاملے میں دو منٹی فیصلہ‘ ایسی سرعت اور عجلت کیوں؟ رہائی میں مرکزی پنجاب حکومت اور دونوں حکومتوں کے ادارے مکمل طور پر شامل ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام کے بجائے یہ اس کو تسلیم کریں یا خاموش رہیں۔ عوام کو کیوں گمراہ کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت تو اس معاملے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ پنجاب حکومت جان لڑانے کی دعویدار تھی۔ اس کے ذمہ دار بتائیں عبادالرحمن کو کچلنے والے گاڑی اور ڈرائیور کہاں ہیں؟ آسان جواب ہے مرکزی حکومت کو 6 ریمائنڈر بھجوائے کوئی جواب نہیں آیا۔ بینظیر حکومت کے وزیر تجارت مختار اعوان کراچی گئے، نواز شریف کی پنجاب حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا اور گرفتاری کے لئے چکلالہ ایئرپورٹ کے گرد پولیس تعینات کر دی۔ وہ غالباً دو ہفتے کراچی میں دبکے بیٹھے رہے۔ عبادالرحمن کا قاتل لاہور کے امریکی قونصلیٹ سے کیا اڑ کر چلا گیا؟ اس کی گرفتاری کے لئے چھوٹے سے قونصلیٹ کی نگرانی کیوں نہ کرائی گئی؟ تاریخ میں ہر ذمہ دار کے کردار کا تعین ہو گا۔ ببول بیج کر فصلِ لالہ و گل کی توقع عبث ہے۔ ذمہ داروں کو مورخ خالد بن ولید، ٹیپو سلطان اور قائداعظم کی صفوں میں تو شامل نہیں کرے گا۔ قومی غیرت کا تقاضا تھا دباﺅ کا مقابلہ کیا جاتا۔ ناقابل برداشت ہوا تو جج جرنیل اور حکمران استعفے دیکر گھر چلے جاتے۔ اگلی صفوں میں آنے کی منتظر قیادتیں بانجھ نہیں ہوئیں۔ آج لوگ سڑکوں پر ہیں۔ ان کا یک نکاتی حکمرانوں اور ذمہ داروں سے مستعفی ہونے کا مطالبہ ہونا چاہئے۔
ریمنڈ نے دو افراد کو قتل کیا، اعتراف پر فردِ جرم عائد ہوئی۔ وہ بلاشبہ ریاست کا مجرم بھی تھا۔ دیت کا معاملہ مشکوک ہو چکا۔ قصاص کے دروازے بند نہیں ہوئے۔ کیا وہ امریکہ پہنچ کر محفوظ ہو گیا؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ وہ بدستور اودھم سنگھوں کے نشانے پر ہے۔ 19 اپریل 1920 کو سانحہ جلیانوالہ باغ میں مارے جانیوالے دو ہزار کے قریب مسلمانوں، ہندوﺅں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں میں اودھم سنگھ کا باپ اور بھائی بھی شامل تھے۔ اودھم سنگھ نے اپنا نام رام محمد سنگھ آزاد رکھا اور سانحہ کے 20 سال بعد 13 مارچ 1940ءکو لندن جا کر ایک تقریب کے دوران مائیکل فرانسس اوڈائر کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر اوڈائر نے بریگیڈئر ڈائر کو جلیانوالہ باغ میں موجود نہتے مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا تھا۔\

Saturday, March 19, 2011

آتش کدہ

 ہفتہ ، 19 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان
جاسوسی، دہشت گردی، تخریب کاری اور کسی ملک میں تباہی کی منصوبہ سازی تین چار انسانوں کے قتل سے کہیں بڑا جرم ہے۔ مانا ریمنڈ کو مقتولین کے ورثاءنے معاف کردیا۔ ریاست اور ہر پاکستانی کیخلاف جرم کیسے معاف ہوگیا؟ معاف کیا تو کس نے، کس اتھارٹی، کس قانون کے تحت؟ ریمنڈ کو امریکی میڈیا نے جاسوس قرار دیا۔ اس سے ملنے والے اسلحہ، آلات اور دستاویزات نے اسکے جاسوس ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ پھر اس پر جاسوسی کا مقدمہ چلانے کی کس کی ذمہ داری تھی؟ اس پہلو کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟ رہائی کے پیچھے کون سرگرم رہا؟ رہائی کے احکامات کیسے اور کہاں سے آئے؟ منصف اعوان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے ڈیل ایک ارب 5 کروڑ کی ہوئی، ورثاءکو 20 کروڑ روپے دئیے، 85 کروڑ بروکر دبا گئے۔ یہ بروکر کون تھے؟ اقدامِ بے ثباتی و توقیری میں مرکزی اور پنجاب حکومت شامل ہیں۔ انکے سیاسی اختلافات دشمنی کی حدوں کو چھو رہے ہیں لیکن اس معاملے میں مل گئے۔ مصرع میں تصرف کے ساتھ....ع
کھان دی واری وکھو وکھ، جان بچون کو کٹھے، 
حکمرانوں نے قوم کو ریوڑ، ہجوم اور بھیڑ بکریاں سمجھ لیا۔ قوم سمجھا ہوتا تو اسکے تحفظات کو یوں جوتے کی نوک پر نہ رکھتے۔ بوٹا گجراتی نے خوب کہا
سن مار کے بوٹیا چور نسے
گلیاں وچ پھردے چوکیدار رہ گئے
لیکن معاملہ تو اس سے بھی آگے ہے۔ جب چوروں سے چوکیدار اور کُتی بھی مل جائے تو مالک کیا کرسکتا ہے؟
پردے کے پیچھے بہت کچھ ہوتا رہا۔ ریمنڈ کو 16 مارچ بدھ کے روز اڑا لے جانا تھا۔ جہاز منگل کو علامہ اقبال ائرپورٹ پر اترا۔ مقتولین کے ورثاءاس خاک اڑنے کے روز سے بھی ایک دن قبل گھروں سے غائب ہوچکے تھے۔ پلاننگ راتوں رات نہیں ہوئی پھر بھی اسکی میڈیا کو بھنک نہیں پڑی۔ نیشن کے ایڈیٹر رپورٹنگ اشرف ممتاز صاحب پریشان، پشیمان اور دل گرفتہ تھے۔ وہ اسے پاکستانی میڈیا کی مکمل ناکامی قرار دے رہے تھے۔ صدر، وزیراعظم، گورنروں، وزرائے اعلیٰ، خفیہ اداروں کے بڑے افسروں سے رفاقت کے دعویدار اخبار نویس، اینکرز، کالم نگار اور ایڈیٹرز اتنے بڑے ایونٹ کی منصوبہ بندی سے کیسے بے خبر رہ گئے۔ کئی کو اعلیٰ حکمرانوں کے بیڈ رومز تک رسائی کا زعم، کئی مس کال دیں تو بڑوں کی طرف سے کال آنے کے قصے سناتے ہیں۔ خود کو تیس مار خان اور چیخ مار خان سمجھنے والے غور کریں، انکے ساتھ کیا ہوا۔ انکے اعلیٰ سورس صرف اتنی بات ہی بتاتے ہیں جو انکے مفاد میں ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کچھ لوگ فوج کیلئے کام کرتے ہیں اور کچھ فوج کو بدنام کرتے ہیں۔ کئی نے فوج پر الزام تراشی، دشنام طرازی کو فیشن بنالیا۔ جھوٹے سچے سکینڈل تراش کر خود کو طرم خان ظاہر کرتے ہیں، فوج کا بجٹ قومی بجٹ کا 13 یا 14 فیصد ہے۔ یہ اسے 40 فیصد قرار دیکر عوام میں نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مغربی خصوصی طور پر امریکی میڈیا ہمارے میڈیا کی نسبت کہیں زیادہ آزاد اور انکے نکتہ نظر سے ذمہ دار بھی ہے۔ بش، اوباما عراق اور افغانستان کا خفیہ دورہ کریں تو اس وقت تک معلوم ہونے کے باوجود خبر شائع ہوتی ہے نہ نشر، جب تک امریکی صدر دورہ مکمل کرکے واپس روانہ نہیں ہوجاتا۔ ریمنڈ کی رہائی کے حوالے سے امریکی میڈیا میں کہیں نہ کہیں آگاہی ضرور تھی۔ امریکہ کا مفاد اس خبر کو چھپانے میں تھا، سو اس نے چھپایا۔ ہمارے ہاں مفاد خبر چھاپنے میں تھا، لیکن اسکی خبر ہی نہ ہوئی۔
ایمل کانسی کیس میں امریکی وکیل نے کہا تھا پاکستانی پیسے کی خاطر اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں۔ دنیا عام پاکستانی کے جذبات نہیں دیکھے گی۔ اسکی نظر 20 کروڑ کی ادائیگی سے ریمنڈ کی رہائی پر ہے۔ امریکہ کو ریمنڈ کو چھڑا لے جانے کی بڑی عجلت تھی۔ ہمارے حکمرانوں نے عدالت کا کندھا استعمال کرتے ہوئے بڑی سرعت سے امریکی خواہش کی تکمیل کردی۔ ہوسکتا ہے مبینہ طور پر لواحقین کی طرح جج کو یرغمال بنا کر فیصلہ لکھوالیا گیا ہو۔ 
امریکہ کی ریمنڈ کی رہائی پر ممنونیت ملاحظہ فرمائیے۔ ریمنڈ ابھی امریکہ پہنچا بھی نہیں تھا، بگرام میں تھا کہ پاکستان پر ڈرون کی یلغار ہوگئی۔ ایک دن میں 12 حملے، 84 شہادتیں۔ کیا حملے کرکے رہائی کا شکریہ ادا کیا گیا؟ ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد تین ہفتے تک ڈرون حملے نہیں ہوئے تھے۔ بعض حلقے اسے ڈرون حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے تھے۔ ہوسکتا ہے گزشتہ روز کے حملے اسی نے کروائے ہوں۔
ریمنڈ کی رہائی کی کسی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی تاہم اگر ذمہ داروں پرکوئی قہر ٹوٹ رہا تھا تو کم از کم عافیہ صدیقی کی رہائی کی ہی بات کی ہوتی۔ ریمنڈ کی رہائی بیک وقت برف اور آگ کی طرح ہے۔ آج اس رہائی کے حوالے سے بہت سے سوالات پر برف پڑی اور دھند چھائی ہوئی ہے۔ آہستہ آہستہ برف پگھلے گی، دھند چَھٹے گی، مطلع صاف ہوگا اور ہر سوال کا جواب مل جائیگا۔ قومی مجرموں کا تعین ہوگا، سانحہ مشرقی پاکستان اور کارگل کے ذمہ داروں کا قومی سطح پر ابھی تک تعین نہیں ہوا لیکن قدرت نے مجرموں سے انتقام ضرور لے لیا۔ کوئی بے سَر ہوا کوئی دربدر، ریمنڈ کی رہائی کے مجرم بھی قہر خداوندی سے بچ نہیں پائینگے۔ ریمنڈ کی رہائی قومی غیرت و حمیت کا سودا ہے جس سے پاکستانیوں کے اندر آتش کدہ کی مانند آگ بھڑک رہی ہے۔ خشک لکڑی جلتی اور شعلہ بن کر بجھ جاتی ہے۔ گیلی لکڑی سلگتی رہتی ہے۔ انجام اسکا بھی جلد یا بدیر راکھ ہوجانا ہے۔ آتش کدہ مسلسل جلتا ہے اور قریب آنیوالی ہر چیز کو بھسم کردینا آگ کی فطرت ہے۔ ہم بکھرے رہے تو یہ آگ اندر ہی اندر ہمیں جلاتی رہے گی۔ قوم بن گئے تو ملک و ملت کے غداروں کو انجام تک پہنچا دیگی۔ انہیں راکھ کرکے رکھ دے گی۔
٭٭٭


دل کی باتیں

دل کی باتیں
18-3-2011

Thursday, March 17, 2011

قائد پر الزام

جمعرات ، 17 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان
تعلیم و تربیت‘ دانش و حکمت‘ ہنر‘ سخن اور حسن اپنی اہمیت اور اثر رکھتے ہیں۔ تعلیم کا کچھ بھی متبادل نہیں ہے۔ اس کے بغیر انسان کامل وا کمل ہو ہی نہیں سکتا۔ دین فطرت میں بھی حصول علم پر زور دیا گیا ہے۔ آج ہماری قومی زندگی میں پسماندگی اور انحطاط کی بڑی وجوہات میں ”اعلیٰ درجے“ کی ناخواندگی بھی شامل ہے۔ یہ بدقسمتی پوری قوم کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس سے ہمارے حکمران بھی آلودہ ہیں جو محض الیکشن جیتنے اور لیلائے اقتدار تک رسائی کو اپنی عقلِ سقراط اور حکمتِ سقراط کا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں پر نظر دوڑائیں تو ان کے مکینوں کے کردار ’عمل‘ بیانات و اقدامات سے گماں گزرتا ہے کہ شہر میں سب سے پہلے داخل ہونے والے شخص کو ایوان صدر دوسرے کو وزیراعظم ہا ¶س میں بٹھا دیا گیا ہے۔ کیا بات کرنی ہے‘ کب کرنی ہے‘ کرنی بھی ہے یا نہیں۔ یہ سوچے بغیر بلاتکان بولے جا رہے ہیں۔ اس طرح بولنے سے سبکی اور شرمندگی ہو گی‘ اس کی کوئی پروا نہیں۔
صدر جناب آصف علی زرداری نے جس اجلاس میں کہا میاں صاحب نے میری زبان کٹوائی‘ اسی اجلاس میں یہ بھی فرمایا ”بعض لوگ کہتے ہیں مجھے سیاست نہیں کرنی چاہئے قائداعظم ملک کے گورنر جنرل تھے اور مسلم لیگ کے صدر بھی۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بھی ملک کے صدر اور پیپلز پارٹی کے سربراہ تھے۔“ اپنے مذکورہ بیانات کے اگلے روز میاں نواز شریف سے فون پر بات کرتے ہوئے آصف زرداری نے باور کرایا کہ انہوں نے زبان کٹوانے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ صدر صاحب کی وضاحت کو تسلیم کر لینے میں کوئی قباحت نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ بات میڈیا تک کیسے پہنچ گئی جس کا فسانے میں ذکر ہی نہیں تھا۔ کچھ اہل سیاست کہتے ہیں کہ سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ لیکن یہ سیاست میں نہیں ہونا چاہئے۔ اقبال اور قائد نے جس سیاست کو اپنایا اور جس کا درس دیا اس سیاست کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اقبال کہتے ہیں‘ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ جھوٹ فریب دھوکہ دہی سیاست نہیں سیاہ کاری و مکاری ہے۔ صدر کار عہدہ نہایت ذمہ داری کا متقاضی ہے۔ اپنی بلاجوازیوں کا جواز ثابت کرنے کیلئے نادانستگی میں بھی تاریخ کو گرد آلود نہ کیا جائے۔ صدر محترم نے فرمایا کہ قائداعظم گورنر جنرل کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔ 
صدر صاحب قائداعظم کا حوالہ دے کر بیک وقت صدر پاکستان اور پارٹی سربراہ‘ دو عہدے رکھنے کو جائز ثابت کر رہے ہیں۔ گویا باقی تمام کام بھی قائداعظم والے ہیں۔ اس لئے دو عہدے رکھنا بھی لازم ہے۔ اس سے پہلے صدر صاحب نے عابد شیر علی کے جعلی ڈگریوں کے اٹھائے ہوئے طوفان کے دوران یہ بھی فرمایا تھا کہ قائداعظم نان گریجوایٹ تھے۔ کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ ہم اکابرین امت اور قائدین ملت کی طرح کا بننے کی کوشش کریں۔ ہم اپنے مفاداتی جواز کو ثابت کرنے کیلئے مقدس ہستیوں کو کھینچ کر اپنے لیول تک لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست میں قائدین کو اپنے جیسا ثابت کیا جا رہا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کی تعلیمی استعداد پر بدستور ایک غبار چھایا ہواہے لیکن ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وہ گریجوایٹ بھی ہیں تو انہوں نے پیپر میز پر چاقو گَڈ کے یا پستول رکھ کے کتابیں کھول کر دئیے ہیں۔ میٹرک ایف اے تک قائداعظم کا تعلیمی کیرئیر بالکل واضح ہو جاتا ہے لنکزان سے حاصل کی گئی بیرسٹری کی ڈگری تو پوسٹ گریجوایشن کے برابر تھی۔ بیک وقت دو عہدے رکھنے جیسی قائداعظم سے بے اصولی کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے! قائداعظم نے 1948ءکو سربراہ مملکت ہونے کے باعث ساتھیوں کے بھرپور اصرار کے باوجود مسلم لیگ کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ تاریخ اوپر سے نازل ہو کر ازبر نہیں ہوتی اس کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔ ہمارے ممدوح نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا یا نصابی سلیبس ہی غور سے پڑھا ہوتا تو قائد محترم پر دو عہدے رکھنے کا الزام نہ لگاتے۔

Wednesday, March 16, 2011

خدا کرے وہ دور لوٹ کر نہ آئے۔۔۔

 بدھ ، 16 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان ـ 
معرکہ آرائی‘ دنگل کشتی کھیل الیکشن وغیرہ ہوتے ہی اپنی جِت اور حریف کی چِت کیلئے ہیں۔ جیت پر شادیانے بجانا فاتحین کا حق ہے۔ جو وہ استعمال کرتے ہیں۔ کئی اپنی کامرانی سے زیادہ مخالف فریق کی پشیمانی کا جشن مناتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو اپنی نصرت پر نہال اور شکست خوردہ کے حال پر پُرملال ہوتے ہیں۔ ان میں سے کون سا رویہ درست ہے اس کا انحصار مقابلے کی نوعیت پر ہے۔ ہم مروجہ سیاست کی بات کریں تو مخالف فریق کی ناکامی کامیابی تو کیا مخالف فریق ہی سرے سے قابل برداشت نہیں۔ مرکز میں پیپلز پارٹی‘ سب سے بڑے صوبے میں ن لیگ تخت نشین ہے۔ دونوں بڑی پارٹیاں ہیں۔ جتنی بڑی ہیں سوچ اور ایک دوسرے کیلئے برداشت اتنی ہی چھوٹی اور محدود ہے۔ ایک طرف صدر زرداری کا نواز شریف کو فون‘ گلے شکوے اور شکریے کی باتیں دوسری طرف چودھری نثار کی گھن گرج‘ ایوان صدر کا خط نہ ملنے پر بے قراری خط مل گیا تو چوبیس گھنٹے بعد بھی ”ابھی کھولا نہیں“ کی صدا کاری۔ تکبر تفاخر اور غرور کا مرقہ بنے فرماتے ہیں بابر اعوان کی باتوں کا جواب ان کے وقار کے منافی ہے۔ ساتھ ہی مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ بھی کر دیا۔ آپ کے پاس اکثریت ہے تو ان ہا ¶س تبدیلی لے آئیں۔ میاں نواز شریف اسمبلی سے باہر ہیں اقتدار کا ہما آپ کے سر پر بیٹھے گا۔ مڈٹرم الیکشن ایسے ہی آسان ہیں کہ ادھر کہہ دیا ادھر ہو گئے۔؟ 88 سے 99 کی سیاست ایسے ہی مطالبات اور ایک دوسرے پر سچے جھوٹے الزامات سے آلودہ ہے۔ اس دس سالہ نفرت انگیز سیاست کے بطن سے شر‘ انتشار نفاق‘ پگڑی ٹوپی اور دوپٹہ اچھالنے کے سوا کس چیز نے جنم لیا۔ سیاستدانوں کے اس رویے نے خود ان کو ہی نقصان پہنچایا۔ بدنام کیا اور کسی حد تک راندہ درگاہ بھی۔ سب سے بڑی بات اس شاخ کو کاٹتے رہے جس پر اپنا آشیاں تھا۔ دونوں پارٹیاں 2 دو مرتبہ اقتدار میں آئیں اور آئینی مدت پوری کرنے کی حسرت و آرزو دل میں لئے گھروں کو چلی گئیں۔ ان کی دھینگا مشتی‘ عدم برداشت‘ عدم اتفاق و اتحاد کا فائدہ طالع آزما ¶ں نے اٹھا کر ان کو کان سے پکڑ کر اکھاڑے کے باہر تماشائی بنا کر بٹھا دیا۔ نفرتوں کے بیج بو کر فصل گُل کی امید عبث ہے۔ جن کو ناتواں‘ انحطاط پذیر اور زبوں حالی کی منہ بولتی معیشت میں بھی مڈٹرم الیکشن کا شوق ہے۔ وہ مطالبے کے ساتھ ان مجوزہ انتخابات کا خرچ اٹھانے کا اعلان بھی کریں۔ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے میں ایک فریق نہیں بلکہ ہر پارٹی بموجب جثہ اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ فضل الرحمن اپنے گھر بیٹھ کر تسبیح کر رہے ہیں۔ جب کابینہ میں ان کی پارٹی شامل تھی تو شاید پانچ سالہ آئینی مدت کی تکمیل کی دعا کرتے ہوں۔ آج باہر ہیں تو دوسروں کو بھی اپنے جیسا دیکھنے کے متمنی۔ اپنے اقتدار میں آنے سے زیادہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کے خاتمے کی خواہش مچل رہی ہے۔ اقتدار کا بہت بڑا حصہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنے جُثے کے مطابق جمہوریت پروار کر رہی ہے۔ اس کی قیادت اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہنے کا درس دیتی ہے۔ ساتھ ساتھ عدلیہ کو اپنا مطیع بنانے کی بے پایاں خواہش بھی رکھتی ہے۔ غیر جانبدارانہ فیصلوں پر تضحیک آمیز اور شرمناک ردعمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ دیدار شاہ کی تقرری کالعدم قرار دینے پر سندھ میں خون آشام مظاہرے کرائے گئے سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور کی گئی۔ اس پر بھی منافقانہ بیانات کہ عدلیہ کے فیصلے قبول اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے بارہا کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اس کے معاملات میں کسی ادارے کو مداخلت نہیں کرنے دیں گے۔ عدلیہ کے معاملے میں حکومت کا رویہ جارحانہ‘ غیر مصالحانہ اور جابرانہ ہے‘ فوج تو حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔ اس کے ساتھ رویہ نہایت عاجزانہ‘ مخلصانہ اور فددیانہ ہے۔ تین سال میں حکومت نے کم و بیش درجن بھر عدالتی فیصلوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ فوج نے کیری لوگر بل پر شدید ردعمل ظاہر کیا تو عدلیہ پر گرجنے اور برسنے کی شہرت رکھنے والے فوج کے سامنے راکھ اور خاک کی ڈھیری ثابت ہوئے۔ بڑے جاہ و جلال اور طمطراق کے ساتھ آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنیکا نوٹیفکیشن جاری کیا پھر دل کے ارمان دل میں بسا کر واپس بھی لے لیا گیا۔ عدلیہ پر برسنے والوں کے فوج کی طرف جاتے ہوئے پر کیوں جلتے ہیں۔؟ اس لئے کہ عدلیہ کے پاس انصاف کا ترازو اور فوج کے پاس بندوق ہے۔ 
ابھی پانی سر سے اوپر نہیں ہوا۔ معاملات الجھے ہوئے ضرور ہیں‘ گنجلک نہیں ہوئے کہ ان کو سلجھایا نہ جا سکے۔ سیاسی فریقین رواداری کا مظاہرہ کریں۔ ان کو اپنے کردار عمل سے آنے کی دعوت نہ دیں جو ملک کا بیڑا غرق کرکے 9 دس اور گیارہ سال بعد واپس جاتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری یقیناً سب سے بڑی پارٹی پی پی پر عائد ہوتی ہے۔ جس نے محاذ بھی اپنی پارٹی جسامت کے مطابق کھول رکھے ہیں۔ ن لیگ بھی اصولوں کی سیاست پر توجہ دے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنی اصلاح کر لیں تو دیگر پارٹیاں ان کے ہم قدم ہونے پر مجبور ہوں گی۔ خدا کرے وہ دور لوٹ کر نہ آئے جس میں رسوائیاں ہمارے سیاستدانوں کا مقدر بن جائیں۔


Tuesday, March 15, 2011

غدارانِ ملت

 منگل ، 15 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان 
ملتِ بَیضا کو اتنا نقصان دشمن نے نہیں پہنچایا جتنا غداروں اور سیاہ کاروں نے۔ امہ کے غداروں کی لسٹ بنے گی تو جدید دور کے غداروں میں جنرل (ر) پرویز مشرف اور افغان صدر حامد کرزئی کے نام فہرست میں پہلے دوسرے نمبر پر ہونگے۔ پرویز مشرف نے اپنی بزدلی، اپنے اقتدار میں طوالت کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر پڑوسی برادر اسلامی ملک کی تباہی و بربادی کی خاطر پاکستان کی سرزمین امریکہ کے حوالے کر دی۔ امریکہ نے اپنے اتحادیوں سے مل کر لاکھوں افغانوں کو ان کی بستیوں سمیت صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ ہنوز ملکِ افغاناں کی تباہی و بربادی جاری ہے۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے امریکہ کو افغانوں میں سے ایک نسل کش کی ضرورت تھی جو ان کو حامد کرزئی کی صورت میں میسر آ گیا۔ کہاں سے؟ پاکستان سے! حامد کرزئی نے طالبان اسلامی تحریک کی شروع میں امن کی بحالی اور افراتفری کے خاتمے کے باعث حمایت کی تھی لیکن بظاہر ان کے سخت گیر موقف کی وجہ سے ان سے الگ ہو گئے۔ پھر ان کی مخالفت اور پاکستان چلے آئے۔ 1982ءمیں لاکھوں افغان پاکستان آئے تو کرزئی کا پورا خاندان بھی ان میں شامل تھا۔ کرزئی نے اعلیٰ تعلیم بھارتی شمالی ریاست ہماچل پردیش سے حاصل کی اور سیاسی تربیت کےلئے امریکہ چلے گئے اور بوسٹن میں ایک افغانستان ریستوران چلانے کی بھی تربیت حاصل کی یا یہ محض ایک بہانہ تھا کار دیگر سیکھنے اور کرنے کا! امریکہ کو طالبان دھڑوں کو متحد کرنے کی ضرورت پڑی تو کرزئی نے یہ کام پاکستان میں رہتے ہوئے کیا۔ انہی خدمات کے صلے میں افغانستان پر قبضے کے بعد امریکہ نے دسمبر 2001ءمیں کرزئی کو پاکستان سے اٹھا کر تختِ افغانستان پر لا بٹھایا۔ وہ تین سال تک چور دروازے سے آ کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان رہے۔ 2004ءکے رسمی اور 2010ءکے جعلی انتخابات کے باعث وہ متواتر افغانستان کے صدر چلے آ رہے ہیں بھارت کے افغانستان میں موجود 14 قونصل خانے بلوچستان میں بدامنی، انارکی اور فساد برپا کئے ہوئے ہیں۔ یہ کرزئی کی بھارت میں تعلیم اور افغانوں پر اتحادیوں کے جبر ظلم میں معاونت امریکہ میں تربیت کا شاخسانہ ہے۔ ان کے والد عبدالاحد کرزئی ظاہر شاہ کے دور میں اہم سیاسی عہدے پر تعینات تھے۔ قیام پاکستان کے وقت ظاہر شاہ کی بادشاہت تھی۔ وہ جولائی 1973ءتک داﺅد خان کی بغاوت تک بادشاہ رہے۔ ظاہر شاہ کے بعد داﺅد خان اور اس کے بھی بعد ببرک کارمل حفیظ اللہ امین اور نجیب اللہ تک کسی حکمران اور حکومت نے پاکستان کے لئے کلمہ خیر نہیں کہا۔ حامد کرزئی بھی چونکہ اس باپ کا بیٹا تھا جو پاکستان مخالف ظاہر شاہ کا درباری تھا۔ اس لئے اس کی سرشت اور فطرت میں اس کے باوجود پاکستان دشمنی شامل رہی کہ خود اور اس کا خاندان کئی سال تک پاکستان کے ٹکڑوں پر پلتا رہا۔ 
امریکہ افغانستان میں بچوں اور خواتین سمیت بے گناہوں کا بے دردی سے خون بہا رہا ہے۔ حامد کرزئی کا قصر اقتدار انہی معصوم مارے جانے والے اپنے ہم وطنوں کی قبروں پر تعمیر ہوا ہے۔ لاکھوں ہم وطنوں کے ملیا میٹ ہونے پر کرزئی کو کوئی غم نہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی اہلیہ محبوبہ زینت کرزئی کا ایک عزیز بھی امریکی بربریت کا شکار ہو کر مارا گیا تو زینت کو غمزدہ دیکھ کر کرزئی کے دل کے تار بھی ٹوٹ گئے۔ ان کے دل کا غم آہوں سسکیوں اور اشکوں کی صورت میں ابل کر باہر آ گیا، وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے اور آگ بگولہ ہو کر امریکی اور نیٹو فورسز سے کہا کہ افغانستان میں آپریشن بند کر کے جنگ پاکستان لے جائیں۔ احسان فراموش کرزئی کو دیکھئے، انہیں امریکہ کی جنگ سے نفرت اور اپنے لوگوں سے پیار ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو آپریشن بند کرنے کا ضرور کہنا چاہئے، یہ جنگ پاکستان لے جانے کے مشورہ کا کیا جواز ہے۔ پاکستان اتنا ہی لاوارث ہے کہ امریکہ بھارت اسرائیل اور اب کرزئی سمیت جس کے منہ میں جو آتا ہے بکتا چلا جاتا ہے۔ پیٹریاس کا موقف ملاحظہ فرمائیے اس امریکی جرنیل نے بیگم زینت کرزئی کے عزیز کے مارے جانے پر کرزئی سے معافی کی درخواست کی ہے۔ امریکہ کو لاکھوں افغانوں کے قتل، زخمی اور بے گھر ہونے پر کبھی معافی مانگنے کا خیال آیا نہ کرزئی کی آنکھ پر نم ہوئی۔ اب ایک شخص کے قتل پر امریکیوں کو زمیں ہلتی اور کرزئی کو آسمان جلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ 
کرزئی کے امریکہ کو جنگ پاکستان لے جانے کے مشورے پر پاکستان شدید احتجاج کرے۔ امریکہ کی جنگ کے شعلے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ جنگ مکمل طور پر پاکستان میں منتقل ہو جائے۔ پاکستانی حکمران ڈالروں کا حساب کتاب کئے بغیر پاکستان کے بہترین مفاد میں یہ جنگ امریکہ کو لوٹا دیں۔ امریکہ کو باور کرایا جائے کہ بہتر ہے کہ وہ یہ جنگ پاکستان سے سمیٹ لے۔ لڑنا ناگزیر ہے تو پاکستان سے باہر کوئی میدان منتخب کرے۔ وہ یہ جنگ اپنے ڈرون طیاروں سمیت افغانستان میں لڑے یا کرزئی کی چٹیل ٹنڈ پر‘ پاکستان کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔


Sunday, March 13, 2011

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا


سلام آباد میں 18 ممالک کے 250 جید علما نے 3 روزہ سیرت کانفرنس میں شرک       کی۔ کانفرنس کا افتتاح وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا۔ اختتامی مشترکہ اعلامیہ میں جہاں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے بھرپور سفارشات پیش کی گئیں وہیں خودکش حملوں کو حرام قرار دیتے ہوئے اسے ریاستی ڈھانچہ کو تباہ کرنے کی سازش باور کرایا گیا۔ علمائے کرام کے ”فتوے“ میں کہا گیا کہ انتہا پسندی مسلم معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے۔ اسلام آباد میں جمع ہونے والے علما کرام نے ایک اہم سیمینار اور کاز کے لئے اپنا وقت دیا یہ ان کا امت پر احسان ہے۔ علما نے اپنا وقت دیا بدلے میں حکومت نے اپنی مرضی کے اعلامیہ پر دستخط کرانے یا ہاتھ اٹھوانے کے لئے کرائے، قیام و طعام سمیت ان کو ہر سہولت فراہم کی۔ 1857 میں دہلی میں بھی علما کرام جمع ہوئے تھے انہوں نے بھی فتویٰ دیا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے نہ صرف اپنا وقت دیا بلکہ وقت آنے پر جان بھی دیدی۔ 
علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے جنگ آزادی میں انگریزوں کے عزائم بھانپ لئے تھے۔ جامع مسجد دہلی میں نماز جمعہ کے بعد علما کے سامنے تقریر کی اور اِستِفتاءپیش کیا۔ جس میں انگریز کے خلاف جہاد کے لئے کہا گیا تھا۔ جہاد کے اس فتوے پر مفتی صدرالدین خان، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی، سید مبارک حسین رامپوری نے دستخط کئے۔ اس فتوے کے جاری ہوتے ہی ہندوستان بھر میں قتال و جدال شروع ہو گیا۔ اُن علما کو اس فتوے کے نتائج و عواقب کا ادراک تھا لیکن 
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِِ بام ابھی
کچھ علمائے کرام کا استدلال ہے کہ جب تک حکومت جہاد کی اجازت نہ دے جہاد نہیں ہو گا۔ جنگ آزادی میں مسلمان جہاد کی کس حکومت سے اجازت طلب کرتے۔ کشمیر میں مجاہدین بھارت کی جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ افغانستان میں طالبان امریکی یلغار کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں عسکریت پسند اپنی دانست میں امریکہ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا ان کو کرزئی اور زرداری حکومت سے امریکہ کے خلاف جہاد کی اجازت لینا ہو گی؟ اور وہ بخوشی اپنے آقا کے خلاف جہاد کی اجازت دے بھی دیں گے؟
گزشتہ ماہ کوئٹہ میں اتحاد علما افغانستان کا اجلاس شیخ عبداللہ ذاکری کی صدارت میں ہوا جس میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے علما نے شرکت کی۔ ان علما نے فتویٰ جاری کیا کہ افغانستان میں اسلام کے مقدس قانون کے مطابق امریکہ کے خلاف اس وقت تک جہاد جاری رہے گا جب تک امریکہ روس کی طرح نیست و نابود نہیں جاتا۔ 
اسلام آباد میں جمع ہونیوالے علما نے بہت کچھ کہا، اتنا کچھ کہ تین دن تک کہتے ہی چلے گئے۔ لیکن وہ بات کہ جس کا پورے فسانے میں ذکر نہ تھا۔ یعنی امریکہ اسرائیل اور بھارت کی دہشتگردی پر کچھ نہ کہا۔ علمائے حق کو اس پر بھی بات کرنا چاہئے تھی۔مسلمانوں کی جان لینے والے حملوں کے حرام ہونے پر کس کو شک ہے؟ خودکشی جس بھی اعلیٰ و اولیٰ مقصد کے لئے کی جائے صریحاً حرام ہے۔ دشمن کو نقصان پہنچانے اور حق کی فتح کے لئے جو بھی مسلمان جان دیتا ہے وہ فدائی ہے فلسطین افغانستان اور کشمیر میں فدائین کی تعداد لامتناہی ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی کرنیوالوں کو مسلمان تو کیا انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔ 
لیکن جو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر صلیبی جنگ لڑ رہے ہیں ان کی دہشتگردی کے خلاف اسلام آباد میں آئے علماءخاموش کیوں رہے؟ دہشتگردی کی وجوہات ختم کر دی جائیں تو دہشتگردی اپنی موت آپ مر جائے۔ ان کو حق کی آواز بلند کرنا چاہئے تھی۔ اپنی جان اور واپسی کے کرائے کی پروا کئے بغیر۔
ایک مرتبہ پھر علامہ فضلِ حق خیرآبادی کی طرف آئیے۔ انگریزوں نے غداروں کو ساتھ ملا کر تحریک آزادی کو بے رحمی سے کچل دیا اس کے بعد ملکہ وکٹوریہ نے باغیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ مولانا زیر زمین تھے کہ اس اعلان پر منظرعام پر آ گئے۔ عام معافی کا اعلان ایک چال تھی۔ مولانا کو گرفتار کر کے خیرآباد سے لکھنﺅ کی عدالت میں بغاوت کے مقدمے میں پیش کر دیا گیا۔ گواہ نے علامہ خیرآبادی کی شناخت سے انکار کیا۔ جج ان کا شاگرد رہ چکا تھا۔ اپنی سیٹ پر جاتے ہوئے علامہ کے کان میں کہا ”علامہ صاحب صرف اتنا کہنا ہے کہ فتویٰ میں نے نہیں دیا تھا“۔ اپنی کرسی پر بیٹھ کر جج نے پوچھا کیا آپ نے انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ہے؟ علامہ خیرآبادی کا جواب جج کے لئے غیر متوقع ”ہاں بالکل دیا ہے۔ گواہ نے محض مروت میں مجھے پہچاننے سے انکار کیا ہے“ اس پر علامہ فضلِ حق خیرآبادی کو عمرقید کی سزا دے کر کالاپانی بھیج دیا گیا اور ان کا وہیں 19 اگست 1861 کو انتقال ہوا۔ آپ کا مزار بھی وہیں پہ ہے۔ ان کے ساتھی مولانا کفایت علی کافی کو پھانسی لگا دیا گیا (تذکرہ علماءہند) اس دور میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا عبدالحق مہاجر مکی، شاہ احمد سعید مجددی، مولانا ڈاکٹر وزیر خان اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی جیسے اکابرین امت اپنا وطن چھوڑ کر حجاز مقدس میں جا بسے.... بادی النظر میں خودکش حملوں کا منبع پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہے۔ اسلام آباد آنے والے رہنمایانِ امت تھوڑا آگے چلے جاتے۔ کرنل امام اور خالد خواجہ کی طرح۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے۔ یہ بھی جہاد ہے یقیناً اس جہاد کے لئے سربراہِ مملکت سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

 اتوار ، 13 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان 
اسلام آباد میں 18 ممالک کے 250 جید علما نے 3 روزہ سیرت کانفرنس میں شرکت کی۔ کانفرنس کا افتتاح وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا۔ اختتامی مشترکہ اعلامیہ میں جہاں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے بھرپور سفارشات پیش کی گئیں وہیں خودکش حملوں کو حرام قرار دیتے ہوئے اسے ریاستی ڈھانچہ کو تباہ کرنے کی سازش باور کرایا گیا۔ علمائے کرام کے ”فتویٰ“ میں کہا گیا کہ انتہا پسندی مسلم معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے۔ اسلام آباد میں جمع ہونے والے علما کرام نے ایک اہم سیمینار اور کاز کے لئے اپنا وقت دیا یہ ان کا امت پر احسان ہے۔ علما نے اپنا وقت دیا بدلے میں حکومت نے اپنی مرضی کے اعلامیہ پر دستخط کرانے یا ہاتھ اٹھوانے کے لئے کرائے، قیام و طعام سمیت ان کو ہر سہولت فراہم کی۔ 1857 میں دہلی میں بھی علامہ فضلِ حق خیرآبادی کی قیادت میں علما کرام جمع ہوئے اور انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے نہ صرف اپنا وقت دیا بلکہ وقت آنے پر جان بھی دیدی۔ اُن علما کو اس فتوے کے نتائج و عواقب کا ادراک تھا لیکن 
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِِ بام ابھی
گزشتہ ماہ کوئٹہ میں اتحاد علما افغانستان کا اجلاس شیخ عبداللہ ذاکری کی صدارت میں ہوا جس میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے علما نے شرکت کی۔ ان علما نے فتویٰ جاری کیا کہ افغانستان میں اسلام کے مقدس قانون کے مطابق امریکہ کے خلاف اس وقت تک جہاد جاری رہے گا جب تک امریکہ روس کی طرح نیست و نابود نہیں جاتا۔ 
اسلام آباد میں جمع ہونیوالے علما نے بہت کچھ کہا، اتنا کچھ کہ تین دن تک کہتے ہی چلے گئے۔ لیکن وہ بات کہ جس کا پورے فسانے میں ذکر نہ تھا۔ یعنی امریکہ اسرائیل اور بھارت کی دہشتگردی پر کچھ نہ کہا، ڈرون حملوں پر خاموشی۔ علمائے حق کو اس پر بھی بات کرنا چاہئے تھی۔ مسلمانوں کی جان لینے والے حملوں کے حرام ہونے پر کس کو شک ہے؟ خودکشی جس بھی اعلیٰ و اولیٰ مقصد کے لئے کی جائے صریحاً حرام ہے۔ دشمن کو نقصان پہنچانے اور حق کی فتح کے لئے جو بھی مسلمان جان دیتا ہے وہ فدائی ہے فلسطین افغانستان اور کشمیر میں فدائین کی تعداد لامتناہی ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی کرنیوالوں کو مسلمان تو کیا انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔ لیکن جو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر صلیبی جنگ لڑ رہے ہیں ان کی دہشتگردی کے خلاف اسلام آباد میں آئے علماءخاموش کیوں رہے؟ دہشتگردی کی وجوہات ختم کر دی جائیں تو دہشتگردی اپنی موت آپ مر جائے۔ ان کو حق کی آواز بلند کرنا چاہئے تھی۔ اپنی جان اور واپسی کے کرائے کی پروا کئے بغیر۔ 
قرار دیا جاتا ہے کہ خودکش حملوں کی منصوبہ بندی وزیرستان میں کی جاتی ہے۔ اسلام آباد آنے والے رہنمایانِ امت تھوڑا آگے چلے جاتے۔ کرنل امام اور خالد خواجہ کی طرح۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے۔ یہ بھی جہاد ہے یقیناً اس جہاد کے لئے سربراہِ مملکت سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

Friday, March 11, 2011

کیوبا میں میڈیکل کے پاکستانی طلبا کی پریشانی

جمعۃالمبارک ، 11 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان 
اچھی تعلیم کا حصول غریب اور متوسط و سفید پوش طبقے کی اولاد کے لئے کھجور کے شجر کی مانند ہو گیا ہے جس کی کڑی دھوپ میں چھائوں نہ ہونے کے برابر اور بھوک کی صورت میں پھل بہت دور ہوتا ہے۔ میڈیکل جیسی پیشہ ورانہ تعلیم کی بات کی جائے تو مذکورہ طبقات اخراجات برداشت کر ہی نہیں سکتے۔ اگر کوئی قرض اٹھا کر یا جائیداد بیچ کر تعلیمی اخراجات پورے کر لے تو الگ بات ہے۔ میڈیکل بڑا مشکل سبجیکٹ ہے تاہم ذہین اور محنتی طلباء طالبات کی کمی نہیں ہے۔ یہ میرٹ پر پورا ضرور اترتے ہیں لیکن ہزاروں محض اخراجات کے سامنے بے بس ہو کر شعبہ بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی طلبہ کے لئے دستِ غیب سے اُس وقت معاونت ہوئی جب لاطینی امریکہ کے چھوٹے سے ملک کیوبا نے 2005ء کے زلزلے کے باعث ایک ہزار پاکستانی طلبہ کو شکالرشپ کی پیشکش کی۔ یہ طلبا دو گروپوں میں کیوبا گئے۔ ان میں سے 2008ء میں 600 طلبا کا گروپ آج ہائر ایجوکیشن کمیشن کی بے اعتنائی لاپروائی اور ناروائی پر شکوہ کناں ہے۔ متاثرہ طلبہ اپنی پریشانی سے ای میلز کے ذریعے کالم نگاروں اور حکمرانوں اور ہائر کمیشن کے ذمہ داروں کو آگاہ کر رہے ہیں۔ ان کی حالت زار ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیے۔ 
’’2005ء کے ہولناک زلزلے کے بعد کیوبا نے پاکستان کو میڈیکل کے شعبے میں ایک ہزار سکالرشپ کی پیشکش کی۔ حکومتِ پاکستان نے اسے شکریے کے ساتھ قبول کیا اور طلبہ کو بھیجنے کی ذمہ داری ہائر ایجوکیشن کمیشن کو سونپی گئی۔ ایچ ای سی نے خالص میرٹ پر طلبہ کو سکالرشپ دئیے اور لگ بھگ 350 طلبہ کا پہلا گروپ 2007ء کے اوائل میں کیوبا بھیجا گیا اور بقیہ 600 طلبہ کا ایک اور گروپ 2008ء میں کیوبا روانہ کر دیا گیا۔ ہوائی سفر کے اخراجات کے ساتھ قلیل ماہانہ وظیفے کی ادائیگی ایچ ای سی کی ذمہ داری ٹھہری اور کیوبا میں سو فیصد مفت میڈیکل کی تعلیم اور دیگر سہولیات مہیا کرنا کیوبن گورنمنٹ کی۔ ایچ ای سی نے یہ باور کرایا تھا کہ وہ چھ سال کے تعلیمی دورانیے کے دوران طلبہ کو پاکستان آنے کے لئے کم از کم ایک ٹکٹ ضرور ادا کیا جائے گا جس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا جب پہلے گروپ کے طلبہ کو 2008ء میں پاکستان لایا گیا۔ یعنی نصف دورانیے سے بھی قبل، ہم لوگ دوسرے گروپ میں شامل تھے اور ہم نے بارہا مرتبہ تقاضا کیا کہ ہمارا بھی ایک دفعہ پاکستان جانے کا بندوبست کیا جائے۔ اس سال جون میں ہمارے پورے تین سال مکمل ہو جائیں گے۔ ایچ ای سی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی بلکہ اُلٹا ہمیں جواب میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ آپ لوگوں کو پاکستان لا سکیں۔ 
یہاں آئے ہوئے طلبہ کی اکثریت غریب اور پسماندہ گھرانوں سے ہے جو اپنے خرچ پر پاکستان جانے کی سکت نہیں رکھتی اور اسی اُمید پر بیٹھی ہے کہ حکومت پاکستان اپنے سکالرز کو حسب وعدہ تین سال بعد اب 2011ء کے وسط میں ضرور پاکستان لے جائے گی۔ ارباب بست و کشاد سے عاجزانہ درخواست ہے کہ ایک نظر ادھر بھی ڈال لیں کہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔ 
پاکستانی میڈیکل طلبہ (سیشن 2) کیوبا
Mob: 005352755129
Email: r_farooqi006@filialfcm.ssp.sld.cu
کیوبا میں موجودہ ان پاکستانی طلبا کا خط کافی تلخ ترش اور طویل ہے۔ کانٹ چھانٹ کر کے صرف 10 بارہ فیصد حصہ شائع کر دیا ہے۔ ان طلبا کی پریشانی کا اندازہ دیارِ غیر میں موجودہ غریب الوطن افراد کو ہو سکتا ہے یا اپنے پیاروں سے ملنے کی تڑپ لئے والدین اور عزیز و اقارب کو۔ ان بچوں میں اگر ایک کا باپ بھی وزیر، مشیر، جرنیل، جج یا بیورو کریٹ ہوتا تو یقیناً دوسرے سیشن کے طلبا کو ہائر ایجوکیشن کمشن دو سال بعد ان کے والدین سے ملوا دیتا۔ طلبہ نے خود ہی اپنا جرم بتا دیا کہ اکثر کا تعلق پسماندہ اور غریب گھرانوں سے ہے… اس کے باوجود بھی وہ پاکستانی ہیں۔ فنڈز کی اپروول اور فراہمی کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ کمٹمنٹ پر پورا اترنے کا عزم اور اپنے عہد اور وعدے نبھانے کا ارادہ ہونا چاہئے۔ مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور وسائل خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ جس ملک میں صرف ایک کیس میں 50 ارب روپے رشوت دی اور لی جاتی ہو وہاں 600 طلبا کی ٹکٹ کے لئے چند کروڑ روپے کی عدم فراہمی کا رونا رونا بلاجواز ہے۔ ہائر ایجوکیشن کے حکام ان طلبہ کی اپنی اولاد سمجھیں تو حسب وعدہ یہ جون میں وطن واپس آ کر وطن سے مزید تین سال دور رہنے کی بیٹری چارج کرا سکتے ہیں۔ کیوبا نے چھوٹا سا ملک ہو کر اتنا بڑا دل کیا ہے، پاکستان تو بڑا ملک ہے۔ اس کے کرتا دھرتا بھی دل بڑا کریں۔ امید ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمشن کے نس طور قوم کے مستقبل کو مایوس نہیں کریں گے۔


Wednesday, March 9, 2011

گئے گزرے

مارچ ,9 ، 2011


فضل حسین اعوان 
1971ء
کی جنگ کے سیاہ اور منحوس سائے شاید قیامت تک بھوت بن کر ملت کے سر پر منڈلاتے رہیں گے۔ بزدلی لڑنے والوں نے نہیں ان کی قیادت اور سیادت نے دکھائی۔ وطن کی خاطر بے جگری سے لڑتے ہوئے جانیں دینے والوں کی روحیں بے چین ہوں گی، کہ ان کی قربانی کس مقصد کے لئے تھی۔ بھارت میں قید کی صعوبت اور سرنڈر کی ذلت کا شکار ہونے والے 93 ہزار میں سے 80 ہزار سے زائد تو اب بھی زندہ ہونگے۔ ان میں سے کئی جرنیل کے رینک تک پہنچے۔ ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے منظم اور متحد ہو کر ملت کی رسوائی کا سامان کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا۔ 71ءکی جنگ کے شہداءکی روحیں شاید مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ داروں کے تعین اور مجرموں کو سزا ملنے تک بے قرار رہیں۔ خطا کاروں اور گناہ گاروں کی معافی ہو سکتی ہے۔ غداروں کو نہیں۔ غداروں کا تعین ہونا چاہئے تاکہ قوم ان کی نسلوں سے محتاط رہ سکے۔ پاکستان توڑنے کے کئی ذمہ دار پیوند خاک ہو گئے۔ جس مقصد کے لئے ملک توڑا وہ مقصد پورا ہوا آخر کتنی مدت تک حکمرانی کر لی، کیا کما لیا کیا بنا لیا کیا پا لیا؟ ان کی نسلیں شاد اور آباد ہیں لیکن جنگ کی تباہی بربادی خوں آشامی اور خوں افشانی کی بازگشت ابھی تھمی نہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کے قاتلوں کو پھانسی لگ رہی ہے۔ کچھ اپنا ملک چھوڑ کر چھپے ہوئے ہیں۔ کئی کو حسینہ واجد پاکستان سے محبت کی سزا دینا چاہتی ہے بہت سوں کو جنگی مجرم ثابت کر کے تختہ دار پر لے جانے کے لئے تلی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش میں اب بھی مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جیلوں میں موجود ہیں۔ ایک کے بارے میں چند دن قبل انکشاف ہوا ہے۔ ابوبکر شاہ 1970ءمیں انجینئرنگ سنٹر رسالپور سے 14 ڈویژنل سنٹر مشرقی پاکستان میں تعینات ہوا۔ شورش کے دوران لاپتہ ہو گیا جسے شہید تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے والدین کو 24 سال سے پنشن بھی مل رہی تھی۔ اب پتہ چلا ہے کہ وہ زندہ اور قید میں ہے۔ بنگلہ دیشی سفارتخانے نے تصدیق کی ہے کہ دو تین دن میں اس کو رہا کر دیا جائے گا۔ ابوبکر پر چالیس سال میں کیا بیتی، وہ کہاں اور کس حال میں رہا؟ بنگلہ دیشی حکومت نے چالیس سال تک اس کی اور اس جیسے دیگر پاکستانیوں کی اطلاع پاکستان کو کیوں نہیں دی؟ یہ سوالات ہر پاکستانی کے ذہن میں کلبلا رہے ہیں۔ کچھ کے جوابات ابوبکر شاہ کی رہائی کے بعد سامنے آ سکتے ہیں اگر وہ سب کچھ بتانے کے قابل ہوا تو.... یہاں دو جاپانیوں کا تذکرہ برمحل ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں لیفٹیننٹ اونوڈا اور کوزوکا ان گوریلوں میں سے تھے جن کو فلپائن میں تعینات کیا گیا ان کے کمانڈر نے کہا تھا کہ کسی صورت خود کو دشمن کے حوالے کرنا ہے نہ خودکشی کرنی ہے۔ ہم یہیں ملیں گے، ایک سال لگ سکتا ہے تین سال یا پانچ سال بھی۔ جنگ 1945ءمیں ختم ہو گئی لیکن یہ دونوں جنگل میں دشمن کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے 1972ءمیں کوزوکا فلپائنی فورسز کی فائرنگ میں ماارا گیا اونوڈا اکیلا جنگلوں میں چھپ کر موقع ملنے پر فلپائنیوں کو نقصان پہنچاتا رہا۔ اس جنگل میں جاپانی طلبہ کا گزر ہوا ایک کی اونوڈا سے ملاقات ہوئی۔ اسے بتایا گیا کہ جنگ تو ختم ہو چکی جاپان ہار مان چکا ہے۔ اونوڈا کا کہنا تھا وہ اپنے کمانڈر کے حکم کے بغیر ہتھیار نہیں پھینکے گا۔ اس کا کمانڈر میجر ٹینی گوچی کب کا ریٹائر ہو کر کتابوں کا ڈپو چلا رہا تھا۔ میجر ٹینی گوچی کو فلپائن کے جنگل میں لایا گیا اس نے اونچی آواز میں آرڈر پڑھ کر سنایا کہ جاپان جنگ ہار گیا ہے اب تمام جنگی سرگرمیاں ختم کر دی گئی ہیں۔ اس پر 1974میں اونوڈا نے اپنی گن، اس کی گولیاں اور متعدد ہینڈ گرنیڈ فلپائنی فورسز کے حوالے کر دئیے۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے 30 فلپائنیوں کو ہلاک اور 100 کو زخمی کیا تھا۔ صدر مارکوس نے اس کی کمٹمنٹ دیکھ کر معاف کر دیا.... بنگلہ دیش پاکستان کا کٹا ہوا بازو ہے دونوں کا دین ایک نبی ایک خدا اور قرآن ایک۔ بنگلہ دیشی حکمران کیا آمر فرڈی ننڈ مارکوس سے بھی گئے گزرے ہیں کہ پاکستانیوں کو آج چالیس سال بعد بھی قید میں رکھا ہوا ہے۔


Tuesday, March 8, 2011

ٹرسٹ

مارچ , 8 ، 2011-
فضل حسین اعوان 
تیس کی دہائی میں راک فیلر دنیا کا امیر ترین آدمی تھا۔ وہ جس کام میں ہاتھ ڈالتا کامیابی قدم چوم لیتی۔ کھرب پتی امریکی کے دولت کے پیمانے چھلک چھلک جاتے۔ عموماً لوگ غربت کی وجہ سے تنگ، یہ مال و دولت کی فراوانی سے پریشان تھا۔ سوچتا اتنے مال و زر کا کیا کرے۔ یہی سوچ لے کر ایک مذہبی رہنما کے پاس گیا۔ اس نے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا مشورہ دیا۔ راک نے تعلیمی ادارے، ہسپتال، ریسرچ سنٹرز اور لاوارث و عمر رسیدہ لوگوں کے لئے گھر بنانے پر بڑی بڑی رقمیں خرچ کیں۔ حیران کن امر ہے کہ اُس نے خدا کی راہ اور انسانیت کی فلاح کے لئے جتنا خرچ کیا۔ قدرت کاملہ نے اسے 10 گنا کر کے لوٹا دیا۔ وارن بوفے 2008ءمیں دنیا کا امیر ترین آدمی تھا اس کے اثاثوں کی مالیت 55 ارب ڈالر ہے۔ 2007ءمیں اسے 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس نے اربوں ڈالر بل گیٹس کے خیراتی ادارے میں دے دئیے۔ اگلے سال اس کا خسارہ پورا ہو گیا۔ خود بل گیٹس اپنی دولت کا بڑا حصہ خیرات کرتا ہے لیکن دولت کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ خدا اپنے ذمے کبھی قرض نہیں رکھتا۔ اس کی راہ میں خرچ ہونیوالا ایک ایک پیسہ کئی گنا ہو کر واپس صاحبِ استطاعت کے پاس لوٹ آتا ہے۔ اس پر ہم مسلمانوں کا یقین محکم ہے۔ لیکن ہمارے اسلاف کے طریقہ کار پر ہم سے زیادہ غیرمسلم کاربند ہیں۔ آج بھی خال خال ہی سہی مسلمانوں میں بھی ایسی ہستیاں ضرور موجود ہیں جو حضور اور صحابہؓ کے فیاضی سخاوت اور انسانی خدمت کے طریقے سلیقے اور سلسلے پر عمل پیرا ہیں۔ پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی کھربوں کی دولت میں سے اربوں روپے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کر دیتے ہیں کچھ سرعام ایسا کرتے ہیں اور کچھ دوسرے ہاتھ کو خبر نہیں ہونے دیتے۔ طریقے دونوں درست ہیں۔ جو سرِعام دیتے ہیں ان سے دوسروں کو بھی انسپائریشن ملتی ہے۔ پاکستان میں اربوں کھربوں مالیت کے ٹرسٹ ٹائم ہیں جو صرف اور صرف خوفِ خدا کے باعث مختلف شعبوں میں انسانیت کی خدمت کو وطیرہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں جلال پور جٹاں میں کوکب میر میموریل ویلفیئر ٹرسٹ بھی ایک ہے۔ یہ ٹرسٹ جناب تجمل حسین نے اپنی ہمشیرہ کوکب میر کی یاد میں قائم کیا۔ محترمہ کوکب میر کا 1991ءمیں انتقال ہو گیا۔ تجمل حسین کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچاس کی دہائی میں راک فیلر کی چیریٹی کے بارے میں پڑھا اور اس سے متاثر ہو کر کوکب میر ٹرسٹ قائم کیا۔ کوکب میر کی زندگی بھی انسانی خدمت سے عبارت تھی۔ اس ٹرسٹ کے زیر اہتمام تعلیمی ادارے قائم کئے گئے اور ان میں مسلسل توسیع ہو رہی ہے۔ فیس نو پرافٹ نو لاس کی بنیاد پر مقرر کی گئی ہے۔ مستحق طلبا کو فیس کتابیں اور دیگر ضروریات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ علاقے کے لوگوں کے لئے صحت کی مفت سہولتیں بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ غریب بچیوں کی شادیوں اور کسی کو امداد کی ضرورت ہو تو اس کا اہتمام بھی موجود ہے۔ ٹرسٹ کی پائی پائی کا حساب رکھا جاتا ہے اور ہر سال اعلیٰ پیمانے آڈٹ کا بھی انتظام ہے۔ مسٹر تجمل حسین کو امتیاز احمد پرویز، ارشد احمد میر، حمیدالدین شیخ، ڈاکٹر عائشہ تجمل، ڈاکٹر شاہد افضل، میجر (ر) خرم حمید، مسٹر محمد یوسف شاہ اور مسٹر ایم اے رشید کی صورت میں ٹرسٹ چلانے کے لئے بہتر ٹیم میسر ہے۔ تجمل حسین کہتے ہیں کہ وہ جتنا خرچ کرتے ہیں خُدا کی رحمت سے اس سے کئی گنا لوٹ آتا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ خدا نے جن کو ہمت دی ہے وہ انسانی فلاح و بہبود کے ادارے قائم کریں۔ اس سے انسانیت کی خدمت ہو گی اور منافع بھی کئی گنا بڑھ جائےگا۔ تجمل حسین نے اڑھائی کروڑ روپے سے ٹرسٹ قائم کیا۔ آج اثاثوں کی مالیت 45 کروڑ ہے۔ خدا کی رحمت پر بھروسا کر کے تو دیکھیں۔ حالات بدل جائیں گے، دنیا اور آخرت سنور جائےگی۔ ضروری نہیں ٹرسٹ لاکھوں کروڑوں کی لاگت سے قائم ہو۔ دیہات میں جس ڈیرے سے مسافروں کو طعام و قیام کی سہولت مل جاتی ہے وہ بھی ٹرسٹ ہے کسی غریب کی ضرورت پوری کر دینا، لاوارثوں کی مدد کرنا، بے سہاروں کا سہارا بننا، بے کس والدین کی بیٹیوں کی شادی کرا دینا بھی کارِ خیر ہے۔ ذرا غور کیجئے خدمت خلق کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ 
٭٭٭


Sunday, March 6, 2011

”شیطانِ اعظم“

  مارچ,6 ، 2011
فضل حسین اعوان
ریمنڈ ڈیوس کے ذکر پر امریکی گوروں کے چہروں کی سرخی زردی میں بدل جاتی اور کالوں کا رنگ مزید سیاہ ہو جاتا ہے۔ امریکی انتظامیہ کے حواس پر ریمنڈ کی فوری رہائی کا بھوت سوار ہے۔ اوباما اور ہلیری سمیت امریکی انتظامیہ کا جیسے کوئلوں پر پاﺅں آیا ہوا ہے۔ کبھی پاکستان کو دھمکایا، کبھی امداد کی بندش کا ہوّا دکھایا اور کبھی ”خیرات“ میں اضافے کا مژدہ سنایا جا رہا ہے۔ لیکن دال کسی صورت نہیں گل رہی۔ کاغذی ہی سہی ہماری قیادت کم از کم ریمنڈ کے معاملے میں شیر بن چکی ہے۔ دیکھئے کب تک! 
پارلیمنٹ کے سُپر ہونے کے دعویداروں نے اب سارا بوجھ عدالت پر ڈال دیا ہے۔ امریکہ ایک طرف حکومت پر مسلسل دباﺅ ڈال رہا ہے تو دوسری طرف مقتولین کے ورثا کو منانے کا بھی کام کر رہا ہے۔ اگر ورثا معاف کر دیتے ہیں۔ یا عدالت میں ثابت ہو جاتا ہے کہ ریمنڈ نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی تو اس پر ناجائز اسلحہ کے معمولی مقدمات باقی رہ جائیں گے جن میں لمبی سزا کا امکان نہیں۔ لیکن اب بات دو یا چار قتلوں کی نہیں بلکہ اس کے خطرناک جاسوسی کردار کی ہے۔ ریمنڈ ہر گزرتے لمحے بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی اور برطانوی اخبارات اسے سی آئی اے کا جاسوس قرار دے چکے ہیں۔ اس سے برآمد ہونیوالی دستاویزات، لاہور میں سرگرمیوں اور فائرنگ کے بعد جان کنی کے عالم میں تڑپتے پاکستانیوں کی ویڈیو بنانے کے عمل نے لاﺅس میں امریکی کارندوں کی بربریت کی یاد دلا دی۔ ان میں ایک رابرٹ اینڈرسن بھی تھا۔ اینڈرسن نے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ویتنام جنگ میں لاﺅس کی وہی سٹرٹیجک اہمیت تھی جو آج افغان وار میں پاکستان کی ہے۔ ویتنام جنگ میں اس کا کردار وہی تھا جو ریمنڈ ڈیوس کا پاکستان میں رہا ہے۔ رابرٹ اینڈرسن نے ریمنڈ کو سفارتی کور میں امریکی جاسوس قرار دیا ہے جو سفارتخانے کے باہر کام کر رہا تھا۔ رابرٹ نے دل دہلا اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے انکشافات کئے ہیں۔ لاﺅس میں وہ اس پروگرام سے منسلک تھا جس کے تحت امریکی مفادات کی مخالفت کرنیوالوں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ ”فونیکس پروگرام“ کے تحت اس علاقے میں کرائے کے قاتلوں کے ذریعے 60 ہزار افراد کو قتل کیا گیا.... پاکستان میں امریکی جنگ کا ایندھن بننے والوں کی تعداد 33 ہزار ہو چکی ہے۔ رابرٹ کے بقول انہوں نے سویلین انفراسٹرکچر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ پاکستان کو اب تک 45 ارب ڈالر ایسا ہی نقصان ہو چکا ہے۔ رابرٹ کہتا ہے کہ کرائے کے قاتل انہیں انسانی کانوں سے بھرے بیگ دکھاتے جن کو قتل کر دیا گیا ہوتا تھا۔ ایک دن ان کو بتایا گیا کہ اب مُردوں کے کان کاٹنے کی ضرورت نہیں معاوضے کے لئے صرف قتل ہونے والوں کی محض تصویر بنا لیا کریں۔ ریمنڈ ڈیوس کا گرفتاری سے قبل آخری عمل جان کنی کے عالم میں تڑپتے پاکستانیوں کی تصویر کشی تھی۔ 
ریمنڈ کو حساس اداروں کے حوالے کریں تو رابرٹ اینڈرسن سے بھی زیادہ سنسنی خیز انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔ ایک امریکی جاسوس پاکستان کے ہاتھ لگا۔ ابھی اس نے کچھ نہیں اگلا۔ خود اس کے ہم وطن اس کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ اس کے اندر بہت کچھ چھپا ہے۔ جو ہمارے حساس اداروں کے لئے کارآمد ہے اور وہی اگلوا سکتے ہیں۔ آج امریکہ کی پاکستان سے دوستی کی آڑ میں دشمنی بالکل عیاں ہو گئی ہے۔ رابرٹ اینڈرسن نے کیا خوب کہا ہے ”آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ دوسرے ممالک ہم پر اعتماد کیوں نہیں کرتے اور پورے مشرقِ وسطیٰ میں لوگ شیطانِ اعظم (Great Satan) کے خلاف کیوں کھڑے ہو رہے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس اس وقت بڑی ابتر صورتحال سے دوچار ہے اس لئے کہ دنیا کے بیشتر لوگ، جن کا نظارہ مشرق وسطیٰ میں بخوبی کیا جا سکتا ہے، ہمارے جھوٹوں کے بارے میں جان گئے ہیں اور اب وہ ہماری بات ہرگز نہیں مانیں گے۔“ اینڈرسن نے جو کچھ اپنے ملک کے بارے میں کہا کاش ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں بھی آ جائے اور وہ ریمنڈ کو صرف سفارتکار اور محض چار پاکستانیوں کا قاتل ہی نہ سمجھیں، پاکستان کی بنیادوں کو ہلا دینے کی کوشش کرنے والا جاسوس سمجھیں اور اسی کے مطابق اس کے خلاف کارروائی بھی کریں اور شیطان اعظم سے گلوخلوصی کرا لیں۔

Saturday, March 5, 2011

اقلیتیں محفوظ

 مارچ,5 ، 2011
فضل حسین اعوان
خدا بہتر جانتا ہے کہ شہباز بھٹی موت سے نہیں ڈرتے تھے یا گارڈوں سے ڈرتے تھے۔ موت کا یقیناً ایک دن مقرر ہے لیکن قدرت نے ہر انسان کو اپنی حفاظت کا اختیار اور شعور دے رکھا ہے۔ ٹرین کے سامنے کودنے اور دریا میں چھلانگ لگانے کا انجام کیا ہوتا ہے؟ بجلی کی تاروں کو چھو کر اور تندور میں ہاتھ ڈال کر اس کے سلامت رہنے کی توقع حماقت ہے.... سویڈن پرامن ملک ہے۔ اس کا وزیراعظم اولف پالمے اپنی اہلیہ لزبت کے ساتھ آدھی رات کو سینما سے پیدل گھر واپس آ رہے تھے کہ ان پر فائرنگ کر دی گئی۔ پالمے موقع پر ہلاک ہو گئے یہ 28 فروری 1986ءکا واقعہ ہے۔ اس قتل میں کے جی بی ملوث تھی سی آئی اے کوئی اور ایجنسی یا ہاتھ؟ یہ قتل بدستور معمہ ہے۔ شہباز بھٹی جس ملک میں بغیر سیکورٹی کے پھرتے تھے یہ سویڈن نہیں پاکستان ہے۔ یہاں کون محفوظ ہے۔ جی ایچ کیو کے اندر حملہ ہو چکا ہے چھاﺅنیاں نشانہ بنتی ہیں۔ کمانڈوز کو میس اور بیرک میں دہشتگردوں نے جا لیا۔ حساس اداروں کے دفاتر اور بسیں بھی دہشتگردی سے محفوظ نہیں۔ شہباز بھٹی نے خود کو کیسے محفوظ سمجھ لیا۔ سلمان تاثیر کی طرح اپنے بیانات سے وہ خود کو متنازعہ بنا چکے تھے۔ ان کے عزیزوں کے مطابق ان کو قتل کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ ان کی سکیورٹی میں غفلت سے بہت سے لوگ آگاہ ہوں گے۔ کیا سب عقل سے پیدل تھے۔ کسی نے سمجھانے کی کوشش نہیں کی! کسی عہدیدار کے لئے موجودہ حالات میں بغیر مناسب سکیورٹی کے گھومنا پھرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ متعلقہ اداروں نے ایک وزیر کو خودکشی کی راہ پر چلتے دیکھا اور اسے چلنے دیا۔ ہر پاکستانی کو شہباز بھٹی کے سوگوار خاندان سے ہمدردی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اپنے قتل کے سب سے بڑے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ 
وزیراعظم اس قتل پر آبدیدہ، افسردہ اور رنجیدہ ہوئے۔ جذبات میں آ کر کابینہ کے اجلاس سے سٹاف کو نکال کر دروازہ بند کر لیا۔ بالکل اسی طرح جذباتی ہوئے جیسے شروع کے دنوں میں ہو کر پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ کوئی ہم سے بہتر حکومت چلا سکتا ہے تو آئے، قاضی حسین احمد نے پیشکش قبول کی کہ ویسے تو جماعت کو اقتدار کبھی مل نہیں سکتا۔ ایسے ہی سہی بغیر اکثریت کے۔ لیکن وزیراعظم اُس گرو کے چیلے جن کا وعدوں اور معاہدوں کے حوالے سے موقف واضح ہے.... دروازے بند کر کے استعفٰی کا اعلان کر دیا۔ وزیروں نے کہا چھڈو جی تو پیر صاحب کا درجہ حرارت نارمل اور حواس بحال ہو گئے۔ ان کی وزارت عظمٰی میں جو کچھ ہو رہا ہے انہیں بند نہیں کھلے دروازے استعفٰی دے دینا چاہئے۔ بند دروازوں کے اندر کیا ہوا، اسے راز رہنا چاہئے تھا۔ کابینہ میں 96 نہیں صرف دو درجن وزیر ہیں وہ بھی راز کو ہضم نہ کر سکے۔ افسروں کو کمروں سے نکالنے کا فائدہ؟ اندر کی بات باہر آ گئی اور میڈیا میں چھا گئی۔ اس سے وزیراعظم کی سبکی ہوئی یا عزت افزائی؟ یہ بھی ہو سکتا ہے خود قبلہ کا ہی ہاضمہ درست نہ ہو۔ جن کے اپنے خاص لوگ جاسوسی کریں وہ امریکی جاسوسوں پر کیا قابو پائیں گے۔ 
شہباز بھٹی کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی تو میڈیا رپورٹس کے مطابق سکیورٹی حکام کے منع کرنے کے باوجود وزیراعظم ہسپتال چلے گئے۔ اسے کیا کہا جائے۔ وزیراعظم اور وزرا جیسے بھی ہیں ملک کا وقار ہیں۔ ان کو اپنے لئے ایسے مسائل پیدا نہیں کرنے چاہئیں جس سے ملکی شہرت اور عزت پر آنچ آئے۔ شہباز بھٹی کے قتل کی تپش عالمی لیڈروں نے محسوس کی۔ ویٹیکن سٹی سے پوپ جی کے بھی دل جلا دینے والے بیانات آئے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں۔ اس کا جواب دیانت داری سے اقلیتوں کو وقتی جذباتیت سے باہر نکل کر دینا چاہئے۔ پرامن اقلیت اکثریت سے بھی زیادہ محفوظ ہے۔ قائداعظم نے اقلیتوں کے جس تحفظ کی بات کی تھی ان کو اس سے بڑھ کر تحفظ حاصل ہے۔ پاکستان کی اکثریت بم دھماکوں، خودکش حملوں، فرقہ واریت کا شکار اور آپس کے فسادات میں مبتلا ہے۔ اقلیتوں کو ایسی کسی بھی بلا، وباءاور ابتلا کا سامنا نہیں۔ بھٹی کا قاتل کون ہے کوئی مجاہد، سی آئی اے، را یا موساد کا کوئی ایجنٹ۔ ہمارے وزیر داخلہ کا بیان ہے کہ قاتلوں کا پتہ چل گیا ہے۔ خدا کرے دعویٰ درست ہو اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے۔

Friday, March 4, 2011

4-3-2011....قذاقوں کی ڈیڈ لائن

برائے فروخت

جمعرات ، 03 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان
گزشتہ سال برطانیہ میں ہونیوالا مقابلہ جیت کر پاکستانی فوجی دستے نے ثابت کر دیا کہ پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے۔ سرحدوں کی حفاظت چاک و چوبند اور سربکف فوجی انجام دیتے ہیں۔ را، موساد، خاد،کے جی بی، سی آئی اے اور ایسی دیگر کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں کا مقابلہ آئی ایس آئی کرتی ہے۔ فوج اور آئی ایس آئی جاگتی ہے تو قوم بے فکر ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ کیا؟ جنرل شجاع پاشا نے سی آئی اے چیف لیون پینٹا سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے علم میں لائے بغیر سی آئی اے اپریشنز پر تحفظات کا اظہار اور پاکستان میں خفیہ کنٹریکٹرز کی فہرست فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ خبر امریکی میڈیا کے حوالے سے ہمارے ہاں شائع ہوئی۔ اس خبر پر یقین نہیں آتا۔ یہ ممکن نہیں کہ امریکی کنٹریکٹرز کی تعداد اور ان کی سرگرمیاں آئی ایس آئی کی اُڑتی چڑیا کے پَر گن لینے والی آنکھ سے اوجھل ہوں۔ امریکی کنٹریکٹرز ان کو سی آئی اے کا جاسوس کہہ لیں یا ایجنٹ ہَوا میں تحلیل ہو کر امریکہ سے نہیں آئے ان کو پاکستانی سفارتحانے نے باقاعدہ ویزے جاری کئے۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر بھی ویسے تو ہمارے حکمرانوں کے نہلے پہ دہلا ہیں، جس سکروٹنی اور چھان بین کی ضرورت ہے شاید بوجوہ وہ تقاضے پورے نہ کئے گئے ہوں لیکن وہاں سے یہاں آنے والوں کی تعداد کا تو انہیں علم ہو گا آگے کا کام آئی ایس آئی کا ہے۔ اس کی نظر میں امریکی سفیر تک مشکوک ہونا چاہئے۔ پھر ریمنڈ ڈیوس اس کی عقابی نظروں سے کیسے اوجھل رہا؟ یہ جنرل پاشا اور جنرل کیانی کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ کیا یہ مس مینجمنٹ ہوئی؟ وسائل کی کمی آڑے آئی؟ سیاسی اور عسکری انتظامیہ کے مابین باہمی رابطوں کا فقدان یا کچھ اور ہے؟ ہمیں ایک نہیں کئی عیار مکار جدید اسلحہ و ٹیکنالوجی سے لیس دشمنوں کا سامنا ہے۔ دفاعی معاملات اور جاسوسی کے نٹ ورکس کو کا ¶نٹر کرنے کے لئے تو کوتاہی، لاپروائی اور غفلت کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے۔ اگر کہیں سیاسی معاملات حائل ہیں تو فوج کے لئے ان کو دور کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ قوم اسی لئے بے فکر ہے کہ دفاعی معاملات فوج کے مضبوط ہاتھوں میں ہیں۔ سرحدوں پر دشمن سے نمٹنے کی تیاریاں اپنی جگہ، ہمارے گھوڑے تیار ہیں لیکن آج اصل خطرہ سرحدوں کے اندر ہے۔ دشمن کو ہم نے خود بُلا کر اپنے آپ کو خطرے میں ڈال لیا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اپریشن کے خوف سے 400 سی آئی اے جاسوسوں نے امریکی سفارتخانے میں پناہ لے لی ہے۔ حکومتی اپریشن تو کہیں نظر آتا ہے نہ اس کا امکان ہے۔ ان کے پا ¶ں تلے ریمنڈ کی صورت میں بٹیرا آیا تو کپکپی طاری ہو گئی۔ البتہ خفیہ والوں کے اپریشن سے شاید امریکی جاسوس خوفزدہ ہوں۔ پشاور میں امریکیوں سمیت غیر ملکیوں نے جائیدادیں خرید کر اپنے سکیورٹی گارڈ رکھے ہوئے ہیں ان کی سکیورٹی کی ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن مشرف ان کو ذاتی فوج رکھنے کی اجازت دے گئے تھے۔ غیر ملکیوں کے لئے جائیداد کی خریداری کے قوانین سخت ہیں لیکن اجازت تو ہے، جب اجازت ہے تو لالچی حکام کے ضمیر کے سودے میں دیر کتنی لگتی ہے؟ گوادر بھی ٹکڑوں میں بک رہا ہے جہاں غیر ملکی گاہک سودوں میں مصروف ہیں۔ سٹیل مل بھی غیر ملکیوں کو بیچی گئی تھی۔ لاہور کے گورنر ہا ¶س پر بھی امریکہ کی نظر ہے۔ گھر کے برتن بیچ کر روٹی پوری نہیں ہو سکتی۔ کچھ بھی برائے فروخت ہو تو خریدار مل جاتے ہیں ایسے بھی ہیں جن کا بس چلے تو پورا ملک بیچ دیں۔ جب تک جمہوریت مکمل طور پر جڑیں نہیں پکڑ لیتی پاکستان میں غیر ملکیوں پر ایک مرلہ کی خریداری پر بھی پابندی لگا دی جائے۔ یہ کام محب وطن سیاسی قیادت کے کرنے کا ہے لیکن ان کے بالغ ہونے میں مزید بیس پچیس برس درکار ہیں۔ یوں فوری طور پر یہ کام عسکری قیادت سیاسی قیادت کو مشورہ دے کرا سکتی ہے۔

Thursday, March 3, 2011

برائے فروخت-...............2011-3-3

لوٹا نہیں گٹر

 بدھ ، 02 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان
منافقت کا تعلق اندر کے کوڑھ باطن کی پلیدی، ظاہری دوستی، من میں دشمنی سے ہے۔ ریاکاری، عیاری اور مکاری بھی منافقت میں داخل ہیں۔ غداری کا مطلب ملک دشمنی، ملک دشمنوں سے مل جانا، بے وفائی سرکشی بغاوت اور بدعہدی ہے۔ منافقت اور غداری کے تمام تر اوصاف یکجا ہو جائیں تو پاکستان میں مستعمل کردار ’’لوٹا‘‘ تخلیق پاتا ہے۔ ہماری سیاست سے دو چیزوں لوٹا کریسی اور کرپشن کا خاتمہ کر دیا جائے تو جمہوریت کسی بھی مغربی ملک سے زیادہ کارآمد، فائدہ مند اور صاف شفاف ہو جائے۔ پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ابھرے ہوئے 64 سال ہونے کو ہیں ابھی تک جمہوریت کا گلشن و گلستاں پھلا پھولا نہیں ہے۔ جمہوریت کے نشیمن پر کبھی آمروں نے بجلیاں گرائیں اور کبھی جمہوریت کے نام لیوائوں نے آدھے سے زیادہ عرصہ ملک میں فوجی آمریت لچکتی مٹکتی اور دندناتی رہی۔ فوجی حکمرانوں کو لوٹوں کی صورت میں منافقین اور غداروں کے ٹولے کی خدمات راتوں رات میسر آ گئیں۔ لوٹا کلچر نے ایسی جڑ پکڑی کہ اس نے معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بطور مسلمان ہمیں قول کا سچا، وعدے کا پکا ہونا چاہئے۔ منافقت اور غداری کسی شریف آدمی کا شیوہ نہیں۔ عرف عام میں لالچ دھونس یا دبائو پر وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو لوٹا قرار دیا جاتا ہے۔ ہماری سیاست میں یہ مرض لاعلاج ہو چکا ہے جن کے پاس اس مرض کا علاج ہے وہی اس کو فروغ اور بڑھاوا دیتے ہیں۔ محض وقتی مفاد کے لئے۔ لوٹوں کے پاس ایک پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے کے بعد دوسری میں کود جانے کے بہت سے دلائل ہیں لیکن ان کی حیثیت، دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے سے سرِمو زیادہ نہیں۔ گدھے پر لال لگام چڑھا کر گھوڑا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ شیر کی کھال پہن کر کوئی بھی جانور شیر نہیں بن سکتا۔ ہماری سیاست میں وفاداریاں بدلنے والوں نے سب سے زیادہ گند ڈالا ہوا ہے۔ یہ گروپ کی صورت میں ہوں یا انفرادی شکل میں۔ بعض تو اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لئے دوسروں کو لوٹا قرار دے دیتے ہیں۔ لوٹوں کی اوقات گوبر سے بھی بدتر ہے۔ گوبر حقہ بکھانے، کھانا پکانے، دودھ جمانے اور فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے کام آتا ہے۔ لوٹے کس کار اور کس کام کے؟ لوٹا گردی کے خاتمے کے لئے تمام پارٹیوں کو متحد اور متفق ہونا چاہئے۔ وقتی طور پر اگر کسی پارٹی کی حکومت کا خاتمہ بھی ہوتا ہے تو سیاست سے یہ گند نکالنے کے لئے یہ بھی قبول کر لینا چاہئے۔ عوام بھی اس قباحت خباثت اور جزام کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ جس کو مینڈیٹ دیا اس سے انحراف کرتا ہے تو مینڈیٹ کی توہین ہے عوام کے اعتماد کا خون کرتا ہے ایسی صورت میں حلقے کے لوگ اگلے الیکشن میں انتقام لینے اور سبق سکھانے کا انتظار نہ کریں۔ جس نے اِدھر اپنے ایمان کا سودا کیا اُدھر اس کا گھیرائو کریں۔ اسے سمجھائیں راہِ راست نہ آئے تو بے شک اس کے گھر کو آگ لگا دیں ہو سکے تو اسے بھی اٹھا کر آگ میں پھینک دیں۔ من کا سچا ہوا، اپنی وفاداری قومی مفاد میں تبدیل کی ہو گی تو آگ گلستان بن جائے گی اس کی سچائی اظہر من الشمس ہو جائے گی لیکن آگ وہی لگائیں جو خود پوری زندگی مبینہ لوٹا کریسی سے محفوظ رہے ہوں۔ لوٹا طہارت کے لئے استعمال ہونے والا برتن ہے۔ بے ضمیروں کو اس سے نسبت دینا لوٹے کی توہین ہے۔ جو اپنے کردار اور عمل سے خود کو مستعمل لوٹا ثابت کرتے ہیں ان کو لوٹا نہیں گٹر کا نام دینا چاہئے۔

Wednesday, March 2, 2011

موت

 منگل ، 01 مارچ ، 2011

فضل حسین اعوان
پیدائش کے ساتھ ہی انسان کا موت کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے‘ زندگی سنگلاخ چٹان یا بھاری بھرکم پتھر نہیں‘ دھوپ میں رکھا برف کا تودہ ہے‘ اگر برف کا پہاڑ بھی ہو تو اسے دھوپ میں بہرصورت پگھلنا ہے۔ ہمارے ہاں اوسطاً ساٹھ‘ ستر یا زیادہ سے زیادہ سو‘ سوا سو سال عمر ہے‘ جو لمحہ لمحہ کرکے گزر جاتی ہے۔ زندگی کے کسی بھی لمحے ٹھہرائو نہیں ہے‘ گھڑی کی ٹک ٹک جاری رہتی ہے‘ گزرا ہوا کوئی لمحہ ثانیہ پل اور سیکنڈ واپس نہیں آتا جو لمحہ گزر گیا‘ وہ انسان کو موت کے قریب کر گیا۔ سیکنڈ منٹ بنتے ہیں‘ منٹ گھنٹے اور گھنٹے دنوں‘ ہفتوں و مہینوں اور پھر برسوں میں ڈھل کر بالآخر انسان کو موت کی دہلیز پر لے جاتے ہیں۔ اسکے بعد موت کی وادی ہے‘ جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔
مرنے کے بعد انسان کو تادیرزندہ دھن دولت رکھتی ہے‘ نہ نام و نسب اور اولاد… اس کا نام‘ اعلیٰ کردار‘ جرأت اظہار‘ نیک اعمال و افعال‘ دیانت امانت‘ صداقت اور شجاعت کے باعث شہرت کے آسمان پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکتا ہے۔ اسے جاویدانی اور دوام بخشتا ہے۔ شہرت برے اعمال و کردار پر بھی ملتی ہے‘ جو یقیناً برائی کے زمرے میں آتی ہے۔ کیا کوئی باشعورفرد نمرود‘ فرعون‘ بولہب‘ ابوجہل‘ یزید‘ محمد شاہ رنگیلا‘ میر جعفر‘ میر صادق حتٰی کہ شیخ مجیب الرحمان جیسے لوگوں کی صف میں کھڑا ہونا پسند کریگا؟ یہ مصرع …ع
’’بدنام نہ ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا‘‘ صرف دوسروں کیلئے استعمال ہوتا ہے‘ کوئی اپنے اوپر منطبق نہیں کرتا۔
دنیا میں نام پیدا کرنے کیلئے عمر خضر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی‘ کچھ کر گزرنے کا جذبہ و ولولہ ہو تو زندگی کے کسی موڑ پر بھی کچھ نہ کچھ کیا جا سکتا ہے۔ محنت اور کوشش ضروری ہے‘ قدرت مواقع فراہم کر دیتی ہے…؎
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں وہ کچھ کر دکھایا جو بڑے بڑے جرنیل پوری زندگی بھی نہیں کر پاتے۔ طارق بن زیاد 21 سال کی عمر میں ہسپانیہ فتح کرکے واپس لوٹ گئے تھے‘ شہر میسور سلطان ٹیپو نے 49 سال کی عمر میں شہادت پائی‘ غازی علم الدین کا ستارہ 20 سال کی عمر میں شہرت و عظمت کے آسمان پر چمکا‘ حسنی مبارک 30 سال تخت و تاج کے وارث رہے‘ اربوں ڈالر کی کرپشن کی‘ زین العابدین بھی اربوں ڈالر لے بھاگے‘ رضا شاہ پہلوی کا انجام بھی سب کے سامنے ہے۔ اقتدار او رپیسہ زندگی کی حفاظت کر سکتا ہے‘ نہ شہرت کی بلندی پر لے جا سکتا ہے‘ ان دونوں کا استعمال ہی اچھی بری شہرت‘ نیک و بد‘ کردار کا تعین کرتا ہے۔حاتم طائی کے نام پر احترام کے جذبات امڈ آتے ہیں‘ شداد کے ذکر پر تھوتھو ہوتی ہے… دولت کمانے اور بنانے پر کوئی پابندی نہیں‘ طریقہ جائز ہونا چاہیے۔ ہمارے اکابرین سیاست‘ سول و ملٹری بیوروکریٹس‘ عدلیہ والے اور چھوٹے موٹے اہلکاروں تک بھی اکثر کھربوں کی لوٹ مار کرکے اندرون اور بیرون ملک جائیدادیں بنا اور کاروبار چمکا رہے ہیں۔ یہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں تو کھا سکتے ہیں‘ ان سے کہیے سونا چاندی اور ہیرے جواہرات کھاکے دکھائیں‘ زندگی کی ضرورت دو وقت کی روٹی اور سونے کیلئے ایک چارپائی ہے‘ یہ دن میں دس بار کھانا کھا کر اور دس چارپائیوں پر سو کر دکھائیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے‘ ٹک ٹک جاری ہے‘ کس صف میں خود کو کھڑا کرنا ہے‘ جلد فیصلہ کریں۔ ہر گزرتا لمحہ موت کو قریب لا رہا ہے‘ آخر میں مقدر شہر خموشاں‘ اندھروں کی بستی اور خوف کی نگری میں چھ فٹ کی کالی کوٹھڑی۔ اس کال کوٹھڑی کو اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے حسین کردار اور بہترین اعمال سے روشن بنایا جا سکتا ہے۔