About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, March 9, 2011

گئے گزرے

مارچ ,9 ، 2011


فضل حسین اعوان 
1971ء
کی جنگ کے سیاہ اور منحوس سائے شاید قیامت تک بھوت بن کر ملت کے سر پر منڈلاتے رہیں گے۔ بزدلی لڑنے والوں نے نہیں ان کی قیادت اور سیادت نے دکھائی۔ وطن کی خاطر بے جگری سے لڑتے ہوئے جانیں دینے والوں کی روحیں بے چین ہوں گی، کہ ان کی قربانی کس مقصد کے لئے تھی۔ بھارت میں قید کی صعوبت اور سرنڈر کی ذلت کا شکار ہونے والے 93 ہزار میں سے 80 ہزار سے زائد تو اب بھی زندہ ہونگے۔ ان میں سے کئی جرنیل کے رینک تک پہنچے۔ ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے منظم اور متحد ہو کر ملت کی رسوائی کا سامان کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا۔ 71ءکی جنگ کے شہداءکی روحیں شاید مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ داروں کے تعین اور مجرموں کو سزا ملنے تک بے قرار رہیں۔ خطا کاروں اور گناہ گاروں کی معافی ہو سکتی ہے۔ غداروں کو نہیں۔ غداروں کا تعین ہونا چاہئے تاکہ قوم ان کی نسلوں سے محتاط رہ سکے۔ پاکستان توڑنے کے کئی ذمہ دار پیوند خاک ہو گئے۔ جس مقصد کے لئے ملک توڑا وہ مقصد پورا ہوا آخر کتنی مدت تک حکمرانی کر لی، کیا کما لیا کیا بنا لیا کیا پا لیا؟ ان کی نسلیں شاد اور آباد ہیں لیکن جنگ کی تباہی بربادی خوں آشامی اور خوں افشانی کی بازگشت ابھی تھمی نہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کے قاتلوں کو پھانسی لگ رہی ہے۔ کچھ اپنا ملک چھوڑ کر چھپے ہوئے ہیں۔ کئی کو حسینہ واجد پاکستان سے محبت کی سزا دینا چاہتی ہے بہت سوں کو جنگی مجرم ثابت کر کے تختہ دار پر لے جانے کے لئے تلی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش میں اب بھی مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جیلوں میں موجود ہیں۔ ایک کے بارے میں چند دن قبل انکشاف ہوا ہے۔ ابوبکر شاہ 1970ءمیں انجینئرنگ سنٹر رسالپور سے 14 ڈویژنل سنٹر مشرقی پاکستان میں تعینات ہوا۔ شورش کے دوران لاپتہ ہو گیا جسے شہید تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے والدین کو 24 سال سے پنشن بھی مل رہی تھی۔ اب پتہ چلا ہے کہ وہ زندہ اور قید میں ہے۔ بنگلہ دیشی سفارتخانے نے تصدیق کی ہے کہ دو تین دن میں اس کو رہا کر دیا جائے گا۔ ابوبکر پر چالیس سال میں کیا بیتی، وہ کہاں اور کس حال میں رہا؟ بنگلہ دیشی حکومت نے چالیس سال تک اس کی اور اس جیسے دیگر پاکستانیوں کی اطلاع پاکستان کو کیوں نہیں دی؟ یہ سوالات ہر پاکستانی کے ذہن میں کلبلا رہے ہیں۔ کچھ کے جوابات ابوبکر شاہ کی رہائی کے بعد سامنے آ سکتے ہیں اگر وہ سب کچھ بتانے کے قابل ہوا تو.... یہاں دو جاپانیوں کا تذکرہ برمحل ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں لیفٹیننٹ اونوڈا اور کوزوکا ان گوریلوں میں سے تھے جن کو فلپائن میں تعینات کیا گیا ان کے کمانڈر نے کہا تھا کہ کسی صورت خود کو دشمن کے حوالے کرنا ہے نہ خودکشی کرنی ہے۔ ہم یہیں ملیں گے، ایک سال لگ سکتا ہے تین سال یا پانچ سال بھی۔ جنگ 1945ءمیں ختم ہو گئی لیکن یہ دونوں جنگل میں دشمن کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے 1972ءمیں کوزوکا فلپائنی فورسز کی فائرنگ میں ماارا گیا اونوڈا اکیلا جنگلوں میں چھپ کر موقع ملنے پر فلپائنیوں کو نقصان پہنچاتا رہا۔ اس جنگل میں جاپانی طلبہ کا گزر ہوا ایک کی اونوڈا سے ملاقات ہوئی۔ اسے بتایا گیا کہ جنگ تو ختم ہو چکی جاپان ہار مان چکا ہے۔ اونوڈا کا کہنا تھا وہ اپنے کمانڈر کے حکم کے بغیر ہتھیار نہیں پھینکے گا۔ اس کا کمانڈر میجر ٹینی گوچی کب کا ریٹائر ہو کر کتابوں کا ڈپو چلا رہا تھا۔ میجر ٹینی گوچی کو فلپائن کے جنگل میں لایا گیا اس نے اونچی آواز میں آرڈر پڑھ کر سنایا کہ جاپان جنگ ہار گیا ہے اب تمام جنگی سرگرمیاں ختم کر دی گئی ہیں۔ اس پر 1974میں اونوڈا نے اپنی گن، اس کی گولیاں اور متعدد ہینڈ گرنیڈ فلپائنی فورسز کے حوالے کر دئیے۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے 30 فلپائنیوں کو ہلاک اور 100 کو زخمی کیا تھا۔ صدر مارکوس نے اس کی کمٹمنٹ دیکھ کر معاف کر دیا.... بنگلہ دیش پاکستان کا کٹا ہوا بازو ہے دونوں کا دین ایک نبی ایک خدا اور قرآن ایک۔ بنگلہ دیشی حکمران کیا آمر فرڈی ننڈ مارکوس سے بھی گئے گزرے ہیں کہ پاکستانیوں کو آج چالیس سال بعد بھی قید میں رکھا ہوا ہے۔


No comments:

Post a Comment