About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, March 13, 2011

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

 اتوار ، 13 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان 
اسلام آباد میں 18 ممالک کے 250 جید علما نے 3 روزہ سیرت کانفرنس میں شرکت کی۔ کانفرنس کا افتتاح وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا۔ اختتامی مشترکہ اعلامیہ میں جہاں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے بھرپور سفارشات پیش کی گئیں وہیں خودکش حملوں کو حرام قرار دیتے ہوئے اسے ریاستی ڈھانچہ کو تباہ کرنے کی سازش باور کرایا گیا۔ علمائے کرام کے ”فتویٰ“ میں کہا گیا کہ انتہا پسندی مسلم معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے۔ اسلام آباد میں جمع ہونے والے علما کرام نے ایک اہم سیمینار اور کاز کے لئے اپنا وقت دیا یہ ان کا امت پر احسان ہے۔ علما نے اپنا وقت دیا بدلے میں حکومت نے اپنی مرضی کے اعلامیہ پر دستخط کرانے یا ہاتھ اٹھوانے کے لئے کرائے، قیام و طعام سمیت ان کو ہر سہولت فراہم کی۔ 1857 میں دہلی میں بھی علامہ فضلِ حق خیرآبادی کی قیادت میں علما کرام جمع ہوئے اور انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے نہ صرف اپنا وقت دیا بلکہ وقت آنے پر جان بھی دیدی۔ اُن علما کو اس فتوے کے نتائج و عواقب کا ادراک تھا لیکن 
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِِ بام ابھی
گزشتہ ماہ کوئٹہ میں اتحاد علما افغانستان کا اجلاس شیخ عبداللہ ذاکری کی صدارت میں ہوا جس میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے علما نے شرکت کی۔ ان علما نے فتویٰ جاری کیا کہ افغانستان میں اسلام کے مقدس قانون کے مطابق امریکہ کے خلاف اس وقت تک جہاد جاری رہے گا جب تک امریکہ روس کی طرح نیست و نابود نہیں جاتا۔ 
اسلام آباد میں جمع ہونیوالے علما نے بہت کچھ کہا، اتنا کچھ کہ تین دن تک کہتے ہی چلے گئے۔ لیکن وہ بات کہ جس کا پورے فسانے میں ذکر نہ تھا۔ یعنی امریکہ اسرائیل اور بھارت کی دہشتگردی پر کچھ نہ کہا، ڈرون حملوں پر خاموشی۔ علمائے حق کو اس پر بھی بات کرنا چاہئے تھی۔ مسلمانوں کی جان لینے والے حملوں کے حرام ہونے پر کس کو شک ہے؟ خودکشی جس بھی اعلیٰ و اولیٰ مقصد کے لئے کی جائے صریحاً حرام ہے۔ دشمن کو نقصان پہنچانے اور حق کی فتح کے لئے جو بھی مسلمان جان دیتا ہے وہ فدائی ہے فلسطین افغانستان اور کشمیر میں فدائین کی تعداد لامتناہی ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی کرنیوالوں کو مسلمان تو کیا انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔ لیکن جو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر صلیبی جنگ لڑ رہے ہیں ان کی دہشتگردی کے خلاف اسلام آباد میں آئے علماءخاموش کیوں رہے؟ دہشتگردی کی وجوہات ختم کر دی جائیں تو دہشتگردی اپنی موت آپ مر جائے۔ ان کو حق کی آواز بلند کرنا چاہئے تھی۔ اپنی جان اور واپسی کے کرائے کی پروا کئے بغیر۔ 
قرار دیا جاتا ہے کہ خودکش حملوں کی منصوبہ بندی وزیرستان میں کی جاتی ہے۔ اسلام آباد آنے والے رہنمایانِ امت تھوڑا آگے چلے جاتے۔ کرنل امام اور خالد خواجہ کی طرح۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے۔ یہ بھی جہاد ہے یقیناً اس جہاد کے لئے سربراہِ مملکت سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

No comments:

Post a Comment