26مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان
پاکستان کیسے ٹوٹا؟ یہ اندوہناک سانحہ نقش ہے دل پہ ذرا ذرا۔ کیوں ٹوٹا؟ بطور قوم ہم ہنوز اس نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا لیکن کچھ رشتے اٹوٹ ہوتے ہیں جو ٹوٹ کر بھی نہیں ٹوٹتے۔ ڈھاکہ میں پاکستان کے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کا مزار فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ شام کو مزار کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ پاکستانی صحافی عزیز مظہر سہروردی مرحوم کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے پہنچے تو دروازے بند ہو چکے تھے۔ دربان نے کھولنے سے انکار کیا۔ مزار کے منتظم اعلیٰ سے بات کرانے کو کہا۔ حاضری کا والہانہ پن دیکھ کر ناظم نے جذباتی ہو کر انہیں گلے لگایا اور کہا ’’آپ کا شکریہ کہ ہمارے لیڈروں سے اس قدر عقیدت رکھتے ہیں‘‘ جواب میں مہمان نے کہا ’’آپ کا شکریہ کہ آپ ہمارے لیڈروں کو اتنا احترام دیتے ہیں‘‘۔ حالات نے ثابت کیا دو دلوں میں، دو حصوں میں پیدا کی جانے والی نفرتیں، کدورتیں اور دوریاں سازشوں کا حصہ تھیں۔ کرکٹ ورلڈکپ کے آغاز پر بنگالیوں نے بنگلہ بُندو سٹیڈیم میں داخلے پر اپنے کپتان کی طرح پاکستانی کپتان کا والہانہ انداز میں استقبال کیا۔ 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے روز پاکستان کا ویسٹ انڈیز کے ساتھ کوارٹر فائنل تھا۔ اس موقع پر بنگالی پاکستانی ہلالی پرچم لہراتے رہے۔ نعرے لگاتے رہے یوں لگتا تھا پاکستانی کرکٹ ٹیم پاکستان میں ہی کھیل رہی ہے۔ عجیب اتفاق، 23 مارچ کو پاکستانی ٹیم میرپور کے فضلِ حق سٹیڈیم میں پاکستان کا نام روشن کر رہی تھی۔ وہی فضل حق جن کو قرارداد پاکستان پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اِدھر اور اُدھر کے کچھ بدبختوں نے اپنے مفادات کے لئے پاکستان توڑ دیا دنیا نے دیکھ لیا دل بدستور جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان منزل پہ منزل مارتا ہوا سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔ مدِمقابل بھارت ہے۔ مقابلہ بھارتی پنجاب کے شہر موہالی میں شیڈول کے مطابق طے ہے۔ بلاشبہ دونوں ٹیمیں جیت کے لئے جان لڑا دیں گی۔ پاکستان اور بھارت کی دشمنی ڈھکی چھپی نہیں۔ اس لئے سیمی فائنل کی اہمیت فائنل سے بھی بڑھ کر ہے۔ 30 مارچ کو دونوں ٹیمیں میدانِ جنگ میں نہیں کھیل کے میدان میں اتریں گی لیکن ہو گا میدانِ جنگ ہی! پاکستان سے نفرت لالہ جی کی گھٹی میں بھری ہے۔ وہ کھیل کے میدان کو بھی میدان جنگ سمجھتا ہے۔ شیوسینا نے اعلان کر رکھا ہے کہ پاکستان کو بھارت آ کر کھیلنے کے لئے بال ٹھاکرے سے اجازت لینا ہو گی۔ موہالی میں کھیلنا پاکستانی کھلاڑیوں کے لئے بڑی آزمائش ہے۔ اندر سے ہر بھارتی ہندو بال ٹھاکرے اور ہر ادارہ شیوسینا ہے۔ بھارت نے پاکستانی ٹیم کو مکمل سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن یہ وہی سازشی بھارت ہے جس نے پاکستان میں ورلڈکپ کا انعقاد رکوانے کے لئے لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ کرایا۔ بڑے میچوں کا کھلاڑیوں پر دبائو ہوتا ہے۔ سیمی فائنل اور بھارت کے ساتھ پھر بھارت میں اندازہ کیجئے پاکستانی کھلاڑیوں پر کتنا پریشر ہو گا۔ کھیل شروع ہونے تک کھلاڑیوں کیلئے ذہنی طمانیت انتہائی ضروری اور اہم ہے۔ بال ٹھاکرے ذہنیت کے حامل بھارتی ادارے کسی بھی موقع پر کسی کھلاڑی پر کوئی بھی الزام لگا کر چند منٹ بھی اسے حراست میں لیں گے تو پاکستانی ٹیم ذہنی طور پر منتشر اور ڈگمگا جائے گی۔ ایسی کارروائی بھارتی اداروں سے بعید نہیں۔ پھر متعصب، شدت اور شرپسند تماشائی سٹیڈیم میں ہو ہا کریں گے تضحیک آمیز نعرے لگائیں گے جو کچھ سٹیڈیم کے اندر لے جانے کی اجازت ہے وہ پاکستانی کھلاڑیوں پر پھینکیں گے۔
پاکستان کی فتح مہذب دکھائی دینے والے ہندوئوں تک کے لئے بھی ناقابل برداشت ہو گی وہ سٹیڈیم میں کیا کیا کہرام برپا نہیں کر دیں گے۔ محض بھارت کی طرف سے سکیورٹی کی یقین دہانی کسی پاکستانی کھلاڑی کو خدانخواستہ پہنچنے والے نقصان سے نہیں بچا سکتی ہے۔ پاکستان کے بھارت کے ساتھ سیمی فائنل میں ابھی چند دن باقی ہیں حکومت پاکستان آئی سی سی کو حالات سے آگاہ کرتے اس پر زور دے کہ یہ میچ موہالی کے بجائے سری لنکا یا بنگلہ دیش منتقل کر دیا جائے۔ یہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ اگر انتظامات میں مشکلات ہیں تو بے اعتبارے ہندو شائقین کو سٹیڈیم کے باہر رکھا جائے۔ سٹیڈیم میں صرف سکیورٹی والے ہی ہوں۔ لیکن یہ بھی تو اندر سے بال ٹھاکرے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں کی فول پروف سکیورٹی کے لئے پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک اور ان کے بھارتی ہم منصب چدم برم کو ہر لحظہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہونا چاہئے ہوٹل میں بھی اور سٹیڈیم میں بھی۔
No comments:
Post a Comment