منگل ، 22 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان
ریمنڈ کی رہائی کے بعد پاکستان میں منافقت جھوٹ، الزام بہتان اور دشنام کی خارزار فصل اُگ آئی۔ کوئلوں کی دلالی میں منہ تو کالا ہونا تھا۔ کس کس کا ہوا یہ کوئی راز نہیں رہا۔ لیکن اب سیاسی مفادات کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ وزیراعظم گیلانی کہتے ہیں فیصلے پر پنجاب حکومت نے عملدرآمد کرایا۔ رانا ثناءاللہ کا جواب آں غزل ہے کہ ریمنڈ کی واپسی کا بندوبست، ورثا سے مک مکا وفاقی حکومت اور اس کے اداروں نے کیا۔ پرویز رشید انگریزی اخبارات کے تراشے لہرا لہرا کر ثابت کر رہے ہیں کہ معاملات فوج اور آئی ایس آئی نے طے کرائے۔ الطاف بھائی پنجاب اور فضل الرحمن مرکزی حکومت پر الزام لگاتے ہیں۔ رہائی کیسے عمل میں آئی؟ اس حوالے سے ابھی بہت کچھ پردہ اخفا میں ہے اس کے باوجود بھی بہت کچھ منظر پر آ چکا ہے۔ کہیں بات ایکس ٹنشنز کی ہے کہیں سیاسی مفادات کی۔ عدلیہ کا وقار طویل جدوجہد سے بحال ہوا تھا جو اب گہنا گیا ہے۔ مقدمہ خصوصی عدالت میں نہیں۔ عام عدالت میں تھا جہاں لوگ نسل در نسل انصاف کےلئے بھٹکتے ہیں۔ ریمنڈ کے معاملے میں دو منٹی فیصلہ‘ ایسی سرعت اور عجلت کیوں؟ رہائی میں مرکزی پنجاب حکومت اور دونوں حکومتوں کے ادارے مکمل طور پر شامل ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام کے بجائے یہ اس کو تسلیم کریں یا خاموش رہیں۔ عوام کو کیوں گمراہ کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت تو اس معاملے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ پنجاب حکومت جان لڑانے کی دعویدار تھی۔ اس کے ذمہ دار بتائیں عبادالرحمن کو کچلنے والے گاڑی اور ڈرائیور کہاں ہیں؟ آسان جواب ہے مرکزی حکومت کو 6 ریمائنڈر بھجوائے کوئی جواب نہیں آیا۔ بینظیر حکومت کے وزیر تجارت مختار اعوان کراچی گئے، نواز شریف کی پنجاب حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا اور گرفتاری کے لئے چکلالہ ایئرپورٹ کے گرد پولیس تعینات کر دی۔ وہ غالباً دو ہفتے کراچی میں دبکے بیٹھے رہے۔ عبادالرحمن کا قاتل لاہور کے امریکی قونصلیٹ سے کیا اڑ کر چلا گیا؟ اس کی گرفتاری کے لئے چھوٹے سے قونصلیٹ کی نگرانی کیوں نہ کرائی گئی؟ تاریخ میں ہر ذمہ دار کے کردار کا تعین ہو گا۔ ببول بیج کر فصلِ لالہ و گل کی توقع عبث ہے۔ ذمہ داروں کو مورخ خالد بن ولید، ٹیپو سلطان اور قائداعظم کی صفوں میں تو شامل نہیں کرے گا۔ قومی غیرت کا تقاضا تھا دباﺅ کا مقابلہ کیا جاتا۔ ناقابل برداشت ہوا تو جج جرنیل اور حکمران استعفے دیکر گھر چلے جاتے۔ اگلی صفوں میں آنے کی منتظر قیادتیں بانجھ نہیں ہوئیں۔ آج لوگ سڑکوں پر ہیں۔ ان کا یک نکاتی حکمرانوں اور ذمہ داروں سے مستعفی ہونے کا مطالبہ ہونا چاہئے۔
ریمنڈ نے دو افراد کو قتل کیا، اعتراف پر فردِ جرم عائد ہوئی۔ وہ بلاشبہ ریاست کا مجرم بھی تھا۔ دیت کا معاملہ مشکوک ہو چکا۔ قصاص کے دروازے بند نہیں ہوئے۔ کیا وہ امریکہ پہنچ کر محفوظ ہو گیا؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ وہ بدستور اودھم سنگھوں کے نشانے پر ہے۔ 19 اپریل 1920 کو سانحہ جلیانوالہ باغ میں مارے جانیوالے دو ہزار کے قریب مسلمانوں، ہندوﺅں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں میں اودھم سنگھ کا باپ اور بھائی بھی شامل تھے۔ اودھم سنگھ نے اپنا نام رام محمد سنگھ آزاد رکھا اور سانحہ کے 20 سال بعد 13 مارچ 1940ءکو لندن جا کر ایک تقریب کے دوران مائیکل فرانسس اوڈائر کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر اوڈائر نے بریگیڈئر ڈائر کو جلیانوالہ باغ میں موجود نہتے مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا تھا۔\
فضل حسین اعوان
ریمنڈ کی رہائی کے بعد پاکستان میں منافقت جھوٹ، الزام بہتان اور دشنام کی خارزار فصل اُگ آئی۔ کوئلوں کی دلالی میں منہ تو کالا ہونا تھا۔ کس کس کا ہوا یہ کوئی راز نہیں رہا۔ لیکن اب سیاسی مفادات کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ وزیراعظم گیلانی کہتے ہیں فیصلے پر پنجاب حکومت نے عملدرآمد کرایا۔ رانا ثناءاللہ کا جواب آں غزل ہے کہ ریمنڈ کی واپسی کا بندوبست، ورثا سے مک مکا وفاقی حکومت اور اس کے اداروں نے کیا۔ پرویز رشید انگریزی اخبارات کے تراشے لہرا لہرا کر ثابت کر رہے ہیں کہ معاملات فوج اور آئی ایس آئی نے طے کرائے۔ الطاف بھائی پنجاب اور فضل الرحمن مرکزی حکومت پر الزام لگاتے ہیں۔ رہائی کیسے عمل میں آئی؟ اس حوالے سے ابھی بہت کچھ پردہ اخفا میں ہے اس کے باوجود بھی بہت کچھ منظر پر آ چکا ہے۔ کہیں بات ایکس ٹنشنز کی ہے کہیں سیاسی مفادات کی۔ عدلیہ کا وقار طویل جدوجہد سے بحال ہوا تھا جو اب گہنا گیا ہے۔ مقدمہ خصوصی عدالت میں نہیں۔ عام عدالت میں تھا جہاں لوگ نسل در نسل انصاف کےلئے بھٹکتے ہیں۔ ریمنڈ کے معاملے میں دو منٹی فیصلہ‘ ایسی سرعت اور عجلت کیوں؟ رہائی میں مرکزی پنجاب حکومت اور دونوں حکومتوں کے ادارے مکمل طور پر شامل ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام کے بجائے یہ اس کو تسلیم کریں یا خاموش رہیں۔ عوام کو کیوں گمراہ کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت تو اس معاملے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ پنجاب حکومت جان لڑانے کی دعویدار تھی۔ اس کے ذمہ دار بتائیں عبادالرحمن کو کچلنے والے گاڑی اور ڈرائیور کہاں ہیں؟ آسان جواب ہے مرکزی حکومت کو 6 ریمائنڈر بھجوائے کوئی جواب نہیں آیا۔ بینظیر حکومت کے وزیر تجارت مختار اعوان کراچی گئے، نواز شریف کی پنجاب حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا اور گرفتاری کے لئے چکلالہ ایئرپورٹ کے گرد پولیس تعینات کر دی۔ وہ غالباً دو ہفتے کراچی میں دبکے بیٹھے رہے۔ عبادالرحمن کا قاتل لاہور کے امریکی قونصلیٹ سے کیا اڑ کر چلا گیا؟ اس کی گرفتاری کے لئے چھوٹے سے قونصلیٹ کی نگرانی کیوں نہ کرائی گئی؟ تاریخ میں ہر ذمہ دار کے کردار کا تعین ہو گا۔ ببول بیج کر فصلِ لالہ و گل کی توقع عبث ہے۔ ذمہ داروں کو مورخ خالد بن ولید، ٹیپو سلطان اور قائداعظم کی صفوں میں تو شامل نہیں کرے گا۔ قومی غیرت کا تقاضا تھا دباﺅ کا مقابلہ کیا جاتا۔ ناقابل برداشت ہوا تو جج جرنیل اور حکمران استعفے دیکر گھر چلے جاتے۔ اگلی صفوں میں آنے کی منتظر قیادتیں بانجھ نہیں ہوئیں۔ آج لوگ سڑکوں پر ہیں۔ ان کا یک نکاتی حکمرانوں اور ذمہ داروں سے مستعفی ہونے کا مطالبہ ہونا چاہئے۔
ریمنڈ نے دو افراد کو قتل کیا، اعتراف پر فردِ جرم عائد ہوئی۔ وہ بلاشبہ ریاست کا مجرم بھی تھا۔ دیت کا معاملہ مشکوک ہو چکا۔ قصاص کے دروازے بند نہیں ہوئے۔ کیا وہ امریکہ پہنچ کر محفوظ ہو گیا؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ وہ بدستور اودھم سنگھوں کے نشانے پر ہے۔ 19 اپریل 1920 کو سانحہ جلیانوالہ باغ میں مارے جانیوالے دو ہزار کے قریب مسلمانوں، ہندوﺅں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں میں اودھم سنگھ کا باپ اور بھائی بھی شامل تھے۔ اودھم سنگھ نے اپنا نام رام محمد سنگھ آزاد رکھا اور سانحہ کے 20 سال بعد 13 مارچ 1940ءکو لندن جا کر ایک تقریب کے دوران مائیکل فرانسس اوڈائر کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر اوڈائر نے بریگیڈئر ڈائر کو جلیانوالہ باغ میں موجود نہتے مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا تھا۔\
No comments:
Post a Comment