فضل حسین اعوان
ایک طرف مغرب کروسیڈ کی خفیہ حکمت عملی اپنائے ہوئے،دوسری طرف تہذیبوں کے درمیان تصادم کے راستے پر کھل کر گامزن ہے۔ اسامہ کی تلاش کے نام پر افغانستان پر یلغار کرکے اس کے پہاڑوں تک کو بارود و آہن سے اڑا کے رکھ دیا۔ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگا کر اس اسلامی ملک کو الٹا دیا۔اب لیبیا ان دی لائن آف فائر ہے۔ قذافی کی دنوں میںگیم ختم ہونے والی ہے۔ امریکہ کی نظر میں جو بحرین میں جائز ہے وہ لیبیا میں نہ صرف ناجائز بلکہ ناقابل برداشت بھی۔ اس لئے امریکہ اور اس کے گماشتے فرانس اور برطانیہ ایک اسلامی ملک کو تہہ تیغ کرنے پر کمربستہ ہیں۔کرنل قذافی آج کہیں چھپ کر ملک سے فرار یا خود کشی کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے امریکہ کے سامنے ایٹمی پروگرام کے سرنڈر پر ضرور غور کر رہے ہوں گے کہ کاش ان کے پاس ایٹمی قوت ہوتی اور ایران کی طرح اس کی توپوں کا رُخ اسرائیل کی طرف ہوتا تو آج سامراجیت اور استعماریت اپنے زخم چاٹ رہی ہوتی۔ لیکن ....
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
قذافی کی حکومت آج راکھ اور خاک ہوئی کہ کل، اس کے بعد کس اسلامی ملک کی باری اور پھر اس کے بعد کس کی؟ ہر شاہ خود کو مغرب کی یلغار سے محفوظ سمجھتا ہے پتہ اس وقت چلتا ہے جب امریکہ کی لونڈی یو این خاموشی سے حملوں کی اجازت دے دیتی ہے۔ قذافی پر حملوں کی منظوری میں تو اس کے بھائی عربوں نے بھی امریکہ کے کندھے سے کندھا ملایا۔ او آئی سی اور عرب لیگ یونہی مسلمانوں کی تڑپتی لاشوں پر خاموش تماشائی بنی رہیں تو مسلمانوں پر اجتماغی غلامی کے سائے تاریکیوں کا روپ دھار کر انہیں ذلت کی پستی میں دھکیل دیں گے۔ امریکہ کی قیادت میں مغرب جو کچھ اسلامی ممالک کے ساتھ کر رہا ہے، کہیں دوست بن کر اور کہیں دشمن بن کر، کہیں بم برسا کر اور کہیں ڈالر لہرا کر، مقصد مسلمانوں کی بربادی مقصود ہے طریقہ کوئی بھی ہو، یہ وہی کروسیڈ ہے جس کا نام لے کر بش افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی جاری کردہ صلیبی جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کانام محض مسلمان ممالک کی تباہی میں اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو ساتھ ملائے رکھنے کے لئے دے رہے ہیں۔ اسلامی ممالک کے سربراہان صلیبیوں اور صہیونیوں کے عزائم سے آگاہ ہیں لیکن ان کی غیرت، حمیت کو دولت کے لالچ اور نشے نے سُلا رکھا ہے۔ ان کے کانوں تک ان کے اپنے لوگوں کی چیخ و پکار بھی نہیں پہنچ رہی۔ ہاتھ گریباں تک پہنچے تو شاید ہوش میں آ جائیں۔
اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ آج دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ تہذیبوں کے درمیان ہم آہنگی اور مذاہب کے مابین یکجہتی کی آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے لیکن مغرب کے انتہا پسندانہ اقدامات سے مسلمانوں کو ان کے مذہبی جذبات کا خون کرکے مشتعل کیا جا رہا ہے۔ ملعون ٹیری جونز کی نگرانی میں چند پاگل پادریوں نے نعوذ باللہ قرآن پاک کو نذر آتش کیا۔ اپنے مکروہ اور شیطانی فعل سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے تن بدن میں بھی آگ لگا دی۔ مسلمان قرآن کی زمین پر گری ایک آیت دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے پورے قرآن کو نذر آتش کرنے پر جذبات کیا ہوں گے۔ اس سے قبل حضور کی شان میں گستاخیاں کی جاتی رہی ہیں۔ الٹا گستاخیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی بجائے حکومتوں کی سطح پر مسلمان خواتین کے نقاب اور سکارف اوڑھنے پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے شعائر اسلام کی توہین ہر گز نہیں۔قرآن کی بے حرمتی اور رسول خدا کی شان میں گستاخی کرنے والوں پر توہین رسالت قانون لاگو ہوتا ہے جس کی سزا موت سے کم کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ جرم اسلامی ریاست میں ہو یا غیر اسلامی ریاست میں۔ کمزور ملک میں ہو یا سپر پاور میں۔ علمائے کرام سزا پر عمل درآمد کا طریقہ تجویز کریں تدبیر بھی۔
امام شہاب الدین محمد بن احمد ابی نے الفتح الشیبی میں ایک واقعہ تحریر فرمایا ہے، ”بحرین میں بچے ہاکیوں سے کھیل رہے تھے۔ ان کی گیند قریب بیٹھے پادری کے سینے میں جا لگی۔ بچے اس سے گیند لینے گئے تو اس نے انکار کر دیا۔ بچوں نے منت کی اس کا بھی اثر نہ ہوا تو ایک بچے نے عرض کیا جناب آپ کو نبی کریم کا واسطہ ہمیں گیند واپس کر دو اس پر پادری کی خباثت عود کر آئی اس نے شان رسالت میں گستاخی کی جو مسلمان بچوں کی غیرت کو گوارا نہ ہوئی تو ملعون کو وہیں ہاکیوںکے وار کرکے مار ڈالا۔ مقدمہ فاروق اعظم کی عدالت میں پیش ہوا تو آپ نے فرمایا: الا عز الاسلام۔آج اسلام معزز ہو گیا۔ اس کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے بچوں کے ناموس رسالت کی خاطر گستاخ کے قتل کو درست قرار دیا اور آخر میں فرمایا سنو! جو رسول اللہ کی شان میں گستاخی کرے ہمارے ہاں اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں“ عالمی امن کیلئے بہتر ہے اہل مغرب آزادی اظہار کے نام پر انسانیت سوز اقدامات سے باز رہیں اورمسلمانوں کو ناموس رسالت اور شعائر اسلام کی توہین کا بدلہ لینے پر مجبور نہ کریں۔
No comments:
Post a Comment