About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, March 16, 2011

خدا کرے وہ دور لوٹ کر نہ آئے۔۔۔

 بدھ ، 16 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان ـ 
معرکہ آرائی‘ دنگل کشتی کھیل الیکشن وغیرہ ہوتے ہی اپنی جِت اور حریف کی چِت کیلئے ہیں۔ جیت پر شادیانے بجانا فاتحین کا حق ہے۔ جو وہ استعمال کرتے ہیں۔ کئی اپنی کامرانی سے زیادہ مخالف فریق کی پشیمانی کا جشن مناتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو اپنی نصرت پر نہال اور شکست خوردہ کے حال پر پُرملال ہوتے ہیں۔ ان میں سے کون سا رویہ درست ہے اس کا انحصار مقابلے کی نوعیت پر ہے۔ ہم مروجہ سیاست کی بات کریں تو مخالف فریق کی ناکامی کامیابی تو کیا مخالف فریق ہی سرے سے قابل برداشت نہیں۔ مرکز میں پیپلز پارٹی‘ سب سے بڑے صوبے میں ن لیگ تخت نشین ہے۔ دونوں بڑی پارٹیاں ہیں۔ جتنی بڑی ہیں سوچ اور ایک دوسرے کیلئے برداشت اتنی ہی چھوٹی اور محدود ہے۔ ایک طرف صدر زرداری کا نواز شریف کو فون‘ گلے شکوے اور شکریے کی باتیں دوسری طرف چودھری نثار کی گھن گرج‘ ایوان صدر کا خط نہ ملنے پر بے قراری خط مل گیا تو چوبیس گھنٹے بعد بھی ”ابھی کھولا نہیں“ کی صدا کاری۔ تکبر تفاخر اور غرور کا مرقہ بنے فرماتے ہیں بابر اعوان کی باتوں کا جواب ان کے وقار کے منافی ہے۔ ساتھ ہی مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ بھی کر دیا۔ آپ کے پاس اکثریت ہے تو ان ہا ¶س تبدیلی لے آئیں۔ میاں نواز شریف اسمبلی سے باہر ہیں اقتدار کا ہما آپ کے سر پر بیٹھے گا۔ مڈٹرم الیکشن ایسے ہی آسان ہیں کہ ادھر کہہ دیا ادھر ہو گئے۔؟ 88 سے 99 کی سیاست ایسے ہی مطالبات اور ایک دوسرے پر سچے جھوٹے الزامات سے آلودہ ہے۔ اس دس سالہ نفرت انگیز سیاست کے بطن سے شر‘ انتشار نفاق‘ پگڑی ٹوپی اور دوپٹہ اچھالنے کے سوا کس چیز نے جنم لیا۔ سیاستدانوں کے اس رویے نے خود ان کو ہی نقصان پہنچایا۔ بدنام کیا اور کسی حد تک راندہ درگاہ بھی۔ سب سے بڑی بات اس شاخ کو کاٹتے رہے جس پر اپنا آشیاں تھا۔ دونوں پارٹیاں 2 دو مرتبہ اقتدار میں آئیں اور آئینی مدت پوری کرنے کی حسرت و آرزو دل میں لئے گھروں کو چلی گئیں۔ ان کی دھینگا مشتی‘ عدم برداشت‘ عدم اتفاق و اتحاد کا فائدہ طالع آزما ¶ں نے اٹھا کر ان کو کان سے پکڑ کر اکھاڑے کے باہر تماشائی بنا کر بٹھا دیا۔ نفرتوں کے بیج بو کر فصل گُل کی امید عبث ہے۔ جن کو ناتواں‘ انحطاط پذیر اور زبوں حالی کی منہ بولتی معیشت میں بھی مڈٹرم الیکشن کا شوق ہے۔ وہ مطالبے کے ساتھ ان مجوزہ انتخابات کا خرچ اٹھانے کا اعلان بھی کریں۔ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے میں ایک فریق نہیں بلکہ ہر پارٹی بموجب جثہ اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ فضل الرحمن اپنے گھر بیٹھ کر تسبیح کر رہے ہیں۔ جب کابینہ میں ان کی پارٹی شامل تھی تو شاید پانچ سالہ آئینی مدت کی تکمیل کی دعا کرتے ہوں۔ آج باہر ہیں تو دوسروں کو بھی اپنے جیسا دیکھنے کے متمنی۔ اپنے اقتدار میں آنے سے زیادہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کے خاتمے کی خواہش مچل رہی ہے۔ اقتدار کا بہت بڑا حصہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنے جُثے کے مطابق جمہوریت پروار کر رہی ہے۔ اس کی قیادت اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہنے کا درس دیتی ہے۔ ساتھ ساتھ عدلیہ کو اپنا مطیع بنانے کی بے پایاں خواہش بھی رکھتی ہے۔ غیر جانبدارانہ فیصلوں پر تضحیک آمیز اور شرمناک ردعمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ دیدار شاہ کی تقرری کالعدم قرار دینے پر سندھ میں خون آشام مظاہرے کرائے گئے سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور کی گئی۔ اس پر بھی منافقانہ بیانات کہ عدلیہ کے فیصلے قبول اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے بارہا کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اس کے معاملات میں کسی ادارے کو مداخلت نہیں کرنے دیں گے۔ عدلیہ کے معاملے میں حکومت کا رویہ جارحانہ‘ غیر مصالحانہ اور جابرانہ ہے‘ فوج تو حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔ اس کے ساتھ رویہ نہایت عاجزانہ‘ مخلصانہ اور فددیانہ ہے۔ تین سال میں حکومت نے کم و بیش درجن بھر عدالتی فیصلوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ فوج نے کیری لوگر بل پر شدید ردعمل ظاہر کیا تو عدلیہ پر گرجنے اور برسنے کی شہرت رکھنے والے فوج کے سامنے راکھ اور خاک کی ڈھیری ثابت ہوئے۔ بڑے جاہ و جلال اور طمطراق کے ساتھ آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنیکا نوٹیفکیشن جاری کیا پھر دل کے ارمان دل میں بسا کر واپس بھی لے لیا گیا۔ عدلیہ پر برسنے والوں کے فوج کی طرف جاتے ہوئے پر کیوں جلتے ہیں۔؟ اس لئے کہ عدلیہ کے پاس انصاف کا ترازو اور فوج کے پاس بندوق ہے۔ 
ابھی پانی سر سے اوپر نہیں ہوا۔ معاملات الجھے ہوئے ضرور ہیں‘ گنجلک نہیں ہوئے کہ ان کو سلجھایا نہ جا سکے۔ سیاسی فریقین رواداری کا مظاہرہ کریں۔ ان کو اپنے کردار عمل سے آنے کی دعوت نہ دیں جو ملک کا بیڑا غرق کرکے 9 دس اور گیارہ سال بعد واپس جاتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری یقیناً سب سے بڑی پارٹی پی پی پر عائد ہوتی ہے۔ جس نے محاذ بھی اپنی پارٹی جسامت کے مطابق کھول رکھے ہیں۔ ن لیگ بھی اصولوں کی سیاست پر توجہ دے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنی اصلاح کر لیں تو دیگر پارٹیاں ان کے ہم قدم ہونے پر مجبور ہوں گی۔ خدا کرے وہ دور لوٹ کر نہ آئے جس میں رسوائیاں ہمارے سیاستدانوں کا مقدر بن جائیں۔


No comments:

Post a Comment