About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, March 2, 2011

موت

 منگل ، 01 مارچ ، 2011

فضل حسین اعوان
پیدائش کے ساتھ ہی انسان کا موت کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے‘ زندگی سنگلاخ چٹان یا بھاری بھرکم پتھر نہیں‘ دھوپ میں رکھا برف کا تودہ ہے‘ اگر برف کا پہاڑ بھی ہو تو اسے دھوپ میں بہرصورت پگھلنا ہے۔ ہمارے ہاں اوسطاً ساٹھ‘ ستر یا زیادہ سے زیادہ سو‘ سوا سو سال عمر ہے‘ جو لمحہ لمحہ کرکے گزر جاتی ہے۔ زندگی کے کسی بھی لمحے ٹھہرائو نہیں ہے‘ گھڑی کی ٹک ٹک جاری رہتی ہے‘ گزرا ہوا کوئی لمحہ ثانیہ پل اور سیکنڈ واپس نہیں آتا جو لمحہ گزر گیا‘ وہ انسان کو موت کے قریب کر گیا۔ سیکنڈ منٹ بنتے ہیں‘ منٹ گھنٹے اور گھنٹے دنوں‘ ہفتوں و مہینوں اور پھر برسوں میں ڈھل کر بالآخر انسان کو موت کی دہلیز پر لے جاتے ہیں۔ اسکے بعد موت کی وادی ہے‘ جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔
مرنے کے بعد انسان کو تادیرزندہ دھن دولت رکھتی ہے‘ نہ نام و نسب اور اولاد… اس کا نام‘ اعلیٰ کردار‘ جرأت اظہار‘ نیک اعمال و افعال‘ دیانت امانت‘ صداقت اور شجاعت کے باعث شہرت کے آسمان پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکتا ہے۔ اسے جاویدانی اور دوام بخشتا ہے۔ شہرت برے اعمال و کردار پر بھی ملتی ہے‘ جو یقیناً برائی کے زمرے میں آتی ہے۔ کیا کوئی باشعورفرد نمرود‘ فرعون‘ بولہب‘ ابوجہل‘ یزید‘ محمد شاہ رنگیلا‘ میر جعفر‘ میر صادق حتٰی کہ شیخ مجیب الرحمان جیسے لوگوں کی صف میں کھڑا ہونا پسند کریگا؟ یہ مصرع …ع
’’بدنام نہ ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا‘‘ صرف دوسروں کیلئے استعمال ہوتا ہے‘ کوئی اپنے اوپر منطبق نہیں کرتا۔
دنیا میں نام پیدا کرنے کیلئے عمر خضر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی‘ کچھ کر گزرنے کا جذبہ و ولولہ ہو تو زندگی کے کسی موڑ پر بھی کچھ نہ کچھ کیا جا سکتا ہے۔ محنت اور کوشش ضروری ہے‘ قدرت مواقع فراہم کر دیتی ہے…؎
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں وہ کچھ کر دکھایا جو بڑے بڑے جرنیل پوری زندگی بھی نہیں کر پاتے۔ طارق بن زیاد 21 سال کی عمر میں ہسپانیہ فتح کرکے واپس لوٹ گئے تھے‘ شہر میسور سلطان ٹیپو نے 49 سال کی عمر میں شہادت پائی‘ غازی علم الدین کا ستارہ 20 سال کی عمر میں شہرت و عظمت کے آسمان پر چمکا‘ حسنی مبارک 30 سال تخت و تاج کے وارث رہے‘ اربوں ڈالر کی کرپشن کی‘ زین العابدین بھی اربوں ڈالر لے بھاگے‘ رضا شاہ پہلوی کا انجام بھی سب کے سامنے ہے۔ اقتدار او رپیسہ زندگی کی حفاظت کر سکتا ہے‘ نہ شہرت کی بلندی پر لے جا سکتا ہے‘ ان دونوں کا استعمال ہی اچھی بری شہرت‘ نیک و بد‘ کردار کا تعین کرتا ہے۔حاتم طائی کے نام پر احترام کے جذبات امڈ آتے ہیں‘ شداد کے ذکر پر تھوتھو ہوتی ہے… دولت کمانے اور بنانے پر کوئی پابندی نہیں‘ طریقہ جائز ہونا چاہیے۔ ہمارے اکابرین سیاست‘ سول و ملٹری بیوروکریٹس‘ عدلیہ والے اور چھوٹے موٹے اہلکاروں تک بھی اکثر کھربوں کی لوٹ مار کرکے اندرون اور بیرون ملک جائیدادیں بنا اور کاروبار چمکا رہے ہیں۔ یہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں تو کھا سکتے ہیں‘ ان سے کہیے سونا چاندی اور ہیرے جواہرات کھاکے دکھائیں‘ زندگی کی ضرورت دو وقت کی روٹی اور سونے کیلئے ایک چارپائی ہے‘ یہ دن میں دس بار کھانا کھا کر اور دس چارپائیوں پر سو کر دکھائیں۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے‘ ٹک ٹک جاری ہے‘ کس صف میں خود کو کھڑا کرنا ہے‘ جلد فیصلہ کریں۔ ہر گزرتا لمحہ موت کو قریب لا رہا ہے‘ آخر میں مقدر شہر خموشاں‘ اندھروں کی بستی اور خوف کی نگری میں چھ فٹ کی کالی کوٹھڑی۔ اس کال کوٹھڑی کو اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے حسین کردار اور بہترین اعمال سے روشن بنایا جا سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment