About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, March 11, 2011

کیوبا میں میڈیکل کے پاکستانی طلبا کی پریشانی

جمعۃالمبارک ، 11 مارچ ، 2011
فضل حسین اعوان 
اچھی تعلیم کا حصول غریب اور متوسط و سفید پوش طبقے کی اولاد کے لئے کھجور کے شجر کی مانند ہو گیا ہے جس کی کڑی دھوپ میں چھائوں نہ ہونے کے برابر اور بھوک کی صورت میں پھل بہت دور ہوتا ہے۔ میڈیکل جیسی پیشہ ورانہ تعلیم کی بات کی جائے تو مذکورہ طبقات اخراجات برداشت کر ہی نہیں سکتے۔ اگر کوئی قرض اٹھا کر یا جائیداد بیچ کر تعلیمی اخراجات پورے کر لے تو الگ بات ہے۔ میڈیکل بڑا مشکل سبجیکٹ ہے تاہم ذہین اور محنتی طلباء طالبات کی کمی نہیں ہے۔ یہ میرٹ پر پورا ضرور اترتے ہیں لیکن ہزاروں محض اخراجات کے سامنے بے بس ہو کر شعبہ بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی طلبہ کے لئے دستِ غیب سے اُس وقت معاونت ہوئی جب لاطینی امریکہ کے چھوٹے سے ملک کیوبا نے 2005ء کے زلزلے کے باعث ایک ہزار پاکستانی طلبہ کو شکالرشپ کی پیشکش کی۔ یہ طلبا دو گروپوں میں کیوبا گئے۔ ان میں سے 2008ء میں 600 طلبا کا گروپ آج ہائر ایجوکیشن کمیشن کی بے اعتنائی لاپروائی اور ناروائی پر شکوہ کناں ہے۔ متاثرہ طلبہ اپنی پریشانی سے ای میلز کے ذریعے کالم نگاروں اور حکمرانوں اور ہائر کمیشن کے ذمہ داروں کو آگاہ کر رہے ہیں۔ ان کی حالت زار ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیے۔ 
’’2005ء کے ہولناک زلزلے کے بعد کیوبا نے پاکستان کو میڈیکل کے شعبے میں ایک ہزار سکالرشپ کی پیشکش کی۔ حکومتِ پاکستان نے اسے شکریے کے ساتھ قبول کیا اور طلبہ کو بھیجنے کی ذمہ داری ہائر ایجوکیشن کمیشن کو سونپی گئی۔ ایچ ای سی نے خالص میرٹ پر طلبہ کو سکالرشپ دئیے اور لگ بھگ 350 طلبہ کا پہلا گروپ 2007ء کے اوائل میں کیوبا بھیجا گیا اور بقیہ 600 طلبہ کا ایک اور گروپ 2008ء میں کیوبا روانہ کر دیا گیا۔ ہوائی سفر کے اخراجات کے ساتھ قلیل ماہانہ وظیفے کی ادائیگی ایچ ای سی کی ذمہ داری ٹھہری اور کیوبا میں سو فیصد مفت میڈیکل کی تعلیم اور دیگر سہولیات مہیا کرنا کیوبن گورنمنٹ کی۔ ایچ ای سی نے یہ باور کرایا تھا کہ وہ چھ سال کے تعلیمی دورانیے کے دوران طلبہ کو پاکستان آنے کے لئے کم از کم ایک ٹکٹ ضرور ادا کیا جائے گا جس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا جب پہلے گروپ کے طلبہ کو 2008ء میں پاکستان لایا گیا۔ یعنی نصف دورانیے سے بھی قبل، ہم لوگ دوسرے گروپ میں شامل تھے اور ہم نے بارہا مرتبہ تقاضا کیا کہ ہمارا بھی ایک دفعہ پاکستان جانے کا بندوبست کیا جائے۔ اس سال جون میں ہمارے پورے تین سال مکمل ہو جائیں گے۔ ایچ ای سی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی بلکہ اُلٹا ہمیں جواب میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ آپ لوگوں کو پاکستان لا سکیں۔ 
یہاں آئے ہوئے طلبہ کی اکثریت غریب اور پسماندہ گھرانوں سے ہے جو اپنے خرچ پر پاکستان جانے کی سکت نہیں رکھتی اور اسی اُمید پر بیٹھی ہے کہ حکومت پاکستان اپنے سکالرز کو حسب وعدہ تین سال بعد اب 2011ء کے وسط میں ضرور پاکستان لے جائے گی۔ ارباب بست و کشاد سے عاجزانہ درخواست ہے کہ ایک نظر ادھر بھی ڈال لیں کہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔ 
پاکستانی میڈیکل طلبہ (سیشن 2) کیوبا
Mob: 005352755129
Email: r_farooqi006@filialfcm.ssp.sld.cu
کیوبا میں موجودہ ان پاکستانی طلبا کا خط کافی تلخ ترش اور طویل ہے۔ کانٹ چھانٹ کر کے صرف 10 بارہ فیصد حصہ شائع کر دیا ہے۔ ان طلبا کی پریشانی کا اندازہ دیارِ غیر میں موجودہ غریب الوطن افراد کو ہو سکتا ہے یا اپنے پیاروں سے ملنے کی تڑپ لئے والدین اور عزیز و اقارب کو۔ ان بچوں میں اگر ایک کا باپ بھی وزیر، مشیر، جرنیل، جج یا بیورو کریٹ ہوتا تو یقیناً دوسرے سیشن کے طلبا کو ہائر ایجوکیشن کمشن دو سال بعد ان کے والدین سے ملوا دیتا۔ طلبہ نے خود ہی اپنا جرم بتا دیا کہ اکثر کا تعلق پسماندہ اور غریب گھرانوں سے ہے… اس کے باوجود بھی وہ پاکستانی ہیں۔ فنڈز کی اپروول اور فراہمی کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ کمٹمنٹ پر پورا اترنے کا عزم اور اپنے عہد اور وعدے نبھانے کا ارادہ ہونا چاہئے۔ مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور وسائل خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ جس ملک میں صرف ایک کیس میں 50 ارب روپے رشوت دی اور لی جاتی ہو وہاں 600 طلبا کی ٹکٹ کے لئے چند کروڑ روپے کی عدم فراہمی کا رونا رونا بلاجواز ہے۔ ہائر ایجوکیشن کے حکام ان طلبہ کی اپنی اولاد سمجھیں تو حسب وعدہ یہ جون میں وطن واپس آ کر وطن سے مزید تین سال دور رہنے کی بیٹری چارج کرا سکتے ہیں۔ کیوبا نے چھوٹا سا ملک ہو کر اتنا بڑا دل کیا ہے، پاکستان تو بڑا ملک ہے۔ اس کے کرتا دھرتا بھی دل بڑا کریں۔ امید ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمشن کے نس طور قوم کے مستقبل کو مایوس نہیں کریں گے۔


No comments:

Post a Comment